پیر، 22 دسمبر، 2014

کاش ایک بار۔۔۔

ممتاز مفتی کہتا ہے کہ مجھ پر غم فوراً اثر نہیں کرتا۔ دھیرے دھیرے، جیسے قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا رہے غم اندر ہی کہیں ٹپکتا رہتا ہے اور جب وہ اکٹھا ہو جائے تو پھر احساس میں شدت آتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں بھی ایک بے حس شخص ہوں، جس کی حس بہت دیر کے بعد جا کر جاگتی ہے۔ جیسے ایپلی کیشن بیک گراؤنڈ میں چلتی رہتی ہے ویسے میرے اندر کا میکانزم بھی دھیرے دھیرے غم جمع کرتا رہتا ہے اور پھر جب معاملہ برداشت سے باہر ہو جائے تو میرے اندر آتش فشاں پھوٹ پڑتا ہے۔

پشاور میں ڈیڑھ سو نونہال جان ہار گئے۔ میں نے اس دن ٹی وی نہیں دیکھا۔ یونیورسٹی میں تھا جب یہ خبر بی بی سی اردو پر دیکھی۔ مجھے افسوس ہوا ایک اور دہشت گردی کا واقعہ ہو گیا ہے۔ لیکن شام ہوتے ہوتے جب یہ خبر کھلی تو میرے اندر کھد بد مچنے لگی۔ اگلے دن اخبار پڑھتے ہوئے دو آنسو ٹپکے تھے۔ "مولا میرے بچے"۔ "یہ درندے انہیں چیر پھاڑ گئے"۔ اور اس کے بعد پھر میں نے اس غم کو اپنے اندر زبردستی بند کر لیا۔

آج فیس بک پر اسلامی تاریخ کے صفحے پر روزانہ اسلامی تاریخ کے سلسلے کے تحت ولادتِ رسول ﷺ کا واقعہ درج تھا۔ نبی ﷺ کا نام ایسا ہے کہ مجھ جیسے ادنی ترین ایمان والے سے بھی رہا نہیں جاتا۔ دل موم ہو جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ دل کیا میں دھاڑیں مار مار کر روؤں۔ کاش سائیں ﷺ سامنے مل جائیں۔ ایک بار اذنِ باریابی مل جائے۔ ایک بار مدینے میں حاضری کی اجازت مل جائے۔ میں چوکھٹ سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر روؤں۔

"یا رسول اللہ ﷺ میرے بچے!!"۔

"سائیں ﷺ میری قوم والے سارے سانپ کی نسل سے ہو گئے ہیں۔ اپنے ہی بچوں کو کھانے لگے ہیں"۔

"سائیں ﷺ آپ تو رحمت والے تھے۔ رحمت اللعالمین تھے۔ میری قوم پر نظرِ کرم ہو جائے۔ سائیں ایک نظر ہو جائے۔ سائیں ان بچوں کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ خدارا ایک نظر کرم ہو جائے۔ حسنؓ اور حسینؓ کا صدقہ ایک بار نظرِ کرم ہو جائے۔ یہ جو ہر روز ایک کربلا اس قوم کا مقدر ہو گیا ہے، ایک نظرِ کرم ہو جائے"۔

کاش مجھے اذنِ باریابی مل جائے تو میں چوکھٹ پر سر رکھ کر فریاد کروں۔ کاش ایک بار۔۔۔۔

منگل، 9 دسمبر، 2014

میں کیا لکھوں

کل صبح سے میرے اندر دھیمی آنچ جل رہی ہے، خون مسلسل کھولن کی کیفیت میں ہے۔ بار بار غصہ، فرسٹریشن، مایوسی ابلتی ہے، دل کرتا ہے کچھ تہس نہس کر دوں لیکن پھر ضبط کر کے بیٹھ جاتا ہوں۔
میرا شہر کل سارا دن ان بے غیرتوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا۔ ایک اقتدار کا پجاری سائیکو کیس اور اس کے مخالفین بدمعاش حکمران۔ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا ملیدہ۔ میرے شہر کا ایک نوجوان اپنی زندگی ہار گیا۔ ایک زندگی ہار گیا، اور سینکڑوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ فیس بک پر مرنے والے کی تصویریں لگا کر گو گو کے نعرے لگانے والے اپنے بستروں میں بیٹھے ہیں۔ ارے کوئی اس ماں سے بھی پوچھے جس کا لعل چلا گیا۔  یہ تو اپنی سیاست چمکا کر واپس چلا آیا، کوئی اس بہن سے پوچھے جس کا جوان بھائی قبر کی مٹی اوڑھ کر لیٹ گیا۔ میرے پاس لفظ ختم ہو رہے ہیں، دل کرتا ہے کہ دھاڑیں مار مار کر روؤں۔ میرا سوہنا شہر فیصل آباد، اور ان کنجروں نے اسے گلزار سے آتش فشاں بنا دیا۔
ایک حق نواز مرا ہے، سینکڑوں حق نواز ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ہیں۔ ان کی گندی سیاست نے بھائی کو بھائی کے سامنے کھڑا کر دینا ہے۔ اور یونیورسٹی، کالجوں اور سکولوں میں گرم خون کے نوجوان ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ یہ بے غیرت ہمیں جس ٹائم بم پر بٹھا گئے ہیں اس سے نقصان کسے ہو گا؟ ہم ہی مریں گے نا۔ پی ٹیائی والوں کا خون سفید ہے یا نونیوں کا؟ کون لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ پڑھنے والا نہیں ہے؟ کون پاکستانی نہیں ہے؟
بھاڑ میں گئی ان کی دھاندلی، بھاڑ میں گئے ان کے چار حلقے۔ خدا غارت کرے انہیں، خدا انہیں قبر میں بھی چین نصیب نہ ہونے دے۔ ان اقتدار کے بھوکے جنگلی جانوروں کو، خدا کی لعنت ہو ان سب پر۔ ان کے اقتدار کے اس گھناؤنے کھیل میں پتہ نہیں کتنے حق نواز جان سے جائیں گے۔

ہفتہ، 15 نومبر، 2014

مولا میں تیری رحمت کا محتاج

آج سے کوئی تین ہفتے قبل میری زندگی کا ایک خواب پورا ہوا۔ ایک عرصہ قبل یہ خواہش کی تھی کہ خود کو کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوا دیکھوں۔ اور اللہ نے وہ خواہش آخرکار پوری کر دی۔ یونیورسٹی آف گجرات، حافظ حیات کیمپس میں بطور ایسوسی ایٹ لیکچرار تعیناتی نہ جانے کیسے جھٹ پٹ ہو گئی۔ اللہ سائیں کی رحمت تھی کہ اس نے ہر رکاوٹ دور کی۔ میں جب بھی لکھنے بیٹھوں تو الفاظ ختم ہو جاتے ہیں، بولوں تو زبان کہاں سے لاؤں کہ میں اس قابل کہاں تھا کہ اتنی عطاء ہو جاتی۔

دل تو سالا پاگل ہے، دوسروں کو دیکھ کر مچلتا ہے دس والی چیز ہو تو پندرہ والی مانگتا ہے۔ اب بھی دل کرتا ہے کہ ایسوسی ایٹ کی بجائے لیکچرر کی مل جاتی تو کیا تھا۔ اور شہر سے اتنی دور کی بجائے ادھر فیصل آباد میں ہی مل جاتی تو کیا تھا۔ ایسے "تو کیا تھا" اور "کاش" میرے بلٹ ان ناشکرے پن کی وجہ سے کبھی نہیں ختم ہو سکتے۔ لیکن یہ جو اللہ کی رحمت ہوئی ہے اس پر میں تو اس قابل بھی نہیں کہ شکر ہی ادا کر سکوں۔ میں کیا اور میری اوقات کیا، اس کی عطاء اور کرم، رحمت اور فضل۔۔۔یہ جو سب کچھ اس کا دیا ہوا ہے میں اس پر کس منہ سے شکر ادا کروں۔ میری اتنی جرات کہ میں شکر ادا کروں۔

بابا جی سرفراز اے شاہ کہا کرتے ہیں کہ دعا میں دنیا مت مانگو بلکہ اللہ سے اس کی ذات ہی مانگ لو۔ کہ مولا تو ہی میرا ہو جا۔ بابا جی کی باتیں اللہ والوں والی ہیں۔ میرے جیسے دنیا کے کتے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں بھی تو دنیا ہی مانگیں گے۔ کھانی مولا کی اور چاکری دنیا کی۔ کیا کریں گندی نالی کے کیڑے کی یہی اوقات ہوتی ہے کہ گھوم پھر کر پھر وہیں گندگی میں جا گھستا ہے۔ وہی حال میرے جیسے دنیا داروں کا ہے، گھوم پھر کر پھر اسی گندگی میں جا گھستے ہیں۔ گندگی سے گردن نکال کر ذرا سی دیر کے لیے پالنے والے کی سمت دیکھا اور پھر گندگی میں دھنسا لی۔

لیکن رب تو سب کا ہے جی، وہ اپنے نیک بندوں کی بھی سنتا ہے اور میرے جیسے کمی کمینوں کی بھی سنتا ہے جن کا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا مردہ بدبودار بکری سے بھی حقیر دنیا ہی ہے۔ پچھلے دنوں سرفراز اے شاہ صاحب کی کتاب لوحِ فقیر پڑھتے ہوئے ان کا قول نظر سے گزرا کہ اللہ سے دعا میں اس کا فضل، اس کی رحمت اور اس کا کرم مانگیں۔ اللہ جانے یہ بابا جی کو پڑھ کر شروع کیا تھا یا میرے اندر کے دفاعی میکانزم نے خودبخود چرخہ چلا دیا تھا۔ چھوٹے کی مرگ سے اگلا دن تھا، سب روتے تھے اور میں چپ تھا۔ اسی دن ہی سے یاد پڑتا ہے کہ ایک جملہ میری زبان پر چڑھ گیا تھا "مولا میں تیری رحمت کا محتاج" اور آج وہ حرزِ جاں بن گیا ہے۔ میں بہت گنہگار ہوں، اتنا کہ شاید اس کی مخلوقات میں میرے جیسا رذیل کوئی نہ ہو۔ لیکن اس کی ذات مجھے اپنے سایہ رحمت میں لیے رکھتی ہے اور میری منہ سے بس اتنا نکلتا ہے کہ مولا میں تیری رحمت کا محتاج۔ مجھ سے دکھ برداشت نہیں ہوتے یا میں کرنا نہیں چاہتا، مشکل دیکھ کر پتلی گلی سے نکل لیا کرتا ہوں اور ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش رہتی ہے۔ گاڑی بھی چلاؤں تو کم رش والے روڈ سے گزرتا ہوں کہ رش بھی ایک مشکل ہے۔ میری اسی چور بزدل ڈرپوک طبیعت نے مجھے اللہ کی رحمت میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا کہ اس سے مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ اللہ کی رحمت بھی اپنے فائدے کے لیے مانگتا ہوں، میں بھی کیسا بدنصیب ہوں۔

لیکن کیا کروں، میں جیسا بھی ہوں اس کے نبی ﷺ کے نام لیواؤں میں سے ہوں۔ ایمان کے جس کمترین درجے پر بھی کھڑا ہوں، بندہ تو اسی کا ہوں۔ پھر میں آخر کیوں نہ کہوں کہ مولا میں تیری رحمت کا محتاج، میں تیرے فضل کا امیدوار، میں تیری عطاء کا بھوکا، میں تیرے کرم کا محتاج، میرا ہر بال، میرا ہر سانس تیری رحمت کا محتاج۔ تو سخی مولا، تیرے نبی ﷺ کی ذات سخی مولا۔ تو نبی ﷺ کا صدقہ، تو آلِ نبی ﷺ کا صدقہ، تو اصحابِ نبی ﷺ کا صدقہ مجھ پر اپنی رحمت ہی رکھیو۔ میری جھولی میں تیری رحمت کے سوا بھلا اور کیا ہے۔ یہ تیرا کرم ہی تو ہے، تیرا فضل اور تیری عطاء ہی تو ہے کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں صرف تیری وجہ سے ہوں۔ میری سانس کا آنا جانا بھی مجھ پر تیری رحمت ہے۔ میرے ہونے میں بھلا میرا کیا کمال ہے مالک۔ یہ تو تیرا کرم ہے کہ تو نے مجھے پیدا کیا۔ میرا لوں لوں تیری رحمت کا قرضدار میں سنکھوں بار پیدا ہو کر بھی یہ قرض چکا نہ پاؤں۔ میں بھلا تیرے در کے سوا کہاں جا سکتا ہوں۔ اگر تیری رحمت نہ ہو تو میرے پلے کیا رہ جائے بھلا۔
مولا میں تو بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں تیری رحمت کا محتاج۔ میں بھلا تیرا شکر کیسے کر سکتا ہوں۔

اتوار، 31 اگست، 2014

خود کلامی

میں اپنے کمرے میں بیٹھا سورج کو نکلتا دیکھ رہا ہوں۔ ایک شبِ ظلمات ڈھل چکی ہے۔ 
میں خود سے سوال کرتا ہوں۔
کیا واقعی شبِ ظلمات ڈھل چکی ہے؟ یا ایک شروع ہو رہی ہے؟
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ 
شاید سورج آج معمول سے زیادہ اداس ہے۔ یا شاید نہیں ہے۔
شاید چودہ سو سال پہلے جب عثمان ابن عفان ؓ کی شہادت ہوئی تھی تب بھی ایسا ہی دن نکلا ہو گا؟
شاید فاطمہ ؓ بنت محمد ﷺ کے لعل حسینؓ ابنِ علی ؓ اور اسماء ؓ بنت ابی بکر ؓکے جگر گوشے عبداللہؓ ابن زبیرؓ کی شہادت کے بعد بھی ایسا ہی سورج نکلا تھا؟
نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ وہ تو محبوب بندے تھے۔ ان کے جانے پر تو ساری کائنات بھی روتی تو کم تھا۔ 
ساری کائنات روئی ہو گی۔ میں خود کو جواب دیتا ہوں۔ لیکن دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان نہیں ہوں گے۔
کیا یہ سورج ایک بار پھر بے گناہ مرگ دیکھ کر اداس ہے؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
میں ساری رات کہاں رہا ہوں؟ مجھے کچھ ہلیوسی نیشنز کچھ دماغی فتور یاد ہے۔
شاید مجھے بخار تھا؟ نیند میں بڑبڑاتا رہا ہوں؟ میں ہذیان بکتا رہا ہوں؟
میں خود سے سوال کرتا ہوں۔ میں ساری رات کہاں رہا ہوں؟
ہاں مجھے کچھ کچھ یاد آ رہا ہے۔ میں نیم نیند میں رہا ہوں۔ 
میں سوتا بھی رہا ہوں اور جاگتا بھی رہا ہوں۔ بڑی لمبی رات تھی۔ 
میں ساری رات سنتا رہا ہوں، دوکانوں پر چلتے ٹیلی وژنوں پر جلتی بجھتی سرخیاں جو اتنی دور سے بھی میرے کان پھاڑتی رہی ہیں۔ اور انٹرنیٹ پر کچھ مناظر اور کچھ تحریریں۔۔۔گلا پھاڑتی خاموش تحریریں۔۔۔
میں سنتا ہوں غریبوں پر بڑی لمبی رات تھی۔ ایک طرف کے غریب دوسری طرف کے غریبوں سے لڑتے رہے۔
ہر کوئی کنٹینر کی بات کرتا ہے۔ 
کون سا کنٹینر؟ میں سوال کرتا ہوں۔
اور میرے سامنے رنگ برنگے کنٹینر آ جاتے ہیں۔
ایک سے اعلان ہو رہا ہے کارکنو آگے بڑھو کپتان نے سوچ سمجھ کر تمہیں کہا ہے۔
ایک سے اذان نشر ہوتی ہے۔
اور کئی ایک کنٹینر ایک بستی کے اطراف میں پڑے ہیں، راستے بند کرنے کے لیے۔
میں نیم نیند کی کیفیت میں شاید ہذیان بکتا رہا ہوں۔ مرگ بر امریکہ۔ مرگ بر اسرائیل۔ مرگ بر کنٹینر۔۔۔
لیکن یہ مرگ بر کنٹینر کیوں؟ میں خود سے سوال کرتا ہوں۔
کیوں کہ ہر کنٹینر کے پیچھے انا، مَیں ، تکبر اور گھمنڈ کی ایک ڈھیری چھپی ہوئی ہے۔ میں اپنے آپ کو جواب دے کر پھر سے نعرے لگانے لگتا ہوں۔
مرگ بر امریکہ۔ مرگ بر اسرائیل۔ مرگ بر کنٹینر۔۔۔
بخار شاید میرے دماغ کو چڑھ رہا ہے۔ اتنی گرمی بھی تو لگ رہی ہے۔ اوپر کپڑا لوں تو پسینہ آتا ہے ، نہ لوں تو سردی لگتی ہے۔
میں عجیب دوہری مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کدھر جاؤں۔
یہ کروں یا وہ کروں۔
بے چینی اور بے کلی ہے۔ میں پھر انٹرنیٹ کھول لیتا ہوں۔
لوگ جاگ رہے ہیں۔ سب جاگ رہے ہیں، پاکستان جاگ رہا ہے۔ شاید میری طرح جاگ رہے ہیں؟ نیم نیند کی کیفیت میں؟ شاید انہیں بھی نیند نہیں آ رہی؟
ہر چند منٹ بعد ایک اسٹیٹس آ دھمکتا ہے۔ 
لوگ ٹی وی کے آگے بیٹھے ہیں۔ ایک ہجوم کو دوسرے ہجوم سے لڑتا دیکھ رہے ہیں۔ 
پیچھے کہیں کنٹینر بھی نظر آ رہے ہیں۔
ایک ہجوم وردی والا ہے۔ ایک ہجوم وردی کے بغیر ہے۔
لیکن کپڑوں سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟ میں خود سے سوال کرتا ہوں۔
کپڑوں کے اندر کون ہے؟
 تیس ہزار تنخواہ لینے والا ایک پولیس والا ہے۔ جس نے اپنے بچے پالنے ہیں۔
اس پولیس والے کے خلاف ایک کنٹینر بول رہا ہے۔ میرے کارکنوں کو کچھ نہ کہو ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہو گا۔
ہاں کارکن بھی ہیں۔ کارکن کون ہیں؟
عام لوگ ہیں۔ میرے جیسے۔ آنکھوں میں خواب سجائے وہاں گئے ہیں۔ 
نظام تبدیل کرنے کی خواہش لیے۔ اپنوں سے ٹکراتے ہیں۔
کیا یہ پولیس والے اپنے ہیں؟ میں حیران ہوتا ہوں۔
اگر یہ اپنے ہیں تو انہیں پتھر کیوں پڑ رہے ہیں؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اگر یہ اپنے ہیں تو آنسو گیس کیوں برسا رہے ہیں؟ میرے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں ہے۔
میں پھر اکتا جاتا ہوں۔
ایک جیسی باتیں۔ ایک جیسے اسٹیٹس۔ 
کوئی ایک کنٹینر کا حامی ہے۔ کوئی دوسرے کنٹینر کا حامی ہے۔
ہر کوئی کسی کو کوس رہا ہے۔
ہر کسی اسٹیٹس کے پیچھے موجود ہیجان صاف دکھائی دیتا ہے۔
جیسے اسٹیٹس گو سامنے بیٹھا کف اڑاتا ہوا سب کچھ چنگھاڑ رہا ہو۔
کنٹینروں پر لگے اسپیکروں کی طرح۔ یا شاید نہیں۔
ایک کنٹینر والا 14 لاشوں کا حساب مانگنے پہنچا ہے۔
ایک کنٹینر والا نیا پاکستان بنانے پہنچا ہے۔
اور ایک کنٹینروں والا استعفیٰ دینے کو تیار نہیں۔
تین اناؤں کی جنگ۔
لعنت ہو، لعنت ہو۔۔۔۔
مجھ پر پھر وحشت طاری ہوتی ہے۔ نیم نیند اور بخار مجھے کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ پھر وحشت اور ہذیان۔۔۔۔
مرگ بر امریکہ۔ مرگ بر اسرائیل۔ مرگ بر کنٹینر۔۔۔۔
لاشوں کی سیاست کرنے والو۔ تمہیں خون کی پیاس ہے۔ تمہیں خون چاہیئے۔ غریب کا خون چاہیے۔ تبھی تمہارے اندر جلتی ہوسِ اقتدار کی آگ بجھے گی۔
پھر ہذیان ۔۔۔میں شاید پاگل ہو رہا ہوں۔ میں ہوش کھو رہا ہوں۔
کیا واقعی میں ہوش کھو رہا ہوں؟ 
اگر میں ہوش کھو رہا ہوں تو یہ جو ہجوم آپس میں گتھم گتھا ہے ، کیا یہ ہوش والے ہیں؟
یا ان کو لڑانے والے ہوش مند ہیں؟
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
لیکن مجھے لگتا ہے میں ہوش کھو رہا ہے۔
یا شاید مجھے نیند آ رہی ہے۔
میں سو جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر سکون سے گزرتی ہے۔ اور پھر سورج نکل آتا ہے۔
میں نماز بھی قضا کر بیٹھا ہوں۔
خدایا! یہ کیسا دن نکلا ہے؟
کیا شب ظلمات کا اختتام ہو گیا؟ میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں۔
کیا ظلم کی سیاہ رات ختم ہو گئی ہے؟
کیا آنے والا عذاب ٹل گیا ہے؟
یا ایک اور ظلمتوں بھرے عہد کا آغاز ہو رہا ہے؟
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 2 جولائی، 2014

وزیرستان کے ضرورتمند بہن بھائیوں کے لیے عطیہ

رمضان بھی ہے اور وزیرستان کے بہن بھائی اس وقت ضرورتمند بھی ہیں۔ زکوٰۃ، صدقہ، خیرات کی ترغیب بھی دی جا رہی ہے اور اپنا دل بھی ہو گا کہ کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے۔ بس یہ یاد رکھیں کہ قابل اعتماد تنظیم، شخص یا ادارے کو عطیہ دیں۔ اس سلسلے میں مَیں نے جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کو بہترین پایا ہے۔ جماعت الدعوۃ والوں کی خیراتی سروس فلاح انسانیت فاؤنڈیشن بھی اچھی ساکھ کی حامل ہے لیکن ان کے سخت گیر نظریات کی وجہ سے ایک آدھ بار کے علاوہ کبھی ان کو عطیہ دینے پر دل مائل نہیں ہوا۔ ضرورتمندوں کو دیکھ کر برساتی کھبمیوں کی طرح اگنے والی جعلی تنظیموں سے ہوشیار رہیں۔ یاد رکھیں صدقہ دے دینا ہی آپ کی ذمہ داری نہیں، یہ بھی جہاں تک ممکن ہو یقینی بنائیں کہ وہ ضرورتمند تک پہنچے گا بھی۔ یہ بھی پوچھ لیں کہ متعلقہ ادارہ یا تنظیم وزیرستان کے لیے کوئی آپریشن چلا رہا ہے یا نہیں، اگر ہاں تو کہہ کر اس فنڈ میں پیسے لکھوائیں۔ آپ کے شہر میں بے شمار مخیروں نے خیرات کرنی ہے، وزیرستان تک جانے والے سو میں سے چند ہی ہوں گے۔ اس لیے یقینی بنائیں کہ آپ عطیہ دیں بلکہ یہ عطیہ ضرورتمند بہن بھائیوں تک پہنچے بھی۔ 
اللہ کریم جزائے خیر دے۔

ہفتہ، 28 جون، 2014

سیاہ سیات

اس ملک میں ایک دیوار ہو جانا، یا درخت ہو جانا، یا راستے کا کوئی پتھر ہو جانا چاہے اسے ٹھُڈے پڑتے رہیں، یہ سب آسان کام ہیں۔ لیکن انسان ہونا مشکل اور ہولناک ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ دیوار، درخت اور پتھر نہ سنتے ہیں نا بولتے ہیں۔ اپنی دنیا (اگر ایسی کوئی دنیا ہے تو) میں مست رہتے ہیں۔ کوئی توڑ دے، اکھاڑ دے یا ٹھُڈے مارتا رہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بدقسمتی سے انسان سنتا بھی ہے، بولتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔ اور اس سننے بولنے دیکھنے کی وجہ سے اس ملک میں انسان ہونا انتہائی مشکل اور بدترین باتوں میں سے ایک ہے۔ انسان کے لیے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ پتھر ہو جائے صم بکم بے حسی کی آخری حدوں کو چھو لے یا پھر کف اڑاتا اور گالیاں بکتا پھرے۔ اور یہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یا تو بے حس ہو جاؤ یا پھر لڑنے کے لیے ہر دم تیار رہو۔

اخبار، فیس بک، ٹیلی وژن کچھ کھول لو ہر جگہ باؤلے پاگل ک (کتے والا کاف ملحوظ خاطر رکھیں) کا ایک گروہ نظر آتا ہے جو اقتدار نامی ہڈی ایک دوسرے سے چھیننے کے لیے ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہا ہے۔ زمانہ جاہلیت اور دو تین سو سال قبل والی بادشاہت اور اس سے پہلے خلافت کے بھیس میں بادشاہت موجود نہیں اس لیے صرف منہ سے کف اڑانے اور ہُورے مُکے دکھانے پر ہی اکتفا ہوتا ہے۔ ورنہ یہاں ہر چوتھے دن لاشوں کا جمعہ بازار لگا کرتا۔ ہر کوئی مصلح قوم بن کر تلوار اٹھاتا اور بادشاہ/خلیفہ کے خلاف نکل کھڑا ہوا کرتا۔

جس دن کوئی لغت تیار کی تو سیاست کا غیر رسمی نام کنجر خانہ بھی پاورقی میں لازمی دوں گا۔ کہ ہر وقت تو کنجر خانہ لگا رہتا ہے۔ اور اسی کنجر خانے کو قوم نے تفریح طبع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ سارا دن دوکانوں، گھروں، مسافر خانوں، دفاتر میں ٹیلی وژن چلتے ہیں۔ اور سارا دن اقتدار کے بھوکے ک کی بھونکیاں چار چار لکیروں کی صورت میں "بریکنگ نیوز" بن کر چلتی رہتی ہیں۔ فلاں ک نے یہ کہہ دیا، فلاں وڈے ک نے یہ کہہ دیا۔ ہر ک کے الفاظ وکھرے مگر مفہوم یکساں: مجھے اقتدار سونپ دو اور دیکھو پھر میں اس ملک کو ساتویں آسمان پر لے جاؤں گا۔ خود دفعان ہو جاؤ۔ 

قوم نے اس کنجر خانے کو اب قومی کھیل سمجھ لیا ہے۔ کرکٹ گیا، ہاکی پھُس ہو گئی، سکواش ٹھُس ہو گئی۔ کبھی دھماکے ہو گئے، کبھی غیر ملکی ٹیم پر حملہ ہو گیا۔ کبھی میچ لگا تو نچلی نسل کے محلے دار مصلحان قوم نے فتویٰ دے دیا لو ساری قوم کو میچ دیکھنے پر لگایا ہوا ہے، بھلا یہ کوئی شیوہ مسلمانی ہے؟ اور اب سیاسی کنجر خانے سے آنکھیں چمٹی رہتی ہیں، اسی میں تفریح تلاش ہوتی ہے، کھاتے پیتے سوتے جاگتے اسی سے کان بھرتے رہتے ہیں نتیجے میں خون مسلسل دھیمی آنچ پر کھولتا رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نیم کھولنے کی کیفیت میں ایک نشہ سا آ گیا ہے۔ ساتھ خود ترسی کا جام بھرا ملتا ہے تو چسکیاں لیتے ہوئے دو آتشہ کیفیت ہو جاتی، پوری قوم اس افیم کے نشے میں دھت ہلکے ہلکے سرور میں کھوئی اپنے کام کرتی چلی جاتی ہے اور ک اپنے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔

ادھر کسی اور ملک سے ایک غیر ملکی اپنے گروہ کے ساتھ انقلابی پھکی لے کر نمودار ہوتا ہے۔ نعرہ نظام بدلنے کا ہے اندر خواہش اپنے اقتدار کی ہے۔ وہی پہلے پیرے والی بات: بیان وکھرا وکھرا۔۔۔۔لیکن مفہوم ایک بس مجھے اقتدار دے دو۔ ادھر کہیں سے کوئی خلافت کا نعرہ لگاتا ہے نظام نہیں سب کچھ بدلو جھُرلو پھیرو بادشاہت لاؤ پھر دیکھو کیا مزیدار چاٹ بنے گی۔ مفہوم وہی پہلے پیرے والا تم سب دفعان ہو جاؤ متقی اور پرہیزگار تو میں ہی ہوں اس لیے خلیفہ/ بادشاہ بننے کا حقدار بھی میں ہی ہوں بس مجھے اقتدار دو پھر دیکھتا ہوں۔ اور پھر کچھ جو زبان نہیں چلا سکتے وہ بندوق اٹھا لیتے ہیں کبھی مذہب کا نام ہے اور کبھی محرومیوں کا نام ہے لیکن منزل وہی ہے کہ اقتدار ملے۔

اور یہ قوم افیم کے نشے میں سوئی رہتی ہے ساتھ مارفین کے ٹیکے بھی لگتے رہتے ہیں: تمہارا ملک بڑا عظیم ملک ہے۔ ارے یہ تو اللہ نے بچایا ہوا ہے ورنہ جتنا اسے کھا لیا یہ تو کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ ارے ساری دنیا، کفار کے سارے ملک اور ساری ایجنسیاں اس کے خلاف سازش میں مصروف ہیں۔ ارے اس کے بانوے ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے ہیں۔ ارے یہاں کیا چیز نہیں ہے، ہر چیز ہے بس یہ لوگ کھا جاتا ہے ہمیں نہیں دیتے۔ ارے اس کی جغرافیائی لوکیشن ہی تو سب کچھ ہے، اسی لیے تو امریکہ توڑنا چاہتا ہے اسے۔

مارفین کے نشے کے ٹیکے لگتے رہتے ہیں اور قوم لگے دم مٹے غم کا نعرہ لگا کر مست رہتی ہے۔ بجلی نہیں ملتی (گردشی قرضہ چڑھتا چلا جاتا ہے)، گیس ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور روٹی پکانے کو بھی نہیں ملتی، پانی، زرعی زمین، جنگلات غرض ہر قدرتی وسیلہ (جو جتنا بھی ہے) ہر روز ناسور کی طرح پھیلتی آبادی ہڑپ کرتی چلی جاتی ہے۔ ہر دن اگلے دن سے زیادہ اوکھا نکلتا ہے۔ لیکن قوم اپنے آپ میں مست، جُتیاں بھی کھاتی رہتی ہے اور ہذیانی کیفیت میں بڑبڑاتی بھی چلی جاتی ہے۔ ہر دوسرے چوتھے دن کوئی ڈرامہ کھڑا رہتا ہے قوم کی انٹرٹینمنٹ کے لیے۔ کنجر کنجروں کے خلاف عدالت لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور قوم ہمیشہ کی طرح دھیمی آنچ والے نشے میں انجوائے کرتی رہتی ہے۔ کبھی ایک ک دوسرے کو جج کی کرسی پر برداشت نہیں کر سکتا اور جلدی باری لینے کے لیے لڑنے لگتا ہے کبھی ایک ک جب باری دے رہا ہو تو حاجی ہوتا ہے باری لینے پر آ جائے تو اسی ک کی پگ سر پر رکھ کر اس سے ایک انچ وڈا ک بن جاتا ہے۔ اور پھر ایک تیسرا ک کہیں اور سے آ کر کہتا ہے اوئے اے عدالت نئیں لگ سکدی ساڈا حصہ وی دؤ۔ سارا ڈرامہ چلتا رہتا ہے۔ اور پاکستانی یا تو پتھر، درخت  دیوار ہو جائے یا پھر گریبان پھاڑ کر ملنگ ہو جائے۔ درمیان میں کہہ رہ گیا تو دھیمی آنچ پر کھولتا اس کا لہو ایک دن لاوے کی طرح پھٹتا ہے اور نتیجے میں نقصان صرف اُس کا ہوتا ہے ک عدالت ویسے ہی لگی رہتی ہے۔

پر سانوں کی؟ ویسے بھی کنجر خانے میں طوطی کی آواز سنتا کون ہے؟

پیر، 24 مارچ، 2014

دو قومی نظریہ؟

اس قوم کی تاریخ میں اتنے بڑے بڑے ہاسے ہیں کہ ہس ہس کر وکھیاں ٹوٹ جائیں لیکن ہاسے مخول ختم نہیں ہوتے۔ مثلاً یہ دو قومی نظریہ ہی لے لیں۔ ایک وقت تھا جب ابو الکلام آزاد وغیرہ کے خیال میں دو قومی نظریہ کچھ نہیں تھا۔ آج کل کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابوالکلام بعد میں اپنے خیال پر پچھتائے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ ابوالکلام نے کوئی پیشن گوئیاں کر دی ہوئی تھیں کہ بنگال اور مغربی پاکستان وغیرہ کے ٹوٹنے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال چونکہ دو قومی نظریے کی جانب پچھواڑا کر کے چلتا چلا جاتا ہے اس لیے اس کے پچھواڑے پر ہی حتی المقدور لات رسید کر کے اسے  دفع دور کیا جاتا ہے اور دو قومی نظریے کی جی جان سے حفاظت کی جاتی ہے۔

سینتالیس میں جو دو قومی نظریے کے مبینہ مخالف تھے آج وہ اس کے مبینہ وارث بنے بیٹھے ہیں۔ اور جو دو قومی نظریے کے مبینہ وارث تھے آج کل وہ مبینہ طور پر فریڈم مارچ وغیرہ نکالتے پائے جاتے ہیں۔ ہے نا ہاسے والی گل۔ سنا ہے کہ جس دن محمد بن قاسم نے برصغیر پر حملہ کیا تھا اس دن یہاں دو قومیں بن گئی تھیں ایک مسلمان اور ایک ہندو۔ پھر سینتالیس ہو گیا اور پھر اکہتر ہو گیا اور مسلمانوں کے اندر دو مزید قومیں بن گئیں۔ ایک بنگالی اور ایک پاکستانی۔ اور پھر اپنی ماں پاکستانی قوم کو کھا کر اس کے پیٹ سے کوئی ادھی درجن اور قومیں نکل آئیں۔ انہیں میں سے کل سندھی نامی ایک قوم کوئی لال جھنڈے اٹھائے کسی پاکستان نامی ملک سے آزادی کے نعرے لگا رہی تھی۔ ہے نا ہاسے والی گل کہ دو قومی نظریہ جو اب کثیر قومی نظریہ ہو گیا ہے لیکن نہیں ہوا۔ عیسائیوں کی تثلیث کی طرح۔ سارے ایک ہیں اور ایک سارے ہیں۔ کیسی ہاسے والی سی گل ہے نا جی؟

دو قومی نظریے کے وڈے کہتے ہیں کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور باقی کافر ہیں۔ چنانچہ دنیا میں صرف دو قومیں ہوئیں: مسلمان اور کافر۔ ارے نہیں مسلمان ایک امت ہیں۔ اور کافر ایک اور امت ہیں دو پھر دو امتیں ہوئیں: مسلمان اور کافر۔ یعنی دو بیانات کو اکٹھا کریں تو ریاضی کی زبان میں قوم = امت۔ اور نتیجہ؟ ایک پانچ ٹانگوں اور دو دھڑ والا بچہ۔ جو امت بھی ہے اور قوم بھی ہے۔ قوم بھی ہے اور امت بھی ہے۔ اور پھر اس قوم/امت میں سے کبھی عرب قوم نکل آتی ہے اور عجمی قوم نکل آتی ہے۔ پھر عرب قوم میں سے سعودی قوم قطری قوم سے سفیر واپس بلا لیتی ہے۔ اور پھر پاکستانی قوم میں سے بنگالی قوم الگ ہو جاتی ہے۔ اور پھر سندھی قوم بھی ہو جاتی ہے اور مہاجر قوم بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ امت کدھر گئی؟ لگتا ہے قوم = امت فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہ اتنی ساری قومیں ایک ہی مذہب کی بنیاد پر کیوں ایک امت نہیں رہ سکیں؟ یا یہ امت ہی ہیں اور قوم کو امت کے برابر رکھ کر دو دھڑ پانچ ٹانگوں والا بچہ زبردستی جنا گیا ہے؟ یا شاکر فیر اپنے پاغل پن میں اول فول بک رہا ہے؟ ایہہ کی چکر است؟

گل سوچنے والی ہے نا؟ دو قومی نظریے کے وڈے کہتے ہیں کہ قوم مذہب کی بنیاد پر بنتی ہے۔ اسلام آ گیا تو بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مسلمان قوم ہو گئی اور ایک کافر قوم ہو گئی۔ پر چودہ سو سال کی تاریخ میں مذہب قبائلی، لسانی، جغرافیائی اور نسلی تعصبات کیوں ختم نہ کر سکا؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مذہب کی بنیاد پر قومیں بنتیں اور پھر قوم = امت ہو کر مسئلہ حل ہو جاتا۔ لیکن اس گندی غیر مثالی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ چند ایک مستثنیات کے علاوہ قوم پرستی اور قوم بندی میں مذہب کے ساتھ کوئی آدھ درجن اور فیکٹر آ شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے پھر امت کا تصور روحانی رہ جاتا ہے، بلکہ اخلاقی رہ جاتا ہے۔ چلیں اپنے صدر صاحب کی مثال لے لیں۔ وہ ہیں تو سہی لیکن بے ضرر ہیں، بس نام کے ہیں۔ تو امت بھی ہے تو سہی لیکن نام کی ہے۔ جس دن اللہ کا کوئی فرستادہ قیامت سے پہلے مسلمانوں پر اتر آیا تو قوم اور امت اکٹھے ہو جائیں شاید۔ اس سے پہلے امت وہ اوووووووووووپر آسمان پر موجود ایک تصور ہے۔ نظر تو آتا ہے، اچھا بھی لگتا ہے، اپنانے کو بھی دل کرتا ہے لیکن پھر یہ گندی دنیا، گندی باتیں، گندی دنیا داری اور مادی فائدے یہ سارے نظر کو گدلا کر دیتے ہیں دھندلا دیتے ہیں اور زیادہ مادی تصور یعنی قوم بحساب نسل، رنگ، جغرافیہ، زبان پر نظر چپک جاتی ہے۔ مذہب بھی حصہ رہتا ہے لیکن اسی طرح جس طرح باقی فیکٹر ہیں کبھی ذرا برتر کبھی ذرا کم تر۔ کبھی فیصلہ کن لیکن ہمیشہ نہیں۔ ویسے ہی جیسے بنگالیوں کی بار زبان فیصلہ کن ہو گئی تھی، پاکستان کی بار مذہب فیصلہ کن ہو گیا تھا۔

پر دو قومی نظریے کے وڈے یہ بات نہیں مانتے ان کے خیال میں ایک ہی قوم ہوتی ہے جس کا نام پاکستانی قوم ہے۔ اگر اس قوم کے علاوہ کوئی قوم مان لی تو پاکستان تو گیا۔ پاکستان کیوں گیا بھائی؟ پاکستان ایک حقیقت ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ ساری قوموں کو تسلیم کرنے سے بھلا پاکستان کیوں کہیں جائے گا۔ یہ ہمارا گھر ہے، ہمارا وطن ہے، جیسے سعودی عرب سعودیوں کا وطن ہے۔ جیسے مکہ اور پھر مدینہ نبی ﷺ کا وطن تھا اور نبی ﷺ کو اپنے وطن سے محبت تھی۔ تو ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے۔ اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات ہے اگر اتنی ساری قومیں نکل آئی ہیں؟ شش، چپ رہو، بات نہ کرو، خبردار، ہٹو بچو کہہ کر کیا زبانیں بند کروا لو گے؟ دنیا اور چیخ چیخ کر کہے گی کہ بلوچستان کی تاریخ پاکستان سے الگ ہے۔ یہ کل ہی ایک سنڈے میگزین میں ایک بلوچ لکھاری کا ارشاد لکھا ہوا تھا۔ فریڈم مارچ ہوں گے۔ کراچی صوبہ اور سرائیکی صوبے کے نعرے لگیں گے۔ حق دو، جینے دو۔ پاکستان کی فیڈریشن میں ہر کسی کو حقوق دو۔ دو قومی نظریے نے پاکستان بنا دیا۔ اب اس کو قائم رکھو اور یہ قائم رکھنا دو قومی نظریے نہیں کثیر قومی نظریے سے ممکن ہے۔ اس ملک کے اندر دیکھو۔ اندر سے خطرے ہیں، آدھی درجن قوموں کے خطرے۔ تقسیم در تقسیم ہونے کے خطرے۔ ان کو زبردستی باندھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ محبت پیار امن آشتی سے فاصلے مٹاؤ۔

کب تک ستر سال قبل کی دنیا میں جیو گے۔ آج کو دیکھو، آج اس وقت کو 2014 کو۔ آج پاکستان بنانا نہیں اسے قائم رکھنا ہے۔ اندر سے ہی گھن کھا گیا تو کھوکھا کس مول کا؟ گھن لگی لکڑی تو ایک ٹھوکر نہیں سہہ پاتی۔ خدارا اسے گھن لگنے سے بچا لو۔

ہفتہ، 22 مارچ، 2014

نفاذِ اسلام

میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے کالج سیکشن میں ایک کلاس پڑھا رہا تھا۔ بچوں کو لکھنے کے لیے ایک محرکاتی عنوان دیا ہوا تھا۔ آپ کے بس میں ہوتا تو کیا بہتر کرتے۔ کچھ اس قسم کا عنوان تھا اور بچے نے انگریزی میں کچھ فقرے لکھنے تھے۔ ایک بچہ کلین شیو، جینز پہنی ہوئی۔ اس نے ٹھیک کرنے کے لیے جو چیز لکھی تھی وہ مسلمانوں کا دین تھا۔ بچہ دینِ اسلام نافذ (اِمپوز) کرنا چاہتا تھا۔ اس کے الفاظ اور تاثرات کی شدت مجھے آج کئی ماہ بعد بھی ابھی کل کی بات لگتی ہے۔

مولوی ارشد میرے محلے میں کسی دوسرے شہر سے آ کر حجام کی دوکان کرتا ہے۔ اچھا ملنسار بندہ ہے۔ اس کے پاس بیٹھے ہوں تو حجاموں کی عادت کے عین مطابق باتیں کرنا اور سننا چلتا رہتا ہے۔ کوئی ایک ڈیڑھ برس سے اس سے ہی بال کٹوانے ہوتے ہیں، اچھا کام کر لیتا ہے اور اسے پتا ہے کہ میں کیسے بال کٹواتا ہوں۔ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ پہلے دوکان کے سامنے سے گزرا تو اس نے لکھ کر لگایا ہوا تھا ہمارے ہاں شیو نہیں کی جاتی۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور حسبِ عادت تپ بھی چڑھی۔ میں نے کوئی دو چار باتیں بھی کہیں سنیں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ بات کوئی ایسی غلط بھی نہیں، ویسے بھی اس کا حق ہے جو کام اس کا دل نہیں مانتا نہ کرے۔ خیر میں بال اب بھی اسی سے کٹواتا ہوں۔ اس تبدیلی کے بعد ایک آدھ بار ملاقات میں اس کے ساتھ اسلام پر بات چھڑ گئی اور بات کا اختتام سزاؤں پر ہوا۔ اللہ کی کتاب میں سزائیں بیان کی ہوئی ہیں، اس کا کہنا تھا۔ سزائیں نافذ کر دو، سارے تیر کی طرح کیسے سیدھے نہیں ہوتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ 

اسلام کے "نفاذ" اور مسلمانوں کو مزید مسلمان کرنے کے حوالے سے مسلمانوں میں یہ جذباتی بخار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے کہ اسلام نافذ کر دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔   خلافت ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ امریکہ کو جواب خلافت ہی دے سکتی تھی۔ اور پھر لشکر اور مسواک والی روایات۔ جنگ نہ جیت سکنے کی وجہ مسواک کا نہ کرنا۔ 

جذبات ، بیانات اور گفتار یہ ہے اور عمل یہ ہے کہ شادی بیاہ پر رنڈیاں بھی نچواؤ اور ربیع الاول میں عاشقِ رسول کا ٹیگ ایک عدد نقش بھی سینے پر لگاؤ۔  میں سوچتا ہوں کہ نبی ﷺ نے مکے میں زندگی کے تیرہ سال گلا دئیے۔ اپنے رشتے داروں، رشتے کے بھائیوں، بیٹوں، چچاؤں، ماموؤں کو دعوتِ دین دیتے رہے۔ نبی ﷺ نے تو آتے ہی نہ کہا کہ اسلام نافذ کر دو۔ اپنی زندگی کے سنہرے تیرہ سال ان لوگوں پر قربان کیے اور پھر ہجرت کی، جب کوئی چارہ نہ رہا۔ مدینے کے دس سال اور ان دس سالوں میں بھی اسلام پہلے انفرادی زندگیوں میں آیا پھر اجتماعی زندگی میں، بیک جنبشِ قلم نہیں بتدریج۔ پہلے دعوت و تربیت اور پھر عمل کا تقاضا۔ کیا ہی پیارا طریقہ تھا اور کیا ہی پیارا انسان ﷺ تھا جس نے سب کیا۔

آج اس دوغلے اور منافق معاشرے کو ٹھیک کرنے کے دعوے دار انقلابی ، بندوق بردار اور "شرعی" داڑھیوں والے، ان کی سمجھ میں کیوں یہ بات نہیں آتی کہ اسلام نافذ کرنا ہوتا تو اللہ اور اس کے نبی نے اسی دن کر دینا تھا جس دن جبریل پہلی وحی لے کر اترا تھا۔ انہیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ حکومت کے اسلام "نافذ" کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ اس وقت ہوتا ہے جب عوام اپنے اوپر اسلام خود طاری کرے۔ 

خدا ان کو ہدایت دے، خدا ہمیں ہدایت دے، خدا ہم پر رحم کرے، خدا اس ملک اور قوم پر رحم کرے۔ ان لوگوں نے اسلام کا نام، شریعت کا نام بیچ بازار رسوا کر ڈالا۔ ان کی انقلابی پھُرتیوں، ان کی فرقہ وارانہ سازشوں، ان کے فہمِ دین نے آج اجتماعی سطح پر اسلام پر عمل کی کسی بھی کوشش کو اسلام مسلط کرنا بنا دیا۔ انہوں نے سیاست کے نام پر اسلام کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ انہوں نے سچ کر دکھایا کہ جہاں مذہب اور سیاست یکجا ہوئے وہاں یہی کچھ ہو گا۔ لوگ ڈرتے ہیں، اسلام کے نفاذ سے ڈرتے ہیں۔ لوگ خوف کھاتے ہیں، پتھر اٹھائے وحشی ہجوموں کا خوف جو کسی کو بھی زانی قرار دے کر پیوندِ زمین کر سکتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھوں کا خوف، کسی نے روٹی چرائی ہو، دس روپے چرائے ہوں یا دس ہزار چرائے ہوں۔ سرِ بازار کوڑوں کا خوف، جرم کوئی بھی ہو سزا کوڑے ہوں گے۔ لوگ دھماکوں سے ڈرتے ہیں، سی ڈی اور حجاموں کی دوکانوں پر دھماکوں سے ڈرتے ہیں۔ سینماؤں میں دستی بموں کے حملوں سے ڈرتے ہیں۔ 

نفاذِ اسلام کے نام پر مافیائیں وجود میں آ چکی ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، ہر ایک کا اپنا نعرہ ہے، ہر ایک کا اپنا حلیہ ہے۔ ہر کوئی اسلام کے نام پر اپنے فرقے کا نمائندہ ہے۔ ہر کسی نے اسلام کو سیاست میں بیچ بازار بے پردہ کیا ہوا ہے۔ اسلام کے نام پر دوکان سجائے بیٹھا ہے، ڈگڈگی چل رہی ہے اور بندر اس ڈگڈگی پر محوِ رقص ہیں۔ نام اسلام کا، فائدہ سیاستدان کا۔ 

اور پھر میں سوچتا ہوں یہ کافر جو سارے ہیں، اس دنیا میں جو پچاس ساٹھ فیصد کافر ہیں اور کافر ملک ہیں۔ یہ جو امریکہ اور یورپ نامی کافروں کے علاقے ہیں۔ انہوں نے بھی کیا اسلام نافذ کیا ہوا ہے؟ وہ تو جمہوریت کی بات کرتے ہیں نا، کافروں کا نظامِ حکومت۔ پھر بھی ان کے شہری ہم سے زیادہ سکون میں کیوں رہتے ہیں؟ ادھر یہ بھارت میں کجریوال جیسے ہندو مشرک، وہ کیسے مسلمان نہ ہو کر بھی اچھے کام کر لیتا ہے۔ پھر میں اپنے ملک میں دیکھتا ہوں ہر کسی کے نام کے ساتھ نبی ﷺ کا نام ہے، آلِ نبی ﷺ کا نام لگا ہوا ہے۔ لیکن کام کیسے ہیں؟  اور پھر یہ نفاذِ اسلام کی بات، یہ کونسے نفاذ کی بات کرتے ہیں؟ ہر بات کا حل نفاذِ اسلام ، ہر بات کا حل ایک عدد "اسلامی" حکومت۔ 
میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں۔ اللہ مجھے معاف کرے پتا نہیں کیا کیا کفریہ سوچ سوچتا ہوں۔

جمعہ، 14 مارچ، 2014

بَٹ کائن: دجال کا نیا ہتھیار

سودی مالیاتی نظام، کاغذی نوٹوں اور کریڈٹ کارڈ جیسے دجالی ہتھیاروں کے بعد اب امتِ مسلمہ کو پھانسنے کے لیے دجالی چیلوں کا نیا ہتھیار!
  • بَٹ کائن: ایک ایسی کرنسی جو وجود ہی  نہیں رکھتی۔
  • ایک ایسی کرنسی جسے کوئی چھاپتا ہی نہیں۔
  • ایک ایسی کرنسی جو ہر سودے پر خودبخود پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔
  • ایک ایسی کرنسی جو امتِ مسلمہ کو کافروں کے بنائے برقی آلات کا محتاج کر دے گی۔

جانیں کہ:
  • کہیں یہ قربِ قیامت کی ایک اور نشانی تو نہیں؟
  • عظیم دوست چین نے جس کرنسی پر پابندی لگا دی۔ امریکی سامراج آخر اسے کیوں پھیلانا چاہتا ہے؟
  • بَٹ کائن کا خالق ساتوشی ناکاموتو آخر کون ہے؟ کیا وہ جاپانی ہی ہے؟ آخر کوئی اس کی اصلیت کیوں نہیں پا سکا؟ اہلِ یہود کی ایک اور سازش بے نقاب کرنے کا عظیم الشان اور تفصیلی احوال پڑھیں!
  •  یہودی جو صدیوں سے سود کا مال کھاتے آ رہے ہیں۔ یہودی جو آج کے سرمایہ دارانہ نظام کے ان داتا ہیں۔ یہی یہودی اب امتِ مسلمہ کو اپنے مکروہ پنجوں میں جکڑنے کے لیے ایک اور خفیہ سازش کر رہے ہیں۔

آج ہی چربِ مومن کا تازہ شمارہ خریدیں اور اپنے محبوب لکھاری کے قلم سے نکلا تہلکہ خیز مضمون پڑھیں۔
مجاہدُالقلم، بحر العلم حضرت ہِسٹیریا مخول ہیجان مدظلہ کے آتش قلم سے نکلا سچ۔ جو آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔ چودہ طبق روشن کر دینے والے حقائق، روح فرسا انکشافات، قیامت خیز پیشن گوئیاں۔۔۔آج ہی چربِ مومن کا تازہ شمارہ خریدیں۔
نوٹ: بَٹ کا انگریزی لفظ Butt بمعنی پچھواڑا اور اردو لفظ بٹ بمعنی بٹ ذات سے کوئی تعلق نہیں۔
مزید نوٹ : تحریر میں کسی بھی نام سے مشابہت اتفاقیہ ہو گی۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔