ہفتہ، 27 فروری، 2010

ذرا ہٹ کے

سی ڈی اے لسانیات کی ایک شاخ ہے جس کا مقصد کمیونیکیشن کی زبان و الفاظ کے پیچھے چھپے پوشیدہ معانی کو سامنے لانا ہے۔ کمیونیکیشن کسی بھی طرح ہوسکتی ہے، الفاظ استعمال کرکے، کوئی جسمانی حرکت کرکے یا صرف کسی چیز کی اجازت دے کر۔
کل رات میرے محلے کی گلیوں میں چراغاں ہورہا تھا، مولویوں نے سپیکروں پر رولا ڈالا ہوا تھا اور بجلی بار بار بند ہوکر جارہی تھی۔ میں نے اس سب کو ذرا اور طرح سے دیکھنے کی کوشش کی۔
اس سال پچھلے سالوں سے زیادہ کمرشلائزیشن
دکھاوا، نمود و نمائش، سجاوٹ اور نعرے بازی
سرکاری تعطیل
اس سارے ڈسکورس کو اگر دیکھیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
ملک کے شمال میں دیوبندی انتہا پسند سرگرم ہیں جن کے زور کو توڑنے کے لیے حکومت کو ایک مذہبی ہتھیار کی ضرورت ہے۔ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی ہستی ہے جس کا نام آجائے تو محبت رسول کے نام پر جذبا ت کے فوارے ہمارے اندر سے پھوٹنے لگتے ہیں۔ چناچہ عید میلاد النبی کو پروموٹ کرنے کا مقصد دیوبندی انتہا پسندوں کے مقابل بریلوی اعتدال پسندوں کو کھڑا کرنا ہے۔ جیسا کہ آپ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ بریلوی مسلک کے علماء نے ہمیشہ طالبان کی مخالفت کی ہے
مزید یہ کہ حکومت کو اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دینا ہے کہ پاکستان ایک کٹڑ اسلامی ملک ہے۔ چناچہ عید میلاد النبی کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔
میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ عید میلاد النبی بدعت ہے یا نہیں، اور صرف تیس سال پہلے تک یہ کمرشلائزیشن موجود نہیں تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں نے اس ڈسکورس کا ایک تجزیہ آپ کےسامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔