پیر، 24 مارچ، 2014

دو قومی نظریہ؟

اس قوم کی تاریخ میں اتنے بڑے بڑے ہاسے ہیں کہ ہس ہس کر وکھیاں ٹوٹ جائیں لیکن ہاسے مخول ختم نہیں ہوتے۔ مثلاً یہ دو قومی نظریہ ہی لے لیں۔ ایک وقت تھا جب ابو الکلام آزاد وغیرہ کے خیال میں دو قومی نظریہ کچھ نہیں تھا۔ آج کل کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابوالکلام بعد میں اپنے خیال پر پچھتائے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ ابوالکلام نے کوئی پیشن گوئیاں کر دی ہوئی تھیں کہ بنگال اور مغربی پاکستان وغیرہ کے ٹوٹنے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال چونکہ دو قومی نظریے کی جانب پچھواڑا کر کے چلتا چلا جاتا ہے اس لیے اس کے پچھواڑے پر ہی حتی المقدور لات رسید کر کے اسے  دفع دور کیا جاتا ہے اور دو قومی نظریے کی جی جان سے حفاظت کی جاتی ہے۔

سینتالیس میں جو دو قومی نظریے کے مبینہ مخالف تھے آج وہ اس کے مبینہ وارث بنے بیٹھے ہیں۔ اور جو دو قومی نظریے کے مبینہ وارث تھے آج کل وہ مبینہ طور پر فریڈم مارچ وغیرہ نکالتے پائے جاتے ہیں۔ ہے نا ہاسے والی گل۔ سنا ہے کہ جس دن محمد بن قاسم نے برصغیر پر حملہ کیا تھا اس دن یہاں دو قومیں بن گئی تھیں ایک مسلمان اور ایک ہندو۔ پھر سینتالیس ہو گیا اور پھر اکہتر ہو گیا اور مسلمانوں کے اندر دو مزید قومیں بن گئیں۔ ایک بنگالی اور ایک پاکستانی۔ اور پھر اپنی ماں پاکستانی قوم کو کھا کر اس کے پیٹ سے کوئی ادھی درجن اور قومیں نکل آئیں۔ انہیں میں سے کل سندھی نامی ایک قوم کوئی لال جھنڈے اٹھائے کسی پاکستان نامی ملک سے آزادی کے نعرے لگا رہی تھی۔ ہے نا ہاسے والی گل کہ دو قومی نظریہ جو اب کثیر قومی نظریہ ہو گیا ہے لیکن نہیں ہوا۔ عیسائیوں کی تثلیث کی طرح۔ سارے ایک ہیں اور ایک سارے ہیں۔ کیسی ہاسے والی سی گل ہے نا جی؟

دو قومی نظریے کے وڈے کہتے ہیں کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور باقی کافر ہیں۔ چنانچہ دنیا میں صرف دو قومیں ہوئیں: مسلمان اور کافر۔ ارے نہیں مسلمان ایک امت ہیں۔ اور کافر ایک اور امت ہیں دو پھر دو امتیں ہوئیں: مسلمان اور کافر۔ یعنی دو بیانات کو اکٹھا کریں تو ریاضی کی زبان میں قوم = امت۔ اور نتیجہ؟ ایک پانچ ٹانگوں اور دو دھڑ والا بچہ۔ جو امت بھی ہے اور قوم بھی ہے۔ قوم بھی ہے اور امت بھی ہے۔ اور پھر اس قوم/امت میں سے کبھی عرب قوم نکل آتی ہے اور عجمی قوم نکل آتی ہے۔ پھر عرب قوم میں سے سعودی قوم قطری قوم سے سفیر واپس بلا لیتی ہے۔ اور پھر پاکستانی قوم میں سے بنگالی قوم الگ ہو جاتی ہے۔ اور پھر سندھی قوم بھی ہو جاتی ہے اور مہاجر قوم بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ امت کدھر گئی؟ لگتا ہے قوم = امت فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہ اتنی ساری قومیں ایک ہی مذہب کی بنیاد پر کیوں ایک امت نہیں رہ سکیں؟ یا یہ امت ہی ہیں اور قوم کو امت کے برابر رکھ کر دو دھڑ پانچ ٹانگوں والا بچہ زبردستی جنا گیا ہے؟ یا شاکر فیر اپنے پاغل پن میں اول فول بک رہا ہے؟ ایہہ کی چکر است؟

گل سوچنے والی ہے نا؟ دو قومی نظریے کے وڈے کہتے ہیں کہ قوم مذہب کی بنیاد پر بنتی ہے۔ اسلام آ گیا تو بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مسلمان قوم ہو گئی اور ایک کافر قوم ہو گئی۔ پر چودہ سو سال کی تاریخ میں مذہب قبائلی، لسانی، جغرافیائی اور نسلی تعصبات کیوں ختم نہ کر سکا؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مذہب کی بنیاد پر قومیں بنتیں اور پھر قوم = امت ہو کر مسئلہ حل ہو جاتا۔ لیکن اس گندی غیر مثالی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ چند ایک مستثنیات کے علاوہ قوم پرستی اور قوم بندی میں مذہب کے ساتھ کوئی آدھ درجن اور فیکٹر آ شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے پھر امت کا تصور روحانی رہ جاتا ہے، بلکہ اخلاقی رہ جاتا ہے۔ چلیں اپنے صدر صاحب کی مثال لے لیں۔ وہ ہیں تو سہی لیکن بے ضرر ہیں، بس نام کے ہیں۔ تو امت بھی ہے تو سہی لیکن نام کی ہے۔ جس دن اللہ کا کوئی فرستادہ قیامت سے پہلے مسلمانوں پر اتر آیا تو قوم اور امت اکٹھے ہو جائیں شاید۔ اس سے پہلے امت وہ اوووووووووووپر آسمان پر موجود ایک تصور ہے۔ نظر تو آتا ہے، اچھا بھی لگتا ہے، اپنانے کو بھی دل کرتا ہے لیکن پھر یہ گندی دنیا، گندی باتیں، گندی دنیا داری اور مادی فائدے یہ سارے نظر کو گدلا کر دیتے ہیں دھندلا دیتے ہیں اور زیادہ مادی تصور یعنی قوم بحساب نسل، رنگ، جغرافیہ، زبان پر نظر چپک جاتی ہے۔ مذہب بھی حصہ رہتا ہے لیکن اسی طرح جس طرح باقی فیکٹر ہیں کبھی ذرا برتر کبھی ذرا کم تر۔ کبھی فیصلہ کن لیکن ہمیشہ نہیں۔ ویسے ہی جیسے بنگالیوں کی بار زبان فیصلہ کن ہو گئی تھی، پاکستان کی بار مذہب فیصلہ کن ہو گیا تھا۔

پر دو قومی نظریے کے وڈے یہ بات نہیں مانتے ان کے خیال میں ایک ہی قوم ہوتی ہے جس کا نام پاکستانی قوم ہے۔ اگر اس قوم کے علاوہ کوئی قوم مان لی تو پاکستان تو گیا۔ پاکستان کیوں گیا بھائی؟ پاکستان ایک حقیقت ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ ساری قوموں کو تسلیم کرنے سے بھلا پاکستان کیوں کہیں جائے گا۔ یہ ہمارا گھر ہے، ہمارا وطن ہے، جیسے سعودی عرب سعودیوں کا وطن ہے۔ جیسے مکہ اور پھر مدینہ نبی ﷺ کا وطن تھا اور نبی ﷺ کو اپنے وطن سے محبت تھی۔ تو ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے۔ اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات ہے اگر اتنی ساری قومیں نکل آئی ہیں؟ شش، چپ رہو، بات نہ کرو، خبردار، ہٹو بچو کہہ کر کیا زبانیں بند کروا لو گے؟ دنیا اور چیخ چیخ کر کہے گی کہ بلوچستان کی تاریخ پاکستان سے الگ ہے۔ یہ کل ہی ایک سنڈے میگزین میں ایک بلوچ لکھاری کا ارشاد لکھا ہوا تھا۔ فریڈم مارچ ہوں گے۔ کراچی صوبہ اور سرائیکی صوبے کے نعرے لگیں گے۔ حق دو، جینے دو۔ پاکستان کی فیڈریشن میں ہر کسی کو حقوق دو۔ دو قومی نظریے نے پاکستان بنا دیا۔ اب اس کو قائم رکھو اور یہ قائم رکھنا دو قومی نظریے نہیں کثیر قومی نظریے سے ممکن ہے۔ اس ملک کے اندر دیکھو۔ اندر سے خطرے ہیں، آدھی درجن قوموں کے خطرے۔ تقسیم در تقسیم ہونے کے خطرے۔ ان کو زبردستی باندھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ محبت پیار امن آشتی سے فاصلے مٹاؤ۔

کب تک ستر سال قبل کی دنیا میں جیو گے۔ آج کو دیکھو، آج اس وقت کو 2014 کو۔ آج پاکستان بنانا نہیں اسے قائم رکھنا ہے۔ اندر سے ہی گھن کھا گیا تو کھوکھا کس مول کا؟ گھن لگی لکڑی تو ایک ٹھوکر نہیں سہہ پاتی۔ خدارا اسے گھن لگنے سے بچا لو۔

ہفتہ، 22 مارچ، 2014

نفاذِ اسلام

میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے کالج سیکشن میں ایک کلاس پڑھا رہا تھا۔ بچوں کو لکھنے کے لیے ایک محرکاتی عنوان دیا ہوا تھا۔ آپ کے بس میں ہوتا تو کیا بہتر کرتے۔ کچھ اس قسم کا عنوان تھا اور بچے نے انگریزی میں کچھ فقرے لکھنے تھے۔ ایک بچہ کلین شیو، جینز پہنی ہوئی۔ اس نے ٹھیک کرنے کے لیے جو چیز لکھی تھی وہ مسلمانوں کا دین تھا۔ بچہ دینِ اسلام نافذ (اِمپوز) کرنا چاہتا تھا۔ اس کے الفاظ اور تاثرات کی شدت مجھے آج کئی ماہ بعد بھی ابھی کل کی بات لگتی ہے۔

مولوی ارشد میرے محلے میں کسی دوسرے شہر سے آ کر حجام کی دوکان کرتا ہے۔ اچھا ملنسار بندہ ہے۔ اس کے پاس بیٹھے ہوں تو حجاموں کی عادت کے عین مطابق باتیں کرنا اور سننا چلتا رہتا ہے۔ کوئی ایک ڈیڑھ برس سے اس سے ہی بال کٹوانے ہوتے ہیں، اچھا کام کر لیتا ہے اور اسے پتا ہے کہ میں کیسے بال کٹواتا ہوں۔ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ پہلے دوکان کے سامنے سے گزرا تو اس نے لکھ کر لگایا ہوا تھا ہمارے ہاں شیو نہیں کی جاتی۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور حسبِ عادت تپ بھی چڑھی۔ میں نے کوئی دو چار باتیں بھی کہیں سنیں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ بات کوئی ایسی غلط بھی نہیں، ویسے بھی اس کا حق ہے جو کام اس کا دل نہیں مانتا نہ کرے۔ خیر میں بال اب بھی اسی سے کٹواتا ہوں۔ اس تبدیلی کے بعد ایک آدھ بار ملاقات میں اس کے ساتھ اسلام پر بات چھڑ گئی اور بات کا اختتام سزاؤں پر ہوا۔ اللہ کی کتاب میں سزائیں بیان کی ہوئی ہیں، اس کا کہنا تھا۔ سزائیں نافذ کر دو، سارے تیر کی طرح کیسے سیدھے نہیں ہوتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ 

اسلام کے "نفاذ" اور مسلمانوں کو مزید مسلمان کرنے کے حوالے سے مسلمانوں میں یہ جذباتی بخار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے کہ اسلام نافذ کر دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔   خلافت ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ امریکہ کو جواب خلافت ہی دے سکتی تھی۔ اور پھر لشکر اور مسواک والی روایات۔ جنگ نہ جیت سکنے کی وجہ مسواک کا نہ کرنا۔ 

جذبات ، بیانات اور گفتار یہ ہے اور عمل یہ ہے کہ شادی بیاہ پر رنڈیاں بھی نچواؤ اور ربیع الاول میں عاشقِ رسول کا ٹیگ ایک عدد نقش بھی سینے پر لگاؤ۔  میں سوچتا ہوں کہ نبی ﷺ نے مکے میں زندگی کے تیرہ سال گلا دئیے۔ اپنے رشتے داروں، رشتے کے بھائیوں، بیٹوں، چچاؤں، ماموؤں کو دعوتِ دین دیتے رہے۔ نبی ﷺ نے تو آتے ہی نہ کہا کہ اسلام نافذ کر دو۔ اپنی زندگی کے سنہرے تیرہ سال ان لوگوں پر قربان کیے اور پھر ہجرت کی، جب کوئی چارہ نہ رہا۔ مدینے کے دس سال اور ان دس سالوں میں بھی اسلام پہلے انفرادی زندگیوں میں آیا پھر اجتماعی زندگی میں، بیک جنبشِ قلم نہیں بتدریج۔ پہلے دعوت و تربیت اور پھر عمل کا تقاضا۔ کیا ہی پیارا طریقہ تھا اور کیا ہی پیارا انسان ﷺ تھا جس نے سب کیا۔

آج اس دوغلے اور منافق معاشرے کو ٹھیک کرنے کے دعوے دار انقلابی ، بندوق بردار اور "شرعی" داڑھیوں والے، ان کی سمجھ میں کیوں یہ بات نہیں آتی کہ اسلام نافذ کرنا ہوتا تو اللہ اور اس کے نبی نے اسی دن کر دینا تھا جس دن جبریل پہلی وحی لے کر اترا تھا۔ انہیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ حکومت کے اسلام "نافذ" کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ اس وقت ہوتا ہے جب عوام اپنے اوپر اسلام خود طاری کرے۔ 

خدا ان کو ہدایت دے، خدا ہمیں ہدایت دے، خدا ہم پر رحم کرے، خدا اس ملک اور قوم پر رحم کرے۔ ان لوگوں نے اسلام کا نام، شریعت کا نام بیچ بازار رسوا کر ڈالا۔ ان کی انقلابی پھُرتیوں، ان کی فرقہ وارانہ سازشوں، ان کے فہمِ دین نے آج اجتماعی سطح پر اسلام پر عمل کی کسی بھی کوشش کو اسلام مسلط کرنا بنا دیا۔ انہوں نے سیاست کے نام پر اسلام کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ انہوں نے سچ کر دکھایا کہ جہاں مذہب اور سیاست یکجا ہوئے وہاں یہی کچھ ہو گا۔ لوگ ڈرتے ہیں، اسلام کے نفاذ سے ڈرتے ہیں۔ لوگ خوف کھاتے ہیں، پتھر اٹھائے وحشی ہجوموں کا خوف جو کسی کو بھی زانی قرار دے کر پیوندِ زمین کر سکتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھوں کا خوف، کسی نے روٹی چرائی ہو، دس روپے چرائے ہوں یا دس ہزار چرائے ہوں۔ سرِ بازار کوڑوں کا خوف، جرم کوئی بھی ہو سزا کوڑے ہوں گے۔ لوگ دھماکوں سے ڈرتے ہیں، سی ڈی اور حجاموں کی دوکانوں پر دھماکوں سے ڈرتے ہیں۔ سینماؤں میں دستی بموں کے حملوں سے ڈرتے ہیں۔ 

نفاذِ اسلام کے نام پر مافیائیں وجود میں آ چکی ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، ہر ایک کا اپنا نعرہ ہے، ہر ایک کا اپنا حلیہ ہے۔ ہر کوئی اسلام کے نام پر اپنے فرقے کا نمائندہ ہے۔ ہر کسی نے اسلام کو سیاست میں بیچ بازار بے پردہ کیا ہوا ہے۔ اسلام کے نام پر دوکان سجائے بیٹھا ہے، ڈگڈگی چل رہی ہے اور بندر اس ڈگڈگی پر محوِ رقص ہیں۔ نام اسلام کا، فائدہ سیاستدان کا۔ 

اور پھر میں سوچتا ہوں یہ کافر جو سارے ہیں، اس دنیا میں جو پچاس ساٹھ فیصد کافر ہیں اور کافر ملک ہیں۔ یہ جو امریکہ اور یورپ نامی کافروں کے علاقے ہیں۔ انہوں نے بھی کیا اسلام نافذ کیا ہوا ہے؟ وہ تو جمہوریت کی بات کرتے ہیں نا، کافروں کا نظامِ حکومت۔ پھر بھی ان کے شہری ہم سے زیادہ سکون میں کیوں رہتے ہیں؟ ادھر یہ بھارت میں کجریوال جیسے ہندو مشرک، وہ کیسے مسلمان نہ ہو کر بھی اچھے کام کر لیتا ہے۔ پھر میں اپنے ملک میں دیکھتا ہوں ہر کسی کے نام کے ساتھ نبی ﷺ کا نام ہے، آلِ نبی ﷺ کا نام لگا ہوا ہے۔ لیکن کام کیسے ہیں؟  اور پھر یہ نفاذِ اسلام کی بات، یہ کونسے نفاذ کی بات کرتے ہیں؟ ہر بات کا حل نفاذِ اسلام ، ہر بات کا حل ایک عدد "اسلامی" حکومت۔ 
میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں۔ اللہ مجھے معاف کرے پتا نہیں کیا کیا کفریہ سوچ سوچتا ہوں۔

جمعہ، 14 مارچ، 2014

بَٹ کائن: دجال کا نیا ہتھیار

سودی مالیاتی نظام، کاغذی نوٹوں اور کریڈٹ کارڈ جیسے دجالی ہتھیاروں کے بعد اب امتِ مسلمہ کو پھانسنے کے لیے دجالی چیلوں کا نیا ہتھیار!
  • بَٹ کائن: ایک ایسی کرنسی جو وجود ہی  نہیں رکھتی۔
  • ایک ایسی کرنسی جسے کوئی چھاپتا ہی نہیں۔
  • ایک ایسی کرنسی جو ہر سودے پر خودبخود پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔
  • ایک ایسی کرنسی جو امتِ مسلمہ کو کافروں کے بنائے برقی آلات کا محتاج کر دے گی۔

جانیں کہ:
  • کہیں یہ قربِ قیامت کی ایک اور نشانی تو نہیں؟
  • عظیم دوست چین نے جس کرنسی پر پابندی لگا دی۔ امریکی سامراج آخر اسے کیوں پھیلانا چاہتا ہے؟
  • بَٹ کائن کا خالق ساتوشی ناکاموتو آخر کون ہے؟ کیا وہ جاپانی ہی ہے؟ آخر کوئی اس کی اصلیت کیوں نہیں پا سکا؟ اہلِ یہود کی ایک اور سازش بے نقاب کرنے کا عظیم الشان اور تفصیلی احوال پڑھیں!
  •  یہودی جو صدیوں سے سود کا مال کھاتے آ رہے ہیں۔ یہودی جو آج کے سرمایہ دارانہ نظام کے ان داتا ہیں۔ یہی یہودی اب امتِ مسلمہ کو اپنے مکروہ پنجوں میں جکڑنے کے لیے ایک اور خفیہ سازش کر رہے ہیں۔

آج ہی چربِ مومن کا تازہ شمارہ خریدیں اور اپنے محبوب لکھاری کے قلم سے نکلا تہلکہ خیز مضمون پڑھیں۔
مجاہدُالقلم، بحر العلم حضرت ہِسٹیریا مخول ہیجان مدظلہ کے آتش قلم سے نکلا سچ۔ جو آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔ چودہ طبق روشن کر دینے والے حقائق، روح فرسا انکشافات، قیامت خیز پیشن گوئیاں۔۔۔آج ہی چربِ مومن کا تازہ شمارہ خریدیں۔
نوٹ: بَٹ کا انگریزی لفظ Butt بمعنی پچھواڑا اور اردو لفظ بٹ بمعنی بٹ ذات سے کوئی تعلق نہیں۔
مزید نوٹ : تحریر میں کسی بھی نام سے مشابہت اتفاقیہ ہو گی۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔