جمعہ، 29 فروری، 2008

اگلے چھ ماہ

مورخہ سات مارچ سے میرے سمسٹر فائنل ٹیسٹ ہورہے ہیں جو چودہ مارچ کو ختم ہوجائیں گے۔ اس کے بعد میں ایک بار پھر ویلا مصروف ہوجاؤں گا۔ بی کام کرنے کے بعد پتا ہی نہیں لگا ڈیڑھ سال گزر گیا۔ میرے ہم جماعت اس وقت اپنا ایم بی اے اور ایم کام مکمل کرنے کے قریب ہیں۔ جبکہ میں ابھی تک لنڈورا ہی پھر رہا ہوں۔

اب پھر سے چھ ماہ کا ایک فل سٹاپ لگ گیا ہے میرے تعلیمی کیریئر میں۔  میرا حال بھی اس پینڈو جیسا ہے جو بتیاں دیکھ کر اس طرف چل پڑتا ہے۔ اچھا بھلا کامرس کا سٹوڈنٹ تھا کہ لسانیات میں ٹانگ اڑا لی۔ چلو یہ تو ٹھیک تھا لیکن جو کورس شروع کیا وہ صرف ایک سال کا تھا۔ اور جہاں یہ کروایا جارہا تھا وہ یونیورسٹی بھی زندہ باد ہے۔

اب وہ سال کا کورس ختم ہوجائے گا اور میں پھر ایم اے کے لیے چھ ماہ تک منہ اٹھا کر دیکھتا رہوں گا۔  ستمبر اکتوبر سے شروع ہونے والے سمسٹر سے میں مارننگ میں موجود اسی کورس کے جونیر بیچ میں بیٹھ سکوں گا جو ایم ایس سی کے ٹائٹل سے شروع کیا گیا ہے۔ ان چھ ماہ کو کیا کیا جائے؟

ڈھیر سارا سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان چھ ماہ میں مجھے سی شارپ سیکھنا ہوگی۔ اپنی انگریزی بولنی بہتر کرنا ہوگی اور ساتھ جاب کرنا ہوگی۔

بس یہ چھ ماہ اور مزید نہیں۔ میں ویلا رہ رہ کر اک گیا ہوں۔ اب دل کرتا ہے کہ کام کیا جائے اور دبا کر کیا جائے۔ والدین کو بھی سکون دیا جائے 23 سال سے میرے جیسا ڈشکرا پال رہے ہیں وہ جو صرف موج کرتا ہے۔

میں نے سوچا ہے کہ نبیل نقوی کے لکھے گئے اردو ایڈیٹر کو لینکس پر پورٹ کروں۔

اردو لغت اطلاقیے کو لینکس پر چلانے کا بندوبست بھی کروں۔

اور کارپس لنگوئسٹکس کے لیے پروگرامنگ کرنے کی کوشش کروں۔

اب اس میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہوں یہ تو اگلے چھ ماہ ہی بتائیں گے۔ مجھے امید ہے یہ چھ ماہ مجھے بہت کچھ دے کر جائیں گے۔ زندگی میں پہلی بار میں نے پلان کیا ہے کچھ کرنے کے لیے۔۔دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

جمعرات، 28 فروری، 2008

اوبنٹو کی دو خبریں

اوبنٹو نے برین سٹارم کے نام سے اپنی ایک سائٹ لانچ کی ہے۔ یہاں اوبنٹو کے صارفین اپنے محبوب آپریٹنگ سسٹم کے لیے نئی تجاویز دے سکیں گے۔ یہ تجاویز کسی عمومی بگ رپورٹ سے لے کر نیا فیچر متعارف کروانے تک ہوسکتی ہیں۔ پہلے سے موجود تجاویز پر آپ اثبات یا نفی میں ووٹ دے سکتے ہیں اور اس پر تبصرہ بھی کرسکتے ہیں۔ میں نے اپنا کھاتہ درج کروا کے ہائبر نیٹ والے آپشن کی خرابی والی تجویز میں اثبات کا ووٹ ڈال دیا ہے۔ آپ کے پاس بھی اگراوبنٹو کے بارے میں کوئی ایسا آئیڈیا ہے جسے سن کر دنیا پھڑک اٹھے تو اسے اوبنٹو برین سٹارم پر دوسروں ساتھ شئیر کیجیے۔

فُل سرکل اوبنٹو لینکس کا ترجمان ایک ای میگزین ہے۔ اس میں اوبنٹو لینکس کے مختلف ذائقوں، اس کے بارے میں ٹیوٹوریل اور خبریں وغیرہ شئیر کی جاتی ہیں۔فل سرکل کا شمارہ نمبر 10 منظر عام پر آچکا ہے اپنی کاپی اتاریں اور پڑھیں۔ 

بدھ، 27 فروری، 2008

KubuntuKDE4 Alpha

کے اوبنٹو ہارڈی ہیرون 8.04 اپریل میں منظر عام پر آرہا ہے۔ اس کے دور ورژن ہونگے اس بار۔ ایک کیڈی 3 کے ساتھ اور ایک کیڈی چار کے ساتھ۔ موخر الذکر تجارتی بنیادوں پر سپورٹ شدہ نہیں ہوگا۔ اسے صرف کمیونٹی کی سپورٹ حاصل ہوگی۔ لیکن کے ڈی ای کے چاہنے والے کہاں یہ دیکھتے ہیں۔ یہ دیکھیے کے ڈی ای چار کے ساتھ کیا سکرین شاٹ ہے اس کے الفا ورژن کی۔ اگرچہ ابھی تک کے ڈی ای 4 سٹیبل نہیں اس میں بہت سی چیزیں درست ہونے والی ہیں لیکن امید کرتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ میں کے ڈی ای چار پوری آب و تاب کے ساتھ 3 کی جگہ لے لے گا۔

اتوار، 24 فروری، 2008

دعا

گزشتہ کچھ دنوں سے میں اکثر بیٹھے بیٹھے جذباتی ہوجاتا ہوں۔ بے اختیار پاکستان کی سلامتی کے لیے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں۔ آج دل کیا اپنے الفاظ آپ سے ساتھ بھی شئیر کروں کہ شاید آپ میں سے کسی کی دعا پاکستان کے حق میں قبول ہوجائے۔

اے اللہ ہم گنہگار ہیں، سیاہ کار ہیں، ہمارے دلوں پر سیاہی نے پہرے بٹھائے ہوئے ہیں، ہم سنتے دیکھتے ہیں لیکن بہرے اور اندھے بن کر رہتے ہیں۔۔۔۔اے پروردگار ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہے۔۔تجھے تیرے نبی کا واسطہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ،، ان کی آل کا واسطہ ان کے اصحاب کا واسطہ ہم پر کرم فرما، ہم پر اپنی رحمت فرما
مالک ہم کمزور ہیں، بے بس ہیں ناتواں ہیں۔ دشمن ہمیں اندر اور باہر سے گھیرے ہوئے ہے۔۔۔اگر تیرا سہارا نہ ہوا تو ہم کسی قابل نہ رہیں گے بے شک تیرا سہارا ہی تمام سہاروں سے بہتر ہے
اے اللہ تو ہماری مدد فرما، ہم دھتکارے ہوؤں کو اپنے نبی کے صدقے، اپنے سوہنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی رحمت میں چھپا لے۔
اے اللہ ہمارے ملک پر اپنی رحمت رکھ۔ مالک ہم نے اسے تیرے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر حاصل کیا تھا ہمیں توفیق دے کہ ہم یہاں تیرا نام اونچا کرسکیں۔
اے اللہ ہمیں ظلم، ناانصافی اور برائی کے خلاف سینہ سپر ہونے کی توفیق دے۔
اے پروردگار ہمارے رہنماؤں کو توفیق دے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کریں جن کا انھوں نے قوم سے وعدہ کیا ہے۔
رب کریم ہمیں اپنے دشمنوں کو پہچاننے کی توفیق دے۔ ان کے خلاف ہر محاذ پر لڑنے کی توفیق دے۔
اے پروردگار اس ملک کو ہم نے خون کی ندیاں بہا کر حاصل کیا ہمیں توفیق دے ہم اسے بچانے کے لیے بھی خون کی ندیاں تک بہا سکیں۔
ہمارے بھائی جو ہم سے ناراض ہیں ہمیں انھیں منانے کی توفیق دے۔
یا اللہ ہمارے سندھ میں، ہمارے پنجاب میں، ہمارے سرحد میں، ہمارے بلوچستان میں برکت عطاء فرما۔
یااللہ ہمیں ایک ہوجانے کی توفیق دے۔
یاللہ ہمیں نفرتوں سے نکل کر محبتوں کو عام کرنے کی توفیق دے۔
اے مالک اس ملک کی نوجوان نسل کو پیارے پاکستان کی سربلندی کے لیے محنت کوشش کرنے کی توفیق دے۔
ارحم الرٰحمین ہم کچھ نہیں، ہم کچھی بھی تو نہیں، سب کچھی تیری رحمت کے سبب ممکن ہے، کالی کملی والے کا صدقہ، پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہم پر اپنی رحمت فرما۔ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔ اے مالک ہم ناتواں ہیں، کمزور ہیں ہمارے ساتھ نرمی کا معاملہ فرما۔
اے اللہ ہمیں اپنی محبت اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطاء فرما اور اس محبت کو عام کرنے کی توفیق عطاء فرما۔
اے اللہ ہمیں آستین کے سانپوں سے ہوشیار رہنے کی توفیق عطاء فرما اور ان کا سر کچلنے کا حوصلہ عطاء فرما۔
مالک سب کچھ تیرے بس میں، ہم تیرے بےبس بندے ہمارے ساتھ نرمی کا معاملہ رکھ۔
آمین
اللھم صل علٰی سیدنا و مولانا محمد و علٰی اٰل سیدنا و مولانا محمد و اصحاب سیدنا و مولانا محمد و بارک وسلم وصل علیک

پیر، 18 فروری، 2008

نئی حکومت خدشات توقعات

انتخابات ہوگئے ہیں۔ حسب توقع سرکاری لیگ کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔ اس کا وہی حال ہوا ہے جو 2002 میں نواز لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ پچاس سیٹیں بھی لے سکیں قومی اسمبلی میں۔ اب آگے دیکھنا ہے۔ نئی حکومت بنے گی۔ لیکن یہ نئی حکومت کیسے بنے گی؟؟؟؟؟؟؟

اس پر ایک نہیں کئی سوالیہ نشان ہیں۔ جو ٹرینڈ اب تک نظر آرہا ہے اس کے مطابق پنجاب میں ن لیگ کو اکثریت حاصل ہے۔ سندھ میں پی پی پی کو۔ غالب امکان ہے کہ بلوچستان سے بھی پی پی پی کو اچھا حصہ مل جائے گا اور سرحد سے بھی حسب توفیق اچھی نشستیں کھینچ لینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پی پی پی اکثریت میں تو ہوگی لیکن جماعت سازی اس کے بس کا کام نہیں ہوگا۔ اس کو کم از کم نواز لیگ یا پھر ایم کیو ایم سے اتحاد کرنا پڑے گا۔ یا پھر ق لیگ سے اتحاد۔۔۔

مرحومہ نے بھی اپنی زندگی میں آئیں بائیں شائیں کی اور کسی منڈیر پر ٹک کر نہیں بیٹھی۔ یہی حال اب لیڈروں کا ہے۔ زرداری نے کسی بھی جماعت کے ساتھ مفاہمت کا اشارہ تک نہیں دیا۔ اگرچہ نوازلیگ کے ساتھ ان کی گاڑھی چھن رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پندرہ سال تک ایک دوسرے کے بدترین سیاسی مخالفین رہنے والے اتنی جلدی حکومت میں بیٹھ جائیں گے۔

نئی حکومت جو بھی بنی نواز لیگ اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں بہت کم ہوگی۔ جس کے نتیجیے میں ججوں کی بحالی کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ اس وقت مجھے بہت افسوس ہورہا ہے اگر تحریک انصاف وغیرہ بھی اس میں شامل ہوجاتیں تو آج ججوں کی بحالی کے لیے زیادہ امکانات ہوتے۔ پیپلز پارٹی ایسے کسی بھی فیصلے کی سختی سے مخالفت کرے گی۔ زرداری صاحب مفاہمتی آرڈیننس کے صدقے ہی جیل سے باہر ہیں ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی حکومت پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھے گی یا؟ پچھلے کئی ادوار سے تو ہم پچھلی حکومت کی ہر نشانی پر سرخ لکیر پھرتا دیکھتے آرہے ہیں۔ یہ مشرف ہی تھا جس نے فوجی صدر ہونے کی وجہ سے اپنی بات منوائی۔ مشرف کتنا ہی برا ہو لیکن اس نے اعلٰی تعلیم کو جتنا فنڈ فراہم کیا وہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے ممکن ہی نہ تھا۔ بے تحاشا سکالرشپس دی گئیں جس کے بل پر ہزاروں طلبا ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے ڈھیر لگ گئے اور نئے نئے کورسز پڑھائے جانے لگے۔ اگرچہ اس میں بھی بہت سی خرابیاں ہیں جیسے تعلیم کا معیار وغیرہ۔ لیکن اس پالیسی میں پہلی بار ایک سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو اعلٰی تعلیم کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا گیا۔ اعلٰی تعلیم کا بجٹ ایک بار کٹ بھی چکا ہے لیکن ایوان صدر نے اس کی کمی پوری کردی تھی۔ چونکہ اس وقت فوجی وردی موجود تھی۔ لیکن اب کیا ہوگا؟

ہمارے ہاں جو شعبہ سب سے متاثر ہوتا ہے وہ تعلیم ہے۔ نئی حکومت میں یہ لگ رہا ہے کہ اعلٰی تعلیم کا بجٹ بہت سکیڑ دیا جائے گا۔ شاید پچھلے آٹھ سالوں کی "کارکردگی" کی بنیاد پر ڈاکٹر عطاءالرحمٰن کو بھی احتساب عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں۔ یہی ایک جمہوری حکومت میں اور آمریت میں فرق ہوتا ہے۔ آمر کے پاس جو وژن ہوتا ہے وہ اسے لاگو کردیتا ہے اور ہر حال میں لاگو کرتا ہے۔ جمہوریت ایسا ہجوم بن جاتا ہے جس میں جتنے منہ اتنی آوازیں۔ لیکن یہ آوازیں اپنے کھابوں کے لیے ہمیشہ یک آواز ہوتی ہیں۔ مجھے اعلٰی تعلیم کے لیے وقف شدہ فنڈز غرب مکاؤ یا ایسے ہی کسی دوسرے زمرے میں منتقل ہوتے نظر آرہے ہین۔

چلتے چلتے ایک اور بات ق لیگ والوں نے اپنے پیشرؤوں کے لیے بڑے مناسب قمسم کے ایشوز چھوڑے ہیں۔ جیسے کہ تیل کی قیمتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیل کی قیمتیں ایک دو روپے لیٹر نہیں کم از کم دس روپے لیٹر بڑھ جائیں گی۔ عالمی مارکیٹ میں تو آپ کو ریٹس کا اندازہ ہی ہے۔ بھارت میں بھی کچھ دن پہلے تیل کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ اب لگتا ہے کہ پٹرول کم از کم 80 روہے لیٹر اور ڈیزل 50 روپے لیٹر ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی مہنگائی کی ایک اور شدید لہر اٹھے گی۔ ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوجائے گی۔ بشمول بجلی جس کے فی یونٹ اضافے کی درخواست فورًا کردی جائے گی۔ ایک پرآزمائش گرما ہمارا منتظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ووٹ ڈالنے گیا تو دیکھا

لو جی زندگی کا پہلا ووٹ ہم نے ڈال ہی دیا۔ ہمارے گھر کل ہی نون لیگ کے ایک امیدوار کی چھپی ہوئی پرچیوں پر والدین اور میرے ووٹ نمبر وغیرہ آچکے تھے۔ صبح ہم نے نو بجے کے قریب شناختی کارڈ ڈھونڈنے کا ڈول ڈالا۔ آخر پانچ سات منٹ کی تلاش بسیار کے بعد ہمارے کاغذات والے ڈبے سے مل ہی گیا۔ اسی دوران ہم نے محمد علی مکی کا فون بھگتایا جو انھوں نے اپنا وی وائرلیس بونس ختم کرنے کے لیے کیا تھا۔ انھیں بھی لگے ہاتھوں مشورہ دے ڈالا کہ ووٹ ڈالیں اور شیر کو ڈالیں تو کہنے لگے یار دو بار پہلے بھی ۔۔۔۔۔ آچکا ہے کچھ بھی نہیں کیا۔ خیر ہم نے انھیں اللہ حافظ کہنے کے بعد شناختی کارڈ ڈھونڈا امی سے پوچھ کر پرچی لی اور جیب میں لے کر امیدوار کے لگائے گئے ٹینٹ کی طرف چل دئیے۔

وہاں ایک محلے دار نے ہی ہماری رہنمائی پولنگ سٹیشن تک کی۔ قریبی پرائیویٹ سکول میں بننے والا یہ پولنگ سٹیشن مناسب حد تک پرہجوم تھا۔ ہم نے ایک سے پوچھا پھر دوسرے سے پھر تیسرے سے آخر مطلوبہ بندے کے پاس جاکر کہا کہ ہمارا ووٹ یہ ہے پرچی پر لکھ دو۔ لیکن یہ کیا ہمارا ووٹ تھا ہی نہیں اس لسٹ میں۔

آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم واپس گھر کو آئے۔ پھر اس امیدوار کے دفتر نما میں گئے اور پھر وہاں سے واپس پولنگ سٹیشن۔ پھر اس بندے نے ہمیں کہا کہ آپ کا ووٹ نہیں ہے یہاں یہ کوئی ماجد خان ہے۔ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر واپس آئے۔ پھر سوچا ان کے پاس نہیں تو پیپلز پارٹی والے سے پوچھ لیتے ہیں۔ اس کے دفتر چلے گئے تو وہ بےچارے اپنی پریشانیوں میں تھے۔ یکے بعد دیگرے لوگ ووٹ نمبر نکلوانے کے لیے نازل ہورہے تھے۔ آخر کچھ دیر اس کے ہاتھ میں شناختی کارڈ دینے کے بعد واپس لیا اور پھر ہمیں عقل آئی کہ ہماری گلی والا دفتر ادھر نہیں دوسری طرف ہے۔ وہاں گئے اور پھر نون لیگ والے امیدوار کے دفتر میں لسٹ پر نام نہ ملا۔ آخر ساتھ تیر والے دفتر میں ہمیں اپنا نام مل گیا اور ہم نے نعرہ بلند کردیا مل گیا مل گیا۔ دیکھنے والا لڑکا بے چارہ خوش ہوگیا کہ چلو ایک ووٹ بن گیا۔ ہم نے پرچی پر لکھوایا اور چلے پولنگ سٹیشن کو۔

وہاں پہنچ کر پھر اصل بندے کو ڈھونڈا۔ اب کے ہمیں چونکہ عقل آگئی تھی اس لیے اپنی گلی کا نمبر بتا کر مطلوبہ لسٹ والے بندے کے پاس گئے۔ اسے پرچی دکھائی۔ اس نے تصدیق کی اورلسٹ سے نام کاٹ کر ہمیں بوتھ نمبر دو کی طرف راہ دکھائی۔ وہاں گئے۔ پولنگ آفیسر کو شناختی کارڈ تھمایا۔ انگوٹھے پر نشان لگوایا۔ اس نے پرچی پر نشان لگادیا اور ہم پرچی لینے کے لیے لائن میں لگ گئے۔ ہماری باری آنے لگی تو افسر بولا یار ایک نیسلے کی بوتل لادو۔ اسے بوتل لا کر دی اور پھر انگوٹھا لگا کر بیلٹ پیپر لیا۔ آٹھ خانوں والی مہر اٹھائی "گیلی" کی اور بوتھ میں جاکر شیر پر ٹھپہ لگا دیا۔

ہمیں کئی بار خیال آیا کہ آزاد امیدوار کو ووٹ دے دیں۔ چونکہ وہ بندہ ہم جیسا ہی لگتا تھا۔ مثلًا اس کے "دفتر" پر ٹینٹ کی چھت بھی نہیں تھی۔ اور ایک ہی دفتر تھا اس کا جس میں وہ خود ہی ایک کرسی اور میز سمیت موجود تھا۔ حیرت ہے باقی پولنگ سٹیشن پر اس کا "نام لیوا" کون ہوگا۔ ہمیں ترس تو بہت آیا لیکن پھر دل پر پتھر رکھ لیا۔ نواز شریف کو بھی اس لیے ووٹ دیا ہے کہ وہ ججوں کی بحالی کا وعدہ کرتا ہے۔ ورنہ یہ امیدوار وہی پرانے گھگے تھے جو پچھلے تین چار الیکشنوں میں اسی ٹکٹ پر اسی حلقے سے کھڑے ہوتے ہیں۔

اجمل صاحب کی بات تھی تو سچ کہ اس کو ووٹ دیں جس کو آپ مل بھی سکیں۔ لیکن جس کو ملنے کی امید کی جاسکتی تھی اس کے کامیاب ہونے کی امید نہیں تھی ووٹ ضائع ہی جاتا۔ سو ہم نے سوچا نون لیگ ہی سہی۔ ورنہ تو تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا ارادہ تھا۔ مجھے عمران خان سے گلہ ہے اس نے بائیکاٹ کرکے اپنے کئی متوقع ووٹر کھودئیے اور ہمیں انتخابات میں چوائس سے محروم کردیا۔

آخر میں وہ تصاویر جو میں نے اپنے موبائل سے کھینچیں۔ آپ کو نون لیگ کا دفتر نظر آئے گا۔ تیر والوں کا بھی ساتھ ہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سائیکل والوں کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ادھر ان کی کتنی "عزت" ہے۔ موصوف دو حلقوں سے امیدوار ہیں اور ٹاؤن ناظم بھی تھے شاید اب بھی ہوں۔ لیکن مجھے جو بھی ملا اس نے کہا شیر کو یا تیر کو ووٹ ڈالنا۔ ایک دوست تو یہاں تک بولا اب یہ نہ کہہ دینا کہ سائیکل کو ووٹ ڈالا ہے۔ اور ایک آدھ تصویر میں آزاد امیدوار بھی نظر آئے گا جسے میں ووٹ ضرور دیتا۔۔۔۔مگر میں نے اپنے محلے کو دیکھنے کی بجائے قومی سطح پر دیکھا جہاں بڑے مسائل ہیں۔

ویسے اڑتی اڑتی سنی تھی کہ تیر والے 35 ووٹوں پر موٹر سائیکل دے رہے ہیں۔ اور سائیکل والے شناختی کارڈ جمع کروانے پر سائیکل دے رہے ہیں۔ لاہور میں مستنصر حسین تارڈ کو 1500 نقد ملے لیکن ادھر ابھی شاید رواج نہیں چلا۔ ورنہ میں تو تیار تھا کہ سائیکل ہی سہی۔ ووٹ کا کیا ہے ووٹ تو اپنی مرضی سے دینا ہوتا ہے۔ چوروں کو مور پڑ گئے تو کیا ہوجائے گا۔ خیر یہ تھی روائیدادِ الیکشن۔۔۔۔

ادھر ابھی تک کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں۔ اگرچہ سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق کم از کم دو جگہوں سے بیلٹ پیپر اڑائے جاچکے ہیں اور لاہور سمیت کئی جگہوں پر فائرنگ کے واقعات میں کئی لوگ بھی پرلوک سدھار چکے ہیں۔

جمعرات، 14 فروری، 2008

پھولوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا

لال گلابی نیلے پھولے

اودے رنگ رنگیلے پھول

پھولوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا

ان چھوئے ان کہے

کلیوں جیسے کورے جذبے

جذبوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا

محبتوں کو قید کرتے ہو

محبتوں کا کوئی موسم نہیں ہوتا


یہ پھول ان سب کے نام جن سے میں محبت کرتا ہوں۔ میرے دوست، میرے عزیز، میرے اساتذہ، میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی اور وہ سب جنھیں میں دل سے بہت قریب محسوس کرتا ہوں۔ یہ پھول ان کے لیے میری محبتوں کا اظہار ہیں۔
یہ پھول اس شخص کی خدمت میں خراج تحسین ہیں جسے دنیا افتخار محمد چوہدری کے نام سے جانتی ہے۔ نیلسن منڈیلا کو چھ سال قید میں رکھا گیا تھا ہم دس سال کے لیے بھی تیار ہیں۔ چیف جسٹس آپ جب بھی آزاد ہونگے ہم آپ کا استقبال ایسے ہی کریں گے۔ وطن پر بے یقینی کی فضائیں ہیں تو کیا ہوا، وطن پر ناامیدی کی پرچھائیں ہیں تو کیا ہوا ہم پرعزم ہیں ، ہم پرامید ہیں روشن کل کے لیے ۔۔۔۔ ہم منتظر ہیں اس روشن اجالے کے جو ظلمتوں کو مٹا دے گا اور اس ارض پاک کو نئی رفعت و بلندی عطاء کرے گا۔
اے اللہ میرے وطن کی حفاظت کرنا۔

پیر، 11 فروری، 2008

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کل رات یونیورسٹی سے واپس آیا تو باتوں باتوں میں ذکر چھڑ گیا۔ ذکر کیا تھا والدہ کی زبانی سنیے۔۔

آج یوٹیلٹی سٹور پر عورتیں بی بی نظیراں کو بہت یاد کررہی تھیں۔ میں نے کہا وہ دن بھول گئے ہیں جب اس خصم نے اسی طرح قطاروں میں لگوا کر گھی کے ساتھ تین تین کلو پیاز دئیے تھے۔ جن سے دس فٹ کی دوری سے بدبو کے بھبھکے اٹھتے تھے۔۔

اب میں نے پوچھا یہ کیا قصہ ہے تو۔ والدہ کہنے لگیں اس وقت گھی 35 روپے کلو تھا جی سی پی بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا جی سی پی بناسپتی جس کی ملیں یا تو بند ہوگئیں یا پرئیویٹائز کردی گئیں۔۔ تو بات ہورہی تھی قیمت کی اس وقت بھی گھی یوٹیلٹی سٹور سے سستا ملتا تھا عام مارکیٹ کی نسبت۔۔۔ بی بی کے بابو یعنی خصم ارجمند نے بھارت سے بڑی مقدار میں پیاز درآمد کئے۔۔وہ پیاز خراب ہورہے تھے بلکہ آدھےسے زیادہ گل سڑ چکے تھے اور پر یہ پیاز غریبوں کو گھی کے ساتھ تین تین کلو کرکے دئیے گئے۔۔ ورنہ گھی نہیں ملتا تھا۔۔۔

آج کل بھی یوٹیلٹی سٹور والے گھی کے پیکٹ کے ساتھ (چینی ہے تو یا آٹا ہے جس چیز کا بھی بحران ہو اس کے ساتھ) کوئی نہ کوئی چیز لازمی خریدنے پر مجبور کرتے ہیں ورنہ گھی نہیں ملتا۔۔ کبھی تکہ مصالحہ، کبھی لکس صابن، کبھی ٹوتھ پیسٹ اور کبھی فئیر اینڈ لولی جو چیز بھی سٹاک میں زیادہ ہو۔ اب ہم جیسے غریب غرباء جنھوں نے تکے کو دور سے ہی سلام کیا ہوتا ہے اس تکے مصالحے کا کیا کریں؟ سو اس دن امرودوں پر چھڑ کر کھایا اور مشرف کو دعائیں دیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔ مقصد صرف اتنا تھا کہ ہم کتنی جلدی بھول جاتے ہیں نا؟ بی بی نظیراں فوت ہوگئی تو اب وہ فرشتی اور بہشتن ہوگئی ہے۔ زندہ باد بھئی اس قوم کے۔۔۔

جمعہ، 8 فروری، 2008

معذرت

پچھلے دنوں گلوبل سائنس کے سلسلے میں اپنے بلاگ پر ایک تحریر لکھی تھی۔ اس پر ہونے والے تبصرے کسی اور ہی سمت میں چلے گئے۔ میری نادانی سے اس میں کمپیوٹنگ کا ذکر آگیا جس کی وجہ سے میرے کچھ دوستوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ میں نے اس تحریر پر سے تمام تبصرے ختم کردئیے ہیں۔ اس کی وجہ سے جن احباب کے جذبات مجروح ہوئے یا جن کو تکلیف پہنچی میں ان سے غیر مشروط  طور پر معافی کا طلبگار ہوں۔ امید ہے آپ مجھے نادان سمجھتے ہوئے معاف کردیں گے۔

وسلام

بدھ، 6 فروری، 2008

ایک بھاگا ہوا بچہ

پانچویں جماعت پاس کی تو والدین نے بڑے دلار سے مدرسے میں داخل کروا دیا کہ بچہ قرآن حفظ کرلے تو سات پشتیں بخشی جائیں گی۔ بچہ بھی بہت خوش تھا کہ قرآن حفظ کرنا ہے۔ بڑے اہتمام سے موٹی مشین سے ٹنڈ کروائی اور خوشی خوشی مدرسے کو گیا۔ قاری جس کے بارے میں مشہور تھا کہ بہت مارتا ہے نے اپنے مخصوص انداز میں کچھ باتیں کرنے کے بعد داخل کرلیا۔ وقت دھیرے دھیرے گذرنے لگا۔

کوئی اڑھائی ماہ میں نورانی قاعدہ تجوید کے ساتھ پڑھ لیا۔ قاعدے کی گردان ہوئی۔ ایک نگران نے سنا اور اسے پاس کرکے اگلے درجے میں بھیج دیا گیا۔ اس کو سو روپے لانے کو کہا گیا جن کے عوض اسے آخر پانچ سپاروں کا سیٹ دے دیا گیا جو اکٹھے جلد کئے ہوئے تھے۔ آخری سپارہ حفظ کیا گیا۔ اس کی ترتیب ذرا مختلف تھی تاکہ نیا بچہ آسانی سے حفظ کرسکے۔ چناچہ آسان سے مشکل کی طرف والی اس ترتیب کو قرآن کی ترتیب کے مطابق کیا گیا۔۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ کوئی ایک سات آٹھ ماہ میں دو سپارے ختم ہوچکے تھے جب اسے پہلا دورہ پڑا۔ میں نے پڑھنے نہیں جانا۔ ایک دن گھر واپسی پر وہ اڑ گیا۔ مدرسے کی ٹائمنگ صبح فجر سے رات عشاء تک تھی۔ آٹھ بجے ناشتے کی چھٹی آدھ گھنٹا۔ دوپہر ساڑھے بارہ سے ظہر اور شام عصر سے مغرب تک کی رخصت ملا کرتی تھی۔ لیکن بچے کو لگتا تھا جیسے اسے قید کردیا گیا ہے۔ سارا سارا دن دونواز بیٹھ کر قرآن کو رٹنا اوررات کو آکر سوجانا۔۔۔اس اڑی کا قاری کو پتا چلا تو اس نے پہلے کرسی لگوایا۔ پھر ٹانگیں اوپر کروا کر تشریف کی مزاج پرسی کی۔ بچے کو فورًا یاد آگیا کہ یہ سب شیطان کی کارستانی تھی ورنہ وہ تو اب بھی پڑھنے کو تیار ہے۔۔

بچہ سیدھا ہوگیا اور پڑھائی پھر سے چلنے لگی۔ کچھ مزید عرصہ گزر گیا۔ ایک بار پھر وہی بخار چڑھا تو قاری نے جمعرات اور جمعے کی اکلوتی ہفتہ وار چھٹی بند کردی۔ دو ہفتے چھٹی بند رہی تو بچہ پھر راہ راست پر آگیا۔ اس دوران قاری نے اپنا مدرسہ بنانے کے لیے زمین خرید لی اور پہلا مدرسہ جہاں وہ تنخواہ دار تھا چھوڑ دیا۔ اکثر طلباء اس کے ساتھ نئے مدرسے چلے گئے کچھ پرانے مدرسے میں رہ گئے۔ کچھ عرصہ پھر سکون سے گزرا اور پھر بچے کو دورہ پڑا۔ اب کے یہ بہت شدید تھا جمعے کے دن بچہ ریل پر بیٹھ کر اپنی نانی کے پاس پہنچ گیا۔ آخر گھر والے اسے سمجھا بجھا کر واپس لے آئے لیکن سکون عارضی ثابت ہوا۔ نیا مدرسہ عارضی سی عمارت تھی۔ چناچہ بچہ پھر سے دیوار پھلانگ کر بھاگ گیا۔ بھاگ کر سیدھا اسٹیشن پہنچ گیا لیکن گھر والوں کو پتا چل گیا اور اسٹیشن سے اسے پکڑ لیا گیا۔ گھر تک اس کی ٹھکائی ہوتی رہی۔ آخر گھر والوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور اسے مدرسے سے ہٹا لیا گیا۔ بچے کی رٹ تھی کہ اور جگہ داخل کروا دیں یہاں نہیں پڑھوں گا۔۔۔آخر اسے ایک اور شہر میں اقامتی درسگاہ میں داخل کروادیا گیا۔ لیکن دو گھنٹے بعد ہی وہاں سے بھاگ کر پھر گھر آگیا۔ اب اس کی رٹ تھی کہ میں نے قرآن حفظ ہی نہیں کرنا۔ گھر والوں نے بہتیرا سمجھایا لیکن اس کے بھیجے میں بات نہ آسکی۔۔چناچہ اسے چھٹی میں داخل کروا دیا گیا۔ ذہین تھا آدھا سال ضائع ہونے کے باوجود دوسرے بچوں سے آگے نکل گیا۔۔۔

وہ بچہ آج بی کام ہے، لسانیات میں بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ اس کی محبوبائیں ہیں۔۔۔ وہ بچہ یعنی منکہ مسمی شاکر عزیز آپ کے سامنے اپنی زندگی کا ایک تلخ پہلو کھول رہا ہے۔ شاید کتھارسس کے لیے یا پھر اپنے آپ کو یاد کروانے کے لیے کہ اس کی اوقات کیا ہے۔۔ زندگی کا وہ ڈیڑھ سال میری شخصیت سازی میں بہت حصہ رکھتا ہے۔ اس وقت کا احساس اب تک میرے ذہن سے نہیں مٹتا کہ خادم القرآن کہلوانے والے اتنے سخت دل کیوں ہوتے ہیں۔ عجیب عجیب سزائیں کیوں دی جاتی ہیں۔ شاکر شاید آج حافظ شاکر ہوتا اگر وہ قاری اتنا مارنے والا نہ ہوتا، یا وہ شیڈیول اتنا ٹف نا ہوتا جو پڑھائی کی بجائے قید لگتا تھا۔۔یا شاید اس کی نیت ہی خراب تھی۔۔۔لیکن وہ ڈیڑھ سال اگر ضائع نہ ہوتا میں کہیں اور ہوتا۔۔۔۔وہ ڈیڑھ سال بس ایسے ہی ماضی کا وہ ورق بن گیا جسے الٹتے ہوئے بہت سی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔۔۔اور احساس ہوتا ہے کہ میں کتنی بڑی نعمت سے محروم رہ گیا۔۔۔قرآن جسے میرے سینے میں نقش ہونا تھا نہ ہوسکا۔۔۔جو چند سپارے یاد تھے وہ بھی آہستہ آہستہ محو یادداشت ہوگئے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قرآن یاد کرنے کو تم ایسے پاؤ گے جیسے اونٹ ہے جس کے گلے میں رسی ڈالی گئی ہو اور وہ اپنی گردن چھڑانے کی کوشش کرے۔۔ قرآن یاد کرنا اور اس کو یاد رکھنا بہت مشکل کام ہے اور میرے جیسے کے نصیب میں تھا ہی نہیں شاید۔۔آج جب مجھے یاد آتا ہے کہ میں نے ایک نہیں کئی خطائیں کی تھیں۔۔۔اللہ کی کتاب کو یاد نہ کرسکا جو یاد تھی اسے بھلا ڈالا تو میری زبان پر استغر اللہ الذی لا الہ الا ہوا الحی القیوم و اتوب الیہ کا ورد جاری ہوجاتا ہے۔ میرا مالک مجھے معاف کرے میں بہت گناہگار ہوں۔۔

یہاں لکھنا ٹھیک ہے یا نہیں۔۔۔میں نہیں جانتا۔۔۔ لیکن میں نے لکھ ڈالا، اس امید کے ساتھ کہ آپ اس سے سبق حاصل کریں گے اور اپنی دعاؤں میں مجھے بھی یاد رکھیں گے۔

وسلام