منگل، 18 اگست، 2015

پہلی نظر

پہلی نظر، پہلی ملاقات اور پہلا لمس کبھی نہیں بھولتے۔ پہلی نظر کے بعد باقی رہ جانے والی تشنگی، پہلی ملاقات کے بعد بھی رہ جانے والے ان دیکھے فاصلے اور پہلے لمس میں چھپی اجنبیت صرف ایک مرتبہ کا احساس ہوتے ہیں۔ لیکن یہ احساس کبھی نہیں جاتا۔ پھر چاہے تشنگی مٹانے کو جام بھر بھر کر ملیں، فاصلے ایسے مٹیں کہ قربتوں کو رشک آنے لگے، اجنبیت ایسے دور ہو کہ جنم جنم کا ساتھ لگنے لگے، لیکن وہ پہلی نظر، پہلی ملاقات اور پہلا لمس کبھی نہیں بھولتے۔
میں جب کسی شہر سے، کسی شخص سے، یا کسی راستے سے پہلی بار ملتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ بس کترا کر گُزر جاؤں۔ میرا انداز ایسا ہوتا ہے بس یہ وقت گزر جائے اور اللہ کرے دوبارہ ان سے آمنا سامنا نہ ہو۔ اگر قسمت میں لکھا ہو اور ساتھ طویل ہو جائے تو پھر دھیرے دھیرے میں ان پر اور یہ مجھ پر کھُلتے ہیں۔

کسی شہر میں پہلی بار داخل ہوں تو میرا انداز بتیاں دیکھنے شہر آنے والے پینڈو جیسا ہوتا ہے۔ ہر اجنبی چیز، عمارت، نشانِ راہ کو ایسے دیکھتا ہوں جیسے ایسی کوئی چیز پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔ ہر چیز کوری کنواری لگتی ہے۔ جیسے میرے ہی انتظار میں پڑی ہو کہ میں آؤں، دیکھوں اور اس دیکھنے سے اُسے بھی اُس کے ہونے کا احساس دلاؤں۔ کسی شہر سے پہلی ملاقات میں موجود اجنبیت، سرد مہری، ہلکا سا کٹھور پن اور پردیسی ہونے کا احساس حواسوں پر بہت مختصر عرصے کے لیے وارد ہوتا ہے، لیکن یادداشت میں برسوں تروتازہ رہتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ بڑی طویل پیاس کے بعد ملنے والے ٹھنڈے پانی کا احساس بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پہلے گھونٹ کی اجنبیت اور ذائقہ بس ایک مِلی سیکنڈ کی گیم ہوتی ہے، لیکن وہ احساس یاد کی صورت میں ہمیشہ کے لیے دماغ میں کہیں محفوظ ہو جاتا ہے۔

گجرات شہر میں میرا پہلا دن جب شروع ہوا تو دن ڈھل چکا تھا۔ اس لیے پہلا احساس اجنبی اور ملگجا سا ہے۔ اس کے بعد مسلسل بارش، نمی اور ہوا کی ٹھنڈک میرے اندر آج بھی کہیں بسی ہوئی ہے، اور آج اتنی بارشوں کے بعد بھی وہ پہلی بارش ان سب سے جدا ہے۔ ملازمت کے انٹرویو سے پہلے کا ایک انجانا سا خوف بھی اس پہلی ملاقات کا ایک اٹل حصہ ہے۔ پھر یونیورسٹی کو جانے والا راستہ اور اس پر سفر کرتے ہوئے مسلسل لگنے والے جھٹکے، ہر جھٹکے میں موجود ایک تیکھا کٹھور پن آج بھی یادداشت کا حصہ ہے۔ آج لگ بھگ ایک برس بعد ان گڑھوں سے اتنی مانوسیت ہو چکی ہے کہ چلتے چلتے کترا کر گزر جاتا ہوں۔ ان کا شکار بھی بن جاؤں تو روٹین کی بات ہے۔ لیکن وہ پہلا سفر جو میں نے اس راستے پر کیا، یونیورسٹی اور اس کے اندر اور پھر انٹرویو کے بعد گیٹ تک پیدل مارچ، ستمبر کی بے موسمی لگاتار برستی بارش میں چلتے چلتے  اردگرد کے منظر کو جب میں نے پہلی بار اپنی یادداشت میں قید کیا، بارش کا پانی کس طرف جا رہا ہے، گرین بیلٹ کہاں ختم ہو رہی ہے، کہیں ایک برگد کا درخت ہے اور اس کے نیچے مزار ہے، کہیں ایک کھیل کا میدان نظر آ رہا ہے اور وہ سامنے ہاں وہی سامنے والا گیٹ ہے جہاں سے میں اندر داخل ہوا تھا۔ اور اس گیٹ پر تعینات سیکیورٹی گارڈ، ان کی نیلی وردیاں اور ان سے دس فٹ کی دوری سے ہی آتا ہوا سگنل کہ "پرے ہٹ کے"۔ اس پہلے دن کی ہر بات، ہر منظر جو بہت مختصر مدت کے لیے میرے اندر جی کر اب کسی حنوط شدہ ممی کی طرح ذہن کے کسی تہہ خانے میں محفوظ ہے، آج اتنی مانوسیت ہونے کے باوجود میں اس اجنبیت بھرے احساس کو بہت مِس کرتا ہوں۔

گجرات بہت چھوٹا سا شہر ہے۔ ان گزرے مہینوں میں بہت حد تک اس شہر کا مزاج آشنا ہو چکا ہوں۔ راستوں کی اونچ نیچ میرے دماغی سکیما (schema) میں فِٹ ہو چکی ہے۔ اندرونِ شہر کی چھوٹی گلیاں، کھانا کھانے کے چند ایک مخصوص سپاٹ، چند بڑی سڑکیں، ایک لاری اڈا جہاں سے ہر ہفتے دو بار آنا جانا ہوتا ہے، کچہری چوک، جیل چوک، لاہور اور اسلام آباد جانے والی جی ٹی روڈ سب کچھ ایک روٹین بن چکا ہے۔ اور آج پہلی بار لگ رہا ہے کہ اس روٹین کے دن گِنے جا چکے ہیں۔ بہت جلد یہ روٹین بھی استعمال شدہ کپڑوں کی طرح کسی نچلے خانے میں رکھ دی جائے گی۔

میں لوگوں سے، شہروں سے اور راستوں سے اتنی جلدی بے تکلف نہیں ہوتا۔ کوشش ہوتی ہے کہ ان سے بس کترا کر، دور دور رہ کر، بس کام کی بات کر کے چلا جاؤں، دور ہو جاؤں۔ اجنبیت برقرار رہے، دوری قائم رہے، وہ جو عدم مانوسیت کی وجہ سے ایک سرد مہری ہوتی ہے وہ ختم نہ ہونے پائے۔ اس سے مجھے تحفظ کا احساس ہوتا ہے، جیسے کسی جنگجو کو آہنی لباس کے پیچھے ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ میں کتراتا ہوں، بچتا ہوں، اس سب سے چونکہ مجھے پتا ہے کہ اگر قربت بڑھی، اجنبیت کی خندق کو مانوسیت کی مٹی نے پاٹ دیا تو احساسات پیدا ہوں گے، سوچنے کے مواقع ملیں گے، اجنبی خوامخواہ اندر آن گھُسے گا۔ اور جب کوئی اندر فروکش ہو جائے تو اسے دیس نکالا دینا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہ نکلنے پر آمادہ ہو بھی تو اس عمل میں ہونے والی تکلیف بہت شدید ہوتی ہے جسے برداشت کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔

اسی لیے میں اجنبیوں سے بے تکلف نہیں ہوتا، چاہے ہو لوگ ہوں،  شہر ہوں یا راستے۔ مجھے پتا ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن میرے مقدر کا چکر مجھے کہیں اور لے جائے گا۔ یہ سب وہیں رہ جائیں گے، اپنی اپنی جگہ پر اور میں کہیں اور دربدر ہو جاؤں گا، لیکن میرے سامان میں اضافہ ہو جائے گا۔ ایک خلاء جو کبھی پورا نہیں ہو گا۔ ایک سلو پوائزن جیسا میٹھا احساس، ایک کسک، ایک پھانس جو ہمیشہ کے لیے میرے دل میں چبھ جائے گی۔ میرے سامان میں ایک گٹھڑی ان یادوں کی شامل ہو جائے گی جو میں نے اس شخص، اس شہر اور اس راستے کی معیت میں گزارے۔ اور میرے وجود کا ایک ٹکڑا وہیں کہیں رہ جائے گا۔ میری روح کا ایک حصہ قیامت تک اس کے طواف کے لیے وقف ہو جائے گا۔ میں کچھ اور کم ہو جاؤں گا، اور میری یادیں کچھ اور وزنی ہو جائیں گی۔ اسی لیے میں اجنبیوں سے بے تکلف نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔