ہفتہ، 15 اپریل، 2017

گزارش

میرے سامنے کچھ تصویریں ہیں۔
ایک سوختہ انسانوں کی ہے, نیچے کچھ لکھا ہے۔
کچلے جسموں والے دو کمسن بچوں کی تصویریں ہیں۔
اور ایک بے لباس لاشہ ہے۔
اور پھر جملے ہیں۔ چھوٹی بڑی طوالت کے لاتعداد جملے ۔ اگر مگر کرتے جملے، ثابت کرتے اور رد کرتے جملے، دھمکی دیتے اور شرم دلاتے جملے ۔
اور پھر میں ہوں، خالی الذہن، اس سب کی فہم و تشریح سے قاصر۔ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر۔ تصویروں، جملوں اور تبصروں میں پیش کردہ نتائج کو قبول یا رد کرنے سے قاصر۔
اس سب میں ایک نام، ہاں ایک نام بار بار آتا ہے، اور اس نام پر میرے اندر تک ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔
میرے نبی جی ﷺ کا نام آتا ہے۔ جب اُن ﷺ کا نام آتا ہے تو میرے لب اللہم صل علی محمد و اٰل و اصحابِ محمد میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بس اس سب میں ایک یہ وقفہ ہے جب مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے۔
میں کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟ 
بس جب ان ﷺ کا نام آتا ہے۔ تو لبوں سے اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد، و علی اٰل و اصحاب سیدنا و مولانا محمدنکلتا ہے۔
لرزتے لبوں سے اس سے آگے کچھ نہیں کہا جاتا۔ 
اس کے علاوہ کچھ نہیں سُوجھتا، یوں جیسے چار دیواری ہے اور میں اس میں مقیّد۔ عجب بے بسی ہے ، عجب بے کسی ہے، عجب تنہائی ہے۔
اپنی کھڑی کی گئی دیواروں کا قیدی ہوں، نیلی چھتری والے کا شکر ہے کہ ا س نے رحمت اللعالمین ﷺ کی صورت میں اپنی رحمت سے نواز رکھا ہے۔ بس انہیں ﷺ کا آسرا ہے۔
انہیں ﷺ کے آگے عرض گزاری ہے۔
مولاﷺ آپ کی گلیوں کے کُتے بھی مجھ سے افضل۔
مولا ﷺ یہ رذیل، کمینہ، یہ گھٹیا آپ کی اُمت میں سب سے کمزور ایمان ۔
مولاﷺ آپ کے آگے عرض گزار۔
مولاﷺ صبر ختم ہونے لگا ہے۔
مولا ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے
مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر ۔۔۔
مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر کیا کیا کچھ کرنے لگی ہے۔
مولا ﷺ آپ کے عاشق۔۔۔۔۔۔
مولاﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے
مولا ﷺ اپنے کرم کی نظر کیجیے
مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں۔۔۔۔
مولاﷺ آپ کے سوا کون ہے۔۔۔۔۔
مولا ﷺ نیلی چھتری والے سے سفارش کیجیے
مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے آقا و مولا ہیں
مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے مائی باپ ہیں
مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد 
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد

پیر، 10 اپریل، 2017

پیار کا آخری شہر

زمانہ حاضر کےمارکو پولو، البیرونی لیکن عموماً ال اندرونی (یعنی بیشتر وقت کمرے میں رہنے والی مخلوق یعنی ہم) نے اپنے ملک کے عظیم سیّاح، لکھاری اور دانشور جناب بابا مستنصر حسین تارڑ جٹ کی اقتداء میں یورپ کی سیاحت، جہاں گردی وغیرہ وغیرہ کا ارادہ فرمایا تو اس مرتبہ نظرِ انتخاب پیرس پر اور طلبہ کے "تفریحی" دوروں کا بندوبست کرنے والی ایک ایجنسی پر پڑی۔ مابدولت نے پاکستانیوں کی آفاقی عادت کے عین مطابق کچھ احباب کو بھی ساتھ گھسیٹ لیا تاکہ ہم پھنسیں تو ان کے پیچ بھی کسیں۔ اگر شومئی قسمت انجوائے منٹ کا ایک آدھ کلو ان کی قسمت میں آ جائے تو اس میں حصہ داری کر کے ہر ممکن حد تک ورچوئل "شریک" (یہاں ابرار کا گانا شریکاں نوں اگ لگدی گنگنانے سے معنی و معرفت کے نئے جہان کھلنے کا امکان پایا جاتا ہے) ہونے کا ثبوت دیا جا سکے۔

ایک دوست (جو سیانے واقع ہوئے ہیں) عین موقع پر ود ڈرا کر گئے چنانچہ بقیہ آوارہ گردانِ ملت نے سفر جاری رکھا اور بھاگم بھاگ بس پکڑی جس نے علی الصبح انہیں پیرس ڈیلیور کرنا تھا۔ تو جناب سفر شروع ہوا، اور جیسا کہ ہر سفر کے شروع میں ہوتا ہے، کئی ماہ کی جمع شدہ باتوں کی ٹنکی سے پانی دھڑا دھڑ بہتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ نل پر چشمے کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ  نل واسا کا نل بن جاتا ہے، تھکن اور نیند غلبہ پا لیتی ہے، تو ایسے ہی یہ سفر بھی شروع ہوا۔ جرمنی سے بیلجیئم اور پھر فرانس میں صبح سویرے ایک نخلستان (یہاں پٹرول پمپ پڑھا جائے) میں چہرے کی مرمت اور دیگر متعلقہ امور کی انجام دہی کے بعد دونوں بسوں نے صبح ساڑھے سات بجے "مال" آئفل ٹاور پر لا پھینکا۔ اور پھر حسبِ رواج عوام نے چڑھتے سورج کی مخالف سمت میں انھّے وا کالی تصاویر بنائیں جن میں ازقسم سیلفی، ویلفی، اکلوتی، گروپی اور کہیں کہیں آئفل ٹاور اور اس کے اطراف کو بھی شرفِ عکس بندی سے نوازا گیا تھا۔  اور آخر میں آئفل ٹاور کی قدم بوسی کی نشانی کے طور پر وہاں سے کچھ بچہ آئفل ٹاور خریدے گئے جن میں چابیاں ڈال کر آئندہ زندگی آئفل ٹاور کی یاد میں گزاری جائے گی۔

تصاویر بنانے کی آدھ گھنٹے کی رخصت کے بعد "بچوں "کو دوبارہ بسوں میں ٹھونس کر پیرس کا مفت ٹور کروایا گیا۔ ساتھ ناشتے کے نام پر دو دو سانپ نما ڈبل روٹیاں پیش کی گئیں جن کے بعد عوام کا عام خیال پیرس کی بجائے نیند کی طرف منتقل ہوتا چلا گیا۔ فرنچ جرمن خاتون گائیڈ کی انگریزی اور کہیں کہیں زبردستی گھُس آنے والی جرمن کبھی کبھی ناشتے کے خمار جو ناشتے سے زیادہ رات بھر کی تھکن کا کمال تھا، کو چیرتی ہوئی کانوں میں گھُس جاتی۔ ایسی ہی ایک ٹِپ "پِٹّی پےَلی" (چھوٹا محل) کا تعارف تھا، جہاں خاتون کے بقول کوئی مفت نمائش وغیرہ لگی ہوئی تھی یا لگی رہتی تھی۔ چنانچہ جہاں جہاں جس جس کو جو جو کچھ یاد رہا سب نے ذہنی نوٹس بنا لیے تاکہ بس سے اُتر کر دماغ کونیند کے چنگل سے چھڑانے کے لیے کچھ لالی پاپ ملے رہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کے نیند آور ٹور، اندرونِ شہر پیرس کے چند کلومیٹر کے علاقے میں کئی ایک چکروں، دریائے سَین کے متعدد نظاروں اور پُلوں، اگلے دن ہونے والی پیرس میراتھن ریس کے درجنوں تذکروں اور کچھیاں پہنے بابے بابیوں کو دوڑ کی تیاری میں سویرے سویرے سڑکوں پر ہانپتے دیکھنے کے دوران ہی کسی وقت ٹور ختم ہو گیا۔ ہمیں نقشے اور رہنما کتابچے پکڑائے گئے اور رات ساڑھے گیارہ اسی جگہ دوبارہ جمع ہونے کی تلقین کر کے خداوندانِ ٹور نے بسیں خالی کروا لیں۔ اس کے بعد غریب الوطن تھے، اور غریب الوطنوں جیسے ہزارہا اور سیاح جن پر آج کے دن ان سڑکوں پر رُلنا اور ان دیواروں سڑکوں درختوں مجسموں پُلوں اور از قسم دیگر "وں" کا نظارہ فرض کر دیا گیا تھا۔ 

ابتدائی فوٹو گرافی کا شوق پورا ہو چکا تھا۔ آئفل ٹاور جو تصویروں میں کسی مسجد کے مینار جتنا ہی لگتا ہے قریب سے دیکھنے پر دیو قامت عمارات کا کزن ثابت ہو کر ہم پر رعب جما چکا تھا، لیکن اب نکوٹین کی طلب اور دیگر جسمانی ضرورتیں پوری کرنے کا تقاضا ان احساسات کو بُلڈوز کر رہا تھا۔ چنانچہ کسی ریستوران کی تلاش شروع ہوئی جہاں ترجیحاً بیت الخلاء کا فرانسیسی ورژن دستیاب ہوتا، کچھ پوچھ تاچھ کے بعد ایک ڈرگ سٹور سے مساوی داموں میں کافی پینے اور پہلے سے نوش کردہ مائعات نکالنے کا اہتمام کیا گیا اور پھر خاتون گائیڈ کے مشوروں کی روشنی میں اگلا لائحہ عمل طے کیا گیا، خلاصہ جس کا یوں تھا کہ چلا جائے اور چلتے رہا جائے۔ تو پھر چلنا شروع ہوا، تصویر کشی جاری رہی۔ محرابِ فتح سے شانزے لیزے پر چلتے چلتے پیرس کے نظاروں سے آنکھیں گرم ٹھنڈی کرتے ہم، جو آوارہ گرد ہونے کے شدّت سے خواہشمند تھے، اور ہم جیسے ہزاروں جو کچھ ایسی ہی خواہشات رکھتے تھے، اور ان کے درمیان پیرس والے جوہر دو سے بے نیاز اپنے کام نمٹا رہے تھے۔ چلتے چلتے نِکّا محل آ گیا جہاں گائیڈ کے مطابق مُفت بری کی جا سکتی تھی، تو اکثریت رائے سے نمائش دیکھنے کا پروگرام بنایا گیا۔ سیکیورٹی سے گزر کر معلوم ہوا کہ نمائش مفت نہیں، یا یہ جگہ پِٹّی پے لی نہیں، خیر وجہ جو کچھ بھی ہو چار حرف بھیج کر پرانا کام یعنی چلنا پھر سے شروع کیا گیا۔ اور چلتے چلتے بالآخر شانزے لیزے کو رحم آ گیا، کہ بائیں طرف کچھ باغات سے نظر آئے جہاں بنچ لگے تھے اور دھوپ تھی اور آرام کا موقع تھا، تو عوام نے یا تھکن نے یا فریاد کُناں ٹانگوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کھایا جائے۔ چنانچہ معروف ریستورانوں کے جھرمٹ میں سامنے پبلک بنچ پر بیٹھ کر گھر سے پکا کر لایا گیا چکن پکوڑا کھایا گیا اور فیس بُک پر شریکوں کو ساڑنے کے لیے قُرعہ اندازی سے ایک ریستوران کو "چیک اِن" کے لیے چُنا گیا۔ لنچ ختم ہونا تھا ہو گیا، دن البتہ وہیں تھا اور پیرس بھی باقی تھا، چنانچہ پھِر سےسڑکیں تھیں اور ان پر کچھ تردد سے چلتی ٹانگیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔