جمعہ، 25 جون، 2010

میونسپل کارپوریشن کی سڑک کا لائف سائیکل

آج تک بادلوں کا چکر، آکسیجن کا چکر اور ہائیڈروجن کا چکر پڑھتے آئے ہیں۔ آئیے آج آپ کو میونسپل کارپوریشن کی بنائی گئی سڑک کی زندگی کا چکر دکھاتے ہیں۔
  • پتھر ڈالا جاتا ہے، یا تو پہلی سڑک بس ہوچکی ہے یا وہاں سڑک سرے سے تھی ہی نہیں۔
  • پتھر ڈالنے کے بعد اس پر بلڈوزر پھیرا جاتا ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک، کئی بار یہ کچھ عرصہ مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے، یہ پتھر یونہی رہتا ہے آخر ایک دن کول تار کے ڈرم، لکڑی اور گرم کول تار پھینکنے والی ایک مشین مع مزدور کہیں سے نمودار ہوتی ہے۔ پتھروں کو تیسی (ایک آلہ) سے کھرچا جاتا ہے اوپر کی مٹی الگ کرکے ان پر گرم کول تار کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے اور کول تار ملی بجری پھینک کر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ لیول کا خیال نہیں رکھا جاتا، اونچ نیچ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ مقصد بس پتھروں پر بجری کی تہہ بچھانا ہوتا ہے۔ اور اگر "کارپٹ" روڈ بنانی ہو تو گرم گرم تازی تازی سڑک پر کاربن بچھا کر ایک بار اور بلڈوزر گزار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سڑک فرش کی طرح ملائم ہوجاتی ہے۔
  • دو تین دن میں یہ کام مکمل ہوجاتا ہے اور پھر سڑک چلنے لگتی ہے۔ محلے کے بچے اس کارپٹڈ یا سادہ روڈ پر دوڑتے بھاگتے ہیں، کرکٹ کھیلتے ہیں، سائیکل سے کرتب دکھاتے ہیں ریس لگاتے ہیں۔ موٹر سائیکل اور دوسری گاڑیاں اب زیادہ سپیڈ سے گزرنے لگتی ہیں۔
  • چند دن محلے والے اس سب کو برداشت کرتے ہیں اس کے بعد سڑک پر سپیڈ بریکر کھڑے ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر دوسرا گھر اپنی مدد آپ کے تحت سیمنٹ بجری لا کر ایک "مناسب" سا سپیڈ بریکر بنا دیتا ہے۔ چناچہ اب گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کو ہر چند میٹر کے بعد بریک لگا کر گاڑی آہستہ کرنی پڑتی ہے۔ کچھ چالاک سائیکل اور موٹرسائیکل والے سپیڈ بریکرز کی سائیڈوں سے نکال لے جاتے ہیں لیکن یہ چالاکی چند دن ہی چلتی ہے۔ یا تو سپیڈ بریکر کی سائیڈیں بھی مزید سیمنٹ بجری سے بھر دی جاتی ہیں یا وہاں پتھر یا اینٹیں رکھ دی جاتی ہیں۔ دوسری صورت میں ایک مسلسل کشمکش چل پڑتی ہے، سائیکل سوار ان کو آگے پیچھے کرکے گزرتے رہتے ہیں اور محلے دار ان پتھروں کو سیدھا کرکے لگانے میں لگے رہتے ہیں۔
  • سڑک ابھی قابل استعمال ہے چونکہ ابھی بارش نہیں ہوئی یا کسی کا مکان بننا شروع نہیں ہوا لیکن ایسا بہت دیر تک نہیں رہے گا۔ ایک دن بارش ہوگی اور سڑک کے زیریں حصوں اور اطراف میں پانی کھڑا ہوجائے گا۔ چند ایک دفعہ کی بارش کے بعد وہاں گڑھا نمودار ہوجائے گا جو بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ پانی کھڑا ہونے کا تیزرفتار ذریعہ گٹر کی بندش بھی ہے۔ گٹر بند ہوگیا تو نئی سڑک کا ستیا ناس ہو گیا، دس دن میں سڑک ایسے ادھڑ جائے گی جیسے پرانی رضائی  کا حال ہو جاتا ہے۔
  • اسی کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی پرانی مکان یا تو ترمیم و اضافہ کی سٹیج پر آجاتا ہے یا پھر اس کے مکینوں کے پاس اتنے پیسے آجاتے ہیں کہ ڈھا کر نیا بنائیں۔ چناچہ مکان دوبارہ بنتا ہے اور ساتھ سیوریج کا پائپ بھی دوبارہ ڈالا جاتا ہے (گھر سے مین ہول تک)۔ چناچہ سڑک پر ایک لمبا چیرا لگ جاتا ہے۔ کبھی اس چیرے کو سیمنٹ بجری سے بھر دیا جاتا ہے لیکن یہ سیمنٹ بجری چند ماہ کے بعد ہی اڑنے لگتی ہے اور چیرا ظاہر ہوجاتا ہے۔ کبھی اس عمومًا ترچھے چیرے پر ایک عدد نیا سپیڈ بریکر بنا دیا جاتا ہے جو دوہرا کام کرتا ہے، سپیڈ بھی کم کراتا ہے اور چیرے کی بدصورتی بھی چھپاتا ہے۔
  • مکانوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون، واسا اوراسی قبیل کی دوسری کمپنیوں کو ترقیاتی کام یاد آجاتے ہیں چناچہ سڑک بننے کے ایک آدھ سال میں ہی یہ کھودی جاچکی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ کھدائی ایک سائیڈ سے ہوتی ہے لیکن جہاں سے سڑک پار کرنی ہو، وہاں پر نشان ساری عمر کے لیے رہ جاتا ہے کہ یہاں سے فلاں کمپنی کے مزدوروں نے سڑک پار کی تھی۔
  • سڑک اب سال بھر پرانی ہوچکی ہے۔ ایک آدھ برسات سہ چکی ہے اور کئی ایک بار گٹر کی بندش بھی، کئی مکان بن چکے ہیں اور واسا بھی ایک بار نظر کرم کرچکا ہے۔ سڑک کا اپنا میٹریل بھی جواب دیتا جا رہا ہے چناچہ گڑھے نمودار ہو رہے ہیں، پہلے سے موجود وسیع ہو رہے ہیں اور سڑک کا پتھر ننگا ہورہا ہے۔ 
  • اگر کارپوریشن کے پاس فنڈ ہوا تو اگلے ایک آدھ سال میں ان بننے والے گڑھوں کو پر کرنے کے لیے بجری آجائے گی ورنہ یہ وسیع ہوتے جائیں گے۔ اور ہر بارش کے بعد ان کی چوڑائی اور گہرائی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ایک وقت یہ آئے گا کہ محلے والوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے گا اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت سڑک بنانا شروع کر دیں گے۔ ری سائیکلنگ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے نوتعمیر شدہ مکانوں کا ملبہ سڑک کے گڑھوں میں ڈالا جانے لگے گا۔ اور چند ماہ میں سڑک جو کچھ نہ کچھ ہموار تھی اب سطح مرتفع پوٹھوہار کا منظر پیش کرنے لگے گی۔ اس پر سائیکل، موٹرسائیکل چلانا عذاب بن جائے گا چناچہ سائیکل موٹرسائیکل والے متبادل راستے ڈھونڈیں گے۔ کاریں وغیرہ اوکھی سوکھی چلتی رہیں گی اور وقت گزرتا رہے گا۔
  • حکومت بدلے گی یا فنڈ آئیں گے تو اس سڑک کا کسی کو خیال آجائے گا اور دوبارہ سے اس کی تعمیر شروع ہوجائے گی۔ ٹریکٹر آئیں گے جو سڑک پر دبائے ہوئے گھروں کے ملبے کو اکٹھا کریں گے اور ٹرالیاں اٹھا کر شہر سے باہر پھینک آئیں گی۔ چھ انچ سے دس انچ تک پتھر ڈالا جائے گا، بلڈوزر پھرے گا اور پھر بجری کا لیپ ہوگا۔ ایک اور سڑک بن جائے گی، پھر سے ٹوٹنے کے لیے۔
  •  یہ سارا چکر تین سال میں اوسطًا پورا ہوجائے گا اور ایسے چار یا پانچ چکروں یعنی قریبًا بیس سال بعد نئے بنے مکان، جو تعمیر کے وقت کئی فٹ اونچے رکھے گئے تھے، سڑک کے برابر آجائیں گے یا چند انچ بلند رہ جائیں گے۔ مکینوں کو احساس ہونے لگے گا کہ مکان نیواں ہونے لگا ہے اور برسات میں پانی اندر گھس آیا کرے گا۔ چناچہ مکان کی دوبارہ تعمیر کے منصوبے بننے لگتے ہیں۔ مکان پھر تعمیر ہوتے ہیں اور سڑک پر پھر چیرے لگا جاتے ہیں۔
  • اور یہ چکر چلتا رہتا ہے۔
کیسا لگا پاکستان میں سڑکوں کی زندگی کا چکر؟

پیر، 21 جون، 2010

اشکے وئی اشکے

لو جی ساڈی گورمنٹ نوں وی چےتا آگیا کہ بجلی بچانی اے۔
اسلام آباد ‘ ملک میں توانائی بچاؤ پروگرام کے تحت تمام موبائل فون ٹاورز اور بل بورڈز( برقی سائن بورڈز) کو واپڈا سپلائی سے ختم کر کے شمسی توانائی کے ذریعے برقی سپلائی حاصل کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ’’’توانائی بچاؤ پروگرام‘‘ ہدایات جاری کی ہیں جن کے تحت تمام موبائل ٹاورز فون اور بل بورڈز(برقی سائن بورڈز) کو واپڈا سپلائی سے ہٹایا جائے اس حوالے سے تمام بل بورڈز اور موبائل فون ٹاورز کے مالکان کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ اپنی برقی سپلائی کو 30 جون 2010ء سے پہلے شمسی توانائی کے ذریعے حاصل کرنے کے اقدامات کر لیں اور 30 جون 2010ء کے بعد ان تمام بل بورڈز اور موبائل فون ٹاورز جو بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی سپلائی پر چلتے ہوئے پائے گئے ۔ ان کی بجلی کی منقطع کر دی جائے گی ۔
سورس
30 جون تک ملک وچ موجود سیکڑاں موبائل فون دے کھمبے شمسی توانائی تے ہوجاون گے۔
تہاڈا کی خیال اے؟

جمعہ، 18 جون، 2010

برساتی کیڑے

جِداں مینہ ورن توں بعد دھرتی وچون کیڑے مکوڑے نکل آندے نیں کجھ اینج دا حال اج کل فیس بُک تے لگن والے ڈرامے توں بعد انٹرنیٹ تے وے۔ 2006 وچ جد اے ڈرامہ پہلی واری لگیا سی تے لوکاں یورپی ملکاں دیاں چیزاں دا بائیکاٹ کیتا سی۔ کوکا کولا تے یپیسی وی ایسے چکر وچ آگیاں تے یار لوکاں کوکا کولا تے پیپسی تے مقابلے تے مسلم کولے بنا لئے۔ اپنے ایک پچھلے بلاگ وچ ایہو جئیے کولیاں دا حشر تہانوں دسیا سی۔ کجھ اے ہو ای حال ہُن انٹرنیٹ تے نیٹ ورکنگ سائٹاں دا اے۔ مسلماناں دے مذہبی جذبات نوں چھیڑ کے اے لوگ اپنا الو سیدھا کرنا چاہندے نیں۔ فیس بُک دی دشمنی وچ، تے اسلام دی دوستی وچ بہت ساریاں نیٹ ورکنگ سائٹاں بن گیاں نیں۔ کم اوہناں دی وی اوہو ای اے جیہڑا فیس بُک دا اے۔ یعنی مسُلیاں دا ٹیم لنگھاؤ بلکہ ضائع کراؤ۔ گانے، چیٹ، بلاگ تے پتا نئیں کی کی۔ تے نال اپنا ایڈز دا کم چلا کے پیسے کماؤ۔ آخر اللہ واسطے تے کسے نئیں بنایاں اے ویب سائٹاں۔
لیکن سائیں گل اینج اے کہ ہر کوئی اے کم نئیں کرسکدا۔ فیس بُک والے چھ سالاں تو لگے ہوئے نیں تے اج وی فیس بُک نوں ہوکے آجاندے نیں، اونہاں دی سروس ڈاؤن ہوجاندی اے یا کوئی ہور سیاپا پیا رہندا اے۔ تے اے برساتی کیڑیاں ورگیاں ویب سائٹاں جیہڑیاں ہن نکلیاں ہویا نیں تے نکلدیاں آندیاں نیں اینہاں دے حالات بہت ماڑے نیں۔ ایک ویب سائٹ دا حال تہانوں سنانے آں کہ اوتھے ںظامت کنی سوہنی اے۔
maureen.arnuld@yahoo.com
My name is miss prisca I was impressed when i saw your profile today and i will like to establish a long lasting relationship with you. i will like you to reply me through my e mail address (maureen.arnuld@yahoo.com) This is because i dont know the possibilities of remaining in forum for a long time. please If you are interested in knowing more about me, and for me to send you some of my pictures
please reply me back through my email and with your email so that i can contact you you age colour or distance does not matter in a real realationship but love matters a lot
Thanks waiting to hear from you .
cares prisca.
اے میسج سپیم اے جیہڑا مینوں فید فُل بلین تے وصول ہویا۔ چونکہ میں مسلمان آں ایس لئی ایس سائٹ تے رجسٹریشن کرا لئی کہ چلو خیر اے۔ پر ایتھے کرن لئی میرے کول کجھ نئیں سی۔ کرن لئی تے فیس بُک تے وی میرے کول کجھ نئیں ہندا پر اوتھے دو چار لوگ ہندے نیں تے ایویں دس پندرہ منٹ دی نظر مار کے اسیں مُڑ آئی دا اے۔ اج کئی دناں بعد فیدفُل بلین تے گیا تے ایک غیر فید فُل بی بی ولوں بڑا گرمان والا میسج میرا منتظر سی۔ مطلب تے ایس میسج دا اے ہے کہ میرا ای میل ایڈریس لیا جاوے، پر تساں اے ویکھوں کہ اینہاں ویب سائٹاں دا معیار کی اے۔ اج توں پنج سال پہلاں وی میرے کولوں مسلم کولا نئیں سی پیتا گیا تے اج وی میرے کولوں اے دیسی فیس بُکاں نئیں ہضم ہونیاں۔ میں تے فیس بُک تے ای چنگاں۔
اج توں آوازِ دوست اردو تے پنجابی دو زبانی بلاگ ہووے گا۔ سجن نوٹ کرلین۔ امید ہے تہانوں میری اردو ملی پنجابی سمجھ آجائے گی۔ میرے اُتے جنہاں اردو دا حق اے اوس توں بہتا میری ماں بولی دا حق اے۔ اردو لئی تے ساری دنیا کم کردی اے پنجابی ول کوئی سُکے منہ وی نئیں ویندا۔ تبدیلی ایک بندے توں چلدی اے تے میں فیر اپنے تھاں کم شروع کیتا۔ اگر تہانوں کوئی دکھ درد ہے پنجابی دا تے پنجابی لکھو، پنجابی بولو، تے اپنے بچیاں نوں پنجابی سکھاؤ۔ ورنہ پنجابی لگی جاندی جے۔

ڈھُڈی والا مینشن

ڈھُڈی والا مینشن۔۔۔۔۔ ایک پُراسرار عمارت
ڈھُڈی والا مینشن۔۔۔۔۔۔ جہاں عمران کُتے خصی کرتا پہنچ گیا
ڈھُڈی والا مینشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں عمران نے لالہ چمپت رام کے بھوت سے ملاقات کی
ڈھُڈی والا مینشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے دیکھ کر جوزف نے بھی اس عمارت کے منحوس ہونے کا اعلان کردیا
عمران۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے ڈھُڈی والا مینشن کو نحوست سے پاک کرنے کی قسم کھالی
لیکن عمران وہاں گیا تو؟
ڈھُڈی والا مینشن کی جگہ ارشد چٹھہ میموریل سکول کی عمارت قائم ہوگئی تھی
ڈھُڈی والا مینشن کہاں گیا؟
عمران نے سلیمان کی منتیں کیں۔۔۔ کیوں؟
آخر کار سلیمان کے مرشد نے بتایا کہ ڈھُڈی والا مینشن غائب نہیں ہوئی بلکہ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید جاننے کے لیے آج ہی خریدیں۔ عمران سیریز کا خاص نمبر شائع ہوگیا ہے۔ شہر آفاق مصنف جناب ایم اے شاکر کی ایک اور تہلکہ خیز تصنیف
آج ہی اپنے ہاکر سے طلب فرمائیں۔ 

منگل، 15 جون، 2010

یاہو پروٹوکول اوپن

یاہو اپنے میسنجر پروٹوکول کو اوپن کرنے جارہا ہے۔
اس سے لینکس والوں کا بہت بھلا ہوگا۔ پجن جیسے میسنجر آڈیو اور ویڈیو چیٹ کی سہولیات شامل کرسکیں گے۔ یاہو کی وائس چیٹ سب سے زیادہ مس کرتا ہوں لینکس پر۔  

پیر، 14 جون، 2010

ہائے تھیسز

ہمارے سر سنایا کرتے ہیں کہ جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں تجربات کے بعد نتائج کو سگنیفیکنٹ significant ایسے بنایا جاتا ہے کہ شماریات کے فارمولے لگائے جاتے ہیں اگر فرق قابل ذکر نہ ہو تو پیچھے سے آواز آتی پے پُتر سگنیفیکنٹ کر ہور۔ اور اس کام کے لیے فریکوئنسی بڑھا دی جاتی ہے۔ اور یہ اس وقت تک بڑھائی جاتی رہتی ہے جب تک نتائج اصلی تے وڈے نہ ہوجائیں۔ چناچہ ایسے ہی ایک دفعہ کپاس کے پودوں کے اگاؤ وغیرہ پر کی گئی ریسرچ کے نتائج اتنے سگنی فیکنٹ تھے کہ ریسرچ میں سامنے آنے والے پودوں پر پھولوں کی تعداد جو 52 بنتی تھی، عملی طور پر کسی بھی پودے پر ممکن نہ تھی۔ اتنے پھول پودا سہار ہی نہیں سکتا۔ لیکن یار لوگوں نے ریسرچ میں یہ نتائج "نکالے" اور زبردستی نکالے۔
صاحبو ریسرچ بڑا اوکھا کام ہے ناک سے لکیریں نکلوا دیتی ہے یہ رسرچ۔ آج کل ہم جوگی ہوئے ہوئے ہیں، کن پڑوائے بغیر ہی جوگی۔ اور جوگن ہمارا تھیسز ہے۔
تھیسز تھیسز کردی نیں میں آپے تھیسز ہوئی
ہمارا ڈیٹا اینالیسس فیز چل رہا ہے لیکن دو ماہ سے چلے ہی جارہا ہے۔ کارپس پر مشتمل یہ ریسرچ پاکستانی اور برطانوی انگلش میں دو مونہے افعال (Ditransitive Verbs) کا موازنہ ہے۔ دومونہے ہم نے ابھی ایجاد کیا ہے لیکن امید ہے اردو وکی پیڈیا پر اس کا بڑا عالمانہ قسم کا ترجمہ موجود ہوگا فارسی کے تڑکے کے ساتھ۔ خیر یہ تو ایک پنجابی والی چُونڈی تھی۔ ریسرچ بڑا اوکھا کم ہے سائیں۔ ابھی 3 گھنٹوں سے صرف فریکوئنسیاں ہی نکال رہا ہوں اور دماغ لسی ہوگیا ہے۔ ابھی اس کام کے لیے میں اپنے ذاتی تیار کردہ سافٹویر استعمال کررہا ہوں۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نیم حکیم خطرہ جاں۔ تو جو کام میں سافٹویر سے اتنی دیر لگا کر، بار بار ڈی بگ کرکے، غلطیاں نکال نکال کر کرتا ہوں وہ شاید ہاتھ سے جلدی ہوجاتا۔  ;-D شاید نا ہو۔ چلو دل کو ڈھارس تو ہے کہ "جلدی" ہورہا ہے۔
میں اصل میں ٹیکسٹ پروسیسنگ کرتے ہوئے ریگولر ایکسپریشنز پر بہت انحصار کرتا ہوں۔ لالچ یہ ہوتا ہے کہ کام جلدی ہوجائے گا لیکن کام خراب بھی ہوجاتا ہے اور اکثر ہوجاتا ہے۔