ہفتہ، 28 فروری، 2009

ایس ایم ایس

پاکستان میں اس وقت کم از کم پانچ موبائل فون کمپنیاں فعال ہیں اور جدید ترین خدمات فراہم کررہی ہیں. ملک کی آدھی کے قریب آبادی موبائل فون استعمال کررہی ہے. ہمارے میڈیا کے اشتہارات کا اچھا خاصا حصہ ان پانچ کمپنیوں کے اشتہارات پر مشتمل ہوتا ہے. ہر روز کوئی نیا پیکج اور ہر روز کوئی نئی آفر. یہ کردیا وہ کردیا وغیرہ وغیرہ.
ان کمپنیوں کی فراہم کردہ خدمات میں سے ایک ایس ایم ایس یعنی شارٹ میسنجنگ سروس ہے. ایس ایم ایس کے بارے میں کئی سال پہلے گلوبل سائنس میں پڑھا تھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہر وقت آنلائن رہ کر پیغامات وصول کرسکیں. خیر اس کا مقصد جو بھی آج کل یہ پاکستان میں انّھے وا استعمال ہورہے ہیں. لطائف سے لے کر مرے ہوئے شعرا بشمول فراز کی خوب مٹی پلید کی جاتی ہے.
ایک ایس ایم ایس، اگر آپ کے پاس کوئی پیکج نہیں، تو قریبًا سوا روپے میں پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس پیکج ہے جیسا کہ قریبًا ہر کمپنی دے رہی ہے تو آپ کو یہی ایس ایم ایس دس، بیس، تیس پیسے اور ایک پیسے سے بھی کم میں پڑتا ہے۔ لیکن اس سارے میں جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ بہت سادہ سا ہے۔ آپ پیکج کروائیں کمپنی کو مخصوص رقم ادا کریں۔ اور اس کے بعد مخصوص مدت کے لیے ایس ایم ایس کی مخصوص تعداد آپ کی ہوئی۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ایس ایم ایس کام کے لیے نہیں تفریح بلکہ وقت ضائع کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر ماہانہ سو کے قریب ایس ایم ایس کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے پہلے پہل ایس ایم ایس کرنے سے پرہیز کی کوشش کی لیکن دوست احباب کے طعنے، ہم جماعتوں کے جائز استفسارات کے جواب (چونکہ میں کلاس کا سی آر ہوں) اور کئی ایسے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے مجھے اس طرف آنا ہی پڑا۔ اب حال یہ ہے کہ ہر ماہ میرا سو کے قریب روپیہ ان پر لگتا ہے۔ اور پھر مجھے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ایس ایم ایس اتنے رہ گئے ہیں انھیں ختم بھی کرنا ہے۔ چناچہ میں نے جہاں ایک کرنا ہو وہاں تین چار بھی کردیتا ہوں۔ اب ان کو ختم بھی تو کرنا ہے کا سوچ کر۔
میرا سوال اتنا ہے کہ اگر ایس ایم ایس اتنا سستا ہوسکتا ہے جیسا کہ ان پیکجز کے ذریعے ہے تو اس کو مناسب ریٹ پر لاکر نارمل پیکج میں شامل کیوں نہیں کردیا جاتا؟ جس طرح ایس ایم ایس مفت بانٹے جارہے ہیں ،چار روپے کٹوائیں 24 گھنٹے میں 500 ایس ایم ایس آپ کے، اگر اس کو دس سے ضرب دی جائے تو جواب آٹھ پیسے آتا ہے۔ چلیں دس پیسے کرلیں اور ٹیکس ڈال کر پندرہ پیسے کرلیں۔ اگر پندرہ پیسے کا ایس ایم ایس بھی کردیا جائے تو کیا ہے۔
پچھلے دنوں ایک دوست سے چائنہ میں بات ہورہی تھی اس کے مطابق ایک ایس ایم ایس پاکستانی پانچ سے چھ روپے کا پڑتا ہے، کال سننے کے چارجز دینے پڑتے ہیں، روزانہ کے پیسے کاٹے جاتے ہیں جیسے پاکستان میں وائرلس لوکل لوپ والے روز کے پیسے کاٹتے ہیں بطور لائن رینٹ اور جب آپ کا بیلنس ختم تو نمبر بند۔ جب تک دوبارہ لوڈ نہ کریں تو نہ کال وصول سکیں گے نہ اس دوران آیا میسج آپ تک پہنچ سکے گا، کمپنی کے سرور پر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ پاکستان میں اس سے حالات ہزار درجے بہتر ہیں اور اس کی وجہ کمپنیوں کا آپسی مقابلہ ہے۔ لیکن پھر بھی ان کمپنیوں ہمارا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ سیل فون کام کی چیز نہیں فن اور مسخریاں کرنے کی چیز بن گیا ہے۔ کام کے لیے میسج کرنا ہے تو سوا روپیہ اور بے مقصد کرنے ہیں تو جتنے چاہیں۔ بس پیسے کٹواتے جائیں اور جو مرضی حاصل کرلیں مفت ایس ایم ایس سے لے کر انٹرنیٹ کے گھنٹوں کی سستے ترین گھنٹے۔ لیکن اس طرح کہ آپ انھیں استعمال صرف اور صرف وقت ضائع کرنے کے لیے کرسکتے ہیں۔ عجیب سائنس ہے یہ بھی اور اس سائنس نے ہم نوجوانوں کی کیمیا کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کی بے مقصد رات ساری ساری رات گپ بازی اور موبائل چیٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ :roll:

اتوار، 22 فروری، 2009

السان الاروی

آج پجن اور کرئیول کی تلاش کرتے کرتے مجھے اروی مل گئی. صبح ہمارا سماجی لسانیات کا ٹیسٹ تھا اور میں یہ دو موضوعات تلاش کررہا تھا. پجن یعنی ایسی زبان جو کئی زبانوں کا مربہ ہو، جیسے اردو تھی شروع شروع میں. کسی کی بھی مادری زبان نہیں لیکن رابطے کے لیے ضروری. پھر پجن جب مادری زبان بن جائے تو کرئیول ہوجاتی ہے جیسے اردو اب ہے. تو اسی دوران مجھے اروی کا پتا چلا. السان الاروی اصل میں عربی اور تامل زبان سے مل کر بنی ہے. جس کا رسم الخط ہند کی دوسری زبانوں کی طرح عربی بھی ہے اور تامل زبان کے رسم الخط میں بھی اسے لکھا جاسکتا ہے. اس کا رسم الخط اردو کی طرح عربی میں اضافے کرکے بنایا گیا ہے اور اس کے تیرہ حروف جو اصل میں آوازیں بھی ہیں اسی زبان سے مخصوص ہیں. یہ زبان جنوبی بھارت اور سری لنکا کے مسلمان بولتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ عرب سے آنے والے تاجر جو جنوبی بھارت کے ساحلوں اور سری لنکا میں آباد ہوگئے تھے ان کی موجودہ نسلیں یہ زبان بولتی ہیں. لیکن اس زبان کو بھی مٹ جانے کا خدشہ ہے. اس کو بہت کم بولا جاتا ہے، بہت کم مدارس ہیں جو اس زبان کی تعلیم دیتے ہیں یا سری لنکا کی روایتی مسلم فیملیاں اسے استعمال کرتی ہیں.
مجھے اسے دیکھ کر عجیب اپنائیت کا احساس ہورہا ہے. جیسے یہ اردو ہی ہو. لیکن اس کی حالت زار اردو سے بہت بدتر ہے. اس زبان کے ادب کو شائع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی بول چال کو رواج دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی. السان الاروی...کتنا میٹھا نام ہےنا اس کے کچھ الفاظ ..ایسا نہیں لگتا اردو ہی ہے؟
بلا، راحت، شفاء، خیر، تعلیم، شیطان، شرک، طیب، اخلاص، جنازہ، موت، شربت، کتاب، بیت، بیاہ،
وہ جو اردو سے نہیں لگتے مگر عربی النسل ہیں شاید
مصیبہ، وللہی، ساہن، دفس،
ان الفاظ کی رومن فہرست اوپر دئیے گئے وکی پیڈیا کے ربط پر رومن میں دیکھی جاسکتی ہے، میں نے کوشش کی ہے اردو کے قریب ترین الفاظ کو لکھ دوں ان کی جگہ. اس کے 13 مخصوص حروف میں سے بہت سی آوازیں اردو کی بھی ہیں جیسے گ کے لیے ک میں تھوڑی سی تبدیلی کی گئی ہے. تفصیلی نقشہ اسی ربط کے سائیڈ بار میں موجود ہے.

منگل، 17 فروری، 2009

مرجائیں کیا؟

کیا کریں آپ ہی بتا دیں کیا کریں اب؟
سوات میں پھر سے وہی امن معاہدہ کرنا پڑا. جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی.
ہاں فوج اس کو کنٹرول نہیں کرسکی.
ہاں وہاں عام لوگ زیادہ مارے جاتے رہے ہیں.
ہاں وہاں جاسوسی کا سارا سسٹم فیل ہوگیا.
ہاں وہاں اربوں کا نقصان ہوا.
آدھی آبادی ہجرت کرگئی.
باقی آدھی جہنم میں زندگی گزار رہی تھی.
پاکستان کے سوئٹزلینڈ کو جہنم لینڈ بنا دیا گیا.
ہاں وہ گروہ اتنے طاقتور ہیں کہ ان سے آخر کار پھر سے مذکرات ہی کرنے پڑے.
ہاں وہ شریعت جو نافذ ہونے جارہی ہے جو حل کم اور لالی پاپ زیادہ ہے
تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تو کیا کریں؟
مرجائیں کیا؟
مذاکرات نہ کریں کہ جھکنا حکومت کا شیوہ نہیں؟
یا جس شریعت کے نفاذ کی بات کی جارہی ہے وہ شریعت بھی نافذ نہ ہونے دیں. بقول وڈوں کے اس لولی لنگڑی بلکہ اختلاف زدہ اور بلکہ "کونسی" شریعت کو بھی نافذ نہ ہونے دیں؟
سکولوں کو بم دھماکوں میں اڑنے دیں؟
بے گناہوں، ہیرے جیسے جوانوں اور ان جنگجوؤں کو جو بدقسمتی سے ہم میں سے ہی ہیں خاک و خون میں رلنے دیں؟
را، موساد اور سی آئی اے کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے دیں؟
ایک اور مکتی باہنی کھڑی کرلیں؟
کیا کریں...یہ جو میرے وڈے ہیں... یہ جو اتنی باتیں کرتے ہیں کہ یہ کردیا وہ کردیا وہ بتائیں کہ کیا کریں پھر ہم....اب کیا جئیں بھی نا؟؟ اگر یہ سب نہ کریں تو پھر تو مرنا ہی مقدر ہے وہ بھی حرام موت...ڈیرہ غازی خان اور میانوالی تک تو کینسر آگیا ہے لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد تک بھی آجائے گا...کراچی تک تو پہلے ہی پہنچ جانے کا واویلہ مچایا جارہا ہے..تو اس کو بندوق سے ہی حل کرتے رہیں تاکہ جو نہیں بھی صحیح وہ بھی صحیح لگنے لگے.... ہمیں جینے کیوں نہیں دیتی دنیا ایسے بھی اور ویسے بھی... ہر طرف سے گالیاں، طعنے، کوسنے، اختلافات، مفت کے مشورے...ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا..اسلام کے نام پر بیس سال تک جو کھلواڑ اس ملک کے ساتھ ہوتی رہی تو دو سال کے آپریشن سے ٹھیک ہوجائے گی؟ کیسے توقع کرتے ہیں آپ کہ ہر مسئلے کا حل بمباری اور بندوق ہوگا؟ امریکیوں کا تو بنتا ہے کہ وہ آئیں ڈرون سے میزائل گرائیں اور چلے جائیں...لیکن ہم کہاں جائیں جن پر گرائیں وہ بھی اپنے جو گرائیں وہ بھی اپنے ہم پھر بچ کر کہاں جائیں؟؟ کوئی بتائے گا مجھے یہ؟؟ اتنے لمبے لمبے تجزیے، دہشت گردی یہ گردی وہ گردی، انتہا پسندی وغیرہ وغیرہ وغیرہ تو کیا کریں ہم اس کا آپس میں لڑ لڑ ہی مرجائیں اب ہم؟

پیر، 16 فروری، 2009

دعا

میرے مالک میں ایسے کسی بھی وقت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ کسی کی عزت میرے ہاتھ میں ہو اور میں کم ظرف ہوجاؤں۔
میرے مالک میں ایسے کسی بھی وقت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میری عزت کسی کے ہاتھ میں ہو اور وہ کم ظرف ہوجائے۔
بے شک عزت اور ذلت دینے والی تیری ذات مولا۔
تیری ستاری کا واسطہ میرے عیبوں پر پردہ ڈالے رکھیو۔
آمین۔

جمعرات، 12 فروری، 2009

ہمارا نیا نوکیا

ہمارا سونی ایرکس k510i پچھلے دنوں خراب ہوگیا. چلتے چلتے جام ہوجاتا تھا ہم نے مبلغ تین سو روپے دے کر ٹھیک بھی کروایا لیکن پندرہ دن چل کر پھر وہی مسئلہ کرنے لگا. چناچہ ہم نے تنگ آکر اسے بیچ ہی ڈالا.
اب بیچا کیسے... یہ رہنے دیں. مارکیٹ میں دو ہزار تک کا بک سکتا تھا. لیکن ہماری خر دماغی ہم ہر دوکاندار کے پاس جا کر پہلے سیٹ دکھاتے اور پھر یہ بھی بتا دیتے کہ بھائی اس میں یہ نقص ہے اس لیے بیچ رہے ہیں ہم. تو کون لیتا.... اللہ اللہ کرکے ایک بندے نے 1000 روپے کا لیا... اس نے بھی اپنی طرف سے ہمیں جتنا ٹھگا جاسکتا تھا اتنا ٹھگا. اور اس کے بعد گھر سے ہماری ایک بار نہیں کئی بار ہوچکی ہے.... اب تو عادت سی ہے ایسے جینے میں... کہ یہ موبائل ٹھیک کرواکے دوگنی قیمت میں بیچا جاسکتا تھا کس کو پتا تھا کہ یہ پھر مسئلہ کرے گا لیکن ہمارا دل نہ مانا اور بیچنے میں جلدی کی... :neutral:
خیر اس کے بعد کچھ دن والدہ کا سیٹ استعمال کیا اور اب ہم نے آخر کار نیا موبائل لے ہی لیا. پرانے موبائل میں بڑا سکون تھا، 1.3 میگا پکسل کیمرہ، مناسب سی میموری 32 میگا بائٹ، تھیمز، گانے شانے، ریکارڈنگ، اپنی رنگ ٹونز یہ وہ... ہمارا دل پھر کرتا تھا کہ کوئی ایسا سیٹ لیں. چائنہ کاپی سیٹ کے بارے میں سوچا لیکن ادھر اُدھر سے یہ سن کر کہ یہ تو جلد خراب ہوجاتے ہیں بلکہ کبھی چلتے ہی نہیں تو ہم نے اسے لینے کا ارادہ ترک کردیا. پرانا سیٹ لینے سے جی اتنا اکتایا کہ نوکیا کا 1200 ہی لے لیا مبلغ 2300 روپے میں اس دن مارکیٹ سے..

موبائل فون اور کمپیوٹر ڈیسکٹاپ ہو یا لیپ ٹاپ اس کے بارے میں جتنی خواہش کرلیں اتنی ہی کم ہے. ہمیں تو ذاتی طور پر اپنے اندر کی ہوس اسی میں نظر آتی ہے. موبائل ہو اور کِنّا(بہت) سارا ہو. یہ بھی کرسکے، وہ بھی کرسکے، ایسا بھی کرسکے ویسا بھی کرسکے وغیرہ وغیرہ. لیکن ہماری ہوس ہار گئی اور ہم نے نوکیا1200 لے لیا میسجنگ اور کال کرنے کے لیے. نوکیا آپ کی زندگی کی ڈور :grin: وہ مشہوری بار بار یاد آتی ہے. اس میں شک نہیں کہ نوکیا کے سیٹ پائیدار ہوتے ہیں. اب کم از کم ایک سال تو سکون رہے گا کہ سیٹ چل رہا ہے. پیسے آتے ہیں تو کوئی اچھا سیٹ لے لیں گے ایل جی یا سام سنگ گا..لیکن ابھی تو لیپ ٹاپ بھی لینا ہے...ہائے ہماری ہوس :roll:

ہفتہ، 7 فروری، 2009

فنکشن

خلیل جبران کا کہنا ہے کہ آپ کی روحیں اس جگہ پر ہمیشہ منڈلاتی رہتی ہیں جہاں آپ نے زندگی کے پرلطف لمحات گزارے ہوں. یہ ضیاء کے آخری الفاظ تھے جو اس نے فنکشن کا اختتام کرتے ہوئے کہے.
ضیا یعنی ضیاء اللہ بدر بیچلر آف سائنس لنگوئسٹکس اینڈ لٹریچر کا طالب علم، ہمارا سینئیر اور کل رات ہونے والے فنکشن کا آرگنائزر، کمپئر اور پرفارمر.
ٹھہریں ذرا فلیش بیک کرتے ہیں. ایسے آپ کو سمجھ نہیں آئے گی.ہمارے سینئیرز یعنی علاوہ فرسٹ سمسٹر، تمام پروگرامز کے متعلقہ سمسٹرز کے فائنل امتحانات دو فروری سے شروع تھے. ڈیٹ شیٹ بن چکی تھی. ٹیچر پڑھا کر فارغ ہوچکے تھے. پریزنٹیشن اور اسائنمنٹس ہوچکی تھیں کہ اچانک امتحانات کو پندرہ دن کے لیے ملتوی کردیا گیا.
یہ پندرہ دن کا التواء پھر سے زندگی کی نوید لایا اور ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ہی فنکشن کروانے کا اعلان کردیا گیا. شعبے کا سالانہ فنکشن کہہ لیں، ڈنر کہہ لیں یا لٹریری ایوننگ. خیر پھر کیا تھا، پھر دھڑا دھڑ تیاریاں شروع ہوگئیں. پیسے جمع کرنے ہیں، آئٹمز تیار کرنے ہیں، یہ وہ..
اسی دوران ایک عدد نمائش ہونی تھی عنوان "میں کون ہوں" انگریزی میں
Who Am I جس میں آپ کچھ بھی بنا سکتے تھے. اس کو بھی فنکشن کے ساتھ ہی جوڑ دیا گیا. چناچہ ایک جانب تقریب جاری تھی دوسری جانب لوگ اس حصے میں آجارہے تھے جہاں طلباء کے چارٹس، پینٹگز، کارڈز، گڑیاں، سینریاں اور دوسری چیزیں لگی ہوئی تھیں. (ہم نے بھی بنایا تھا ایک چارٹ :oops: . ان اللہ علی کل شیء قدیر کو ہم نے انتالیس فونٹس میں لکھا اوپن آفس میں اور چھ عدد پرنٹ نکال کر چارٹ پیپر پر چسپاں کرلیے. آرٹ کا آرٹ ٹیکنالوجی کی ٹیکنالوجی :grin: )
ہمارا پروگرام ایم ایس سی اپلائیڈ لنگوئسٹکس ہے اور سمسٹر ابھی پہلا. مابدولت کلاس کے سی آر ہیں اور ساتھ میں سینئیر بھی کہ پہلے ایک عدد پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ یہیں سے کیا ہے. ہم نے بھاگم بھاگ ایک عدد نظم لکھی. نظم کیا تھی بس قذاقی اور ڈاکا تھی. ہم نے زاہد فخری کی "کدی تے پیکے جا نی بیگم" کو "کدی تے چھٹی جا نی میڈم" کرلیا. ایک دو الفاظ بدل کر ہم نے سارا مفہوم بیگم سے میڈم اور گھر سے لنگوئسٹکس کے کلاس روم تک پہنچا دیا. خیر یہ تو ہماری ذاتی کہانی تھی. ہماری کلاس....پہلا سمسٹر... سارے بی اے...زندگی میں پہلی بار مخلوط طرز تعلیم میں آمد...یونیورسٹی کے ماحول سے کافی حد تک کم ہوچکی لیکن ابھی بھی باقی اجنبیت ... وغیرہ وغیرہ کے مارے ہوئے.. ہمیں ہمارے سینئرز جو پہلے ہی ڈیڈ سولز (جی مردہ روحیں اردو میں) قرار دیتے ہیں. ہم نے یعنی سی آر صاحب نے زور لگایا یار کجھ کرلو. تہانوں اللہ دا واسطہ نک دا سوال اے. تو اللہ اللہ کرکے ایک عدد ڈرامہ لکھا گیا، تھوڑی بہت پریکٹس بھی ہوئی. (لیکن ہم اس میں نہیں تھے) وقت کی کمی کی وجہ سے آخری وقت میں اسے اڑا دیا گیا.. :roll: اس کے علاوہ ہماری کلاس سے دو اور لوگ گانے میں حصہ لے رہے تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور ... ایک دن میں نے اور باقی لڑکوں نے غصہ کھا کر ایک مزاحیہ سکرپٹ بھی تیار کرڈالا..آئیڈیا زرداری کا توا لگانے کا تھا... لیکن یہ سکرپٹ پھر ہماری ہی عدم دلچسپی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے پیش ہی نہ ہوسکا. ہماری کاسٹ دوسرے ڈرامے میں مصروف تھی، مکالمے جاندار نہ تھے اور ہمارے ڈائرکٹر صاحب کا انداز چھڈ یار قسم کا تھا. سو ہم نے کہا بھاڑ میں جاؤ ہم تو نظم پڑھ دیں گے.
خیر ہم اور میں سے باہر آئیں کہ فنکشن اس سے باہر باہر ہی ہوا. ہمارے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں دو ذیلی شعبے ہیں. لنگوئسٹکس اور لٹریچر. لنگوئسٹکس میں چار کلاسیں بی ایس آنرز کی ہیں جو چار سال کا کورس ہے اور اس میں لٹریچر بھی پڑھایا جاتا ہے مع لسانیات. دو کورس ایک تھرڈ اور ایک فرسٹ ایم ایس سی اپلائیڈ لنگوئسٹکس اورلٹریچر میں چار کلاسیں ایم اے انگریزی صبح و شام اور فرسٹ و تھرڈ سمسٹر کی ہیں. خیر تو اتنی ساری کلاسوں میں سے کس نے زیادہ حصہ لیا. تو اس کا جواب ہے کہ بی ایس 7 اور ایم ایس سی 3 سمسٹر والوں نے. یہ دونوں کلاسیں اصل میں ایک ہی کمرے میں ہوتی ہیں وجہ کمروں کی کمی ہے، ان کے کورسز بھی ایک ہیں بس پروگرام کا نام مختلف ہے. یہ جی سی کے کھنڈ لوگ ہیں. ضیاء اللہ بدر، غلام دستگیر عرف جی ڈی، زین، امجد، قندیل اور حنان وغیرہ وغیرہ. ضیاء جانا مانا ڈرامہ نگار ہے. مجھے تو شکل سے ہی ڈرامے باز لگتا ہے. ہاتھ میں سگریٹ، عینک وہی بال، لگتا ہے ابھی آواز دے گا اوئے ابھی تک سیٹ نہیں لگا، جلدی کرو. اس نے پچھلے سال فنکشن پر شیکسپئر کے تین ڈراموں کی ہدایات دی تھیں. اس بار اس نے اپنا ڈرامہ لکھا اسٹیشن بستی سیداں والی. اچھا ڈرامہ تھا، لو سٹوری تھی. لیکن اچھا تھا اگرچہ اس کا مرکزی کردار وہ خود تھا، فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح سارے راستے اسی کی طرف جاتے تھے، لیکن پھر بھی اچھا ڈرامہ تھا، محنت ہوئی تھی اس پر اور پسند کیا گیا. وائس چانسلر صاحب اسی دوران آئے تھے اور اس ڈرامے سے اتنا متاثر ہوئے کہ پانچ ہزار کے انعام کا اعلان کرگئے. خیر...یہ تو 7 سمسٹر والوں کا تھا ایک ڈرامہ لٹریچر والوں کی طرف سے تھا. ایک عدد قوالی تیار کی گئی تھی جس میں حسب توقع بی ایس 7، ایم ایس سی 3 اور بی ایس 3 کے لوگ شامل تھے. قوالی کا بنیادی مقصد لٹریچر والی کی مٹی پلید کرنا تھا. اور خوب کی گئی. ہوسکا تو اس کی ویڈیو پوسٹ کروں گا. بول کچھ ایسے تھے " لٹریچر والوں سے اللہ بچائے" حسن والوں سے اللہ بچائے کی طرز پر.
تو صاحب یہ پس منظر تھا، فنکشن پہلے چار کو ہونا تھا پھر چھ کو کردیا گیا. ہم یعنی سی آر صاحب نے بھی اپنا نام انتظامیہ میں لکھوا لیا کہ چلو اسی بہانے ذرا چوہدراہٹ بن جائے گی. لیکن ...آہ کیا بنا.. بنا یہ کہ کل ہمارے سیٹ کی ایک بیٹری جواب دے گئی اور ہمیں دوسری بیٹری نکال کر اسے چارج کرنا پڑا. اس کی چارجنگ پورٹ خراب ہے چناچہ چارجنگ تو موبائل آف.. اب وہاں ہمیں کال کیا جاتا ہے اور ہمارا موبائل بند.... ہم بھی کیا کریں ایک گھنٹے بعد ایک گھنٹے کے لیے بجلی آتی تھی جب آتی ہم موبائل چارجنگ پر لگا دیتے جب چلی جاتی تو اسے پھر آن کرلیتے. :roll: شام کو جب ہم وہاں تشریف لے جانے سے پہلے جی آر سے مخاطب ہوئے کہ میڈم وہ پاسز اور لسٹ لیتی آنا یاد سے تو آگے سے ہماری جو ہوئی :grin: .... نہ پوچھیں... اس بے چاری کی ہماری ٹیچر نے کی تھی کہ کم بخت نے انتظامیہ میں نام لکھوا لیا اور اب اس کا سیل بھی آف ہے. خیر ہم کیا کہتے عذر پیش کردیا جوکہ خاصا معقول بھی تھا... وہاں پہنچے تو پہلے زین اور قندیل نے واٹ لگائی... پھر جی آر نے ایک بار پھر سے... :oops: ...پھر دوران فنکشن جی ڈی نے بڑے پیار سےاور ابھی میڈم یعنی ہماری ٹیچر رہتی ہیں.. یا اللہ خیر :neutral:
تو جناب فنکشن شروع ہوتا ہے... کتنے بجے پانچ بجے لیکن پانچ بجے صرف انتظامیہ کے ٹانویں ٹانویں لوگ تھے وہاں اصل کام ساڑھے چھ شروع ہوا... آتے ہی پہلے تھیم سانگ چلا، تجھ سے نیناں لاگے پر 7 اور 3 سمسٹر کے چار لڑکوں کی گھمن گھیریاں، ہمیں تو ککھ سمجھ نہیں آئی کہ تھیم کیا تھا، خیر پھر ضیاء کا ڈرامہ جو تیس منٹ کی بجائے پونے گھنٹے سے اوپر لے گیا.. پھر ایک انگریزی ٹیبلو سا سنو وائٹ پیش کیا گیا. پھر دو گز کی چادر سٹیج ہوا. اسی دوران قوالی بھی ہوچکی تھی بس ضیاء کا ڈرامہ اور یہ قوالی ہی دیکھی ہم نے اور ادھر ادھر پھرتے رہے. تصاویر کھنچوانے، گروپ فوٹو بنوانے جو کہ بن ہی نہ سکی ہر بار دو چار بندے کم ہوجاتے..اور ہم یعنی شاکر میاں اپنی نظم پڑھنے کی باری کا انتظار کرنے ...ہان شہزاد بھی جس نے گانا گانا تھا اور اس کے لیے وہ اپنا مووی کیمرہ بھی لے کر آیا تھا اور مجھے سکھا بھی چکا تھا کہ مووی کیسے بنانی ہے. :oops:
آہ... لیکن حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے. اس دوران دس بج گئے تھے، کئی لڑکیاں جاچکی تھیں اور کئی کو لے جانے والے آچکے تھے. چناچہ فنکشن کو مہمان خصوصی اور چئیر پرسن کے اختتامی کلمات کے ساتھ دی اینڈ کردیا گیا اور ہم دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے گاتے کھانے پر ٹوٹ پڑے. جیسا تیسا کھایا کہ ہم سے تو ایسے مواقع پر کھایا ہی نہیں جاتا... پھر آخر میں تھوڑا سا کام کروا دیا کہ تھوڑا سا ازالہ کردیں صبح نہیں اب تو کروایا ہے کام. آہ پھر واپسی.
اگرچہ:
ہماری کلاس کا ڈرامہ ریجیکٹ ہوگیا.. برا سا لگا
ہمارے دونوں گانے اور نظم شامل نہیں کی گئی.
فنکشن لیٹ شروع کرکے اس میں پرفارمنسز وہ کاٹی گئیں جو ہماری تھیں یا جہاں ایم ایس سی 3 اور بی ایس 7 کے لوگ نہیں تھے. :sad:
ہمیں کھانے کے دوران بوتل نہیں ملی :oops: چار بندوں نے ایک بوتل شئیر کی..
اور ہمارا نام انتظامیہ میں شامل نہ ہوسکا کہ ہم تو آئے ہی نہیں تھے..قسم سے ہمیں اپنی جی آر اور جی ڈی لوگوں سے ڈھیر سارا حسد محسوس ہوا جب وہ آرگنائزر کا کارڈ گلے میں ڈالے قریب سے گزرتے :cry:
لیکن:
اس کے باوجود یہ تقریب ایک اچھی یاد بن کر دل کے کینوس پر نقش ہوگئی.
ہم نے اسے انجوائے کیا.
بقول عاصم صاحب یہ لائف سائنسز ہیں آپ کو پہننے، اوڑھنے، کھانے، پینے کا سلیقہ دیتی ہیں یہ تقاریب. آپ کو آداب سکھاتی ہیں. چناچہ ہم نے بھی بہت کچھ سیکھا. ہم جو وہاں شاید سفید کرتے شلوار میں پہنچ جاتے لیکن ہمیں مت دی گئی کہ کاکے ڈنر میں گہرے رنگ چلتے ہیں، ٹو پیس کرلینا. چناچہ ہم نے پینٹ شرٹ گھر سے پہنی اور کوٹ ایک دوست کی مہربانی سے وہاں جاکر پہن لیا.. سنا ہے کہ خاصے معقول صورت بلکہ خوبصورت ہی لگ رہے تھے، تصویر مہیا کرنے کی کوشش کریں گے. :oops: :razz:
آج ہمیں لگ رہا ہے جیسے ہماری روح کا ایک حصہ وہیں رہ گیا ہے. جی سی کے اسی لان پر منڈلاتا ہوا، اس فنکشن کے اندر باہر آتا جاتا.. عجیب خالی پن سا لگ رہا ہے، جیسے یکدم آپ کسی بھیڑ والی جگہ سے خلا میں آجائیں جہاں پہلے سینکڑوں چیزیں اور لوگ تھے اب وہاں صرف آپ ہوں اور مہیب خلاء، بیکراں سناٹے اور ملگجا سا اندھیرا. شاید خلیل جبران نے ٹھیک ہی کہا کہ آپ کی روحیں اس جگہ پر ہمیشہ منڈلاتی رہتی ہیں جہاں آپ نے اپنی زندگی کے پرلطف لمحات گزارے ہوں.

منگل، 3 فروری، 2009

کتبے

سائیکل میری سواری ہے۔ روزانہ آدھا شہر پار کرکے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد جانا ہوتا ہے۔ اس دوران ادھر اُدھر نظر بھی پڑ جاتی ہے۔ انھیں ادھر اُدھر کی چیزوں میں سے ایک چیز کتبے ہیں۔
جی ہاں۔۔۔ کتبے ۔۔۔سبز رنگ کے کتبے۔۔ سنگ مرمر کے کتبے۔۔۔ ٹوٹے ہوئے، زنگ لگے اور نویں نکور کتبے۔۔۔ آپ ذرا اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو بھی نظر آسکتے ہیں۔
سڑک کا افتتاح بدست مبارک جناب فلانا فلانا ناظم صاحب ہوا
سیوریج کا افتتاح بدست مبارک جناب فلانا فلا کونسلر ہوا۔
فلانے کا افتتاح فلانے نے کیا
فلانے کا سنگ بنیاد فلانے نے رکھا۔
آج سے دو سال پہلے ایک اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھانے جاتا تھا۔ اس گلی کی سیوریج لائن خراب تھی، یہی کوئی سو گز کے قریب لمبائی میں۔ اوراس کو دوبارہ ڈلوانے کا افتتاح اس وقت کے ضلعی ناظم نے کیا تھا۔ وہ نئی ڈالی ہوئی سیوریج لائن بھی شاید اب خراب ہوگئی ہو لیکن وہ کتبہ اب بھی وہاں لگا ہوگا۔ جس پر بدست مبارک جناب فلاں فلاں لکھا ہوا تھا۔
مجھے یہ کتبے افتتاحیے نہیں قبروں کے کتبے لگتے ہیں۔ میری قوم کی ترقی کی قبر کے کتبے۔ مجھے اپنی طرف اشارے کرکے بلاتے ہیں دیکھو یہاں فلانا وڈا آدمی کھڑا ہے۔ فلانے وڈے آدمی کا نفس یہاں ہے۔ آؤ۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔دیکھو
مجھے نفرت ہے ان کتبوں سے۔ ایک عرصہ پہلے تک انھیں پڑھنے کا شوق ہوا کرتا تھا لیکن اب ان کی طرف نفرت سے تھوک کر گزر جاتا ہوں۔
مجھے لگتا ہے میری قوم کے نصیبوں پر بھی ایسے ہی کتبے لگے ہوئے ہیں۔ سبز رنگ کے، سنگ مرمر کے پرانے اور نئے کتبے۔۔ میری قوم کے نصیبوں کے مزار پر وڈوں کے نفس متولی بنے بیٹھے ہیں۔ نہ وہ اُٹھیں اور نہ ہی میری قوم کا نصیب جاگے۔