جمعہ، 28 نومبر، 2008

لوڈ شیڈنگ پھر سے: اوقات پر واپسی مبارک

ایک مہینہ لگژریز میں گزارنے کے بعد پاکستانی قوم کو اس کی اوقات میں واپس لانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ بسم اللہ چالیس فیصد اضافہ نفی تیرہ فیصد اضافہ شدہ بجلی کے بل بھیج کر کردی گئی ہے۔ اس کے بعد دوسرا مصرع ڈیموں میں پانی کی کمی کی صورت میں ادا ہوا ہے۔ مزید غزل ابھی جاری ہے جس کی پہلی قسط میں ایک تھرمل پاور پلانٹ کی نامعلوم وجوہات کی بنا پر بندش کی خبر شامل ہے۔ یہ پاور پلانٹ یقینًا آئی پی پی ہے اور اس کی بندش کی نامعلوم وجوہات میں سرفہرست تیل کی عدم فراہمی ہوگی۔ دوسری غیر اہم وجوہات میں ٹرانسمشن سسٹم کی خرابی بھی ہوسکتی ہیں۔ ابھی آپ مزید اوقات میں آنے کے لیے تیار رہیے اور بھیک میں ملی ہوئی قرضے کی پہلی قسط کو بھول جائیے۔ وزرا مشراء اور وڈے لوگوں کی تنخواہیں کٹنے کے بعد کچھ بچ گیا تو ان کی حفاظت کے اخراجات پر لگ جائے گا۔ اس سے بھی کچھ بچ گیا تو بیوروکریسی بھی پڑی ہے راہوں میں۔ اس کے بعد شاید آپ کی باری آسکے۔ لیکن آپ کی باری کیا آئے گی ان پیسوں سے تیل تو خریدا نہیں جاسکتا، چناچہ اگلا ایک مہینا اپنی اوقات میں رہ کر گزاریے۔

انجوائے لوڈ شیڈنگ و بے روزگاری۔

بدھ، 26 نومبر، 2008

طیارے گرانے کی صلاحیت ہے، نہیں ابھی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں

آج کے ایکسپریس نیوز کی شہ سرخی ائیر چیف کا بیان ہے جس کے مطابق پاک فضائیہ کے ریڈار جاسوس طیاروں کا کھوج نکال لیتے ہیں اور ان کو ایف سولہ سے گرایا بھی جاسکتا ہے۔ یہی خبر اردو نیوز پر کچھ ایسے موجود ہے۔


کراچی ۔ پاک فضائیہ کے سر براہ ایئر چیف مارشل تنویر احمد نے کہا ہے کہ جاسوس طیاروں اور میزائل حملوں کوروکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فیصلہ حکومت کوکرنا ہے کہ وہ کس وقت ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ بات انھوں نے آئیڈیاز 2008ء نمائش میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہی۔ انھوں نے جے 17 تھنڈر کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاک فضائیہ ایسی صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ جاسوس طیاروں اور جدید ترین میزائلوں کو اپنی حدود میں نشانہ بنا سکے لیکن اس بارے میں پاکستان کی سیاسی قیادت کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ حملہ آوروں سے جنگ کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر پاک فضائیہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی۔

ہمارے وزیر دفاع صاحب اس کے بالکل الٹ فرما رہے ہیں۔ جیسا کہ وہ شروع سے ہی بیان دیتے آرہے ہیں کہ اتنی بلندی پر طیارے گرانے کی ہم میں صلاحیت نہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
کراچی ۔ وزیر دفاع احمد مختار نے کہا ہے کہ پاکستان بلندی پر پرواز کرنے والے طیاروں کے خلاف کارروائی کے لیے ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کر رہا ہے ۔ منگل کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے لیے دوست ممالک سے با ت چیت ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میزائل ٹیکنالوجی پروگرام کو بھی ترقی دی جائے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور اس میں 12 سوسیکورٹی اہلکار اور ساڑھے چار ہزار شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ القاعدہ سے سب سے زیا دہ خطرہ پاکستان کو لاحق ہے ۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پی آئی اے کو ہونے والے نقصانات کے حوالے سے سابق انتظامیہ کے خلاف کئی بارکارروائی کے خلاف کئی بار کارروائی نہیں ہو سکی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ دفاع بجٹ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

اب بتائیں کہ کس کی بات کا اعتبار کیا جائے؟

بدھ، 19 نومبر، 2008

سرجی

آج کل میں پھر سر جی بنا ہوا ہوں۔ روزی روٹی کے لیے بننا پڑتا ہے۔ ایک سٹوڈنٹ بندہ اس کے علاوہ اور کسی طرح کما بھی نہیں سکتا۔ اور اللہ جھوٹ نہ بلوائے جتنا پیسا اس انڈسٹری یعنی ایجوکیشن انڈسٹری میں ہے اور کسی چیز میں نہیں۔ آپ کی سرمایہ کاری کی سوفیصد واپسی کی ضمانت کے ساتھ بے انتہا منافع کی گارنٹی ہر چیز موجود ہے اس فیلڈ میں۔

تو میں آج کل ٹیوشن پڑھا رہا ہوں۔ محلے کے ہی ایک دو بچے ہیں جو میرے پاس پڑھنے آتے ہیں۔ نالائق اتنے ہیں کہ بس حق ادا کردیتے ہیں اس صفت کا۔ بڑا بھائی دسویں میں ہے نویں کی دو عدد سپلیوں کے ساتھ، انگریزی اور ریاضی میں۔ اور میرے پاس ریاضی ہی پڑھتا ہے۔ ساتھ انگریزی کا بھی کبھی پوچھ لیتا ہے۔ آج کہنے لگا سرجی فیشن اور ڈریم پر پیرا گراف لکھ دیں گے؟

میں نے کہا کرنا کیا ہے کہتا پرچے میں ان میں سے ایک لازمی آجاتا ہے اس لیے یاد کرنے ہیں۔ میں نے کہا پائلٹ سپر ون سے کرلو تو بولا وہاں مشکل لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا مضامین کا کیا کرو گے تو بولا وہ سکول والے سر تین لکھ کر دے دیں گے جن میں سے ایک آجاتا ہے۔

پھر بولا کوئی خط نہیں مل سکتا جو سارے خطوں میں لکھا جاسکے۔ پندرہ خط ہیں، ایک لڑکے کے پاس ایسا خط تھا جو ہر مضمون پر پورا اترتا تھا اور اس نے انگریزی پاس بھی کرلی ہے۔

میں نے اس کی طرف دیکھا، سوچا اور پھر سر جھکا لیا۔۔ اور بولا ابھی تو نہیں لکھا لیکن دیکھتا ہوں شاید کسی سے مل جائے ایسا خط۔

یہ حقیقت ہے کہ بی اے تک ایسے ٹوٹکے چلتے ہیں۔ ایک خواب نامی مضمون میں ایکسیڈنٹ کو گھسیڑ کر دو مضمون بنا لیے جاتے ہیں۔ میں سڑک کے کنارے جارہا تھا کہ میں نے ایک بس کو آتے دیکھا۔ پھر ایکسیڈنٹ ہوا اور پھر آخر میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا پتا چلا یہ تو خواب تھا۔ اب اگر خواب والا آجائےتو سارا لکھ دو ورنہ آخری حصہ نکال دو۔ خط ایک ہوتا ہے، لیکن اس کا مضمون ایسا مبہم ہوتا ہے کہ پندرہ بیس عنوانات تلے آجاتا ہے۔ شاگرد خوش ہوجاتے ہیں، استاد کو پیسے مل جاتے ہیں اور پرچے بھی پاس ہوجاتے ہیں۔

اس سے مجھے اپنی بات یاد آگئی اگرچہ ہمارا حال اس لڑکےسے کچھ بہتر ہی تھا لیکن پیرے اور مضمون کا فرق نہ اس وقت پتا تھا نہ بی کام کرنے تک ہی پتا چلا۔ اب آکر پتا چلا ہے کہ پیرے کا مطلب ایک ہی پیرے میں سب لکھنا ہوتا ہے اور مضمون کئی پیروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پیرا کیسے لکھنا ہے، مضمون کیسے لکھنا ہے یہ یونیورسٹی میں آکر پتا چلا ہے، سٹڈی سکلز نامی ایک مضمون میں ورنہ ککھ بھی نہیں پتا تھا۔

ہمارا حال کیا ہے اور ہمارے مستقبل کا حال کیا ہے۔ اور ہم ترقی کے دعوے کرتے ہیں۔

جمعرات، 13 نومبر، 2008

55 وزیر

وڈے کچھ سنا اپنے 55 وزیر ہوگئے ہیں۔


چھوٹے نے وڈے سے کہا تو وڈا چونک گیا۔


55 وزیر واہ 55 وزیر


بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر ہاہاہاہاہا


بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر


وڈے نے گنگنانا شروع کردیا۔


چھوٹا پہلے تو حیران ہوا پھر ہولا ہاں بھوکی ننگی قوم ہی ہے۔


وڈا پھر بڑبڑایا ننگی قوم بھوکی ننگی قوم ننگ وطن ہاہاہا


ننگ وطن ننگ انسانیت ننگ ضمیر


بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر


بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر


ہاہاہاہاہا


بھوکی ننگی قوم کے پچپن وزیر


اور چھوٹا تاسف سے وڈے کو دیکھنے لگا۔ یہ تو کریک ہی ہوتا جارہا ہے۔


اوئے یہ کیا بک بک لگا دی ہے تم نے ۔ حکومت کا فرمان ہے کہ ان وزیروں کی تنخواہ ایم این اے سے بھی کم ہے۔


ہاہاہاہاہا


وڈے نے پھر قہقہہ لگایا ہاں۔ ان پر کونسا خرچ ہوگا۔ کونسا ہمارا ہوگا۔ باہر سے آئے گا۔


اللہ کے واسطے قرضہ دے دو۔ 17 کروڑ پاکستانیوں کی حکومت کے لیے قرضہ چاہیے۔ بھوکی ننگی قوم کی بھوکی ننگی حکومت، نہیں بھوکی ننگی نہیں ،امیر کبیر حکومت۔ امیر کبیر حکومت؟ وڈے نے خود سے سوال کیا۔


نہیں فقیر حکومت ہاہاہا فقیر حکومت۔ در در جاکر مانگتی ہے۔ ارے خدا کا واسطہ کوئی دو چار ارب ڈالر دے دو۔ ہمارے وزیروں مشیروں کی تنخواہیں دینی ہیں۔ الاؤنسز کم نہ پڑ جائیں۔ ارے تمہیں تمہارے جیزرز کرائسٹ کا واسطہ کچھ دے جا۔ کچھ دے جا سخیا۔ دیکھو اس قوم کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں بھوکے ہیں۔ سر پر چھت نہیں۔ آخر ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ دے جا سخیا پاکستان کی حکومت کے لیے دے جا۔


دے جا سخیا اللہ دے ناں دا۔ دے جا سخیا اللہ دے ناں دا۔


وڈے نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔


دے جا سخیاں وزیراں دے ناں دا۔ دے جا سخیا۔۔

اتوار، 2 نومبر، 2008

کون کہتا ہے اردو یتیم ہے

علوی امجد خدا کرے تمہاری دنیا اور آخرت ایسے سنورے کہ دیکھنے والے رشک کریں۔ بخدا میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اس بندے کی تعریف کرسکوں، میرے پاس شکریے کے الفاظ نہیں، جو کام اس بندے نے کردیا ہے وہ اردو کے لیے صدیوں پر محیط ایسی چھلانگ ہے جو اسے کہاں سے کہاں پہنچا دے گی۔ اب کوئی طعنہ نہیں دے سکے گا کہ اردو والے اردو کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ جب تک ہم میں علوی امجد جیسے سپوت موجود ہیں اردو مر نہیں سکتی، بخدا اردو زندہ رہے گی اور اپنے مخالفین کے سینوں پر مونگ دلتی رہے گی۔ علوی امجد اور علوی نستعلیق زندہ باد۔


اگر آپ نے ابھی تک علوی نستعلیق اتار کر انسٹال نہیں کیا تو کتنی بڑی نعمت سے محروم ہیں آپ۔ ارے ابھی اتاریں، انسٹال کریں اور میرے بلاگ کا فائرفاکس میں مزہ لیں خالص اردو رسم الخط کے ساتھ، نستعلیق میں اسی نستعلیق میں جس کے آپ اخباروں، رسالوں اور تصویری اردو کی ویب سائٹس پر عادی ہیں۔ اب یہ سب کچھ ممکن ہے۔


انشاءاللہ یہ ابتدا ہے۔ ابھی ایسے کئی نستعلیق میدان میں اتریں گے اور دنیا اردو کا عروج انٹرنیٹ پر دیکھے گی۔


علوی امجد اور امجد نستعلیق کی بنیاد بننے والے خط رعنا فونٹ کے خالق فاروق سرور خان کا بہت شکریہ۔ اللہ ان کے دو جہانوں کو سنوار دے انھوں نے اردو کو سنوار دیا۔


یہ فونٹ لینکس پر ونڈوز سے بھی پیارا لگ رہا ہے۔ اوبنٹو پر فائرفاکس 3 میں مجھے ابھی تک کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا جبکہ ونڈوز پر فائرفاکس میں ہی اردو محفل کے نیویگیشن بار کے روابط اوپر نیچے نظر آرہے تھے۔