بدھ، 20 فروری، 2013

لسانیات اور ہم

لو جی پرانے فولڈر پھرولتے ایک اور مسودہ نکل آیا۔ یہ ایم فِل فرسٹ سمسٹر میں ایک نا ہو سکنے والے فنکشن کے لیے لکھا تھا۔ سمسٹر ختم ہوا، دوسرا ختم ہو چلا لیکن وہ فنکشن نہ ہو سکا۔ پہلے سمسٹر کے تین مضامین سنٹیکس، بائی لنگوئل ازم اور ریسرچ میتھڈالوجی کی پیروڈی تخلیق کی گئی تھی۔ آپ کا لسانیات سے واقف ہونا ضروری ہے تبھی کچھ مزہ لے سکیں گے۔
----------------------------------------------------
اچھا پتا نہیں یہ خواب تھا یہ حقیقت۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا بڑی اچھی طرح سے یاد ہے اور وہی آپ کے ساتھ شئیر کرنے جا رہا ہوں۔ وقت بھی یاد نہیں، اور جگہ بھی لیکن یہ یاد ہے کہیں جا رہا تھا۔ پیدل، تو راستے میں چلتے چلتے ایک ہیولا نظر آتا ہے۔ میں پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں تو پتا لگتا ہے یہ تو اپنا ہی بندہ ہے۔ میں نعرہ لگاتا ہو "ریسرچ میتھڈالوجی پائین۔۔۔۔" اور آگے سے مجھے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔  "وے میں تینوں پائین نظر آنی آں؟" ۔اور مجھے ہڑبڑا کر معذرت کرنا پڑتی ہے "آپا جی اصل میں دھیان نہیں کیا میں نے"۔ لیکن جواب میں بس ایک "ہنہ" ملتا ہے اور پھر خاموشی۔ میں بات بڑھانے کی غرض سے پوچھتا ہوں "اور سنائیں آپا جی کیا احوال ہیں کمزور سی نظر آ رہی ہیں۔ نصیب دشمناں طبیعت تو ناساز نہیں؟" تو آگے سے پھر تڑاخ سے جواب موصول ہوتا ہے "پریزنٹیش اچھی دے لینی تھی تو میرا یہ حال نہ ہوتا۔ جس کے دوست ایسے ہوں اس کو دشمنوں کی کیا ضرورت"۔ تو صاحب میں نے کان لپیٹے اور نکل لیا کہ بھائی باتیں تو ٹھیک کی ہیں آپا جی نے، میری پریزنٹیشن اچھی ہوتی تو یہ دن دیکھنا ہی نہ پڑتا۔
لو جی شاید وہ دن ہی ایسا تھا۔ میں ذرا آگے گیا ہوں تو عجیب سا مقام آ گیا، جیسا انگریزی ہارر فلموں میں ہوتا ہے۔ ملگجا سا اندھیرا اور سنسان بیابان، خاموشی کہ پتا بھی نہ کھڑکے۔ لو جی ابھی میں کوئی چار قدم ہی چلا ہوں کہ یکدم میرے کانوں سے آوازیں ٹکرانا شروع ہوئیں اور میں اچھل پڑا۔ اب اگر میں اِن ڈائرکٹ میں کر دوں تو آپ کو مزہ نہی آئے گا، ڈائریکٹ سپیچ میں سنیں۔
Go away you stupid language, leave me alone
نی پرے مر توں، میری جان چھڈ کِتے، موئی فرنگیاں دی زبان۔
اور صاحب میں حیران پریشان، یار یہ شاہد بھائی کی آواز میرے کانوں میں کیوں گونجنے لگی ہے۔ شاہد بھائی جن بھوت ہو گئے ہیں یا میں جو بچا کھچا تھا وہ بھی پاگل ہو گیا ہوں۔ اور اوپر سے انگل سرگم والی ماسی مصیبتے نے راگ چھیڑ دیا ہے۔ لو جی ادھر میں حریان تھا، اُدھر دنوں آوازیں پورے طمطراق سے لڑنے میں مصروف تھیں۔ آخر جب میرے کان پکنے پر آ گئے تو میں نے غصے میں آ کر کہا۔ "چپ کرو"۔ اور یکدم خاموشی چھا گئی۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ معاملہ الٹ ہو گیا۔
This is your fault
ایدا ای قصور اے سارا
اور میں پھر حیران۔ "او بھائی میرا کی قصور اے، میرے کھوپڑی میں کیوں باجا بجا رہے ہو تم لوگ، جا کر اپنی لڑائی لڑو"۔ تو آگے سے جواب آتا ہے
"ہم تہماری ہی کھوپڑی میں رہائش پذیر ہے پچھلے دو درجن سالوں سے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو"۔
"او بھائی میں نے کیا کر دیا؟" میں رونے والا ہو گیا۔
"تم نے بائی لنگوئلزم پڑھا؟"
"ہاں پڑھا، تو؟"
"تو یہ کہ تم کونسے بائی لنگوئل ہو؟"
"کمپاؤنڈ؟" بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ پنجابی والی آواز نے تو بس صلواتوں کا طوفان اُٹھا دیا۔ میں نے بڑی مشکل سے ہاتھ  پیر جوڑ کر دونوں کو چپ کروایا ۔ مسئلہ پوچھا اور ۔۔۔۔ اور سے پہلے مسئلہ سن لیں۔ "او بھائی میرا قصور تو بتاؤ؟"۔
You have brought this stupid language with me and I can’t live with it.
"نی تے ایتھے کہیڑے ہیج چڑھے ہوئے نیں، مینوں وی کوئی شوق نئیں۔ اے تے ایس موئے نے پتا نئیں کتھوں اے کم کر دتا، فرنگیاں دی زبان نال کیس جہنم وچ سُٹ دِتا مینوں"
دس منٹ بعد جو پتا چلا وہ یہ تھا کہ چونکہ میں اپنے آپ کو کمپاؤنڈ بائی لنگوئل سمجھتا ہوں اس لیے میری کھوپڑی میں ساری زبانیں اب ایک ہی پورشن میں منتقل ہو گئی ہیں اور یہی فساد کی وجہ ہے چونکہ پنجابی انگریزی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور انگریزی کی بھی اس سے نہیں بنتی۔ تو جناب میں نے سر پکڑ لیا۔ یا اللہ میں کیہڑی خطا کرلئی، ہُن کھوپڑی وچ کندھ کراواں۔ بس رونے کی کسر رہ گئی تھی پر میں نے منت سماجت کرنے کا فیصلہ کیا۔  "دیکھو بھائی دونوں بڑی اچھی چیز ہو۔ آپ تھوڑا کو آرڈینیٹ کر لو نا۔۔" اور بس اس لفظ کے بولنے کی دیر تھی کہ جیسے کھوپڑی میں ہزار واٹ کا بلب روشن ہو گیا۔ "کو آرڈی نیٹ بائی لنگوئل" میں نے اپنے آپ کو شاباش دی اور انگریزی پنجابی کو سمجھایا۔ دیکھو بھئی درمیان میں دیوار کر لو یہی ہم سب کی بھلائی میں ہے۔ اور شکر ہے وہ مان گئیں۔ تو صاحب آج سے مجھے کو آرڈینیٹ بائی لنگوئل لکھا، بولا، سمجھا اور پکارا جائے۔ یا اللہ تیرا شکر ہے اس مصیبت سے جان چھوٹی۔ ورنہ یہ تو میری کھوپڑی میں اُدھم مچا مچا کر دماغ کی لسی بنا دیتیں۔
لو جی ابھی میں شکر کر رہا تھا، اور اس منحوس جگہ سے نکل ہی رہا تھا کہ یکایک سامنے ایک منظر روشن ہو جاتا ہے۔ میں جیسے جیسے آگے بڑھتا ہوں منظر واضح ہوتا جاتا ہے۔ ایک بابا جی ایک سائیڈ پر پڑے ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ اور ان کے پیچھے کسی ٹنڈ منڈ درخت کی شاخیں نظر آر ہی ہیں۔ کہیں کہیں کوئی انگریزی کا لفظ بھی ٹنگا نظر آ جاتا ہے۔ پہلے تو میں بڑا خوش ہوا کہ چلو انگریزی کا درخت بھی ہوتا ہے، جیسے جامن امرود کا ہوتا ہے۔ بابا جی سے کلو کے حساب سے لے لیتے ہیں اپنی انگریزی تو اچھی ہو گئی۔ ہم نے مستقل گاہک بننے کا عزم کرتے ہوئے جو قدم مزید آگے بڑھائے تو سمجھ آئی یہ انگریزی نہیں سنٹیکس کا ٹری تھا۔ "او مر گئے" ہمیں پچھلا کوئز یاد آ گیا جس میں پورا ایک سوال غلط ہو گیا تھا۔ اور اب یہ بابا یہاں پیٹھا ہوا اپنی ٹانگ کو پکڑے ہائے ہائے کر رہا تھا۔ پہلے تو ہمارا دل کیا کہ نکل لیں اس سے پہلے کہ پھر ڈپریشن ہو جائے، لیکن پھر ہم نے سوچا چلو کم از کم 1122 کو ہی کال کر دیں، بے چارہ بابا کہیں فوت ہی نہ ہو جائے۔ ہم بابے کے قریب گئے اور حال احوال پوچھا، "بابیو ٹانگ تڑوا بیٹھے ہو کس عمر میں درختوں پر چڑھنے کا شوق فرما رہے ہو"۔ تو بابا جی بولے پُتر میں بابا سنٹیکس ہوں۔ اور میرے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔
"ارے بابا جی آپ کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو میرا کیا بنے گا"۔
"بس پُتر اس چومسکی کو مولا نے ای لینا اے۔ بڑا ذلیل کیتا اے اینہیں"۔
"وہ کیوں بابا جی بڑا وڈا فلاسفر ہے جی چومسکی، انھی پائی ہوئی اے اُس نے تو لنگوئسٹکس میں"۔
"بس پُتر انھی پائی ہوئی اے اُس نے۔ اسی وجہ سے تو میری یہ حالت ہوئی ہے"۔
میں نے پوچھا بابا جی ہوا کیا تھا۔ آپ تو بڑا اچھا ٹری شری بنالیتے ہیں پھر ٹانگ کیسے تڑوا بیٹھے؟
کہنے لگے بس پُتر کیا بتاؤں میں اپنی مستی میں ایک نوڈ بنا کر دوسری پر چھلانگ لگا رہا تھا کہ ایک null constituent  آ گیا۔ بس پر کیا نیچے گرا، تو پھر ٹانگ ہی ٹوٹنی تھی پُتر۔ بابا جی نے ایک بار پھر چومسکی کی خبر لینے کے لیے انجن سٹارٹ کیا لیکن میں نے بریک لگوا دی۔
"بابا جی چلیں چومسکی کے پاس ہی چلتے ہیں آپ کی ٹانگ تو وہ پلگ چھپکتے میں ٹھیک کر دے گا آخر آپ اس کی تھیوری ہیں"۔ شکر ہے بابا جی کی سمجھ میں میری بات آ گئی۔ اور پھر ہم پہنچے پھررر امریکہ۔ اب کیسے پہنچے یہ تو ہمیں یاد نہیں لیکن سفید بالوں والا بابا چومسکی ہمیں مل گیا۔
"ہور جی بابیو کی حال اے" ہم نے اپنے بے تکلف پنجابی اسٹائل میں ارشاد فرمایا۔ تو آگے سے چومسکی نے ہمیں دعا دی۔
ہم نے کہا سر جی ایک مریض لے کر آیا ہوں۔ کہنے لگے بیٹا پیش کرو۔ میں نے پیش کیا "جناب عالی مِنی مل ازم"۔ تو فرمانے لگے "بیٹا کیپٹل ازم"۔ میں نے پھر عرض کیا "یہ منی مل ازم" کہنے لگے "نہیں بیٹا کیپیٹل ازم"۔
اب میں نے ذرا تفصیل سے کہا "جناب عالی منیمل ازم کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے آپ کیپیٹل ازم کی جان نہیں چھوڑ رہے"۔
فرمانے لگے "بیٹا میں آج کل کیپیٹل ازم کی ٹانگ توڑتا ہوں، اسے آگے کرو"۔
میں نے عرض کیا "سر وہ لنگوئسٹکس اور سنٹیکس اور جنریٹو گرامر؟"
کہنے لگے "بیٹا وہ میرا سیاسی بیان تھا، میں نے تو زبان کو اس لیے اسٹڈی کیا کہ اس سے انسانی دماغ کے بارے میں جاننے میں مدد مل سکتی تھی۔"
میں نے کہا "جناب پر وہ منی مل ازم، سنٹیکس کی کلاس، لاہورلیڈز یونیورسٹی؟"۔
 کہنے لگے "بیٹا بھُگتو اب کونسا میں نے ایڈمیشن لینے کا کہا تھا"
اور میں نے اس بار دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ ایک طرف بابا سنٹیکس ہائے وائے کر رہا تھا اور دوسری طرف میں، وہ تو شکر ہے کہ آںکھ کھل گئی، فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں۔
میں نے شکر کیا کہ یہ خواب ہی تھا۔ پر اماں جی کہا کرتی ہیں فجر کے وقت کے خواب بھی اکثر سچے ہوتے ہیں۔
------------------------------------------------------

منگل، 5 فروری، 2013

پینڈو

اپنا ذاتی فولڈر کھنگالتے ہوئے پندرہ اکتوبر، 2009 کی بنی ہوئی ایک ورڈ فائل سے یہ اسکرپٹ نکلا۔ کسی فنکشن کے لیے لکھا تھا۔ اور اکثر مواقع کی طرح اس کو پیش کرنے کی ہمت نہ پڑی، یا وقت کی کمی کی وجہ سے نہ پیش ہوا، یا پھر ارادہ بدل گیا۔ اب یاد نہیں۔ پینڈو کا کردار اپنے لیے لکھا تھا، اور پنجابی، اردو انگریزی تینوں پر مشتمل مکالمے تھے۔ پنجابی مکالموں کا ترجمہ کردیا ہے امید ہے اردو میں لکھی انگریزی سمجھ آ جائے گی۔
-------------------------------------------------
کردار: پینڈو، گورا صاحب، باجی
گورا صاحب اور باجی سٹیج پر موجود ہیں۔ اس کے بعد ہونق سی شکل بنائے  پینڈو سٹیج پر آجاتا ہے۔ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد جب اس کی نظر گورا صاحب پر پڑتی ہے تو اس کی طرف لپکتا ہے۔
پینڈو: کی حال اے پاء جی؟ ]کیا حال ہے جناب؟]
گورا صاحب: واٹ؟
پینڈو: ہیں؟ وٹ؟ کیہڑا وٹ؟ [وٹ= غصہ، گرمی، مروڑ]
گورا صاحب: وٹ آر یو ٹاکنگ؟ (پینڈو باجی کی طرف جاتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے)
پینڈو: باجی اے باجی۔۔۔ اے چٹے منہ والے نوں کی ہوگیا اے۔ سردیاں وچ کیس چیز دا وٹ چڑھیا اے اینہوں؟ [باجی اے باجی۔۔۔ اس سفید منہ والے کو کیا ہو گیا ہے۔ سردیوں میں کس چیز کا غصہ چڑھا ہوا ہے اسے؟] ( (باجی ڈائس پر کھڑی کچھ کام کر رہی ہے اوراس سارے قضیے سے بالکل بے پرواہ نظر آتی ہے۔ پینڈو کے بلانے پر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ انگریز کو دیکھ کر سارا معاملہ سمجھ جاتی ہے اور پینڈو کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہتی ہے)
باجی: سٹوپڈ یہ انگلش ہے۔ اور اسے اردو نہیں آتی۔ تم سے پوچھ رہا تھا کہ کیا کہہ رہے ہو۔
پینڈو: ہیں ؟ اچھا تے اے انگریز اے۔ اینہوں تے وٹ وی وایتی پھردا ہونا اے فیر۔ ہے نا باجی؟ [اچھا تو یہ انگریز ہے۔ اسے تو مڑوڑ بھی ولائتی اٹھتا ہو گا۔ ہے نا باجی؟]
باجی: شٹ اپ۔ نان سنس پنا نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں۔
پینڈو: ہو ہائے باجی توں ناراض تے نا ہو۔ اے باجی۔۔۔ اے باجی۔۔۔ باجی گل سن نا (باجی ناراضگی سے اس کی طرف دیکھتی ہے)
باجی: ہاں بولو۔ اب کوئی ایسی ویسی بات کی تو سر پر کوئی چیز مار دوں گی۔
پینڈو: اچھا نا باجی نئیں کہندا۔ باجی۔۔۔۔ اے باجی۔۔۔۔ اے گورے صاحب نال ساڈی یاری کرا دے نا۔ ایدے کولوں پُچھ ایدا ناں کی اے۔[ اچھا باجی نہیں کہتا۔۔ باجی اے باجی اس گورے صاحب سے ہماری دوستی کروا دو نا۔ اس سے پوچھو اس کا نام کیا ہے] (باجی گورے صاحب کو مخاطب کرتی ہے)
باجی: ایکسکیوز می۔  دس مین وانٹس ٹو نو یور نیم۔ کین یو پلیز؟
گورا صاحب: (متوجہ ہوتے ہوئے) او شیور شیور۔ مائی نیم از اینڈرسن۔
باجی: اس کا نام اینڈرسن ہے؟
پینڈو: ہیں کیہڑا سن؟  ایناں مشکل ناں۔ اے باجی۔۔۔ اے باجی ۔۔۔ اینہوں کہہ نا میں اینہوں گورا صاحب کہہ لواں؟ [ہیں کونسا سن؟ اتنا مشکل نام۔ باجی اسے کہوں نا کہ میں اسے گورا صاحب کہہ لوں؟]
باجی: (انگریز سے) کین دس پرسن کال یو گورا صاحب؟
گورا صاحب: وٹ ڈز اٹ مین؟
باجی: ویل اٹ مین آ وائٹ مین۔
گورا صاحب: او شیور ہی کین کال می۔
باجی: کہہ لو اسے گورا صاحب۔ اور اب پلیز مجھے تنگ نہ کرو میں کام کر رہی ہوں۔
پینڈو: ہائے باجی توں کنی چنگی ایں۔ [ہائے باجی تم کتنی اچھی ہو] (چھلانگ لگا کر گورے صاحب کی طرف جاتا ہے۔ ہاتھ سے اشارہ کر کے کہتا ہے۔)
پینڈو: گورا صاحب۔ (گورا صاحب مسکرا کے سر ہلاتا ہے۔) پینڈو (پینڈو اپنی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے)۔
گورا صاحب: پھینڈو
پینڈو: پینڈو
گورا صاحب: پھینڈو
پینڈو: یار توں مینوں پھینٹناں کیوں لیا اے۔ پینڈو پینڈو [یار تم نے پھینٹنا کیوں لے رکھا ہے۔ پینڈو پینڈو]
گورا صاحب : او پھینڈو پھینڈو
پینڈو: (سخت غصے میں آجاتا ہے۔ اپنے بال نوچتا ہے۔ دیوار سے سر ٹکرانے لگتا ہے پھر کچھ سوچ کر واپس آجاتا ہے۔ لمبے لمبے سانس لیتا ہےاور اپنے آپ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ گورے صاحب سے) گورا صاب۔ پے
گورا صاحب: پھے
پینڈو: ڈو
گورا صاحب : ڈو
پینڈو: پیڈو
گورا صاحب: پھیڈو۔
 پینڈو: (پینڈو کو احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط بول گیا ہے۔) ہائے میں کتھے چلا جاواں اوئے مینوں پیڈو بنا دتا۔ میں تینوں پیڈ دا بچہ لگداں کتوں؟ [ائے میں کدھر چلا جاؤں۔ مجھے بھیڈو (بھیڑ کا بچہ) بنادیا۔ میں تمہیں بھیڈو لگتا ہوں کہیں سے؟] (پینڈو پھر اپنا سر پیٹنا شروع کردیتا ہے۔ اس دوران باجی اس شور سے اکتا کر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔)
باجی: شٹ اپ ، نانسنس۔  انگریز  پ نہیں بول سکتے۔ اس لیے وہ تم کو پھینڈو ہی کہے گا۔
پینڈو: اچھا اے ہو ای قسمت اے تے فیر ٹھیک اے۔ [اچھا اگر یہی قسمت ہے تو ٹھیک ہے] (گورے صاحب سے) ٹھیک ہے ٹھیک ہے پھینڈو ۔۔(رونی سی شکل بنا کے اور اپنی طرف اشارہ کرکے) پھینڈو۔
گورا صاحب: اوکھے اوکھے۔
پینڈو: (پینڈو کو پھر آگ لگ جاتی ہے) اوکھے کی مطلب اوئے۔  مینوں پتا تسیں جنہیں اوکھے جے ساڈے توں۔ اوئے اوکھے تے اسیں آں۔ تہاڈا کی خیال اے تسیں ڈرون حملے کردے رہو گے تے اسیں چپ بیٹھے رہواں گے؟ اوئے اسیں تہاڈا چنڈا ساڑاں گے۔ تسیں فیر ڈرون حملہ کرو گے اسیں  فیر تہاڈا چنڈاساڑاں گے ڈاکخانے بنک ساڑاں گے۔ نواں آیاں سوہنیا توں ویکھیا کی اے پاکستان وچ ہلے۔ (پینڈو سلطان راہی کی طرح چوڑا ہو کر کھڑا ہوجاتا ہے) اوئے تسیں کی سمجھدے او ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دے کے تسیں ایس قوم نوں خرید لیا اے؟ اوئے اے امداد نئیں مل سکدی اوئے (آہستہ سے) فوج نے جو کہہ دتا اے کہ نئیں مل سکدی۔ [اوکھے کیا مطلب اوئے۔ مجھے پتا ہے تم ہمارے ساتھ جتنے اوکھے ہو۔ اوئے اوکھے ہم ہیں۔ تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ تم ڈرون حملے کرتے رہو گے اور ہم چپ بیٹھے رہیں گے؟ اوئے ہم تمہارا جھنڈا جلائیں گے۔ تم دوبارہ ڈرون حملہ کرو گے ہم پھر تمہارا جھنڈا جلائیں گے ڈاکخانے بینک جلائیں گے۔ نئے آئے ہو پیارے تم نے دیکھا کیا ہے پاکستان میں ابھی۔ اوئے تم کیا سمجھتے ہو کہ ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دے کر تم نے اس قوم کو خرید لیا ہے؟ اوئے یہ امداد نہیں مل سکتی (آہستگی سے) فوج نے جو کہہ دیا ہے کہ نہیں مل سکتی]
باجی: ( پینڈو کی ڈرامے بازی سے تنگ آکر  پھر غصے میں آجاتی ہے) شٹ اپ شٹ اپ آئی سے شٹ اپ۔ (پینڈو ڈر کر چپ ہوجاتا ہے۔ اس دوران گورا صاحب ہاتھ  میں سبز رنگ کا  کارڈ نکال کر اپنی نوٹ بک پر اندراج کرنے لگتا ہے۔ پینڈو یہ دیکھ کر باجی سے پوچھتا ہے۔)
پینڈو: باجی اے باجی۔۔۔۔ باجی۔۔۔ (باجی ناراضگی سے اس کی طرف دیکھتی ہے) اے گورا کی کردا اے؟ [یہ گورا کیا کرتا ہے؟]
باجی: (گورے سے ) وٹ یو ہیو ان یور ہینڈ؟
گورا صاحب: اوہ دس از آ گرین کارڈ۔ آ واز ہئیر ٹو الاٹ امیرکن سٹیزن شپ ۔
باجی: گورے کے ہاتھ میں گرین کارڈ ہے۔
پینڈو: ہیں گرین کارڈ؟ (پینڈو بھاگ کر گورے صاحب کے پاؤں پڑ جاتا ہے) صاحب بہادر پاگ لگے رہن، شاناں ودھیاں رہن، امداداں مل دیا رہن۔ ڈرون حملے ہندے رہن۔ جناب  تسیں تے بڑے سخی او۔ ساڈے صدر نوں تساں کدی نئیں موڑیا۔ کجھ ساڈے تے وی کرم کرو۔ جناب چھوٹے چھوٹے بچے نیں تے پاکستان وی کوئی ملک اے؟ ہائے ہائے کِتے امریکہ دی شہریت مل جائے تے سرکار دے پیر ساری عمر دھو دھو کے پیواں۔ [صاحب بہادر بھاگ لگے رہیں، شان بڑھتی رہے، امداد ملتی رہے، ڈرون حملے ہوتے رہیں۔ جناب آپ تو بڑے سخی ہیں۔ ہمارے صدر کو آپ نے کبھی خالی نہیں موڑا۔ کچھ ہم پر بھی کرم کرو۔ جناب چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور پاکستان بھی بھلا کوئی ملک ہے؟ ہائے ہائے کہیں امریکہ کی شہریت مل جائے تو سرکار کے پیر ساری عمر دھو دھو کر پیوں] (پینڈو کے ڈائلاگز کے دوران گورے صاحب کے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔ گورا موبائل سن رہا ہے۔ اس کے بعد گورا سٹیج سے نیچے جانے لگتا ہے۔ پینڈو  باجی کی طرف لپکتا ہے۔)
پینڈو: باجی اے باجی اے کتھے چلا اے۔ پچھ ناں؟ [باجی یہ کہاں چلا ہے پوچھو نا؟]
باجی: وئیر آر یو گوئنگ؟
گورا صاحب: ویل آئی ایم جسٹ انفارمڈ دیٹ دس سیٹیزن شپ  آفر از کینسلڈ۔
باجی: گورا صاحب کہتا ہے کہ اب کوئی گرین کارڈ نہیں ملے گا۔
پینڈو: نئیں گورا صاحب۔ اینج نہ کرو میرے  چھوٹے چھوٹے حاکم نیں گورا صاحب۔ اونھاں تے دال دلیے دا انتظام کون کرے گا گورا صاحب۔ [نہیں گورا صاحب۔ ایسے نہ کرو میرے چھوٹے چھوٹے حاکم ہیں گرا صاحب۔ ان کے دال دلیے کا انتظام کون کرے گا گورا صاحب]۔  (واویلا کرتا ہوا سٹیج سے اتر جاتا ہے۔)

پیر، 4 فروری، 2013

وزیرِ اعلی لاہور

سب سے پہلے تو میں یہ مطالبہ پیش کرتا ہوں کہ لاہور کی طرح فیصل آباد کو بھی ایک وزیر اعلی دیا جائے۔ تاکہ یہاں بھی سڑکیں بنوانے، گلیاں پکی کروانے اور انڈرپاس اوور ہیڈ بنوانے کے لیے ایک سیاسی نگران ہو۔ بلکہ میرا تو یہی خیال ہے کہ تحصیل کی سطح تک وزرائے اعلی منتخب کروائے جائیں۔ جن کی اپنی اسمبلیاں ہوں، اور اپنی کابینہ۔ ہاں اس صورت میں کابینہ میں یونین کونسل کے ناظم بھرتی کیے جا سکتے ہیں۔
لاہور میں تیس چالیس ارب سے جنگلہ بس سروس تیار ہو رہی ہے۔ لاہور کے لیے ترکی کی درآمد شدہ کوڑا اٹھاؤ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ لاہور میں ہر مصروف سڑک پر اوور ہیڈ بن رہے ہیں۔ اور مصروف چوکوں میں انڈر پاس اور فلائی اوور بن رہے ہیں۔
جبکہ مقابلتاً میرے شہر فیصل آباد میں دس سال کے رنڈی رونے کے بعد، ایک چوک (عبداللہ پور چوک) میں انڈر پاس شروع کیا گیا۔ وہ بھی اس طرف جہاں ٹریفک کا رش کم ترین ہوتا تھا۔ اور جس روڈ پر ٹریفک کی تین چار سو میٹر لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں وہ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اس کی قسمت جگانے کے لیے ایک عدد وزیرِ اعلی کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ کلمہ چوک فلائی اوور، مسلم ٹاؤن فلائی اوور کی طرح ایک ڈیڑھ ماہ میں ایک عدد عبداللہ پور چوک فلائی اوور تیار ہو سکے۔
اس کے علاوہ فیصل آباد کا حق بھی ہے کہ یہاں ترکی والی کوڑا اٹھاؤ گڈیاں چلیں۔ اس کے لیے بھی ایک وزیر اعلی فوری طور پر یہاں بھی تعینات کیا جائے۔ وزیرِ قانون البتہ ثنا اللہ صاحب فیصل آبادی کو ہی رکھا جا سکتا ہے۔ انہیں بھی اپنے شہر میں کام مل جائے گا، اور عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا۔ اس کے جواب میں پیپلز پارٹی بھی راجہ ریاض کو ہوم ڈیوٹی اسائن کر سکتی ہے۔ اس طرح فیصل آباد بھی خبروں میں زیادہ آئے گا۔ اور ادھر گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر وزیر اعلی و کابینہ کی جانب سے پنجاب کے ساتھ زیادتیوں کے رونے زیادہ روئے جائیں گے۔
اور ہاں ہمارے ہاں بھی سڑک کنارے ایسکیلیٹرز لگوائے جائیں۔ ان کے لیے جنریٹر خریدے جائیں، اور گارڈز رکھے جائیں۔ تاکہ یہاں بھی لوگوں کو چُوٹے (جھولے) لینے کا موقع میسر آ سکے۔ مٹی گھٹے سے خراب ہونے کی صورت میں انہیں اچھے داموں کباڑیے کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔
اور ہو سکتا ہے مقامی کابینہ کے کسی وزیر کے ذہن میں کوئی اور اچھوتا منصوبہ آ جائے، جس سے فیصل آباد پر مزید پیسے لگ سکیں۔
میرا وزیرِ اعلی لاہور سے پُر زور مطالبہ ہے کہ جلد از جلد فیصل آباد کو بھی ایک وزیرِ اعلی مہیا کیا جائے۔ تاکہ ہم بھی لاہور کے برابر آسکیں۔ بلکہ مرحلہ وار ہر ضلع اور تحصیل کو وزرائے اعلی الاٹ کیے جائیں، تاکہ عوام گٹر کا ڈھکن بدلوائی، گلی پکوائی، سڑک بنوائی، انڈرپاس کھدوائی اور دوسرے ضروری کاموں کے لیے ان سے رجوع کر سکیں۔
عین نوازش ہو گی۔
عرضے
رہائشیانِ فیصل آباد
منتظرانِ وزیر اعلی و کابینہ