اتوار، 17 جنوری، 2010

لینکس جابز

انٹرنیٹ پر آج کل ہمارا کام جاب کی تلاش ہوتا ہے. اور جس طرح چیل کو اپنے مطلب کی چیز میل کے فاصلے سے نظر آجاتی ہے ویسے ہی  ہم ہر اس چیز کی لپکتے ہیں جس میں جاب کا لفظ آجائے. ایسے ہی ایک لپکنے چھپکنے میں ہمارے ہاتھ یہ ربط لگا. اگرچہ یہ میرے جیسوں کے لیے کوئی ایسی کام کی چیز بھی نہیں لیکن لینکس کی آنلائن جابز کے لیے اچھا آغاز ثابت ہوسکتی ہے.

جمعہ، 8 جنوری، 2010

فلمیں شلمیں

پچھلے  سے  پچھلے ماہ اور پچھلے ماہ کے پہلے پندرھواڑے تک بجلی وافر مقدار میں ملتی رہی اور ہمیں مفت کا ایک وائرلیس نیٹ ورک بھی ملتا رہا تو اہم نے اسے رج کے استعمال کیا اور ڈھیر ساری فلمیں اتاریں۔ ان فلموں میں سے دو فلمیں جو یاد رہ گئیں وہ ان کی آپسی مماثلت ہے۔ سروگیٹس میں ایک سائنسدان ایسے روبوٹس ایجاد کرتا ہے جو انسانوں کے دوسرے جسم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ خود سارا دن ایک تابوت میں لیٹے رہیں اور آپ کا روبوٹ اوتار آپ کی جگہ کام کرے گا چونکہ اصل میں وہ بھی آپ ہی ہیں، وہی محسوسات اور ویسا ہی بلکہ طاقتور جسم۔ اس فلم کے آخر میں یہ سارا نظام اس کے خالق کے ہاتھوں ہی تباہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس فلم کا گنجا سا ہیرو پتا نہیں اس کا نام کیا ہے سارے انسانوں کو بچا لیتا ہے اور روبوٹ نظام قیں ہوجاتا ہے۔
دوسری فلم جو ہمیں بڑی پسند آئی وہ اوتار ہے۔ کہانی  کی بنیاد وہی ہے ایک عدد ہیرو اور ایک عدد ولن۔ ایک ہیروئن اور اس کے گھر والے جن کو آخر میں ہیرو بچا لیتا ہے۔ اور ہاں ہیرو کی ٹریننگ بھی۔ لیکن جو چیز اس کی بہت اچھی تھی وہ ایک نئی دنیا تھی۔ آج کل کارٹون والے اور فلموں والے ایسی کہانیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں جن میں غیر ارضی مخلوق کو دکھایا گیا ہو۔ آپس کی بات ہے یہ اچھی بھی بہت لگتی ہے۔ بہت دلچسپ، ہماری بھی اندر سے خواہش ہے کہ ایسی دنیاؤں کے بارے میں جانیں جو ارضی نہ ہوں۔ اس فلم میں اینی میشن اور حقیقی عکس بندی کو کچھ اس طرح ملایا گیا ہے کہ ایک شاندار منظرنگاری پر مشتمل فلم وجود میں آئی۔ ارے ہاں اس کی سروگیٹس سے مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ معذور ہیرو ان انسان نماؤں میں ایسے ہی شامل ہوتا ہے جیسے سروگیٹس میں لوگ روبوٹس کو بطور متبادل جسم استعمال کرتے ہیں۔ ہیرو صاحب ایک تابوت نما چیز میں لیٹ جاتے ہیں پھر اللہ تیری یاری ہیروئن کے ساتھ چھلانگیں لگاتے پھرتے ہیں۔ اگرچہ ہیروئن کوئی اتنی "خوبصورت" نہیں تھی لیکن ہیروئن تو تھی نا۔ بہرحال فلم پسند آئی اور بہت ہی پسند آئی۔ بلکہ مجھے تو اتنی پسند آئی کہ میرا دل کیا کہ یہاں تبلیغ کرنے پہنچ جاؤں۔ الو کے پٹھے پتا نہیں کس کی عبادت کررہے ہیں اللہ میاں کی عبادت کریں۔  ہاں ان کے ہاں کعبے کا مسئلہ ہوتا لیکن وہ تو حل ہوجاتا جن محددات یعنی جتنے ارض بلد اور طولبلد پر کعبہ یہاں واقع ہے ایسا ہی وہاں بنا لیتے۔ کرنی تو عبادت ہے نا جی۔ ہائے ہمارا کتنا دل کرتا ہے ساری دنیا بلکہ ساری کائنات کو مسلمان کرلیں۔ اور خود آپس کے سیاپے ہی ختم نہ کر پائیں۔
خیر تُسیں چھڈو۔ یہ خبر پڑھو۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فلم بن جائے گی، سہ جہتی ہے نا اس لیے اس کا ٹکٹ بھی مہنگا بکتا ہے۔ چلو جی سانوں کی، ہمیں تو مفت مل جاتی ہے دیکھنےکو۔ اصل سواد تو دوسری تیسری قسط کا ہے۔ سنا ہے ہدائیتکار صاحب کہانی ہٹ ہوگئی دیکھ کر اب دوسری تیسری قسط کے لیے چھری کانٹا تیز کررہے ہیں۔

اتوار، 3 جنوری، 2010

لوڈ شیڈنگ

پاکستان میں دسمبر کے آخری اور جنوری کے شروع کے ہفتے پچھلے تین سال سے لوڈ شیڈنگ کے عروج کے دن ہوتے ہیں۔ دن میں بیس گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجوہات کو پچھلے تین سالوں سے حل نہیں کیا جاسکا بلکہ یہ مسئلہ شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔
سردیوں‌میں‌ہمارےپاس ایندھن کی کمی ہوتی ہے۔ ہماری گیس گھروں میں ہی اتنی لگ جاتی ہے کہ فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں۔ سی این جی سٹیشنز کو گیس کی دو دن فی ہفتہ بندش اسی وجہ سے ہے۔ پاور سٹیشنز کو بھی گیس نہیں ملتی اور کام پورا ہوجاتا ہے۔ پچھلے چار پانچ سالوں سے ہمارے ڈیم بھر ہی نہیں‌ رہے، جیسے ہی سرما میں ڈیم بند کیے جاتے ہیں سارا پاور سسٹم ختم ہوجاتا ہے۔ پیچھے ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی ہوجاتی ہے۔ یاد رہے سردیوں میں چار ہزار میگا واٹ کی کمی گرمیوں کی چار ہزار میگا واٹس کی کمی سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ گرمیوں میں پیداوار پندرہ ہزار کے اریب قریب اور کھپت بیس ہزار کے اریب قریب ہوتی ہے۔ سردیوں میں کھپت دس ہزار میگاواٹ سے بہت کم ہوتی ہے اور میں سے چار ہزار میگا واٹ کی کمی کا مطلب ہے فیصد میں ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی۔ پچھلے تین سال سے دسمبر کے آخری دو ہفتے اور جنوری کے پہلے دو ایک ہفتے اتنہائی بدترین لوڈ شیڈنگ کے ہوتے ہیں۔ اس سال سے تو گیس بھی کم آنے لگی ہے۔ بجلی بند ہوتے ہی گیس بھی کم ہوجاتی ہے، چولہا جلائیں تو گیس بلب نہیں جلتا وہ جلائیں‌ تو چولہے پر روٹی بھی نہیں پکتی۔ ہماری گیس زیادہ سے زیادہ اگلے آٹھ سال تک کے لیے ہے وہ بھی تب جب نئے کنکشن نہ دئیے جائیں اور سی این جی سٹیشن نہ لگائے جائیں۔ گیس کہاں سے آئے گی کا خیال کیے بغیر گاڑیوں کو بلامنصوبہ بندی سی این جی پر کیا گیا اور آج گھروں  میں روٹی پکانے کے لیے بھی گیس نہیں‌ ہوتی سردیوں‌ میں۔ قصبوں‌ اور دیہوں میں سیاسی بنیادوں پر گیس کنکشن دئیے گئے اور گنجان آباد شہروں‌ کے رہنے والے جہاں‌ کوئی اور ایندھن بھی دستیاب نہیں آئے دن گیس کی بندش کے خلاف مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں۔ عجیب سسٹم ہے ہمارا۔ ڈنگ ٹپاؤ۔ کھاتے جاؤ۔ جب ختم ہوگا دیکھی جائے گی۔
 ہمارے پاس ابھی تک متبادل ذرائع توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے کوئی جامع منصوبہ، پالیسی یا ادارہ موجود نہیں ہے۔ متبادل توانائی بورڈ کے ملتے جلتے نام سے ایک حکومتی ادارہ مشرف دور میں کچھ سرگرم رہا ہے۔ ان لوگوں نے ٹھٹھہ بدین وغیرہ میں غیرملکی کمپنیوں کو پوَن چکیاں لگانے کے لیے زمین بھی الاٹ کی۔ لیکن ابھی تک ایک آدھ پوَن چکی ہی آپریشنل ہوسکی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی بجلی بھی دس روپے سے زیادہ فی یونٹ لاگت کی حامل ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اسلام آباد کے قریب ایک ماڈل دیہہ جو شمسی توانائی پر چلتا ہے پچھلے کئی سال سے موجود ہے، پنجاب میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر کرنے کی بڑھک پچھلے دنوں خادم اعلی کی جانب سے سنائی دی۔ اب اس پر عمل کتنا ہوگا رب جانے اور خادم اعلی جانیں۔
ہمارے پانی کے ذخائر تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بھارت ہمارے دریاؤں پر پچھلے پانچ سال میں کئی بڑے اور بیسیوں چھوٹے ڈیم بنا چکا ہے جس کی وجہ سے آج راوی گندہ نالا ہے اور اس وقت چلتا ہے جب سیلاب آنا ہو۔ جہلم آدھا خشک ہوچکا ہے اور ستلج کو تو سندھ طاس معاہدہ کھا گیا۔ بھارت کے وولر بیراج اور بگلیہار ڈیم پر عالمی عدالت انصاف میں جانے کے لیے نہ مشرف دور میں کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ موجودہ حکومت پچھلے ڈیڑھ سال سے کچھ کرسکی ہے۔ جماعت علی شاہ، ہمارا نام نہاد واٹر کمشنر پتا نہیں کیا کرتا پھر رہا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس عہدے پر موجود یہ شخص کن کا ایجنٹ ہے اور اسے پانی کی کمی نظر کیوں نہیں آتی۔ ہمارا بارشوں کا نظام تیزی سے نارمل سے ہٹ رہا ہے۔ بلوچستان جیسے علاقوں میں غیرموسمی بارشوں سے قریبًا ہرسال سیلاب آجاتا ہے اور  ماضی کے بارانی علاقے اب آسمان کو بادلوں سے عاری دیکھ دیکھ کر ترس جاتے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کے تحت پانی سٹور کرنے کے لیے ہماری  پالیسی میں کوئی بھی تبدیلی یا جدت نہیں لائی گئی۔صرف ایک دیامر بھاشا ڈیم جس پر کام اگلے دس سال میں مکمل ہوگا اسے شروع کیا گیا ہے۔
ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں۔ اور ہماری حکومت یہ ہے کہ ہماری کوئی حکومت نہیں۔ اور ہماری قوم یہ ہے کہ یہ کوئی قوم نہیں ہجوم ہے۔