اتوار، 30 اکتوبر، 2005

پراجيكٹ گٹن برگ كي طرز پر اردو ميں ايك منصوبہ

اردو ہم جس کو کہتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو اور سائنس آجکل اردو کے چاہنے والوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ کچھ کریں یا نہ کریں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ ہر چیز اردو میں ہو۔ استعمال چاہیں نہ کریں ۔ کمپیوٹر بھی سائنس میں شمار کیا جاتا ہے ۔ زندگی میں کمپیوٹر کے عمل دخل نے جہاں ہمیں اور پہلوؤں سے متاثر کیا ہے وہاں ہماری زباندانی پر بھی اثرات اور بڑے بد اثرات چھوڑے ہیں ۔ اس کی مثال یہ لے سکتے ہیں کہ رومن میں چیٹ کر کر کے اب میرا یہ حال ہو گیا ہے کہ بعض اوقات شبہ ہونے لگتا ہے کہ شاید اردو میں لکھے اس لفظ کے ہجے ٹھیک نہیں حالانکہ ٹھیک ہوتے ہیں ۔ بات چلی تو عرض کرتا چلوں اردو کا ہاتھ سے لکھنا بھی چونکہ تقریبا عنقا ہوتا ہے، بعد از میٹرک تو اس کا حال بھی برا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہم پر اس وقت ہوا جب بی کام پارٹ ون کا اسلامیات کا پرچہ دے رہے تھے اور کسی سے لکھا نہیں جا رہا تھا اردو لکھنے کی عادت نہیں تھی ہاتھوں کو پچھلے ٣ سالوں سےتو کیا خاک لکھا جاتا نتیجتًا تمام لڑکے پرچہ دینے کے بعد دیر تک ہاتھ اور بازو ملتے رہے کہ درد ہو رہا تھا۔
خیر یہ تو بات سے بات تھی۔ ذکر ہو رہا تھا کمپیوٹر میں اردو کا ۔ کمپیوٹر کی بات ہو اور انٹرنیٹ کی نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اردو کا نام بھی کمپیوٹر کے لیے حرام تھا چند سال پہلے تک مگر اب کچھ نئی تکنیکوں اور کچھ ٹوٹکوں نے کمپیوٹر پر اردو لکھنا اردو پڑہنا ممکن بنا دیا ہے۔ جب یہ سب ہو گیا تو اردو کے چاہنے والوں کو ہوش آیا کہ اب انٹرنیٹ پر بھی بس ہر طرف اردو ہی اردو کر دیں ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر اردو ویب آرگ کا قیام عمل میں آیا ۔ جہاں سے ناچیز کے اصرار پر ایک پراجیکٹ یا منصوبہ بسلسلہ اردو ای بکس شروع کیا گیا۔
اگرچہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل مریض کی طرح اس کی حالت نازک ہے مگر امید ہے کہ بہتری ہوگی۔ اردو ای بکس یوں تو موجود ہیں انٹرنیٹ پر مگر یہ سب تصویری اردو میں ہیں تحریری اردو میں نہیں ۔ تصویری اردو وقتی حل ہے مستقل حل نہیں چناچہ یہ منصوبہ جو اردو محفل کے اراکین کی طرف سے ترقی پذیر ہے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اردو کی کتابیں مہیا کی جائیں جو:
١۔تحریری اردو میں ہوں
٢۔مفت اور ہر ایک کے لیے ہوں
٣۔ خصوصًا اردو کی کلاسیکل کتابیں جن کے نایاب ہونے کا خدشہ ہے یا کم ملتی ہیں یا انھیں اردو میں ایک مقام حاصل ہےاور صاحبان ذوق ان کو سینت سینت کر رکھنا پسند کرتے ہیں۔
٤۔اسلامی کتابیں جیسے قرآن بہ ترجمہ و تفسیرقرآن،احادیث کی کتب،سیرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کتب، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت وغیرہ۔
٥۔اردو کی لغات جن سے اردو داں طبقے میں اردو کی صلاحیت بڑھے۔
٦۔ایسی کتابیں جن کی کاپی رائٹ نہ ہو یہ ختم ہو گیا ہو ہو یا متعلقہ ادارہ انکی آن لائن اشاعت کی اجازت دے دے۔
اس سلسلے میں ہمیں ہرممکن تعاون درکار ہے ہم فی الحال علمی تعاون مانگ رہے ہیں۔ اگر:
١۔ آپ کے پاس کوئی کتاب ان پیچ یا کسی بھی اردو اڈیٹر میں لکھی ہوئی موجود ہے، آپ اپنی غیر مطبوعہ تحاریر(بشرطیکہ معیار پر پوری اتریں ) یا اپنی یا اپنے ادارہ کی کسی کتاب کا کاپی رائٹ دے سکتے ہوں۔
٢۔آپ کچھ وقت نکال کے ہمارے ساتھ اس کام میں ہاتھ بٹا سکتے ہوں لکھنے کے سلسلے میں(اور انشاءاللہ مستقبل قریب میں تحاریر کی پروف ریڈنگ کے سلسلے میں جب کام کی رفتار زیادہ ہوگی)
٣۔آپ اس کام کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ہمیں کوئی مفید مشورہ دینا چاہتے ہوں کوئی تکنیکی بات جس سے اس منصوبے کو نکھارنے میں مدد ملے۔
٤۔اس کے علاوہ کوئی بھی ایسی بات، کوئی تعاون جو آپ کے خیال میں اس سلسلے میں مفید ثابت ہو سکتا ہو
اگر ہمیں فراہم کریں گے ہم بصد شکریہ اسے قبول کریں گے اور اسے آپکے نام کے ساتھ اپنے منصوبے میں شامل کریں گے۔ اس صدقہ جاریہ کا صلہ تو اللہ ہی دے سکتا ہے مگر دنیا میں جو خوشی اس سے آپ کو اور اردو کے چاہنے والوں کو ملے گی اس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا ۔
اللہ کریم ہمیں توفیق دے ۔
خیر اندیش
www.urduweb.org کی جانب سے‘دوست‘

منگل، 25 اکتوبر، 2005

عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

کلاس شروع ہوئی تو ایک لڑکے نے اٹھ کر پوچھ لیا سر یہ کہ رہا ہے کہ حضورصلی علیہ وسلم زندہ ہیں یا نہیں اور دوسرےنبی کا رتبہ شہید سے زیادہ ہے یا نہیں ۔
سر نے جواب دیا ایک دو لڑکوں نے اپنے عقیدے کے مطابق جواب دیا کہ رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم درود شریف کا جواب دیتے ہیں یا ایک فرشتہ ہمارا درود ان تک پہنچاتا ہے۔
اور میں سوچتا رہا ہم سب یہ کن بحثوں میں پڑے ہوئےہیں۔
کیا عاشق اس بات کو سوچتا ہے کہ محبوب سامنے ہے یا نہیں۔
وہ تو عشق کیے جاتا ہے۔ عشق کیا جانے ان چیزوں کو اس کا تو دل مدینہ ہوتا ہے۔ اور جس کے عشق میں وہ سرتاپاغرق ہے وہ اسےنا جانے یہ کہاں لکھا ہے۔ ہم صرف بے معنی باتوں میں الجھے ہیں۔ عشق کر کے تو دیکھیں آپ ان چیزوں سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ عاشق کو تو محبوب کی رضا چاہیے اور یہ آپس میں لڑ لڑ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔

جمعرات، 20 اکتوبر، 2005

پاگل دل

آج بہت دن بعد دکھ برداشت سے باہر ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ ایک بہت عزیز ہستی کو دکھ میں غرق دیکھ کر بے اختیار دل میں شکوہ ابھر آیا۔

“مالک کیا ہم اتنے ہی بے وقعت ہیں جو آئے روند کر چلا جائے ۔تُو تو سنتا ہے ہم نے تمہیں پکارا مگر ہماری کیوں نہیں سنتا! دکھ دینا تھا تو صبر دے دیتا یہ اتنا سارا دکھ کہاں لے جائیں“

دل اور بھی شکوہ کرتا نادان تھا نا مگر عقل نے روک دیا۔

“رک کیا کر رہا ہے۔ کفر بکتا ہے اللہ تم پر مہربان ہے بھلا وہ تمہاری کیوں نہ سنےگا“

دل پھر مچلا

“مگر پھر یہ کیوں! کیا اسے سنتا نہیں کیا اسے دکھتا نہیں کوئی کتنی تکلیف میں ہے “

اس سے آگے سوچنے کی مہلت نہ ملی ۔ عقل نے ایک نیا زاویہ دکھایا۔

“کیا ہے تیرا دکھ اپنی من پسند چیز نہیں ملی تو اس کے احسان بھلا دیے ایک ایسی چیز کے لیے اس کے غضب کو آواز دیتا ہے جو سراسر دنیاوی ہے“

“تیرا دکھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ سے تو بڑا نہیں یاد کر جب انھوں نے کہا تھا ہمیں دکھ ہے مگر ہم رو نہیں سکتے۔ یاد کر وہ وقت جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا قاسم اس دنیا سے چلا گیا۔ کیا تیرا دکھ اس سے بڑا ہےایک باپ کے دکھ سے جس کے سامنے اس کی اولاد چلی جائے وہ بھی بیٹا۔ اور پھر بھی وہ آنکھ سے آنسو نہیں ٹپکنے دیتے کہ اللہ کی رضا اسی میں تھی“

دل اب پشیمان ہو گیا“ میرا غم تو کچھ بھی نہیں اس کے آگے۔“ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ کو محسوس کیا تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان بھی تو تھے ایک باپ بھی تو تھے انھوں نے کیا محسوس کیا ہوگا مگر پھر بھی اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ۔

“اور تو ایک دنیاوی چیز کے نہ ملنے سے بلک رہا ہے۔

ان کی حالت دیکھ جن کے عزیز ان سے بچھڑ گئے گھر اجڑ گئے اولاد والے بے اولاد ہو گئے بچے یتیم ہو گئے اپنے دکھ کےساتھ انکے دکھ کو بھی تو رکھ کر دیکھ وہ بھی تو انسان ہیں وہ تو شکوہ نہیں کرتے وہ تو اب بھی شکر کرتے ہیں اور تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشکرا انسان“

عقل نے اب سختی اختیار کی تھی اور دل ۔۔۔۔۔۔دل اپنے دکھ کو اس دکھ کے سامنے ہیچ محسوس کر رہا تھاجو ہزاروں دل جھیل رہے ہیں۔

پھر عقل نے پیار سے سمجھایا

“پاگل دنیا میں ہر چیز نہیں مل جاتی ۔ کہیں اپنی منوائی جاتی ہے کہیں اسکی رضا پر چلنا پڑتا ہے۔ نہ چلےگا تو پھر کیا کر لےگا چلا تو لے گا وہ تجھے اپنی رضا پر! تو اپنی رضا سے چل۔۔۔ مفت میں اسکے سامنے نمبر بن جائیں گے ۔۔۔یہ بھی تو سوچ جو تجھ پر بیتی ہے اس میں تیرا کتنا ہاتھ ہے۔ کبھی تو نے سوچا کہ میں اس کے حقوق پورے ادا کروں اپنے حقوق کی فکر ہے تجھے۔کبھی سوچا کتنا گنہگار ہے اور وہ تجھے ڈھیل دیے جا رہا ہے اور تو پھر۔۔۔۔۔۔۔ “

دل و دماغ کی اس جنگ نے کئی عقدے سلجھا دیے۔ اگر دکھ جھیلنا ہے تو اپنے دکھ کا موازنہ دوسروں کے دکھ کے ساتھ کرو اپنا دکھ بھول جاؤ گے اپنے دکھ پر دکھی ہوتے شرم آئے گی اتنا ہیچ ہو جائے گا۔

پھر بے اختیار دل سے دعا نکلی

“مالک! ہم خطاکار،سیاہ کار،گناہ گار! تیری رحمت کے طلبگار باوجود کہ اس کے لائق نہیں پھر بھی ہم پراپنا رحم کرم اور فضل فرما۔ رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم سے رحمت بھرا سلوک فرما۔ ہم تجھ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگتے ہیں ہماری توبہ قبول فرما ہمیں اس مصیبت کی گھڑی میں جو ہمارے بہن بھائیوں پر آئی ہے ان کی مدد کرنے کی توفیق عطاء فرما اور ان کو صبرِ جمیل عطاء فرما آمین یا ربّ العالمین “

اتوار، 9 اکتوبر، 2005

شکر کیجئے

ہر طرف غصہ ،نفرت ،لاتعلقی،بے حسی اور بے زاری کا دور دورہ ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ سے غرض رکھنا چاہتا ہے۔ دوسروں سے لاتعلقی،بے زاری ۔اپنوں سے ،غیروں سے ،چیزوں سے ،ماحول سے غرض ہر چیز سے بے زاری ،لاتعلقی، بے حسی ۔ آخر کیوں ؟۔ اسکی وجہ لوگ زندگی کی تیز رفتاری کو قرار دیتے ہیں ۔ ہمارے پاس اپنے لئے وقت نہیں بچا۔ تو خدا کے لیے کہاں سے وقت نکالیں گے۔ ہم پانچ وقت کی نمازاور بعض جمعہ یا عیدین کے دو فرائض پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسلمان ہونے کا حق ادا کردیا۔ عیسائیت کی طرح ہم اسلام کو مسجد کے اندر محصور کر دینا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ زبانی طور پر "دینِ فطرت " کا راگ ہر کوئی الاپتا ہے مگر عمل کوئی نہیں ۔ یاد رکھیں اسلام آپ کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے جب آپ زندگی سے اسلام کو نکالیں گے تو اپنے آپ سے گویا دستبردار ہونگے جس کا نتیجہ یہ ہی ہوگا جو آج ہے۔
کتنے چھوٹے چھوٹے اعمال ہیں جو ہم بھولتے جارہے ہیں ۔ جن پر کوئی توانائی خرچ نہیں ہوتی مگر کوئی دھیان تو کرے۔ میں واعظوں کی طرح مسواک کرنے،داڑھی رکھنے یا شلوار کو ٹخنوں سے اونچا کرنے کی بات نہیں کررہا ۔ بلاشبہ انکی اپنی اہمیت ہے مگر یہاں بات رویوں کو درست کرنے کی ہو رہی ہے۔
عام زندگی میں ہم ہر اس شخص کے شکر گزار ہوتے ہیں جو ہم پر کوئی چھوٹا سا بھی احسان کرے۔ مگر ہم اپنے سب سے بڑے محسن کو بھولتے جارہے ہیں ۔رسمی طور پر تو اسکا شکر ہر کوئی ادا کرتا ہے جیسے :
"اسلم بھائی کیا حال ہے"
"اللہ کا شکر ہے ارشد بھائی "
"کاروبار کا سنائیں"
"بس یار نہ ہی پوچھو بس گھسیٹ رہے ہیں"
عجیب بات ہے نا۔ ایک طرف تو اللہ کا شکر دوسری طرف شکوہ۔یہ عام سی بات ہے کوئی بھی اپنی طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم شکر نہیں کرتے۔ سوچیں اللہ جس کی رحمت لمحہ لمحہ ،ہر سانس کے ساتھ ہم پر برس رہی ہے وہ تھکتا نہیں ہمیں نوازتا اور ہم،اس کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتے؟ مگر اس سے کیا ہوگا؟ شائد یہ سوال کچھ دلوں میں اٹھے تو اس سے یہ ہو گا کہ آپ کے ہر اس کام میں برکت دے دی جائے گی جس بارے شکر کیا جائے۔ شکر کا اصول ہے کہ جس بارے یہ کیا جائے اللہ اس کام میں بڑہوتری دے دیتے ہیں ۔ تو احساس رکھیں کہ کوئی ہے جس کی رحمت ہر لمحہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ جب یہ احساس رہے گا تو شکر گزاری کے جذبات بھی پیدا ہو نگے اور شکر کے چند الفاظ ہماری زندگیوں میں انقلاب لے آئینگے کہ ہم پر خدا کی رحمت ہو گی۔ اور جس پراس کی رحمت ہو وہ بھلا کبھی ناکام ،بے بس ، مجبور ، پریشان ،بے زار ہوسکتا ہے ؟
نہیں کبھی نہیں ۔
تو آئیے شکر ادا کریں ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں مسلمان بنایا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں محمدکا امتی بنایا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں بغیر عیب کے پیدا کیا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں لاکھوں سے بہتر زندگی دی۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں پاکستان عطاءکیا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں رزق دیا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔ آئیے آئندہ سے شکر کرنے کا عہد کریں اللہ ہمیں شکر کرنے کی توفیق دے آمین۔