ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

دعا

اے میرے رب
اے بزرگ تر
اے سب سے زیادہ عزت والے
اے عزت دینے والے
اے ذلتوں سے بچانے والے
اے پردہ رکھنے والے
اے ارحم الراحمین
اے رحمان
میں قعرِ مذلت کی گھاٹیوں میں پڑا
میں ذلتوں میں لُتھڑا
میں قلب و رُو سیاہ
میں گناہوں میں پھنسا
تیری رحمت کا طلبگار
تیری آزمائشوں سے پناہ کا طالب
تیری ستّاری کا بھکاری
تیرے در پہ بیٹھا
تیرے حبیب ﷺ کے صدقے
تیرے سخی حبیب ﷺ کے صدقے
تجھے تیری عزت، جبروت، سخاوت، بزرگی اور ستّاری کا واسطہ دے کر
تیری رحمت کا طلبگار ہوں
تیری عطاء کا بھوکا ہوں
تیری نظرِ کرم کا منتظر ہوں
اے میرے مالک
مجھ پر اپنے فضل و کرم کا سایہ رکھیو
میری خطاؤں پر پردہ رکھیو
مجھے آزمائشوں سے بچائے رکھیو
مجھے علمِ نافع عطاء کیجیو
مجھے رزقِ حلال کی توفیق دیجیو
اے عزت والے
اپنے عزت والے نبی ﷺ کے صدقے
میری عزت کو کم ظرفوں سے اپنی امان میں رکھیو
آمین یا رب العالمین

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

تھوڑ دِلا

ممتاز مفتی کہتا ہے کہ رب جی سے یاری لگا لو۔ رات سونے لگو تو ساری باتیں رب جی کو سنا کر، دل کا بوجھ ہلکا کر کے سویا کرو۔ میری خوش قسمتی یا بدقسمتی کہ کوئی آٹھ دس برس پہلے مفتی کو پڑھ لیا۔ اور اس کے دئیے گئے اس سبق کو بھی دل پر لے لیا۔ اور اب رب جی کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ رب جی سے سب کہہ دیتا ہوں۔ سوتے جاگتے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، اکیلے یا محفل میں رب جی سے باتیں جاری رہتی ہیں۔

پنجابی میں تھوڑ دِلا کہتے ہیں، ایسا شخص جس کا دِل بہت تھوڑا سا ہو۔ مطلب تو اس کا شاید یہ ہے کہ تھوڑ دِلا دوسروں کے ساتھ کچھ بانٹنے سے بھاگتا ہے۔ شاید کچھ مطلب یہ بھی ہے کہ تھوڑ دِلا زود غم اور زود حس ہوتا ہے۔ ذرا سی بات پر دل دھڑک اٹھتا ہے کہ کچھ ہو گیا۔ اور یہ کچھ اکثر بُرا والا کچھ ہوتا ہے، اچھا والا نہیں۔ تو میں اس قسم کا تھوڑ دِلا ہوں۔ ہر بات پر بِدک جاتا ہوں، ہر آہٹ پر تریہہ جاتا ہوں اور خاموشی بھی کسی طوفان کا پیش خیمہ زیادہ اور سکون کی علامت کم لگتی ہے۔ میرے جیسا تھوڑ دِلا پھر اور کس کے در پر جا سوال کرے گا؟ بس رب جی کے آگے دستِ سوال دراز کر کے بیٹھ جاتا ہوں۔

رب جی کے ساتھ یاری بڑا اوکھا کام ہے جی۔ میرے جیسے منافقوں کی یاری بھی مطلب کی یاری ہوتی ہے۔ آپ سے کیا چھپانا بس ڈر لگتا ہے، بہت ڈر لگتا ہے، رب جی کی آزمائشوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے، یا میرے اندر کا تھوڑ دِلا مجھے خبردار کرتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے تو میرے روئیں روئیں میں الارم بجنے لگتے ہیں۔ بس پھر ایک ہی اُپائے ہوتا ہے، رب جی کے حضور درخواست گُذاری۔ رب جی کے حضور درخواست کرتا ہوں۔ بار بار کرتا ہوں۔ دیکھ لے مولا تُو تو رب ہے ناں، تیرا کیا چلا جائے گا۔ ایک میرے ساتھ اگر رحمت والا معاملہ کر دیا تو تیرے خزانے میں کونسا کمی آ جائے گی۔ میں مانتا ہوں کہ میرے پلّے کچھ نہیں ہے، لیکن تُو تو رب ہے۔ پالنہار ہے، تجھے پُوچھنے والا کون ہے۔ تُو تو آل اِن آل ہے، میرے ساتھ رحمت والا معاملہ کر دے میرے مالک۔ تجھے پتا ہے مجھے تیری آزمائش سے ڈر لگتا ہے، بہت ڈر لگتا ہے۔ مجھے تیرے عذاب سے بھی ڈر لگتا ہے۔ مجھے تیرے مُنصف بن جانے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ کہ اگر تُو مُنصف بن گیا تو میرے پاس تو کچھ بھی نہیں پاس ہونے کےلیے۔ تُو رحمت والا معاملہ کر دے ناں، تو میرے لیے اس دنیا میں بھی اپنا کرم کر دے ناں۔ تو مجھ پر اپنی عطاء کر دے گا تو تیرا کیا چلا جائے گا۔ رب جی سے ایسی ایسی باتیں کہ کوئی اور سُن لے تو مجھے پاگل کہے۔

اور جب کوئی چارہ نہیں رہتا، جب کوئی اور امید نہیں رہتی تو پھر ایک ہی واسطہ ہوتا ہے۔ رب جی، نبی جی ﷺ کا صدقہ اپنی عطاء کر دو۔ نبی جی ﷺ کا نام ایسا ہے کہ بس اس کے بعد کچھ اپنے بس میں نہیں رہتا۔ نبی جی ﷺ کے نام کے بعد لفظ نہیں صرف آنسو کام کرتے ہیں۔ رب جی کے دربار میں نبی جیﷺ کے واسطے دے کر بھی تھوڑ دِلا کیا مانگتا ہے؟ دنیا ۔ لیکن تھوڑ دِلا کیا کرے، رب جی کی مہربانی سے اگر اب کچھ ملا ہے، تو تھوڑ دِلا تریہہ جاتا ہے۔ ہر آہٹ اور خاموشی پر بدک اٹھتا ہے۔ رب جی کی آزمائش کا خوف اسے چین نہیں لینے دیتا۔ تو پھر تھوڑ دِلا اگر رب جی سے رحمت مانگنے کی ٹیپ نہ چلائے تو اور کیا کرے؟ تھوڑ دِلا تو یہی کر سکتا ہے کہ رب جی سے معافی مانگتا رہے، اور رحمت مانگتا رہے اور نبی جی ﷺ کا واسطہ دیتا رہے۔ اور بھلا تھوڑ دِلا کیا کر سکتا ہے؟

جمعرات، 8 ستمبر، 2016

اردو بلاگنگ اور انٹرنیٹ پر اردو کا ارتقاء

بلاگنگ پچھلی صدی کے آخری عشرے کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق لوگوں نے اپنی ویب سائٹوں پر personal یا اپنے نام سے ایک ڈائریکٹری یا سب ڈومین بنا کر اس پر دن بھر کی مصروفیات، روئداد یا کسی ذاتی یا غیر ذاتی موضوع پر اپنے خیالات کو ایک ڈائری یا بیاض کی شکل میں بیان کرنا شروع کیا۔ زبان کی یہ تحریری صنف مضمون لکھنے جیسے ہی تھی، لیکن یہ اس سے مقابلے میں زیادہ بے تکلفانہ اور ذاتی رنگ لئے ہوئے تھی۔

 انگریزی اور دیگر زبانوں کی بلاگنگ کو دیکھتے ہوئے اردو میں بھی لوگوں نے 2004 یا اس کے بعد بلاگنگ شروع کی۔ اور چند برسوں میں چند لوگوں سے یہ تعداد سو کا ہندسہ پار کر گئی۔اردو بلاگرز نے 2005 سے 2010 بلکہ تین چار برس بعد تک بھی بلاگز چلائے، اور ان پر قارئین کی ایک مناسب (چند درجن سے سو یا زیادہ وزٹر فی پوسٹ) تعداد بھی آتی رہی۔ لیکن جیسا کہ انٹرنیٹ پر ہر چیز تیزی سے ارتقاء پذیر ہو کر نئی نئی شکلوں میں ظہور پذیر ہوتی رہی، ویسے ہی بلاگنگ کی شکل بھی بدلی اور اس میں پہلے جیسی دلچسپی بھی برقرار نہ رہ سکی۔

انگریزی کی بلاگنگ 2010 سے ایک دو برس پہلے سے ہی اپنا رخ تبدیل کر رہی تھی۔ اب لوگوں نے ذاتی بلاگنگ کی بجائے عنواناتی بلاگنگ پر توجہ دینا شروع کی۔ انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعے آمدن، اور اشتہارات لگانے کے لیے نئے تحریری (اب تصویری، ویڈیو مواد بھی) کی ضرورت محسوس ہوئی تو لوگوں نے مختلف شعبوں میں مدد کے لیے بلاگز بنائے (فلاں کام کیسے کریں، جنہیں انگریزی میں ہاؤ ٹُو قسم کی تحاریر کہا جاتا ہے)، کسی خاص شعبے کے حوالے سے خبریں، تازہ ترین اور معلومات کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوا (مثلاً انگریزی میں ٹیکنالوجی، قانون، مذہب وغیرہ سے متعلق بلاگز وجود میں آئے)، کمپنیوں نے بلاگنگ کی طاقت دیکھتے ہوئے اپنی ویب سائٹس پر عوام سے انٹرایکشن کے لیے بلاگ سیکشن شروع کر دئیے، اخبارات میں بلاگ سیکشن شروع ہوئے (پاکستان کے انگریزی اخبارات 2009 سے بلاگز چلا رہے ہیں، اردو اخبارات نے دو تین برس تاخیر سے یہی کام شروع کیا)۔ اب بلاگنگ سے ارتقاء پذیر ہو کر تحریری (اور دیگر اقسام کے) مواد کی تخلیق کا عمل اتنا کمرشل ہو گیا ہے کہ باقاعدہ آنلائن میڈیا ہاؤسز موجود ہیں جو اخبارات کی طرح (لیکن کاغذ پر چھاپے بغیر صرف آنلائن) مواد تخلیق کرتے ہیں۔ ان کمرشل سائٹوں میں ٹیکنالوجی سے متعلق ویب سائٹیں بھی ہیں (یہ اتنی ترقی کر چکی ہیں کہ کبھی کبھار بلاگ کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں)، اپنی مدد آپ کے حوالے سے بلاگز یا ویب سائٹس بھی ہیں، اور وائرل مواد (میش ایبل اور اس کی پاکستانی نقل مینگو باز) کی خبر دینے والی ویب سائٹس بھی موجود ہیں۔

اردو کے حوالے سے (جیسا کہ اوپر بتایا گیا) لوگوں نے بلاگنگ کچھ برس تاخیر سے شروع کی۔ لیکن انہوں نے انگریزی والے رجحانات کی پیروی کر کے اپنے ذاتی بلاگز سے ہی ابتدا کی۔ بدقسمتی سے اردو میں بلاگز کا ارتقاء انگریزی والے پیٹرن پر نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ اردو میں دستیاب مواد کو کمرشل بنیادوں پر استعمال نہ کر سکنا تھا۔ اردو میں لوگ مواد تخلیق کرنے کو تو تیار تھے، لیکن انہیں اردو زبان میں موجود ویب سائٹس کے لیے اشتہارات (جو انٹرنیٹ پر آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، اور اس حوالے سے آج بھی گوگل ایڈ سینس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں) نہیں ملتے تھے ۔ چنانچہ ذاتی قسم کے بلاگز لوگوں نے کچھ عرصہ لکھے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ رجحان اب بہت کم رہ گیا ہے (جیسا کہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں ہوا تھا)۔ اس وقت اردو زبان میں موضوعاتی بلاگنگ کے نام پر کرک نامہ، سائنس کی دنیا اورآئی ٹی نامہ جیسے چند ایک بلاگز ہی موجود ہیں، جو اشتہارات کے بغیر بھی معیاری اردو مواد تخلیق کر رہے ہیں۔ اردو زبان میں ذاتی بلاگز میں دلچسپی کم ہونے کی ایک اور وجہ سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے فیس بُک اور ٹوئٹر کی مقبولیت بھی تھی۔ ٹرینڈ فالو کرنے کی دوڑ، کم الفاظ یعنی کم وقت میں بات کہنے کی صلاحیت، زیادہ لوگوں سے انٹرایکشن کا موقع وغیرہ نے اردو بلاگرز کو فیس بک اور ٹوئٹر کا قیدی بنا دیا، اور ان کے بلاگ ماضی کے مزار بن گئے۔

انٹرنیٹ پرتحریری اردو کے فروغ میں بلاگنگ اصل میں تیسرا قدم تھی۔ اس سے پہلے انٹرنیٹ پر اردو فورمز (اردو محفل فورم، ہماری اردو فورم وغیرہ) تحریری اردو اور سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز مہیا کر رہے تھے۔ درحقیقت بیشتر اردو بلاگرز یہیں سے بلاگنگ کی طرف آئے۔ اور اِن آنلائن اردو چوپالوں سے بھی پہلے بی بی سی اردو، وائس آف امریکہ وغیرہ کی اردو ویب سائٹس نے تحریری اردو کے فروغ کی بنیاد ڈال دی تھی۔ روزنامہ جنگ کی تحریری اردو کی ویب سائٹ بھی بہت پرانی ہے اگرچہ لوگ زیادہ تر نستعلیق (یعنی تصویری اردو) والی ویب سائٹ پر ہی جانا پسند کرتے تھے۔

اردو بلاگنگ کے بعد؟ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ اردو بلاگنگ کا مختصر سا عروج جو 2007 اور اس کے بعد پانچ سات برس تک رہا، اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اب لوگ بلاگ کی بجائے اپنی فیس بک وال پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ فیس بُک اور دیگر سوشل میڈیا پر لوگوں کی دھڑا دھڑ آمد نے ہمارے روزمرہ کے ٹاکرے (یا مناظرے) بھی آنلائن کر دئیے، چنانچہ یہاں لبرل، سیکولر، ملحد، قدامت پسند، اسلام پسند اور دیگر "پسندوں" نے سینگ اڑا کر مناظرے کیے۔ وہ مناظرے ختم ہو گئے یا ختم ہوں گے، اس سوال سے قطع نظر لوگوں نے سوچا کہ ان سوشل میڈیا ٹاکروں کے لیے جو کچھ لکھا جاتا ہے اسے مناسب جگہ پر شائع کیا جائے چونکہ فیس بک پر تو مواد چند دنوں میں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق اپڈیٹس کے انبار تلے دفن ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہر نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ویب سائٹس کی بنیاد رکھی جن میں لالٹین، ہم سب، دلیل، مکالمہ، ایک روزن، آئی بی سی اردو۔۔۔وغیرہ وغیرہ ایک لمبی فہرست گنوائی جا سکتی ہے۔ ان میں سے کچھ ایک خاص نقطہ نظر کی ترجمان ہیں، کچھ ایسی نہیں ہیں، لیکن حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے وڈّوں کی زیرِ سرپرستی چلنے والی یہ تحریری اردو کی ویب سائٹس ہمارے خیال میں بلاگنگ کے بعد انٹرنیٹ پر اردو کے ارتقاء کا اگلا قدم ہیں۔ (اگرچہ اردو پوائنٹ اردو آنلائن جرنلزم کا بہت پرانا نام ہے، لیکن ان کی ویب سائٹ آج بھی نیم تحریری اور باقی تصویری اردو پر چلتی ہے، اور ان کی آمدن کے ذرائع آغاز سے ہی مقامی کمپنیوں سے ملنے والے اشتہارات ہیں۔) ان ویب سائٹس کے اجراء نے نئے لکھاریوں کو لکھنے اور چھپنے کے آسان ذرائع مہیا کر دئیے ہیں جو اگرچہ ذاتی بلاگ کی شکل میں پہلے موجود تو تھے لیکن قارئین کی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس سے بددل ہو جاتے تھے۔ میڈیا کے وڈّے وڈّے ناموں کے سایہء عاطفت میں آج آپ جہاں بھی چلے جائیں، آپ کو تجزیہ کاروںِ، مضمون نگاروں، جوابی مضمون نگاروں، نوٹ نگاروں، اختلافی نوٹ نگاروں اور لکھاریوں کی ایک فوج ظفر موج نظر آتی ہے۔ ان میں سے کچھ بہت اچھے ہیں، کچھ اچھے ہیں، کچھ مناسب ہیں اور کچھ راقم کی طرح دھکا سٹارٹ ہیں۔ لیکن لوگ لکھ رہے ہیں، اردو لکھ رہے ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے چونکہ اس سے اردو ترقی کرتی ہے، اردو پڑھنے سے تماشائیوں کو بھی اردو کو اردو میں لکھنے کی ترغیب ملتی ہے۔ ان ویب سائٹس نے نوجوانوں کو اپنی فرسٹریشن نکالنے کے ذرائع بھی مہیا کر دئیے ہیں جس سے مختلف علاقوں کا درجہ حرارت معمول پر رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ تفنن برطرف، آخر میں ہم آپ کی خدمت میں چند سوالات رکھ کر اجازت چاہیں گے۔

کیا مستقبل قریب میں انٹرنیٹ پر اردو مذہبی، نیم مذہبی، غیر مذہبی، سیاسی اور اس قسم کی دیگر مضمون بازی اور لفظی کُشتی سے آگے نکل پائے گی؟

کیا اردو اس قابل ہو سکے گی کہ اسے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے (مثلاً سائنس کی دنیا جیسی کاوشیں جو سائنس سے متعلق تحاریر کا اردو ترجمہ مہیا کر رہے ہیں)؟

کیا اردو اس قابل ہو سکے گی کہ اس میں معیاری تفریحی، تعلیمی، یا کسی بھی قسم کا مواد پیدا کر کے روزگار کمایا جا سکے؟

اور کیا مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہے کہ مذکورہ بالا فرضی اردو ویب سائٹس کو گوگل جیسی عالمی کمپنیاں نہیں تو مقامی کمپنیاں ہی اشتہارات دے کر ان کی روزی روٹی کے ذرائع پیدا کریں؟ (الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے وڈّوں کے زیرِ سایہ چلنے والی ویب سائٹس کو آج بھی کچھ نہ کچھ اشتہارات مل سکتے ہیں، جس کے لیے اکثر اوقات ان کا نام ہی کافی ہو گا، چونکہ ان ویب سائٹس کوآ گیا چھا گیا کے مصداق آتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اس لیے ٹریفک اور وزٹرز کی تعداد، نیز رینکنگ وغیرہ کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں چنانچہ کمپنیاں انہیں اشتہارات مہیا کرنے میں زیادہ دلچسپی لیں گی۔)

ہفتہ، 23 جولائی، 2016

مرد

پدر سری معاشروں میں مرد ایک مظلوم جانور کا نام ہے۔ معاشرہ اس کی کچھ ایسی تربیت اور کردار سازی کرتا ہے، اس کے اوپر کنکریٹ کا کچھ ایسا لیپ کرتا ہے کہ وہ دُور سے "مردِ آہن" اور "سنگ دل" نظر آتا ہے۔ اپنے معاشرتی کردار سے مجبور ہو کر وہ مروّجہ رسوم و رواج کی پیروی کرتا ہے، صنفِ مخالف کو دباتا ہے، طرح طرح سے اپنی بڑائی اور طاقت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اسی معاشرے کے ترقی پسند لبرل حلقوں کی جانب سے بھی گالیاں کھاتا ہے۔

مرد کے مروجہ معاشرتی کردار کو عطاء کردہ ایک صفت "مرد روتا نہیں ہے"، "کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہا رہے ہو"، "مرد بنو مرد"، "تم اب بچے نہیں ہو" جیسے جملوں کی صورت میں زبان میں ظاہر ہوتی ہے۔ آنسو بہانا انسان کے بنیادی خصائل میں سے ایک ہے۔ انسان جب جذبات سے اوور لوڈ ہو جاتا ہے، جب دل و دماغ میں اُبال آتا ہے تو پانی آنکھوں کے راستے چھلک پڑتا ہے۔ یہ اُبال کبھی خوشی کی وجہ سے ہوتا ہے، اور کبھی غم کی وجہ سے۔ پدرسری معاشروں میں مرد کو عطاء کردہ معاشرتی کردار یا سماجی سانچے میں آنسو بہانے والا مرد فِٹ نہیں بیٹھتا۔ نتیجتاً ایسے مردوں کے سماجی کردار یا ان کی "مردانگی" پر سوال اُٹھایا جاتا ہے۔

فیس بک پر ایک تحریر پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ انسان آج کے دور میں اتنی مواصلاتی سہولیات کے باوجود تنہا ہے، تو اس میں مرد ذات کی تنہائی عورت ذات کی نسبت زیادہ ہے۔ ایک پدر سری معاشرے کا پروردہ مرد جسے اوور لوڈ ہو کر اپنا جذباتی بوجھ ڈمپ کرنے کی اجازت نہیں ہے، جو انتہائی خوشی اور انتہائی غمی کے موقع پر عزم و ہمت کا پیکر نظر آنے کی توقعات تلے پِسا چلا جاتا ہے، جسے پنجابی کلچر کا وڈّا بن کر دکھانا ہوتا ہے؛ اس مظلوم مخلوق سے بڑھ کر تنہائی اور کس کے نصیب میں ہو گی۔ اوپر سے طاقتور، مطمئن، اور پُر سکون نظر آنے والا مرد اندر سے کتنا ناتواں، برانگیختہ اور بے چین ہوتا ہے، یہ پہلو وہ کم ہی کسی کو دکھا سکتا ہے۔

ایسے میں اگر پالنہار سے اس کا رابطہ نہ ہو تو یہ کیفیات شاید ڈپریشن، بلڈ پریشر اور سرطان جیسی بیماریوں کا باعث ہی بنتی ہوں گی۔ باہر سے ٹھنڈا اور اندر سے گرم نظر آنے کی یہ کیفیت پنجابی والا تتّا ٹھنڈا کر دیتی ہے تو چڑھنے والا بخار کسی بند دروازے کے پیچھے نیم ملگجے اندھیرے کمرے کے ایک کونے میں بچھے جائے نماز پر پالنے والے کے سامنے سجدہ ریزے ہونے سے ہی اتر سکتا ہے۔ اس کے سامنے سارے حجاب اُٹھ جاتے ہیں۔ وہ جو شہ رگ سے بھی قریب ہے، اسے سب معلوم ہے۔ اسے اندر باہر چلنے والے ٹھنڈی اور گرم ہر دو طرح کیفیات کا علم ہے۔ اس کے سامنے آ کر معاشرتی کردار، سماجی سانچہ اور اپنے جیسے دو پیروں پر چلنے والوں کی توقعات بھری گڑی نظریں سب کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ "تعلیم" اور "تربیت" کا لبادہ اتار کر جب مخلوق خالق کے سامنے ایک ننگ دھڑنگ، بے چین اور بے قرار، کُرلاتا ہوا بچہ بن کر پیش ہوتی ہے تو پھر کائنات میں صرف دو ہی کردار باقی بچتے ہیں: مخلوق اور خالق۔ اور اس رشتے کے ناتے مخلوق اپنے خالق سے سب کچھ کہہ ڈالتی ہے۔ پہلے پہل الفاظ ساتھ دیتے ہیں، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لفظوں کے پر جلنے لگتے ہیں، جذبات کے سمندر میں لفظ چھوٹی چھوٹی بے معنی کشتیاں بن کر ڈوبنے لگتے ہیں اور پیچھے صرف آنسوؤں کا جوار بھاٹا رہ جاتا ہے۔ جیسے چودھویں کی رات سمندر بے قرار ہو ہو کر ساحل سے سر پٹکتا ہے، ایسے ہی جذبات بے قرار ہو ہو کر دل و دماغ سے آنکھوں کے ساحل تک پہنچتے ہیں، چھلکتے ہیں، بہہ نکلتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خالق اور مخلوق کا کنکشن مضبوط ترین ہوتا ہے، سگنل فُل ہوتے ہیں اور تصویر بالکل ٹھیک آ رہی ہوتی ہے۔ مخلوق کا ریسیور اور انٹینا دھل کر صاف ہو جانے سے خالق کے ہونے کا احساس اور اسے حال بتانے کی صلاحیت، ہر دو کیفیات حاصل کر لیتے ہیں۔ تب ان کہی بھی کہی بن جاتی ہے، تب شکوے شکایتیں، اور گِلے بیان ہوتے ہیں۔ تب خالق کی رحمت کا احساس بھی بدر کی طرح اپنی روشنی سے منوّر کر دیتا ہے۔ تب دعائیں، مناجاتیں اور حاجتیں پیش اور قبول ہوتی ہیں۔

اس کیفیت کا طاری ہو جانا بھی اس کی عطاء ہے۔ اور جس پر اس کی عطاء ہوتی ہے وہ کبھی نامراد نہیں رہتا۔ دعا ہے کہ آپ اور مجھے رب العالمین اپنے سامنے ایسے پیش ہونے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین

ہفتہ، 2 جولائی، 2016

اردو محفل فورم کی گیارہویں سالگرہ پر

عرض کیا ہے کہ
وہ بھی کیا دن تھے
جب ہم جِن تھے
اب ہم چھوٹے موٹے ہی سہی
دیو ہیں
یعنی
جِنوں کے پیو ہیں
قصہ 2005 کے اواخر 2006 کے اوائل کسی وقت کا ہے۔ جب ہم اتنی ہی صحت، کچھ کم وسیع متھا شریف اور متھا جمع بُوتھا شریف پر ذرا کم کم جُھریوں کے حامل تھے۔ بی کام تقریباً کر لیا تھا۔ اور اس کے بعد کیا کرنا ہے، کچھ نہیں پتہ تھا۔ عرصہ کئی برس سے کمپیوٹر پر اردو لکھنے کی کوششیں فرما رہے تھے۔ ان دنوں یاہو اور ایم ایس این نیٹ ورک کی چَیٹ سروس بڑی مقبول تھی۔ اور ہم ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی کے تیار کردہ سافٹویئر اردو لنک میسنجر کو استعمال کر کے اردو میں چَیٹنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے۔ بس انہیں دنوں کا قصہ ہے کہ ہمیں اعجاز عبید صاحب کے یاہو اردو کمپیوٹنگ گروپ کا پتہ چلا۔ اور پھر ایک نئے اردو فورم "اردو محفل" کی بھنک پڑی۔ اور ہم اس پر جا پدھارے۔

میرا خیال یہ فورم قائم ہوئے کوئی چھ ماہ کا عرصہ ہو چلا تھا۔ فورم کے ممبران کی بڑی تعداد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی تھی۔ ہندوستانی احباب بھی چند ایک موجود تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ اردو بلاگ بھی لکھتے تھے یا بعد میں لکھنے لگے۔ تو یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ہم ذرا جوان شوان تھے، اور اردو کے لیے بہت کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ آج سے گیارہ برس قبل یہ فورم ایک عملی ثبوت تھا کہ کمپیوٹر پر اردو لکھی جا سکتی ہے۔ ہم اتنے خوش تھے کہ کئی ایک پراجیکٹ شروع کرنے کی ٹھانی۔ ایک لائبریری جس میں اردو کی کلاسک کتابیں ٹائپ کر کے رکھی جائیں۔ تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے اردو متون کمپیوٹر پر دستیاب ہوں۔ اس کے لیے ہم نے ایک عدد کتاب ہاتھ سے ٹائپ فرمائی اور پھر ایسے بھاگے کہ پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ شاید ایک آدھ اور کسی کام میں بھی حصہ لیا ایک اردو فہرستِ الفاظ کی تیاری میں کچھ ہاتھ بٹایا (جسے بعد میں اوپن آفس میں اردو املاء یعنی سپیل چیکنگ کے لیے استعمال کیا گیا)، لائبریری پراجیکٹ کے لیے ایک آدھ سافٹویئر (جسے بعد میں کبھی اپڈیٹ نہیں کیا) جس کا کام امیج کو دیکھ کر ٹائپنگ میں مدد دینا تھا، اور پھر خاموشی کے طویل وقفوں کے بعد کبھی کبھی کفن پھاڑ پوسٹنگ (ادھر اُدھر سے اکٹھی کر کے کچھ اردو انگریزی اور انگریزی اردو لغات ڈیٹابیسز کی تیاری وغیرہ)۔ عرصہ ساڑھے دس برس کا یہی خلاصہ ہے۔

ان گیارہ برسوں میں اس فورم نے اردو کمپیوٹنگ کے حوالے سے کئی ایک کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ اس کے اراکین نے ویب پر نستعلیق کی فراہمی سے لے کر کرننگ، اور کئی ایسے سافٹویئر بنانے کا کام سرانجام دیا جو کمیونٹی ڈویلپمنٹ ماڈل کے تحت اردو کمپیوٹنگ کے فروغ کا باعث بنے۔ یہ فورم انٹرنیٹ پر اردو کے عروج کے معماروں میں سے ہے۔ اس کا حصہ رہنا میرے لیے باعثِ فخر رہا ہے اور رہے گا۔ آج مجھے وہ رونق نظر نہیں آتی جو پانچ سات برس قبل اس کا خاصا تھی، بہت سے آشنا چہرے کسی اور منزل کے راہی ہو چکے ہیں، انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا سائٹس کی مقبولیت نے بلیٹن بورڈ فورمز کے بل پر اپنی یوزر بیس میں اضافہ کیا ہے، لیکن پھر بھی ایسے فورمز کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ انٹرنیٹ کے لامحدود خلاء میں یہ چھوٹی چھوٹی انسانی بستیاں اپنائیت کا احساس دلاتی ہیں۔ اس تیز رفتاری سے بدلتی دنیا میں یہ بستیاں ہمارے ماضی (سمجھ لیں کہ انٹرنیٹ کے دس برس شاید عام زندگی کے پچاس یا سو برس ہیں) کی یاد دلاتی ہیں کہ ہم نے ابتدا کہاں سے کی تھی۔ جب تک انٹرنیٹ ہے ہماری کوشش رہے گی کہ ایسی بستیاں آباد رہیں۔ ہم کہیں بھی چلے جائیں، واپس لوٹ کر یہاں ضرور آتے ہیں۔ اس بستی سے کچھ ایسی محبت ہے کہ یہاں کسی سے کلام نہ بھی کریں، چپ چاپ کسی گلی کوچے میں بیٹھے رہنا، آتے جاتے رہنا، اور پنجابی والی جھاتیاں مارتے رہنا اچھا لگتا ہے۔ اللہ اس فورم کو آباد رکھے۔ اس بستی کو سلامت رکھے کہ اس کے در و دیوار پر ہماری آپ کی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔

بدھ، 11 مئی، 2016

مہلت

زندگی مہلت نہیں دیتی۔ ہے نا؟
ہر کسی کو بس روز و شب گزارنے اور کام کاج نپٹانے کا لالچ ہوتا ہے۔ اسی لالچ میں 24 گھنٹے گزر جاتے ہیں اور اگلے 24 گھنٹوں کے ساتھ اگلا لالچ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ منحوس چکر کبھی ختم نہیں ہوتا۔
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ سیانوں نے سچ کہا ہے۔ جب احباب ساتھ ہوں تو وہی زندگی ہوتے ہیں۔ جب ساتھ نہ رہے تو ایک اور طرح کی زندگی وجود میں آ جاتی ہے۔ دوستوں کے حلقے ٹوٹتے بنتے یونہی زندگی گزرتی جاتی ہے۔ اور ایک دن ایک اکیلا جیسے آیا تھا ویسے ہی مٹی کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ اور یہی زندگی ہے۔

ان دوستوں کے نام جو کبھی میری زندگی کا حصہ تھے۔ لیکن زمان و مکان کی گردشوں نے ہمیں اتنا دور کر دیا کہ شاید ہی کبھی ملاقات ہو سکے۔

پیر، 9 مئی، 2016

بہار کی شام

آج کا سورج اپنی آخری سانسوں پر آ  کر آسمان کو سرخ کیے ہوئے ہے۔ لمحہ بہ لمحہ ماند پڑتی روشنی منظر کو دھیرے دھیرے رنگین سے بلیک اینڈ وائٹ میں منتقل کرتی جاتی ہے۔ ابھی مغرب کو عازمِ سفر ایک طیارہ سورج کی روشنی میں کسی غیر ارضی جسم کی طرح نظر آ رہا تھا، اور ابھی وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ پتوں سے بوجھل درخت ہوا سے ایسے لہلہاتے ہیں جیسے فقیر کو توقع سے بڑھ کر خیرات مل جائے تو وہ جھوم اُٹھتا ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اس تاریک پڑتے منظر میں نہ ہو تو دنیا گونگی ہو جائے۔

یہ منظر میری حسِ بصارت اور حسِ سماعت سے ٹکرا کر اتنا مجبور کر دیتا ہے کہ میں کامن روم کی بالکنی میں جا کھڑا ہوتا ہوں۔ اور تب مجھ پر اس منظر کی ایک اور جہت کھُلتی ہے، سوندھی سوندھی سی خوشبو۔ میرے وطن میں جب رُکھوں (رُکھ= درخت، شجر) پر بہار اترتی ہے تو بُور (ننھے پھول) کھِلتا ہے۔ ٹاہلی کے پھول، نیم کے پھول اور دھریک کے پھول۔ ان پھولوں کی مہک بھی ایسی ہی جاں فزا ہوتی ہے، سوندھی سوندھی، ہلکی ہلکی اور مسلسل۔ اس اجنبی دیس کی اجنبی فضاؤں میں گھُلی یہ مہک جب میری سانسوں سے ہم آغوش ہوتی ہے تو میں بے خود ہو کر اپنے دیس، دور اپنے سوہنے دیس اُڑ جانے کے لیے مچل اُٹھتا ہوں۔ لیکن میں ایک پر کٹا پرندہ صرف پھڑپھڑا کر رہ جاتا ہوں۔

لیکن میری سوچ کی اُڑان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ مہک، یہ بو باس مجھے ان گلی کُوچوں میں، کھیت کھلیانوں میں لے جاتی ہے، اس وقت میں لے جاتی ہے جب میرے دیس میں بہار اترتی تھی۔ اور دھریک پر ننھے ننھے پھول کھلا کرتے تھے۔ اور ان کی مست کر دینے والی خوشبو گرد و نواح کو مہکا دیتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مہک اور بو باس کے ساتھ بھی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔ خوشی اور غم کے احساسات منسلک ہوتے ہیں۔ سائنس کی زبان میں کہوں تو مالیکیول جب ایک خاص تناسُب سے نتھنوں سے ٹکراتے ہیں تو خاص قسم کے برقی سگنل پیدا کرتے ہیں۔ جو دماغ میں عصبی خُلیوں کو متحرک کر دیتے ہیں۔ مہک محسوس کرواتے ہیں۔ اور اس سے وابستہ یادوں کو بیدار کر دیتے ہیں۔ آج ، اس وقت، یہ دھیرے دھیرے اترتی شام، گزرے برسوں کی بہاروں کی ان ہزاروں شاموں میں سے ایک شام بن کر مجھ پر اترتی ہے۔ اور میں اس خوشبو کو سانسوں میں بسا کر، پہلی تاریخوں کے ہلال کو دیکھ کر، اپنے رب سے اُس کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہوں۔

بدھ، 4 مئی، 2016

دس منٹ

"اچھا وقت کتنی جلد ختم ہو جاتا ہے نا؟"، اس کے لہجے میں شکوہ نُما سوال چھُپا تھا۔
"وقت بھلا کہاں رُکتا ہے۔" جواباً میری افسوس زدہ سی آواز بلند ہوئی تھی۔
ابھی بسیں چلنے میں کچھ وقت تھا۔ ڈرائیور باہر کھڑے متوقع نظروں سے شرکاء کو دیکھ رہے تھے۔ ابھی اُمید باقی تھی، کہ ابھی وہ لمحہ نہیں آیا۔ کچھ لوگ الوداعی کلمات ادا کر کے سوار ہو چکے تھے۔ اور کچھ ہم جیسے لوگ جیسے کسی معجزے کے منتظر تھے، شاید ہونی ان ہونی ہو جائے۔ یا شاید چند لمحے اور چُرانے کے لالچ میں حقیقت سے آنکھیں چُرا رہے تھے۔
"مجھے فیس بُک پر ایڈ کر لینا یاد سے۔" اس نے تاکیداً کہا۔
"میں جلد ہی تمہارے شہر آؤں گا۔ اپنا شہر گھماؤ گی نا؟" میں نے غیر محسوس انداز میں بات پلٹی۔
"ہاں، ہاں ضرور۔۔۔" اس کی آنکھیں یکدم چمکیں اور آواز میں اُمید کی کھنکھناہٹ در آئی۔
دس منٹ، دس صدیاں تھے یا دس لمحے۔۔۔ گزرنے کا احساس تب ہوا جب ڈرائیور نے سٹیرنگ سنبھال لیا۔ مہلت ختم ہو گئی۔ اب جانا تھا۔ میں نے آخری بار اس کا ہاتھ دبایا۔ آخری مرتبہ نظریں ملیں، ایک دوسرے کے خال و خد جیسے حفظ کرنے کی آخری کوشش ہوئی۔ اور پھر میں کچھ کہے بغیر بس کی جانب پلٹ آیا۔
"اپنا خیال رکھنا۔۔۔" پیچھے سے اُس کی آواز میں لرزاہٹ اُتر آئی تھی، یا میرا وہم تھا۔
"تُم بھی اپنا خیال رکھنا۔۔۔" میں نے مُڑے بغیر کہا۔ اور بس میں سوار ہو گیا۔
میں نے دانستہ دوسری طرف کی نشست چُنی۔ دوبارہ نظر پڑتی تو صبر کا دامن ہاتھ سے چھُوٹ سکتا تھا۔ بس چل پڑی۔
"وہ بھی اپنی منزل کی جانب رواں ہو گئی ہو گی۔" میں نے سوچا۔
اور میرا ہاتھ موبائل سے کھیلنے لگا۔ "فیس بُک پر ایڈ کر لینا۔۔۔"۔ اُس کی ہدایت یاد آئی لیکن میں نے سُنی ان سُنی کر دی۔
اب میرے سامنے تصاویر تھیں۔ کانفرنس کے پہلے دن جب ہم ملے تھے۔ چائے پیتے ہوئے، لنچ کرتے ہوئے، لیکچر سُنتے ہوئے، اور پھر ان تصویروں میں وہ بھی آ شامل ہوئی تھی۔ اگلے دن چائے پر، لنچ پر اور پھر ڈنر پر جب ہم آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ اس نے ہاتھ میں سرخ وائن پکڑے جام سے جام ٹکراتے ہوئے مُجھے ٹوکا تھا "میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔۔۔" اور میں نے خجل ہو کر دوبارہ سے وہ عمل دوہرایا تھا۔ اُس کی مُسکراتی آنکھیں، جن کا سحر جوان ہوتی رات کے ساتھ ساتھ جوبن پر آتا چلا گیا تھا۔ اور پھر موسیقی کی لے تیز ہوئی تو اس نے مجھے بھی ساتھ کھینچ لیا تھا۔ میری رقص کرنے کی کوشش میں ناکامی پر اس کی رقص سکھانے کی کوشش بھی جب ناکام ہوئی، تو ہمارے مشترکہ قہقہے۔ اور پھر ڈی جے نے جب بھنگڑا میوزک لگایا تو ہر کسی کا مُڑ مُڑ کر میرا ذرا کم لڑکھڑاتا اور اس کا بہت زیادہ لڑکھڑاتا ہوا بھنگڑا دیکھنا۔۔۔اور پھر ہماری نقل کی کوشش کرنا۔۔۔ناکام ہونا اور پھر ہمارا کھِلکھِلانا۔۔۔۔
ان سب یادوں کے کچھ عکس محفوظ تھے۔ جیسے کوئی مووی چلتے چلتے رک گئی ہو اور کلک کرنے پر دوبارہ چل جائے، یونہی لگتا تھا کہ یہ منظر دوبارہ چل پڑے گا۔ میں نے ایک آخری بار اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اور اس کے عکس حذف کر دئیے۔
"کاش کسی طرح اپنی یادوں سے بھی اس کے عکس مٹا سکتا"، میں نے موبائل بند کرتے ہوئے تمنا کی۔
بس آٹو بان پر فراٹے بھرتی میرے شہر کی طرف رواں تھی۔ دھوپ بھرا روشن منظر بس ایک لحظے کے لیے دھندلایا تھا۔ اور "آنکھ میں کُچھ پڑ گیا ہے"، بڑبڑاتے ہوئے میں نے آنکھیں رگڑ ڈالی تھیں۔
---
بابا مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں سے متاثر ہو کر لکھی گئی ایک تحریر۔ کرداروں اور مقامات کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔

پیر، 25 اپریل، 2016

کچھ لکھیے!

"کچھ لکھیے۔" آج کئی دن ہو گئے ہمارے اندر کھد بد سی جاری ہے۔ ہر کچھ دیر بعد اندر سے ایک آواز آتی ہے "کچھ لکھیے ناں"۔ ہمارے کان لال ہو جاتے ہیں، گالوں کا درجہ حرارت سو کو چھونے لگتا ہے۔ ہم پہلے ہڑبڑا کر ادھر اُدھر دیکھتے ہیں پھر خود کو لعنت ملامت کرتے ہیں کہ ایسی بھی کیا ۔۔اچھا خیر چھوڑیے۔ اصل میں مسئلہ ہے کہ اندر سے آنے والی یہ آواز خاصی لوچ دار اور نرم و نازک سی ہوتی ہے۔ جیسے بھلے وقتوں میں کوئی دروازے کے پیچھے سے مُنے کے ابا کو کہا کرتا تھا،" اجی سنیے بازار سے کشمش ہی لیتے آئیے گا"۔ تو شاید ہمیں ہسٹیریا، دو قطبیت یا اس کا قریبی رشتہ دار کوئی چھوٹا موٹا نفسیاتی عارضہ ہو گیا ہے جو  ہمارے کان بجنے لگتے ہیں۔ اور کمبخت کچھ ایسے ٹیون ہوئے ہیں کہ ایک ہی فریکوئنسی کی آواز کیچ کرتے ہیں۔ اللہ نہ کرے کبھی کوئی کھرکھراتی ہوئی، بیٹھی ہوئی، کھانستی ہوئی یا بلغم زدہ آواز میں "کچھ لکھیے ناں" کہے۔ جمالیات کا تو بیڑہ غرق جو ہو گا سو ہو گا، لکھا بھی ہسپتالوں کی حالتِ زار قسم کے موضوع پر جائے گا۔

تو صاحب آج کل ہمارے اندر سے کوئی آواز آتی ہے کہ کچھ لکھیے۔ ہم عرصہ پچیس یوم سے کچھ ایسی بنجر زمین ہوئے ہیں کہ جرمنی کی سرد بارشیں بھی اس پر ہریاول لانے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے سامنے ٹہنیوں پر بُور آیا اور اب نوجوان پتے لہلہاتے ہیں۔ لیکن ہم کچھ ایسی زمین بن گئے ہیں کہ گھاس بھی روٹھ گئی ہے۔ اب اس بے موسم خزاں میں بھلا کیا لکھا جائے۔ لیکن ہم نے بھی آج کچھ لکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ تو آئیں بسم اللہ کرتے ہیں۔ آپ پڑھتے جائیں ہم لکھتے جاتے ہیں۔

سیاست ، جسے پیار سے ہم سیاہ ست پکارا کرتے ہیں، پر کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے کشمیری میاں صاحب وزیرِ اعظم اور ان کی سیاسی فلم کے ولن عمران خان نیازی آج کل بڑھک آرا (بر وزن معرکہ آرا) ہیں۔ بڑا گرما گرم موضوع ہے اور یار لوگ دھڑا دھڑ پکوڑے تل تل کر بیچ رہے ہیں۔ ہم بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ وزیرِ اعظم کو دو چار دھولیں رسید کر لیں۔ ماہرِ دھرنا احتجاجیوں کی ٹانگ کھینچ لیں۔ پانامہ لیک کی بوری  سے کچھ مزید گندے کپڑے برآمد کر لیں۔ یا پہلے ہی برآمد شدہ کو ذرا اونچا کر کے ٹانگ کر ان پر تبصرہ کر دیں۔ لیکن پھر ہمیں ہر دو طرف کے "مجاہدین" کے ہاتھوں توپ دم ہونے سے کون بچائے گا؟ تو ہم اس موضوع پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہوئے کسی اور موضوع کی طرف چلتے ہیں۔

ہماری بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ کچھ مہینوں میں ہم فیس بُک پر بہت سے لکھاریوں کے پیروکار (فالور) بن گئے ہیں۔ کوئی دو ایک ایسی ویب سائٹس لانچ ہو گئی ہیں جن پر بہت بڑے بڑے گلیور قسم کے سخن ور اپنی دانش کے موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ آج کل فیس بُک پر ایک معرکہ حق و باطل برپا ہے جس کے ایک طرف اسلام کے "محافظ" رائٹسٹ اور دوسری طرف "نئے" بیانیے کے داعی سیکولر(فاشسٹ وغیرہ وغیرہ) اپنے اپنے قلم سونتے معرکہ آرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک گھُمسان کا رن پڑا ہے، کمنٹس کے چھینٹے اُڑ رہے ہیں، لائیکس چلائے جا رہے ہیں اور دھڑا دھڑ پوسٹس شیئر ہو رہی ہیں۔ مشورے دئیے اور لئے  جار ہے ہیں۔ ایک قیامت کا سا سماں ہے، سینگ سے سینگ لڑا ہے اور ہم کافی فاصلے سے چوری چوری دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ ہم بھی کسی سے سینگ لڑائیں۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمارے نازک سر پر ایک عدد ہیلمٹ ہونا چاہیئے جو ہمیں جوابی بھیڈوانہ (بھیڈو پنجابی میں بھیڑ کے جوان بچے کو کہتے ہیں) ٹکروں سے بچائے۔ تو ان ٹکروں بلکہ ڈھُڈوں سے بچنے کے لیے ہم اس موضوع پر لکھنے سے بھی توبہ کرتے ہیں۔

تو صاحب اس کا منطقی نتیجہ کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس پر لکھا جائے۔ اور آج کل ہم لسانیات کر رہے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے ہم پی ایچ ڈی کرنے کی کوشش شروع کر چکے ہیں۔ اپنا موضوعِ تحقیق جسے انگریزی میں ریسرچ پروپوزل کہتے ہیں تیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارے سامنے طرح طرح کے پاکستانی انگریزی بلاگز کا ڈیٹا ہے اور اس کے ساتھ ہم لُکن میٹی کھیل رہے ہیں۔ گراف ہیں، ٹیبل ہیں، ایچ ٹی ایم ایل فائلیں ہیں اور ان سے ڈیٹا نکالنے کے لیے سی شارپ نامی ایک پروگرامنگ زبان میں کچھ شاعری (بقول شخصے  coding is poetry) فرمانا آج کل ہماری مصروفیات میں شامل ہے۔ آپ سے لسانیات کی بات کریں تو کیا کریں۔ ہم کون سا ادبی نقاد ہیں جو مصنف کی تحریر پڑھ کر ایک اور ادبی قسم کی تحریر لکھ ڈالیں۔ ہماری آٹھ سالہ تربیت تو کچھ ایسے ہوئی ہے کہ آنکھیں ایکسرے مشین بن گئی ہیں۔ لفظ مل کر ترکیب (فریز) بناتے ہیں، جس سے جملہ اور پھر پیرا گراف بنتا ہے۔ آوازیں اور صرفیے ، معانی اور سیاقی معانی (پریگمیٹکس) اور لسانی تغیرات۔ ہماری تربیت اگر آرٹسٹ کے طور پر ہوئی ہوتی تو ہم بھی کچھ لکھتے۔ ہم رینچ پانا پکڑے ایسے مستری جیسے ہیں جس کی نظر گاڑی کی خوبصورتی نہیں اس کے کُل پرزوں اور ڈھانچے پر جاتی ہے۔ اس کے ہونے کو انجوائے کرنے کی بجائے وہ بونٹ کھول کر اپنے ہاتھ کالے کرنے میں روحانی اطمینان اور سکون محسوس کرتا ہے۔ تو صاحب اب آپ ہی بتائیں آپ کو اپنے رینچ پانےاور سیاہی بھرے کالے ہاتھ دکھائیں یا یہ تحریر یہیں ختم کر کے آپ کی بھی خلاصی کروائیں؟ لگتا ہے کہ موخر الذکر آپشن بہتر ہے۔ 

تو اخلاقی سبق یہ ملا کہ ہم نے آج ناں ناں کرتے ہوئے بھی کچھ لکھ ہی لیا۔

پیر، 28 مارچ، 2016

ہر سانحے کے بعد

ہر کربلا کے بعد، ہر سانحے کے بعد، ہر گلشن اجڑ جانے کے بعد میں جو ایک پیشہ ور نوحہ گر ہوں بیٹھتا ہوں، نوحہ لکھتا ہوں۔ میں جو ایک پیشہ ور عزا دار ہوں، سینہ پیٹتا ہوں۔ ہر قیامت گزرنے کے بعد گریبان چاک کیے گلیوں میں مرثیے پڑھتا پھِرتا ہوں۔ ہر بار میرا دل کرتا ہے کاش میں اُن ﷺ کے قدموں میں جا کر بیٹھ سکتا۔ اُن ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر، اُن ﷺ کے سامنے بیٹھ کر رو رو کر پگھل جاتا۔ اُنھیں بتاتا کہ
سیدی ﷺ میرا وطن لہو لہو ہے۔
سیدی ﷺ، آپ کے نام لیواؤں نے ایک دوسرے پر زمین تنگ کر دی ہے۔
سیدی ﷺ میرے وطن میں بہار اُترے تو وہ بھی خزاں میں بدل جاتی ہے۔
سیدی ﷺ جہاں میرے نونہالوں کے گلشن ہونا تھے وہاں بارود اور موت کا راج ہے۔
سیدی ﷺ جہاں گلابوں کی کیاریاں ہونی تھیں وہاں خون کی سرخی کے کیارے ہیں۔
سیدی ﷺ اب تو لگتا ہے کہ نیلی چھتری والے نے بھی ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔
سیدی ﷺ آنکھیں رو رو کر صحرا ہو گئیں لیکن رحمت کی بارش نہیں برستی۔
سیدی ﷺ لگتا ہے کہ دعائیں بھی آدھ رستے سے واپس لوٹ آتی ہیں۔
سیدی ﷺ میں لاشے اُٹھا اُٹھا کر تھک گیا ہوں۔
کاش میں ان ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو سکوں۔ ان ﷺ کے سامنے رو رو کر پگھل جاؤں، ان ﷺ کے پیروں کی خاک ہو جاؤں ۔ کاش رنج و الم کی یہ گٹھڑی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بھاری ہوتی چلی جاتی ہے، میں انﷺ کے سامنے لےجا  کر رکھوں، انھیں ایک ایک زخم کھول کھول کر دکھاؤں۔ کاش مالک مجھ پر یہ کرم کر دے کہ میں اُن ﷺ کے سامنے حاضر ہو سکوں۔ اور عرض کروں کہ سیدی ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے، ہم سے آسمان والا روٹھ گیا، ہماری سفارش کیجیے۔ سیدی ﷺ ہمیں کالی کملی کے سائے میں چھُپا لیجیے۔

اتوار، 27 مارچ، 2016

اللہ کے فضل کی تلاش

میں نے جب یہ سنا کہ اللہ کو گِڑ گِڑانا بہت پسند ہے، ہاتھ پھیلائے اس کے در پر بھیک مانگو تو اسے دینا اچھا لگتا ہے، تو میں نے اپنی دعاؤں میں گِڑگِڑانا شروع کر دیا۔ جب پتا چلا کہ اس کا شکر کرنے سے وہ اور دیتا ہے، تومیں نے طوطے کی طرح شکر کا رٹا لگانا شروع کر دیا۔ جب معلوم ہوا کہ ادھار دو تو وہ دس گُنا بڑھا کر دیتا ہے، میں نے اُس کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا، اس نیت سے کہ اب مال دس گُنا ہو کر واپس آئے گا۔ اُس نے ہر طرح سے مجھے دیا۔ مانگنے پر دیا، شکر کرنے پر دیا اور اپنی راہ میں دینے پر اور زیادہ دیا۔ بابا جی سرفراز اے شاہ صاحب اللہ سائیں سے اس کا فضل اور کرم مانگنے کا کہا کرتے ہیں۔ میں نے جب یہ جانا تو اپنی دعاؤں میں پوری مصنوعی عاجزی طاری کر کے اور مسکین منہ بنا کر اس کا فضل، رحمت، کرم ، عطاء جو لفظ میری لغت میں اس کی رحمت کو ڈیفائن کرنے کے لیے موجود تھا سب استعمال کر کر کے اس سے مانگنا شروع کر دیا۔ تب اُس نے مجھے اور زیادہ عطاء کیا۔

میں پاکستان کی نوے فیصد آبادی کی طرح غربت کو دیکھ کر پلا بڑھا۔ پالنہار کی مہربانی اس نے کبھی بھُوکا نہیں سُلایا، لیکن اپنے والدین کو روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جب سخت جدوجہد کرتے دیکھا تو میرے سامنے خودبخود پہلی منزل یہ آ گئی کہ اتنا کمالوں کہ انہیں دوبارہ وہ دن نہ دیکھنے پڑیں۔ تو میں نے اللہ سے جب اس کا فضل مانگنا شروع کیا تو اس کے بیک اینڈ پر بھی یہی معنی ہوتے کہ اللہ جی بہت سا رزق یعنی روپیہ دے دیجیے۔ کافی زیادہ، بلکہ بہت زیادہ سا۔ اور اس نے مجھے دیا۔ پھر میں نے سنا کہ رزق صرف روپے کی صورت میں نہیں ملتا، اس کی اور بھی بے شمار صورتیں ہیں جیسے اولاد۔ اسی طرح اس کا فضل صرف روپے کی صورت میں نہیں ملتا اس کی بھی بے شمار صورتیں ہیں۔

آج ہمارا جرمن لینگوئج کورس باضابطہ طور پر ختم ہو گیا، ہمارا آخری ٹیسٹ بھی ہو گیا اور ہم یونیورسٹی جانے کے لیے آزاد ہو گئے۔ آج اپنے احباب کے درمیان ایک الوداعی سی تقریب میں وقت گزارا تو احساس ہوا کہ اہل علم کی صحبت بھی اس کا فضل ہے۔ پچھلے چار ماہ مُجھ پر پالنہار کا یہ فضل رہا کہ میں پاکستان کے بہترین دماغوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا رہا۔ ان میں سے ہر ایک جو اپنے شعبے کا ماہر ہے، جس کا اظہار ان کی گفتگو سے ہوتا۔ ان کے اندازِ تخاطب، نشست و برخاست اور طرزِ عمل سے پتا چلتا کہ یہ لوگ اس مقام کے حقدار تھے۔ یہ پاکستان میں جب اپنے اپنے شعبے میں، تدریس یا تحقیق جہاں بھی ہوتے ہوں گے تو وہاں اس کی ترقی کے لیے کتنے مؤثر ہوں گے۔ اور آج جب یہ یہاں ہیں، اور تین برس بعد واپس ڈاکٹر بن کر جائیں گے تو ان کی مہارت سے میرے ملک کو کتنا فائدہ ہو گا۔ تو مجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ رہنا بھی باعثِ سعادت تھا۔ میں جو کسی زمانے میں اپنے والد کی ناشتے کی ریڑھی پر بیرا گیری کرتا تھا، آج مُجھے اُس کریم کی ذات نے کہاں لا بٹھایا ہے۔ تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ پر اس کا کِتنا فضل اور رحمت ہے۔ اور جو میں طوطے کی طرح ہر دعا میں آموختہ دوہراتا ہوں کہ مولا میں تیری رحمت کا محتاج، مجھ پر اپنا کرم کر دے، فضل کر دے، عطاء کر دے، تو وہ دعائیں رائیگاں نہیں جا رہیں۔ اس کی بارگاہ میں قبولیت پا رہی ہیں۔ تو میرا سر اس کی رحمت کے احساس سے جھُک گیا۔

میں نے آج یہ سیکھا کہ اچھا حلقۂ احباب بھی اس کا فضل ہے۔ علمِ نافع بھی اس کا فضل ہے۔ چاہے وہ دنیا کا ہو یا دین کا۔ میں نے یہ جانا کہ میں اور میرے یہ سب ساتھی، واپس جا کر اپنے اپنے شعبے میں اپنے وطن کی ترقی کے لیے کچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا فائدہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہونے کی صورت میں ہو گا۔ پالیسی سازی، قانون سازی، تدریس اور تحقیق میں اس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر ہو گا۔ ان سب کی نیت نیک ہے، تو ان کا علم حاصل کرنے کا عمل بھی ایک نیک عمل قرار پائے گا۔ اور اس کی توفیق بھی اُس ذات کا فضل ہے۔ میں اپنے رب سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے ہم سب کو نیک نیتی کی توفیق دے، ہمیں اپنے اپنے شعبے کی بہتری کے لیے صدقِ دل اور دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق دے۔ اور ہمارے اس علم کو اپنی مخلوق کی مدد کرنے کا آلہ، ان کی زندگی آسان بنانے کا ذریعہ اور ہمارے اہل و عیال کے لیے رزقِ حلال کے حصول کا وسیلہ بنا دے۔ آمین، یارب العالمین۔

اتوار، 20 مارچ، 2016

ایک شہر

شہر تھا، نہروں کا شہر ایمسٹرڈیم۔ جال تھا، ایک دوسرے کو کاٹتی ہر طرف کو بڑھتی چلی جاتی سڑکوں کا جال۔ مشینیں تھیں، سڑکوں پر دوڑتی ان گنت مشینیں۔ عمارتیں تھیں، قطار اندر قطار کھڑی چھوٹی  بڑی قدیم اور جدید عمارتیں۔ وجود تھے، دو ٹانگوں والے ہزاروں وجود، آپس میں مگن چلتے رکتے چہلیں کرتے وجود۔ اور ایک مسافر تھا، تنہا مسافر۔

پانی تھا، گدلا سبزئی پانی۔ بجرے تھے، کشتیاں تھیں اور گھر تھے۔ ان میں آنکھیں تھیں، متجسس آنکھیں، مگن آنکھیں، ٹٹولتی آنکھیں، کچھ ڈھونڈتی آنکھیں۔ جنگل تھا، کنکریٹ کا جنگل، آپس میں مگن، بے نیاز عمارتوں کا جنگل۔ اور ایک مسافر تھا، بے قرار مسافر۔

آسمان تھا، سرمئی چادر اوڑھے نیم روشن آسمان۔ ہوا تھی، سرد اور بے پرواہ ہوا۔ سورج تھا، بادلوں کی اوٹ میں چھپا شرمندہ سا سورج۔ درخت تھے، پتوں سے عاری ٹنڈ منڈ درخت۔ اور ایک مسافر تھا، اجنبی مسافر۔

بستی تھی، سرخی میں ڈوبی ایک بستی۔ پنجرے تھے، شیشے کے پنجرے۔ مال تھا، غازے میک اپ سے سجا مال، جوان بوڑھا خوبصورت بھدا مال۔ چہرے تھے، تاثرات سے عاری چہرے، لُبھاتے بُلاتے چہرے۔  نگاہیں تھیں، ہوس ناک نگاہیں، کھا جانے والی نگاہیں۔ اور ایک مسافر تھا، سزا جزا نیکی بدی کے بیچ معلق مسافر۔

رات تھی، سیاہ رات۔ روشنیاں تھیں، ہر طرف سے پھُوٹتی روشنیاں، دعوت انگیز روشنیاں۔ رنگ تھے، چمکیلے بھڑکیلے رنگ۔ اجنبیت تھی، زمین سے اُبلتی اجنبیت۔ تنہائی تھی، لامتناہی تنہائی۔ اور ایک مسافر تھا، سرگرداں مسافر۔

جمعہ، 18 مارچ، 2016

اعتراف

آج میرے لینگوئج سکول میں ہم نے اپنے اساتذہ کے لیے ایک الوداعی پارٹی رکھی تھی۔ یہاں چار ماہ گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ میرے ملک کے عظیم دماغ جن کی صحبت کا شرف مجھے حاصل رہا۔ سائنس، معیشت، قانون غرض ہر شعبے کے ابھرتے ہوئے ستارے اور مجھ جیسا ایک عام سا انسان جو بس تُکے سے ان کے ہمراہ ہو لیا۔ پنجابی میں اسے انھے ہتھ بٹیرا (اندھے کے ہاتھ بٹیر) والی مثال سے سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ میں استاد ہوں اور میں نے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے کہ کئی برس سے ترجمہ کر کر کے میں اچھا خاصا مترجم ہو چکا ہوں۔ دوسروں کے الفاظ ترجمہ کر  کر کے اور لوگوں کی کتب سے پڑھا پڑھا کر مجھے چند لفظ کہنے اور لکھنے کا فن آ گیا ہے۔ میرے احباب نے میرے اس بہروپ کو سچ سمجھ کر جب الوداعی کلمات بولنے کے لیے کھڑا کیا تو اپنی کم مائیگی  کا احساس اور شدید ہو گیا۔ اتنے بڑے بڑے لوگ اور ان کے سامنے کھڑا ایک بونا بھلا کیا بولتا۔ انگریزی میں چند جملے بول کر رہ گیا۔ وہ لفظ تو میری زبان سے نکل گئے، لیکن مجھے بہت دیر بعد (جیسا کہ میرا معمول ہے) احساس ہوا کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے۔ کہ ان عظیم دماغوں کا ساتھ اب چند دنوں کا ہی ہے۔ پھر سب اپنے اپنے شہر پی ایچ ڈی کے لیے چلے جائیں گے، اور میں جو ان کی تابانی سے روشن ہو کر خود کو بھی ایک ہیرا سمجھنے لگ گیا تھا پھر سے بے قیمت کوئلہ رہ جاؤں گا۔

بھلا صلاح الدین جیسا ہنس مُکھ اور بے لوث دوست کہاں ملے گا۔ اس کی سدا بہار مسکراہٹ اور ایک خاص وقفے سے بلند ہوتی ہوئی ہنسی، عبدالرحمٰن کا افسرانہ انداز اور نپی تلی باتیں بھلا کون بھولے گا۔ عمران کی کھلکھلاتی ہوئی خاموش مسکراہٹ، رانا فیصل شہزاد کا اپنی تعریف پر جھینپتے ہوئے قہقہے لگانا، محمد فیصل کا میری جگت اندازی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا، ظفر صاحب  کا حیران کن حد تک وسیع جرمن ذخیرۂ الفاظ، سہیل آفتاب بھائی کامشفقانہ اور بزرگانہ انداز ۔۔ تنزیلہ علوی، غزالہ عنبرین، عظمیٰ علی جنہوں نے مجھے چھوٹا بھائی سمجھ کر سُدھارنے کی کوشش کی اور جو سخت ناکامی سے دوچار ہوئی، بشرٰی غفران احمد کا سو سنار کی کے جواب میں ایک لوہار کی چوٹ لگانا اور اس پر مخاطب کا بلبلا اُٹھنا، میمونہ منیر کا پانچ سالہ تدریسی تجربہ جو انہوں نے اس کلاس میں بے دریغ آزمایا اور ماریہ (اور ان کا بیٹا محمد عبداللہ)۔۔۔ یہ سب لوگ ستاروں کا ایک ایسا کلسٹر تھے جن کے قریب سے گزرتے گزرتے میں، ایک آوارہ سیارہ، کچھ عرصے کے لیے روشن ہو گیا۔ اور جب یہ سفر ختم ہوا تو پھر سے اندھیرا اس بے آب و گیاہ وجود کا مقدر ہو گا۔

جے میں ویکھاں عملاں ولے
کُجھ نئیں میرے پلے

جے ویکھاں تیری رحمت ولے
بلے بلے بلے

میرے پلّے تو کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ میں کل بھی تہی دامن تھا، آج بھی خالی ہاتھ ہوں۔ جو کچھ ہے اُس کی رحمت ہے۔ ان احباب کا ساتھ بھی اس کی رحمتوں میں سے ایک رحمت تھی۔ میرے لیے بہت کچھ سیکھنے کا موقع، جو میری نالائقی سے ضائع جا رہا ہے۔ جب میرے ہاتھ اُٹھیں اور آنکھیں بھر آئی ہوں تو منہ سے یہی لفظ ادا ہوا کرتے ہیں کہ مالک یہ تو تُجھے اور مُجھے پتا ہے کہ میرے پلّے کچھ نہیں ہے۔ لیکن تُو تو ستّار ہے، تُو میرے عیبوں پر پردہ ڈالے رکھیو، یہ جو بہروپ میں نے بھر رکھا ہے، جو سوانگ رچا رکھا ہے اس پر اپنی عطاء کی چادر ڈالے رکھیو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاکر بہت کچھ ہے، لیکن یہ تو تُو اور میں جانتے ہیں کہ شاکر نامی یہ مٹی کا باوا ہر سانس تیری رحمت کا منتظر ہے، جس سانس تیرا کرم اس پر سے اُٹھا وہ سانس اس کی آخری سانس ہو گی۔

اتوار، 13 مارچ، 2016

میں کیسا بلاگر ہوں؟

میں ایک بلاگر ہوں۔ ایک عدد بلاگ بنا کر اردو بلاگنگ نامی سڑک کے کنارے عرصہ دس برس سے پڑا ہوا ایک ایسا پتھر ہوں جس پر دھوپ، بارش، گرمی، سردی  نے کچھ نشانات چھوڑ دئیے ہیں، کہیں کچھ کائی سی جمی ہے، کچھ خراشیں آ چکی ہیں، کچھ کنارے جھڑ چُکے ہیں اور کچھ رنگ اُڑ چکا ہے۔ یعنی بحیثیتِ مجموعی ایک "قدیم" حجر شمار ہو سکتا ہوں۔ اس "قدامت" پر اکثر اوقات مجھے ایک کمینہ سا فخر رہا کرتا ہے۔

میں اردو بلاگنگ نامی سڑک کا ایک ایسا سنگِ میل ہوں جو ایک ویرانے میں نصب ہے۔ جب یہ سڑک میرے پاس سے گزرتی ہے تو صرف ویرانہ اور بنجر بیابان زمین نظر آتی ہے۔ گو کہ یہ سڑک بڑے زرخیز خِطوں اور علاقوں سے گزرتی ہے،  اس کی راہ میں بڑے نابغۂ روزگار لکھاریوں کے گھر آتے ہیں اور پھر اب تو اردو بلاگنگ نامی یہ سڑک ڈان اردو، جنگ بلاگز، ہم سب اور لالٹین جیسے کئی بڑے بڑے شہروں تک بھی جاتی ہے۔ لیکن میں ایک تنہائی پسند پتھر ہوں جسے اس سڑک کا ایک گمنام سا سنگِ میل رہنا منظور ہے۔

میں بلاگر ہونے کے ناطے ایک لکھاری بھی ہوں۔ لیکن میری مثال راج مستری کے مقابلے میں ایک ایسے مزدور کی سی ہے جو اینٹیں ڈھونے کے ساتھ ساتھ فرش ہموار کر کے اس پر سیمنٹ ڈال کر ذرا پکا صحن بنانے کا کام بھی جاننے لگ جاتا ہے۔ اور اسی جاننے میں خود کو راج مستری سمجھنے لگتا ہے۔ میں بھی ایسا ہی ایک نیم پکا ہوا لکھاری ہوں جس کا مطالعہ کم ہوتے ہوتے صفر تک آن پہنچا ہے۔ جس کے پاس مشاہدہ نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ وہ جب لکھتا ہے تو راج مستری نما مزدور کی طرح ایک اونچا نیچا فرش بنا دیتا ہے۔ دیوار کھڑی کرتا ہے تو ٹیڑھی ہوتی ہے، چھت ڈالتا ہے تو پہلی برسات میں ہی رِسنے لگتی ہے۔ میں ایک ایسا لکھاری ہوں جو کنویں میں رہنے والے مینڈک کی طرح صرف ایک اور شخصیت سے واقف ہوتا ہے : اس کا اپنا عکس۔ چنانچہ جب کنویں کا مینڈک کچھ ارشاد کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی شان میں ہی فرمائی گئی کوئی بات ہوتی ہے۔ میری تنگ دستی، کم فہمی اور کوتاہ نظری کسی بھی بیرونی معاملے پر میری تحریر کے امکانات صفر کر دیتی ہے نتیجتاً میں خود پر، اپنے بارے میں، اپنے سے متعلق اشیاء کے بارے میں لکھتا ہوں جس کا پڑھنے والے سے شاذ ہی کوئی تعلق نکلتا ہے۔

اپنے اس بے ترتیب، بے ڈھنگے سفر میں مُجھ سے نادانستگی میں کچھ ایسی بلاگ پوسٹیں سرزد ہو چکی ہیں جنہیں وسیع و عریض صحرا میں پانی کے سراب سے تشبیہ دینا زیادہ مناسب رہے گا۔ کہ کبھی کبھی میرے قارئین کو لگتا ہے کہ میں ایک ہنرمند مستری قسم کا لکھاری ہو چکا ہوں۔ لیکن یہ کیفیت برسوں میں ہی کبھی وارد ہوتی ہے۔ اپنی اس مختصر سی بلاگ زندگی میں چلتے چلتے بائی داو ے قسم کے دو چار ایسے کام مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں جن پر بلاشبہ مذکورہ بالا کمینہ سا فخر میں اپنا حق خیال کرتا ہوں۔ ان میں کسی زمانے میں ورڈپریس کے ترجمے کی کوشش، لینکس آپریٹنگ سسٹم کی تنصیب کے اسباق، اردو بلاگنگ کے حوالے سے کچھ پوسٹس، کچھ اردو نیوز ویب سائٹس کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ایک ٹیکسٹ آرکائیو بنانا، اور حالیہ برسوں میں اپنے ترجمے کے کام کو آسان بنانے کے لیے ادھر اُدھر سے ڈیٹا اکٹھا کر کے دو تین آفلائن اردو لغت ڈیٹا بیسز کی تخلیق جیسی چیزیں شامل ہیں۔

تنہائی کا دائمی مریض ہونے کی وجہ سے اپنے بِل سے نکلنا مجھے کم ہی پسند ہے ۔ لیکن کبھی کبھی تجربے کی خاطر میں سوشل گیدرنگ میں بھی چلا جاتا ہوں۔ چنانچہ چند ایک اردو بلاگرز جو مجھ سے بالمشافہ ملاقات کا شرف رکھتے ہیں وہ تصدیق کریں گے کہ ان الفاظ کو لکھنے والی ٹنڈمنڈ شخصیت کو دیکھ ان شاخوں پر کبھی بہار نہ اترنے کا گمان یقین میں بدل جاتا ہے۔

چنانچہ اے میرے قارئین (اگر کوئی ہے تو) میری بلاگنگ پاکستان میں موسمِ گرما میں بجلی کی فراہمی جیسی ہے جو اکثر غائب رہتی ہے لیکن کبھی کبھار آ بھی جاتی ہے۔ بلاگنگ کے نام پر ایک داغ ہونے کی حیثیت سے میں شرمندہ شرمندہ کسی کو اپنے بلاگ پر کھینچنے کے لیے جگہ جگہ اپنی بلاگ پوسٹس کے ربط نہیں دیتا، کسی بڑی ویب سائٹ کو اپنی تحریر نہیں بھیجتا (اگر ایسا کبھی ہوا بھی تو ناقابلِ اشاعت کا پیغام بھی موصول نہیں ہوتا)، اپنے بلاگ پر سینکڑوں پیج ویوز کی شماریات کا اعلان نہیں کرتا (چونکہ سینکڑوں پیج ویوز ہوتے ہی نہیں) اور اپنے بلاگ پر لکھے کو دو چار ماہ بعد خود ہی پڑھ کر خوش ہو لیتا ہوں۔ 

تو جناب آج آپ نے جانا کہ میں کیسا (یعنی کس قسم کا) اور کیسے (یعنی کس طرح سے) بلاگر ہوں۔ تو آپ اگر مانیں یا نہ مانیں میں ایک بلاگر ہوں، اور بلاگنگ کے گلے میں اٹکا ایک ایسا کانٹا ہوں جو نہ نِگلا جا سکتا ہے اور نہ اُگلا جا سکتا ہے۔

ہفتہ، 27 فروری، 2016

ملعون نسلِ انسانی از مارک ٹوین

پچھلے برس ایک کرم فرما کے لیے مارک ٹوین کا مضمون دی ڈیمڈ ہیومن ریس ترجمہ کیا تھا۔ ادب کے حوالے سے انتہائی محدود مطالعہ ہونے کی وجہ سے کبھی ادبی ترجمہ کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ یہ بچگانہ سی نوعیت کا ترجمہ بھی آپ احباب کے ساتھ ڈرتے ڈرتے بانٹ رہا ہوں۔

میں نے (نام نہاد) ادنیٰ حیوانات کے عادات و خصائل کا مطالعہ کیا ہے، اور انہیں انسان کے عادات و خصائل سے ملا کر دیکھا ہے۔ مجھے اس کا نتیجہ اپنے لیے باعثِ ذلت محسوس ہوا ہے۔ کیونکہ یہ مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں 'انسان کے ادنٰی حیوانات سے عروج' کے ڈارونی نظریے کے ساتھ اپنی وفاداری سے اظہارِ برأت کر دوں؛ چونکہ اب مجھے صاف صاف لگتا ہے کہ اس نظریے کو ایک نئے اور زیادہ سچے نظریے سے تبدیل کر دینا چاہیئے، یہ نیا اور زیادہ سچا نظریہ 'اعلیٰ حیوانات سے انسان کا زوال' کہلا سکتا ہے۔

اس ناپسندیدہ نتیجے  پر پہنچنے کے لیے میں نے اندازے یا قیاس کے گھوڑے نہیں دوڑائے، بلکہ ایک ایسا طریقہ استعمال کیا ہے جو عرفِ عام میں سائنسی طریقہ کار کہلاتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ میں نے سامنے آنے والے ہر مفروضے کو حقیقی تجربے کی ناگزیر کسوٹی پر پرکھا ہے، اور اس کے نتیجے کے مطابق اسے اپنایا یا مسترد کیا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے راستے کے ہر قدم پر تصدیق اور ثبوت کی فراہمی کے بعد ہی اگلا قدم اٹھایا ہے۔ یہ تجربات لندن زوالوجیکل گارڈنز میں سرانجام دئیے گئے، اور کئی ماہ کے جفاکش اور تھکا دینے والے کام پر مشتمل تھے۔
ان تجربات کی جزئیات بیان کرنے سے قبل، میں ایک یا دو چیزیں بیان کرنا چاہوں گا جو اگلے حصوں کی بجائے یہاں بیان کرنا مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد صراحت پیدا کرنا ہے۔ ان اجتماعی تجربات نے میرے خیال کے عین مطابق کچھ عمومی اُصول ثابت کیے، یعنی:

یہ کہ نسلِ انسانی ایک ممیّز نوع سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں آب و ہوا، ماحول، اور دیگر عوامل کے باعث معمولی تغیرات (جیسے رنگ، قدوقامت، ذہنی استعداد وغیرہ وغیرہ) پائے جاتے ہیں؛ لیکن یہ اپنے آپ میں ایک نوع ہے، اور اسے کسی اور نوع کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیئے۔

یہ کہ چوپائے بھی ایک ممیّز خاندان ہیں۔ اس خاندان میں تغیرات پائے جاتے ہیں (جیسے رنگ، حجم، کھانے کی ترجیحات وغیرہ وغیرہ؛ لیکن یہ اپنی ذات میں ایک خاندان ہے)۔

یہ کہ دیگر خاندان (پرندے، مچھلیاں، حشرات، خزندے وغیرہ) بھی کم یا زیادہ ممیّز ہیں۔ وہ ایک تسلسل میں پائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی زنجیر کی کڑیاں ہیں جو اعلیٰ حیوانات سے نیچے پیندے میں موجود انسان تک پھیلی ہوئی ہے۔ 

میرے کچھ تجربات خاصے متجسسانہ تھے۔ اپنے مطالعے کے دوران میرے سامنے ایک کیس آیا جس میں، کئی برس قبل، ہمارے عظیم میدانوں میں کچھ شکاریوں نے ایک انگریز ارل کی تفریح طبع کے لیے بھینسے کے شکار کا اہتمام کیا۔ انہوں نے بڑا دلکش کھیل پیش کیا۔ انہوں نے بہتر کی تعداد میں یہ عظیم حیوانات مار ڈالے؛ اور ان میں سے ایک کا کچھ حصہ کھا کر بقیہ اکہتر کو سڑنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ایک ایناکونڈا اور ایک ارل (اگر ایسی کوئی چیز وجود رکھتی ہے تو) کے مابین فرق کا تعین کرنے کے لیے میں نے کئی ننھے بچھڑے ایک ایناکونڈا کے پنجرے میں ڈالے۔ اس ممنون خزندے نے فوری طور پر ان میں سے ایک کو کچل کر نگل لیا، اور پھر مطمئن ہو کر لیٹ گیا۔ اس نے بچھڑوں میں مزید کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی، اور نہ انہیں نقصان پہنچانے کی جانب مائل ہوا۔ میں نے دیگر ایناکونڈا کے ساتھ یہی تجربہ سرانجام دیا؛ نتیجہ ہمیشہ یہی نکلا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایک ارل اور اینا کونڈا میں فرق یہ ہے کہ ارل ظالم ہے جبکہ ایناکونڈا ایسا نہیں؛ اور یہ کہ ارل کو جس کی ضرورت نہ ہو اسے خوامخواہ غارت کر دیتا ہے، لیکن ایناکونڈا ایسا نہیں کرتا۔ اس سے خیال پیدا ہوتا تھا کہ ایناکونڈا کا جدِ امجد ارل نہیں ہے۔ اس سے یہ خیال بھی پیدا ہوتا تھا کہ ارل کا جدِ امجد ایناکونڈا ہے، اور وہ اس وراثتی تبدیلی کے دوران بہت سے خصائل گنوا چکا ہے۔

میں باخبر ہوں کہ بہت سے انسانوں، جنہوں نے کروڑوں روپے کے اتنے انبار لگا لیے ہیں کہ تمام عمر خرچ کرنے سے بھی ختم نہ ہوں، نے مزید دولت کی سگ گزیدہ بھوک ظاہر کی ہے، اور جزوی طور پر یہ بھوک مٹانے کے لیے انہوں نے بے خبروں اور بے کسوں کی جمع پونجی لوٹنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ میں نے ایک سو مختلف اقسام کے جنگلی اور پالتو حیوانات کو کھانے کی بڑی مقداریں ذخیرہ کرنے کے مواقع فراہم کیے، لیکن ان میں کسی نے بھی ایسا نہ کیا۔ گلہریوں اور شہد کی مکھیوں اور کچھ پرندوں نے ذخائر جمع کیے، لیکن وہ بھی ایک سرما کے برابر ذخیرہ کر کے پیچھے ہٹ گئے، اور انہیں ایمانداری یا حیلے بازی، کسی بھی طریقے سے مزید کرنے پر مائل نہ کیا جا سکا۔ اپنی بری شہرت کو مزید تقویت دینے کے لیے چیونٹی نے ظاہر کیا کہ وہ رسد ذخیرہ کر رہی ہے، لیکن میں نے دھوکا نہ کھایا۔ میں چیونٹی کو جانتا ہوں۔ ان تجربات نے مجھے قائل کیا کہ انسان اور اعلیٰ حیوانات میں یہ فرق پایا جاتا ہے: انسان حریص اور بخیل ہے؛ وہ نہیں ہیں۔
اپنے تجربات کے دوران میں نے خود کو قائل کیا کہ حیوانات میں سے انسان اکلوتا حیوان ہے جو اہانتیں اور زخم اکٹھے کرتا ہے، انہیں سینچتا ہے، موقع ملنے کا انتظار کرتا ہے، اور پھر بدلہ لیتا ہے۔ اعلیٰ حیوانات بدلہ لینے کے جذبے سے آشنائی نہیں رکھتے۔

مرغ حرم رکھتے ہیں، لیکن یہ ان کی داشتاؤں کی اجازت کے ساتھ ہوتا ہے؛ اس لیے اس میں کوئی برائی نہیں۔ انسان حرم رکھتا ہے لیکن اس کے لیے وحشیانہ طاقت استعمال کرتا ہے، اور اسے خبیثانہ قوانین کی حمایت حاصل ہوتی ہے جن کے بنانے میں دوسری صنف کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ اس طرح سے انسان مرغ سے بھی کہیں پست مقام پر جا فائز ہوتا ہے۔

بلیوں کا اخلاق کمزور ہوتا ہے، لیکن وہ بے خبری میں ایسا کرتی ہیں۔ آدمی بلیوں سے نسبِ وراثت کے حصول کے دوران ان کی کمزور اخلاقیات تو اپنے اندر لے آیا لیکن اس نے بے خبری کو پیچھے چھوڑ دیا (خاصیت جس کے باعث بلیاں قابلِ معافی قرار پاتی ہیں)۔  بلی معصوم ہے، انسان نہیں ہے۔

ابتذال، سفلہ پن، فحاشی عریانی (یہ بعینہ انسان تک محدود ہیں)؛ یہ اس نے ایجاد کیے۔ اعلٰی حیوانات میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ وہ کچھ نہیں چھپاتے؛ وہ شرمسار نہیں ہوتے۔ انسان، اپنے آلودہ دماغ کے ساتھ، خود کو ڈھانپتا ہے۔ وہ اپنا سینہ اور پُشت برہنہ چھوڑ کر کمرہ ملاقات میں بھی داخل نہ ہو گا، چنانچہ وہ اور اس کے رفقاء نازیبا مشورے سے اتنے حساس ہوتے ہیں۔ انسان ایک ایسا حیوان ہے جو قہقہہ لگاتا ہے۔ لیکن بندر بھی ایسا کرتا ہے، جیسا کہ مسٹر ڈارون نے اشارہ کیا؛ اور اسی طرح آسٹریلوی پرندہ، جسے قہقہہ لگاتا گدھا کہا جاتا ہے، بھی کرتا ہے۔ نہیں! آدمی ایک ایسا حیوان ہے جو شرم سے سرخ ہو جاتا ہے۔ وہ ایسا کرنے یا کرنے کا موقع پانے والا اکلوتا حیوان ہے۔

اس مضمون کے آغاز پر ہم نے دیکھا کہ چند دن قبل تین بھکشوؤں کو جلا کر مار دیا گیا، اور ایک مہمتمم کو سنگدلانہ اذیت پہنچا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کیا ہم تفصیلات میں جائیں؟ نہیں؛ یا کیا ہمیں سراغ لگانا چاہیے کہ مہمتمم کے اعضاء کی قطع برید کو اشاعتی الفاظ کی حد میں نہیں لایا جا سکتا۔ انسان (جب وہ شمالی امریکی انڈین ہو) اپنے قیدیوں کی آنکھیں نکال لیتا ہے؛ جب شاہ جان ہو تو بھتیجے کو بے ضرر بنانے کے لیے لوہے کی سرخ سلائیاں پھیر دیتا ہے؛ قرونِ وسطیٰ میں کافروں کے مقابل جوشیلا مذہبی ہو تو اپنے قیدی کی زندہ ہی کھال کھینچ کر پشت پر نمک چھڑک دیتا ہے؛ رچرڈ اول کے دور میں ہو تو کثیر تعداد میں یہودی خاندانوں کو ایک ٹاور میں بند کر کے آگ لگا دیتا ہے؛ کولمبس کے عہد میں ہو تو ہسپانوی یہودیوں کے ایک خاندان کو پکڑ لیتا ہے اور (لیکن یہ قابلِ اشاعت نہیں ہے؛ ہمارے زمانے کے انگلینڈ میں ایک آدمی کو دس شلنگ کا جرمانہ ہوا اور اس کا جرم صرف اپنی ماں کو کرسی کے ساتھ مار مار کر ادھ مُوا کر دینا تھا، اور ایک اور شخص کو چالیس شلنگ کا جرمانہ بھرنا پڑا کہ اس کے قبضے سے چکور کے چار انڈے برآمد ہوئے جن کے ذریعۂ حصول کے بارے میں وہ قابلِ اطمینان وضاحت پیش نہ کر سکا)۔ تمام حیوانات میں، صرف انسان ہی ظالم ہے۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو درد اس لیے دیتا ہے کہ اس سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ یہ ایک ایسی خاصیت ہے جو اعلیٰ حیوانات کے لیے اجنبی ہے۔ بلی خوفزدہ چوہے کے ساتھ کھیلتی ہے؛ لیکن اس کے پاس بہانہ ہے، کہ وہ نہیں جانتی کہ چوہا تکلیف میں ہے۔ بلی معتدل ہے (غیر انسانی طور پر معتدل: وہ چوہے کو صرف ڈراتی ہے، وہ اسے تکلیف نہیں پہنچاتی؛ وہ انسان کی طرح اس کی آنکھیں نہیں نکالتی، یا اس کی کھال نہیں کھینچتی، یا اس کے ناخنوں تلے لکڑی کی کھچیاں نہیں گھسیڑتی)؛ جب وہ چوہے سے کھیلنے سے اکتا جائے تو ایک ہی بار نوالہ بنا کر اسے تمام تکلیف سے نجات دلا دیتی ہے۔ انسان ظالم حیوان ہے۔ وہ اکیلا ہی اس امتیاز کا حامل ہے۔

اعلیٰ حیوانات انفرادی لڑائیوں میں ملوث ہوتے ہیں، لیکن کبھی منظم جتھوں میں یہ کام نہیں کرتے۔ انسان اکلوتا حیوان ہے جو خباثتوں کی خباثت، یعنی جنگ، میں ملوث ہوتا ہے۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو اپنے بھائی بندوں کو گرد جمع کرتا ہے اور سفاکی اور پرسکون دل کے ساتھ اپنی نوع کو نابود کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو فرومایہ اجرت کے بدلے جنگ پر نکل کھڑا ہو گا، جیسے ہمارے انقلاب میں کرائے کے جرمن سپاہیوں نے کیا، اور جیسے لڑکا نما شہزادہ نپولین نے زولو کی جنگ میں کیا، اور اپنی ہی نوع کے اجنبیوں کے قتلِ عام میں مدد فراہم کرے گا جنہوں نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور جن کے ساتھ اس کا کوئی جھگڑا نہیں۔

انسان اکلوتا حیوان ہے جو اپنے بے کس ہم وطن کو لوٹ لیتا ہے -- اس کو قبضے میں لے لیتا ہے اور اسے ملکیت سے بے دخل کر دیتا ہے یا تباہ کر دیتا ہے۔ انسان نے ہر قرن میں ایسا کیا ہے۔ اس کُرے پر زمین کا ایک ایکڑ بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے جائز حقدار کے قبضے میں ہو، یا جسے مالک در مالک، سلسلہ در سلسلہ، طاقت اور خون ریزی کے ذریعے ہتھیایا نہ گیا ہو۔

انسان اکلوتا غلام ہے۔ اور وہی اکلوتا حیوان بھی جو غلام بناتا ہے۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں غلام رہا ہے، اور ہمیشہ اس کی جبری بندش میں کسی نہ کسی انداز میں غلام موجود رہے ہیں۔ ہمارے دور میں وہ ہمیشہ اجرت کے لیے کسی نہ کسی انسان کا غلام ہوتا ہے، اور اس انسان کا کام کرتا ہے؛ اور اس غلام کے نیچے کم تر اجرت پر دیگر غلام ہوتے ہیں، اور وہ اِس کا کام کرتے ہیں۔ اعلٰی حیوانات اس حوالے سے خاص ہیں کہ وہ اپنے کام بذاتِ خود سرانجام دیتے ہیں اور اپنی روزی آپ کماتے ہیں۔

انسان اکلوتا محب وطن ہے۔ وہ خود کو اپنے ملک، اپنے ذاتی جھنڈے کے نیچے الگ تھلگ کر لیتا ہے اور پھر دوسری اقوام کا ٹھٹھہ اڑاتا ہے، اور بھاری اخراجات پر بے شمار وردی پوش قاتل تیار رکھتا ہے تاکہ دوسروں کے ممالک کے ٹکڑے ہتھیا سکے، اور انہیں اپنے ملک کے ساتھ ایسا کرنے سے باز رکھ سکے۔ اور مہمات کے درمیانی اوقات میں، وہ اپنے ہاتھ دھو کر خون صاف کر لیتا ہے اور منہ سے انسان کی عالمی اخوت کا درس دینے لگتا ہے۔

انسان مذہبی حیوان ہے۔ وہ اکلوتا مذہبی حیوان ہے۔ وہ اکلوتا مذہبی حیوان ہے جس کے پاس سچا مذہب ہے، کئی ایک سچے مذہب۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو اپنے پڑوسی سے اپنی ذات کی طرح محبت کرتا ہے، اور اگر اس کا عقیدہ درست نہ ہو تو اس کا گلا کاٹ دیتا ہے۔ اس نے خوشی اور جنت تک اپنے بھائی کا راستہ صاف کرنے کی مخلصانہ کوشش میں کرۂ ارض کو ایک قبرستان بنا دیا ہے۔ اس نے سیزر کے عہد میں ایسا کیا، اس نے عہدِ تفتیش میں ایسا کیا، اس نے فرانس میں دو صدیوں تک ایسا کیا، اس نے میری کے دور کے انگلینڈ میں ایسا کیا، وہ تب سے ایسا کر رہا ہے جب اس نے پہلی روشنی دیکھی تھی، اس نے آج کے کریٹ میں ایسا کیا (بمطابق اوپر پیش کردہ ٹیلی گرام) وہ مستقبل میں بھی کسی جگہ ایسا ہی کرے گا۔ اعلٰی حیوانات کا کوئی مذہب نہیں۔ اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آخرت کی زندگی میں انہیں شامل نہیں کیا جائے گا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ آخر کیوں؟ پسند کا یہ معیار قابلِ اعتراض سا معلوم ہوتا ہے۔

آدمی عقلی حیوان ہے۔ خیر دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر مباحثہ ہو سکتا ہے۔ درحقیقت، میرے تجربات نے مجھے بذریعہ ثبوت بتایا کہ وہ غیر عقلی حیوان ہے۔ اس کی تاریخ دیکھیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ مجھے تو صاف لگتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہو کم از کم ایک عقلی حیوان نہیں ہے۔ اس کا ماضی ایک جنونی کا شاندار ماضی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذہانت کے خلاف مضبوط ترین حقیقت یہ ہے کہ اپنے پیچھے ایسے ماضی کے باوجود وہ بڑی نرمی سے خود کو ان سب کا سربراہ حیوان مقرر کر لیتا ہے: جبکہ اپنے ہی معیارات کے مطابق وہ ارذل ترین حیوان ہے۔

حقیقت میں، انسان ایک ایسا احمق ہے جس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ سادہ چیزیں جو دیگر حیوان باآسانی سیکھ لیتے ہیں، وہ انہیں سیکھنے کے قابل نہیں۔ میرے تجربات میں یہ پیش آیا۔ ایک گھنٹے میں مَیں نے ایک بلی اور کتے کو دوست رہنا سکھایا۔ میں نے انہیں ایک پنجرے میں ڈالا۔ اگلے گھنٹے میں مَیں نے انہیں خرگوش کے ساتھ دوستی سے رہنا سکھا دیا۔ دو دنوں کے دوران میں ایک لومڑی، ایک ہنس، ایک گلہری اور کچھ فاختاؤں کو شامل کرنے میں کامیاب رہا۔ آخر کار ایک بندر بھی شامل کر لیا۔ وہ پرامن -- بلکہ پیار بھرے -- انداز میں اکٹھے رہے۔

اس کے بعد، میں نے ایک پنجرے میں ٹپریری سے ایک آئرش کیتھولک کو محبوس کر دیا، جیسے ہی وہ سدھایا گیا تو میں نے ایبرڈین سے ایک اسکاچ پريسبيٹيريَن کو ساتھ ڈال دیا۔ بعد ازاں قسطنطنیہ سے ایک ترک؛ کریٹ سے ایک یونانی عیسائی؛ ایک آرمینیائی؛ آرکنساس کے جنگلات سے ایک میتھوڈسٹ؛ چین سے ایک بُودھ؛ بنارس سے ایک برہمن۔ آخر میں واپِنگ سے جیشِ نجات کا ایک کرنل ڈالا۔ پھر میں دو مکمل دن ان سے دور رہا۔ جب میں نتائج کے اندراج کے لیے واپس آیا، تو اعلیٰ حیوانات کا پنجرہ بالکل ٹھیک تھا، لیکن دوسرے پنجرے میں خونی فسادات اور پگڑیوں کے سِروں اور طرپوشوں اور اونی چادروں اور ہڈیوں اور ماس کے علاوہ کوئی زیرِ مطالعہ نمونہ باقی نہیں بچا تھا۔ یہ عقلی حیوانات ایک مذہبی مسئلے پر اختلاف کا شکار ہوئے تھے اور اس مسئلے کو ایک 'اعلٰی عدالت' میں لے گئے۔

فرد یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ کردار کے حقیقی غرور میں مبتلا انسان گھٹیا ترین اعلیٰ حیوانات تک پہنچنے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ بالکل واضح ہے کہ وہ دستوری طور پر اس بلندی تک پہنچنے کے لیے معذور ہے؛ یہ کہ وہ دستوری طور پر ایک نقص کا شکار ہے جس کے باعث ایسی کوئی کوشش ہمیشہ کے لیے ناممکن ہو جانی چاہیئے، چونکہ یہ عیاں ہے کہ  اس میں یہ نقص مستقل، لازوال اور ناقابلِ انسداد ہے۔

میرے خیال میں یہ نقص حسِ اخلاق ہے۔ ایسی کوئی چیز رکھنے والا یہ اکلوتا حیوان ہے۔ یہ اس کی تنزلی کا راز ہے۔ یہ ایسی صفت ہے جو اسے غلط کرنے کے قابل کرتی ہے۔ اس کا اور کوئی منصب نہیں ہے۔ یہ کوئی اور فعل سرانجام دینے کے قابل ہی نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا تھا کہ نفرت کا کوئی اور مقصد ہو۔ اس کے بغیر، انسان کچھ غلط نہیں کر سکتا تھا۔ وہ فوراً اعلیٰ حیوانات کے رتبے پر عروج کر جائے گا۔

چونکہ حسِ اخلاق کا صرف ایک ہی منصب ہے، اکلوتی اہلیت (یعنی انسان کو غلط کرنے کے قابل بنانا) یہ صریحاً اس کے لیے کسی قدر کی حامل نہیں۔ یہ اس کے لیے اتنی ہی بے قدر ہے جیسے کوئی بیماری ہو۔ درحقیقت، یہ اعلانیہ طور پر ایک بیماری ہے۔ باؤلا پن برا ہے، لیکن یہ اس بیماری جتنا برا نہیں۔ باؤلا پن انسان کو ایک کام کرنے کے قابل بناتا ہے، جو وہ صحت مند حالت میں کبھی نہ کرے: زہریلے دانتوں سے کاٹ کر اپنے پڑوسی کو مارنا۔ باؤلے پن کا شکار کوئی بھی انسان بہتر نہیں ہے: حسِ اخلاق انسان کو غلط کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ اسے ہزاروں طریقوں سے غلط کرنے کے قابل بناتی ہے۔ باؤلا پن تو حسِ اخلاق کے مقابلے میں ایک معصوم بیماری ہے۔ تو پھر، حسِ اخلاق کا حامل کوئی بھی انسان بہتر انسان نہیں ہے۔ تو کیا آدم پر خدائی لعنت اس کی وجہ ہے؟ صاف طور پر یہ آغاز میں جو تھی: انسان پر حسِ اخلاق کا عذاب؛ اچھائی کو برائی سے ممتاز کرنے کی صلاحیت؛ اور اس کے ساتھ، لازماً، برائی کرنے کی صلاحیت؛ چونکہ مُرتکب میں برائی کے شعور کے بغیر کوئی برا فعل سرزد نہیں ہو سکتا۔

تو اس لیے میں نتیجہ نکالتا ہوں کہ ہم، کسی دُور پار کے جد سے (کوئی خردبینی ایٹم جو پانی کے ایک قطرے کے عظیم افقوں کے مابین اتفاقاً مزے لے رہا ہو گا) حشرہ در حشرہ، حیوان در حیوان، خزندہ در خزندہ، طویل راستے پر گندگی اور کم تر معصومیت پر اترتے رہے، یہاں تک کہ ہم ارتقاء کی ارذل ترین منزل پر آ پہنچے (جسے نسلِ انسانی کا نام دیا جا سکتا ہے)۔ ہم سے ارذل کچھ نہیں ہے۔

ہفتہ، 20 فروری، 2016

فیس بُک پر لائیکنے کے رہنما اُصول

حضراتِ گرامی فیس بُک آج اُمت کی زندگی کا ایک اہم جزو بن چکی ہے۔ لاتعداد صالحین روزانہ اس میدان میں برسرِ عمل نظر آتے ہیں۔ فیس بک کی ان بے پایاں خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ فیس بُک کے حوالے سے کچھ آداب وضع کر لیے جائیں۔ علماء کے ہاں لائیکنا فیس بُک کے اہم ترین اعمال میں شمار کیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں لائیکنے کے آداب اور اصول و مبادی پر کوئی خاطر خواہ تصنیف نہیں ملتی۔ اسی کمی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فدوی یہ مختصر رسالہ لکھ رہا ہے تاکہ عوام الناس کو فیس بک پر صراطِ مستقیم اپنانے کی تلقین ہو۔

1۔ مقدس ہستیوں سے منسوب اشیاء کی تصاویر کو لائیکنا فیس بُک کے فرائض میں شمار کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی تحقیق کی ضرورت محسوس نہ کی جائے۔ تصویر میں دئیے گئے تیر کے نشان کو فالو کرتے ہوئے لائیک کا بٹن دبایا جائے۔ بلکہ افضل یہ ہے کہ لائیکنے کے ساتھ ساتھ شیئرنے کا عمل بھی سرانجام دے کر شیطان کو شکست دی جائے جو ہمیشہ آپ کو ایسی تصویر شیئرنے سے روکے گا۔ امید ہے اس طرح مزید خیر و برکت حاصل ہو گی۔

2۔ ڈی پی اور کور فوٹو تبدیل ہوتے ساتھ ہی لائیک کرنا فیس بُک کے واجبات میں شمار کیا جائے گا۔ آپ کے فرینڈز آپ کے پڑوسی ہیں اور پڑوسیوں کا خیال رکھنا آپ کا فرض ہے۔ نیز چونکہ آپ اپنی ڈی پی کے لیے بھی ان کی جانب سے لائیکنے کی توقع رکھتے ہیں، اس لیے ان کے لیے بھی وہی چاہیں جو آپ اپنے لیے چاہتے ہیں۔ ڈی پی اور کور فوٹو فوراً لائیکنا افضل ہے تاہم مصروفیت کی وجہ سے چند گھنٹے تک کی تاخیر گوارا کی جا سکتی ہے۔ ڈی پی یا کور فوٹو پر جا کر تعریفی کمنٹس بھی افضل عمل شمار کیے جائیں گے۔

3۔ آپ کی فیڈ میں آنے والی تصویری اور عبارتی شاعری کو لائیکنا فیس بُک کے علماء کے نزدیک ایک مستحسن عمل خیال کیا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف فرینڈز کی دلجوئی ہوتی ہے بلکہ انہیں مزید عملِ نیک کی توفیق بھی ملتی ہے۔

4۔ آپ کے فرینڈز میں اگر کوئی فیس بُکی رائٹر یا شاعر موجود ہیں تو ان کی طبع زاد پوسٹوں کو لائیکنا باعثِ فضیلت ہے۔ اس سلسلے میں ثقہ علماء نے لائیکنے کو نئے پودوں کو پانی دینے سے تشبیہ دی ہے۔ آپ کے لائیکنے سے یہ ننھے پودے کل تناور درخت بھی بن سکتے ہیں۔

5۔ اپنے فرقے/ گروہ/ قوم کی تعریف کرنے والی اور مخالفین کی ذاتیات پر حملہ کرنے والی پروپیگنڈہ تصاویر اور پوسٹس کو لائیکنا بھی فیس بُک کے افضل الاعمال میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں ثقہ علماء نے شیئرنے کی بھی پرزور تاکید کی ہے۔

فیس بک کے حوالے سے یہ رسالہ ابھی زیرِ تکمیل ہے۔ ہماری دیگر علمائے فیس بُک سے بھی دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالیں اور اُمت کو فیس بُک پر صراطِ مستقیم دِکھا کر ثوابِ دارین حاصل کریں۔

اتوار، 14 فروری، 2016

افشائے حقیقت

میں نے برقی آئینے میں خود کو دیکھا۔
قدیم داستانوں میں بیان کردہ دیوؤں سی بلند قامت۔۔
مقدس صحیفوں میں ذکر کردہ فرشتوں سی نورانی شباہت۔۔
میں بے اختیار خود کو تعظیم دینے کے لیے جھُکتا چلا گیا۔۔۔
جھُکا تو پتا چلا کہ میرا عکس تو 0 اور 1 کے مجموعے کے سِوا کچھ نہیں۔۔
میں جھُک کر اُٹھا تو میرے اردگرد میرے جیسے سات ارب اور نفوس آ موجود ہوئے۔
میں دیو سے بالشتیا ہو گیا۔۔۔
میں نے آسمان پر نگاہ دوڑائی تو اپنی دنیا جیسی اربوں دنیائیں چمکتی نظر آئیں۔
میں شرم سے زمین میں گڑ گیا۔۔۔
میری آنکھیں بھر آئیں۔۔۔
میں عظیم کے قدموں میں گِر پڑا۔۔۔
اے میرے مالک! عظمت اور بڑائی تیرا ہی شیوہ!
میں تیرا بندہ اور غلام۔۔ گھٹیا پن میرا پیشہ۔۔ 
تُو مجھ پر اپنا رحم ہی رکھیو۔۔
اے میرے مالک اس بھلکڑ، نیچ ذات، گھٹیا پر اپنا کرم ہی رکھیو۔۔۔

منگل، 9 فروری، 2016

چائے

حضرات چائے کے فضائل کیا گنوائیں۔ سمجھ لیں کہ آسمانی تحفہ ہے جو خدا نے اپنی مخلوق کے غموں پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے اتارا ہے۔ آپ عاشقِ صادق ہیں یا زوجہ کے ستائے ہوئے، دوست احباب یا اہلخانہ میں بیٹھے ہیں یا تنہائی سے شغل فرما، امتحان کی تیاری میں مصروف ہیں یا دفتر کے اضافی کام تلے دبے ہیں، ذہنی کام نے دماغ کی دہی بنا دی ہے یا جسمانی کام نے تھکا مارا ہے، صبح اٹھے ہیں تو بیڈ ٹی رات دیر تک جاگنا ہے تو نیند بھگانے کا تیر بہدف نسخہ؛ سردی، گرمی، خزاں، بہار کسی بھی موسم میں، رات، دن، سہ پہر، دوپہر کسی بھی وقت، گھر میں ٹی وی کے سامنے، بیٹھک، کھڑکی یا میز کے پیچھے، باہر فٹ پاتھ پر کرسی یا بینچ پر بیٹھے، دفتر میں فائلوں کے ہمراہ یا کسی میٹنگ میں مصروف، غرض ایک کپ چائے کہیں بھی آپ کی دنیا بدل سکتی ہے۔

دل جلانے کا من ہے تو دودھ کے بغیر پی لیں۔ دودھ کے ہمراہ دل جلانے کا شوق ہے تو کسی فٹ پاتھی چائے فروش سے مستریوں والی چائے کی فرمائش کر لیں۔ دودھ سے کچھ زیادہ رغبت ہے تو دودھ پتی کروا لیں۔ جاڑوں کی سردیلی صبح، نانی کے گھر میں لکڑی کے چولہے کے ساتھ بیٹھے گھر کی گائے/ بھینس کے دودھ اور گھر کے گُڑ کی بنی چائے پر تو دنیا جہان کی نعمتیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ پستہ بادام سے شغف ہے تو کشمیری گلابی سبز چائے آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ پشاوری قہوے اور لیموں کا جوڑ تو شاید ہی کہیں اور پایا جائے۔ یعنی جیسا موڈ ہو ویسی چائے اسے دوبالا کرنے کے لیے حاضر۔

 اور پھر چائے اکیلی ہی نہیں آتی، ساتھ طرح طرح کے لوازمات بھی دل لبھانے کو آ موجود ہوتے ہیں۔ بھوک لگی ہے تو چائے پراٹھا، اور اگر والدہ کے ہاتھ کا پکا پراٹھا چائے کے ساتھ مل جائے تو جناب اس کی قدر ہم جیسے پردیسیوں سے پوچھیں۔ توس، سادہ توس، انڈہ لگا توس، ٹوسٹر میں فرائی کردہ توس اور ساتھ ایک کپ چائے: لاجواب۔ ایک فرائی ہاف فرائی انڈہ، ابلا ہوا، ہاف بوائلڈ انڈا ایک چٹکی نمک اور کالی مرچ کے ساتھ چائے کے کپ کی چُسکیاں، سبحان اللہ۔ رس گلے، گلاب جامن اور برفی سے لدی ایک پلیٹ جب چائے کے کپ کے ساتھ گلے میں اترتی ہے تو اس کا مزہ کسی من و سلویٰ سے کیا کم ہو گا۔ اور رس یا بسکٹ چائے کی پیالی میں ڈبو کر کھانے اور پیالی میں ہی رہ جانے کی صورت میں پینے کا لطف بیان کرنے نہیں آزمانے کی چیز ہے۔ اور اگر میٹھا نہیں کھانا چاہتے تو نمکین چیزوں کے ساتھ بھی چائے کی بہت اچھی دوستی ہے: نمکو، سموسے، پکوڑے، چپس اور ساتھ ایک کپ چائے۔

تو صاحبو چائے کچھ ایسا عالمگیر مشروب ہے جو خال ہی کسی چیز کے ساتھ فِٹ نہ بیٹھتا ہوگا، کم ہی کسی صورتحال میں اجنبی محسوس ہوتا ہو گا اور کوئی بدنصیب ہی اسے چھوڑ کر کسی اور مشروب سے دل بہلانے کی آرزو کرتا ہو گا۔ کسی زمانے میں حکیموں کے ہاں ہی ملتی ہو گی ہمیں اس روایت سے انکار نہیں ، لیکن اب تو چائے ہر امیر غریب کی خوراک کا لازمی جزو ہے۔ دل جلانے، دل بہلانے، دل لگانے کے کام آتی ہے۔ وزیروں، مشیروں، شاعروں، ادیبوں، امراء، فقراء، علماء، ہر کسی میں مقبول یہ مشروب جسے ہم اردو میں چائے، انگریزی میں ٹی، پنجابی میں چاء اور جرمن میں ٹے بلاتے ہیں۔ اب اس کی تعریف اور کیا کریں کہ بس ایک کپ چائے نے کچھ ایسا دماغ چلایا کہ ہم نے ایک ڈیڑھ صفحہ اس کی مدح سرائی میں کالا کر ڈالا۔ تو صاحبو چائے پیئو، جیو اور خوش رہو۔

اتوار، 7 فروری، 2016

مسافر

مسافر بنیادی طور پر ایک سیف پلیئر ہے۔ اپنی زندگی کے ساتھ کبھی رسک لینے کی حماقت کم ہی کرتا ہے۔ راستہ مشکل ہو جائے تو آسانی کا متلاشی ہوتا ہے۔ بند گلی مل جائے تو پیچھے مُڑ کر کوئی اور گلی لے لیتا ہے۔ ہمیشہ ایک سے زیادہ متبادل تیار رکھتا ہے اور ایک میں ناکام ہونے پر دوسرے متبادل کو اپنی منزل بنا لیتا ہے۔ اور پھر اس پر باقاعدگی سے فخر بھی کرتا ہے۔ مسافر نے آج سے چند برس قبل جب لاہور کا سفر شروع کیا تھا تو اس کی وجہ بھی ایک راستہ بند ہونے پر متبادل کو اپنی منزل بنا لینا تھا۔ آج کئی برس بعد بھی مسافر کا سفر جاری ہے۔

مسافر کی زندگی کو اگر کوئی کمپیوٹر گیم فرض کر لیا جائے، تو آپ باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اسٹیج در اسٹیج اپنی زندگی کی اننگز کھیل رہا ہے۔ ایک اسٹیج ختم ہوتی ہے تو اگلی تیار کھڑی ہوتی ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں آنے والی کمپیوٹر گیمز میں ہر اسٹیج کے آخر پر ایک باس /بلا آیا کرتی تھی جس سے نمٹے بغیر اگلی اسٹیج پر جانا ناممکن ہوا کرتا تھا۔ تو مسافر کی زندگی کی ہر اسٹیج بھی کچھ ایسی ہی بلاؤں سے پُر ہے۔ ہر اسٹیج کے آخر پر پچھلی اسٹیج سے زیادہ بڑی اور سخت بلا راستے روکے کھڑی ہوتی ہے۔ اور مسافر کو اپنی پتلی گلی سے نکل لینے والی طبیعت کے برعکس اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ا س کی ٹانگوں تلے سے نکلنے کی جگہ مل جاتی ہے، اکثر البتہ ایسا نہیں ہوتا اور بلا سے مقابلہ کیے بغیر آگے جانا ناممکن ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں پار کردہ ہر اسٹیج ، اور ہر اسٹیج پر آنے والی بلا سے نپٹنے کے بعد ایک عرصے تک مسافر کو یہ گمان رہا کہ شاید اب والی اسٹیج آسان ہو گی۔ لیکن وقت نے مسافر کو سمجھا دیا ہے کہ آنے والی ہر اسٹیج پچھلی سے ایک درجہ زیادہ مشکل ہی ہو گی۔ اس لیے مسافر کے لیے یہ صورتحال چاہے کتنی بھی ناگوار کیوں نہ ہو، ایک حقیقت ہے۔

ایک دوسرے انداز میں دیکھیں تو مسافر کی زندگی گویا قسطوں میں چلنے والا ایک ڈرامہ ہے۔  فرق صرف اتنا ہے کہ اس ڈرامے کی قسطیں اتنی تیز رفتاری سے ایک کے بعد ایک آتی چلی جاتی ہیں کہ ان پر بیک وقت چلنے کا گمان ہوتا ہے۔ کمپیوٹر کی زبان میں اس چیز کو ملٹی ٹاسکنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ مسافر کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی ملٹی ٹاسکنگ کا مجموعہ ہے، جس میں مسافر مختلف پروگرامز میں مختلف کردار نبھا رہا ہو اور وہ سارے پروگرام بیک وقت کھُلے ہوئے ہوں۔ آسان لفظوں میں کہیں تو مسافر کی زندگی خانوں میں بٹی ہوئی ہے اور اس کے وجود کا ایک ایک ٹکڑا رئیل ٹائم (حقیقی وقت) میں اس خانے میں متعین زندگی کو بیک وقت گزار رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کمپیوٹر کا پروسیسر بیک وقت کئی ایک تھریڈز ہینڈل کر رہا ہوتا ہے۔

اس انداز سے دیکھیں تو مسافر کی زندگی کے خانے کسی آئینے کے ٹوٹے ہوئے بے شمار ٹکڑے محسوس ہوتے ہیں جن کے سامنے کھڑا وجود اتنے ہی ٹکڑوں میں بٹ کر اُن میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ شاید کچھ لوگوں کی زندگی ایک مکمل اور بڑے آئینے جیسی بھی ہوتی ہو، کہ جس میں کوئی بال بھی نہ ہو اور انہیں اپنا آپ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر تقسیم بھی نہ کرنا پڑے۔ لیکن مسافر کے مشاہدے کے مطابق عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر و بیشتر، یا کم از کم مسافر کے ساتھ تو یہی معاملہ ہے۔ مسافر کو ملٹی ٹاسکنگ یا ایک ہی وقت میں کئی خانوں میں بٹی زندگی گزارنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ خانہ بندی اور تقسیم تنہائی کے چھوٹے چھوٹے لاتعداد فرنچائز کھول دیتی ہے۔ مسافر گویا لاتعداد کائناتوں کا تنہا باسی بن جاتا ہے، اور ہر کائنات میں اتنی ہی تنہائی اور خلاء موجود ہوتا ہے جیسا کہ حقیقی کائنات میں ہے۔ تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں مسافر کی زندگی اور شخصیت تو تقسیم در تقسیم سے گزرتی ہے، لیکن اس کی ازلی تنہائی ضرب در ضرب سے گزر کر رائی کا پہاڑ بن جاتی ہے۔

مسافر کی زندگی کا ایک خانہ کتاب سے جڑا ہے۔ کتاب سے مراد اہلِ علم والی کتاب نہیں، بلکہ سکول، کالج، یونیورسٹی والی کتاب جس کے پڑھنے کے بعد نوکری کا دروازہ کھُلتا ہے۔ اسی خانے سے جڑا ایک خانہ ایک مستقل کلاس روم ہے جہاں مسافر کی زندگی کی ہر اسٹیج پر موجود کلاس روم اکٹھا ہو کر ایک اچھی خاصی لمبی فلم بن جاتا ہے۔ نرسری اور کے جی ون، پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول، کالج، یونیورسٹی اور ٹریننگ ، لینگوئج کورس غرض ایسے متعدد کلاس رومز ہیں جو مسافر کی زندگی کے اس خانے میں پائے جاتے ہیں۔ کبھی آپ اس خانے میں نظر ڈالیں تو مسافرکو ایک مریل سے بچے سے ایک تقریباً جوان ہو چکے وجود میں تبدیل ہوتا  دیکھ سکتے ہیں۔

مسافر کی زندگی کے یہ دو خانے ایک تیسرے خانے سے جڑے ہیں جس کا نام سفر ہے۔ مسافر، جیسا کہ اوپر صراحت کی جا چکی ہے، مشکلات سے بچ بچا کر ، چیلنجز سے نبرد آزما ہوئے بغیر ہی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ سفر بھی مسافر کی نظر میں ایک مشکل صورتحال کا نام ہے جس سے ہر ممکن حد تک احتراز گویا ایک فرضِ عین ہے۔ لیکن ستم ظریفی کہ مسافر کے اپنے آسانی تلاش کرنے والے فیصلے ہی اس کے پیروں میں چکر کی وجہ بن جاتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں اس خانے میں ایک لمبی بے ہنگم لکیر نظر آتی ہے۔ کبھی یہ لکیر دو نقاط کے درمیان شٹل کاک کی طرح چلتی ہے، کبھی کوئی تیسرا نقطہ بھی ساتھ آ لگتا ہے، کبھی نقاط کی تعداد بڑھ کر چار اور پھر پانچ ہو جاتی ہے۔ کبھی شٹل کاک کی آنیاں جانیاں ایک مختصر وقت کے لیے ہوتی ہیں اور کبھی عرصہ طویل ہو جاتا ہے۔ 

حسابی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ تین خانے مسافر کی زندگی کے ایک بڑے حصے کی تشکیل کرتے ہیں۔ بظاہر ان خانوں میں مسافر ایک شوریلا بچہ نظر آتا ہے ، جو سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ پسِ پردہ البتہ کچھ اور معاملہ چلتا ہے۔ مسافر، جیسا کہ اس سے جڑی پچھلی تحریر سے پتاچلتا ہے، فطری طور پر ایک تنہا شخص ہے۔ گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کا عادی، تنہائی اور اندھیرے میں تلخی کے باوجود سکون محسوس کرنے والا ایک ایسا وجود جو ان ساری کیفیات سے بیک وقت لوْ ہیٹ کا تعلق رکھتا ہے۔ ایک ایسی عمارت جس کے سامنے والے پورشن میں چاہے ہر وقت بینڈ باجے والے اترے رہتے ہوں، لیکن سب سے پچھلے کمرے میں اندھیرا ہی رہتا ہے۔ مسافر کی دوہری زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے، سرد و گرم اور پرسکون و متلاطم جیسی متضاد کیفیات سے عبارت ،لیکن مسافر اس پر اندر ہی اندر فخر و غرور جیسے جذبات بھی رکھتا ہے۔ ہاں البتہ اس کی وجہ سے مسافر خود بھی لاعلم ہے۔ شاید مسافر کو جاننے والے اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احباب آسانی کے لیے اسے آج سے تین برس قبل لکھی گئی تحریر موٹروے کا تقریباً سیکوئل سمجھ سکتے ہیں۔ اس وقت موٹروے تھی، آج جرمنی کی بے کراں وُسعتیں مجھے اپنی آغوش میں لیتی ہیں تو کچھ ویسی کیفیات لوٹ آئیں جنہیں کاغذ پر اتار دیا۔

سیرت النبی ﷺ اور غیر مسلم سیرت نگار

نبی کریم ﷺ کی ذاتِ والا صفات سے محبت اور نسبت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے۔ بڑے بڑے صاحبِ ایمان اور بزرگ ترین لوگ تو ان ﷺ سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں، میرے جیسے نیچ ذات بھی ان ﷺ کے قدموں کی خاک بننے کے تمنائی ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے نبی سائیں ﷺ کا وجود سیاہ رات میں چودھویں کے چاند جیسا ہے۔ وہ ﷺ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ انسانوں میں ان ﷺ سے بلند مرتبہ کسی کا نہ ہوا اور نہ ہو گا۔ ان ﷺ کی ذات کی نسبت سے ہماری نسبت اللہ سائیں کے ساتھ طے ہوتی ہے۔ وہ ﷺ کہتے ہیں کہ رب ایک ہے تو ہم مانتے ہیں کہ رب ایک ہے۔ وہ ﷺ کہتے ہیں کہ رب یہ فرماتا ہے تو ہم مانتے ہیں کہ رب یہ فرماتا ہے۔ ہم اللہ کو رب اس لیے مانتے ہیں کہ محمد الرسول اللہ ﷺ نے ایسا کہا۔ وہ ہمارے سالارِ قافلہ ہیں، ان ﷺ کا کہا ہمارا جزوِ ایمان۔ انہوں ﷺ  نے کہا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے تو ہم مانتے ہیں کہ قرآن اللہ ہی کا کلام ہے۔

محمد الرسول اللہ ﷺ کی سیرت لکھنے کا باسعادت کام بہت سے علماء نے سرانجام دیا۔ اور آج بھی یہ کام جاری و ساری ہے۔ ان ﷺ کے زندگی کو پڑھنا، ان کے حالات کو جاننا ہمیں ان ﷺ کی پیروی کرنے، ان جیسا بننے کی کوشش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ سیرت الرسول ﷺ ایسا بابرکت شعبہ ہے کہ اسلامی تواریخ میں باقاعدہ ایک اہم ترین صنف بن کر ابھرا۔ لیکن سیرت الرسول ﷺ پر صرف مسلم علماء نے ہی نہیں، غیر مسلموں نے بھی بے تحاشا کام کیا۔ بحیثیت قاری میں نے سیرت النبی ﷺ کی ایک آدھ کتاب کا ہی مطالعہ کیا ہو گا۔ لیکن اپنے مشاہدے اور کتب سیرت بارے مطالعہ سے یہ بات ضرور جانتا ہوں کہ مسلمان مصنفین سیرت النبی ﷺ لکھتے ہوئے ایک خاص تقدس اور احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔ ان کا یہ طرزِ عمل عین درست ہے چونکہ انہوں نے جن قارئین کے لیے یہ لکھنا ہے وہ بھی حبِ رسول ﷺ کے دعوے دار ہوتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کو جاننا ہو تو کسی نسبتاً دیانت دار اور غیر جانبدار مستشرق کی لکھی ہوئی سیرت بھی پڑھی جائے۔ چونکہ ایسا مصنف ایک مختلف پسِ منظر سے آتا ہے، وہ نبی کریم ﷺ کی ذات کو اپنے مذہبی، سماجی اور ثقافتی آئینے میں دیکھتا ہے، اپنی تہذیب اور روایات کی روشنی میں پرکھتا ہے، اس طرح ہمارے سامنے نبی ﷺ کی ذات کے وہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو مسلم مصنفین عقیدت و احترام اور مانوسیت کی وجہ سے نظر انداز کر جاتے ہیں۔ نبی ﷺ کی ذات والا صفات بارے کسی غیر مسلم کی تحریر ہمیشہ مجھے کشش کرتی ہے۔ جب کوئی ایسا مصنف چاہے ان ﷺ کو نبی اور رسول نہ بھی مانے، لیکن جب وہ ان ﷺ کے کردار، اخلاق اور اعلٰی انسانی صفات کا اقرار کرتا ہے تو اس سے میرا ایمان ان ﷺ کی ذات پر اور بڑھ جاتا ہے کہ وہ واقعی بہترین اخلاق کے مالک تھے۔

میں اپنے قارئین سے بھی درخواست کروں گا کہ نبی ﷺ کی سیرت پڑھنی ہو تو کم از کم کسی ایک غیر مسلم مصنف کی سیرت ضرور پڑھیں۔ ہاں یہ خیال کر لیں کہ مصنف مناسب حد تک دیانت دارانہ رائے دینے کے لیے معروف ہے، چونکہ بعض مستشرقین انتہائی منفی رجحان بھی رکھتے ہیں۔ اس سے فائدہ ہو گا کہ ہمارے علماء اور مصنفین کی تحریر کردہ کتب سیرت سے جو مانوسیت اور تقدس کا ہالا بن جاتا ہے، اس کے پار ایک تیسری آنکھ سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اور کچھ ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جن سے نبی ﷺ کو بطور انسان جاننے میں کچھ مدد ملتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر حمید اللہ کی کتب جو انہوں نے غیر مسلموں سے نبی ﷺ کا تعارف کروانے کے لیے لکھیں بھی قابلِ توجہ ہیں۔ اگرچہ مجھے ان میں سے کوئی بھی کتاب پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایک داعی کے نقطہ نظر سے وہ کتب لکھیں، اس لیے ان کے قارئین غیر مسلم تھے۔ چنانچہ ان سے ہمیں نبی ﷺ کو ایک اور انداز میں جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی حوالے سے ایک برطانوی یہودی مصنفہ لیزلی ہیزلیٹن کی سیرت النبی ﷺ پر کتاب دی فرسٹ مسلم بھی قابلِ توجہ ہے۔ مصنفہ معقول حد تک غیر جانبداری سے نبی ﷺ کی زندگی کے واقعات بیان کرتی ہے۔ اور آج کل مجھے اس کتاب کا اردو ترجمہ 'اول المسلمین' ایک دوست بلاگر برادرم عمر احمد بنگش کے توسط سے پڑھنے کو مل رہا ہے۔ ماشاءاللہ ان کی ترجمے کی صلاحیتیں بھی قابلِ داد ہیں، لیکن اصل خوشی یہ ہو رہی ہے کہ ایک غیر مسلم مصنفہ بھی نبی ﷺ پر لکھے تو ان کے اعلٰی کردار اور اخلاق کی تعریف پر خود کو مجبور پاتی ہے۔ نیز اس کا اندازِ تحریر، جو یقیناً ہمارے ہاں لکھی گئی کتب سیرت سے قطعاً مختلف نوعیت کا ہے، مجھے نبی ﷺ اور اس وقت کے عرب سماج کو سمجھنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس کے لیے میں مصنفہ اور مترجم ہر دو کا شکر گزار ہوں۔ آپ احباب سے بھی گزارش ہے کہ نبی ﷺ کی سیرت ویسے تو ہمارے نصاب کا لازمی حصہ ہے، لیکن خود بھی دو تین کتب سیرت ضرور پڑھیں۔ اور ان میں سے کم از کم ایک کسی غیر مسلم مصنف کی تحریر کردہ ہو تاکہ آپ کو نبی ﷺ کے کردار، اعلٰی اخلاق اور بحیثیت انسان ان کی عظمت کا احساس ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہو سکے۔


ہفتہ، 23 جنوری، 2016

اے میرے رب میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔

اس بلاگ کے ایک قاری زبیر صاحب کی کاوش
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّىْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّلَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم4)
کہا اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر میں بڑھاپا چمکنے لگا ہے اور میرے رب! تجھ سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں ہوا۔
لَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔
اے میرے رب میں تجھے پکار کر کبھی نامراد نہ رہا۔
بوڑھے زکریاؑ  کو اولاد کی تمنا ہے۔ آہستہ سے پالنے والے کو پکارتے ہیں۔ دعا کرتے ہوئے ان کے لہجے کی امید اور رب پر مان نے آج میری آنکھیں نم کر
دیں۔ کتنا مان تھا ان لفظوں میں کہ رب العالمین نے انہیں قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا۔
لَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔
بندہ ہونے کا احساس کیسے اپنے عروج پر ہے۔ زکریاؑ جانتے ہیں کہ یہیں سے ملا ہے اور یہیں سے ملے گا۔ 
کاش میں بھی اُس کا ایسا ہی بندہ بن جاؤں۔ مجھے احساس ہو جائے کہ وہیں سے ملا ہے اور وہیں سے ملے گا۔ کاش مجھے اُس پر زکریاؑ کے مان کے ایک لاکھویں حصے جتنا ہی مان ہو جائے۔ کاش جب میرے ہاتھ اٹھیں تو اس نیت سے اٹھیں کہ اسی در سے میری حاجت روائی ہو گی۔
آج زکریاؑ کے الفاظ برت کر ہی ایک رذیل کمین بھی بارگاہِ ایزدی میں ہاتھ اٹھائے گا تو اپنے لہجے میں کچھ مان رکھنے کی کوشش کرے گا۔
لَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔
تیری بارگاہ سے سب کچھ ملا۔ 
تیرے ہی در سے ہمیشہ حاجت روائی ہوئی۔
تو ہی میرا مولا ہے۔
تو اپنے حبیب ﷺ کے صدقے مجھ پر اپنا کرم رکھیو۔
لَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔

جمعرات، 21 جنوری، 2016

ایک سانحہ اور

آج صبح ناشتے کے دوران ہی فیس بک پر یہ خبر نظر آ گئی تھی۔ یہ واقعہ ہوئے بھی چار گھنٹے بیت چکے تھے۔ اس کے بعد سارا دن اندر کھُد بُد لگی رہی اور ہر کچھ دیر بعد موبائل پر بی بی سی اردو یا ایکسپریس پی کے کھل جاتی اور اب رات ہو چکی ہے۔ میرے سامنے بھانت بھانت کے لوگ بھانت بھانت کی باتیں کر کے اپنے اپنے بستروں میں جا چکے ہیں۔ آپریشن کے بعد جامعہ کو کلیئر قرار دیا جا چکا ہے۔ شہداء کے لواحقین پر قیامت کا سماں ہے۔ دہشت گرد چار بندے مروا کر بھی جشن کی کیفیت میں ہوں گے۔ میرے ملک کی سلامتی کے ذمہ دار بھی لکیر پیٹ چکے ہیں، کھرا نکالنے کے بیانات دے چکے ہیں۔ اور میں یہاں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں؟ میں ایک استاد ہوں۔ زندگی کے تین عشرے جس ایک کام کے لیے محنت کی وہ کسی جامعہ میں تدریسی عہدے کا حصول تھا۔ جب واپس جاؤں گا تو تدریس میرا اوڑھنا بچھونا ہو گی۔ تو میں یہ سوچ رکھوں کہ باچا خان یونیورسٹی کے دو پروفیسروں اور طلبہ کی طرح دہشت گرد میرے بھی منتظر ہوں گے؟ وہ میری یونیورسٹی کی دیواریں پھلانگ کر میرے بچوں کو میرے سامنے گولیاں مارنے چلے آئیں گے؟ کیا مجھے پی ایچ ڈی کے ساتھ ان سے نمٹنے کی ٹریننگ بھی لینی ہو گی؟

میں بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔ میرے وطن میں نصف رات گزر چکی ہے اور میں یہاں اتنی دور بیٹھا ایسی ہی لایعنی باتیں سوچ رہا ہوں۔ کہ میرے وطن میں استاد کی کوئی اوقات تو نہیں رہی تھی اب اس کو جینے کا حق بھی نہیں ملے گا؟ میرے وطن میں تعلیم تو پہلے ہی نایاب تھی جو پڑھنا چاہتے ہیں گولیاں ہی ان کا مقدر رہیں گی؟ میں بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔ میری آنکھیں خشک ہیں، میرا دل سرد صحرا ہے جس میں دور دور تک کوئی سوچ نہیں ابھرتی۔ بس اس طرح کے سینکڑوں سوال بگولوں کی طرح چکراتے پھرتے ہیں۔

جمعرات، 7 جنوری، 2016

خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی

کچھ قارئین کے خیال میں کبھی کبھی میں بہت اچھا لکھ لیتا ہوں۔ لفظ جوڑنا بڑی پرانی بیماری ہے۔ عرصہ ہوا، ایک عشرہ اس بلاگ کو ہو گیا اور اس سے بھی پہلے سے لفظ جوڑ جوڑ کر ٹاٹ بُننے کی عادت ہے۔ کبھی کبھی لفظوں کی کُترن سے بنی یہ گدڑیاں اتنی اچھی بن جاتی ہیں کہ دیکھنے والے پسندیدگی کی رعایت دے جاتے ہیں۔ لفظ لکھاری کے غلام ہوتے ہیں۔ جیسے لوہا لوہار کا غلام ہوتا ہے، اس کے ہاتھوں میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ جیسے بڑھئی لکڑی میں سے اور مصور رنگوں میں سے شاہکار نکال لاتا ہے۔ لیکن میرے جیسے لفظوں کے لکھاری نہیں لفظوں کے بھکاری ہوا کرتے ہیں۔ کہ جب دل کرے لفظ مہربان ہو جاتے ہیں اور جب دل کرے رُوٹھ جاتے ہیں۔ لفظوں کی یہ لُکن میٹی تاعمر چلتی ہے، دھوپ چھاؤں کا کھیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اسی لیے کبھی کبھی تو پوبارہ ہو جاتے ہیں لیکن اکثر تین کانے ہی نکلتے ہیں۔

سنا ہے اقبال پر اشعار اُترا کرتے تھے۔ جب میرے جیسے بھکاری یہ سنتے ہیں تو خود کو اقبال نہیں تو اس کے آس پڑوس کی کوئی چیز سمجھ کر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن لفظ رُوٹھے ہوں تو خالی کاغذ منہ چِڑاتا رہتا ہے۔ چار حرف جُڑ بھی جائیں تو معنی سے خالی، بے روح ڈھانچے وجود میں آتے ہیں۔ ذہن و دل میں جو کچھ کہنے کی تمنا ہوتی ہے اس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ جب لکھنا بھی ہو اور لفظ نہ ملیں تو اندر مانو آرے چلتے ہیں، بن پانی کے مچھلی کے کلیجے پر بھی شاید ایسے ہی آرے چلتے ہوں گے۔ جہاں کچھ بھی نہ ہو، کوئی ہریاول نہ ہو، بنجر بیابان ویرانہ ہو، وہاں سے بھلا چشمہ کیسے پھُوٹے؟ جب زبردستی چشمہ نکالنے کی کوشش کرو تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ خلا میں سانس لینے سے بھلا آکسیجن تو نہیں مل جائے گی نا۔

بے بسی، بے کسی، کم مائیگی، کونسا احساس ہے جو اس تڑپن میں شامل نہیں ہوتا۔ اور جب لکھنا کسی ایسی ہستی کے بارے میں ہو، کہ جس کے بارے میں لکھنے میں لوگ فخر محسوس کریں، اور شاکر جیسے کمی کمین بھی ان ﷺکے مدح خوانوں میں نام لکھوانا چاہیں، لیکن لفظ نہ ملیں۔ دل کا مُدعا زبان پر آنے سے پہلے ہی آنسوؤں کے راستے بہ نکلے۔ تو ایسی بے بسی اور بے کسی کو کیا نام دیا جائے۔ حسان بن ثابتؓ سے لے کر آج تک ان کے جتنے مدح خواں ہوئے، کتنے خوش نصیب لگتے ہیں۔ اور پھر اپنے جلے نصیبوں پر نگاہ جاتی ہے تو اور رونا آتا ہے۔ آنسو اور اُبل پڑتے ہیں۔ محمد الرسول اللہ ﷺ کی شان میں لکھنے والے کتنے خوش نصیب ہیں۔ شاعر ان کی شان میں شعر کہتے ہیں، کتنے خوبصورت شعر کہتے ہیں۔ شاکر جیسے کمی کمین شعر نہیں کہہ سکتے تو نثر کے چار لفظ بھی نہیں لکھ پاتے کہ ان کی اتنی اوقات نہیں ہے۔ رحمتِ ایزدی کی آس میں نظریں ہر بار خالی لوٹ آتی ہیں، کاسہ لفظوں سے خالی ہی رہتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ صرف سسکیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ اور حسن نثار پر رشک آتا ہے۔

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
سانس تُو لیتا اور میں جی اُٹھتا
کاش مکہ کی میں فضا ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پاؤں چومتا ہوتا

اتوار، 3 جنوری، 2016

دو مناظر

میرے سامنے دو مناظر ہیں، دو تصاویر، ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ موجود لیکن متضاد تصاویر اور میں ان دونوں تصاویر میں ایک مِس فٹ عنصر:

میری کھڑی کے پار پہلا منظر جیسے صدیوں سے یونہی ساکن ہے۔۔کسی مصور کی پینٹنگ کی طرح۔۔۔تاحدِ نگاہ برستی بارش ۔۔ایک کے بعد ایک قطرہ ایسے قطار اندر قطار اترتا چلا آتا ہے جیسے آسمان سے زمین تک پانی کی چادر ٹنگی ہوئی ہو۔ ایک مخصوص ردھم میں ہلتے درخت اور اکثر کانوں تک پہنچ جانے والی ٹِپ ٹِپ کی  آواز۔ لیکن اس منظر کے سکون میں کبھی کبھی ہلچل پیدا ہو جاتی ہے اور جیسے زندگی انگڑائی لے کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔۔۔کسی کار کے گزرنے سے، کسی چمنی سے دھواں برآمد ہونے سے، کسی پرندے کے منظر میں در آنے سے۔ اب پھر اس ابدی پینٹنگ میں زندگی نظر آ رہی ہے کہ ایک پرندہ بارش کے خلاف بغاوت کر کے گھر سے نکل آیا ہے۔۔۔۔

یہ میری نسل کے لوگوں کا ا لمیہ ہے یا خوش قسمتی کہ میرے سامنے ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ میرے لیپ ٹاپ کی برقی اسکرین پر چلتا ہوا ڈیجیٹل منظر۔۔جس پر کھڑکی کے باہر ہونے والے عوامل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ منظر برقی اشاروں سے تخلیق کردہ ایک فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں، کہ ماؤس سے کلک کرنے اور لیپ ٹاپ اسکرین پر ہاتھ لگانے سے ردعمل کا احساس سب مصنوعی ہیں۔ لیکن حقیقت سے مجاز اور قدرتی سے مصنوعی کا فرق آج مجھے اچھا لگتا ہے۔ یہی وہ منظر ہے جس پر میرے اپنے، ہزاروں میل دور میرے دیس میں موجود میرے اپنے نمودار ہوتے ہیں تو میں چند لمحوں کے لیے کھڑکی کے باہر منجمد اس ازلی تصویر سے جدا ہو کر وہاں جا موجود ہوتا ہوں، ان گلی کُوچوں میں جن کا طواف میری روح اب بھی کرتی ہے۔ اور اسی مصنوعی منظر پر بار بار کچھ نئے چہرے بھی اُبھر آتے ہیں۔ زندہ، جوان، شوخ، چنچل، اور شرارت بھری آنکھوں والے کھلکھلاتے چہرے جنہیں ایک ماہ پہلے تک میں جانتا بھی نہ تھا۔ لیکن اب وہ ایک اجنبی دیس میں جیسے میرا خاندان ہیں۔ میرے دیس کی جانب کھُلنے والی کھڑکی، مجھے میرے اپنوں کی یاد دلاتے، حوصلہ دلاتے میرے اپنے، میرے مُلک کا سرمایہ، میرے مُلک کے ذہین ترین دماغ۔۔۔جن کا ساتھ میرے لیے باعثِ حوصلہ اور باعثِ فخر ہے۔

اور پھر میں ہوں، ان دونوں مناظر میں ایک مِس فٹ عنصر۔۔۔۔۔