پیر، 2 فروری، 2015

مالک اور بندہ

بندے اور مالک کا تعلق بڑا عجیب سا ہے۔۔ ۔مالک بے غرض ہے۔ بندہ خود غرض ہے ۔بندہ مانگتا بھی ہے تو اپنی غرض سے مانگتا ہے۔ مالک دیتا ہے تو بے غرض دیتا ہے، بے حساب دیتا ہے ، خوشی دیتا ہے، رزق دیتا ہے، نعمتیں دیتا ہے۔ بندہ حساب رکھتا ہے، ابھی اتنا غم ملا تھا، ابھی اتنا رزق ملا تھا ، ابھی اتنا دے دیا تھا ۔ مالک شہنشاہ ہے، بندہ گدا ہے۔ مالک سخی ہے ، بندہ منگتا ہے۔ مالک کہتا ہے مانگ، کیا مانگتا ہے۔ میں دیتا ہوں۔ بندہ جب جان پر پڑے تبھی مانگنے کی جانب آتا ہے ۔ مالک تو اتنا سخی ہے کہ آدابِ بندگی بھی سکھاتا ہے۔ بندہ خود غرض ہے، اپنی غرض کے لیے بھی آدابِ بندگی نہیں سیکھتا۔ اس لیے جب دربار ِ خداوندی میں جاتا ہے تو اسے ٹھیک طرح سے مانگنا بھی نہیں آتا۔ غرض پڑے، سر پر مصیبت آن پڑے تو رب کے حضور حاضری ہوتی ہے۔ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھتے ہیں اور اگر اُس کی توفیق ہو جائے تو دو آنسو بھی نکل پڑتے ہیں۔ بندہ رب کو بھی ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تُو سخی مولا۔
تیرا نبی ﷺ سخی مولا 
تیرے نبی ﷺ کا گھرانہ سخی مولا
سخیوں کا واسطہ سخیا، میری جھولی بھر دے
تُو تو مالک ہے مولا
تو شہنشاہ
میں تیرے در کا گدا
تُو اپنے نبی ﷺ پیروں کی خاک کا صدقہ ۔میری جھولی بھر دے
تُو تو بادشاہ ہے مولا
تیرے خزانوں میں بھلا کیا کمی آ جائے گی
تو یہ مُجھے دے دے۔ باقیوں کو اس سے بہتر دے دیجیو
تُو تو آل اِن آل ہے مالک۔ تُجھے کسی نے بھلا کیا پُوچھنا۔ 
یہ فیور کر دے نا مالک۔ تُو تو۔۔۔۔۔۔
بندہ گناہگار ہے۔ سیاہ کار ہے۔ جب ہاتھ اُٹھا کر مانگتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اُس کے پلے تو کچھ نہیں ہے۔ ایک ایک گناہ یاد آتا ہے ۔ ہر گناہ جو چھڈ یار خیر اے کہہ کر کیا ہوتا ہے، تو سر ندامت سے جھکتا چلا جاتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور اس میں سما جائے۔ دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھ نیچے زمین پر ٹک جاتے ہیں۔ سرِ ندامت جھُکتے جھُکتے وہاں جا لگتا ہے جہاں اس کا اصل مقام ہے۔ بندہ سجدے میں روتا ہے۔ زار زار روتا ہے۔ اپنے گناہوں پر روتا ہے۔ اور پھر اپنی خواہشات پر اور زیادہ روتا ہے ۔رب کو اس کی ستاری کا واسطہ دیتا ہے۔ غفاری کا واسطہ دیتا ہے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ اور ساتھ مان بھرے انداز میں مانگتا بھی ہے۔ پتہ ہے کہ دینا تو اُس نے ہی ہے۔ رب تو مالک ہے۔ بندہ اس کے در کاسگ۔ سگ بھی ایک وفادار جانور ہے اپنے مالک کا بُوہا نہیں چھوڑتا۔ بندہ تو بندہ ہو کر بھی سگ سے نہیں سیکھتا۔ سارا پِنڈ پھرتا ہے۔ لُور لُور پھرتا ہے۔ پھر جب بھوک لگتی ہے تو مالک کے در پر آ بیٹھتا ہے کہ اب روٹی ملے گی۔ یہیں سے ملے گی۔ بندہ ایسا سگ ہے جو خواہش پوری کروانی ہو تو مالک کے در پر آ بیٹھتا ہے۔ پتہ ہے کہ عطاء تو یہیں سے ہونی ہے۔ اگر یہاں سے فائل پر سائن ہو گئے تو پھر ڈر کاہے کا۔ یہی تو بڑا دفتر ہے۔ یہیں کیس داخل ہے۔ یہیں سے منظوری ہو گی۔ بندہ  مانگتا ہے، بے قرار ہو کر مانگتا ہے، تڑپتا ہے اور پھر شرمندہ بھی ہوتا ہے کہ کیا مانگ رہا ہے۔ بجائے کہ رب سے رب کو ہی مانگ لے۔ بندہ ایسا سگِ دنیا ہے کہ دنیا کو مانگتا ہے، دنیا والے مانگتا ہے، دنیاوی فائدے مانگتا ہے۔ بندہ رذیل ہے، کمینہ ہے۔ کمینے کو جس دن دیہاڑی مل جائے اُس دن وہ خود کوچوہدری سمجھتا ہے۔ جب تک جیب گرم رہے وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتا۔ جب جیب خالی ہو جائے تو اپنی اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ بندہ بھی جب تک رب سے کوئی غرض نہ  ہو خود کو چوہدری سمجھتا ہے۔ جب رب سے غرض آ پڑتی ہے تو اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ بندے کی بِلٹ ان رذالت اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ پر بندہ  تو بندہ ہے جی۔ وہ رب کے پاس نہیں جائے گا تو کہاں جائے گا؟ رب ہی تو ہے سب کچھ۔ اُسی کے در سے سب مِلا ہے اور سب ملے گا۔ اُسی سے تو سب کو ملتا ہے۔ تو بندہ بھی اُسی سے مانگتا ہے۔ اپنی سیہ کاریوں، رذالتوں اور گناہوں کے باوجود بندہ اُسی سے مانگتا ہے۔ بندہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ مانگ تو سکتا ہے نا۔ اور مالک سے مانگتا ہے۔ مانگتا چلا جاتا ہے۔ اب مالک کی مرضی ہے۔ دے یا نہ دے۔ دھُتکار دے، یا روٹی ڈال دے۔ یہ تو مالک کی مرضی ہے نا۔ بندہ چاہے جتنا بھی ذلیل اور کمینہ ہو، بڑی اچھی طرح جانتا ہے کہ مالک سے ہی سب کچھ ملے گا۔ اس لیے بندہ اس کے در پر بیٹھا رہتا ہے، جھڑکی بھی ملے تو ذرا پرے ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ نگاہیں بُوہے سے ہی چپکی رہتی ہیں۔ ندامت بھری نگاہیں، جھُکی جھُکی نگاہیں، شرمندہ اور پُر ندامت نگاہیں۔ ساتھ اگر آنسوؤں کا نذرانہ بھی ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ امید بھری نگاہیں رب کے در پر لگائے رکھتا ہے۔ کرم کا منتظر رہتا ہے، رحمت کا منتظر رہتا ہے، عطاء کا متلاشی رہتا ہے۔ بھلا یہ کم رحمت ہے کہ رب مانگنے کی توفیق  ہی دے دے۔ ورنہ بندے کی کیا اوقات اگر اسے توفیق ہی نہ ملی تو؟