ہفتہ، 26 دسمبر، 2009

متعہ؟

آج کل اردو محفل پر وڈے وڈے چوہدری متعہ کی حرمت و حلت پر بڑی گرما گرم بحث کررہے ہیں۔ حدیثیں لائی جارہی ہیں، روایات پیش کی جارہی ہیں، ایک دوسرے کی کتب سے حوالے پیش کیے جارہے ہیں اور ذاتی و غیر ذاتی قسم کے حملے کیے جارہے ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ جذبات کے فوارے پھوٹ رہے ہیں اور متعہ کو عین اسلام اور عین غیر اسلام ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔
یہ پوسٹ لکھنے کا مقصد اصل میں کچھ اپنا نکتہ نظر بیان کرنا تھا۔ میں کوئی عالم حدیث نہیں اور نہ ہی قرآن فہم ہوں۔ آج یونہی لائبریری سے یوسف عباس کی ایک کتاب مل گئی۔ اسے پڑھا، موصوف اپنے عقائد سے قرآنسٹ اور فقہ کے اچھے خاصے ناقد ہیں۔ انھوں نے متع کے سلسلے میں اچھی تحقیق  کی ہے ۔ جس میں قرآنی آیات سے لے کر ہر دو فقہ، اہلسنت و اہل تشیع، کی روایات کا خاصے ناقدانہ انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ آج میں نے یہ کتاب سکین کرکے، پی ڈی ایف بنا کر یہاں اپلوڈ کردیا۔ یہ پانچ میگا بائٹ کے دس کے قریب حصے ہیں۔ سب اتار کر انھیں ان زپ کرلیں۔ امید ہے آپ کے علم میں اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔
متعہ اسلام کے متنازع ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ حلال تھا یا نہیں لیکن آج کے سیاق و سباق میں متعہ کو مذہب کی آڑ مہیا کرنے کا مطلب ہے آپ رنڈی بازی کو اسلامی قرار دے رہے ہیں۔ ویسے اگر ایسے ہوجائے تو حکومت کو خاصے ٹیکس مل سکتے ہیں، طوائف اور کال گرلز کو چوری چھپے کی بجائے کھلے عام کاروبار کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں اور مولویوں کی بھی چاندی ہوسکتی ہے، روز کئی کئی نکاح جو پڑھانے ہونگے۔ ہاں اس دوران پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کو پالنے کے لیے حکومت کو کچھ نرسری ہومز وغیرہ بنانے پڑیں گے۔ آج کے معاشرے میں متع کیا گُل کھلا سکتا ہے ایرانی معاشرہ اس کی ایک مثال ہے۔ بی بی سی کی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ 
اللہ کا شُکر ہے کہ متعہ کو کبھی بھی اہل اسلام نے پذیرائی نہیں بخشی۔ حتی کہ اہل تشیع نے بھی عملی سطح پر اس کی کبھی بھی اس طرح پذیرائی نہیں کی جیسے ان کی کتب احادیث کافی اور فروع کافی وغیرہ میں اسے بعض جگہ فرائض تک میں شامل کردیا گیا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے اوپر دی گئی کتاب کا مطالعہ کرلیں۔ یہاں ہر دو مذاہب کی کتب حدیث میں سے ان روایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔) اس سلسلے میں ایک ایرانی خاتون ڈاکٹر شمائلہ حائری کا مقالہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ جس میں انھوں نے متعہ کے نام پر عورتوں کے بے حرمتی اور اس کے ایرانی معاشرے پر اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
اللہ کریم ہمیں حق کو پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے۔   

جمعرات، 24 دسمبر، 2009

سوڈان تقسیم کی طرف

انڈونیشیا کے ایک صوبے مشرقی تیمور کی علیحدگی والی ساری کہانی آج جنوبی سوڈان میں دوہرائی جارہی ہے۔ کافی عرصے سے تشدد کی خبریں میڈیا میں آرہی تھیں اور آج یہ خبر پڑھی ہے۔
خرطوم ۔ سوڈان کی پارلیمنٹ نے ایک بل کی منظوری دی ہے جس سے جنوری میں جنوبی سوڈان کی آزادی سے متعلق ریفرنڈم کی راہ ہموار ہو گئی ہے بل کے مطابق ریفرنڈم میں جنوبی سوڈان کے 60 فیصد قحط افراد کا حق رائے دہی میںحصہ لینا ضروری ہے ۔ اگر 30 فیصد سے زیادہ افراد نے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالے تو جنوبی سوڈان شمالی سوڈان سے علیحدہ ہو جائے گا ۔ شمالی سوڈان زیادہ تر مسلم آبادی پر مشتمل ہے جب کہ جنوبی سوڈان میں مسیحی اور دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں ۔ سوڈان کے تیل کے زیادہ تر ذخائر اس کے جنوبی علاقے میں ہیں
اس ریفرنڈم کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ جنوبی سوڈان الگ ہوجائے گا۔ سوڈان پہلے ہی غریب مسلم ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، تیل کے ذخائر جانے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا۔ اس سے ہمیں عبرت حاصل ہونی چاہیے جو بلوچستان کے معاملے پر آئیں بائیں شائیں کررہے ہیں۔ ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ عالمی طاقتیں مسلم ممالک میں علیحدگی پسند عناصر کو کتنا سپورٹ کرتی ہیں۔ جبکہ کشمیر کے معاملے میں اس کے بالکل اُلٹ ہوتا ہے۔

ہفتہ، 12 دسمبر، 2009

سندھ اور پانی

آج آؤ سنواریں پاکستان پر خاصی جذباتی سی پوسٹ پڑھی۔ اس میں بیان کیے گئے حقائق سے انحراف واقعی ممکن نہیں۔ سندھ کے ڈیلٹے کو واقعی خطرہ ہے اور سمندر تیزی سے آباد زمینیں نگل رہا ہے۔ پانی کی کمی نے واقعی تباہی مچائی ہے اور کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زیریں علاقے والوں کا مطالبہ ہے کہ روزانہ دس ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جائے جو کہ سمندر میں جاگرے تاکہ ڈیلٹا کا تحفظ ہوسکے۔ جبکہ اوپر والوں کا مطالبہ ہے کہ مزید ڈیم بنائے جائیں۔
مجھے بہت ساری تکنیکی تفاصیل کا نہیں پتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ برسات کے موسم میں سیلاب آجاتا ہے۔ اور وہ سارا پانی سمندر میں ہی جاتا ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ اگر اس پانی کو ڈیم بنا کر سٹور کرلیا جائے اور پھر دریا میں ہی سارا سال چھوڑا جاتا رہے تو اس سے شاید ڈیلٹا کا کچھ تحفظ ہوسکے۔ یاد رہے میں نہریں نکالنے کی بات نہیں کررہا بلکہ صرف ڈیم بنا کر اسے سٹور کیا جائے اور بجلی پیدا کی جائے اور پھر پانی واپس دریا میں ہی ڈال دیا جائے۔ اس کی مثال پنجاب میں غازی بروتھا پاور پروجیکٹ ہے۔ مزید یہ اقدامات کیے جاسکتے ہیں کہ سمندر کے راستے میں بند بنائے جائیں۔ اس کے لیے ہالینڈ کی مثال کو ذہن میں رکھیں جنھوں نے آدھا ملک سمندر خشک کرکے بنایا ہے۔ تجاویز اور منصوبے ڈھیر۔۔لیکن عمل کوئی نا۔

جمعرات، 3 دسمبر، 2009

کچھ غلط فہمیاں

میری پچھلی دو تحاریر سے اٹھنے والی کچھ غلط فہمیاں اس بات کی متقاضی تھیں کہ ایک اور تحریر لکھی جائے۔
پہلی تحریر میں مَیں نے دو مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ایک پنجابی اور دوسری علاقائی زبانوں کا انحطاط اور دوسرے اردو وکی پیڈیا پر زبان کی حالت زار۔ یہاں ایک تکنیکی وضاحت کرتا چلوں کہ زبان کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا ،جیسا کہ پنجابی کے بارے میں خاکم بدہن میں خدشے کا اظہار کرچکا ہوں ،سماجی لسانیات میں زبان کی موت کہلاتا ہے۔ جب کسی زبان کا کوئی بھی اہل زبان نہ رہے، یاد رہے وہ اہل زبان جو اسے بطور مادری زبان بولتا ہے، تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ زبان مرگئی۔ جہاں تک اردو کے ساتھ معاملہ ہے ، تو اردو بدل رہی ہے لیکن اسے ایسے کسی خطرے کا سامنا نہیں۔ اردو کو پاکستان میں بچوں کو بطور مادری زبان سکھایا جارہا ہے۔ اردو یورپ اور ہند میں بھی پھل پھول رہی ہے۔ اگرچہ اس کا رسم الخط دیوناگری اور اب رومن ہوچلا ہے لیکن اردو ہے۔ جبکہ علاقائی زبانیں جو پہلے ہی بولی کے طور پر موجود ہیں خسارے میں جارہی ہیں۔
اب ابوشامل کی تحریر جس میں انھوں نے بڑے دردمندانہ انداز میں عشاقان اردو یعنی میرے جیسے کم نصیبوں کی بلائیں لیں ہیں۔ پہلے تو ان کو آداب عرض ہے۔ مزے دار باتیں تھیں۔ اس کے بعد چند نکات جو مجھے اس میں نظر آئے ان کا جواب دیتا چلوں۔
مجھے دوسروں کا نہیں پتا لیکن اپنی بات بتا سکتا ہوں، میرے پاس بعض اوقات اپنا بلاگ لکھنے کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا اس لیے اردو وکی پیڈیا کو وقت نہیں دے سکتا۔ ہاں جب کوئی موضوع اگر دل میں مچل رہا ہوں تو میں لکھتا ہوں۔ اب یہ نہیں بتاؤں گا کہ کتنا لکھ چکا ہوں وکی پیڈیا پر شاید دو چار ہونگے ہی۔ مجھے پتا ہے یہ بہت ہی کم مقدار ہے جسے امید ہے مستقبل میں بڑھایا جائے گا، لیکن نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ دوسری وجہ نہ لکھنے کی یہ ہے کہ میں اپنی فیلڈ سے متعلقہ لکھنا ہی پسند کرتا ہوں لیکن فیلڈ مجھے کچھ لکھنے تو دے، چونکہ میں خود ابھی ابتدائی مراحل میں ہوں  اس لیے میرا علم ناقص ہے سو سوچ سوچ کر رہ جاتا ہوں۔ بڑے لنگڑے لولے سے اعتراضات ہیں لیکن ۔۔ چلو جان دیو۔
دوسرا نکتہ یہ تھا کہ ہم اردو وکی پیڈیا پر ہونے والی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ یہاں ابوشامل کی مراد تواریخ، مذاہب وغیرہم جیسے موضوعات تھے۔ تو عرض ہے کہ میں سائنس کا طالب علم ہوں اور میری نظر سائنس پر ہی رہتی ہے۔ میں اردو کو سائنسی کی ابلاغی زبان دیکھنا چاہتا ہوں اور اس شعبے میں جب اردو کے پرخچے اڑتے دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے۔ اردو میں الحمداللہ ان موضوعات  میں سے ہر موضوع پر کئی کئی کتب موجود ہیں اور مجھے اعتراف ہے کہ انھیں برقیا کرکے بہت بڑی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن میں پھر عرض کروں گا کہ میری مراد ویسے مضامین سے نہیں، وہ اپنی جگہ ہیں اور بہت اچھی کاوش ہیں، میری مراد اصل میں ایسے مضامین سے ہے۔ اسی موضوع کو خاکسار نے ایک صارف کے سوال کے جواب میں کچھ ایسے پیش کیا تھا۔ اب آپ زبان و بیان سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسے سمجھنا آسان ہے۔ بات صرف ذخیرہ الفاظ تک محدود نہیں بلکہ زبان و بیان اور انداز تحریر بھی بہت سی اصلاحات کا متقاضی ہے۔

منگل، 1 دسمبر، 2009

زبان کا تغیر اور اردو وکی پیڈیا

میری پچھلی تحریر زبان کے تغیر سے متعلق تھی۔ اس میں مَیں نے اردو وکی پیڈیا کے طرز عمل کا جائزہ لینے کی کوشش کی، لیکن یہ پوسٹ اسی کام کے لیے وقف نہیں تھی۔ چناچہ موجودہ پوسٹ میں مَیں کچھ مزید عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا جو میری نظر میں اردو وکی پیڈیا کے طرز عمل کو انتہاپسندانہ بنادیتے ہیں۔
زبان بدلتی ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں اب یہ بدلاؤ کہاں کہاں آسکتا ہے؟
یہ بدلاؤ زبان کے ہر لیول پر آسکتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اور جلدی تغیر ذخیرہ الفاظ میں آتا ہے۔ ہر چند سال کے بعد، ہر چند کلومیٹر کے بعد زبان کا ذخیرہ الفاظ بدل جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلی کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، لیکن ایک مناسب فاصلے کے بعد خواہ وہ زمانی ہو یا مکانی، زبان میں ذخیرہ الفاظ کا ایک سیٹ دوسرے سیٹ سے بدل جاتا ہے۔ اس کی  وجہ سیاسی، سماجی یا لسانی کوئی بھی ہو، لیکن ایسا ہوتا ہے۔ اردو میں فارسی اور عربی نژاد الفاظ کی جگہ اگر انگریزی اور مقامی زبانوں کے الفاظ زور پکڑ رہے ہیں تو یہ اسی تغیر کی نشانی ہے۔ انگریزی تو خیر اب سیاسی برتری کی بھی حامل ہے چناچہ اس کے الفاظ اردو میں زیادہ استعمال ہورہے ہیں۔ دوسرے انگریزی تعلیم و ترقی کی بھی زبان ہے یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
اس کے علاوہ صوتیات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اردو کے حوالے سے اتنی مثال دینا چاہوں گا کہ اگر آپ انگریزی الفاظ کو اردو میں انگریزی لہجے کے ساتھ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ایسے کسی ممکنہ تغیر کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے جس کے ذریعے اردو میں انگریزی کے مصوتے یعنی واؤلز داخل ہوجائیں گے۔ شاید آئندہ دس سالوں میں یا پچاس سالوں میں۔
تغیر کا عمل یہیں پر نہیں رک جاتا۔ زبان کی گرامر بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ میں آپ کو تاریخ کی بات نہیں بتاؤں گا کہ اردو نے کیسے عربی اور فارسی سے گرامر مستعارلی، اسم، فعل، صفت وغیرہ کی حالتیں وہاں سے حاصل کیں۔ میں آج کی بات بتاؤں گا جس کا میں مشاہدہ کرچکا ہوں۔ انگریزی کے پاسٹ رافی ایس سے تو سب واقف ہونگے۔ اسلم کی کار کو انگریزی میں اسلمز کار لکھا جائے گا نا۔ ایک کوما ڈال کر ساتھ ایس لکھ کر۔ تو میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ اسلم کی کار کو اردو میں بھی "اسلم'ز کار" لکھا  جارہا ہے۔ اگرچہ یہ ابھی صرف  اشتہاراتی زبان میں ہے، اور سائن بورڈز پر نظر آتا ہے لیکن یہ کسی ممکنہ تغیر کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے جب اردو میں بھی "پاسٹ رافی ز" استعمال ہونے لگے۔
آپ کو شاید ان مثالوں پر ہنسی آئے یا آپ اسے دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیں۔ لیکن صاحب تغیر ایسے ہی آتا ہے۔ زبان ہر لیول پر اس سے متاثر ہوتی ہے۔ لفظ سے لے کر صوتیات اور گرامر تک۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ احساس ذخیرہ الفاظ کی تبدیلی سے زبان میں تغیر کا احساس ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان بدلنا اگر اتنا لمبا چوڑا کام ہے، یعنی ہر لیول متاثر ہوتا ہے، تو اگر ایک لیول یعنی ذخیرہ الفاظ بدل رہا ہے تواس میں ایسی کیا بات ہے؟ اردو کی گرامر تو نہیں بدل رہی؟ ہم انسٹال کو انسٹالڈ تو نہیں لکھ دیتے؟ انسٹال کرنا، انسٹال کیا، انسٹال کریں گے ہی لکھتے ہیں نا۔ صرف بنیادی لفظ یا سٹیم انگریزی سے حاصل کرتے ہیں وہ بھی اس وجہ سے کہ تکنیکی اصطلاحات ہیں جو اردو میں پہلے سے موجود نہیں۔ چلیں فعل کو چھوڑیں ہم اسم کی بات کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، ویب، کی بورڈ، ماؤس۔۔۔ ان سب کو اردو میں لکھ دینے سے کیا ہوتا ہے؟ کیا اس سے اردو میں وسعت نہیں آرہی؟ کیا اردو میں پہلے سے ان تصورات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تھے؟ نہیں تھے۔ اب اگر یہ مستعار لیے جارہے ہیں تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ اردو وکی پیڈیا پر بھی تو عربی فارسی سے الفاظ مستعار ہی لیے جارہے ہیں۔ یا نہیں؟ یہ جو فارسی نژاد اصطلاحیں بنائی جارہی ہیں، اور جن موجودہ یتیم و یسیر اصطلاحات کا حلیہ بگاڑا جارہا ہے )جیسے احصاء جسے کیلکولس کی اردو کہتے ہیں، ہمارے ماہرین اس کی اردو کچھ اور ہی کررہے ہیں اس وقت یاد نہیں آرہی۔ ایسے ہی پرائم نمبر کو اردو میں مفرد عدد کہتے ہیں اس پر بھی اعتراض ہے( یہ سب اردو کے ذرائع استعمال کرکے بنائی جارہی ہیں؟  یہاں میری اردو سے مراد وہ اردو ہے جسے اردو کے اہل زبان سمجھتے ہیں۔ جو اصطلاحات بنائی جارہی ہیں اسے اردو کے اہل زبان نہیں سمجھتے۔ اگر کوئی لنک کی بجائے ربط سمجھ جاتا ہے تو میں استعمال کرتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی ویب کی بجائے "بین جال" یا ایسی ہی کوئی جناتی اصطلاح نہ سمجھ سکے تو اس میں اُس بے چارے کا کیا قصور ہے۔ کہ وہ اردو جانتا ہے؟  ٹائی کی ہندی کسی نے کی "کنٹھ لنگوٹی"۔ موج ہے نا لیکن سارے ہندی بولنے والے اسے ٹائی ہی کہتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ صارف آسانی چاہتا ہے۔ ایک یک لفظی اسم کی بجائے آپ دو یا تین الفاظ کا ایک مرکب ہاتھ میں پکڑا دیں اور پھر وہ سمجھ بھی نہ آتا ہو تو صارف کو ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ اپنی زبان ٹیڑھی کرکے اسے پڑھے اور لکھے۔
تو میری مودبانہ گزارش ہے کہ جناب من، میرے ماہرین، میرے اساتذہ: آپ بہت اچھے لوگ ہیں۔ مجھ سے بھی زیادہ قابل اور صاحب علم۔ لیکن آپ کا طرز عمل طوفان کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے والا ہے۔ آپ یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ زبان بدل رہی ہے۔ اور زبان اہل زبان سے ہوتی ہے۔ زبان ٹھونسی نہیں جاتی۔ زبان وہی زندہ رہتی ہے جو گلی محلوں میں اور لوگوں کی زبانوں پر ہوتی ہے۔ لغات اور اصطلاحاتی کتابیں زبان کا قبرستان بن جاتے ہیں۔ جن میں مردہ الفاظ کے کتبے بھی دیکھنا کوئی
پسند نہیں کرتا۔ میری دعا ہے کہ اردو وکی پیڈیا اردو کا ایسا ہی کوئی قبرستان نہ بن جائے۔
اور آخری بات یہ کہ ہمیں توجہ اس بات پر رکھنی چاہیے کہ صارف یہ سب سمجھ سکے اور آسان اردو میں سمجھ سکے۔ ہمیں اردو کو بطور تعلیم کی زبان ترویج دینا ہے ورنہ انگریزی تو پہلے ہی یہ مقام حاصل کرچکی ہے۔ ہم غیرشعوری طور پر یہ مان چکے ہیں کہ ہمیں پڑھنا انگریزی میں ہے، لکھنا اردو میں ہے اور بات کسی علاقائی زبان میں کرنی ہے، بولنا پنجابی میں یا سندھی میں یا بلوچی میں یا پشتو میں ہے۔ اسے میں ڈومین سیٹ ہونا کہتے ہیں، یعنی خاص مواقع کے لیے خاص زبان استعمال کرنا۔ اس پر پھر کبھی بحث کریں گے۔
وما علینا الا البلاغ۔

پیر، 30 نومبر، 2009

زبان کا تغیر

تغیر یعنی بدلنا۔ صاحبو بدلنا زبان کا مقدر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج سے صرف دو سو سال پہلے تک بولی جانے والی زبانوں کا آج وجود بھی نہیں۔ اور وہ زبانیں جو تب بھی بولی جاتی تھیں اور آج بھی زندہ ہیں، وہ زبانیں بھی وہی نہیں جو تب تھیں۔ میں آپ کو بائبل کی مثال دیتا ہوں۔ سولہویں صدی میں جب اس کا لاطینی سے انگریزی ترجمہ ہوا تو اسے اس وقت کی روزمرہ کی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ ایسی زبان جو عامیوں کی تھی، میرے آپ جیسوں کی، جو گلی محلوں کی زبان تھی۔ آج چار صدیاں گزر جانے کے بعد زبان کا نام کیا ہے؟ انگریزی۔ لیکن اس کی ہئیت بدل چکی ہے۔ اس وقت کی عامی انگریزی اور آج کی عامی انگریزی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اہل زبان تو دور کی بات ہے آپ میں جو انگریزی کو بطور دوسری زبان یا تیسری زبان یا غیرملکی زبان کے جانتے ہیں، وہ بھی بائبل کی زبان کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ پرانی انگریزی ہے۔ جناب من یہی حال اردو کے ساتھ بھی ہوا۔ غالب کے زمانے کی اردو اور آج کی اردو، صرف ڈھیڑھ سو سال کا فاصلہ ہے لیکن ہر دو میں اچھا خاصا فرق موجود ہے۔ اجی دور کیوں جائیے یہی جسے آپ آج ثقیل اردو کہہ دیتے ہیں اس وقت کی روزمرہ تھی۔ لیکن وہ الفاظ کیا ہوئے؟ یا تو لغات میں حنوط شدہ ہیں یا سرے سے ہی ختم ہوگئے ہیں۔ آج اس اُردو کو بولنے والے گنتی کے چند بھی نہیں ہونگے۔
زبان کیوں بدلتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا شاید خاصا مشکل ہو۔ تاہم کچھ اندازے لگائے جاسکتے ہیں کہ جوں جوں جغرافیائی فاصلہ بڑھتا ہے زبان بدل جاتی ہے۔ یا جوں جوں کلچر اور ثقافت، ماحول بدلتا ہے تو اہل زبان کی ضروریات بھی مختلف ہوتی جاتی ہیں چناچہ زبان بھی ویسے ویسے بدلی جاتی ہے۔ یہی کلیہ وقت کے ساتھ بھی عمل کرتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے زبان میں نئی چیزیں آتی جاتی ہیں اور پرانی قصہ پارنیہ بنتی جاتی ہیں۔ جوں جوں ترقی ہوتی ہے نئے تصورات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے لیے زبان میں نئی اصطلاحات متعارف کرائی جاتی ہیں اور زبان بدلتی جاتی ہے۔ زبان بدلنے کی ایک اور وجہ بیرونی حملہ آوروں کا آنا بھی ہے۔ جیسے عربوں کی زبان یعنی عربی آج سے چند سو سال پہلے عربوں کے زیر قبضہ علاقوں میں گہرا اثر ڈالا اور آج بھی مسلمانوں کی اکثر زبانیں عربی سے مستعار شدہ رسم الخط استعمال کرتی ہیں اور ان کے ذخیرہ الفاظ میں عربی نژاد الفاظ کی ایک مناسب تعداد موجود ہے۔ جیسے دوریاں بڑھنے سے زبان بدلتی ہے ایسے ہی دو یا زیادہ زبانوں کا ملاپ ہو تو بھی زبان بدلتی ہے۔ ملنے والی زبانیں ایک دوسرے پر اثر ڈالتی ہیں، ایک دوسرے سے الفاظ لیتی ہیں اور ایک دوسرے کی گرامر کو حلقہ دام میں لے کر اس میں تبدیلیاں کردیتی ہیں۔ اردو کی تشکیل ایسی ہی ایک تبدیلی کی مثال ہے جب فارسی، عربی، ترکی اس وقت کی ہندی یا ہندوی اور دوسری علاقائی زبانیں آپس میں قریب آئیں۔
زبان کا بدلاؤ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ یہ بڑا تکنیکی سا سوال ہے لیکن جہاں تک میرا علم کہتا ہے زبان کا تغیر سب سے پہلے ذخیرہ الفاظ میں نظر آتا ہے۔ اس کے بعد گرامر، اس کی صوتیات اور دوسرے شعبے تغیر پذیر ہوتے ہیں۔ 
زبان کا تغیر اور آج
اس پوسٹ کو لکھنے کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو میں کچھ مشاہدات آپ سے شئیر کرنا چاہتا تھا جو میں نے ہماری مقامی زبانوں کے سلسلے میں کیے ہیں۔ دوسرے میں اردو وکی پیڈیا پر لکھی جانے والی اردو کے بارے میں اپنے علم کے مطابق کچھ تحفظات کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔
صاحبو تغیر زبان کا مقدر ہے۔ آج ہمارے سامنے جتنی زبانیں موجود ہیں یہ تغیر کے سلسلے میں ہی وجود میں آئی ہیں۔ یورپ کو دیکھیں تو کلاسیکی یونانی اور لاطینی کی جگہ وہاں اب بیسیوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جو کہ کسی نہ کسی طرح ان دو زبانوں سے تعلق تو رکھتی ہیں لیکن ان دادا زبانوں اور موجودہ یورپی زبانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انگریزی بھی کئی ساری زبانوں سے مل کر وجود میں آئی ہے۔ فرانسیسی، یونانی، لاطینی اور انگلستان کی کچھ مقامی زبانیں اس کی امائیں خیال کی جاتی ہیں۔
تغیر ہوتا رہا ہے، ہوتا ہے اور ہوگا بھی۔ لیکن جو تغیر آج ہورہا ہے یہ ماضی کے تغیر سے مختلف ہے۔ ماضی کا تغیر ایسے ہے جیسے بڑے بوڑھوں کی جگہ ان کی اولاد لے لیتی ہے۔ ماضی کے تغیر میں نچلے درجے کی ورائیٹیز اس وقت کی اعلی درجے کی ورائیٹیز کی جگہ لیتی رہی ہیں۔ (یہاں ورائٹی سے مراد ہر وہ زبان کی قسم ہے جو رنگ، نسل، وقت، شعبے کسی بھی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہے۔ پٹواریوں کی زبان ایک ورائٹی ہوگی چونکہ ایک شعبے سے متعلق ہے، سترہویں صدی کی انگریزی ایک ورائٹی ہوگی چونکہ وہ آج کے وقت سے مختلف ہوگی، پاکستانیوں کی انگریزی آسٹریلین کی انگریزی سے مختلف ہوگی چونکہ ان کی نسل اور جغرافیہ مختلف ہے، ۔۔۔ایسے ہی کئی ورائیٹیز بنیں گی)۔ اس کی مثال اطالوی سے دی جاسکتی ہے جس نے اطالیہ میں لاطینی کی جگہ لی۔ اطالوی لاطینی سےہی وجود میں آئی لیکن یہ اس سے بہت مختلف ہے اور یہ اپنے ابتدائی دور میں بہت نچلے درجے کی زبان خیال کی جاتی تھی۔ یعنی اسے بولنا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔
آج کا تغیر مختلف ہے۔ آج کا تغیر سماجی برتری کی بنیاد پر وقوع پذیر ہورہا ہے۔ اس تغیر میں کوئی ورائٹی نیچے سے اوپر کی طرف نہیں آرہی بلکہ لوگ وہ ورائٹی اپنا رہے ہیں جو طاقتور طبقے کی زبان ہے یعنی انگریزی۔دنیا کی کسی بھی زبان کو تاریخ میں ایسے پروموٹ نہیں کیا گیا جیسے آج انگریزی کو کیا جاتا ہے۔ میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جس نے آج زبانوں کے تغیر کی آگ اتنی تیزی سے بھڑکا دی ہے کہ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہ ہوا تھا۔ گلوبلائزیشن کا تصور اور دنیا کو ایک دیہہ سمجھنے کے آئیڈیے نے انگریزی سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت اور بڑھائی ہے۔ بزنس، تعلیم اور آپسی رابطوں کے لیے ایک زبان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے اور انگریزی اس کام کے لیے بہترین ہے۔ یہ طاقتور کی زبان بھی ہے اور اسے پروموٹ بھی کیا جاتا ہے، اسے سیکھا سکھایا بھی جاتا ہے چناچہ اسے تیزی سےاپنایا جارہا ہے۔
اس سب کا اثر کیا ہورہا ہے۔
اس سب کا پہلا اثر تو یہ ہورہا ہے کہ تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔ ایجادات انگریزی میں ہوتی ہیں۔ چناچہ دوسری زبانوں کو انگریزی سے الفاظ اور اصطلاحات مستعار لینی پڑتی ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو اردو وکی پیڈیا کی انتظامیہ ماننے کو تیار نہیں۔ لفظ صرف ایک لفظ نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ معانی کا پورا جہان ہوتا ہے۔ وہ لفظ کس موقع پر اور کیسے استعمال کرنا ہے، بطور اہل زبان، یہ ہمارے علم میں ہوتا ہے۔ صارف جب کی بورڈ پڑھتا ہے تو اس کے ذہن میں فورًا کمپیوٹر کے کی بورڈ کا تصور آتا ہے۔ لیکن کلیدی تختہ؟ کلید یعنی چابی اور تختہ (تخت یا تختہ والا تختہ؟) اس اصطلاح میں ایک نئے تصور کو جو نام دیا گیا ہے ، اور جو ایک مرکب نام ہے، صارف کے لیے پہلی باری میں بلکہ کئی باری میں اس کو یہ معانی دینا بہت مشکل کام ہے۔ ہم تختے کو کمپیوٹر سے جوڑتے ہی نہیں، تختہ ہمارے لیے یا تو تخت یا تختہ والا تختہ ہے یا پھر مردے کو غسل دینے والا تختہ یا ایسی ہی کوئی چیز جو نفیس نہیں ہے، اور ٹیکنالوجی کے طو رپر ایڈوانس بھی نہیں ہے۔ اور کلید؟ یعنی چابی کسی دقیانوسی تالے کی چابی لگتی ہے، ماڈرن تالا تو کِی سے کھلتا ہے نا۔ آپ کو شاید ہنسی آجائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر ہر لفظ کے ساتھ اس کے لغاتی معنی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے تصورات وابستہ ہوتے ہیں، ان صورتوں کے حوالے جڑے ہوتے ہیں اور ان مقامات کے حوالے جڑے ہوتے ہیں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوسکتا ہے، آسان الفاظ میں وہ سیاق و سباق کہ کہاں کہاں اور کیسے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں عادت نہیں ہوتی کہ ہم ایسے الفاظ کو ایک جگہ سے اُٹھا کر کسی دوسری جگہ فٹ کریں اور استعمال کریں۔ چناچہ کیا ہوتا ہے؟ صارف ایسی کسی بھی تبدیلی کو مسترد کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو وکی پیڈیا پر موجود مضامین ہمیں اتنے مشکل، ثقیل اور ناقابل فہم لگتے ہیں کہ ہم انگریزی وکی پیڈیا سے معلومات کو اس سے زیادہ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔  اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم پھر اپنی زبان میں علم کی ترویج ہی چھوڑ دیں؟ ہمارے خیال سے ہمیں زبان کے بارے میں پالیسی بنانی ہوگی اور اس کے لیے ہمارے پاس ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جس کا کام وہ ہو جو مقتدرہ قومی زبان کا ہے اور جو وہ سب کچھ نہ کرے جو مقتدرہ اب کررہا ہے یعنی بندے کے پتروں کی طرح دیانت داری سے اردو کی ترویج کرے، اصطلاح سازی کرے اور اردو میں علم کی ترویج کو یقینی بنائے۔ اردو وکی پیڈیا کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اردو زبان کی پالیسی سازی کرے اور نہ ہی اردو وکی پیڈیا ایسی کسی بھی پالیسی سازی کو رائج کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ وجہ سادہ سی ہے اردو وکی پیڈیا کے اختیار کو کوئی نہیں مانے گا نا۔ وکی پیڈیا کا مقصد علم کی ترویج ہے اور اردو وکی پیڈیا کو چاہیے کہ وہ یہ کام کرے، اردو میں کرے اور ایسی اردو میں کرے جسے اردو والے سمجھتے ہیں۔ فارسی اور عربی کے دقیق الفاظ کو اردو میں رائج کرنے کا خیال دل سے نکال دے کیونکہ یہ 1857 نہیں ہے اور نہ ہی یہاں اردو کے ساتھ فارسی دان بیٹھے ہیں جو پڑھتے تو فارسی تھے اردو شغل میں خود ہی آجاتی تھی کہ روزمرہ کی نچلے درجے کی زبان تھی جبکہ فارسی شرفاء کی زبان تھی ( اس وقت)۔ 
دوسرا اثر یہ ہورہا ہے کہ علاقائی زبانیں گھٹ رہی ہیں۔ ان کے بولنے والے کم ہورہے ہیں۔ کثیر لسانی یعنی ایک سے زیادہ زبانیں جاننا دنیا میں ایک عام سی بات ہے۔ لیکن ہم بطور صارف اپنی آسانی کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ چناچہ اگر کام انگریزی سے چل رہا ہے، اور یہ اعلٰی طبقے کی زبان بھی ہے تو نچلے درجے کی زبانیں کیوں سیکھی جائیں؟ یہاں نچلے درجے کی زبان سے مراد اس کا سماجی رتبہ ہے، لسانیات کے حساب سے تمام زبانیں برابر ہیں کوئی بھی اچھی یا بری نہیں۔ ہر زبان کا مقصد ہوتا ہے اور وہ بہ احسن وہ مقصد پورا کرتی ہے چناچہ کسی تیسرے کو یہ اختیار نہیں کہ زبان کو برا یا اچھا کہے۔ آج دنیا میں یہ رواج بہت تیزی سے وقوع پذیر ہے کہ انگریزی بچوں کو بطور پہلی زبان سکھائی جائے۔ پڑوسی ملک بھارت میں ہندی کی جگہ تیزی سے انگریزی لے رہی ہے۔ بلکہ ایلیٹ کلاس تو اپنے بچوں کو انگریزی مادری زبان کے طور پر سکھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہ رجحان تیزی سے فرو غ پارہا ہے۔ انگریزی مادری نہیں تو دوسری سیکھی جانے والی زبان بن رہی ہے، میری مراد اشرافیہ طبقے سے ہے۔ جبکہ درمیانے تعلیم یافتہ طبقے میں یہ رجحان فروغ پارہا ہے کہ بچوں کی مادری زبان اردو ہو۔ چاہے ماں باپ کی مادری زبان پنجابی یا کوئی اور علاقائی زبان ہے۔ چناچہ اب حالات یہ ہیں کہ دادا دادی اور اماں باوا آپس میں پنجابی میں بات کرتے ہیں اور بچوں سے اردو میں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ یہ نہیں کہ بچے اردو کی وجہ سے پنجابی سمجھ نہیں رہے۔ سمجھتے ہیں، بات کرو تو پنجابی میں جواب بھی دیتے ہیں لیکن یہ ان کی ترجیحی زبان نہیں۔ وہ اردو میں بات کرتے ہیں، انھیں پنجابی کی ضرورت ہی کیا ہے جب اردو یہ مقصد پورا کرتی ہے تو۔ چناچہ یہ نسل پنجابی سمجھ سکتی ہے۔ اگلی نسل؟ بالکل اگلی نسل پنجابی نہیں سمجھ سکے گی چونکہ ان کے ماں باپ اردو کے اہل زبان ہونگے۔ اور اگلی دو نسلوں میں پنجابی انا للہ ہوجائے گی۔ دوسری طرف انگریزی اشرافیہ اور درمیانے دونوں طبقوں میں تیزی سے اردو کی جگہ لے گی اور اردو رابطے کی زبان سے عامیوں کی زبان بن جائے گی جبکہ انگریزی رابطے کی زبان اور اعلٰی درجہ رکھنے والی زبان ہوگی۔ تغیر آرہا ہے لیکن یہ تغیر الٹی سمت سے آرہا ہے۔ نیچے سے اوپر کی بجائے اوپر سے ٹھونسا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے علاقائی زبانیں اقلیت بن رہی ہیں اور ایک دن وہ بھی آئے گا کہ دو سو تین سو لوگ رہ جائیں گے جو یہ زبانیں سمجھ سکتے ہونگے۔ جیسا آسٹریلیا میں وہاں کے باشندوں کی زبانیں مریں اور امریکا میں ریڈ انڈینز کی۔ تغیر کی اس یلغار کو روکنے کے لیے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔
یاد رہے لغات اور اصطلاحات کے ڈھیر، اور مردہ الفاظ میں علم کی ترویج کرکے ہم اپنی زبانوں کو زندہ نہیں مردہ کررہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ تغیر زبان کا مقدر ہے، تغیر دریا ہے جس کے آگے بند باندھیں گے تو اور سمت سے راستہ بنا لے گا۔ لیکن یہ تغیر ایسا نہ ہو کہ ہماری زبانیں ہی مٹ جائیں۔ ہمیں زبانوں کو بچانے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ تغیر کی یہ یلغار اتنی تیز ہے کہ اگلے دس سال میں بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔

ہفتہ، 28 نومبر، 2009

بڑی عید

لو جی اللہ والیو۔ عید کو کِلؑی پر ٹنگے تھوڑی دیر میں بارہ گھنٹے ہوجائیں گے۔ آج صبح سات بجے نہا کر، ناشتا کرکے آٹھ بجے ہم نے نماز پڑھی جو سوا آٹھ تک چلی۔ دو چار لوگوں سے عید ملے اور گھر آکر عید کو کھونٹی پر ٹانگ دیا۔ تب سے وہیں لٹکتی ہے اور موج کرتی ہے۔ اور ہم ایک عدد ہندی فلم دیکھ کر، مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ برفیلی بلندیاں پڑھ کر اور انٹرنیٹ پر بیٹھ بیٹھ کر موج کرتے ہیں۔ اگرچہ اس بیٹھنے کی وجہ سے ہماری تشریف اب بے چین ہوتی ہے اور ہمیں ٹہوکے بھی دیتی ہے کہ اٹھ بھی جایا کرو کبھی لیکن ہم اب بھی بیٹھے ہیں کہ ایک پوسٹ لکھ ہی لیں۔ اس کے بعد اُٹھ جائیں گے۔
پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہمارے ہاں قربانی نہیں تھی۔ جیسا کہ اکثر ہمارے جیسے پاکستانیوں کے ہاں نہیں تھی کہ پندرہ ہزار کا بکرا لیتے یا مہینے کا خرچہ چلاتے۔ تو ہم نے مہینے کا خرچہ چلانےکو ترجیح دی۔ قربانی نہ ہو تو ایویں ذرا شرمندگی سی ہوتی ہے سو ہم آج باہر بھی نہیں نکلے کہ سب مصروف تھے تو ہم ذرا ویلے ویلے سے نویں شلوار قمیض میں اوپرے اوپرے سے لگتے۔
آج بہت عرصے بعد مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ عید کی۔ اس کا سفرنامہ برفیلی بلندیاں پڑھا جس میں اس کے دو عدد سفروں کی داستان ہے۔ مستنصر حسین تارڑ سفرنامے کو افسانہ بنا دیتا ہے، فکشن میں ڈھال دیتا ہے۔ عام سے پتھروں بھرے راستے کو جنت کی خوبصورتی عطاء کردیتا ہے، خود تو تخیل میں ٹھوکریں کھاتا ہی ہے میرے جیسے قاری کا بیڑہ بھی غرق کرتا جاتا ہے۔ لیکن بے مثال لکھتا ہے۔ جتنا بھی لکھتا ہے اچھا لکھتا ہے اور اسے پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ ایویں پڑھتے جانے کو دل کرتا ہے۔ اس کا انداز تحریر آپ دور سے پہچان لیں گے، لو جی مستنصر حسین تارڑ آگیا۔ ایک تو اس کی آدھی کتابیں شمالی علاقہ جات کے سفرناموں پر مشتمل ہیں دوسرا اس کا اُسلوب۔ اس کا انداز بیان عجیب سا ہے۔ جب ڈسکرپشن دینی ہوتی ہے تو  فعل مطلق استعمال کرتا ہے، فعل ماضی مطلق یعنی تا تھا، ، تے تھے، تی تھی۔ اور جب واقعات قلم بند کرتا ہے تو سادہ فعل ماضی میں اتر آتا ہے۔ لسانیات کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس کا اُسلوب اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کبھی زندگی رہی تو اس کے اُسلوب کا تجزیہ کروں گا۔ یہ کیسے زبان کے ساتھ کھلواڑ کرکے اپنا انداز بیاں تخلیق کرتا ہے۔ اردو کے لکھاریوں میں تارڑ اور محی الدین نواب دو ایسے نام ہیں جن کی تحریر میں دو جملوں میں پہچان جاتا ہوں۔ کہ یہ وہی ہے ہاں وہی ہے۔ اس کی وجہ ان کا زبان کو اپنے انداز سے بیان کرنا ہے اور واضح علامات چھوڑنا ہے۔ اُسلوب تو ہر لکھاری کا ہوتا ہے لیکن مجھے ان کا اُسلوب پہچاننے میں آسانی شاید اس لیے ہوتی ہے کہ یہ فعل یعنی زمانے کو خاص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ فعل سے میری مراد انگریزی والا ٹینس ہے۔
لو جی بات عید سے شروع ہوکر ادبی اُسلوبیات تک آپہنچی۔ چلو چھڈو جی۔ ہور سناؤ۔ عید کیسی گزری آپ کی؟ اس بار عید مبارک کہنا ہی بھول گیا۔ چلو اب سہی۔ عید مبارک۔ آپ سب پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں اور آپ کی قربانیاں اللہ قبول کرے۔
آمین۔

اتوار، 22 نومبر، 2009

این آر او

آج کی اخبارات اور خبروں کے مطابق این آر او کے تحت فائدہ اُٹھانے والے لوگوں کی فہرست جاری کردی گئی ہے۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق اس میں بہت سے وڈوں کے نام بھی شامل ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ سات ہزار کچھ افراد نے سندھ سے اس آرڈیننس سے فائدہ اُٹھایا۔ ملک کے اعلٰی ترین عہدوں پر بیٹھی شخصیات بعض اوقات درجنوں میں فوجداری اور کرپشن کے مقدمات میں نامزد تھیں جن کو اس آرڈیننس کے ذریعے تحفظ دیا گیا۔
این آر او پر ہونے والی پچھلے کئی ماہ کی بحث اور میڈیا بشمول عوام و حزب اختلاف کی حکومت پر لعن طعن کے بعد آخر کار پیپلز پارٹی نے یہ کہہ دیا کہ عدالت جو کچھ کہے گی ہم وہی کریں گے۔ اب کیا ہوگا؟ جیسا کہ تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ حکومت میں موجود افراد کے خلاف مقدمات تو پھر بھی دائر نہیں کیے جائیں گے کم از کم صدر زرداری کے خلاف تو نہیں۔  یعنی درون خانہ کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
اس سلسلے کا ایک قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں ان ہزاروں مقدمات میں سے بہت کم کو نمٹایا جاسکا ہے۔ سیاسی،انتظامی اور جانے کون کونسی وجوہات کی بنا پر انھیں ملتوی کیا جاتا رہا اور نوبت یہاں تک آپہنچی۔ اس سلسلے میں آصف علی زرداری جنھوں نے آٹھ دس سال بلا سزا ہی جیل کاٹی کا واقعہ ہمارے نظام انصاف پر ایک داغ ہے۔ یہ تو خیر صدر مملکت کی بات تھی ایسی ہزاروں مثالیں ہر جگہ موجود ہیں جہاں قیدی صرف جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں سالوں سے بند ہے اور اس کا مقدمہ ختم نہیں ہورہا۔ ہمیں اس سسٹم کو تبدیل کرنا ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مقدمات کو پہلی فرصت میں نمٹانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ ورنہ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت والے حکومت کرتے رہیں گے اور عوام انھیں کوستے رہیں گے۔ کاش ہم اس موقعے کو گنوائیں نہیں۔ لیکن اس کے لیے بہت سی ہمت درکار ہے۔ ہمارے سیاستدان وہ ہمت مجتمع کرپائیں گے؟
ابھی تک تو اس کا جواب نہیں لگ رہا ہے۔

لانچی

پہلی نظر میں الائچی لگ رہا ہوگا۔۔۔
لیکن یہ لانچی ہی ہے۔ لانچی ایک ایپلی کیشن لانچر ہے۔ اردو میں کہیں تو توپ ہے جو اطلاقیے داغتی ہے۔ :) خیر ہمارا مقصد یہاں اردو ترجمہ کرنا نہیں ہمارے احباب یہ کام بخوبی کررہے ہیں۔ (سجھ تے تُسیں گئے او :D)
خیر جناب ادھر اُدھر کی چھوڑیتے مدعے پر آئیے۔ تو مدعا یہ ہے کہ ہمیں اوبنٹو پر جس چیز کا شوق ہوتا ہے وہ مونو پر مشتمل اطلاقیے ہیں۔ جیسے مونو ڈویلپ، بینشی، ایف سپاٹ اور میرا پیارا گنوم ڈُو۔
صاحبو گنوم ڈُو بڑی پیاری شے ہے۔ اگر چل جائے تو۔ لیکن یہ اس سسٹم پر کچھ مسائل کررہا ہے۔ چلتے چلتے ہینگ ہوجاتا ہے اور پھر سارے سسٹم کے ریسورسز کھانے لگتا ہے۔ نجانے کیا مسئلہ ہے اسے۔ اور اس کی ویب سائٹ سے لگ رہا ہے کہ آخری ورژن بھی جنوری میں جاری کیا گیا تھا۔ اب آپ سوچئیے کتنا بھی پیارا کیوں نہ ہو، جب تک اس کی ڈویلپمنٹ جاری رہے تب تک ہی پیارا لگتا ہے۔ آپس کی بات ہے اوپن سورس والے گرم گرم کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ یعنی تازہ تازہ جو پکا ہو، خستہ مزے دار سا۔ اس سے نئے فیچر بھی آتے رہتے ہیں اور پروجیکٹ زندہ ہونے کی وجہ سے صارف کو بھی ایک احساس رہتا ہے کہ وہ "کلّا ای نئیں پھسیا، ہور وی نیں"۔ گنوم ڈُو کے ساتھ نجانے کیا مسئلہ ہے، لیکن ہم تو اب اسے چھوڑ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بہت سادہ سا ہے، اور اس کی سادگی لیکن پُرکاری مار ڈالتی ہے، ننھی سی جان میں کیا کیا سموئے بیٹھا ہے جی میل کی ڈاک سے لے کر، پجن  کے روابط، بک مارکس اور آپ کا ڈیسکٹاپ تو ہے ہی۔ اور پھر بڑی آسانی سے اسے وضع یعنی کنفگر کیا جاسکتا ہے جو اس کے دوسرے مدمقابل اطلاقیوں جیسے گنوم لانچ باکس میں ممکن نہیں۔
خیر صاحب یہ سب کچھ دیکھ کر ہم نے لانچی کا سوچا۔ جس کا لینکس ورژن بھی اب دستیاب ہے اور ہم نے اس ربط سے صرف ڈیبئین اتارا اور اوبنٹو نے اسے نصب کردیا مع کچھ انحصاری پیکجز کے۔ اگرچہ اس کا مواجہ کیو ٹی ٹول کِٹ پر مشتمل ہے، کام پُورا کرتا ہے۔ آپ بھی ٹرائی کیجیے گا۔

جمعہ، 20 نومبر، 2009

گوگل کروم او ایس

19 نومبر 2009 کو گوگل نے اپنے آپریٹنگ سسٹم کو عوام اور میڈیا کے سامنے پیش کر ہی دیا۔ اس او ایس کے بارے میں پچھلے لگ بھگ ایک سال سے قیاس آرائیاں کی جارہی تھی، اندازے لگائے جارہے تھے اور بعض چیتے بلاگرز اس کی سکرین شاٹس بھی نکال لائے تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ سکرین شاٹس گوگل کی ویب ایپلی کیشنز پر مشتمل ایک ڈیسکٹاپ کی ہوتی تھیں (گوگل ارتھ، جی میل، پکاسا وغیرہ وغیرہ)۔
گوگل نے کل آخر رحم کھا ہی لیا اور ان تمام افواہوں، قیاس آرائیوں اور الٹی سیدھی تنقید کا سلسلہ بند کروا دیا۔ جیسا کہ پیشن گوئی تھی کہ گوگل کا یہ او ایس لینکس پر مشتمل ہوگا۔ بالکل یہی حقیقت نکلی ہے۔ لیکن یہ خبر میرے جیسوں کے لیے مایوس کن ہے کہ گوگل کا یہ او ایس ایک خاص ہارڈ وئیر پر چل سکے گا۔ اگلے سال کے آخر تک گوگل اپنی ایک عدد نیٹ بُک لانچ کرے گا جس میں پہلے سے یہ او ایس نصب ہوگا، یعنی ڈیسکٹاپ پی سی کی چھُٹی۔ ایک اور بات یہ کہ یہ او ایس خالصتًا ویب اطلاقیوں پر مشتمل ہے۔ نیٹ بُک کو اٹھا کر کہیں بھی لے جائیں لیکن اس پر سارا کام ویب سے چلنے والے اطلاقیے کریں گے اور آپ کی ہر چیز انٹرنیٹ پر، ظاہر ہے گوگل کے سرورز پر، محفوظ ہوگی۔ اور ہمیں امید ہے کہ گوگل نے ایسا اور بہت سی وجوہات کے علاوہ پیسہ کمانے کی غرض سے بھی کیا ہوگا۔ چونکہ گوگل کا کام ہی آنلائن ہے اس لیے یہ عادت سے مجبور ہے۔ :)
اس او ایس کی سیکیورٹی کے بارے میں گوگل نے بڑے اونچے اونچے دعوے کیے تھے جن کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ لیکن اب جبکہ گوگل نے اس کا کوڈ آزاد مصدر کردیا ہے اور اس کے سیکیورٹی نظام کی تفصیلات بتائی ہیں تو یہ دعوے درست بھی لگ رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو ویب اطلاقیے ہی اس کو محفوظ بنا دیتے ہیں۔ اس کا سارا روٹ فائل سسٹم صرف قابل پڑھائی بنایا گیا ہے یعنی اس پر کچھ بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ او ایس کا کام صرف بنیاد فراہم کرنا ہے جس کے بل پر ویب اطلاقیے چل سکیں۔ باقی سب کچھ سرورز پر ہوگا۔ یعنی وائرس آ بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ میموری میں دھمال ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گوگل کا براؤزر کرومیم جو کہ اس او ایس کا بھی براؤزر ہوگا پہلے ہی اس صلاحیت کا حامل ہے کہ اس میں کھلنے والا ہر ٹیب دوسرے ٹیب سے جداگانہ طور پر کھلتا ہے۔ چناچہ اگر ایک ٹیب ہیلڈ ہوجائے، مسئلہ کرے یا کوئی ویب اطلاقیہ کام خراب کرے تو اتنے حصے کی جراحی کرکے باقی سارے جسم کو گزند پہنچائے بغیر کام جاری رکھا جاسکتا ہے۔ بقول گوگل کے بڑوں کے انھوں نے ویب اطلاقیوں کو ایک دوسرے سے لڑائی کرنے سے اور بنیادی سسٹم سے لڑائی کرنے سے روکنے کے لیے موثر انتظام کیا ہے۔ یعنی مہمان ویب اطلاقیے صرف بیٹھک تک آسکیں گے اس سے آگے نہیں، اور یہاں بھی ان کے لیے الگ الگ پورشن مخصوص ہوگا۔ گوگل نے بوٹ کرنے کے عمل کو بھی محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی نظام کی ہر فائل کے ساتھ مخصوص دستخط جڑے ہیں، دوران بُوٹ ہر فائل کو اس کے دستخط کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے اگر کسی ایک میں بھی تھوڑی سی گڑبڑ ہو تو سسٹم ری سٹارٹ ہوجائے گا، نیٹ سے وہ فائل دوبارہ اتار کر نصب کرے گا، سیکیورٹی پیوند لگائے گا اور پھر نیا جیسا ہوجائے گا۔
یہ سب تو گوگل کے بارے میں تھا اب کنونیکل کی سنئیے، جو مقبول ترین لینکس ڈِسٹرو کی کمرشل اماں ہے۔ کنونیکل گوگل کے ساتھ ٹھیکے پر کام کررہی ہے تاکہ اسے کروم او ایس کے بارے میں مدد فراہم کرسکے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کروم او ایس اور اوبنٹو نوٹ بُک ری مکس کا کام ایک ہی ہے۔ یعنی نیٹ بُک کمپیوٹرز لیکن کنونیکل کے بقول کروم ویب پر انحصار کرے گا اور اوبنٹو نیٹ بُک ری مکس ڈیسکٹاپ اطلاقیے بھی چلاتا ہے۔
ویسے ہمیں تو خاصی مایوسی ہوئی ہے۔ گوگل نے وہی کیا جس کی اس سے امید تھی، یعنی پھر ویب پر لا کر پھنسا دیا، ساتھ اپنے ہارڈوئیر کی شرط لگا دی اور او ایس کو مینوفیکچرر تک محدود کردیا۔ ہم جو سمجھ رہے تھے کہ ہُن مزہ آئے گا جد گوگل تے مائیکرو سافٹ ککڑاں وانگ لڑ سن۔ پر کتھوں۔ ہمارا مفت کا تماشا گوگل نے لگنے 

ہی نہیں دیا۔

بدھ، 18 نومبر، 2009

کیا ہے؟

کیا ہے ہمیں جو چین لینے نہیں دیتا؟
بابا مشرف تھا تو سارے اس کی ماں بہن ایک کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ اب وہ گیا ہے تو ہمارے وڈے بابے بڑا پکا سا منہ بنا کے کہتے ہیں
او نئیں جی مشرف تے بڑا چنگا سی اے جاگیرداراں ماں دیاں خصماں نے اوہدی مت مار چھڈی۔ آخری سالاں وچ اوہدے خلاف بڑیاں سازشاں ہوئیاں۔
اور میں چپ کرجاتا ہوں کہ بڑی اچھی یادداشت ہے ہماری۔ ہمیں اس کا چک شہزاد میں کروڑوں کی مالیت کا وہ فارم ہاؤس بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اب زرداری بیٹھا ہے تو اب بھی پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔ زرداری جاوے ای جاوے
زرداری ہائے ہائے۔
اچھا زرداری چلا گیا تے فیر کون آسیں؟
کوئی ہور ماں دا خصم؟ سادہ پنجابی میں یہی کہیں گے نا ہم۔ کہ جیسی قوم ہو ویسے ہی حاکم ملتے ہیں۔ تو آپ میں سب جانتے ہیں کہ ہم کتنی غیرت والی قوم ہیں۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم آخر چاہتے کیا ہیں؟ کیا حاکم بدلنا ہماری ہابی تو نہیں جیسے رنڈی ہر رات خصم بدلتی ہے؟

جمعرات، 12 نومبر، 2009

ہو چُوپو

لو جی الطاف پائین و ہمنواؤں نے این آر او کھا کے ڈکار بھی نہیں لی۔ ملاحظہ کیجیے۔
قانونی ماہرین کے مطابق متحدہ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے کیس ختم کرنے کے حوالے سے آئینی و قانونی سنگین بے قاعدگیاں کی گئی ہیں
کراچی ۔۔۔ متحدہ قومی مو ومنٹ نے این آر او کے ذریعے اپنے قائد الطاف حسین اور مرکزی رہنماؤں سمیت کارکنوں کے 3ہزار5سو70 مقدمات ختم کروائے ہیں جن میں بیشتر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں۔ختم کرائے گئے مقدمات میں قتل، اقدام قتل، چوری ڈکیتی، پولیس مقابلہ، جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات شامل ہیں۔مرکزی رہنماؤں سمیت متحدہ قومی مو ومنٹ کا کوئی بھی کارکن این آر او کے تحت مقدمات ختم کرانے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے روبرو پیش ہی نہیں ہوا لیکن ا سکے باوجود حکومتی اثر و رسوخ استعمال کر کے مقدمات ختم کرالئے گئے ۔ذرائع کے مطابق مشرف دور میں این آر او جاری ہونے کے بعد حکومت سندھ نے ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تھی جس نے این آر او کے مقدمات کا جائزہ لیکر ان پر سفارشات وزیر اعلیٰ کو بھیجنا تھیں جو این آر او کے تحت مقدمات ختم کرنے کی ا تھارٹی تھی۔ذرائع کے مطابق مذکورہ کمیٹی نے متحدہ قومی مو ومنٹ کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف زیر سماعت 4 ہزار سے زائد مختلف مقدمات پیش کئے تھے ۔کمیٹی نے مختصر سے وقت میں کسی بھی قسم کی تفتیش اور مناسب جائزہ لئے بغیر متحدہ قومی مو ومنٹ کے خلاف 90 فیصد سے زائد مقدمات یک جنبش قلم ختم کرنے کی سفارشات وزیر اعلیٰ کو بھیج دیں جو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے منظور کر لی بعدازاں حکومت سندھ نے ان مقدمات کے خاتمے کیلئے متعلقہ عدالتوں میں درخواستیں جمع کراکے مقدمات باقاعدہ ختم کرادئے تھے ۔سندھ کی سطح پر بننے والی این آر او کمیٹی میں اس وقت کے ایڈو وکیٹ جنرل خواجہ نوید احمد اور سندھ کے سیکریٹری قانون سید غلام نبی شاہ بھی ممبران کے طور پر شامل تھے ۔ختم کرائے جانے والے مقدمات میں متحدہ قومی مو ومنٹ کے مرکزی رہنماؤں الطاف حسین، فاروق ستار، وسیم اختر اور دیگر کارکنان و رہنماؤںکے مقدمات شامل تھے ۔متعدد قانونی ماہرین نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ قانونی لحاظ سے مقدمات دو نوعیت کے ہوتے ہیں ایک قابل رضامندی (compoundable) اور دوسرے ناقابل رضامندی (non-compoundable) قتل ، اقدام قتل قابل رضامندی مقدمات تو ضرور ہیںلیکن ان مقدمات کے خاتمے کیلئے متاثرہ فریق کی رضامندی ضروری ہے ۔قتل کے مقدمے کو مقتول کے ورثاء کے سوائے حکومت یا ریاست کسی طور پر معاف نہیں کرسکتی ہے جبکہ چوری، ڈکیتی ، اغواء، دہشت گردی، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والے مقدمات بھی ناقابل رضامندی مقدمات کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں معاف کرنے کا حق مقدمے کے متاثرہ فریق سے لیکر کسی کو بھی نہیںہوتا ہے ۔قانونی ماہرین کے مطابق متحدہ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے کیس ختم کرنے کے حوالے سے آئینی و قانونی سنگین بے قاعدگیاں کی گئی ہیں۔


ہفتہ، 7 نومبر، 2009

ترقی

پچھلے ایک ہفتے سے میرا گھر پیٹر انجن کی ٹھک ٹھک پھک پھک سے گونج رہا ہے۔ اس میں وقفے وقفے سے وہ آوازیں بھی شامل ہوجاتی ہیں جو اس کے ساتھ لگی مشین کے گھومنے سے پیدا ہورہی ہیں، اس میں بجری ڈالنے سے پیدا ہورہی ہیں اور پھر بجری اور کول تار کا ملغوبہ نکالنے سے پیدا ہورہی ہیں۔ یہ سب کچھ میرے محلے کی ایک سڑک تعمیر کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ یہ سڑک یعنی صدر بازار میرے محلے کے دو بڑے بازاروں میں سے ایک ہے جو اسے مین روڈ سے ملاتے ہیں۔
آپ بھی حیران ہونگے اگر سڑک تعمیر ہورہی ہے تو اس میں بری بات کیا ہے؟ مجھے بھی کوئی بری بات نہیں لگ رہی۔ آخر میرے محلے کی ترقی ہورہی ہے۔ سڑک جو صرف دو سال پہلے بنی تھی اب اس میں ایسے ایسے گڑھے تھے، کہیں سیوریج ڈالنے والوں نے ادھیڑ ڈالی تھی، کہیں رہائشیوں نے اپنا سیوریج پائپ ڈالنے کے لیے کھود ڈالی تھی اور رہی سہی کسر واٹر سپلائی کے نئے پائپ ڈالنے والوں نے نکال دی تھی۔ تو یہ گڑھے مجھے ایسے لگتے تھے جیسے کسی بیوہ کی خستہ حال چادر کے اڑے ہوئے حصے جو اس کی برہنگی بھی نہیں چھپا سکتے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سڑک کو پھر سے پردہ دیا جارہا ہے جو سر بازار بے پردہ ہورہی تھی، کوڑھ زدہ مریض کی طرح اس کی کھال پھٹ گئی تھی اور پیپ زدہ ماس کی طرح پتھر نظر آرہے تھے۔ لیکن مجھے خوشی ہوتے ہوئے بھی خوشی نہیں ہے۔ اس کی وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ ابھی یہ سڑک مکمل نہیں ہوئی۔ اور میرے محلے کے چوک، صدر چوک، میں ایک کتبہ لگ گیا ہے۔ ایک بینر بھی لگ گیا ہے۔ جس میں میرے حلقے کے ایم این اے کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ اور اس کے نیچے محلے کے تین چار چوہدریوں کے نام ہیں بشمول نائب ناظم۔ میں بس ذرا سا حیران ہوں کہ یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ لیکن یہ ایسے کیوں ہورہا ہے؟ کیا ہم ٹیکس نہیں دیتے؟ ہر سال حکومت میرے ڈھائی مرلے کے مکان سے دو ہزار روپیہ پراپرٹی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ مجھے موبائل فون کے ہر سو روپے پر چھتیس فیصد ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ ہر وہ کام جس میں روپے لگتے ہیں میں ٹیکس ادا کرکے کرتا ہوں۔ تو  دو سو میٹر کا سڑک کا یہ ٹکڑا اگر دوبارہ سے بنایا جارہا ہے تو اس میں اتنے احسان کی کیا بات ہے؟ اور اس میں اس ایم این اے کا کیا کام ہے؟ ایم این اے تو سمجھتے ہیں نا آپ؟ ممبر قومی اسمبلی۔ تو یہ ممبر جو میرے محلے جیسے دس اور محلوں کا بھی والی وارث ہے۔ اسے اتنا کشٹ اٹھانے ضرورت ہی کیا تھی آخر؟ صاحب اسلام آباد جاؤ، ایوان میں بیٹھو اور قانون سازی کرو۔ قومی نوعیت کے مسائل کو حل کرو۔ میرا محلہ، کہ جس جیسے سینکڑوں محلے اس ملک میں ہیں، پر اتنی مہربانی کیوں؟ کہ چند سو میٹر کا ایک سڑک کا ٹکڑا جناب نے کمال مہربانی سے اور خصوصی توجہ سے تعمیر کروایا جس پہ میرے محلے کے چوہدری سراپا ممنون احسان ہورہے ہیں۔ ارے یہ کام تو میرے محلے کا ناظم بھی کرسکتا تھا۔ اس کا کام ہی یہ ہے کہ مقامی طور پر ایسے کام کرائے، ترقی کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کرائے۔ ایم این اے بادشاہ کو کیا ضرورت پڑ گئی یہ سب کرنے کی؟
لیکن نہیں۔ یہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ یہاں اب گلی بھی پکی کروانی پڑی تو اس کام کے لیے ایم این اے اور ایم پی اے آئیں گے۔ ضلعی نظام تو ویسے ہی ختم ہورہا ہے۔ پھر وہی کونسلر رہ جائیں گے جن کا کام محلے کے چُوہڑوں کی انسپکٹری ہوگا بس۔ مجھے نہیں پتا سیاست دانوں کا اس نظام کے بارے میں کیا خیال ہے، اس میں کتنی غلط باتیں ہیں، لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ اس کی وجہ سے مجھے اتنا پتا لگا تھا کہ ترقی ہوسکتی ہے۔ میرے محلے کی گلیاں اور سڑکیں پچھلے پانچ سال میں اتنی بار بنیں کہ میں اکتا گیا۔ جہاں دیکھو ہر روز کوئی نہ کوئی کہیں نہ کہیں کام ہورہا ہوتا تھا۔ چلیں اب یہ اکتاہٹ ختم ہوجائے گی۔ اختیارات واپس وڈوں کو مل رہے ہیں۔ اب نا وڈے صاحب کے پاس وقت ہوگا نہ وہ ایسی کسی چیز کا افتتاح کرسکیں گے۔ اور ہم منہ چک کے اسلام آباد کی طرف دیکھتے رہیں گے کب بڑے صاحب پدھاریں اور کب ان کو عرضی پیش کریں کہ صاحب محلے کے گٹر کا ڈھکن بدلوانا ہے ذرا فنڈز تو جاری کروا دیجیے۔ صاحب کوڑا سٹینڈ نہیں ہے محلے میں کوئی مناسب سی جگہ دیکھ کر اس کا سنگ بنیاد رکھوا دیجیے۔ سرکار کی مشہوری بھی ہوجائے گی غریب کا بھلا بھی ہوجائے گا اور ایک عدد کتبہ بھی لگ جائے گا۔
محلہ غریباں کے کوڑا سٹینڈ کا
سنگ بنیاد
جناب عزت مآب ایم این اے صاحب نے
اپنے دست مبارک سے فلاں تاریخ کو رکھا۔ 

جمعرات، 5 نومبر، 2009

تسیں خوش ہوجاؤ

لو جی این آر او پارلیمنٹ میں نہیں پیش کیا گیا۔ 
وجہ؟
ملاحظہ کریں

پس ثابت ہوا کہ جماعت اسلامی والے اتنے طاقتور ہیں۔ :D

منگل، 3 نومبر، 2009

بھارتی اسلحہ؟

ہمارے میڈیا کو شاید عادت ہوگئی ہے بغیر ثبوت کے دعوے کرنے کی اور ہمیں بھی شاید ان کی ہر بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینے کی عادت ہوگئی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بھارت ہماری اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کررہا لیکن مجھے اس تصویر اور اس کے کیپشن پر اعتراض ہے۔ 
 
 
مجھے اصل میں اس تصویر میں "بھارتی اسلحے" کا کوئی ثبوت نظر نہیں آرہا۔ آپ کو آرہا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس تصویر کا کیپشن یہ کیوں دیا گیا ہے؟ صرف جذبات بھڑکانے کے لیے؟

پیر، 26 اکتوبر، 2009

سیکیورٹی

ہم نے دو تین دن پیشتر ایک پوسٹ میں جی سی یو کی سیکیورٹی کی حالت کا رونا رویا تھا (مع نقشہ) جس پے ایک تبصرہ نگار نے کہا یوں لگتا ہے جیسے دہشت گردوں کے لیے سارا کچھ لکھا جارہا ہے کہ پڑھیں اور الا اللہ کرکے حملہ کردیں۔ :D خیر ہمارا یہ مقصد تو بالکل نہیں تھا۔ چونکہ جس نے حملہ کرنا ہے اس نے میری تحریر کی بجائے اپنے ذاتی مشاہدے کو ترجیح دینی ہے۔ میں نے تو ان سیکیورٹی ہولز کی نشاندہی کی تھی جو آنے والے دنوں میں کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتے تھے۔
اس سلسلے میں آج جب پانچ دن بعد ہماری یونیورسٹی پھر کھلی تو سیکیورٹی پہلے سے سخت تھی۔ ہمیں دو عدد سیکیورٹی گیٹ مہیا کیے گئے ہیں جن میں سے ایک گیٹ نمبر دو کے پاس لگایا گیا ہے تاکہ گاڑی پارک کرکے آنے والے چیک ہوسکیں اور دوسرا پیدل گزرگاہ والے انٹرسیکشن گیٹ پے لگایا گیا ہے۔ اسکے علاوہ گاڑیوں والے گیٹ کے سامنے تین عدد رکاوٹیں بھی لگا دی گئی ہیں چناچہ کوئی بھی گاڑی آہستہ ہوئے بغیر آگے جاہی نہیں سکتی۔ ایسی ہی ایک رکاوٹ مین گیٹ جو کہ بند ہے کہ سامنے بھی لگائی گئی ہے۔ آتے جاتے کارڈز چیک کیے جارہے ہیں۔

خیر یہ تو انتظامات تھے، لیکن ابھی خاردار تار نہیں لگائی گئی۔ جیسا کہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ جی سی کے ارد گرد موجود دیوار کی جگہ لگایا گیا جنگلہ بہت بڑا سیکیورٹی رسک ہے۔ اسے پھلانا جاسکتا ہے اور میرے جسا چھریرے بدن کا انسان اس میں سے گزر بھی سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اوپر خاردار تار لگائی جائے جوکہ ابھی چند میٹر پر ہی لگائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے نیچے سے بھی ایسے کور کیا جائے کہ اس میں سے کوئی چیز بھی پار نہ کی جاسکے۔ چونکہ باہر موجود  گولے گپے والے، سموسے والے، چاٹ والے ایسے ہی اپنی مصنوعات کی ترسیل یونیورسٹی میں ممکن بناتے ہیں۔ لیکن اس راستے سے کسی بم کی ترسیل بھی عین ممکن ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے جی سی یو کارڈز ابھی تک نہیں بن سکے۔ ان کی جگہ عارضی کارڈز چل رہے ہیں۔ نئے آنے والے سمسٹرز کو بھی آج ہنگامی بنیادوں پر کاغذ پر پرنٹ نکال کر کارڈز مہیا کیے گئے ہیں۔ اب بندہ پوچھے کہ یہ ڈیزائن تو کوئی بھی مائیکروسافٹ ورڈ میں بنا سکتا ہے۔ اور پرنٹ لے کے تصویر بھی لگا سکتا ہے۔ اس میں سیکیورٹی کہاں ہے؟ الٹا یہ سیکیورٹی رسک ہے۔ خیر ڈنگ ٹپاؤ۔ جیسا کہ سارا ملک بھی ایسے ہی چل رہا ہے کہ یہ وقت گزارو بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔

خیر یہ تو قلیل مدتی پالیسی ہے۔ لیکن طویل مدت میں یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے۔ جلد ہی چیک کرنے والے بھی اکتا جائیں گے اور کرانے والے بھی۔ کاش یہ حکومت کوئی ڈھنگ کی پالیسی بنا لے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں سوئی پڑی ہیں۔ اور یہ جو آئے دن اخبارات میں امریکیوں کی پراسرار سرگرمیوں کی  رپورٹس چھپتی رہتی ہیں ان پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے کیوں پڑی ہے۔
پس موضوع: آج وزیرستان کے مہاجرین کی تصاویر دیکھیں۔ ان کے تو سوات کے مہاجرین سے بھی برے حالات ہیں۔ اللہ ان کو صبر اور حوصلہ دے۔ اور ہمیں ان کی مدد کرنے کی توفیق دے۔ امریکی کدھر ہیں ماں کے۔۔۔۔۔۔۔ ان کو پتا نہیں کہ ان کی جنگ ہم لڑرہے ہیں اپنوں کی قیمت پر۔ امداد کیوں نہیں دیتے یہ بھین کے۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2009

بلاگر پوسٹ ایڈیٹر میں اردو فونٹ

بلاگر کا  پوسٹ ایڈیٹر انٹرنیٹ کے آثار قدیمہ میں سے ہے۔ گوگل بھی بلاگر کو خرید کر اب بھول چکا ہے۔ کہیں سال بعد اس میں کسی اپڈیٹ کی خبر سنائی جاتی ہے۔ خیر آج یونہی پنگے بازی کرتے ہوئے ہمارے ہاتھ ایک نکی جئی ٹپ لگی۔ سوچا آپ سے شئیر کرتے جائیں۔
بلاگر کے پوسٹ ایڈیٹر میں اردو لکھتے ہوئے دنیا کے بدصورت ترین فونٹس میں سے کسی ایک سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے احباب ونڈوز لائیو رائٹر قبیل کی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ میرے جیسے جو سارا کام براؤزر میں کرنا چاہتے ہیں وہ کہاں جائیں؟ تو ان کے لیے یہ حل ہے کہ بلاگر کے پوسٹ ایڈیٹر میں فونٹ بدل لیں۔ اور اس کا طریقہ بھی بہت سادا سا ہے۔ سیٹنگز سے فارمیٹنگ میں جائیں۔ صفحہ نیچے سکرول کریں تو پوسٹ ٹیمپلیٹ پر نظر پڑے گی۔ وہاں یہ 
کوڈ پیسٹ کرکے محفوظ کردیں۔
<font face="Jameel Noori Nastaleeq", "Nafess Web Naskh", "Urdu Naskh Asiatype", "Tahoma", "Lucida Sans Unicode","Verdana","sans-serif"></font>
 سائن آؤٹ ہو کے پھر داخل ہوں۔ نئی پوسٹ کریں۔ اور آپ کا فونٹ بدل گیا۔ اب یہ لازمًا جمیل نوری نستعلیق ہوگا۔ کم از کم لکھتے ہوئے اچھے فونٹ سے دماغ پر خوشگوار اثرات ضرورت مرتب ہونگے۔ ویسے یہ کوئی بابا قسم کا حل نہیں ہے۔ اس کی بھی حدود ہیں۔ جو آپ پوسٹ لکھتے ہوئے دیکھ لیں گے۔ تاہم نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔

فن پارے

لیجیے جناب فن پارے دیکھیں۔
فن کار کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ لیکن میرا ذوق شاید ریڑھی والوں جیسا ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ تصویریں(؟) دیکھ کر "آلو لے گوبھی لے ٹینڈے لے ٹماٹر لے" کی صدائیں یاد آرہی ہیں جو ہماری گلی میں سبزی والے دیتے ہیں اور شاید اپنے آپ کو شاعر بھی سمجھتے ہیں۔ :/

بدھ، 21 اکتوبر، 2009

موجاں

کل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی پر ہونے والے خودکش حملے کے افسوسناک واقعے کے بعد ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کرئیے گئے ہیں۔ اکثر انھیں ایک ہفتے کے لیے بند کیا گیا ہے لیکن پنجاب حکومت نے تاحکم ثانی بندش کا حکم دیا ہے۔ ہم بھی خاصے غور و خوص کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ آج یونیورسٹی نہ ہی جایا جائے۔ چناچہ یہ موجاں اس سلسلے میں ہورہی ہیں۔ چھٹی :) اس چھٹی کی قیمت بہت بڑی تھی :(
جی سی یونیورسٹی جیسے کہ نام سے ظاہر ہے پہلے ایک کالج تھا۔ اب اس کو ارد گرد کی تھوڑی سی زمین مزید عطاء کردی گئی ہے اور یہاں دو نئے بلاکس بن چکے ہیں جہاں یونیورسٹی کی کلاسز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مزید دو زیر تعمیر ہیں۔ اس نقشے میں آپ کو بہت تازہ ترین تفصیلات تو نہیں ملیں گی لیکن اندازہ ہوجائے گا کہ جی سی یو ایف کا محل وقوع کیا ہے۔

View Larger Map
جی سی یو کے چہار اطراف سڑکیں ہیں۔ اور اس کے چھ گیٹ ہیں۔ پچھلے وی سی صاحب نے دیوار تڑوا کر اس کی جگہ جنگلہ لگوا دیا جس کو باآسانی کہیں سے بھی پھلانگا جاسکتا ہے۔ چھریرے بدن والے اس میں سے گزر بھی سکتے ہیں کئی جگہوں سے۔ یونیورسٹی کی اپنی سیکیورٹی ہے لیکن ان کا مقصد نمائشی ہے۔ جوڑوں کی صورت میں بیٹھے طلباء کو اٹھانا ان کا سب بڑا اور اہم کام سمجھا جاتا ہے۔۔ پچھلے چھ ماہ سے یونیورسٹی کے چھ گیٹس میں سے صرف دو کھلے رہتے ہیں۔ پہلے گیٹ نمبر 1 اور 2 تھے اور اب 2 اور انٹرسیکشن گیٹ ہیں۔ نمبر 2 گاڑیوں کے لیے اور انٹرسیکشن گیٹ پیدل آمدورفت کے لیے۔ موخر الذکر گیٹ کے اردگرد رکشاؤں اور دوسری سواریوں کا ہجوم رہتا ہے اور آنے جانے والوں کا بھی۔ صرف ایک چھوٹا گیٹ کھلا ہوتا ہے لیکن وہاں موجود دو گارڈز جن کے ہاتھ میں ڈنڈا تک نہیں ہوتا اس ساری صورت حال کو کسی ایمرجنسی میں بالکل بھی کنٹرول نہیں کرسکتے۔ چناچہ دو یا تین دن کی ریکی کے بعد مواقع تلاش کرنا کوئی مشکل بات نہیں اور اس کے بعد اللہ تیری یاری ایک عدد سادہ سا خودکش حملہ باآسانی کیا جاسکتا ہے۔
جب گیٹس بند کئے گئے تھے تب سے طلباء کے عارضی کارڈز بھی بنائے گئے ہیں لیکن یہ پچھلے دو تین ماہ سے چیک نہیں کیے جاتے۔ جی سی یو ایف دہشتگردوں کے لیے انتہائی ترنوالہ ہے اور اس کی سیکیورٹی کے انتظامات کے سلسلے میں بہت سی بہتریاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس میں سرفہرت تو بیرونی جنگلے کے گرد خاردار تار لگوانا ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی اسے پھلانگ نہ سکے۔ اس کے بعد یونیورسٹی گیٹ کے قریب پارکنگ کی بالکل بھی اجازت نہ ہو۔ اور اس کے بعد اگلا کام یہ کیا جائے کہ پیدل گزرگاہ کے لیے مخصوص گیٹ پر سیکیورٹی گیٹس مہیا کیے جائیں تاکہ اسلحہ اور بارود چیک کیا جاسکے۔
میری ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ ہماری جانوں پر رحم کریں۔ جی سی یو ایف تو اسلامک یونیورسٹی کی طرح وسیع و عریض بھی نہیں۔ یہاں تو جہاں بھی چلے جائیں طلباء کا رش رہتا ہے۔ کم و بیش دس ہزار طلباء سارا دن جی سی یو ایف میں آتے جاتے ہیں اور ان میں سے پانچ ہزار کے قریب ایک وقت میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم نے نئے بلاکس کی تعمیر میں پچھلے کئی سال سے ہونے والی تاخیر برداشت کرلی، ہم نے یہ برداشت کرلیا کہ کلاس رومز کی کمی ہے، ہم نے اساتذہ کی عدم دستیابی پر بھی سمجھوتہ کرلیا لیکن ہم اپنی جانوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کم از اکم مجھے کوئی شوق نہیں کہ میں ایک عدد خودکش حملے میں جی سی یو ایف جیسی غیر اہم جگہ پر وفات حسرت آیات پا جاؤں۔ بندہ کوئی وڈہ سارا کم کردا ہویا فوت ہوئے یار۔

جمعہ، 9 اکتوبر، 2009

دل بولے ہڑپہ

لو جی آج ہمارے پاس کچھ وقت تھا تو ہم نے انڈین مووی دل بولے ہڑپہ دیکھی۔ لگان، چک دے انڈیا وغیرہ کی طرح ایک اور کھیل کے گرد گھومتی کہانی اور اس بار پھر سے کرکٹ۔ اور کرکٹ بھی انڈیا پاکستان کی۔ اچھی کہانی ہے لیکن جگہ جگہ یہ لگتا ہے کہ فلمی کہانی ہے۔ اتفاقات اتنے ڈھیر سارے ہیں جن میں رانی مکھر جی کے مردانہ کیرکٹر سے لے کر اس کے شاہد کپور سے ملنے تک کئی واقعات شامل ہیں۔ مووی کا اختتام خاصا جذباتی ہے۔ جیسا کہ بالی وڈ کی فلموں کا خاصا ہے۔ جذبات میں لتھڑا ہوا یہ دی اینڈ بہت سے ننھے ننھے جھول بھی لیے ہوئے ہے۔ جیسے  میچ میں شاہد کپور کے ہاتھ ہیروئن کے مرادانہ گیٹ اپ کا حصہ اس کا لینز آجاتا ہے جبکہ مونچھ داڑھی نہیں آتی حیرت کی بات ہے۔ یعنی ہیرو جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس کر لینز نکال لاتا ہے گویا۔
20 20 میچ میں پاکستان کے دو سو سے زیادہ رن کا پہاڑ کھڑا کروایا گیا اور پھر اسے بڑے سٹائل سے آخری تین چار اورز میں پورا کروایا گیا۔ لمبی چھوڑی ہے فلم لکھنے والے نے بھی۔ بہرحال جی اچھی فارمولا فلم تھی دو گھنٹے اچھے گزر گئے۔
آپ کے سر سے اگر یہ پوسٹ گزر گئی ہو تو معذرت کے ساتھ۔ آپ پہلے اوپر دئیے گئے ربط سے فلم اتاریں، دیکھیں اور پھر اس پوسٹ کو پڑھیں۔ چونکہ ہم نے پہلے کسی فلم پہ تبصرہ نہیں کیا اس لیے آپ کو عجیب سا لگ رہا ہوگا۔ ;)
سمجھ لیں دل کا ساڑ نکالا ہے۔ کمبختوں نے ملوانا ہیرو ہیروئن کو تھا پاکستان کو ایویں گھسیڑ دیا بیچ میں اور اسے بھی آخر میں ہروا دیا۔ لے دس جاتے جاتے ایک اور بات ہیروئن کھڑی لاہور میں ہے اور مثالیں دئیے جاتی ہے اندراگاندھی اور رانی جھانسی کی۔ لے دس تماشائی تو پاکستانی ہیں تم ان سے مخاطب ہو یا فلم دیکھنے والوں سے۔ غالبًا فلم دیکھنے والوں سے ہی مخاطب ہوگی۔ خیر تسیں فلم دیکھو۔ :)

جمعرات، 8 اکتوبر، 2009

بدھ، 7 اکتوبر، 2009

جونئیررز

ہماری یونیورسٹی کے نئے سمسٹر کی کلاسز شروع ہوگئی ہیں۔ اس بار نئے داخلے بھی ہوئے ہیں تو ہم سینئیر ہوگئے ہیں اور ایک عدد کلاس ہمارے نیچے بھی آگئی ہے بنام جونئیرز۔ بات کرنے سے پہلے میں تھوڑا سا تعارف کرواتا چلوں۔ ہمارے ہاں دو قسم کی کلاسز ہوتی ہیں۔ ایک بی ایس آنرزلنگوئسٹکس کی چار سالہ کلاس۔ اور ایک عدد ایم ایس سی اپلائیڈ لنگوئسٹکس کی دو سالہ کلاس۔ اول الذکر میں طلبا بارہ پڑھ کر آتے ہیں اور موخر الذکر میں بی اے کرکے یعنی چودہ پڑھ کے۔ اب ان دو کورسز کے لوگوں کے مابین فرق بھی قدرتی ہے۔ بی ایس والے زیادہ فعال ہوتے ہیں، زیادہ بے تکلف اور بے فکرے۔ چونکہ انھوں نے چار سال رہنا ہوتا ہے تو اساتذہ کے ساتھ بھی ان کی اچھی سلام دعا ہوتی ہے۔ یہ لوگ یونیورسٹی لائف سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔ جی سی یو ایف میں مخلوط طرز تعلیم ہے چناچہ یہ لوگ اس ماحول سے بھی اچھی طرح مانوس ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایم ایس سی کے طلباء ہیں جو چودہ سال کسی بوائز یا گرلز کالج میں پڑھ کر آتے ہیں۔ ان میں پرائیویٹ بی اے کرنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ چناچہ ان کا یہ سماجی و تعلیمی پس منظر ان میں تھوڑی سی جھجک پیدا کردیتا ہے۔ انھوں نے صرف دو سال رہنا ہوتا ہے چناچہ یہ آنرز کے طلبا کے زیر سایہ رہ کر گزار دیتے ہیں۔ یہ لوگ مخلوط طرز تعلیم سے آشنا نہیں ہوتے چناچہ شروع میں لڑکیوں اور لڑکوں میں جھجک پائی جاتی ہے اور بطور کلاس یہ آپس میں کبھی بھی ویسے نہیں ہوسکتے جیسے آنرز کے طلباء چار سال کے عرصے میں ہوجاتے ہیں۔
یہ تو دو انتہائیں تھیں جن کا ذکر اس پوسٹ کے لیے ضروری تھا۔ (چلتے چلتے یہ بات بھی ہوجائے کہ چار سالہ آنرز اور دو سالہ ایم ایس سی کی اسناد برابر تصور کی جاتی ہیں اور انھیں کسی بھی ادارے میں مساوی درجہ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ بہت سے احباب کے علم میں یہ بات ہوگی پہلے سے۔ چلیں اب موضوع کی طرف آتے ہیں۔)
موضوع ہے جونئیرز کو خوش آمدید کہنا اور ان کی فُولنگ کرنا۔ ہماری کلاسیں اسی ہفتے شروع ہوئی ہیں اگرچہ ابھی تک یہ بہت زیادہ باقاعدہ نہیں لیکن شروع ہوگئی ہیں۔ میں اپنی کلاس کا سی آر بھی ہوں تو ہم یہ پلان کررہے تھے کہ اپنے جونئیرز کو ویلکم کریں۔ لیکن ہمارے یہ سارے پلانز دھواں بن کر اس وقت اڑ گئے جب آج ہم وہاں پہنچے۔ قصہ سادہ سا ہے کہ ہمارے آنرز کے دوستوں نے ہمارے سوچتے سوچتے اس پر عمل کرڈالا۔ آنرز کی کلاسز صبح ساڑھے آٹھ سے ساڑھے بارہ ہوتی ہیں۔ انھوں نے پہلے آنرز فرسٹ سمسٹر کے طلباء کو ویلکم کہا اور پھر ان سے ان کا تعارف لیا۔ اب یہ تعارف کیسا تھا بس سمجھ لیں خاصا ان کمفرٹ ایبل قسم کا تعارف تھا۔ ایک ایک طالب علم کو سامنے بلایا جاتا، اس کا تعارف پوچھا جاتا اور پھر اس سے کچھ الٹے سیدھے سوالات کیے جاتے اس دوران ضمنی طور پر جگتیں اور فقرے بازی بھی چلتی رہتی۔ سنا ہے کہ کچھ طلباء واک آؤٹ بھی کرگئے۔ بے چارے :) ان کے ساتھ بہت اچھی نہیں ہوئی۔
صاحب اب ہماری انٹری ہوتی ہے تو آنرز والوں سے نمٹا جاچکا ہے اور ہمارے جاتے ہیں آنرز کے سینئیرز ہمیں لے کر ایم ایس سی کی کلاس میں جاگھسے۔ اس کے بعد آنرز کے جونئیرز والا سین یہاں بھی دوہرایا گیا۔ ہماری قریبًا آدھی کلاس مع مابدولت وہاں موجود تھی۔ اس سارے میں ہم نے بھی حصہ لیا لیکن سو میں سے بیس یا تیس فیصد کہہ لیں۔ چونکہ ہمیں رحم آجاتا تھا لیکن آنرز والے احباب نے کسی کو بھی نہیں بخشا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ماسٹرز کے جونئیرز آخرمیں اچھے خاصے غصے ہوچکے تھے۔ چونکہ لسانیات کو آرٹس کے تحت سمجھا جاتا ہے اس لیے یہاں لڑکیاں عمومًا زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کلاس میں بھی لڑکیاں زیادہ تھیں چناچہ انھوں نے اس بات کا خاصا برا منایا کہ ان پر فقرے بازی ہورہی ہے یا انھیں زبردستی شعر سنانے وغیرہ وغیرہ پر مجبور کیا جارہا ہے۔
اب بات کرتے ہیں میرے نکتہ نظر کی۔ اوپر جو سماجی پس منظر بیان کیا گیا ہے اس کی وجہ سے (میری نظر) میں ہمارے آنرز کے احباب کو یہ بات بالکل بھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ بعض جگہ زیادتی کررہے ہیں۔ جبکہ یہ بات میں نے بہت زیادہ محسوس کی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ وہی سماجی پس منظر تھا چونکہ یہ احباب پچھلے تین یا دو سال سے ہیں اس لیے وہ اس بے تکلفی کو روٹین کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ ایک بی اے کرکے آنے والا لڑکا یا لڑکی جس نے اپنی ساری عمر مخلوط طرز تعلیم میں تعلیم حاصل نہیں کی اس بات کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی بے عزتی کی جارہی ہے اور صنف مخالف کے سامنے بے عزتی کی جارہی ہے۔ چناچہ ان میں عزت نفس مجروح ہونے کا احساس بہت شدید ہوتا ہے جسے ہمارے آنرز کے احباب محسوس نہیں کرسکے۔ ہم ایم ایس سی سینئیر نے یہ بات محسوس بھی کی تو ہم ان کو روک نہیں سکے۔ وجہ وہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ذرا دبا دبا سا محسوس کرتے ہیں یا ہمارے آنرز والے دوست مسلط ہونے کی زیادہ خوبیاں رکھتے ہیں۔ بہرحال صاحب بات یہاں پہنچی کہ اس سارے ڈرامے کے بعد جب ہم نے بعد میں اپنی کلاس میں یہ بیٹھ کر ڈسکس کیا تو میرا پہلا تبصرہ یہ تھا کہ یہ بہت زیادہ ہوگیا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ واقعی آنرز والے احباب زیادہ ہی کرگئے۔ لیکن کچھ کے خیال میں ایسا ہونا چاہیے تھا یہ یونیورسٹی لائف کا حصہ ہے۔
اس سارے واقعے کی وجہ سے آج میں اچھا خاصا ٹینشن میں رہا اور مجھے اپنے ان مذاق اڑاتے فقروں پر بھی شرم آئی۔ اگرچہ وہ کچھ اس قسم کے تھے کہ دونی کا پہاڑہ سناؤ، نصیبو لعل کے کسی گانے کو انگریزی میں ٹرانسلیٹ کرو ( یہ لڑکے کو کہا گیا تھا) وغیرہم۔ تو جناب ہم نے جذباتی ہوکر یہ سوچا کہ کل جاکر اپنے ایم ایس سی فرسٹ سمسٹرز کے دوستوں سے معذرت بھی کریں اور انھیں اپنی کلاس کا تعارف بھی کروائیں اور ساتھ ویلکم بھی کردیں۔ اس سارے میں سے معذرت والی بات میرے ہم جماعتوں کو پسند نہیں آئی جبکہ باقی سب وہ کرنے کو تیار تھے۔ چناچہ ہم نے بھی اس کو فہرست سے نکال دیا۔ اب ہم کل جاکر انھیں اپنی طرف سے ویلکم کہیں گے اور اپنا تعارف دیں گے چونکہ ان کا تو آج لے ہی چکے :D
اس ساری رام کہانی کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ سے رائے لی جائے۔ اوپر بیان کردہ واقعات آپ کے خیال میں ٹھیک تھے؟ اور کیا ہمیں یعنی ایم ایس سی تھرڈ سمسٹر کو معذرت کرنی چاہیے؟ یا یہ انٹروڈکشن لینا اور فُولنگ کرنا یونیورسٹی لائف کا حصہ ہے اور یہ ہر سینئیر کا پیدائشی حق ہوتا ہے؟ یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ ہم نے فولنگ کے اس سے بھی بدترین واقعات سن رکھے ہیں۔ اگرچہ ہمارے والے قصے میں فولنگ کی شدت بہت کم تھی لیکن ہمیں یہ ڈر ہے کہ ہمارے ایم ایس سی فرسٹ کے محترم دوست اس بات کو اپنی عزت نفس مجروح کرنا نہ سمجھ لیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ ایسا ہونا چاہیے؟ یہ غلط ہے یا ٹھیک ہے؟ ہمارے واقعے میں یہ ٹھیک ہوا؟ یا غلط ہوا؟ یا اس پر معذرت کی جائے؟ یا ایسے ہی رہنے دیا جائے چونکہ ایسی چیزیں سینئیرز اور جونئیرز میں بے تکلفی بڑھاتی ہیں؟ اور ان میں اعتماد پیدا کرتی ہیں؟
آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔
وسلام

اتوار، 4 اکتوبر، 2009

چینی کا بحران اور عدلیہ

میرے کچھ احباب کو یہ بات بڑی چبھ رہی تھی کہ عدلیہ بحال ہوگئی اور کام اس نے ٹکے کا بھی نہیں کیا۔ پچھلے ایک ماہ سے جاری کشمکش، اپیلوں، رِٹس اور تاریخوں کے بعد آخر کار سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دے ہی دیا کہ وہ چینی 40 روپے فی کلوگرام کا نوٹس جاری کرے۔ ملاحظہ ہو خبر

آخر کار سپریم کورٹ نے حکومت اور سرمایہ داروں کے حلقوم پر ہاتھ رکھ ہی دیا۔ لیکن اس سب کا فائدہ کیا ہوگا؟
اس کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سسٹم ٹھیک نہ ہو۔ لوگ عدالتوں میں بیٹھنے والوں کو فرعون کہنے لگے ہیں، اسے طرح طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں پچھلے کئی دنوں سے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ جو عدلیہ آزاد ہوئی ہے تو یہ کتنی آزاد ہوئی ہے۔ صاحبو کئی دن تک اپنے پی ون پروسیسر جیسے دماغ کو زحمت دینے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ گن کے پانچ عدالتوں کے جج اگر ٹھیک کام کر بھی رہے ہیں تو ان سینکڑوں ماتحت عدالتوں کا کیا جو اب بھی ویسے ہی کام کررہی ہیں؟ جناب مسئلہ سسٹم میں ہے مسئلہ عدلیہ کی آزادی میں نہیں۔ وہ تو جو ہونا تھا ہوگیا اور بہترین ہوگیا۔ اب آگے کام ہے سسٹم کو ٹھیک کرنا۔
عدلیہ آزاد ہوگئی۔ عدلیہ ازخود نوٹس بھی لے رہی ہے۔ عدلیہ سماعتیں بھی رکرہی ہے۔ لیکن بات پھر یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کس نے کرانا ہے؟ ٹھیک سمجھے! انتظامیہ نے۔ اور انتظامیہ اگر نہ عمل کرنا چاہے تو کون مائی کا لال اسے روک سکتا ہے؟ پاکستان کی نوکر شاہی کے تاخیری حربے تو ویسے بھی کلاسکس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بات اتنی سی ہے کہ گنتی کے چند لوگ جو عدالتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جادو کی چھڑی سے سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ بھی عمل ہونا چاہیے۔ ہم نے سمجھا کہ عدلیہ ٹھیک ہوگئی تو سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ پھول نگر کے واقعے پر کسی بلاگر نے عدلیہ کو کوسنے دیے، اہم مقدمات کی لمبی لمبی تاریخیں دینے پر گل افشانیاں کی گئیں۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ عدلیہ کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔ ان ججوں کی بھی حدود ہیں۔ انتظامی بھی اور انسانی بھی۔ کتنے مقدمات کی سماعت کرلیں؟ آخر کتنے؟ آخر انھوں نے اپنے خاندان کو بھی وقت دینا ہے اور خود آرام بھی کرنا ہے۔ یہاں تو ہر دوسرا واقعہ ازخود نوٹس کا متقاضی ہے کیا کیا کر لیں عدالتیں۔ یہ تو ان کی مہربانی ہے کہ چینی بحران جیسے ایشو پر ہی ایکشن لے رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چینی مافیا کے پاس ابھی کارڈز کا یہ بڑاسارا ڈھیر ہے جسے کھیل کر وہ بڑے آرام سے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ان میں سرفہرست ملوں کی بندشن اور مل مزدوروں کی "سپانسرڈ" ہڑتالیں ہیں۔ یہی ہڑتالیں کسانوں سے بھی کروائی جاسکتی ہیں جن کی فصل کھیتوں میں تیار کھڑی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے گوڈوں میں پانی ہے یا نہیں۔ کیا وفاقی حکومت یا کم از کم حکومت پنجاب جس نے ملوں پر پولیس تعینات کردی ہے ملوں کو اپنی تحویل میں لے کر چلوا سکے گی؟ کیا یہ لوگ اتنے قابل ہیں؟
اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ افتخار چوہدری خود آکر ملیں بھی چلوانا شروع کردے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ عدالتوں کو کوسنے کے بعد معاشرےکو بھی دیکھیں وہاں کیا کیا ہے جو عدالتیں نہیں کرسکتیں۔ کسی بھی صورت نہیں۔ چونکہ عدالتی کاروائی ریکارڈ اور گواہوں کی محتاج ہے۔ اس کا ایک طریقہ کار ہے جو کم از ہمارے موجودہ حالات میں بہت وقت طلب کام ہے۔ جب کہ ہمیں انتظامی سطح پر ایسی ہی بحالی درکار ہے جیسی عدالتوں میں ہوئی۔
باقی ساڈا کی جاندا اے۔ جتھے چار گالاں کڈدے او اوتھے اٹھ کڈو۔ نہ عدالتاں دا کچھ جانا اے تے نا حکومت دا۔ سب نے چلدیا رہنا۔ اساں تُساں کڑھدیاں رہنا تے زندگی ٹردی جانی اے۔

اتوار، 27 ستمبر، 2009

جیت مبارک ہو

کل صبح مجھے ایک ایس ایم ایس آیا جس میں بڑے صدق دل سے دعا کی گئی تھی کہ پاکستان میچ جیت جائے۔ کہ یہ میچ نہیں اصل میں جنگ ہے اور پاکستان کو یہ جنگ جیتنا ہوگی۔ نیچے بڑے جذباتی قسم کے نعرے درج تھے۔ میں نے وہ ایس ایم ایس ایک نوٹ کے ساتھ آگے ارسال کردیا کہ ہاں پاکستان کو یہ جنگ جیتنا ہوگی چاہے بلوچستان، کشمیر اور پانی کے محاذ پر ہار جائے۔
ابھی دو دن قبل یہ خبر پڑھی ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔
مظفر آباد ۔ بھارتی آبی جارحیت پر پاکستان و آزاد کشمیر کے حکمران ، سیاست دان اور ادارے مکمل خاموش ، دریائے جہلم نالہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جنوری فروری میں مکمل سوکھنے کا خدشہ ، پنجاب ، سندھ اور میرپور ڈویژن کی ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین بنجر ہونے کے علاوہ آزاد خطہ میں ماحولیاتی تبدیلیاں بھی متوقع ۔ دریائے جہلم و نیلم کے پانیوں سے بھارتی مشرقی پنجاب اور ہریانہ کی زمینیں سیراب کرنے کی منصوبہ بندی حتمی مراحل میں داخل ۔ حریت قائدین سید علی شاہ گیلانی ، بھارت نواز فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی پاکستان کو پانیوں سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی پر متفکر ، آزاد خطہ کے سیاست دان مطمئن و مسرور ۔ تفصیلات کے مطابق بھارت ، اسرائیل ، فرانس کے تعاون اور ان کی ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان و آزاد خطہ کو پانیوں سے محروم کرنے کے لیے 62 منصوبوں پر کام کا آغاز کر چکا ہے۔ 12 منصوبے تکمیل کے قریب ہیں ان منصوبوں کے ذریعے دریائے جہلم و نیلم میں ایک قطرہ بھی آزاد کشمیر میں داخل نہیں ہو سکے گا بھارت سرنگ کے ذریعے دونوں دریاؤں کا پانی جموں ، گورداسپور اور مشرقی پنجاب ، ہریانہ پہنچانے کے لیے دن رات کوشاں ہے وولر بیراج کے فنکشنل ہونے سے دریائے جہلم کا پانی معمول سے کئی گنا کم ہو گیا ہے ۔ گرمیں کے موسم دریائے جہلم میں سطح آب سردیوں کے موسم سے بھی کئی گنا کم ہے ۔ آمدہ سردیوں میں دریائے جہلم کا خشک ہونا تقریبا ً طے ہے ۔ وادی جہلم کے ہزاروں افراد اس صورت حال پر پریشان ہیں ۔ دریائے نیلم کا پانی کشن گنگا کے ذریعے منتقل کیا جارہا ہے ان دونوں دریاؤں کے خشک ہونے سے پاکستان و آزاد کشمیر میں شدید غدائی بحران پیدا ہونے کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہوں گی ۔ انتہائی باعث تشویش امر ہے کہ دریا سوکھ رہے ہیں مگر پاکستان و آزاد کشمیر کے حکمران دینی ، سیاسی جماعتوںکے قائدین ملکی دفاع ، اور مفاد میں فیصلے کرنے والے اداروں سمیت ہر وقت یہاں تک کہ عوام کی بڑی تعداد خاموش ہے۔ سیاسی قائدین جنہیں قوم کی راہنمائی کرنی ہوتی ہے مخصوص مفادات کے اسیر ہیں اور پنجاب سندھ اور میرپور ڈویژن ریگستانوں میں بدلنے جا رہاہے مقبوضہ کشمیر کے پیشتر سیاست دان اس صورت حال پر متفکر ہیں ۔ سید علی گیلانی کے علاوہ بھارتی وزیر فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی روکنے کے اقدامات کی مذمت کر چکے ہیں ۔ حریت قائدین سید علی گیلانی اور محبوبہ مفتی نے سندھ طاس معاہدہ ختم کر کے پانیوں پر کشمیریوں کا حق ملکیت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق حکومت پاکستان و آزاد کشمیر نے اگر اس صورت حال کے تدارک کے لیے فوری لائحہ عمل مرتب نہ کیا تو آئندہ 5 سالوں میں ان دریاؤں کے نشانات ہی باقی رہیں گے
تفصیل میں جانے کا دل نہیں کررہا تو اتنا بتائے دیتا ہوں بات وہی پرانی ہے کہ انڈیا نے ہمارا پانی روک لیا۔ اس طرح کی خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ لیکن چونکہ ہمیں "اصلی تے وڈی" فتح چاہیے ہوتی ہے جس پر بھنگڑے بھی ڈالے جاسکیں اور کرکٹ ایسے تمام نتائج  دیتا ہے اس لیے ہمیں یہ فتح مبارک ہو۔ پانی کا کیا ہے چند لاکھ ایکڑ اراضی ہی بنجر ہونے جارہی ہے وہ بھی ابھی کئی سال پڑے ہیں اللہ خیر کرے گا۔ کوئی سلسلہ بن ہی جائے گا نا۔ ہمیں میچ جیتنے کی خوشی منانی چاہیے۔ بلوچستان کا کیا ہے اللہ خیر کرے گا بلوچستان کہیں نہیں جارہا ادھر ہی ہے۔ اور کشمیر پہلے کونسا اپنے پاس تھا باسٹھ سال سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا چھنکنا ہی بجا رہے ہیں ہم۔
تو صاحبو آپ کو ایک اور "فتح" مبارک ہو۔ لیکن جاتے جاتے ایک بات، کہیں اس فتح اور ایسی دوسری "فتوحات" (یہ فتوحات صوفیوں والی نہیں جس کا مفہوم چندے کی صورت میں نکلتا ہے) کی قیمت ہم کسی اور میدان میں ہار کر تو ادا نہیں کررہے۔ ذرا سوچیے گا ضرور۔

اتوار، 20 ستمبر، 2009

عید مبارک

اگر آپ اتوار والے دن عید نہیں کرچکے تو آپ کو عید کی ڈھیر ساری پیشگی مبارکباد۔ دوسری صورت میں لیٹ مبارکباد و معذرت۔
اللہ کریم آپ کو آپ کے خاندان اور تمام امت اسلامیہ کو خوشیاں اور نعمتیں عطاء فرمائے اور ہمیں ہدایت نصیب کرے۔
آمین۔
وسلام

جمعہ، 18 ستمبر، 2009

اک واری فیر

محمد سعد بڑا محنتی بچہ ہے۔ سر نیچے کرکے لگا رہتا ہے۔ اس نے پہلے اردو کوڈر پر ایک سائنسی فورم بنایا۔ اردو کوڈر فورم کی دیسی ہوسٹنگ اڑنے کے ساتھ ہی بے چارہ فورم بھی فوت ہوگیا۔ اس کے بعد اب اردو کوڈر اردو ویب کی فراہم کردہ سپیس اور اپنے ڈومین پر چل رہا ہے۔ محمد سعد نے ایک بار پھر اردو کوڈر کو عزت بخشی ہے۔ اس بار پی ایچ پی بی بی کی بجائے دروپل کو استعمال کرکے ایک عدد پورٹل اور فورم ویب سائٹ بنائی گئی ہے۔ سعد پچھلے ڈیڑھ سال سے دروپل کو رام کرنے کوشش کررہا ہے آخر کار پچھلے دنوں محمد نبیل نقوی مدظلہ چیف ہنٹر اردو سافٹویرز اردو ویب محفل براستہ جرمنی کی نظر کرم سے دروپل کو خاصی حد تک اردو کرچکا ہے۔ چناچہ اب یہ ویب سائٹ خاصی اچھی لگ رہی ہے۔ اس پر موجود دروپل کا روایتی نشان مجھے پنجابی والے شلیڈے کی یاد دلا رہا ہے (جن کا شرارتی بچہ) اور یہ جن بچہ سعد کی صورت میں ہمارے مابین موجود ہے۔
سعد کا فورم ایک بار پھر حسب روایت "اردو کا پہلا" سائنسی فورم ہے۔ چونکہ ابھی اگلے دس سال تک بھی"اردو کا پہلا" فلانا فلانا فورم قسم کے فارمولا ناموں کی گنجائش ہے اس لیے آپ بے فکر رہیں اور فی الحال اردو کے اس پہلے فورم کو رونق بخشیں۔
امید ہے کہ اب یہ فورم فوت نہیں ہوگا اور سعد اس پر ایک اچھی سائنسی برادری قائم کرنے میں کامیاب رہے گا۔
بہت مبارکباد میاں فورم کی ازسر نو شروعات پر۔

ہفتہ، 12 ستمبر، 2009

پورٹیبل

لو جی اب طالبان پورٹیبل ہوگئے ہیں۔ سوات ہو یا پشاور جیل آپ کو ہر جگہ ایک جیسے نتائج ملیں گے۔

منگل، 1 ستمبر، 2009

؟

یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے بڑی سکیم کے ساتھ ہورہا ہے۔ اوپر والی خبر تو آپ نے پڑھ لی ہوگی۔ اس سے پہلے بھی تین قوم پرست رہنماؤں کو قتل کیا جاچکا ہے اور اب ایک اور۔۔۔ اس وقت بھی الزام لگا تھا کہ یہ ایجنسیوں کا کام ہے اور اب بھی یہی الزام لگے گا۔ ہڑتال ہوگی اور لعن طعن اور بی ایل اے جیسے اور مضبوط ہوجائیں گے۔ یہ کون کررہا ہے؟ ایجنسیاں اتنی بے وقوف ہیں؟ کہ وہ مسلسل ایسا کرتی جارہی ہیں جبکہ انھیں پتا ہے کہ یہ سب علیحدگی پسندوں کو طاقت فراہم کرے گا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر کون ہے؟ کوئی سازش؟ کوئی سازش ہے تو اس کا تدارک کیوں نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان آہ بلوچستان۔۔۔ آدھا پاکستان

جمعرات، 27 اگست، 2009

اوقات پر واپسی

مشرف دور کے آخری دن تھے اور پوری قوم آٹے، چینی، گھی کے لیے ترس رہی تھی۔ ایسی صورت میں جن لوگوں کی چاندی ہوئی ان میں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن آف پاکستان بھی شامل ہے۔ اس ادارے نے سستی اشیاء کی فراہمی کی آڑ میں عوام کو گھی کے ساتھ ڈیٹول، چینی کے ساتھ ٹوتھ پیسٹ اور آٹے کے ساتھ قورمہ مصالحہ تک بیچ دئیے(۔ثبوت کے لیے آخری تصویر ملاحظہ ہو) یہی پچھلے سال کی بات ہے۔ مارچ 2008 کی کچھ تصاویر جن میں فیصل آباد کے ایک یوٹیلٹی سٹور پر گھی کے لیے لگی ہوئی قطاریں اور رش۔ یہ اس یاد دھانی کے لیے کہ یہ چینی اور آٹے کا بحران ہمارے لیے نیا نہیں۔
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
From آوازِ دوست
ہماری یادداشت بہت کمزور ہے۔ خاص طور پر حکمرانوں کو تو ہم ان کے جانے کے فورًا بعد ہی معاف کردیتے ہیں۔ کچھ محفلوں میں یہ سننے کو ملا کہ اس سے اچھا تو مشرف کا دور تھا۔ بس آخری دور میں اس کے خلاف سازشیں ہوئیں یہ مہنگائی بھی اسی کا نتیجہ تھی۔ اور یہ کہ اب پھر سے مشرف آوے ای آوے۔ یہ پوسٹ اور تصاویر اپنے آپ کو بھی اور اپنی قوم کو بھی یاد دہانی کرانے کے لیے کہ حالات اس وقت بھی ایسے ہی تھے جیسے اب ہیں۔ تھوڑے سے بدتر کرلیجیے۔ عوامی حکومت نے بھی کچھ نہیں دیا سوائے طفل تسلیوں کے۔ ہاں بجلی مل جائے گی لیکن دعا کیجیے اس بجلی کو استعمال کرکے بل دینے کے قابل بھی رہ جائیں آپ۔ یہ کرائے کے پاور پلانٹ ایک طرف حاکموں کے کمیشن کا ذریعہ ہونگے دوسرے پی پی پی نے نوے کی دھائی والا سین دوہرایا ہے یہاں۔ آئی پی پیز کی طرح یہ بھی گلے کی ہڈی بن جائیں گے نہ نگلی جائے گی نہ اگلی جائے گی۔ مہنگی ترین بجلی خریدنے کے معاہدے کرکے یہ تو رخصت ہوجائیں گے ہمارا ککھ نہیں رہے گا۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔

جمعہ، 21 اگست، 2009

کچن کچن

  • کچن میں جارہے ہیں تو جانے سے پہلے اپنی آستینیں ٹانگ لیں۔ شلوار یا پتلون کو اونچا کرلیں اور دایاں پیر بسم اللہ پڑھ کر اندر رکھیں۔ 
  • سب سے پہلے برتنوں کی طرف دیکھیں آپ کو کئی قسم کے برتن نظر آئیں گے جیسے پتیلا، کُجا، ساس پین، فرائی پین، کولا، گلاس وغیرہ۔ اپنی پسند کے کوئی سے تین برتن منتخب کرلیں اور اس کے ساتھ ایک برتن ہماری پسند کا بھی منتخب کرلیں یعنی ایک عدد پتیلی۔
  • اس کے بعد کھانے کی چیزوں کی طرف آئیں۔ مصالحوں میں سے حسب ضرورت و حسب پسند جو بھی پسند ہو نکال کر سامنے رکھ لیں۔ اگر سمجھ نہ آرہی ہو کہ کونسا مصالحہ ہے تو سونگھ کر دیکھ لیں۔ جیسے مرچوں کی نشانی یہ ہے کہ سونگھنے سے آپ کو شدید قسم کا کھانسی کا دورہ پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اجزائے خوردونوش میں سے پیاز، ٹماٹر، ادرک، لہسن اور ایسے جو بھی نام ذہن میں آئیں ایک ایک کلو منگوا کر اپنے سامنے رکھ لیں۔ شاپرز سے نکالیں مت ورنہ دیکھنے والے یہ سمجھیں گے کہ آپ ختم شریف دینے جارہے ہیں۔ اچھا صاحب آپ نے اپنی مرضی کرلی ہماری مرضی بھی کردیکھیے تھوڑی سی، آدھا کلو آلو لیجیے اور ان کو ایک لیٹر پانی میں ڈال کر اور دونوں کو پتیلی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔
  • اب چونکہ آنچ ہلکی ہے اس لیے تسلی سے بیٹھیں، لہسن چھیل لیں، پیاز کاٹ لیں۔ ننھے کا سویٹر بن لیں یا گُلو کو پڑھا لیں۔ امید ہے دو گھنٹوں کے اندر آلو اُبل جائیں گے۔
  • آلو ابل جائیں تو ان کو نکال لیں۔ ٹھنڈا کرلیں۔ فرج میں رکھیں یا ٹھنڈے پانی میں یہ آپ کی مرضی۔ اس کے بعد ان کو چھیل لیں۔ چھیل کر کاٹ لیں۔ کاٹیں ایسے جیسے گلاب کا پھول کٹتا ہے۔ چونکہ ہم آپ کو یہاں سکھا نہیں سکتے اس لیے کوکب کا دسترخوان جیسی کوئی کتاب لے کر اس میں سے سلاد کاٹنے والے حصے سے کوئی اچھا سا ڈیزائن منتخب کرلیں۔ اچھا تو اسے کاٹ لیا؟ اب آپ نے مصالحوں میں سے نمک پسند کرنا ہے۔ اسے ایک کولی میں نکالیں اور آلو پر نمک لگا کر مزے لے لے کر کھائیں۔
امید ہے آپ کو آج کی ترکیب پسند آئی ہوگی۔ اگر نہیں آئی تو کوکب کا دسترخوان تو آپ لا ہی چکے ہیں اس پر سے کچھ بھی پسند کرکے پکا لیں اور ہمیں دعائیں دیں۔

اردو بلاگنگ

فدوی اس میدان کا پرانا کھلاڑی ہے۔ سمجھ لیں کہ آثار قدیمہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اردو بلاگنگ کے بابے نبیل، دانیال، زکریا ، قدیر احمد، نعمان وغیرہ کو دیکھ کر بلاگنگ کا خیال آیا اور غالبًا 2006 کے شروع یا 05 کے آخر میں بلاگ بنا لیا تھا۔ پہلے بلاگر پر رہا پھر ایک فری ہوسٹ پر منتقل کیا پھر اردو کوڈر پر رہا اور اب پھر بلاگر پر واپس ہے۔ اس دوران نام بھی بدلا کام بھی بدلا کبھی لکھنا چھوڑا کبھی بہت زیادہ لکھا قصہ مختصر یہ کہ ایک ٹُٹا پجا سا بلاگر ہوں اور اردو کا بلاگر ہوں۔ شروع میں بلاگ پر لکھنے کے لیے گھنٹوں سوچا کرتا اور بہترین لکھنے کی کوشش کرتا پھر احساس ہوا یہ تو آنلائن ڈائری ہے جو مرضی لکھو بلکہ بکواس کرو اور بھول جاؤ۔ چناچہ اب اگرچہ بکواس نہیں کرتا تو زبان سے پھول بھی نہیں جھڑتے۔
ایک وقت تھا جب ٹیکنالوجی پر لکھا، ورڈپریس پر لکھا، لینکس پر لکھا لیکن اب وقت ہی نہیں ہے ورنہ دل تو بہت کرتا ہے کہ بہت کچھ لکھا جائے۔ اب تو بہت رونق شونق ہوگئی ہے اور اردو بلاگنگ کی بیٹھک بہت بڑی ہوتی جارہی ہے۔ لسانیات کا طالب علم ہوں اور اردو کا بولنے والا ہونے کے ناطے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ زبان کا خیال رکھیں۔ اردو کے سپیل چیکر دستیاب نہیں ،ہیں بھی تو ڈیفالٹ تنصیب میں نہیں ملتے ،مل بھی جائین تو ہم انسٹال نہیں کرتے ،کر بھی لیں تو انگریزی سے اردو میں ہر بار سوئچ کرنا مسئلہ لگتا ہے۔ کئی سارے مسائل ہیں لیکن اگر ان مسائل کو تھوڑی سی توجہ سے حل کیا جاسکتا ہے۔انگریزی استعمال کرتے ہوئے ہم سیپلنگ کا بہت خیال کرتے ہیں اردو لکھتے ہوئے بھی ہجوں اور املاء کا خیال کرلیا کریں۔ لوگ ذ کو ز لکھ جاتے ہیں ح کو ہ لکھ جاتے ہیں اچھے خاصے لفظ کو بچوں کی طرح ص کی بجائے س سے لکھ جاتےہیں۔ یہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں یہ تاریخ ہے اور ہماری آئندہ نسلوں کا ورثہ۔ اگر ہم نے اردو کی معیار بندی نہ کی تو بہت نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ خدارا اپنی زبان کو بچائیں۔ اب تو بار بار ایک بلاگ پر ہی املاء کی غلطیاں نکالنے کے لیے تبصرہ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ احباب ناراض نہ ہوجائیں۔ بس شرم آتی ہے۔ بخدا دو تین املاء کی غلطیاں دیکھ لوں تو اکتا کر پوسٹ کو ایسے ہی چھوڑ دیتا ہوں پڑھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ آپ احباب سے یہ التماس ہے کہ خدارا تحریر کو ایک بار لکھ کر پڑھ لیا کریں۔ اس کی نوک پلک سنوار لیا کریں کم از کم املاء کی غلطیاں تو ٹھیک کرلیا کریں۔ کسی بھی زبان کا رسم الخط اور اس کا صوتی یعنی فونیٹک سسٹم اس کی بنیاد ہوتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو بچا لیا جائے تو زبان کبھی نہیں مرتی۔ اپنی زبان کو مرنے نہ دیں۔
وسلام

جمعرات، 20 اگست، 2009

تعلیم؟

ہفتہ بلاگستان کے سلسلے کی دوسری تحریر اور موضوع تعلیم کے ساتھ لیٹ حاضر ہے۔ فدوی لسانیات کا طالب علم ہے اور یہ تعلیم کو اسی نظر سے دیکھے گا۔ اطلاقی لسانیات کا بڑا حصہ زبان کی تعلیم دینے پر مشتمل ہے اور اس زبان سکھانے کے علم کا  نوے فیصد انگریزی زبان سکھانے کا مضمون ہوتا ہے۔ ہم اسے اصطلاحی زبان میں ای ایل ٹی یعنی انگلش لینگوئج ٹیچنگ کہتے ہیں۔ انگریزی بطور دوسری زبان TESOL اور انگریزی بطور غیرملکی زبانTEFL وغیرہ بھی اسی شاخ کے نیچے آتے ہیں۔
ہمیں زبان پڑھانا سکھایا جاتا ہے جیسے بی ایڈ اور ایم ایڈ والوں کو پرائمری کے بچے پڑھانا سکھایا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں ہمیں زبان یا انگریزی زبان سکھانے کے لیے بطور استاد تیار کیا جاتا ہے ۔ ہمارا نصاب یعنی ماسٹرز کا دو سالہ اور بی اے آنرز کا چار سالہ کورس اسی پر مشتمل ہوتا ہے۔
اس ساری تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ یعنی پاکستانی میں انگریزی تعلیم ۔۔ پاکستان میں انگریزی تعلیم اور ہمارے بچوں کا انگریزی کا معیار اتنا برا کیوں ہے؟ اس سارے کو کچھ نکات کی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ یاد رہے کہ میرا مقصد یہاں انگریزی کی وکالت کرنا نہیں بلکہ انگریزی تعلیم کے سلسلے میں درپیش مشکلات کا ذکر کرنا ہے۔ یہ ایک خالصتًا تکنیکی معاملہ ہے اس سیاسی معاملے سے الگ جس کے تحت ہم انگریزی کے اپنے ملک میں سٹیٹس پر سوال اٹھاتے ہیں اگرچہ یہ شک بھی انگریزی تعلیم کے غیر معیاری ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
  • ہمارے ہاں انگریزی کے اساتذہ ہی تیار نہیں کیے جاتے۔ جو لوگ انگریزی پڑھاتے ہیں وہ مضمون کے ماہر نہیں ہوتے۔ یاد رہے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنا اور اطلاقی لسانیات میں ماسٹرز کرنا ایسا ہے جیسے فزکس اور کیمسٹری دو الگ چیزیں۔ 
  • ہمارے ہاں ادب کی زبان کو ہی اصل زبان سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ ادب زبان کا ایک اُسلوب ہوتا ہے مکمل زبان ہیں۔ اردو کی کتابی اور عمومی زبان آپ کے سامنے ہے۔ بامحاورہ اور روزمرہ کی زبان ہمارا معمول ہے لیکن لکھی اور بولے جانے والی زبان نیز ادب اور عام آدمی کی زبان میں بہت سے فرق ہوتے ہیں جو ہمارے بچوں کو سکھائے ہی نہیں جاتے۔ آج بھی دو صدیاں پرانے ناول اور کہانیاں ہمارے انگریزی نصاب میں اس غرض سے شامل ہیں کہ یہ بچوں کو انگریزی سکھائیں گی۔ کونسی انگریزی؟ وہ جو ڈیڑھ سو سال پہلے لکھی جاتی تھی؟
  • ہمارا انگریزی نصاب انتہائی فرسودہ اور سالخوردہ ہے۔ جیسا کہ اوپر ایک مثال دی گئی اس کے علاوہ بھی ہمیں پرائمری سے لے کر اعلٰی سطح تک نصاب میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پرائمری سطح پر ہمیں نصاب کو سائنسی بنیادوں پر بہتر کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اعلٰی سطح پر ہمیں متعلقہ فیلڈ کے مطابق انگریزی نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جیسے انجنئیرز کو درکار انگریزی وکیل کو درکار انگریزی سے بہت مختلف ہوگی اور ایک بزنس مین کو درکار انگریزی ان دونوں سے مختلف۔
  • ہمارا طریقہ تعلیم ستر برس پرانا ہے۔ ہمارے سکولوں میں بچوں کو انگریزی پڑھانے کے طریقے کو اصطلاحی زبان میں ہم گرامر ٹرانسلیشن میتھڈ کہتے ہیں۔ یعنی گرامر اور ترجمے کے ذریعے زبان کی تعلیم۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس میں مادری زبان کو واسطہ بنا کر تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بچے کی سوچ اور سیکھی جانے والی زبان میں مادری زبان واسطہ بن جاتی ہے۔ یہ سب ایسا ہی ہے جیسے اردو میں لکھی تحریر پہلے انگریزی میں ترجمہ ہو پھر کمپیوٹر کی زبان میں یعنی دوہری پروسیسنگ۔ اگر جدید طریقہ ہائے تعلیم استعمال کیے جائیں جن میں کمیونیکیشن سے پڑھانا بھی شامل ہے تو اس کو بہت بہتر کیا جاسکتا ہے۔ بطور پروفیشنل ہم جی ٹی ایم نہیں بلکہ مختلف طریقہ ہائے تعلیم کو ملا کر پڑھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یعنی جیسا منہ ویسی چپیڑ اور جیسا ماحول ویسا طریقہ تعلیم۔
  • جیسا کہ اوپر ایم اے انگریزی ادب کے بارے مین بات کی گئی کہ یہ لوگ انگریزی ادب تو پڑھا سکتے ہیں انگریزی زبان نہیں ایسے ہی ہمارے پرائیویٹ سکولوں میں میٹرک پاس استانیاں بچوں کی بنیاد کا بیڑہ غرق کر دیتی ہیں۔ نیم حکیم کے مشابہ یہ اساتذہ بچے کو وقتی رٹا لگوا کر اس سے انگریزی تو بلوا دیتے ہیں لیکن ذخیرہ الفاظ ہی زبان نہیں ہوتی زبان صوتیات یعنی فونیٹکس سے لے کر گرامر تک ہوتی ہے جس میں ذخیرہ الفاظ، الفاظ بنانے کے قوانین، جملہ بنانے کے قوانین، پیراگراف بنانے کے قوانین، معانی کا لیول اور اس سے بھی اوپر سیاق و سباق کے لحاظ سے معانی و مطالب اور پھر پورا پیغام بطور ایک یونٹ۔ ایسے ہی جیسے ایک خط اگرچہ جملوں پر مشتمل ہے لیکن وہ بطور ایک یونٹ بھی کام کرتا ہے اور بطور ایک اکائی ایک خاص مطلب و معانی بیان کررہا ہوتا ہے جو نچلے درجے کے تمام یونٹ آپس میں مل کر تشکیل دیتے ہیں۔ اس لیول کو ہم ڈسکورس کا نام دیتے ہیں۔ ان سب درجہ ہائے زبان کا جب تک استاد کو پتا نہیں ہوگا وہ کیسے زبان کوسکھا سکے گا۔ 
  • یہ غلط طرز فکر ہے کہ ہمیں ہر معاملے میں امریکیوں یا برطانویوں کی تقلید کرنی چاہیے۔ اس طرز فکر کی تلفظ سکھانے کے سلسلے میں انتہا پسندانہ انداز میں پیروی کی جاتی ہے۔ سرکاری سکولوں میں تو اکثر تلفظ ہوتا ہی غلط ہے لیکن نام نہاد انگریزی سکولوں میں بچوں کو انگریز بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جبکہ بطور ماہر لسانیات ہم جانتے ہیں کہ مادری زبان کا اثر ہمیں کبھی بھی غیرملکی زبان ایسے سیکھنے نہیں دیتا جیسے اس کے اہل زبان وہ زبان بول سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ بطور اردو بولنے والے ہم کبھی بھی تھیٹر کو ایسے نہیں بول سکتے جیسے انگریز بولتے ہیں۔ اس کے صوتیے غیرشعوری طور پر ہم اردو کے صوتیوں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا گلہ اور منہ وہی صوتیے اور آوازیں نکالنے کا عادی ہوتا ہے جو ہماری مادری زبان میں ہوتے ہیں۔ اسی کی سادہ سی مثال انگریزی کے مصوتے یا واؤلز ہیں۔ انگریزی میں دو قسم کے مصوتے ہیں یک آوازی، دو آوازی۔ یک آوازی جیسے آ، او، ای اور دو آوازی ان یک آوازی مصوتوں سے مل کر بنتے ہیں۔ لفظ ڈے کے آخر میں سے ہم دو آوازی مصوتہ اڑا دیتے ہیں جبکہ اصل میں یہ ڈےای ہوگا آخر میں ایک دو آوازی مصوتے کے ساتھ۔
  • آخر میں ہمارا یہ المیہ کہ ہم آج تک انگریزی کا سٹیٹس متعین نہیں کرپائے جس کی وجہ سے نہ ہم انگریزی کو چھوڑتے ہیں اور نہ اپناتے ہیں اور نہ ہی اس کی تعلیم  کو بہتر بناتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ ہوجائے کہ ہم نے اس زبان کی بطور غیرملکی زبان تعلیم دینی ہے تو پھر اس کے لیے پروفیشنل بھی تیار ہونے لگیں گے ایسے ہی جیسے کامرس اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیشنل تیار ہوتے ہیں۔ 

اتوار، 16 اگست، 2009

میرا بچپن

سب سے پہلے تو ان تمام احباب کا شکریہ جنہوں نے مجھے پرچوں کے سلسلے میں کامیابی کی دعائیں دیں۔ الحمداللہ پرچے بہت اچھے ہوگئے امید ہے اس بار بھی پچھلے سمسٹر کی طرح پہلی پوزیشن میری ہی ہوگی۔
اس کے بعد عرض ہے کہ مصروفیت نے ایک عرصے سے اردو بلاگنگ سے کنارہ کش کردیا ہے۔ اس عرصے میں بہت سی نئی آوازیں اور لہجے شامل ہوئے اور خوب شامل ہوئے۔ اردو بلاگرز اب بالغ نظر ہوتے جارہے ہیں۔ خیر یہ تو بات سے بات تھی۔ اصل بات وہی عنوان والی ہے۔ اگرچہ اس بار بھی دل تھا کہ سیدہ شگفتہ کی فرمائش اور پھر منظر نامہ کے ذریعے اس تجویز کا تفاذ دیکھ کر پھر سے کھسک لوں کہ اس بار بھی کچھ نہیں لکھنا۔ لیکن۔۔۔۔ پھر دل نے کہا کہ اپنے لیے نہیں کمیونٹی کے لیے لکھو۔۔۔ سو لکھ رہا ہوں۔
تو صاحبو اوپر کے سارے وعظ کے بعد بات اتنی سی ہے کہ ہمارے بچپن کا کوئی ایسا واقعہ نہیں جو آپ کو ہنسا سکے۔۔۔ یا رُلا سکے۔ بڑا سادہ سا اور انتہائی عام سا بچپن گزرا ہے جس کی یادیں ساری بلیک اینڈ وائٹ ہیں اور دھندلی دھندلی سی۔۔۔ خیر کھینچ کھانچ کر ایک پرانی پوسٹ سے متعلق ہی ایک تفصیلی واقعہ نکالا ہے یادوں کے کباڑخانے سے۔ ملاحظہ کیجیے۔
میرا پلان بالکل مکمل تھا۔ لیٹرین کے ساتھ ٹینکی نما چیز کو دیکھ کر ہی یہ پلان میرے ذہن میں آیا تھا کہ بس اب تو اپنی جان چھوٹی ہی چھوتی۔ تو صاحبو ہم نے وضو کرنے کا بہانہ بنایا ٹینکی سے لیٹرین پر اور وہاں سے دیوار پر اور اس کے بعد چھ سات فٹ سے ہم نے چھلاگ لگا دی اور نکل لیے۔
خیر آپ کو کیا سمجھ آئی ہوگی۔ اوپر دئیے ربط پر چلے جائیں تو شاید کچھ سلسلہ جڑ جائے۔ اصل میں ہم پانچویں کے بعد مدرسے میں ڈال دئیے گئے تھے حفظ قرآن کے لیے۔ کچھ عرصہ تو سکون سے گزرا ہم اچھا خاصا حفظ کرتے رہے لیکن پھر ہم سے پڑھائی کا شیڈول برداشت نہ ہوا اور ہم نے بغاوت کردی۔: او میں نئیں پڑھناں ہور ہُن۔۔ تو اس کا حل قاری صاحب نے یہ نکالا کہ ہماری ٹانگیں ایک دوسرے لڑکے کو پکڑوا کر ہماری تشریف پر گدھے ہنکانے والی بید کی سوٹی سے ٹکور کی۔ اور اسی ٹکور کے دوران ہم پر انکشاف ہوا کہ یہ ساری کاروائی شیطان کی تھی ہمارا کوئی قصور نہیں ہم نے چیخ چیخ کر قاری صاحب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی لیکن قاری صاحب نے ٹریٹمنٹ پورا کرکے ہی جان چھوڑی۔ خیر اس علاج کے بعد کچھ ماہ سکون سے گزرے اور پھر ہم نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ اوپر تحریر ہے۔ اس دوران ہماری چھٹی بند تھی۔ قاری صاحب ایسے بچے کی پہلے روزانہ کی چھٹی بند کرکے ہفتہ وار کرتے تھے اگر پھر بھی نصیحت نہ آتی تھی تو عید کے عید ہی ملتی تھی چھٹی۔
خیر تو ہم بھاگ پڑے۔ چھوٹا بھائی کھانا دینے آرہا تھا اس نے ہمیں بھاگتے دیکھ لیا کچھ دور تک وہ ہمارے پیچھے بھاگا پھر واپس گھر چلا گیا۔ اور ہم ۔۔۔ ہم پہنچے سیدھے نشاط آباد سٹیشن پر۔ یہ فیصل آباد کے بڑے سٹیشن کے بعد لاہور کی طرف جاتے ہوئے دوسرا سٹیشن ہے۔ ابا جی کو چونکہ ہماری ساری گیم کا پتا تھا انھوں نے ہمیں وہاں سے جا لیا اور پھر ہماری دھلائی بھی ہوئی اور ہاتھ باندھ کر سائیکل پر بٹھا کر گھر لایا گیا۔
قصہ مختصر عزیزان گرامی ہم نے ایسے دو ایک اور ڈرامے کھیلے اور ہمیں مدرسے سے نجات مل گئی۔ ہم نے آخری پانچ پارے حفظ کرلیے تھے چھٹا پاؤ ہو گیا تھا لیکن سب کچھ چھوٹ گیا۔ اس واقعے نے ہماری زندگی کا رخ موڑ ڈالا۔ شاید اس وقت ایسا نہ ہوتا تو ہم آج بلاگر نہ ہوتے۔۔ ہوتے بھی تو اتنے ۔۔۔۔ نہ ہوتے۔

پیر، 20 جولائی، 2009

امتحانات

میرے دوسرے سمسٹر کے امتحانات مورخہ 23 جولائی سے شروع ہیں۔ آپ احباب سے دعا کی درخواست ہے۔
کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن یہ بہت کچھ پرچے دے کر کہوں گا۔تب تک کے لیے فی امان اللہ

پیر، 29 جون، 2009

گلوبل سائنس کی ویب سائٹ

جون 2009 کے گلوبل سائنس سے پتا چلا کہ اس کی ویب سائٹ کا اجرا کیا جاچکا ہے۔ حسب توقع ویب سائٹ بڑی تعارفی قسم کی ہے جس میں حتی الامکان ہر چیز کا خلاصہ ہی دیا گیا ہے۔ ویب سائٹ ابھی تک زیر تعمیر ہے اور اس میں کئی سیکشن موجود ہی نہیں جیسے پچھلے شمارے۔ لیکن اس سب کے علاوہ جس چیز نے مجھے حیران کیا وہ 2005 والا ویب سائٹ بنانے کا سٹائل ہے یعنی ان پیج سے گیف میں برآمد کرکے ویب پر لگا دو۔ ساری ویب سائٹ تصاویر پر مشتمل ہے۔ ایک چیز جو تصویر میں نہیں تھی وہ رابطے کی معلومات تھیں اور وہ بھی اردو نہیں انگریزی میں تھیں۔ پاکستان کا واحد بندے کا پتر قسم کا رسالہ اور اس کی ویب سائٹ بھی تصویری؟
ہم سے زیادہ باعلم بندے، انٹرنیٹ سے 24 گھنٹے کنکٹ رہنے والے لوگ بھی ایسے کریں تو ہمارا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ گلوبل سائنس کے بارے میں مجھے کچھ شبہات سے ہیں کہ ان احباب کو انٹرنیٹ پر کرلپ کی سائٹ کے علاوہ شاید کہیں اردو نظر ہی نہیں آتی۔ پچھلے چار سال میں اردو چیختی چنگھاڑتی پھرتی ہے نیٹ پر لیکن آج تک ان کے کسی بھی شمارے میں اردو کی کسی بھی ویب سائٹ کا تعارف نہیں دیکھ سکا ہوں۔ نہ ہی کبھی اردو بلاگز کا تذکرہ پڑھا اور نہ ہی فورمز کا۔ انھیں تو شاید یہ بھی نہیں پتا کہ اردو یونیکوڈ میں نستعلیق فونٹ بھی دستیاب ہے اب۔ خیر وڈے لوگ ہیں جی۔ وڈے وڈے مسائل ہیں ان کے۔ چھوٹے چھوٹے سے مسائل کی طرف دیکھنے کی فرصت کہاں۔
ورنہ یہ ویب سائٹ بڑے پیار سے ورڈپریس یا اردو جملہ جیسے کسی سی ایم ایس میں بن سکتی تھی جسے اپڈیٹ کرنا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔

اتوار، 28 جون، 2009

مائیکل جیکسن

مائیکل جیکسن بھری جوانی میں چل بسا۔ مرحوم موسیقی اور "پاپ " موسیقی کا بادشاہ کہلاتا تھا۔ اپنے کیرئیر میں کئی تنازعات کا شکار رہنے والے کی موت کی خبر بھی کئی گھنٹوں تک معمہ بنی رہی۔ خیر فوت ہوگئے گاڈ بلیس ہِم ۔ ہم نے سوچا کہ چونکہ اب فوت ہوہی چکا ہے تو اس کو سن بھی لیا جائے۔ چونکہ یہ ہمارا قومی شعار ہے کہ لیجنڈ کے آنجہانی ہوجانے کے بعد اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اس پر ماتم کرتے اور تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ تو ہم نے بھی اس پر عمل کرتے ہوئے آج مائیکل جیکسن کے پچاس کلاسک گانوں کا ایک ٹورنٹ اتارا۔ آپس کی بات ہے یہ وہیں لکھا ہوا تھا کہ کلاسک گانے ہیں تو ہم  نے سوچا ہونگے سو اتار لیے۔ اب ہم ان کو جیٹ آڈیو میں اکٹھا کرکے سن رہے ہیں۔ لیکن بخدا ہمیں ککھ بھی سمجھ نہیں آرہی :-/ زندگی میں انگریزی موسیقی کم ہی سنی ہے جو سنی ہے اس کی سمجھ بھی کم کم ہی آئی ہے۔ البتہ یہ ہے کہ بعض کا ردھم بہت اچھا ہوتا ہے۔ پر یہ میری پیدائش سے بھی پہلے کے گانے انھیں کیا سمجھوں گا۔
تو آپ میری مجبوری سمجھ سکتے ہیں لیکن کیا کریں پکے راگوں کی طرح یہ پچاس گانے تو سننے ہی ہیں تاکہ کوئی کل کو یہ نہ کہہ سکے کہ مائیکل جیکسن کو نہیں سنا بھئی اس نے۔ شریکا بھی تو کوئی چیز ہوتا ہے صاحب۔ ;D

پیر، 22 جون، 2009

مبارکباد

پاکستان جیت گیا۔ اچھا لگا۔ سترہ سال بعد ہم پر خوشی کے لمحات اترے۔ جانے کیسے اترے ورنہ ہر پل یہی دھڑکہ تھا کہ اب گئے تب گئے۔ بالنگ میں پہلے پریشر ڈالنے کے بعد آخری اورز میں اچھا خاصا سکور پڑا جس کے بعد ہم بد دل ہوگئے اور کمپیوٹر بند کرکے سوگئے۔ صبح نو میسج آئے ہوئے تھے سارے رات سوا بارہ بجے کے۔ پاکستان جیت گیا تھا۔ الحمد اللہ کہ پاکستان جیت گیا۔ صبح اٹھ کر دس منٹ میں پوری پاکستانی بیٹنگ کی جھلکیاں دیکھیں اور میچ پورا ہوگیا۔ یوینورسٹی میں لڑکے ڈھول والے کو بلوا کر بھنگڑا ڈالتے رہے۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے فوٹو کاپئیر نے سب کو مٹھائی کھلائی۔
اس ساری خوشی کے پیچھے بہت سارے غم اس کو دھنلا کردیتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ غم ہی رہ جاتے ہیں۔ سوات، دیر،، وزیرستان کے حالات اور وہاں کے رہائشیوں کی مشکلات جو گھر بار چھوڑ کر دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ :( اس جشن میں زخمی اور جاں بحق ہونے والے لوگ اور ان کے گھروں میں بپا ہونے والی قیامت۔ سب کچھ اس خوشی کو غم میں بدل دیتا ہے۔ اللہ سائیں ہمیں اس دور ابتلا سے نکالے۔

جمعہ، 19 جون، 2009

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد

رنگے برنگے آنچل، ہنستے ہوئے چہرے، چہرے پر دبی دبی سی مسکراہٹیں لیے جوڑے، یہ جی سی یو ایف ہے۔ فیصل آباد کی دوسری پبلک سیکٹر یونیورسٹی۔ یہاں جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے بعد سب سے زیادہ داخلے کی درخواستیں آتی ہیں۔

جی سی یو ایف ان جامعات میں سے ہے جنھیں ڈاکٹر عطاء الرحمن کی بدولت کالج سے یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ 2001 میں بننے والی یہ جامعہ ابھی تک اپنی تشکیل کے عمل میں لگتی ہے۔ اساتذہ کا انداز فکر، انتظامیہ کے رویے، طلباء کا انداز سب کچھ ایسے لگتا ہے جیسے ابھی بالغ ہوتے ہوتے دس سال اور لے جائے گا۔

جامعہ کے پاس ذرائع کی کمی ہے۔ پچھلے وائس چانسلر صاحب کے جانے کی ایک وجہ بدعنوانی کے الزامات بھی تھے۔ غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق پندرہ کروڑ روپے کا چونا یونیورسٹی کو لگایا جاچکا ہے۔ لیفٹیننٹ ریٹائر خالد محمود نے اس جامعہ کا پرانا طالب علم ہونے کا حق ادا کیا اور جب تک ان کی گورنرشپ رہی جامعہ کو کبھی فنڈز کی کمی نہ پیش آئی۔ بلکہ مشرف دور تک ایچ ای سی ہر جامعہ پر پیسے لٹاتا رہا۔ سیاسی حکومت کے آتے ہی ایچ ای سی خود دیوالیہ ہوگیا اس نے جامعات کو کیا دینا تھا۔ ہمارے زیر تعمیر بلاکس رک گئے اور یونیورسٹی کو خرچہ پورا کرنے کے لیے ایک غیر رسمی سمسٹر شروع کرنا پڑا۔ خیر فنڈز کا کچھ مسئلہ تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے آنے سے حل ہوا ہے اور اب تعمیر کے رکے ہوئے کام پر سے جاری ہیں۔ لیکن جامعہ کے مالی حالات اب بھی دگرگوں ہیں۔

اورسونے پر سہاگہ: آپ کی جامعہ میں اخلاقی اور مذہبی حدود کو پامال کیا جارہا ہے۔ آپ کو وارننگ دی جاتی ہے اس کو کنٹرول کریں۔ منجانب طالبان پنجاب۔


کوئی دو ماہ پہلے یہ خط وی سی کو ارسال کیا گیا اور تب سے جامعہ کی سیکیورٹی انتظامیہ کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ جامعہ کے چھ گیٹس ہیں جن میں سے چار فوری طور پر بند کروا دئیے گئے۔ گیٹ نمبر ایک پیدل کے لیے اور نمبر دو گاڑیوں کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ پارکنگ عمارات کے ساتھ سے ختم کردی گئی۔ طلباء جن کے جامعہ کے کارڈ ابھی تک نہیں بنے تھے انھیں عارضی کارڈز بنا کر دئیے گئے۔ بقول ہمارے وی سی ہمیں تین قسم کی کرپشن کا سامنا ہے۔ اخلاقی، مالی اور تدریسی۔ اس سارے کا نتیجہ یہ کہ ہم پر اخلاقیات ٹھونسی جارہی ہیں۔ طلباء کلاسز کے بعد ایک گھنٹے سے زیادہ بیٹھ نہیں سکتے۔ جہاں کہیں کوئی جوڑا بیٹھا ہوگا اس کو سیکیورٹی کے جوان یا ڈسپلن کمیٹی کے ممبر اساتذہ رپورٹ کریں گے۔
میں جامعہ کا طالب علم ہوں۔ بطور طالب علم اس ساری صورت حال میں بہت ان ایزی محسوس ہوتا ہے۔ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کہیں بیٹھ نہیں سکتے۔ لائبریریز ہماری الا ماشاءاللہ ہیں کہ دو میز ہیں اور اٹھارہ کلاسز ہیں تو وہاں کیا بیٹھیں۔ ہمارے پاس کمروں کی کمی ہے چناچہ بی اے آنرز کی کلاسیں ماسٹرز کی کلاسوں کے ساتھ ملا کر پڑھائی جاتی ہیں۔ صبح نو سے دوپہر تین تین بجے تک انھیں صرف چار کلاسیں پڑھنے کے لیے رکنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ان سے یہ مطالبہ کہ لان میں نہ بیٹھو، کاریڈور میں نہ بیٹھو اور مکسنگ نہ کرو۔۔۔۔۔ طلباء چکی کے دو پاٹوں میں آئے ہوئے ہیں جیسے۔
پتا نہیں شاید یہی اخلاقیات ہے کہ لڑکا لڑکی ساتھ نہ بیٹھیں چاہے وہ ہم جماعت ہی کیوں نہ ہوں، یا وہ ایک دوسرے سے ہنس کر بات نہ کریں، یہ ایک دوسرے کے ساتھ آتے جاتے نظر نہ آئیں۔ شاید یہی اخلاقیات ہیں لیکن بطور طلباء ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ایسا ہونا روک بھی دیا جائے تب بھی ایسی "گنجائشیں" ختم نہیں ہوجاتیں۔ ساتھ بیٹھنے پر پابندی کے باوجود لوگ ساتھ بیٹھتے ہیں اور گھنٹوں بیٹھتے ہیں۔ لوگ لائبریری میں بیٹھ کر دل پشوری کرلیتے ہیں۔ اور بدنام پوری کمیونٹی ہورہی ہے۔ ہم کلاس روم سے متعلقہ گفتگو بھی ساتھ بیٹھ کر نہیں کرسکتے۔ عجیب حالات ہیں آج کل۔
میرے خیالات اس موضوع پر بڑے کنفیوژ سے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم کروں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کل بطور طلباء ہم اچھی خاصی ٹینشن میں ہیں۔ ہماری جامعہ کے مالی اور انتظامی حالات، اب سیکیورٹی حالات ان سب نے مل کر ایسا تاثر پیدا کردیا ہے کہ ہم کسی سکول کے طلباء ہیں جامعہ کے نہیں۔ ہماری جامعہ میں انتظامی رسہ کشی، عہدوں پر اجارہ داریاں، سفارشیں، ناجائز اور ڈھٹائی کی حد تک پہنچی ہوئی تقرریاں (ایم اے پاس ٹیچر رئیس شعبہ ہیں اور ان کے نیچے تین پی ایچ ڈی ہیں۔ خود سوچ لیں کہ کون حقدار ہے ڈاکٹر یا ایم اے؟ یہ ایک مثال ہے صرف)، پاکستان کی طرح کے غریب حالات، شعبہ جات کے مابین رسہ کشی، وسائل کی عدم دستیابی۔۔۔ اس سب نے مل کر عجیب سماں باندھ رکھا ہے۔ اور ہم اس سماں میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں، دبی دبی سی ہنسی بھی ہنس لیتے ہیں، چوری چوری کنٹین پر بھی چلے جاتے ہیں، سیکیورٹی والوں کے ڈر کے باوجود کہیں بیٹھ کر اکٹھے کھانا بھی کھا لیتے ہیں اور پڑھائی پر گفتگو بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن ڈرتے ڈرتے۔۔۔۔۔۔

پیر، 15 جون، 2009

حساب برابر

سپریم کوڑت کے حکم پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ہونے والی کمی کس خوبصورتی سے واپس لی گئی ہے۔ سبحان اللہ اس فنکاری پر۔
اسلام آباد۔ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ کاربن سر چارج کی مد سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو 1کھرب34 ارب روپے کے محصو لات حاصل ہونے کی توقع ہے ۔ یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایل کی جگہ ماحول دوست پالیسی کو فروغ دیتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات پر 3سے 14روپے فی لیٹر کا ربن سر چارج لگایا گیا ہے ۔ کاربن سرچارج کی مد میں ھائی سپیڈ ڈیزل آئل پر 8روپے فی لیٹر ، موٹر سپرٹ پر 10 روپے فی لیٹر ، ایس کے ایس او پر 6 روپے فی لیٹر ، لائٹ ڈیزل پر 3 روپے ، ایچ او بی سی پر 14 روپے اور سی این جی پر 6 روپے فی لیٹر کے حساب سے وصول کیا جائے گا