دین کی سپیشلائزیشن دین پر ہزار سالہ پرانی فقہی سوچ کی اجارہ داری قائم کرتی ہے۔ اگر کوئی عام مسلمان، مناسب حد تک عقائد سے واقفیت رکھنے کے باوجود کسی چیز پر اعتراض کرے تو اسے چپ کروا دیا جاتا ہے کہ تمہیں یہ حق حاصل نہیں ہے۔ حق حاصل کب ہو گا؟ اگر تم پچھلوں کی تھیوری گھول کر پی لو، انہیں روایات پر چلو جن پر وہ چلے تھے اور اس کی سیدھ میں رہ کر بات کرو جو پچھلوں نے متعین کر دیا تھا تو تمہاری بات قابلِ قبول ہو گی ورنہ جہنم میں جاؤ، تم فتنہ پرور ہو۔ جب یہ فکر و سوچ موجود ہو تو اجتہاد پر جتنا مرضی زور لگا لیا جائے کھوتی وہیں آ کر کھلوتی ہے جہاں سے وہ چلی تھی۔ پچھلوں کے متعین کردہ راستے پر چلنے سے بار بار بار بار وہی نتیجہ نکلتا ہے جب متغیر کی قیمتیں وہی رکھنی ہے تو جواب بھی وہی آئے گا۔ مثلاً احادیث میں ہی تدوینِ جدید کی بات کر لیں جو ترکی میں جاری ہے۔ جس میں احادیث کو زمانی نکتہ نظر سے الگ کیا جا رہا ہے، ایسی احادیث جو ہزار سال پہلے کے لیے موزوں تھیں اور ایسی احادیث جو آفاقی پیغام رکھتی ہیں، زمانے سے ماوراء ہیں۔ اب اس پر اختلاف کا طوفان کھڑا ہو سکتا ہے کہ حدیث اس میراث کا حصہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے چھوڑی، چنانچہ حدیث قیامت تک کے لیے ہے۔ جیسے قرآن قیامت تک کے لیے ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اونٹ کا پیشاب پلانے والی حدیث، اور اس جیسے کئی اقوالِ رسول ﷺ جو ایک خاص سیاق و سباق و موقع محل کے مطابق دئیے گئے ہر زمانے کے لیے کار آمد نہیں ہو سکتے، اور نہ ہی اغلباً رسول اللہ ﷺ نے ایسا ارادہ فرمایا تھا۔ تو جب طرزِ فکر کو محدود کیا جاتا ہے، جب ہر غیر روایتی چیز کو رد کیا جاتا ہے، جب "اجماعِ امت" کے نام پر (جو پچھلوں کی پیروی کا ہی دوسرا نام ہے) ڈراوے دئیے جاتے ہیں۔ جب پچھلوں کی پیروی صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ "ہم سے زیادہ متقی تھے"(حالانکہ ان کے متقی پن کا آج کے مسائل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں بنتا) تو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کھوتی وہیں آ کھلوتی ہے چاہے جتنا مرضی زور لگا لے۔
ایک اور مسئلہ دین کے ماخذات کا ہے۔ دین کا ماخذ قرآن ہے، حدیثِ رسول ہے لیکن قرآن سے کم اہمیت والی اور اختلافات کا خدشہ نسبتاً زیادہ چونکہ اس کو محفوظ رکھنے کا کوئی آسمانی وعدہ نہیں تھا، لوگوں نے خود سے احادیث بھی گھڑیں، سینکڑوں برس کی تدوین و تالیف کے باوجود آج بھی ضعیف احادیث انہیں کتب میں موجود ہیں اور عوام الناس میں گردش بھی کرتی ہیں (ظاہر ہے عوام ضعیف احادیث سے آگاہ نہیں ہوتے)۔ تیسرا ماخذ جو بنا لیا گیا ہے وہ پچھلوں کے اقوال ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیم اجمعین چونکہ انہیں زمانہ رسول ﷺ ملا، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے فقہا۔ یعنی جو کوئی زمانہ رسول ﷺ سے جتنا قریب ہے جنرل رول آف تھمب کے تحت اس کی رائے اتنی ہی زیادہ اہمیت والی ہو گی، آج کی رائے پر فوقیت دی جائے گی اور وہ اتنی ہی زیادہ روایت کی وہ چار دیواری قائم کرنے میں معاون ہو گی جو دین کے معاملے میں سوچتے ہوئے عائد کرنا، طاری کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ منظر نامہ اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ان سارے ماخذات کو ایک دوسرے کے ساتھ مکس کر دیا جاتا ہے۔ قرآنی احکام ، احادیثِ رسول اور احادیثِ اصحابِ رسول و بزرگان کو ایسے مکس کر دیا جاتا ہے کہ اللہ نے کیا فرمایا، رسول اللہ ﷺ کا کیا حکم تھا اور دیگر بزرگان کی رائے، قول یا عمل کونسا تھا۔ سب کچھ یکساں اہمیت کے تحت نافذ کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی دو تین برس پہلے اردو محفل پر موسیقی کے حلال حرام کے ہونے کے حوالے سے ایک قرآنی آیت پیش کی گئی (سورہ لقمان آیت 6) جس میں "لغو باتوں" (لہو الحدیث) کا ذکر تھا۔ اس سلسلے میں "لغو باتوں" کا مطلب موسیقی نکالا گیا، جو دراصل ایک صحابیِ رسول ﷺ کی بیان کردہ اس آیت کی تفسیر سے آیا۔ اوپر بیان کردہ قانون کے مطابق صحابیِ رسول کا قول آج کسی شخص کے قول سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں؟ چونکہ وہ زمانہ رسول ﷺ کے قریب ترین ہیں، دوم وہ رسو ل اللہ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اس پر وہی سوال اٹھتا ہے کہ دین اللہ اور اس کے رسول ﷺ (جن کی رہنمائی اللہ بذریعہ وحی کرتا ہے) سے آتا ہے یا اصحابِ رسول اور بزرگانِ دین سے۔ اور جیسا کہ بتایا گیا دین کے حوالے سے زمانی فاصلے کی اہمیت کے قانون کے تحت اصحابِ رسول ﷺ کا کہنا بھی کچھ کم اہمیت کے ساتھ دین میں وہی درجہ رکھتا ہے، کہہ لیں کہ اللہ، رسول کے بعد تیسرے نمبر پر۔ موسیقی کو قرآن میں کہیں واضح الفاظ میں حرام نہیں کہا گیا، احادیث پر بحث کی جا سکتی ہے کچھ لوگ حرام کہتے ہیں ایک اقلیت نے حلال بھی کہا۔ لیکن موسیقی کو قرآن سے بھی حرام ثابت کرنے کے لیے تفسیر پیش کر دی گئی (جو تیسرے ذریعے سے آتی ہے یعنی صحابیِ رسول)۔ اب اسے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ قرآنی حکم ہی ہے۔ یعنی دین کے ماخذات کو مکس کر کے پیچیدگی پیدا کرنے کا کام، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ ایسی صورت میں جاوید احمد غامدی اگر موسیقی کو حلال کہے، شاہ محمد جعفر پھلواری اسے مستحب کہے تو وہ غلط قرار پاتے ہیں ۔
چنانچہ وہی بات جو پیچھے عرض کی، اجتہاد روایت کے اندر رہ کر کیا جائے تو قابلِ قبول ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ اجتہاد وہی جواب نکالتا ہے جو پانچ سو برس پہلے نکلتا تھا۔ "اجماعِ امت" اور روایات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی ان حدود سے باہر جا کر نہ سوچ سکے جو پچھلوں نے متعین کر دیں۔ چنانچہ دین بے زار طبقہ آخر کار یہ کہہ دیتا ہے کہ مذہب تو ایک ثقافتی عنصر ہے، گٹے ننگے کرو یا نہ کرو کیا فرق پڑتا ہے، پینٹ کے ساتھ جرابیں پہن کر گٹے ننگے کیا کریں برے لگتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ
نتیجہ یہ کہ ایسے ماحول میں اجتہاد پانی میں مدھانی کا کام کرتا ہے جتنی مرضی چلا لو مکھن نہیں آتا، یا جو مکھن آنا تھا وہ لوگ پہلے ہی نکال چکے۔
ایک اور مسئلہ دین کے ماخذات کا ہے۔ دین کا ماخذ قرآن ہے، حدیثِ رسول ہے لیکن قرآن سے کم اہمیت والی اور اختلافات کا خدشہ نسبتاً زیادہ چونکہ اس کو محفوظ رکھنے کا کوئی آسمانی وعدہ نہیں تھا، لوگوں نے خود سے احادیث بھی گھڑیں، سینکڑوں برس کی تدوین و تالیف کے باوجود آج بھی ضعیف احادیث انہیں کتب میں موجود ہیں اور عوام الناس میں گردش بھی کرتی ہیں (ظاہر ہے عوام ضعیف احادیث سے آگاہ نہیں ہوتے)۔ تیسرا ماخذ جو بنا لیا گیا ہے وہ پچھلوں کے اقوال ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیم اجمعین چونکہ انہیں زمانہ رسول ﷺ ملا، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے فقہا۔ یعنی جو کوئی زمانہ رسول ﷺ سے جتنا قریب ہے جنرل رول آف تھمب کے تحت اس کی رائے اتنی ہی زیادہ اہمیت والی ہو گی، آج کی رائے پر فوقیت دی جائے گی اور وہ اتنی ہی زیادہ روایت کی وہ چار دیواری قائم کرنے میں معاون ہو گی جو دین کے معاملے میں سوچتے ہوئے عائد کرنا، طاری کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ منظر نامہ اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ان سارے ماخذات کو ایک دوسرے کے ساتھ مکس کر دیا جاتا ہے۔ قرآنی احکام ، احادیثِ رسول اور احادیثِ اصحابِ رسول و بزرگان کو ایسے مکس کر دیا جاتا ہے کہ اللہ نے کیا فرمایا، رسول اللہ ﷺ کا کیا حکم تھا اور دیگر بزرگان کی رائے، قول یا عمل کونسا تھا۔ سب کچھ یکساں اہمیت کے تحت نافذ کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی دو تین برس پہلے اردو محفل پر موسیقی کے حلال حرام کے ہونے کے حوالے سے ایک قرآنی آیت پیش کی گئی (سورہ لقمان آیت 6) جس میں "لغو باتوں" (لہو الحدیث) کا ذکر تھا۔ اس سلسلے میں "لغو باتوں" کا مطلب موسیقی نکالا گیا، جو دراصل ایک صحابیِ رسول ﷺ کی بیان کردہ اس آیت کی تفسیر سے آیا۔ اوپر بیان کردہ قانون کے مطابق صحابیِ رسول کا قول آج کسی شخص کے قول سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں؟ چونکہ وہ زمانہ رسول ﷺ کے قریب ترین ہیں، دوم وہ رسو ل اللہ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اس پر وہی سوال اٹھتا ہے کہ دین اللہ اور اس کے رسول ﷺ (جن کی رہنمائی اللہ بذریعہ وحی کرتا ہے) سے آتا ہے یا اصحابِ رسول اور بزرگانِ دین سے۔ اور جیسا کہ بتایا گیا دین کے حوالے سے زمانی فاصلے کی اہمیت کے قانون کے تحت اصحابِ رسول ﷺ کا کہنا بھی کچھ کم اہمیت کے ساتھ دین میں وہی درجہ رکھتا ہے، کہہ لیں کہ اللہ، رسول کے بعد تیسرے نمبر پر۔ موسیقی کو قرآن میں کہیں واضح الفاظ میں حرام نہیں کہا گیا، احادیث پر بحث کی جا سکتی ہے کچھ لوگ حرام کہتے ہیں ایک اقلیت نے حلال بھی کہا۔ لیکن موسیقی کو قرآن سے بھی حرام ثابت کرنے کے لیے تفسیر پیش کر دی گئی (جو تیسرے ذریعے سے آتی ہے یعنی صحابیِ رسول)۔ اب اسے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ قرآنی حکم ہی ہے۔ یعنی دین کے ماخذات کو مکس کر کے پیچیدگی پیدا کرنے کا کام، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ ایسی صورت میں جاوید احمد غامدی اگر موسیقی کو حلال کہے، شاہ محمد جعفر پھلواری اسے مستحب کہے تو وہ غلط قرار پاتے ہیں ۔
چنانچہ وہی بات جو پیچھے عرض کی، اجتہاد روایت کے اندر رہ کر کیا جائے تو قابلِ قبول ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ اجتہاد وہی جواب نکالتا ہے جو پانچ سو برس پہلے نکلتا تھا۔ "اجماعِ امت" اور روایات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی ان حدود سے باہر جا کر نہ سوچ سکے جو پچھلوں نے متعین کر دیں۔ چنانچہ دین بے زار طبقہ آخر کار یہ کہہ دیتا ہے کہ مذہب تو ایک ثقافتی عنصر ہے، گٹے ننگے کرو یا نہ کرو کیا فرق پڑتا ہے، پینٹ کے ساتھ جرابیں پہن کر گٹے ننگے کیا کریں برے لگتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ
نتیجہ یہ کہ ایسے ماحول میں اجتہاد پانی میں مدھانی کا کام کرتا ہے جتنی مرضی چلا لو مکھن نہیں آتا، یا جو مکھن آنا تھا وہ لوگ پہلے ہی نکال چکے۔