امانت علی گوہر۔ بقول علمدار ان کے نام سے لگتا ہے کہ ایک نہیں تین بندے ہیں جنھیں پیک کردیا گیا ہے۔ امانت علی گوہر کے بارے میں ہمارے احساسات بڑے مریدانہ قسم کے تھے۔ ان سے واقفیت تب کی ہے جب یہ گلوبل سائنس میں لکھا کرتے تھے اور ہم ان کی تحاریر پڑھ پڑھ کر سر دھنا کرتے تھے۔
(کبھی ان کا سر دھننے کا خیال آیا ہو تو حد ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ذکر نہیں کررہے ۔) ان کے بارے میں اگلی سن گن اس وقت ملی جب ہم محفل پر تشریف لائے۔ یہ بھی کبھی کبھی آیا کرتے تھے۔ اس وقت ہمیں محسوس ہوتا تھا یہ کوئی انٹلکچوئل قسم کی چیز ہیں۔ مثلًا ایک بار تشریف آوری ہوئی تو ایک عدد اردو ورڈ فریکوئنسی کاؤنٹر بنا لائے۔ اب ہم ٹھہرے پینڈو ہم اتنے میں ہی مرعوب ہوگئے۔
پھر پتا چلا کہ طبیعت ناساز رہتی ہے۔ تو ہم نے اس سارے سیاق سباق سے یہ اندازہ لگایا کہ دانشور قسم کی چیز ہیں اور نازک طبع بھی کہ ذرا سی بات سے طبیعت ناساز ہوجاتی ہے۔
ان کا اگلا ٹاکر ہم سے محمد علی مکی کے "تھرُو" ہوا۔ انھوں نے انھیں ہماری طرف تھرو کردیا۔ ہمیں یاد ہے ذرا ذرا مکی بھائی فون پر ہم سے بات کررہے تھے کرتے کرتے انھوں نے انھیں فون پکڑا دیا۔ ہمیں نوے فیصد شک ہے کہ ان کے احترام میں فورًا اٹھ کر کھڑے ہوگئے تھے ہم(اگرچہ یہ دو ماہ سے پرانی بات نہیں لیکن صاحبو ایسی باتیں ہمیں بھولنے کی پرانی عادت ہے)۔ ان کی آواز سنی تو لگا جیسے ساتھ والوں کا چھوٹا لڑکا بول رہا ہے۔ اس دن ہمارے ارے ارمان چکنا چور ہوگئے۔ ہم جو ان کو پیر و مرشد بنانے کے خواہش مند عرصہ دراز سے تھے اب ان کے انکل کے رتبہ جلیلہ پر فائز ہیں۔ یہ بھی لمبی داستا ن ہے بس اتنا سمجھ لیں کہ ایک بار جب ہم نے اپنی عمر عرض کرکے کہا کہ ابھی تو ہمارے کھلینے کودنے کے دن ہیں تو انھوں نے جواب آں غزل کے طور پر اپنی عمر ظاہر فرمائی اور ہمیں شک ہوا کہ اگر ہمارے کھیلنے کودنے کے دن ہیں تو ان کے لازمًا جھولا جھولنے کے دن ہونگے۔
ٰامانت علی گوہرٰ واقعی تین بندے ہیں۔ جو کام انھوں نے "اتنی سی عمر" میں سنبھالا ہوا ہے ایک بندے کا کام نہیں۔ ویسے ہمیں شک ہے کہ ٰگوہرٰ ان میں عارضی بندہ ہے۔ چونکہ یہ ابھی منے ہیں لیکن بڑے ہونے پر ان کی شادی بھی ہوگی۔ اور ہمیں 99 فیصد یقین ہے کہ شادی کے بعد ان کا نام امانت علی گوہر نہیں امانت علی ٰشوہرٰ ہوجائے گا۔
امانت علی گوہر ہمارے بہت اچھے دوست اور کرم فرما ہیں۔ ان کی بدولت ہم خود اب لکھاری لکھاری سا محسوس کرتے ہیں۔ چلتے پھرتے یونہی جب خیال آئے کہ کمپیوٹنگ میں ہماری تحریریں بھی چھپتی ہیں گردن میں سریا آجاتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ان کا اور کمپیوٹنگ کا ہم سے اور اردو سے ساتھ ہمیشہ قائم رہے۔