منگل، 17 اپریل، 2012

بجلیاں

اس قوم کے گھروں میں بجلی نہیں آ رہی لیکن اسے بجلیاں چڑھی ہوئی ہیں۔ کہیں سے صدا اٹھتی ہے کہ ایران مفتو مفت ہی بجلی دینے کو تیار ہے،کہیں سے میسج آتا ہے کہ چین 300 روپے مہینہ میں بجلی مہیا کرنے کو بس تیار ہی بیٹھا ہے ہاں کرنے کی دیر ہے۔ اور فیس بُک پر تصویریں رُلتی پھرتی ہیں کہ ڈاکٹر قدیر نے 90 دنوں میں بجلی بنانے کا دعوی کر دیا بس 3 سال پرانے اس دعوے کو قبول کرنا باقی ہے جو کہ حکومت نہیں کر رہی۔
پاکستانی قوم ایک ایسی افسانوی دنیا میں رہنے کی عادی ہے جس سے باہر نکلنا اسے پسند نہیں۔ منطق سے بات کرو تو کھوپڑی میں اترتی نہیں۔ اگر اوپر کیے گئےدعوؤں کو کوئی چیلنج کر دے تو مامے خاں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ آپ کی ماں بہن بھی ایک کر ڈالتے ہیں۔ ثبوت مانگو تو آگے سے طعنوں تشنوں کی ڈبل بیرل بندوق چل پڑتی ہے۔
میں معاشیات کا کوئی ماما نہیں ہوں، عام سا قاری ہوں بس روزانہ اخبار پڑھنے کی عادت ہے۔ اور ایک اور گندی عادت ہر بات پر سوال اٹھانے کی ہے۔ جب سے میری کھوپڑی میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ یہاں فیس بک، میسج اور منہ زبانی گردش کرنے والا ہر ایک "فلاحی پیغام" ایک منظم پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد اس قوم کو سلائے رکھنا ہے۔ کاکا سُتے رہو، منزل بس دو ہاتھ رہ گئی ہے، بس اتنی سی کسر رہ گئی ہے۔ بس ایران سے بجلی آ گئی، بس چین کو کنٹرول دو بجلی کا، بس ڈاکٹر قدیر خان کے ہاتھ میں روپیہ دو اور دیکھو۔ ارے پاکستان تو جنت میں ہے بس اس جنت کا پیکج ایکٹیویٹ کرانے کی ضرورت ہے۔
بڑی گندی عادت ہے جی ہر چیز پر سوال اٹھانے کی۔ مثلاً یہی لے لیں کہ کئی دنوں سے یہ سوال کھوپڑی میں ناچ رہے ہیں۔
آخر چین ہمارا اتنا ماما کہاں سے ہو گیا کہ دس ڈالر ماہانہ میں ہمیں بجلی مہیا کر دے؟ اگر فرض کیا مہیا کرتا بھی ہے تو قراقرم کے پہاڑوں میں سے بجلی کی تاریں بچھائے گا یا وائرلیس کے ذریعے بجلی آیا کرے گی؟ سوال تو یہ بھی ہے نا کہ تیل کہ چین جو خود تیل کا سب سے بڑا خریدار، کوئلے کا ویری اور ہر رکازی ایندھن کا دشمن ہے کہ اسے اپنی صنعت کا پہیہ چلانا ہے سوا ارب لوگوں کے پیٹ کا جہنم بھرنا ہے وہ اتنا ماما کیسے ہو گیا ہمارا کہ صرف 300 روپے میں بجلی مہیا کرنا شروع کر دے؟ جبکہ آپ کے اپنے ملک میں پن بجلی بھی پیدا ہونے لگے تو اس کی قیمت بھی تین سو نہ ہو۔ آپ کی کرنسی کی مت ہی اتنی وج چکی ہے سرکاراں۔
ایران کے بڑے ہیج چڑھے ہوئے ہیں لوگوں کو۔ ایران گیس دے گا، ایران بجلی دے گا،  یہ کوئی نہیں سوچتا ایران کیا لے گا؟ ایران نے گیس دیتے وقت اس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کے ساتھ منسلک کرنے کی شرط رکھی تھی۔ اس سے سستی گیس ترکمانستان دے سکتا ہے۔ اگر کبھی دے سکا تو۔  ایران کے ساتھ تجارت کا مطلب ہے کہ آپ کے بینک امریکہ میں بین۔ اس مطلب ہے کہ ایران سے تجارت صرف بارٹر سسٹم کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی؟ نہیں ہے بس باتیں ہیں۔ اور ہاں اگر پیسے بھی دینے پڑے تو ڈالروں میں جائیں گے اور آپ کے پاس اپنے نوٹوں کے (ردی کے) ڈھیر ہی ہیں، ڈالر جو آتے ہیں وہ فارن بل ادا کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ڈاکٹر قدیر صاحب کو ہر مرض کی دوا سمجھ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سیاست میں آئیں۔ ڈاکٹر صاحب بجلی بنائیں۔ ڈاکٹر صاحب یہ ڈاکٹر صاحب وہ۔ تابکاری کی وجہ سے کینسر کا شکار ایک بوڑھا شخص، اس بے چارے کو ہر جگہ گھسیٹ لیتی ہے یہ قوم۔ ارے ڈاکٹر قدیر ہے لکڑ ہضم پتھر ہضم پھکی نہیں ہے جو سر درد، آنکھوں کی کمزوری اور معدے کی کمزوری سے لے کر گنٹھیا تک کے علاج میں استعمال ہو جاتی ہے (اور آرام پھر نہیں آتا)۔  ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک سے ایٹمی ٹیکنالوجی چرائی تھی، اپنا کیرئیر برباد کیا اور آپ کے ملک کو ایٹم بم بنا کر دے دیا۔ اب بس کرو جناب ان کا کام پورا ہو گیا اس بے چارے بوڑھے کو اب تو سکون سے جی لینے دو۔ عجیب چائنہ کٹ قسم کے ہیروہوتے ہیں ہمارے ہر کام کر لیتے ہیں۔ 90 دنوں میں بجلی کا بحران بھی ختم کر دیتے ہیں۔
یہ 90 دن میں بجلی کا بحران ختم کرنے والی بھی خوب رہی۔ کل فیس بک پر ایک صاحب اچھے خاصے جذباتی ہو گئے کہ اگر ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو ایٹمی بجلی گھر بنانا تو خالہ جی کا واڑہ ہے۔ میں نے کہا بھائی صرف یہ بتا دو کہ ایک ایٹمی بجلی گھر تیار ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے، کسی حوالے کے ساتھ تو میں مان جاؤں گا۔ تو فرمانے لگے آپ ثابت کر میں کیوں کراں؟ بڑی گل کیتی اے وئی۔ پتا نہیں ہماری موٹی کھوپڑی میں یہ بات کب آئے گی کہ چوری کا ڈیزائن لے کر ایٹم بم بنا لینے میں تیس سال لگ گئے تھے، اگر اسی طرز پر ایٹمی بجلی گھر بھی بنانے لگے تو پانچ سال تو انتظار کرو میرے بھائی۔ کراچی کا ایک تھکڑ سا ایٹمی بجلی گھر جو جتنی بجلی بناتا ہے اس سے آدھی خود پی جاتا ہے۔ اور چشمہ کے دو ایٹمی ری ایکٹر جو جھونگے جتنی بجلی مہیا کرتے ہیں۔ چھ سو میگا واٹ اور کہاں پانچ ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال۔ یہ چشمہ بھی چین کا سر چشمہ ہے ورنہ آپ کے گوڈوں میں اتنا پانی نہیں ہے کہ ایٹمی بجلی گھر تیار کر سکیں۔ ارے پیسے ہی نہیں ہیں ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کے لیے اور کیا کرنا ہے۔
ہاں پیسوں کی بھی خوب رہی۔ بجلی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قوم کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ پر ہیں۔ پیسے ہیں۔ ماہانہ کروڑوں یا شاید اربوں کے نئے نوٹ چھپتے ہیں، چناچہ اگر اس ملک میں کسی چیز کی پیداوار روز افزوں ترقی پر ہے تو وہ نوٹ ہیں۔ نوٹ چھپتے ہیں تو پھر نوٹ زیادہ اور پیداوار کم، نتیجہ یہ کہ سبزی مہنگی نوٹ سستے، بجلی مہنگی نوٹ سستے، پٹرول مہنگا نوٹ سستے، آٹا مہنگا نوٹ سستے۔ حکومت تو اپنا کام کیے جا رہی ہے ہمارے پچھواڑے میں ڈانگ دئیے جا رہی ہے۔ نہ آمدن ہو نہ سرکلر ڈیٹ کا منحوس چکر ختم ہو اور نہ بجلی بنانیوالے پوری پیداوار دیں۔ مجھے تو ڈر اس وقت سے ہے کہ پاکستانی سرکار پاکستانی بینکوں کے سامنے ڈیفالٹر ہو جائے، دیوالیہ۔ جتنے قرضے یہ بینکوں سے لے رہے ہیں، اپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے، اپنے حلقوں کو خوش کرنے کے لیے ترقیاتی کام کرانے کے لیے، مجھے ڈر ہے کہ یہ سرکار دیوالیہ ہو جائے گی۔ اور یونان والا حال ہوگا اس ملک کا۔ یقین نہیں آتا تو اسٹیٹ بینک کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لو، ہر رپورٹ میں یہی رنڈی رونا ہوتا ہے کہ حکومت بہت زیادہ قرضہ لے رہی ہے۔
اور جاتے جاتے پانی کا حال بھی سنتے جائیں۔ یہ گلیشئیر اگلے تیس سال نکال گئے تو معجزہ ہو گا۔ جہاں سیاچن اور بالتورو کے ڈھیر ہیں وہاں صفا چٹ پتھر ہوں گے چند دہائیوں میں اور میٹھے پانی کا ذریعہ ٹھُٹھو۔ نہ پانی ہو گا، نہ ڈیم ہوں گے، نہ پانی محفوظ ہوگا نہ پینے کو ملے گا نہ بجلی بنانے کو ملے گا۔ اور آپ کے دریا تو پہلے ہی انڈیا لیے جا رہا ہے۔ بس تھوڑا سا اور صبر کرلو فیر ویکھو دما دم مست قلدر۔
ہاں حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی اور پرانا ہیرو جو ادھر ادھر پڑا ہو جھاڑ پونچھ کر دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے تاکہ عوام کا مورال بلند رہے، اسے نشے کا ٹیکا لگا رہے اور سُتی رہے۔ ستے خیراں، رہے نام اللہ کا جس نے جھوٹوں کے لیے بھی ان کا عمل اتنا خوشگوار بنا دیا کہ وہ اسے ہی سچ سمجھتے ہیں۔