اتوار، 18 اگست، 2013

یاداں

یہ یاداں بھی سالی عجیب ہوتی ہیں۔ بےوقت کی راگنی کی طرح بھیرویں شروع کر دیتی ہیں۔ چلتے چلتے اچانک ٹھوکر لگ جانے کی طرح، کہیں سے اچانک کوئی ہاتھ آ کے چٹکی بھرتا ہے اور یاداں گھوڑے کی طرح بدک اٹھتی ہیں۔ پھر لاکھ سنبھالو نہیں سنبھلتیں۔ زنجیری تعامل جو شروع ہوتا ہے تو ایک کے بعد دوسری، تیسری چوتھی ۔۔۔اور پھر یاداں کی ایٹمی چھتری پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ سارا حال ماضی کی دھول میں اٹ جاتا ہے۔ غائب حاضر اور حاضر غائب بن جاتا ہے۔ اَن دِکھی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں، لوگ، چیزیں، موسم، وقت سب کچھ: حقیقت اور غیر حقیقت ایسے ملغوبہ بن جاتے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ جانے والوں کے چہرے تو کبھی بھولتے ہی نہیں، لیکن جب یاداں کا ایٹمی حملہ ہوتا ہے تو گویا جانے والوں کے آسیبی وجود عدم سے وجود میں آ جاتے ہیں۔ ابھی یہاں کچھ نہیں تھا، اور ابھی وہ چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔ ہنستا، کھیلتا، گاتا، جیتا، جاگتا، وجود جو اس عدم اور وجود کے درمیان برزخ میں کبھی نابینا آنکھوں کے لیے بینا ہو جاتا ہے کبھی پھر سے ان دیکھے پردوں کے پیچھے اوجھل ہو جاتا ہے۔

یاداں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔ روتے روتے ہنسا دیتی ہیں اور ہنستے ہنستے رُلا دیتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔۔۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یاداں ماضی ہی کیوں، مستقبل بھی تو یاداں میں آ سکتا ہے۔ یہ شاید ایسا ہی لگے جیسے مچھلیوں کا اڑنا، آگ کا ٹھنڈا کرنا اور بھینسوں کا درخت پر چڑھنا لگے۔ جیسے آگ کا کام جلانا ہے ویسے ہی یاداں کا کام ماضی کو حال میں واپس لانا ہے۔ لیکن یاداں میں آگ کی سی اضافی خاصیت ان کو دو دھاری بنا دیتی ہے۔ کہتے ہیں آگ جلاتی ہے اور شدید ٹھنڈک بھی جلاتی ہے ایسے ہی یاداں بھی کرتی ہیں۔ خوشی بھری ہوں یا دکھ بھری، سر پر سوار ہو جائیں تو آنسوؤں کی بھینٹ لے کر ہی ٹلتی ہیں۔

انسان بھی عجیب مخلوق ہے، حال میں رہتے ہوئے ماضی سے ناطہ توڑنا نہیں چاہتا، اس لیے یاداں کو ایسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے جیسے کوئی محبت کے پہلے تحفے کو سنبھال کر رکھتا ہے۔ ساری عمر یاداں کے پودے کو اپنی ذات پر سینچتا ہے، اپنے اندر پروان چڑھاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یاداں امر بیل ہیں، جیسے جیسے عمر گزرتی ہے یاداں کا درخت تناور ہوتا چلا جاتا ہے اور جان کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب ہستی کے درخت کے ساتھ یاداں رہ جاتی ہیں اور چند سوکھے پتے۔ پھر بلاوا آ جاتا ہے اور یاداں۔۔ ۔پتا نہیں یاداں یہیں رہ جاتی ہیں، مٹی میں مل جانے کے لیے یا آگے پاس آن ہو جاتی ہیں ایک لامتناہی دنیا میں۔۔ ۔جہاں کسی چیز کا کوئی انت نہیں۔ شاید دکھ اور خوشی کا بھی نہیں۔

جمعرات، 8 اگست، 2013

فیس بُکی ارشادات و اقوالات

میرے احباب میں سے اکثر فیس بُک پر پلاٹ یا پلازوں کے مالک ہیں۔ اور میری سڑیل طبعیت کے کرم ہیں کہ پورے محلے میں مجھے لوگ اتنی بار مہینے میں نہیں دیکھتے ہوں گے جتنی بار فیس بک پر روزانہ دیکھتے ہیں۔ چنانچہ اس صورتِ حال کا سادہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں اکثر فیس بُک پر پایا جاتا ہوں، اور دن کے کسی بھی وقت (بشمول رات) کسی بھی وقت بڑی بے شرمی سے پایا جا سکتا ہوں۔ اس پائے جا سکنے کی وجہ سے میں نہ صرف بذاتِ خود وہاں ادھر اُدھر کی ہانکتا رہتا ہوں، بلکہ اپنے جیسے دوسرے (ویلے کہنا زیادتی ہو گی) فیس بُکیوں کے ارشاداتِ گرامی بھی پڑھتا سنتا رہتا ہوں۔

کہتے ہیں جی کہ سانپ کو سانپ مارتا ہے، آرائیں کو آرائیں ہی ٹکرتا ہے اور فیس بُکیے کا دکھ درد ایک فیس بُکیا ہی سمجھ سکتا ہے۔ فیس بُک پر آپ غم غلط کرنے کے لیے بے شمار کام کر سکتے ہیں۔ گیم کھیلنا تو اب پرانا شوق ہو چکا ہے، تصویر بنا کر شئیر کرنا بھی کچھ نیا نہیں رہا، اپنے "میں ڈھڈی والے جا رہا ہوں" قسم کے اسٹیٹس اپڈیٹ بھی اب پرانے ہو چکے ہیں۔ لیکن فیس بک پر نئی چیزوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔ چنانچہ آج کل حبیبانِ فیس بُک  کے ہاتھ آ ئے چھنکنے کا نام ہیش ٹیگ ہے۔ اب ہیش ٹیگ اکیلا ہوتا تو کوئی حیرت والی بات نہیں تھی یہی ہیش ٹیگ ٹوئٹر اور گوگل پلس پر عرصہ دراز سے کھجل ہو رہے ہیں۔ فیس بُک احباب نے (یہاں اردو لکھنے والے فیس بکیے مراد ہیں) ایک نئی جگاڑ لگائی ہے۔ اپنے اقوالِ زرّیں کی تشہیر کے لیے انہوں نے ذاتی ٹیگ تخلیق کیے ہیں۔ مثلاً بلو، ٹِلو، اچھو، نِمو، بھالو وغیرہ ۔ چنانچہ اپنے اقوالِ زریں اور زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کرنے کے بعد نیچے یہ ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو فیس بک پر جا کر ان ناموں سے ہیش ٹیگ سرچ کر کے دیکھ لیں آپ کو زندگی کو سنوارنے والے ایسے ایسے اقوال ملیں گے کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا، آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے لگے گا، اب تک کی زندگی برباد شدہ لگے گی، آئندہ زندگی اس فیس بُک مرشد کے بغیر بے کار لگنے لگے گی، اور آپ حد سے زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں تو غصہ لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، فون وغیرہ وغیرہ قسم کے آلہ رسائی فیس بُک پر بھی نکل سکتا ہے۔

عزیزانِ گرامیِ بلاگ آوازِ دوست! ایک وقت تھا کہ ہم کھُل کر حسد فرما لیا کرتے تھے۔ یہی کوئی بیس برس پہلے۔ جب ہم چھوٹے یعنی، نِکے ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ہمیں اپنا حسد چھپانا پڑا کہ یہی دنیا کی ریت ہے۔ اب تقریباً پکی عمر تک پہنچتے پہنچتے اور پکتے پکتے یہ عادت اتنی پک چکی ہے کہ حسد کیے بغیر اگلا کھانا ہضم نہیں ہوتا (ہم حسد مارکہ پھکی بنانے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔)۔ خیر حسد تو ہوتا ہے لیکن ہم اس کو ویسے نکال نہیں سکتے جیسے چھوٹے ہوتے نکال لیا کرتے تھے۔ اور چونکہ ہماری اکثر و بیشتر کائنات فیس بُک ہی ہے، تو اس پر لوگو ں نے جب نئے طریقے ایجاد کر لیے تو ہمارا بھی دل کیا کہ ہم بھی ایسا کریں۔ اور نہ کر سکنے کی وجہ سے ہم بھی شدید قسم کے حسد کا شکار ہو گئے۔ اس کو نکالنے کے لیے ہم نے سوچا کہ زہر کو زہر سے اور ہیش ٹیگ کو ہیش ٹیگ سے مارا جائے، # حاسد کا ہیش ٹیگ تشکیل دے کر عوام الناس، خواص الناس بلکہ یکے بعد دیگرے ہر ایک کاستیا ناس بلکہ سوا ستیا ناس مارا جائے، دل کی بھڑاس نکالی جائے، ریسٹ روم میں 'ریسٹ' فرماتے ہوئے اترنے والے، بدہضمی اور پیٹ کی خرابی کی صورت میں گیس کے ساتھ دماغ کو چڑھنے والے زریں خیالات کو اقوالِ زریں کی صورت میں عوام الناس کی مت مار نے کے لیے فیس بُک پر رکھا جائے۔

لیکن صاحبو کیا بتائیں آپ کو، کہ جیسے ہم اکثر و بیشتر شاعری کی قبض کا شکار رہتے ہیں، کچھ یہی صورتحال اقوالِ زریں کی صورت میں بھی رہی۔ ہم نے بہتیری کوشش کی، فیس بک پر کئی کئی گھنٹے قیام کیا کہ شاید کچھ غیرت ہی آ جائے، مشہور و معروف احباب کے ہیش ٹیگز پر مشتمل ارشاداتِ گرامی کو بار بار پڑھا کہ شاید کوئی لیڈ مل جائے، کوئی سرا ہاتھ آ جائے۔ لیکن صاحب یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔۔الخ، ہماری قسمت تھی ہی نہیں ہم زور لگا کر رہ گئے اور فیس بُکی احباب اقوالِ زریں کے ڈھیر لگاتے چلے گئے۔ چنانچہ ہمارے پاس آخری حل یہ بچا کہ ایک عدد بلاگ پوسٹ لکھ کر دل کے پھپھولے پھوڑے جائیں، جو ہم نے پھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہاں بھی سواد نہیں آیا۔ پھپھولے کچھ نہ کچھ رہ گئے۔

یہ تو منفی باتیں تھیں، مثبت بات یہ ہے کہ ہم کُلی طور پر اقوالِ زریں سازی کے عمل سے باہر نہیں رہے، کچھ نہ کچھ اس سلسلے میں تشکیل پاتا رہا، وہ الگ بات ہے کہ اسے عوام کے سامنے شئیر کرنے کی بجائے آگ لگا دینا اکثر بہتر معلوم ہوا۔ لیکن چونکہ اب معاملہ دل کی بھڑاس نکالنے کا ہے، اور اظہارِ حسد کا ہے، اور اس پوسٹ کا پیٹ بھرنے کا بھی ہے تو ہم نے ان اقوالِ زریں کو یہاں پیسٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ کو پسند آئیں یا نہ آئیں یہ یہیں پڑے ہیں۔ کر لو جو کرنا ہے۔

پہلا قولِ زریں در اصل ایک پیروڈی ہے جو ماہا ملک کے ناول 'جو چلے تو جاں سے گزر گئے' کا ٹیمپلیٹ لے کر ہم نے 'جو چلے تو گاں سے گزر گئے' بنایا۔ گاں یا اگاں پنجابی میں آگے یا فرنٹ کو کہتے ہیں، اب آپ اس کے اطلاقات پر سیر حاصل غور فرما سکتے ہیں، اور کوئی بعید نہیں کہ ایسے ایسے معانی دریافت کر لیں جو ہم نے خواب میں بھی نہ سوچے ہوں۔

ایسے ہی اگلے دن ہم لائبریری سے ایک ناول لینے گئے چھوٹی کی فرمائش پر تو اس کا نام تھا "زندگی گلزار ہے"۔ ہماری منجی ٹھوک طبیعت نے اس کے حصے بخرے کیے اور اپنی تھرڈ کلاس طبیعت سے مجبور ہو کران ٹکڑوں کو دوبارہ سے جوڑا تو نتیجہ یہ نکلا "زندگی شلوار ہے"۔ یہ ہم وزن تو ہو گیا لیکن ساتھ ہی خاصا بے ہودہ بھی ہو گیا (یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے فیس بک پر نہیں لگایا)۔ چنانچہ اس کی اضافی تشریح کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تو ہم نے کچھ ایسے تشریح کی: "زندگی شلوار ہے۔ جس کا نالا زیادہ کسا جائے تو بھی سانس رک جاتا ہے اور ڈھیلا رہ جائے تو بھی سنبھالنی مشکل ہو جاتی ہے۔۔۔" اس سلسلے میں مزید بکنے کی گنجائش موجود تھی لیکن ہم نے امنِ عامہ اور پی ٹی اے کی پابندیوں سے بچنے کے لیے اتنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔

عزیزانِ گرامی اس سے پہلے کہ ہم مزید اقوالِ زریں بکیں، اور آپ کے ہاتھ اپنے بال (ظاہر ہے ہمارے بال آپ نہیں نوچ سکتے) نوچنے کی جانب بڑھنے لگیں، ہم اس پوسٹ کا یہیں اختتام کرتے ہیں۔ خوش رہیں، مسکراتے رہیں، اور فیس بُکی اقوالِ زریں تخلیق کرتے رہیں۔ کیا خبر کسی دن آپ کی ذاتی کتاب ہی چھپ جائے۔

جمعہ، 2 اگست، 2013

اگست

ابو جی کبھی کبھی بتایا کرتے ہیں کہ تیرے دادے کے پاس بڑی زمین تھی۔ اور تیری دادی بڑی شیر دل عورت تھی۔ دادا جی آخری عمر میں ذہنی توازن کھو بیٹھے ۔ نماز پڑھنے نکلتے تو گھر کا پتا بھول جاتے تھے۔ چارپائی پر دھوپ پڑتی تھی تو نیچے اس کے سائے کو جانوروں کا کترا ہوا چارہ سمجھ کر اکٹھا کرنا شروع کر دیتے۔ آوازیں دینے لگتے کہ وچھے کو ڈالو وہ بھوکا ہے۔

ابو جی بتایا کرتے ہیں کہ دادی ایک بار اکیلی کماد میں ڈنڈا لے کر بیٹھ گئی۔ ایک باہر والا (خنزیر شاید) بہت تنگ کرتا تھا، دادی نے اکیلے ڈانگ کے ساتھ اس کا کریا کرم کر دیا۔
ابو جی سب سے چھوٹے تھے ۔ ابوجی سے پہلے چار پانچ بھائی چھوٹے ہوتے ہی فوت ہو گئے۔ ان کے اور دوسرے تایاؤں کے نام دوبارہ دوبارہ رکھے ہوئے تھے، مرنے والے بچوں کے نام پر۔ سنا ہے ہمارا سب سے بڑا تایا عبدالحق ہجرت کے وقت ہوش سنبھال چکا تھا۔ تایا عبدالحق اب اللہ بخشے اس دنیا سے گزر چکا ہے۔ تایا عبد الحمید بھی بس چارپائی سے لگ گیا ہے۔ تایا عبد الجمیل بھی سنا ہے اس وقت لڑکپن میں تھا، پر ان کا ذہنی توازن بھی اب ٹھیک نہیں رہا، انہیں اب باتیں یاد نہیں رہتیں۔ بس اپنی اولاد کے نام اور چہرے یاد ہیں، اور بھائیوں کے چہرے ۔ بس ۔۔۔۔ایک پھوپھی تھی وہ بھی چھ سات برس پہلے چل بسی۔

بڑے کزن بتاتے ہیں کہ دادے کا نام شیر محمد، پڑدادے کا نام ماموں تھا۔ لکڑ دادے کا نام بھی شاید بتایا وہ یاد نہیں رہا۔ ابو جی کی یادیں اکثر فیصل آباد آنے کے بعد کی ہیں، گٹی اسکول جاتے تھے پیدل، یا بھڑولیاں والا جو ڈجکوٹ، فیصل آباد کے نزدیک ایک پنڈ ہے۔ جہاں ہمارے دادے کو بارڈر پار آنے کے بعد پانچ ایکڑ زمین الاٹ ہوئی تھی، بھارتی پنجاب کی زمین کے بدلے۔ اب پتا نہیں دادے کی کتنی زمین تھی وہاں۔ لیکن یہاں پانچ کِلّے ہی ملی، جس میں سے کوئی دو کِلّے کلر زدہ ہے وہاں پیداوار بہت کم ہوتی ہے۔ ڈجکوٹ اور فیصل آباد سارا نہری علاقہ ہے زمین کا پانی آک جیسا کڑوا۔ پِنڈ وہاں ہے جہاں نہر چھوٹی ہوتے ہوتے راجباہ رہ جاتی ہے۔ وہاں پانی بھی بس ایسے ہی پہنچتا ہے۔ ابا جی کواب آ کر ان پانچ کِلّوں میں سے ایک حصے آئی ہے، تین چار ٹکڑوں میں۔ جہاں ہم پچھلے دو سال سے گندم کاشت کرتے ہیں۔
یہ ساری یادیں اور پھر اگست آ جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا مجھے اگست کا بڑا شوق تھا۔ بیج لے کر لگاتا تھا، جھنڈا لگایا جاتا تھا۔ اللہ بخشے پچھلے سال فوت ہونے والا چھوٹا بھائی باقر بھی جھنڈا لگانے اور چراغاں کرنے کا بڑا شوقین تھا۔ شاید میں بھی اس کی عمر میں ایسا ہی تھا۔ لیکن اب عرصہ ہوا، آٹھ دس سال ہو گئے مجھے چودہ اگست کا دن زہر لگتا ہے۔ اس وجہ سے کے میرے ارد گرد کے لوگ سلنسر نکال کر جشن آزادی مناتے ہیں۔ اور بین کرنے والی آوازوں والے واجے وجاتے ہیں۔ پہلے پہلے پریڈ وغیرہ بھی ہوا کرتی تھی، شاید 23 مارچ کو تو اس سے بھی کچھ "حب الوطنی" جاگ جاتی تھی۔ اب وہ بھی نہیں ہوتی، تو حب الوطنی کو ڈنڈا دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے حب الوطنی سوئی رہتی ہے۔
عرصہ ہوا میری سوچ اُلٹی ہو چکی ہے۔ مجھے جو پہلے سیدھا نظر آتا تھا اب اُلٹا نظر آتا ہے۔ پاکستان بننا جو ایک سادہ حقیقت لگتی تھی، جیسے دو جمع دو چار ہو اب یوں لگتا ہے جیسے سارا سیاست کا کھیل تھا۔ پنجاب کے جاگیر داروں نے پنجاب کو پاکستان بنا دیا، بلوچستان والے روتے ہیں کہ ہم سے ہاتھ ہوا، سابقہ سرحد والے شاید وہاں بھی کوئی ریفرنڈم کا چکر تھا سرحدی گاندھی وغیرہ۔ اور پھر سندھ اسمبلی تھی جہاں قرارداد پاس ہوئی تھی، اب پتا نہیں متفقہ تھی یا ہمارے آج کل کے وزرائے اعظم کے انتخاب کی طرح سادی اکثریت سے پاس ہوئی تھی۔ اور بنگال تھا جو پھر بنگلہ دیش بن گیا۔

اور پھر چودہ اگست کو شہداء کی قربانیاں، اور ان کے رونے، جو مر گئے ان کے بین۔ اور اس ملک کی بنیادیں اور ان کا خون وغیرہ وغیرہ۔ ایک عرصے تک میں اسے عظیم قربانی سمجھتا رہا۔ معلومہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت، پاکستان کے لیے ہجرت۔ ایک نظریاتی ملک کے لیے ہجرت۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ لاکھوں لوگ اس کے لیے کٹ مرے۔ پنجاب کے بزرگ، بڑے بوڑھے بتاتے کیسے انہوں نے خون کےدریا پار کیے۔ پھر میری سوچ الٹی ہو گئی۔ اور مجھے ادھر اُدھر سے پتا لگنے لگا کہ اُدھر والے "کافروں" نے بھی ایسے ہی چھوٹے موٹے دریا نہیں تو خون کی ندیاں کم از کم ضرور پار کی تھیں۔ مستنصر حسین تارڑ کہتا ہے لاہور میں لکشمی مارکیٹ ہوا کرتی تھی کہ محلہ ہوا کرتا تھا۔ امیر ہندوؤں کی آبادی، جسے پتا نہیں کس نے ساڑ کر سواہ کر دیا کہ کئی دن تک اس کی راکھ اطراف کے علاقوں پر گرتی رہی۔ اور پتا نہیں کتنے اس چتا میں جل گئے۔ اور وہاں، باقی رہ جانے والے لاہوریے ہندوؤں کے خزانے کھودنے جایا کرتے تھے۔ تارڑ جاٹ ہے، اور جاٹ سنا ہے سکھ ہوا کرتے تھے مسلمان ہونے سے پہلے۔ اور تارڑ کہتا ہے کہ سکھ جاٹ اور مسلمان جاٹ سارے خوشی غمی شادی بیاہ پر اکٹھے ہوا کرتے تھے مذہب سے بالا ہو کر۔ پر پھر ۔۔۔۔پھر شاید سینتالیس آ گیا یا اس سے پہلے ہی دیواریں کھڑی ہو گئی تھیں۔

پھر ہجرتیں ہوئیں۔ ادھر آنے والے مہاجر کہلاتے، اُدھر جانے والے شرنارتھی۔ سنا ہے پہلے "کافروں" نے مسلمانوں پر حملے کیے ان کے خون بہائے، ان کی بیٹیاں اغواء کیں اور ان کے بوڑھوں اور بچوں کو قتل کیا۔ پھر سنا ہے کہ اِدھر کے مسلمانوں کو بھی جوش آیا اور انہوں نے بھی یہی کچھ کیا۔ لیکن یہ دوسرا سنا ہے مجھے بعد میں پتا چلا جب میں اُلٹی سوچ والا ہو گیا تھا۔ جب میں نے آگ کا دریا کے بارے میں سن لیا تھا، پتا نہیں قراۃ العین حیدر کیا کہتی ہے اس میں لیکن ایسا ہی کچھ سنا ہے اس کے بارے میں۔ کہ مسلمان بھی حاجی لق لق نہیں ہو گئے تھے، انہوں نے بھی "کافروں" کی بینڈ بجائی تھی، جتنی ان سے بج سکی۔
پھر کچھ انصار بن گئے۔ انصار بن کر خود ہی مہاجروں کی اراضیوں، حویلیوں، مکانوں، جائیدادوں پر قابض ہو گئے۔ راتوں رات امیر ہو گئے۔ کچھ کے تکے لگ گئے وہ ادھر آ کر امیر ہو گئے۔ کچھ کے نہ لگے وہ غریب ہی رہے۔ پتا نہیں میرا دادا امیر تھا یا غریب۔ میرے ابو جی کی یادیں دھندلی ہیں، ہم کونسا سید ہیں جو شجرہ رکھتے، مجھے تو ابھی تک یہ نہیں یاد ہوا، کہ ہم جالندھرئیے تھے یا ہوشیار پورئیے۔ ہر بار کزن سے پتا کر کے بھول جاتا ہوں ۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو شاید ہم وہاں اچھے حال میں ہوتے، یا شاید نہ ہوتے۔
لیکن ہر سال چودہ اگست آ جاتا ہے۔ اور مجھے مجبوراً رونے والا منہ بنانا پڑتا ہے۔ کہ یہ روایت ہو گئی ہے مرنے والوں کا بین کرنے کے لیے، یاد دہانی کے لیے کہ یہ ملک کیسے وجود میں آیا تھا۔ پر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے میرے پاس بین کے آپشن وسیع ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر پچھلے دس برس میں ادھر شمال مغرب کی جانب بین کے وسیع مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ ادھر کراچی میں جنوب میں بڑی زرخیزی ہے۔ ادھر جنوب مغرب میں، بلوچستان میں خون تھوک کے حساب سے بہہ رہا ہے۔ میرے پاس اب پینسٹھ سال پہلے مرنے والوں کے بین کے علاوہ بھی آپشن موجود ہیں۔ میں اتنا پُر ہو چکا ہوں کہ سمجھ نہیں آتا کس کا بین کروں، کس کس کا بین کروں۔ بین کروں یا نہ کروں۔ اس ملک کے بننے کا بین کروں، یا بننے کے بعد بگڑنے کا بین کروں۔ سینتالیس میں مرنے والوں کا بین کروں، بے گناہوں کا جو مسلمان تھے ان کا یا جو مسلمان نہیں تھے ان کا (مسلمان نہیں تھے کا بین نہیں بنتا ویسے یہ ان کا کام ہے جو مسلمان نہیں ہیں، اصولی طور پر ایسے ہی ہوتا آیا ہے پینسٹھ سالوں سے ۔) غیر مسلمانوں کا بین تو قطعاً نہیں بنتا، رب جانے ان مردودوں میں سے کوئی مرا بھی تھا یا نہیں یا "کافروں" نے کہانیاں ہی گھڑ رکھی ہیں۔ یا آج کے کافر قرار دے کر مارے گئے مسلمانوں کا بین کروں۔ جنہیں پتا ہی نہیں کہ انہیں کس لیے مارا جا رہا ہے ان کا بین کروں، یا جو نا سمجھ بم باندھ کر ان کو مار رہے ہیں ان کا بین کروں۔ "مجاہدین" کا بین کروں یا "کرائے کی فوج" کے مرنے والے، دس ہزار تنخواہ کی خاطر اغواء ہو کر گلے کٹوانے والے ان خاصہ داروں کا بین کروں۔
میں اتنا پُر باش ہو چکا ہوں، اتنا لد گیا ہوں کہ سمجھ نہیں آتا کس کس کا بین کروں۔ اس سب کا یا اپنی عقل کا، اپنی وکھری سوچ کا، اپنی بے غیرت طبیعت کا جو کہیں فٹ نہیں بیٹھتی، جو ہر رویے پر سوال اٹھاتی ہے، ہر بات پر پہلے ناں کہتی ہے پھر ہاں کی طرف جاتی ہے، ہر جگہ گلاس آدھا خالی دیکھتی ہے۔ میرا خیال ہے مجھے یہی کرنا چاہیئے، اس بے غیرت طبیعت کا بین، جو سوال کرنے کی کُتی عادت کا شکار ہے، ہر جگہ سوالنے کی گندی عادت کا شکار۔

اتوار، 28 جولائی، 2013

اجتہاد

دین کی سپیشلائزیشن دین پر ہزار سالہ پرانی فقہی سوچ کی اجارہ داری قائم کرتی ہے۔ اگر کوئی عام مسلمان، مناسب حد تک عقائد سے واقفیت رکھنے کے باوجود کسی چیز پر اعتراض کرے تو اسے چپ کروا دیا جاتا ہے کہ تمہیں یہ حق حاصل نہیں ہے۔ حق حاصل کب ہو گا؟ اگر تم پچھلوں کی تھیوری گھول کر پی لو، انہیں روایات پر چلو جن پر وہ چلے تھے اور اس کی سیدھ میں رہ کر بات کرو جو پچھلوں نے متعین کر دیا تھا تو تمہاری بات قابلِ قبول ہو گی ورنہ جہنم میں جاؤ، تم فتنہ پرور ہو۔ جب یہ فکر و سوچ موجود ہو تو اجتہاد پر جتنا مرضی زور لگا لیا جائے کھوتی وہیں آ کر کھلوتی ہے جہاں سے وہ چلی تھی۔ پچھلوں کے متعین کردہ راستے پر چلنے سے بار  بار  بار  بار  وہی نتیجہ نکلتا ہے جب متغیر کی قیمتیں وہی رکھنی ہے تو جواب بھی وہی آئے گا۔ مثلاً احادیث میں ہی تدوینِ جدید کی بات کر لیں جو ترکی میں جاری ہے۔ جس میں احادیث کو زمانی نکتہ نظر سے الگ کیا جا رہا ہے، ایسی احادیث جو ہزار سال پہلے کے لیے موزوں تھیں اور ایسی احادیث جو آفاقی پیغام رکھتی ہیں، زمانے سے ماوراء ہیں۔ اب اس پر اختلاف کا طوفان کھڑا ہو سکتا ہے کہ حدیث اس میراث کا حصہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے چھوڑی، چنانچہ حدیث قیامت تک کے لیے ہے۔ جیسے قرآن قیامت تک کے لیے ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اونٹ کا پیشاب پلانے والی حدیث، اور اس جیسے کئی اقوالِ رسول ﷺ جو ایک خاص سیاق و سباق و موقع محل کے مطابق دئیے گئے ہر زمانے کے لیے کار آمد نہیں ہو سکتے، اور نہ ہی اغلباً رسول اللہ ﷺ نے ایسا ارادہ فرمایا تھا۔ تو جب طرزِ فکر کو محدود کیا جاتا ہے، جب ہر غیر روایتی چیز کو رد کیا جاتا ہے، جب "اجماعِ امت" کے نام پر (جو پچھلوں کی پیروی کا ہی دوسرا نام ہے) ڈراوے دئیے جاتے ہیں۔ جب پچھلوں کی پیروی صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ "ہم سے زیادہ متقی تھے"(حالانکہ ان کے متقی پن کا  آج کے مسائل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں بنتا)  تو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کھوتی وہیں آ  کھلوتی ہے  چاہے جتنا مرضی زور لگا لے۔
 ایک اور مسئلہ دین کے ماخذات کا ہے۔ دین کا ماخذ قرآن ہے، حدیثِ رسول ہے لیکن قرآن سے کم اہمیت والی اور اختلافات کا خدشہ نسبتاً زیادہ چونکہ اس کو محفوظ رکھنے کا کوئی   آسمانی وعدہ نہیں تھا، لوگوں نے خود سے احادیث بھی گھڑیں، سینکڑوں برس کی تدوین و تالیف کے باوجود آج بھی ضعیف احادیث انہیں کتب میں موجود ہیں اور عوام الناس میں گردش بھی کرتی ہیں (ظاہر ہے عوام ضعیف احادیث سے آگاہ نہیں ہوتے)۔ تیسرا ماخذ جو بنا لیا گیا ہے وہ پچھلوں کے اقوال ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیم اجمعین چونکہ انہیں زمانہ رسول ﷺ ملا، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے فقہا۔ یعنی جو کوئی زمانہ رسول ﷺ سے جتنا قریب ہے جنرل رول آف تھمب کے تحت اس کی رائے اتنی ہی زیادہ اہمیت والی ہو گی، آج کی رائے پر فوقیت دی جائے گی اور وہ اتنی ہی زیادہ روایت کی وہ چار دیواری قائم کرنے میں معاون ہو گی جو دین کے معاملے میں سوچتے ہوئے عائد کرنا، طاری کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔  یہ منظر نامہ اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ان سارے ماخذات کو ایک  دوسرے کے ساتھ مکس کر دیا جاتا ہے۔ قرآنی احکام ، احادیثِ رسول اور احادیثِ اصحابِ رسول و بزرگان کو ایسے مکس کر  دیا جاتا ہے کہ  اللہ نے کیا فرمایا، رسول اللہ ﷺ  کا کیا حکم تھا اور دیگر بزرگان کی رائے، قول یا عمل کونسا تھا۔ سب کچھ یکساں اہمیت کے تحت نافذ کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی دو تین برس پہلے اردو محفل پر موسیقی کے  حلال حرام کے ہونے کے حوالے سے ایک قرآنی آیت پیش کی گئی (سورہ لقمان آیت 6) جس میں "لغو باتوں" (لہو الحدیث)  کا ذکر تھا۔ اس سلسلے میں "لغو باتوں" کا مطلب موسیقی نکالا گیا، جو دراصل ایک صحابیِ رسول ﷺ کی بیان کردہ اس آیت کی تفسیر سے آیا۔ اوپر بیان کردہ قانون کے مطابق صحابیِ رسول کا قول آج کسی شخص کے قول سے زیادہ اہمیت  کا  حامل ہے۔ کیوں؟ چونکہ وہ زمانہ رسول ﷺ کے قریب ترین ہیں، دوم وہ رسو ل اللہ کے تربیت  یافتہ ہیں۔ اس پر وہی سوال اٹھتا ہے کہ دین اللہ اور اس کے رسول  ﷺ (جن کی رہنمائی اللہ بذریعہ وحی کرتا ہے) سے آتا ہے یا اصحابِ رسول اور بزرگانِ دین سے۔ اور  جیسا کہ بتایا گیا دین کے حوالے سے  زمانی فاصلے کی اہمیت کے قانون کے تحت اصحابِ رسول  ﷺ کا کہنا بھی  کچھ کم اہمیت کے ساتھ  دین میں وہی درجہ رکھتا ہے، کہہ لیں کہ اللہ، رسول کے بعد تیسرے نمبر پر۔  موسیقی کو قرآن میں کہیں واضح الفاظ میں حرام نہیں کہا گیا، احادیث پر بحث کی جا سکتی ہے کچھ لوگ حرام کہتے ہیں ایک اقلیت نے حلال بھی کہا۔ لیکن موسیقی کو قرآن سے بھی حرام  ثابت کرنے کے لیے  تفسیر پیش کر دی گئی (جو تیسرے ذریعے سے آتی ہے یعنی صحابیِ رسول)۔ اب اسے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ قرآنی حکم ہی ہے۔ یعنی  دین کے ماخذات کو  مکس کر کے پیچیدگی پیدا کرنے کا کام، جیسا کہ اوپر  ذکر کیا گیا۔ ایسی صورت میں جاوید احمد غامدی اگر موسیقی کو حلال کہے، شاہ محمد جعفر پھلواری اسے مستحب کہے تو وہ غلط قرار پاتے ہیں ۔
چنانچہ وہی بات جو پیچھے عرض کی، اجتہاد روایت کے اندر رہ کر کیا جائے تو قابلِ قبول ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ اجتہاد وہی جواب نکالتا ہے جو پانچ سو برس پہلے نکلتا تھا۔ "اجماعِ امت" اور روایات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ  کوئی ان حدود سے باہر جا کر نہ سوچ سکے جو پچھلوں نے متعین کر دیں۔ چنانچہ  دین بے زار طبقہ آخر کار یہ کہہ دیتا ہے کہ مذہب تو ایک ثقافتی عنصر ہے، گٹے ننگے کرو یا نہ کرو کیا فرق پڑتا ہے، پینٹ کے ساتھ  جرابیں پہن کر گٹے ننگے  کیا کریں برے لگتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ
نتیجہ یہ کہ ایسے ماحول میں اجتہاد پانی میں مدھانی کا کام کرتا ہے جتنی مرضی چلا لو مکھن نہیں آتا، یا جو مکھن آنا تھا وہ لوگ پہلے ہی نکال چکے۔

منگل، 2 جولائی، 2013

سوالات

مسلمانوں میں رفتہ رفتہ یہ سوچ شدت سے پروان چڑھ رہی ہے کہ وہ اللہ کی چنیدہ امت ہیں، چنیدہ وہ خیر الامت نہیں یہودیوں والی چنیدہ۔ جو جنت کے اکلوتے حقدار ہیں، اس دنیا پر حکمرانی کا حق بھی رکھتے ہیں اور باقی ساری قومیں ان سے کم تر درجے کی ہیں۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسواک نہ کرنے کے عمل کو دین سے دوری اور دنیاوی ذلالت کی وجہ قرار دے دیا جاتا ہے چاہے یہ سارے بد نصیب برش بھی کرتے رہے ہوں۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ "خلافت" کا قیام ہر مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے۔ خلاف علی منہاج النبوۃ اور اس قسم کی دلکش عربی اصطلاحات استعمال کر کے ایک نظامِ حکومت کو اسلام کا سیاسی ونگ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ نہ قرآن میں خلافت کے احکامات موجود ہیں، نا احادیث رسول ﷺ میں صراحت بیان کی گئی ہے۔ درحقیقت خلافتِ راشدہ (اسلام کا اکلوتا قریباً تیس سالہ دور جب اسلام عہدِ نبوی کے علاوہ اپنی حقیقت سے قریب ترین حالت میں نافذ رہا) کا دور پہلے دو خلفاء کے بعد موج در موج خلفشار کا دور تھا۔ پہلے خلیفہ کے علاوہ سب خلفاء فتنے کی وجہ سے شہید کیے گئے، ہر خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ مختلف رہا۔ زیادہ تر واصل بحق ہونے والا خلیفہ اصحابِ رسول ﷺ کی ایک جماعت مقرر کر گیا کہ اپنے میں سے ایک خلیفہ چن لو۔ ان ہستیوں کے بعد کیا ہوا؟ یہاں تاریخ دوہرانے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس کے بعد کیا بنا۔ آج اگر یہ خلافت قائم ہو گئی اور مسائل کا حل پھر بھی نہ نکلا تو پھر ذمہ دار کون ہو گا؟ مصر میں اقتدار ملا تو اسلام  پسندوں نے کیا کر لیا؟ ترکی میں دس برس کے بعد عوام میں بے چینی کیوں ہے؟ ملائیشیا میں پچاس سال سے برسرِ اقتدار نجیب رزاق کا حکمران اتحاد باریسان ناسینال اپوزیشن کی ہڑتالوں اور دھاندلی کے الزامات کا سامنا کیوں کر رہا ہے؟ (یاد رہے یہ اتحاد انتخابی حلقوں میں رد و بدل کر کے بمشکل کامیاب ہو پایا، اور اس پر ان مٹ سیاہی کے جعلی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے مبینہ طور پر ایک سے زیادہ بار ووٹ پڑے)۔ ایران میں احمدی نژاد (سلفیوں اور طالبانی اسلام کے داعیوں کے لیے تو شیعہ نام ہی کفر کا ہے، یہ بقیہ ماندہ اسلام کی بات ہو رہی ہے) نے آٹھ دس برس حکومت کی، اس کی سادگی کے قصے مشہور تھے اور آج ایران اس کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے کوڑیوں کا محتاج ہو رہا ہے، وہاں یہی سخت گیری ہمیشہ چلتی رہے گی؟ کیا وہاں اسلامی (جیسا بھی اسلام ہے) انقلاب سو کیا پچاس برس کا سورج بھی دیکھ سکے گا؟ کیا وہاں (ان کے عقیدے کے مطابق) اللہ کا نظام نافذ کر دینے سے سب کچھ ٹھیک ہو گیا؟ اتنے سوالات ہیں کہ جگہ ختم ہو جائے گی۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اسلام کو سیاسی طور پر نافذ کر دینا، ایک "اسلامی" سیاسی نظام لے آنا کیا یہی مسئلے کا حل ہے؟ اور کیا چودہ سو سالہ تاریخ میں اسلام کو اس بات سے فرق پڑا کہ وہ اقتدار میں ہے یا نہیں؟ کیا اسلام کی دعوت کے لیے نبی اللہ کو مکے کا اقتدار عطاء ہوا تھا؟ بدقسمتی صرف یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو من و سلوی کے حق دار بنی اسرائیل جیسا سمجھنے لگے ہیں، جیسے رب صرف ان کا ہے اور نبی ﷺ بھی صرف ان کا ہے، جنت بھی صرف ان کی ہے۔ جس دن مسلمان اس سوچ سے باہر نکل آئے کہ رب تو سب کا سانجھا ہے، اور نبی ﷺ کی رحمت بھی سب کے لیے تھی اور ہے، اور اس نے کوڑا پھینکنے والی کی تیمار داری کی، پتھر مارنے والوں کے لیے دعا کی اس دن ان کی نظریں اسلام کے سیاسی نفاذ کی جانب نہیں اسلام کی دعوت و تبلیغ کی جانب مرکوز ہو جائیں، شاید۔۔۔۔شاید تب دین صرف اللہ ہی کا ہو جائے۔۔۔ یا شاید القاعدہ کے بارود بردار "کافروں" کا خاتمہ کر کے دین صرف اللہ ہی کا کر دیں۔ انتظار ہے اس وقت کا جب سچ اورجھوٹ الگ الگ ہو جائیں اور انصاف کی ترازو کھڑی کر دی جائے۔ یہ اس دن ہی پتا چلے گا، ورنہ اس دنیا میں تو ہر کسی کا اپنا سچ، ہر کسی کا اپنا مذہب، ہر کسی کا اپنا "اسلام"۔۔۔۔۔

منگل، 14 مئی، 2013

موٹروے

موٹروے ویسے تو ایک سڑک کا نام ہے۔ لیکن مسافر کے لیے شاید یہ صرف ایک سڑک سے بڑھ کر ہے۔ موٹروے سے مسافر کا پہلا پہلا واسطہ دو سال پہلے پڑا۔ مسافر نے حسب معمول، جیسا کہ وہ ہر کام تاخیر سے کرتا ہے، دیر سے اپنے شہر سے نکلنا شروع کیا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں وہ کہانی بیان ہو چکی ہے۔ تو اس مجبوراً نکلنے کی وجہ سے پہلے تو وہ بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جاتا رہا اور جب رزق کے معاملے میں اللہ کی رحمت بڑھی تو موٹروے سے واقفیت چل نکلی۔ تب سے ہر ہفتے لاہور آنا جانا ہوتا ہے اور ہر ہفتے اس سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ پورے ہفتے میں ایک ہی قابل ذکر کام ہوتا ہے اور وہ لاہور کا سفر ہے جس کے بہانے موٹروے سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔

موٹروے سے مسافر کی واقفیت کوئی بہت قریبی نہیں۔ یہی جیسے دو اجنبی روز ایک دوسرے کے قریب سے گزریں تو جیسے اک بے نام سا ربط بن جائے، شناسا لیکن اجنبی چہروں اور آنکھوں کے اس تعلق سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ جیسے راستے کے ہر پتھر اور گڑھے کی عادت ہو جاتی ہے اور جب تک وہاں سے گزرتے جھٹکا نہ لگے کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے ہی راستے میں ٹکرانے والے اجنبی چہروں کی عادت سی ہو جاتی ہے نظر نہ آئیں تو کوئی کمی سی رہ جاتی ہے۔ موٹروے اور اس کے نشیب و فراز، اس کے راستے میں آنے والے درخت، پتھر، کھیت کھلیان، بے فکرے دیہاتی اور وسیع و عریض لینڈ اسکیپ مسافر کے ساتھ کچھ ایسی ہی واقفیت رکھتے ہیں یا شاید یہ صرف مسافر کی اپنی سوچ ہے اور یہ سب اسے  دوسرے مسافروں جیسا ہی سمجھتے ہیں جو چلے جاتے ہیں اور لوٹ کر نہیں آتے۔ لیکن اس سے بھلا فرق بھی کیا پڑتا ہے تعلق تو اندر کہیں ہوتا ہے سوچ میں باہمی اظہار چاہے نہ بھی ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔۔

موٹروے سے یہ تعلق جیسا بھی ہو ابھی تک چل رہا ہے۔ اس وقت مسافر کے اردگرد موٹروے بھاگ رہی ہے اور اس کے محسوسات لفظوں میں ڈھل رہے ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے موٹروے اسلام آباد جیسی ہے سرد مزاج اور روکھی، پروٹوکول اور فاصلے کی دلدادہ، شاید اسلام آباد جاتی ہے اس لیے۔ جی ٹی روڈ اس کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے کالونی کے مقابلے میں محلہ ہو، عوامی، پر ہجوم، چہل پہل والا اور شور بھرا۔ جی ٹی روڈ پر ہر کچھ دیر بعد ایک شہر یا قصبہ آ جاتا ہے موٹروے پر یہی فرض اوورہیڈ پل سر انجام دیتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر راستہ بنانا پڑتا ہے اور موٹروے پر راستہ گویا راہ دیکھتا ہے۔

موٹروے پر چڑھ کر یوں لگتا ہے گویا آپ اردگرد سے کٹ گئے ہیں۔ موٹروے کا ایک ڈیکورم ہے۔ ایک لمبی نیلی پٹی جو چلتی چلی جاتی ہے چلتی چلی جاتی ہے اور اس کے ارد گرد ایک الگ ہی دنیا۔ اس لمبی پٹی پر نظر رکھی جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے منزل ہر لمحہ آپ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپ کھڑے ہیں اور منزل قدم بہ قدم آپ کو گلے لگانے کے لیے آ رہی ہے۔ اس پٹی پر نظر رکھیں تو جدت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر کلومیٹر کے فاصلے پر بورڈ، موڑ، انٹرچینج، ہیلپ لائن کے بوتھ اور دورانِ سفر آرام کے لیے جدید ترین سہولیات۔

لیکن صرف ہلکا سا زاویہ نظر تبدیل کرنے سے گویا دنیا بدل جاتی ہے۔ ذرا دائیں یا بائیں دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ نیلی پٹی ہی دنیا نہیں، ایک اور دنیا کے اندر بسی ہوئی ہے۔ ایک وسیع و عریض سبز لینڈ اسکیپ جس کے اندر کسی مصور نے بڑے سے برش سے یہ نیلی پٹی کھینچ دی ہے۔ دور تک پھیلے ہوئے کھیت کھلیان، درخت اور چھوٹی چھوٹی سڑکیں، تہذیب کے نشان چھوٹی چھوٹی بستیاں، گھر گھروندے اور آتے جاتے انسان۔ لیکن اس وسیع لینڈ اسکیپ کے سامنے سب کیڑے مکوڑے۔ موٹروے پر دوڑتی بس کی سیٹ نمبر پینتالیس پر بیٹھا مسافر اس وسعت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ مصورِ کائنات کے ذوق ِ مصوری کا ہلکا سا ادراک ہوتا ہے اور اس کا دل سبحان اللہ پکارنے کو مچل اٹھتا ہے۔ کہیں سبز رنگ ہے، کہیں گہرا سبز، کہیں ہلکا سبز، کہیں مٹیالا رنگ ہے، اور کہیں سنہری۔ جیسا موسم ہے ویسا رنگ ہے، آج کل گندم کے خوشے لہراتے تھے، ہر ہفتے گندم کا رنگ گہرے سبز سے پھیکا پڑتا پڑتا سنہری مائل ہوتا گیا اور اتنا سنہری ہو گیا کہ زمین جیسے سونے کی ہو گئی۔ اور اب کسان یہ سونا اکٹھا کر رہے ہیں۔ کہیں پھر سے مٹیالا رنگ نمودار ہو رہا ہے۔ اور کہیں ابھی یہ سنہری پن باقی ہے۔ کہیں پھر سے سبز شیڈ نمودار ہو جاتا ہے۔ اور مسافر کے منہ سے رنگوں کے اس خوبصور ت انتخاب پر موزوں الفاظ ِ تحسین بھی نہیں نکل پاتے۔

موٹروے صرف د و دنیاؤں کا نام ہی نہیں۔ یہاں ایک تیسری دنیا بھی پوری آن بان سے نمودار ہو جاتی ہے۔ اور وہ ہے مسافر کے اندر کی دنیا۔ مسافر فطری طور پر ایک تنہا شخص ہے۔ اپنے آپ میں گم رہنے ولا، خود ہی اندازے لگا کر خود ہی فیصلے کرنے والا ایک ایسا ریاضی دان جو دوسراہٹ کے نامعلوم متغیر کو اپنی ذات کی مساوات میں شامل کرنے سے کتراتا ہے۔ اس لیے صرف اپنے آپ کو ہی مساوات کے دونوں جانب رکھے زندگی گزار دیتا ہے۔ موٹر وے کی ڈیڑھ گھنٹہ طویل تنہائی مسافر کے اندر کی تنہائی سے مل کر دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ ایک نیلی پٹی جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی، افق تا افق چلتی چلی جاتی ہے اور اس پر دوڑتا تنہا مسافر۔ ایک وسیع لینڈ اسکیپ ، آسمان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا وسیع منظر اور اس میں ایک نیلی پٹی پر دوڑتا تنہا مسافر، اور مسافر کے اندر کی تنہائی یہ سب مل کر بعض اوقات اتنی وحشت پیدا کر دیتے ہیں جیسے سانس کے لیے ہوا  کم پڑنی شروع ہو جائے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سفر باہر کی تنہائی سے شروع ہوتا ہے، جیسے درخت تلے کھڑے ہونے کے باوجود بھی بارش دھیرے دھیرے اپنا راستا بنا لے اور بھگونے لگے، ایسے یہ وسیع و عریض تنہائی اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ پھر جیسے مقناطیس کو مقنا طیس کشش کرتا ہے، مثبت کو منفی کھینچتا ہے ویسے باہر کی تنہائی اندر ایک ردعمل پیدا کرتی ہے ۔ اندر سے باہر کی جانب ایک سفر شروع ہوتا ہے اور جب یہ دو طرفہ سفر مکمل ہوتا ہے تو مسافر دوہری تنہائی کے حصار میں آ جاتا ہے۔

تنہا ہونے کا دکھ وہی جان سکتا ہے جو یا تو فطری طور پر تنہا ہو یا حالات کے ہاتھوں ستایا ہوا ہو۔ تنہائی کسی بھی طرح وارد ہو مسافر کے تجربے میں طبعیت کی قنوطیت تنہائی کے لیے عمل انگیز ہوتی ہے۔ گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کی صلاحیت دھیرے دھیرے اس خالی پن کو پوری کائنات پر نافذ کر دیتی ہے۔ ذات کی تنہائی اور باہر کی تنہائی مل کر اتنی بڑی تنہائی تشکیل دیتی ہیں کہ وحشت کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ ایسے میں عجیب و غریب سوچیں پروان چڑھتی ہیں۔ کبھی تو یہ تنہائی اتنی پھیل جاتی ہے کہ آفاقی ہو جاتی ہے۔ مسافر کی تنہائی، راستے کی تنہائی، نسلِ انسانی کی تنہائی اور اس کرے پر موجود زندگی کی تنہائی۔ اتنی بڑی بڑی تنہائیاں کہ مسافر کی اپنی تنہائی ان کے سامنے ہیچ محسوس ہونے لگے۔

کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے موٹروے پر چڑھنا کسی مراقبے کی ابتدا ہو۔ مراقبہ بھی تو ایک خلا میں اترنے کا نام ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس خلا میں کوئی رہنما نہیں ہوتا ۔ تنہائی کوئی بھی ہو، اس تنہائی میں ایک دوسراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ پالنے والے کی ذات، جو خود کہتا ہے کہ میں تمہاری رگِ جاں سے بھی قریب ہوں۔ لیکن جب ریسیور ہی کسی قابل نہ ہو، جب آنکھیں بینائی سے محروم ہوں، جب ہاتھ پکڑ کر اندھیرے میں راستہ دکھانے والا کوئی نہ ہو، جب پتنگ کی ڈور کو قابو کرنے والا کوئی نہ ہو تو تو روح بیکراں تنہائی میں ادھر اُدھر ڈولتی رہتی ہے۔ اپنی ہی تنہائی کے احساس میں سلگتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی موہوم سا احساس ہوتا ہے کہ شاید منزل کی جانب سفر جاری ہے لیکن اکثر یہ سفر سہ جہتی خلا میں معلق جسم کی بے معنی حرکات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹر وے اکثر مجھے ایسی کیفیات میں لے جاتی ہے۔ اور میں ان کے سامنے بے بس ہوتا ہوں۔ اس کا منطقی نتیجہ میرے لیے یہی ہوتا ہے کہ سارا بِس کاغذ پر اتار دوں ورنہ میرا اندر سلگ سلگ کر خاک ہو جائے۔ ڈیڑھ ہزار الفاظ کی یہ بک بک شاید بلا مقصد لگے، لیکن مجھے ایک بات کی خوشی ہوتی ہے کہ موٹر وے اتنی طویل نہیں ہوتی کہ میں اپنی ذات کی تنہائی میں اتنا گہرا اتر جاؤں کہ واپسی کا راستہ بھول جائے۔

بدھ، 1 مئی، 2013

سماجی شناخت اور فکری قحط سالی

قوم افراد سے مل کر بنتی ہے۔ قوم دیوار ہے تو افراد اس کی اینٹیں۔ لیکن یہ اینٹیں اکیلی ہی دیوار نہیں بناتیں۔ صرف اینٹیں کھڑی کرو تو دیوار ایک حد کے بعد کھڑی رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ اینٹوں کو جوڑنے کے لیے سیمنٹ درکار ہوتا ہے۔ اور قوم نامی دیوار کو مضبوط کرنے والے سیمنٹ کا نام مشترکہ اقدار ہیں، مشترکہ سوچ اور ایک ہونے کا احساس۔ افراد میں اگر یہ احساس مفقود ہو جائے، ماند پڑنے لگے تو اس کے نتیجے میں قوم نامی دیوار اینٹوں کی گھوڑی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ راج مستریوں کی اصطلاح میں گھوڑی اینٹوں کا ایک ایسا مجموعہ ہوتی ہے جو سراسر  عارضی مقصد کے لیے ایک جگہ اوپر نیچے لگا دی جاتی ہیں بغیر کسی سیمنٹ یا جڑنے والے مادے کے، اکثر گارے کے بھی بغیر۔ افراد میں اقدار مشترک نہ رہیں تو وہ قوم کے اندر اینٹوں کی گھوڑیاں بن جاتے ہیں۔ ایک یہاں لگی ہے دوسری وہاں لگی ہے، اور ان گھوڑیوں کا کوئی مقصد مشترک نہیں ہوتا۔ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا بن جاتا ہے، لیکن یہ ایجنڈے عارضی، نا پائیدار اور عدم استحکام پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ افراد کے یہ گروہ نہ صرف قوم کو کمزور کرتے ہیں بلکہ خود کو بھی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اسی لیے افراد میں قدرِ مشترک کا احساس پایا جانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

قدرِ مشترک کئی چیزوں کے اشتراک کا نام ہے۔ اس میں سیاسی، سماجی، لسانی، مذہبی، علاقائی، قبائلی، رنگ و نسل سے لے کر زمانے تک کے متغیر آ سماتے ہیں۔ انہیں میں کچھ متغیر تنوع بھی تشکیل دیتے ہیں لیکن متغیرات کی ایک اکثریت یکجہتی تشکیل دیتی ہے۔ جس کے تحت قوم آپس میں جڑی رہتی ہے۔ قدرِ مشترک کو ایک اور نام دیں تو سماجیات کی اصطلاح "سماجی شناخت" استعمال کی جا سکتی ہے۔ سماجی شناخت ایک تکنیکی اصطلاح ہے، لیکن یہاں ہم اوپر بیان کیے گئے تمام متغیرات میں سے ایک، کچھ یا تمام پر مشتمل احساسِ خودی اور پھر احساسِ یکجہتی کو سماجی شناخت کا نام دے سکتے ہیں۔ سماجیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ سماجی شناخت کوئی لوہا پتھر نہیں، بلکہ یہ مائع جیسی کوئی چیز ہے جو شکلیں بدلتی رہتی ہے۔ سماجی شناخت کسی ایک متغیر پر مشتمل نہیں ہوتی، یہ کئی متغیرات کا مجموعہ ہو سکتی ہے، یہ مختلف مواقع پر مختلف متغیرات کو اپنا سکتی ہے۔ ذاتی طور پر میں نے جو کچھ پڑھا، دیکھا، سنا اور محسوس کیا، مجھے جو سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ سماجی شناخت کئی متغیرات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جس میں اوپر بیان کردہ تقریباً تمام تر چیزیں آ جاتی ہیں۔ اور یہ متغیرات مختلف مواقع پر، مختلف سیاق و سباق میں، ہماری روز مردہ زندگی کے ہر مقام، جگہ، وقت کے حوالے سے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً میں ایک جگہ بیٹا ہوں، ایک جگہ استاد ہوں، ایک جگہ فری لانس مترجم ہوں، ایک جگہ بلاگر ہوں، ایک جگہ مسلمان ہوں، ایک جگہ پنجابی ہوں، ایک جگہ پاکستانی ہوں، ایک جگہ پڑھا لکھا نوجوان ہوں، ایک جگہ مریض۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اپنے روز مرہ میں مَیں کئی چہرے اپناتا ہوں، اپنی سماجی شناخت تشکیل دیتا ہوں۔ کبھی کوئی متغیر سامنے رکھتا ہوں کبھی کوئی، لیکن ان سب کے علاوہ میری ایک نسبتاً مستقل سماجی شناخت ہے، میری خودی، میری انا، جو میری یعنی محمد شاکر عزیز کی شخصیت وضع کرتی ہے، میری نظروں میں بھی اور میرے جاننے والوں، پڑھنے والوں کی نظر میں بھی۔

اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ اس ساری سماجی شناخت کے باوجود میں شناخت کے بحران کا شکار ہوں۔ جیسے اس قوم کا قریباً ہر فرد تذبذب میں مبتلا ہے کہ کدھر جائے، کیا کرے۔ کچھ متذبذب ہیں اور کچھ نے ایک شناخت کو اتنی شدت سے تھام لیا ہے کہ چاہے انگلیوں سے خون رسنے لگے، وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اور اس شناخت کو خود پر اتنا طاری کرتے ہیں کہ وہ دوسرے متغیرات سے مکمل طور پر انکار کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا شناخت کسی ایک سماجی متغیر کا نام نہیں، سماج میں موجود بے شمار متغیرات مل کر آپ کی شخصیت تشکیل دیتے ہیں۔ یہ کم ہوں یا زیادہ وہ الگ بات ہے لیکن کثیر متغیرات موجود ضرور ہوتے ہیں، جب کوئی شخص یا اشخاص کسی ایک متغیر کو خود پر ایک حد سے زیادہ طاری کر لیتا/ لیتے ہیں تو جو چیز سامنے آتی ہے اسے میں انتہا پسندی، فکری قحط سالی اور اپنی سماجی شناخت کے ایک حصے کا قتلِ عام گردانتا ہوں۔

اجتماعی سطح پر دیکھوں تو میرے سامنے دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک جو متذبذب ہیں، جو کوئی ایک سماجی شناخت اپنانے/ اس کا اقرار کرنے سے گریزاں ہیں، یا ڈرتے ہیں اور اسی ڈر میں دوسری سماجی شناخت اوڑھے رہتے ہیں، دوسری جانب وہ ہیں جو اتنے سخت دل ہو چکے ہیں کہ اپنے شخصی تنوع کو قبول نہیں کرتے اور خود کو ایک خول میں بند کر لیتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے" اللہ نے تمہارے قبیلے بنا دئیے تاکہ تم پہچانے جاؤ" (مفہوم)۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر۔۔۔الخ کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ قرآن قبیلے کا ذکر کیوں کرتا ہے؟ قرآن ایک سماجی شناخت کا ذکر کرتا ہے کہ ہاں تنوع رکھا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی نبی ﷺ کی زبان سے کہلوا بھی دیا گیا کہ خبردار خود کو افضل نہ سمجھ بیٹھنا۔

میں ایک پاکستانی ہوں، ایک مسلمان ہوں، میں ایک خاص جغرافیائی خطے کا رہائشی بھی ہوں، میں ایک خاص زبان بھی بولتا ہوں، میں ایک خاص پیشے سے منسلک بھی ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سارے متغیرات، یہ ساری شناختیں میری تعریف کرتی ہیں، میری شخصیت کو سماج میں تعمیر کرتی ہیں۔ مجھے وہ بناتی ہیں جو میں ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہر ایک کی نہیں ہے۔ اس ملک کی اساس اسلام قرار دی جاتی ہے۔ میں بڑے بڑے مدلل مضامین پڑھتا ہوں جن میں نظریہ پاکستان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی گئی ہوتی ہے، پاکستان کی "نظریاتی بنیادیں" کھودنے والوں پر لعنت کی گئی ہوتی ہے۔ تو میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ فکری بحران، فکری قحط سالی کیوں؟ ایک ہی شناخت کو خود پر اوڑھ لینے کا عمل کیوں؟ انتہا پسندی کیوں؟

نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور والے بڑے عظیم لوگ ہیں، نوائے وقت کے تربیت یافتہ ، پاکستان کے رکھوالے اور پھر اسلام کے رکھوالے، یہ پاکستان کو 712 ء سے تخلیق شدہ بتاتے ہیں جب محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کیا۔  ایسا کرتے ہوئے یہ لوگ باقی سارے متغیرات نظر انداز کر جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اسلام کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہیں جو انہیں، مجھے اس قوم  کو شناخت عطاء کرتی ہیں۔ زبان، رنگ، نسل، جغرافیہ، پیشہ ،پانچ ہزار سالہ تاریخ اور آج کا زمانہ کچھ متغیرات ہیں جو مذہب کے علاوہ ہماری شناخت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن ان سب کو نظر انداز کر کے صرف مذہب کیوں؟ مذہب کو اپنانا افضل ہو گا، نبی ﷺ کے ساتھ خود کو موسوم کرنے سے بڑی بات بھلا دنیا میں کوئی ہو سکتی ہے؟ لیکن  پھر قرآن قبیلوں کا ذکر کیوں کرتا ہے؟ اللہ نے رنگ اور نسل کیوں الگ الگ رکھ دئیے؟ اتنا تنوع کیوں ہے؟ ہم عرب میں ہی کیوں نہ پیدا ہو گئے؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے؟ عمومی مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ عین حق لگتا ہے۔ آخر اسلام دنیا کا آخری دین، اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت بھی نہیں  رہنی چاہیئے۔

لیکن پھر بار بار اس یقین کا انکار کیوں ہوتا ہے؟ 1947 میں پاکستان ( جو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے مطابق دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا) کے بعد برصغیر میں کیا صرف مذہب  سماجی شناخت تشکیل دینے والا اکلوتا فیکٹر رہا ہے؟  کس کس کی مثال دوں؟ سقوطِ ڈھاکہ گنواؤں؟  جغرافیے کے نام پر بلوچوں کی بغاوت یاد کرواؤں؟ کراچی میں مہاجر نامی قومیت کی تشکیل کا ذکر کروں؟ پختون ، پنجابی ، سندھی کی اصطلاحات پیش کروں؟ کون کونسی مثال دوں جس سے یہ بات واضح ہو جائے کہ صرف مذہب سماجی شناخت تشکیل نہیں دیتا۔  عطاء اللہ شاہ بخاری اور ابو الکلام آزاد کے خطبات تحاریر گنواؤں؟  یا اسلام کا  مقصدِ دعوت  بیان کروں جس میں انسانیت اولین ہے، ساری دنیا اسلام کے لیے امتِ دعوت ہے۔ اسلام  دعوتِ دین کے لیے مذہب سے ماوراء ہو جاتا ہے، اسلام ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے مسلمانیت کا قتل نہیں۔ اسلام دین میں جبر کا قائل نہیں۔ کیا کیا دلیل پیش کروں؟

ایک طرف یہ کم شدت والے مذہبی چادر اوڑھنے والے ہیں۔ دوسری طرف وہ  بندوق بردار ہیں جو اپنی ہزار سالہ تاریخ کا انکار کر کے صرف ایک  چیز کو خود پر طاری کر چکے ہیں۔ خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں اور اس میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی تعلیمات  کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ وہ نبی ﷺ جو جنگ میں ناحق درخت بھی کاٹنے سے منع کرے اس کے نام لیوا بے گناہ سروں کی فصلیں کاٹ  کر اس پر ذرا برابر شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔

مجھے آج کہنے دیں کہ اس ملک میں فکری انحطاط یہی نہیں، فکری قحط سالی ادھر ہی نہیں اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو مذہب کو زندگیوں سے نکال چکا ہے، اور اب صرف انسان کہلوانا چاہتا ہے۔ ان کے خیال میں "انسان" کی سماجی شناخت انہیں زیادہ غیر جانبدار بنا کر پیش کرتی ہے۔ حالانکہ وہ  بھی ایک حقیقت سے انکار کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مذہب انہیں ڈیفائن کرتا ہے، جیسے ان کے اجداد کو ڈیفائن کرتا تھا۔ مذہب ان کے خون میں بہتا ہے وہ مانیں یہ نا مانیں۔ ان کے نام، رہن سہن کے طور طریقے مذہب سے متاثر ہیں۔ وہ مصنوعیت جتنی مرضی طاری کر لیں لیکن وہ متغیر ، مذہب نامی متغیر ان کی سماجی شناخت کا اہم جزو تھا، ہے اور رہے گا۔  لیکن اس سے جب انکار کیا جاتا ہے تو نتیجہ ایک اور قسم کے فکری بحران کی شکل میں نکلتا ہے۔ ایک ایسا خلاء جسے پورا کرنے کے لیے وہ ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں، کبھی ادھر سے اینٹ اٹھائی کبھی ادھر سے پتھرا ٹھایا اور عجیب الخلقت چیز تشکیل دے لیتے ہیں، چیز یعنی اپنی سماجی شخصیت۔ جس پر غصہ، ترس یا ہنسی  آتی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ  ڈر بھی آتا ہے۔ اس قوم کے فکری بحران سے ڈر لگتا ہے۔ شاکر ، اور شاکر جیسے بے شمار افراد اس قوم کی  کمزور ہوتی دیوار، گھوڑیاں بنتی دیوار سے تعلق کمزور کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا آپس کا بانڈ  غائب ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایک قدر کو اختیار کر کے دوسری سے انکار کرتے ہیں۔ کبھی مذہب سے، کبھی جغرافیے سے، کبھی رنگ سے، کبھی نسل سے، کبھی زبان سے۔ کوئی مہاجر ہوا جاتا ہے، کوئی پنجابی، کوئی پختون ہوا جاتا ہے، کوئی مسلمان، کوئی پاکستانی ہوا جاتا  ہے، کوئی سیکولر، کوئی انسانیت نواز، کوئی لبرل۔ کوئی مشرق کو رخ کیے ، کوئی مغرب کو ، کوئی شمال کو اور کوئی شمال مغرب کو ۔ ایک دوسرے کی جانب پشت کیے بیٹھے یہ افراد، جن کے مابین اکثریتی اشتراکی اقدار کی قحط سالی طویل ہوتی چلی جاتی ہے، شدت اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ اور شاکر ڈرتا ہے اس وقت  سے۔ جب  اینٹوں کی یہ گھوڑیاں جو ابھی الگ الگ کھڑی ہیں، گر پڑیں اپنے وجود کھو بیٹھیں اور ساتھ اس کے قوم کا وجود بھی نابود کر ڈالیں۔ بہت ڈر لگتا ہے اس وقت سے سائیں۔ اللہ اس وقت سے بچائے۔ رب سائیں اس وقت سے بچائے۔

وما  علینا الا البلاغ

منگل، 23 اپریل، 2013

زبان

✩ کسی قوم کی خود داری کا اندازہ کرنا ہو تو  اپنی زبان کے متعلق اس کے رویّوں کا جائزہ لے لو۔

✩ زبان سیاسی نہیں ہوتی لیکن گندی سیاست زبان کو سیاسی بنا دیتی ہے۔

✩ زبان زندہ تو ثقافت، روایت اور کلچر زندہ۔ ایک زبان کی موت ایک ثقافت  کی موت ہوتی ہے۔

✩ زبان ہزاروں برس کے جینے مرنے، دکھ  سکھ، ان گنت زندگیوں کا جیتا جاگتا ریکارڈ ہوتی ہے۔

✩ زبان بولی جائے یا لکھی جائے، زبان  ہی کہلائے  گی۔

✩ کوئی زبان کسی دوسری زبان سے بہتر یا بد تر نہیں۔  ہر زبان اپنے اہلِ زبان کی لسانی ضروریات کے لیے عین کافی ہوتی ہے اور یہی زبان کے پرفیکٹ ہونے کی دلیل ہے۔

✩ کسی قوم کو یقین دلا دو کہ اس کی زبان کمتر ہے۔ اور وہ زبان اپنوں کی بے رخی کا زہر پیتے پیتے ہی گھُل گھُل کر دم توڑ جائے گی۔

✩ مادری زبان میں تعلیم کا حصول ہر انسان   کا بنیادی انسانی حق ہے۔

✩ اگر کسی عربی کو کسی عجمی پر ، کسی گورے کو کسی کالے  پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، تو  ایک زبان کو بھی کسی دوسری زبان پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔

✩ خدا زبان کا محتاج نہیں۔ دل کی زبان میں بات کرو  وہ جواب دے گا،  وہ جواب دیتا ہے، وہ جواب دیتا آیا ہے۔

✩ جس نے دشمن کی زبان سیکھ لی وہ اس کے شر سے محفوظ ہو گیا۔

✩ زبانیں سیکھو، ہر زبان  دنیا کو دیکھنے کا ایک نیا انداز ہوتی ہے۔ ہر زبان دنیا سے ایک نئے انداز میں ملاقات کرواتی ہے۔

✩ یک لسان کی مثال ایک کمرے کے مکان میں رہنے والے شخص کی طرح ہے، اور کثیر اللسان کئی کمروں کے پرتعیش مکان میں رہنے والا رہائشی، دونوں کی سوچ، رہن سہن، اندازِ فکر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

✩ شاعر، ادیب اور لکھاری زبان کو  اوزار  عطا کرتے ہیں لیکن اگر عوام ان اوزاروں کو شرفِ قبولیت نہ بخشے تو  وہ تاریخ کے کباڑ خانے میں زنگ آلود پڑے رہ جاتے ہیں۔

✩ زبان وہ ہے جو عوام کی زبان پر ہو، زبان وہ ہے جو تھڑے، گلی محلے اور کوچے میں بولی جائے۔ لغات اور قواعد و انشاء کی کتب اگر اس زبان سے میل نہ کھائیں تو  ان کی حیثیت لسانی قبرستان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

✩ تغیر زبان کا مقدر ہے۔ تغیر ایک ایسا دریا ہے جس کے آگے بند باندھ بھی لو تو وہ کسی اور جانب سے راستہ بنا لے گا۔

✩ اہلِ زبان کے لیے آج، ابھی کی زبان ہی زبان ہوتی ہے۔ ان کے لیے زبان کی تاریخ وہیں سے شرو ع ہوتی ہے جب ان کا شعور پروان چڑھا۔ ان  کے لیے سو سال قبل کی زبان بے معنی ہوتی ہے، جیسے سو سال بعد کی زبان بے معنی ہو گی۔

جمعرات، 18 اپریل، 2013

زلزلے اللہ کا عذاب؟

ہر زلزلے کے بعد اس قوم میں جو بحث چھڑتی ہے اس کا عنوان یہ یا ملتا جلتا ہوتا ہے۔
"زلزلے اللہ کا عذاب ہیں"۔
"ہم گناہگار ہو چکے ہیں اور زلزلہ بطور وارننگ آیا ہے۔"
"فلاں علاقے میں بہت گناہ ہو رہے تھے اس لیے زلزلہ آیا۔"
"کشمیر میں عصمت فروشی بہت زیادہ تھی اس لیے زلزلہ آیا۔"
وغیرہ وغیرہ۔

میرے جیسا نیم سمجھ والا بندہ اس معاملے میں کنفیوز ہو جاتا ہے۔ اگر ہر زلزلہ اللہ کا عذاب ہے تو سمندروں میں جو زلزلے آتے ہیں وہ کس پر بطور عذاب آتے ہیں؟ اس تھیوری کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جاپانی دنیا کی سب سے زیادہ گناہگار قوم ہیں کہ زلزلے تو سب سے زیادہ وہیں آتے ہیں۔ اور باقی دنیا ان کی نسبت زیادہ نیک ہے اس لیے زلزلے یعنی اللہ کا عذاب ان پر کم آتا ہے۔

اس تھیوری کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے (جو کہ میرے خیال میں غیر شعوری ہے) کہ اس پر یقین رکھنے والے زلزلے سے بچنے کے اقدامات نہیں کرتے۔ چونکہ زلزلے اللہ کا عذاب ہیں، اور عذاب اسی صورت میں ٹل سکتے ہیں جب اللہ کی فرمانبرداری کی جائے، یعنی زلزلہ نہ آنے کے لیے سچے پکے مسلمان بنا جائے۔ توبہ استغفار کی جائے، رحم کی بھیک مانگی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مزید یعنی زلزلے سے بچاؤ کے لیے کوئی آفات سے نمٹنے کا ادارہ، آفات سے نمٹنے کا منصوبہ نہ بنایا جائے، چونکہ زلزلے اللہ کا عذاب ہیں اس لیے آپ، میں جو مرضی کر لیں اب پیدا کرنے والے کی پکڑ سے تو نہیں بچ سکتے نا۔ تو زلزلے تو آئیں گے، وگرنہ اپنے آپ کو درست کر لیں؛ یعنی سچے پکے مسلمان۔

مجھے اس تھیوری سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ماشاءاللہ بڑے نمازی، پرہیز گار اور خوفِ خدا رکھنے والے مسلمان یہ سوچ رکھتے ہیں۔ میں بذاتِ خود ایمان کے آخری درجے پر کھڑے مسلمان کی حیثیت سے اللہ سے اس کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہوں۔ اللہ کو اللہ کریم کہہ کر پکارتا ہوں، کہ عذاب والی بات سے مجھے ڈر لگتا ہے، اس کی پکڑ سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ رحمت، کرم، فضل اور عطاء کا طلبگار ہوتا ہوں۔

لیکن، اُلٹی کھوپڑی، پُٹھی سوچ، میرے لیے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہیں۔ چونکہ میں زمین پر دیکھتا ہوں کہ زلزلے کئی ایسی جگہوں پر بھی آتے ہیں جہاں کوئی آبادی نہیں، تو میں انہیں عذاب نہیں سمجھ سکتا، چونکہ میں اللہ کو کریم، رحیم، رحمان کے روپ میں دیکھتا ہوں۔ اور وہ اپنی مخلوق پر (علاوہ انسان) زلزلے نہیں بھیجتا۔ اس کا نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیئے کہ انسانوں پر زلزلے پھر ہمیشہ عذاب ہوتے ہیں لیکن بے آباد جگہوں پر آنے والے زلزے عذاب نہیں ہوتے ہوں گے۔ یعنی جب بھی زلزلہ آبادی میں آیا اٹینشن ہو جاؤ تم خراب لوگ ہو اپنے آپ ٹھیک کر لو ورنہ پکڑ میں آ جاؤ گے۔

لیکن چونکہ میں ایک پُٹھی سوچ والا نچلے درجے کا مسلمان ہوں، میری نظر اللہ کی رحمت پر رہتی ہے اس لیے میرے لیے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہوتے۔ ہاں بعض اوقات اللہ کا عذاب، اللہ کی وارننگ ہوتے ہوں گے۔ زلزلے پر میں بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، لیکن میں زلزلے کو ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں سمجھتا۔ میری اس سوچ کی تصدیق قرآنی آیات سے ہوتی ہے۔ یہاں لفظ "زلزلہ" والی چھ قرآنی آیات (ترجمہ عرفان القرآن) پیش کر رہا ہوں۔ مجھے لفظ زلزلہ کے لیے تلاش میں یہی آیات ملیں۔ ملاحظہ کریں:

  1. 7|78|سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،
  2. 7|91|پس انہیں شدید زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو وہ (ہلاک ہوکر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،
  3. 7|155|اور موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر مَردوں کو ہمارے مقرر کردہ وقت (پر ہمارے حضور معذرت کی پیشی) کے لئے چن لیا، پھر جب انہیں (قوم کو برائی سے منع نہ کرنے پر تادیباً) شدید زلزلہ نے آپکڑا تو (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے رب! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان لوگوں کو اور مجھے ہلاک فرما دیتا، کیا تو ہمیں اس (خطا) کے سبب ہلاک فرمائے گا جو ہم میں سے بیوقوف لوگوں نے انجام دی ہے، یہ تو محض تیری آزمائش ہے، اس کے ذریعے تو جسے چاہتا ہے گمراہ فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے، سو ُتو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے،
  4. 22|1|اے لوگو! اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت چیز ہے،
  5. 29|37|تو انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلا ڈالا پس انہیں (بھی) زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ (مُردہ) پڑے تھے،
  6. 79|6|(جب انہیں اس نظامِ کائنات کے درہم برہم کردینے کا حکم ہوگا تو) اس دن (کائنات کی) ہر متحرک چیز شدید حرکت میں آجائے گی، 79|7|پیچھے آنے والا ایک اور زلزلہ اس کے پیچھے آئے گا،
مذکورہ بالا آیات میں پہلے سورہ نمبر ہے پھر آیت نمبر، اور ترجمہ عرفان القرآن ہے۔ یہاں چار آیات میں زلزلہ بمعنی عذاب آیا ہے۔ ہر مرتبہ ایک نبی علیہ السلام صورتحال میں موجود تھے۔ عموماً متعلقہ قوم انتہا درجے کے کفر میں مبتلا تھی، انہیں پہلے وارننگ دی گئی اور پھر جب نبی مایوس ہو گئے تو زلزلے نے انہیں آ گھیرا۔ بقیہ دو آیات قیامت کے زلزلے سے متعلق ہیں۔
 
انہیں آیات کا اقتباس دے کر "زلزلے عذاب ہیں" کی دلیل دی جاتی ہے۔ لیکن یہ اقتباسات سیاق و سباق سے ہٹ کر دئیے جاتے ہیں، اگر پورے سیاق و سباق کو مدِ نظر رکھا جائے تو انبیا کی نافرمان قوم کا سارا منظر نامہ بنتا ہے اور زلزلہ آخری حل کے طور پر بطور عذاب مسلط کیا جاتا ہے۔ اور یاد رہے ایسا صرف چار مرتبہ ہوا ہے۔ زلزلوں کی سالانہ فریکوئنسی (چند ہزار سال ارضیاتی پیمانے پر چند دن کے برابر ہیں، اس لیے آج اگر سالانہ ہزاروں زلزلے آتے ہیں تو دو تین ہزار سال قبل بھی یہی صورتحال ہونے کا اغلب امکان ہے۔) کو دیکھیں تو یہ بات محال لگتی ہے کہ ہر زلزلہ عذابِ الہی ہو۔ اگر ایسا تھا تو قرآن میں صرف چار واقعات ہی کیوں (میں آیات کی تعداد کے حوالے سے چار واقعات کہہ رہا ہوں لیکن تین آیات ایک جیسی اور ایک موسی علیہ اسلام والی مختلف ہے، اس طرح عذاب کے دو واقعات بنتے ہیں نہ کہ چار)، انسانی تاریخ تو کم از کم (بنی اسرائیل کے حوالے سے دیکھیں تو) کئی ہزار سال قبلِ مسیح تک جاتی ہے۔ تب سے نبی کریم ﷺ کے زمانے تک صرف چار زلزلے بطور عذاب؟ تو صاحب میری سوچ یہ ہے کہ زلزلے اللہ کا عذاب ہوتے ہیں، چونکہ قرآن کہتا ہے لیکن زلزلے ہمیشہ بطور عذاب نہیں آتے۔ یہ ایک ارضیاتی عمل ہے جو زمین جیسے سیاروں پر نارمل بات ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پیدا کرنے والا کبھی کبھی جھٹکا دینے کے لیے قدرتی مظاہر کو استعمال کرتا ہے تاکہ انسان سنبھل جائے۔

اور اس سوچ کے لیے میں ہوا اور آندھی کی مثال دینا چاہوں گا۔ قرآن میں عذاب کی دوسری صورتیں بھی بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ایک ہوا کے عذاب کی ہے۔ مثلاً آیت ملاحظہ ہو۔

  • 46|24|پھر جب انہوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی وادیوں کے سامنے آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: یہ (تو) بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے، (ایسا نہیں) وہ (بادل) تو وہ (عذاب) ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی۔ (یہ) آندھی ہے جس میں دردناک عذاب (آرہا) ہے،
یہاں بادل اور آندھی جیسے قدرتی مظاہر کو وارننگ کے لیے استعمال کرنے کا ذکر ہے۔ بالکل جیسے زلزلے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ بادل رحمت لے کر آتے ہیں۔ مثلاً
  • 15|22|اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں پھر ہم آسمان کی جانب سے پانی اتارتے ہیں پھر ہم اسے تم ہی کو پلاتے ہیں اور تم اس کے خزانے رکھنے والے نہیں ہو،
تو عزیزانِ گرامی میرے خیال سے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہوتے۔ اللہ تعالٰی کی ذات سے ہمیشہ عذاب کی امید رکھنے والے میری نظر میں رحمت سے ناامید لوگ ہیں۔ چونکہ میری نظر اُس کی پکڑ سے زیادہ رحمت پر ہے، اس لیے میں اس تھیوری سے انکار کرتا ہوں کہ ہر زلزلہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ زلزلہ ایک نارمل ارضیاتی عمل ہے، جیسے بادل اور ہوا ہیں۔ لیکن جیسا کہ قرآن بتاتا ہے کبھی ان ارضیاتی عوامل کو استعمال کر کے قوموں کو جھنجھوڑا بھی جاتا ہے اور ایسا عموماً بڑی سخت صورتحال میں ہوا، جب کسی قوم نے اپنے نبی کا مکمل انکار کر دیا، ان پر حجت تمام ہوگئی، ہدایت پہنچا دی گئی تو پھر بھی نہ ماننے والوں پر عذاب آ گیا چاہے وہ پتھر برسنے کی صورت میں ہو، ہوا یا بادل سے یا زلزلے کی صورت میں ہو۔

میرا نقطہ نظر کم علم کوتاہ نظر جاہل کی بڑ لگ سکتا ہے۔ لیکن جاہل ہوتے ہوئے بھی میں نظر اُس کی رحمت پر رکھنے کا عادی ہوں، پکڑ پر نہیں۔

مولا میں تیری رحمت کا محتاج، مولا میں تیری عطاء کا امیدوار، میرا ہر بال، میرا ہر سانس، میرا ہونا ہی مجھ پر تیری رحمت ہے میرے مالک، مجھ پر اپنا فضل کر دے، کرم کر دے، عطاء کر دے، رحمت کر دے۔ میں دو کوڑی کا، میں گندی نالی کا کیڑا میرے مالک تیری رحمت بے پناہ، تیرا فضل بے پایاں، تیری عطاء بے شمار، تیرا کرم بے کنار، تو اپنے نبی ﷺ، تو اپنے سوہنے نبی ﷺ کا صدقہ مجھے پر اپنی رحمت رکھنا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔

جمعہ، 5 اپریل، 2013

خلافت چاہیئے جی

عوام سیاستدانوں سے اکتائی ہوئی ہے، الیکشن سر پر ہیں۔ مشرف کے آخری دن تھے تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے امیدیں تھیں، اب شرعی نظام اور خلافت سے امیدیں لگ گئی ہیں۔ خلافت کی ڈفلی بجانے والوں نے اپنی پوتھیاں پُستکیں جھاڑ پونچھ کر رکھ لی ہیں، اپنے تھیلے خالی کر کے سامان پھر سے سامنے سجا لیا ہے۔ دھڑا دھڑ اقتباسات دئیے جا رہے ہیں، دلائل اٹھائے جا رہے ہیں ، اور اسلام کا بول بالا کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اور ایسے میں کوئی میرے جیسا نیچ ذات بول پڑے تو وہ غیر مہذب، گدھا اور جانبدار کہلاتا ہے۔ خیر یہ تحریر اپنے آپ کو ان القابات سے بری الذمہ کرنے کے لیے نہیں  لکھی جا رہی، بلکہ مقصد یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران ایویں مفت میں ہی دو تین بار خلافت نام کی بحث میں گھسیٹا گیا۔ جس کا نتیجہ اکثر یہ نکلا کہ عوام میری منہ پھٹ طبیعت سے بے زار ہو گئی اور مجھے القاباتِ عالیہ سے بھی نوازا گیا۔ ابھی کل برادرم میم بلال نے فیس بک پر ایک سوال کر دیا ، موضوع یہی خلافت تھی اور میں نے حسبِ معمول خاصا چپیڑ جیسا جواب ٹھونک دیا۔ بعد میں بیس پچیس تبصروں تک اس پر بڑی لے دے ہوئی، رات کو دیکھا تو مجھے لگا کہ اب ذر ا مناسب لمبائی والی پوسٹ میں اپنا موقف بیان کرنا چاہیئے۔ چنانچہ تحریر لکھی جا رہی ہے۔

عوام خلافت مانگتی ہے۔ شاکر عوام کے ساتھ ہے، لیکن خلیفہ ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہو تو شاکر بیعت کرنے والوں میں سب سے پہلا، ورنہ شاکر کے ہاتھ کھڑے ہیں۔ چلو کوئی حسن ابنِ علی جیسا لے آؤ، حسین ابنِ علی، عبد اللہ ابنِ زبیر، معاویہ ابنِ ابو سفیان، عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ علیم اجمعین تک بھی بات چلے گی۔ اس کے بعد؟ اس کے بعد معذرت کے ساتھ شاکر کے دونوں ہاتھ کھڑے ہیں۔ شاکر کے لیے خلافتِ راشدہ کے بعد کوئی خلافت نہیں۔ جس کو یہ عوام خلافت کہتی ہے وہ شاکر کے لیے ملوکیت ہے، خلافت کے نام پر بادشاہت۔ جس میں باپ کے بعد بیٹا، چچا، پھوپھا ، تایا، یا جس کا بس چلا وہ "خلیفہ" بن بیٹھا۔ چاہے وہ یزید ابن معاویہ جیسا گدھا ہی ہو۔ اور جب کوئی گدھا خلیفہ بن بیٹھے تو مذہبی ٹھیکے دار کیا کہتے ہیں؟ اولی الامر کی اطاعت کرو۔ اور اگر وہ گدھا ساری عمر کے لیے اقتدار پر براجمان رہے، جو خلافت/ بادشاہت/ ملوکیت کی اساس ہے تو شاکر جیسے نیچ ذات ساری عمر اس گدھے کو برداشت کریں؟ شاکر کے ہا تھ کھڑے ہیں جی، خلافت کی ڈفلی یہاں بے سُری ہو جاتی ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ کے کوئی تیرہ سو سال ان پر یہی خلافت /ملوکیت / بادشاہت مسلط رہی۔ کبھی بنو امیہ ، کبھی بنو عباس، کبھی عثمانی ، کبھی فاطمی ، کبھی عبد الرحمن الداخل کی اندلسی بنو امیہ کی شاخ۔ اس میں مسلمانوں نے بڑی ترقی کی، بڑی بڑی حکومتیں اس خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت سے تھرتھراتی تھیں۔ مسلمانوں کا بڑ اسنہرا دور اسی عرصے میں رہا۔ بڑے بڑے علاقے فتح ہوئے۔ یعنی خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت کو بھی تسلیم کیا جائے، جیسی بھی ٹوٹی پھوٹی تھی، آخر تھی تو خلافت جی۔ خلفائے راشدین کی نشانی، پر شاکر چونکہ نیچ ذات ہے اس لیے نہیں مانتا۔ وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ یہ خلفائے راشدین کی نشانی نہیں اپنے باپ داداؤں کی نشانی تھی۔ یہ قیصر و کسری کی نشانی تھی۔ یہ اسلام سے پہلے کے اس سیاسی نظام کا تسلسل تھی جس میں سکندر اعظم سے لے کر ایران ور روم اور یورپ کی بادشاہتیں  آتی ہیں۔ بس نام بدلا تھا، نام بدلے تھے۔ نام خلافت ہو گیا، نام مسلمانوں والے ہو گئے۔ اور اعمال؟ اعمال وہی تھے جو قیصر و کسری کے تھے، جو اونچے کنگروں والے محلات بنانے والوں کے تھے، جو عیاشیاں کرنے والوں کے تھے، جو اپنی حکومت وسیع کرنے والوں کے تھے۔ بس نام اسلام کا لگ گیا، اور کام جس نے کیا وہ مسلمان اور پھر خلیفہ کہلایا، باقی کچھ نہ بدلا۔

زمانہ بدلا، زمانے کے تقاضے بدلے، اندازِ حکومت بدلے اور بادشاہتیں پکے ہوئے پھلوں کی طرح ٹپا ٹپ گرتی چلی گئیں ۔ جو رہ گئیں وہ آئینی بادشاہتیں رہ گئیں۔ اور وہی بات خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت پر بھی صادق آئی۔ زمانہ بدلا، تقاضے بدلے اور عوام نے ہاتھ کھڑے کر دئیے، عثمانیوں کا پتہ کٹ گیا۔ یہی کوئی 1920 کے آس پاس کے دن ہیں، جب یہ واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اور یہیں سے برصغیر کے مسلمانوں کا خلافت بخار شروع ہوتا ہے۔ تحریکِ خلافت بڑے زور و شور سے چلائی جاتی ہے، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جب ترکی کے عوام ہی نہیں چاہتے کہ خلافت ہو تو آپ میں بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ؟ اور یہی کچھ ہوا بھی، تحریکِ خلافت کے غبارے سے پھونک نکل گئی۔ طبیعتیں پھُل گلاب ہو گئیں، عین روح تک سرشار ہو گئیں۔ وہ دن جائے اور آج کا دن آئے، خلافت ایک پرکشش نعرہ بن گیا۔ وہ خلافت تو نہ رہی لیکن ایک تحریک کی ڈفلی ہاتھ آ گئی، خلافت قائم کرنی ہے۔ خلافت قائم ہو گئی تو مسلمان پھر سے دنیا کے حاکم بن جائیں گے، جوتیوں سے اُٹھ کر ممبر پر جا بیٹھیں گے۔ خلافت ہو گئی تو اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ خلافت ۔۔۔۔۔خلافت ہر چیز کا حل، خلافت اسلام کا نظامِ حکومت۔

چلیں جی ماننا پڑتا ہے اب تو عوام اور نوجوان نسل بھی شرعی نظام کے حق میں ہے۔ اور یہی وقت ہے کہ لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگائی جائے،خلافت /ملوکیت / بادشاہت کے لیے کام کیا جائے۔ بس ایک سوال، یہ بھوکی ننگی عوام اسلام کی محبت میں ایسا کر رہی ہے یا روٹی کو ترسنے کے بعد؟ ترکی میں کوئی خلافت کا نعرہ کیوں نہیں لگاتا، وہاں تو خلافت نہیں بلکہ جب خلافت تھی اس سے بہتر صورتحال ہے اب۔ یہ پاکستان میں ہی خلافت کیوں؟ یہ ان جگہوں پر ہی خلافت کیوں جہاں حقوق غصب ہوتے ہیں، جہاں بھوک ننگا ناچ ناچتی ہے، جہاں  جنگل کا قانون ہے صرف وہیں خلافت کا نعرہ کیوں لگتا ہے؟  اگر آج اس ملک میں گڈ گورنس ہو جائے تو خلافتیوں کو ایندھن کہاں سے ملے؟ پاکستان سے تو نہ ملے کم از کم۔

تو مسئلہ کہاں ہے؟ مسئلہ نظامِ حکومت میں ہے۔ بات پھر وہیں آ گئی۔ اور خلافت /ملوکیت / بادشاہت بہترین نظامِ حکومت ہے، ہیں جی۔ لیکن نہیں بہترین نہیں۔ جس کو ساری عمر کے لیے اقتدار میں لے آؤ گے وہ سر پر چڑھ کر ڈھول بجائے گا۔ اس لیے خلافت/ملوکیت/ بادشاہت نامنظور۔ حل؟ حل سادہ سا ہے اقتدار کی مدت مقرر کرو، ووٹ ڈلواؤ، ساتھ جو مرضی اسلامی ڈال لو۔ تھرمامیٹر لگا کر تقویٰ چیک کرو،  متھا اور گِٹے دیکھ کر متقی پرہیز گار لوگوں کی مجلس شوری بناؤ، لیکن وہ منتخب ہو، عوام کو حق دو، عوام کو حق ہے کہ وہ فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ جیسے نبی ﷺ کے جانشینوں نے مثال قائم کی، ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کر کے دکھایا۔ لیکن خلافت/ ملوکیت /بادشاہت؟ نا سائیں وہ دن لد گئے، جب سیاں جی کوتوال تھے۔ اب تو اور مسائل ہیں۔ اور بادشاہت آج کے مسئلوں کا حل کہیں سے بھی نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس نیم خلافت سے شاکر کو اتنی تکلیف کیوں؟ لیکن جوابی سوال یہ ہے کہ جمہوریت یا جو بھی آج کے نظامِ حکومت کو نام دیا جائے اس سے اتنی تکلیف کیوں ہے؟ جواب یہ کہ اس جمہوریت کے خمیازے آج بھگت رہے ہیں۔ سوال یہ کہ اگر جاگیر دار، وڈیرے، سرمایہ داروں کو ہی اقتدار سے باہر کرنا ہے تو یہ مسلمانوں کی تاریخ میں کب اقتدار میں نہ تھے۔ برصغیر کی تو تاریخ ہی جاگیر داروں اور بادشاہوں کے گرد گھومتی ہے، بادشاہ جاگیر دار کو نوازتا تھا اور جاگیر دار اپنے مزارعوں کو۔ چودہ سو سالہ تاریخ میں عہد نبوی ﷺ اور خلافتِ راشدہ کے علاوہ کونسا دور ہے جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون نہیں نافذ رہا؟ تو آج اگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے تو اتنی تکلیف کیوں؟ تکلیف اس لیے ہے کہ اس وقت اسلام کا ملمع چڑھا ہوا تھا، تکلیف اس لیے ہے کہ اس وقت کھانے کو مل ہی جاتا تھا بھوگ کا ننگا ناچ نہیں ہوتا تھا جو آج ہوتا ہے۔ تو حل یہ ہے کہ دماغ کو وسیع کرو محمد الرسو ل اللہ ﷺ کا لایا ہوا دین خلافت و امامت سے اوپر کی چیز ہے۔ اگر خلافت اراکین اسلام میں سے ہوتی تو قرآن طلاق اور وراثت کے قوانین کی طرح خلافت کے قوانین بھی بتاتا۔ آخری نبی ﷺ صرف ایک عبوری فیصلہ کر کے، کہ خلیفہ قریش میں سے ہوگا ، اس دنیا سے پردہ نہ فرماتے۔ کیا محمد الرسول اللہ ﷺ اور محمد الرسول اللہ ﷺ کے خدا کو نہیں معلوم تھا کہ "خلیفہ قریش میں سے ہوگا" کا حکم تا قیامت نہیں چل سکے گا؟ اسلام میں کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں والے اصول کا رد نہ ہو جاتا یہ؟ اس لیے خلافت فرض نہیں کی گئی، خلافت کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔ رسول ﷺ کے جانشینوں نے اپنے وقت میں بہترین طریقے سے نظامِ حکومت چلایا۔ اس بیک ورڈ قبائلی معاشرے میں اسلام پر عمل اور عوام کی فیصلہ سازی میں شمولیت کی ایسی درخشندہ مثال قائم کی کہ زمانہ انگشتِ بدنداں رہ گیا۔ لیکن اس کے بعد؟ اس کے بعد جب نیتیں صاف نہ رہیں تو وہی اندھیرا پھر سے لوٹ آیا ، کہیں کہیں ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں اور پھر ایک لمبا اندھیرا۔ اور آخر بیسویں صدی آ پہنچی، تقاضے بدلے، زمانہ بدلا تو نظام بھی بدل گئے۔ بدلنا تو مقدر ہے، انسان ہوں، زمانہ ہو یا نظام۔ لیکن اسلام اگر زمانے کا پابند رہ گیا تو  تاقیامت دینِ انسانیت تو نہ ہوا۔ اس لیے شاکر کی سوچ بڑی سادہ سی ہے۔ اسلام کے اصول بڑے سادہ ہیں، کسی بھی نظامِ حکومت پر اطلاق کر دو اسلامی نظام ہو جائے گا۔ اور بھوک کا ننگا ناچ رکوانا ہے تو عوام کو تعلیم دو کہ ان کا حق ہے پوچھنا، سوال کرنا، انہیں بتاؤ کہ سوال کریں۔ جو سوال کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کرتا ہے اسے رد کریں۔ آج کے نظام میں بہتری لاؤ۔ یہی نظام ترکی میں ہے، برطانیہ میں ہے، ملائیشیا میں ہے وہاں کیا تکلیف ہے کہ یہاں سے ہزار درجے بہتر صورتحال ہے؟ وہی کچھ یہاں کیوں نہیں ہو سکتا، اس کے حل کے لیے لیے برانڈ نیم کا چُوسا ہی کیوں؟

لیکن کیا کریں جی، برانڈ نیم سب کو اچھا لگتا ہے۔ خلافت /ملوکیت / بادشاہت حکومتی نظاموں میں ایک اسلامی برانڈ نیم ہے، اور پچھلے سو سال سے اس برانڈ نیم کی سیاست پر بہت سوں کی واہ واہ ہے، عزت ہے اور روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔ عوام بھی سمجھتی ہے کہ بہتر ہے چیز "اسلامی" ہی ہو، چاہے اس پر اسلام کا ملمع ہی چڑھایا ہوا ہو، لیکن چیز اسلامی ہو۔ اس لیے عوام جمہوریت کو "کافرانہ" کہتی ہے، "خلافت" کو اسلامی سمجھتی ہے۔ بھولی عوام ہے، مذہبی ٹھیکے داروں نے چُوسا دیا ہوا ہے، اور عوام چُوس رہی ہے۔ کوئی سوال کر لے تو، خیر اس کا حال پھر شاکر جیسا ہوتا ہے۔ جس کے سوالنے کو گدھے کا رینکنا سمجھا جاتا ہے۔

خیر ایسے گدھے، نیچ ذات، ایمان کے آخری درجے پر کھڑے منش ہر دور میں ہوئے ہیں۔ ایک شاکر بھی ہو گیا تو کوئی گل نہیں۔ تحریر کسی کے متفق ہونے کے لیے نہیں لکھی، تحریر کوئی صفائی پیش کرنے کے لیے بھی نہیں لکھی ، تحریر صرف موقف بیان کرنے کے لیے لکھی ہے۔ اور غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہ جو شاکر کو انٹلکچوئل سمجھتے تھے۔ غیر جانبدار سمجھتے تھے، سمجھدار سمجھتے تھے اپنی اپنی سمجھ پر نظرِ ثانی کر لیں۔ یہاں کوئی غیر جانبداری نہیں، یہاں سب کا ایجنڈا ہے، یہاں سب کے "سچ" ہیں، اپنے اپنے سچ۔ خلافتیوں کا اپنا سچ ہے، اور شاکر جیسے نیچ ذاتوں کا اپنا سچ۔ اور اپنے اپنے سچ میں گم ہیں۔ اس دن تک جس دن سارے جھوٹے سچ پرزے پرزے ہو جائیں اور سچے سائیں کا سچا سچ آنکھیں چندھیا دے۔

رہے نام اللہ کا۔

جمعرات، 28 مارچ، 2013

سلیپ موڈ

کبھی کبھی کچھ اس قسم کی صورتحال بن جاتی ہے جیسے بندہ موبائل ہو اور اس پر سلیپ موڈ لگا ہوا ہو۔ سارا دن نیم خوابیدگی کی کیفیت میں گزر جاتا ہے۔ کام ہو بھی رہے ہوتے ہیں لیکن شاید ان کا کنٹرول کسی نیم سوئے دماغ کی  اتھاہ گہرائیوں میں موجود کسی شخص کے پاس ہوتا ہے۔ سارا دن ایک دھندلی سی کیفیت میں گزر جاتا ہے اور رات چلی آتی ہے۔ اور پھر ایک اور دن چڑھ جاتا ہے۔ دنوں کی گنتی بڑھتے بڑھتے ہفتوں میں بدل جاتی ہے اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ عجیب آگہی و عدم آگہی کے برزخ کا عالم ہوتا ہے۔ جیسے دھواں بھی نہ اٹھ رہا ہو اور نیچے کہیں سلگاہٹ بھی موجود ہو۔ اوپر سے دیکھ تو ٹھنڈی راکھ ہو لیکن اندر کہیں گرمائش موجود ہو۔ اسی طرح یہ برزخ چلتا ہے، نیم اندھیرے نیم اجالے کی سی اس کیفیت میں کام بھی ہوتے چلے جاتے ہیں اور بے کاری بھی چلتی رہتی ہے۔ ایک عجیب سی اکتاہٹ بھی طاری رہتی ہے جو ویلے رہنے کا شاخسانہ ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑے اہتمام اور چاؤ کے ساتھ کام کرنے کی مصروفیت بھی مرنے نہیں پاتی۔

یہ دوہری کیفیت بالکل ایسے ہے جیسے کوئی ایسا موبائل فون جو ایمرجنسی موڈ پر لگا ہوا ہو، اور ضروری کمیونیکیشن کے علاوہ ہر چیز بند پڑی ہو۔ بٹن دبانے پر بس ایمرجنسی کال کی جا سکتی ہو اور اس کے علاوہ سب بند۔ اور اس ضروری کی تعریف میں ضروری، ضروری سے 180 درجے الٹ ہے۔ ہر وہ کام جس کی بظاہر ضرورت نہیں ہوتی بڑے اہتمام سے سر انجام دیا جاتا ہے، پورے پروٹوکول کے ساتھ کیا جاتا ہے اور جو کام کرنا ہو، ہاں اچھا کرتے ہیں ہاں یار یہ بھی کرنا ہے جیسے خیالات کے بعد اسے واپس ذہنی شیلف پر رکھ دیا جاتا ہے، کل کرنے کے لیے۔ کوئی بات کر لے تو تفصیلی جواب مل جاتا ہے کوئی نہ بات کرے تو دنیا جائے بھاڑ میں، ہمارے اندر اپنی ایک دنیا آباد ہے جسے کسی کی ضرورت نہیں۔ دماغ صرف انتہائی ایمرجنسی کی کیفیت میں مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے ورنہ ملگجی بیداری ہی طاری رہتی ہے۔ ایمرجنسی کی تعریف مختلف مواقع کے حوالے سے مختلف ہو سکتی ہے مثلاً کل کے لیے کوئی انتہائی ضروری ترجمہ کرنا ہو تو دماغ حاضر ہوتا ہے، یا کوئی کوئز، ٹیسٹ، ریڈنگ ملی ہوئی ہو تو دماغ ا س کے لیے حاضر ہوتا ہے۔ اور باقی کاموں کے لیے دماغ اسسٹنٹ کو کرسی پر بٹھا کر خود پچھلے کمرے میں جا کر سو جاتا ہے۔ یہ اسسٹنٹ بھی کم بخت مارا چرسی لگتا ہے جو ساری ترتیب الٹ دیتا ہے، جو کرنا ہو وہ نہیں کرنے اور جو نہیں کرنا ہو وہ کرنے کی فہرست میں ڈال کر خود انجوائے منٹ میں لگا رہتا ہے۔

انجوائے منٹ کی تفصیلات بھی انتہائی غیر اسلامی، غیر  اخلاقی اور تقریباً ہر "غیر جمع اسمِ صفت" کی ترکیب تلے آ جاتی ہیں۔ مثلاً دیہاڑی دار اسسٹنٹ دماغ فلموں کا رسیا ہے۔ ایک عدد بیسٹ موویز کی فہرست اتارنے کے بعد ایک ایک یا دو دو کر کے دو وقت روزانہ فلمیں دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اور ظاہر ہے فلمیں دیکھنا انتہائی غیر اسلامی کام ہے۔ اسسٹنٹ دماغ کی ایک اور مصروفیت پچھلے دور کی پڑھی ہوئی کہانیاں بھی ہے، یا کوئی بھی نئی کہانی مل جائے تو اسے بڑے اہتمام کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، اس کے ساتھ عموماً کچھ ٹھونگنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ضرورت کے کام ایک جانب کھڑے بٹ بٹ منہ تک رہے ہوتے ہیں کہ "ساڈے اُتے وی اکھ رکھ وے"۔ لیکن ظاہر ہے انہیں لفٹ نہیں کروائی جاتی چونکہ یہ مستی ٹائم ہوتا ہے اسسٹنٹ مستی ٹائم چونکہ وڈا دماغ خوابِ خر گوش کے مزے لُوٹ رہا ہے۔ اسی انجوائے منٹ کا ایک تیسرا حصہ لامتناہی نیند کے سائیکل ہیں۔ ہر کچھ عرصے کے بعد اسسٹنٹ دماغ تھک کر چُور ہو جاتا ہے، جس کے بعد اسے ایک لمبی نیند کی ضرورت پڑتی ہے۔ منہ سے جمائیاں خارج ہوتی ہیں، سر بھاری ہو جاتا ہے اور آنکھیں دو کے چار دکھانے لگتی ہیں۔ چنانچہ بستر ڈھونڈا جاتا ہے اور اسسٹنٹ دماغ جسم کو بھی سُلا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں جاگ تبھی آتی ہے جب کھانے کا وقت ہو یا شومئی قسمت اذان سنائی دے جائے۔

اس صورتحال کو ریچھوں کی سرمائی نیند سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے لیکن یہ اس نیند سے مناسب حد تک اختلاف کی حامل ہے۔ مثلاً یہ سال کے چھ مہینے طاری نہیں رہتی، بلکہ اس کا تجزیہ کیا جائے تو عُقدہ کھلتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت طاری ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی معینہ مدت نہیں ہوتی۔ چند دن سے لے کر چند ہفتوں اور چند مہینوں تک یہ کسی بھی عرصے کے لیے طاری رہ سکتی ہے۔ مزید اس کے درجوں میں بھی فرق آتا رہتا ہے، جیسے برتن کا پیندہ کہیں سے مضبوط اور کہیں سے کمزور ہو جاتا ہے اسی طرح ایمرجنسی موڈ کی نیند کبھی کم کبھی زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ درمیان میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ صاحبِ نیند تقریباً انسان بن چکا ہے لیکن پھر ایک جماہی آتی ہے اور بستر سیدھا کر کے اس پر لیٹنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ پرانا دوست/ سہیلی واپس آ چکی ہے۔

اس کیفیت پر تحقیق کی جائے تو کئی انکشافات بھی ہوں گے۔ چونکہ اسی کیفیت میں کئی مسائل کے سادہ سے حل سامنے آ جاتے ہیں جنہیں اگر نوٹ کر کے رکھ لیا جائے تو بعد میں خود پر تبرا بھیجنے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اسی نیم ملگجے جاگنے کی کیفیت میں بہت سے مسائل حل بھی کر لیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مکمل بیداری پر اس حل کو کوڑے دان میں پھینک کر دوبارہ سے ایک نیا حل نکالنا پڑتا ہے۔

کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ دماغ اس کیفیت میں ایک سست رفتار کچھوا ہو جاتا ہے جو چلتا چلا جاتا ہے چلتا چلا جاتا ہے لیکن یہ چلنا اتنا سست ہوتا ہے کہ دماغ کو خود بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ چل رہا ہے۔ وہی مدھم مدھم سلگاہٹ اور گرماہٹ، جس کا احساس خود کوئلے کو بھی نہیں ہوتا کہ وہ جل رہا ہے، جلتا چلا جا رہا ہے حتی کہ وہ اسی زُعم میں راکھ ہو جاتا ہے کہ ابھی تو بہت وقت باقی ہے۔۔ دماغ بھی اسی کیفیت میں، خود فراموشی کی کیفیت میں خود کو مبتلا کر کے جیسے سمجھ لیتا ہے کہ دنیا بھی اس کے ساتھ تھم گئی ہے، وقت کی لگام کھنچ گئی ہے اور وہ حقیقی برزخ میں آ کھڑا ہوا ہے۔ لیکن یہ دماغ کی خام خیالی ہوتی ہے، وقت بھلا کبھی رُکا ہے، وقت چلتا چلا جاتا ہے اور جب دن ہفتے مہینے گزرنے کے بعد ہوش آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یوگی کے مراقبے کے دوران اتنا وقت گزر گیا۔ اور وہ وقت، بظاہر دبے پاؤں دھیرے دھیرے چلتا وقت بھی خاموشی سے نہیں گزرتا، نشان چھوڑ جاتا ہے، جسم پر، گرد و نواح پر اور دماغ پر۔ دماغ کو ہوش آنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کیا تھا اور کیا ہو گیا، دماغ جو خود کو تین دن کے لیے غار میں بند کرتا تھا اس کے اٹھنے پر صدیاں بیت چکی ہوتی ہیں۔ بس یہاں کوئی معجزہ نہیں ہوتا، یہاں کوئی غار نہیں ہوتا، نیند اور جاگنے کی کیفیت میں کوئی وحی کار فرما نہیں ہوتی یہ عام سی نیند ہوتی ہے۔ بلکہ نیند کہنا بھی نیند کی توہین ہے، یہ نیم نیند بہت کچھ لے جاتی ہے۔

شاید یہ نیم نیند بہت کچھ دے بھی جاتی ہو۔ اٹھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ادھورے سے کئے ہوئے کام، کچھ ادھوری سی لکھی ہوئی سوچیں، کچھ نیم پروسیسنگ جو پسِ منظر میں ہوتی رہی اس کا ادھورا سا نتیجہ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ کچھ دے بھی جاتا ہے۔ کبھی کبھی اس حالت میں چلی ہوئی گولی نشانے پر لگ جاتی ہے اور پوبارہ بھی ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وہ کیفیت تھی جب بنزین کا چھ رُخا  مالیکیول چھ سانپوں کی صورت میں خواب میں آ وارد ہوا۔ شاید یہی وہ کیفیت ہو جس میں شاہکار تخلیق ہوتے ہوں۔ شاید یہی وہ کیفیت ہو جس میں پہاڑ جیسے مسائل کے اتنے سادہ حل سامنے آ جاتے ہوں کہ ان کی سادگی پر قربان ہو جانے کو دل کرے۔ شاید یہ کیفیت اچھی بھی ہو، لیکن بات تو فریکوئنسی پکڑنے کی ہے۔ اگر درست فریکوئنسی پکڑ لی تو پوبارہ، ورنہ ۔۔۔۔۔۔

بدھ، 27 مارچ، 2013

اینڈرائیڈ کے لیے انگریزی اردو لغت

قارئین اس بلاگ کا خادم، یعنی شاکر عزیز اینڈرائیڈ کے پرانے عاشقوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اینڈرائیڈ ایپل آئی او ایس کے مقابلے میں ذرا "سستا" آپریٹنگ سسٹم گردانا جاتا ہے، اور یار لوگ اس پر مال وئیر اور وغیرہ وغیرہ 'وئیرز' کے خطرات کی نشاندہی فرماتے رہتے ہیں، پھر بھی میرا دل اینڈرائیڈ ہی مانگتا ہے۔ اسی عشق خانہ خراب کا شاخسانہ ایک عدد سام سنگ گلیکسی وائے اور پھر ایک عدد نیکسس سیون کی صورت میں میرے ہاں ظاہر ہو چکا ہے۔ اینڈرائیڈ چونکہ اب میری روزمرہ زندگی کا عمومی حصہ ہے تو اس کے لیے چھوٹے چھوٹے پروگراموں کی تلاش بھی رہتی ہے۔ انہیں میں سے ایک لغات کی تلاش ہے۔ پڑھتے ہوئے، براؤزنگ کرتے ہوئے، فلم دیکھتے ہوئے مجھے اکثر انگریزی سے انگریزی اور انگریزی سے اردو لغات کی ضرورت پڑی۔ انگریزی کے لیے تو مریم ویبسٹر کی بڑی شاندار ایپ موجود ہے۔ لیکن برا ہو اردو والوں کا اول تو کوئی ایپ دستیاب نہیں تھی، اگر ہونا شروع ہوئیں تو ان میں ڈھٹائی کی آخری حدوں کو بھی پار کر کے اشتہارات ٹھونسے ہوئے تھے۔ یعنی نستعلیقیت کا کوئی زمانہ ہی نہیں، ڈویلپر یہ سمجھتے ہیں کہ صارف کی ناک میں بھی چار پانچ اشتہار ٹھونس دئیے جائیں تو کم رہے گا۔ خدا کا غضب ڈیٹا سارا کلین ٹچ اردو لغت، مقتدرہ قومی لغت اور اردو انگلش ڈکشنری ڈاٹ کام جیسی جگہوں سے اٹھایا ہوا، اور صرف ایک سرچ ایپلی کیشن بنانے پر یہ سزا کہ انٹرنیٹ نہ ہو تو ایپ نہیں چلتی۔ اور ایپ نہ بھی چل رہی ہو تو نوٹیفکیشن بار میں اشتہار ٹھکا ٹھک چل رہے ہوتے ہیں۔ تو جناب ہم نے صرف ایک دن یہ گھٹیا پن برداشت کیا اور پھر کوئی اردو لغت استعمال کرنے سے توبہ کر لی۔ خدا بھلا کرے کوئک ڈکشنری والے کا جس نے ایک اوپن سورس اطلاقیہ بنا ڈالا، اشتہارات سے پاک اور بس کرنا یہ تھا کہ اردو ویب لغت والے ڈیٹا کو اس میں ڈال دیا جاتا۔ اللہ بھلا کرے محمد سعد کا اس نے اس ڈیٹا کو کوئک ڈکشنری لغت فائل کی صورت میں ڈھال دیا اور اب ہم ایک بہترین قسم کی آفلائن انگریزی اردو اور اکثر اردو انگریزی لغت سے مستفید ہوتے ہیں۔ تو جناب آپ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں، اینڈرائیڈ کے صارف ہیں تو انگریزی اردو لغت نصب کر کے اپنی زندگی آسان بنائیں۔ ہمارے لیے نوے فیصد مواقع پر یہ لغت کام دے جاتی ہے، امید ہے آپ کے لیے بھی دے گی۔ لغت نصب کرنے کے لیے مندرجہ ذیل مراحل پر نمبر وار عمل کریں اور ثوابِ دنیا و آخرت کمائیں:
انگریزی اردو لغت فائل اتاریں۔
اپڈیٹ: مقتدرہ قومی لغت فائل اتاریں۔
اپڈیٹ2: اردو انگلش ڈکشنری فائل اتاریں۔
اپڈیٹ 3: ابھی درج بالا دو لغات فائلز میں مسائل ہیں جن پر مزید تحقیق ہو رہی ہے۔ تب تک ایک سے کام چلائیں۔
3۔ یہ سیون زپ یا زپ فارمیٹ میں ہے، اس لیے سیون زپ نصب کر کے اس کو زپ فائل سے نکال لیں۔
4۔ اپنے اینڈرائیڈ آلے کو پی سی سے منسلک کریں۔
5۔ اپنے ایس ڈی کارڈ میں quickDic نامی فائل فولڈر تلاش کریں۔ اور اپنی پسندیدہ لغت فائل اس میں کاپی کر دیں۔
6۔ کوئیک ڈکشنری ایپ کو چلائیں اور یہ خوبخود موجودہ لغت فائلوں کاسراغ لگا لے گی۔
7۔ استعمال کریں اور موج لوٹیں۔ یہ فائلیں بنیادی طور پر انگریزی سے اردو لغت کے لیے ہیں، تاہم اردو سے انگریزی تلاش کی سہولت بھی کوئک ڈکشنری میں موجود ہے بس سرچ باکس کے ساتھ بائیں طرف ایک بٹن کو دبا کر زبان تبدیل کر لیں۔
اور جن احباب کو اس لغت کا علم نہیں انہیں مطلع ضرور کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام اس سے مستفید ہو سکے۔
اور جاتے جاتے میرے نیکسس 7 پر لغت کی تصویر ملاحظہ کرتے جائیں۔

منگل، 26 مارچ، 2013

آنکھیں

غزال آنکھیں
کمال آنکھیں
وہ آپ اپنی
مثال آنکھیں
کہ بس سراپا
جمال آنکھیں
جو نم ذرا ہوں
وبال آنکھیں
جو جینا کر دیں
محال آنکھیں
اے یار تیری
کمال آنکھیں
(ذاتی تُک بندی)

بدھ، 20 فروری، 2013

لسانیات اور ہم

لو جی پرانے فولڈر پھرولتے ایک اور مسودہ نکل آیا۔ یہ ایم فِل فرسٹ سمسٹر میں ایک نا ہو سکنے والے فنکشن کے لیے لکھا تھا۔ سمسٹر ختم ہوا، دوسرا ختم ہو چلا لیکن وہ فنکشن نہ ہو سکا۔ پہلے سمسٹر کے تین مضامین سنٹیکس، بائی لنگوئل ازم اور ریسرچ میتھڈالوجی کی پیروڈی تخلیق کی گئی تھی۔ آپ کا لسانیات سے واقف ہونا ضروری ہے تبھی کچھ مزہ لے سکیں گے۔
----------------------------------------------------
اچھا پتا نہیں یہ خواب تھا یہ حقیقت۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا بڑی اچھی طرح سے یاد ہے اور وہی آپ کے ساتھ شئیر کرنے جا رہا ہوں۔ وقت بھی یاد نہیں، اور جگہ بھی لیکن یہ یاد ہے کہیں جا رہا تھا۔ پیدل، تو راستے میں چلتے چلتے ایک ہیولا نظر آتا ہے۔ میں پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں تو پتا لگتا ہے یہ تو اپنا ہی بندہ ہے۔ میں نعرہ لگاتا ہو "ریسرچ میتھڈالوجی پائین۔۔۔۔" اور آگے سے مجھے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔  "وے میں تینوں پائین نظر آنی آں؟" ۔اور مجھے ہڑبڑا کر معذرت کرنا پڑتی ہے "آپا جی اصل میں دھیان نہیں کیا میں نے"۔ لیکن جواب میں بس ایک "ہنہ" ملتا ہے اور پھر خاموشی۔ میں بات بڑھانے کی غرض سے پوچھتا ہوں "اور سنائیں آپا جی کیا احوال ہیں کمزور سی نظر آ رہی ہیں۔ نصیب دشمناں طبیعت تو ناساز نہیں؟" تو آگے سے پھر تڑاخ سے جواب موصول ہوتا ہے "پریزنٹیش اچھی دے لینی تھی تو میرا یہ حال نہ ہوتا۔ جس کے دوست ایسے ہوں اس کو دشمنوں کی کیا ضرورت"۔ تو صاحب میں نے کان لپیٹے اور نکل لیا کہ بھائی باتیں تو ٹھیک کی ہیں آپا جی نے، میری پریزنٹیشن اچھی ہوتی تو یہ دن دیکھنا ہی نہ پڑتا۔
لو جی شاید وہ دن ہی ایسا تھا۔ میں ذرا آگے گیا ہوں تو عجیب سا مقام آ گیا، جیسا انگریزی ہارر فلموں میں ہوتا ہے۔ ملگجا سا اندھیرا اور سنسان بیابان، خاموشی کہ پتا بھی نہ کھڑکے۔ لو جی ابھی میں کوئی چار قدم ہی چلا ہوں کہ یکدم میرے کانوں سے آوازیں ٹکرانا شروع ہوئیں اور میں اچھل پڑا۔ اب اگر میں اِن ڈائرکٹ میں کر دوں تو آپ کو مزہ نہی آئے گا، ڈائریکٹ سپیچ میں سنیں۔
Go away you stupid language, leave me alone
نی پرے مر توں، میری جان چھڈ کِتے، موئی فرنگیاں دی زبان۔
اور صاحب میں حیران پریشان، یار یہ شاہد بھائی کی آواز میرے کانوں میں کیوں گونجنے لگی ہے۔ شاہد بھائی جن بھوت ہو گئے ہیں یا میں جو بچا کھچا تھا وہ بھی پاگل ہو گیا ہوں۔ اور اوپر سے انگل سرگم والی ماسی مصیبتے نے راگ چھیڑ دیا ہے۔ لو جی ادھر میں حریان تھا، اُدھر دنوں آوازیں پورے طمطراق سے لڑنے میں مصروف تھیں۔ آخر جب میرے کان پکنے پر آ گئے تو میں نے غصے میں آ کر کہا۔ "چپ کرو"۔ اور یکدم خاموشی چھا گئی۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ معاملہ الٹ ہو گیا۔
This is your fault
ایدا ای قصور اے سارا
اور میں پھر حیران۔ "او بھائی میرا کی قصور اے، میرے کھوپڑی میں کیوں باجا بجا رہے ہو تم لوگ، جا کر اپنی لڑائی لڑو"۔ تو آگے سے جواب آتا ہے
"ہم تہماری ہی کھوپڑی میں رہائش پذیر ہے پچھلے دو درجن سالوں سے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو"۔
"او بھائی میں نے کیا کر دیا؟" میں رونے والا ہو گیا۔
"تم نے بائی لنگوئلزم پڑھا؟"
"ہاں پڑھا، تو؟"
"تو یہ کہ تم کونسے بائی لنگوئل ہو؟"
"کمپاؤنڈ؟" بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ پنجابی والی آواز نے تو بس صلواتوں کا طوفان اُٹھا دیا۔ میں نے بڑی مشکل سے ہاتھ  پیر جوڑ کر دونوں کو چپ کروایا ۔ مسئلہ پوچھا اور ۔۔۔۔ اور سے پہلے مسئلہ سن لیں۔ "او بھائی میرا قصور تو بتاؤ؟"۔
You have brought this stupid language with me and I can’t live with it.
"نی تے ایتھے کہیڑے ہیج چڑھے ہوئے نیں، مینوں وی کوئی شوق نئیں۔ اے تے ایس موئے نے پتا نئیں کتھوں اے کم کر دتا، فرنگیاں دی زبان نال کیس جہنم وچ سُٹ دِتا مینوں"
دس منٹ بعد جو پتا چلا وہ یہ تھا کہ چونکہ میں اپنے آپ کو کمپاؤنڈ بائی لنگوئل سمجھتا ہوں اس لیے میری کھوپڑی میں ساری زبانیں اب ایک ہی پورشن میں منتقل ہو گئی ہیں اور یہی فساد کی وجہ ہے چونکہ پنجابی انگریزی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور انگریزی کی بھی اس سے نہیں بنتی۔ تو جناب میں نے سر پکڑ لیا۔ یا اللہ میں کیہڑی خطا کرلئی، ہُن کھوپڑی وچ کندھ کراواں۔ بس رونے کی کسر رہ گئی تھی پر میں نے منت سماجت کرنے کا فیصلہ کیا۔  "دیکھو بھائی دونوں بڑی اچھی چیز ہو۔ آپ تھوڑا کو آرڈینیٹ کر لو نا۔۔" اور بس اس لفظ کے بولنے کی دیر تھی کہ جیسے کھوپڑی میں ہزار واٹ کا بلب روشن ہو گیا۔ "کو آرڈی نیٹ بائی لنگوئل" میں نے اپنے آپ کو شاباش دی اور انگریزی پنجابی کو سمجھایا۔ دیکھو بھئی درمیان میں دیوار کر لو یہی ہم سب کی بھلائی میں ہے۔ اور شکر ہے وہ مان گئیں۔ تو صاحب آج سے مجھے کو آرڈینیٹ بائی لنگوئل لکھا، بولا، سمجھا اور پکارا جائے۔ یا اللہ تیرا شکر ہے اس مصیبت سے جان چھوٹی۔ ورنہ یہ تو میری کھوپڑی میں اُدھم مچا مچا کر دماغ کی لسی بنا دیتیں۔
لو جی ابھی میں شکر کر رہا تھا، اور اس منحوس جگہ سے نکل ہی رہا تھا کہ یکایک سامنے ایک منظر روشن ہو جاتا ہے۔ میں جیسے جیسے آگے بڑھتا ہوں منظر واضح ہوتا جاتا ہے۔ ایک بابا جی ایک سائیڈ پر پڑے ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ اور ان کے پیچھے کسی ٹنڈ منڈ درخت کی شاخیں نظر آر ہی ہیں۔ کہیں کہیں کوئی انگریزی کا لفظ بھی ٹنگا نظر آ جاتا ہے۔ پہلے تو میں بڑا خوش ہوا کہ چلو انگریزی کا درخت بھی ہوتا ہے، جیسے جامن امرود کا ہوتا ہے۔ بابا جی سے کلو کے حساب سے لے لیتے ہیں اپنی انگریزی تو اچھی ہو گئی۔ ہم نے مستقل گاہک بننے کا عزم کرتے ہوئے جو قدم مزید آگے بڑھائے تو سمجھ آئی یہ انگریزی نہیں سنٹیکس کا ٹری تھا۔ "او مر گئے" ہمیں پچھلا کوئز یاد آ گیا جس میں پورا ایک سوال غلط ہو گیا تھا۔ اور اب یہ بابا یہاں پیٹھا ہوا اپنی ٹانگ کو پکڑے ہائے ہائے کر رہا تھا۔ پہلے تو ہمارا دل کیا کہ نکل لیں اس سے پہلے کہ پھر ڈپریشن ہو جائے، لیکن پھر ہم نے سوچا چلو کم از کم 1122 کو ہی کال کر دیں، بے چارہ بابا کہیں فوت ہی نہ ہو جائے۔ ہم بابے کے قریب گئے اور حال احوال پوچھا، "بابیو ٹانگ تڑوا بیٹھے ہو کس عمر میں درختوں پر چڑھنے کا شوق فرما رہے ہو"۔ تو بابا جی بولے پُتر میں بابا سنٹیکس ہوں۔ اور میرے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔
"ارے بابا جی آپ کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو میرا کیا بنے گا"۔
"بس پُتر اس چومسکی کو مولا نے ای لینا اے۔ بڑا ذلیل کیتا اے اینہیں"۔
"وہ کیوں بابا جی بڑا وڈا فلاسفر ہے جی چومسکی، انھی پائی ہوئی اے اُس نے تو لنگوئسٹکس میں"۔
"بس پُتر انھی پائی ہوئی اے اُس نے۔ اسی وجہ سے تو میری یہ حالت ہوئی ہے"۔
میں نے پوچھا بابا جی ہوا کیا تھا۔ آپ تو بڑا اچھا ٹری شری بنالیتے ہیں پھر ٹانگ کیسے تڑوا بیٹھے؟
کہنے لگے بس پُتر کیا بتاؤں میں اپنی مستی میں ایک نوڈ بنا کر دوسری پر چھلانگ لگا رہا تھا کہ ایک null constituent  آ گیا۔ بس پر کیا نیچے گرا، تو پھر ٹانگ ہی ٹوٹنی تھی پُتر۔ بابا جی نے ایک بار پھر چومسکی کی خبر لینے کے لیے انجن سٹارٹ کیا لیکن میں نے بریک لگوا دی۔
"بابا جی چلیں چومسکی کے پاس ہی چلتے ہیں آپ کی ٹانگ تو وہ پلگ چھپکتے میں ٹھیک کر دے گا آخر آپ اس کی تھیوری ہیں"۔ شکر ہے بابا جی کی سمجھ میں میری بات آ گئی۔ اور پھر ہم پہنچے پھررر امریکہ۔ اب کیسے پہنچے یہ تو ہمیں یاد نہیں لیکن سفید بالوں والا بابا چومسکی ہمیں مل گیا۔
"ہور جی بابیو کی حال اے" ہم نے اپنے بے تکلف پنجابی اسٹائل میں ارشاد فرمایا۔ تو آگے سے چومسکی نے ہمیں دعا دی۔
ہم نے کہا سر جی ایک مریض لے کر آیا ہوں۔ کہنے لگے بیٹا پیش کرو۔ میں نے پیش کیا "جناب عالی مِنی مل ازم"۔ تو فرمانے لگے "بیٹا کیپٹل ازم"۔ میں نے پھر عرض کیا "یہ منی مل ازم" کہنے لگے "نہیں بیٹا کیپیٹل ازم"۔
اب میں نے ذرا تفصیل سے کہا "جناب عالی منیمل ازم کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے آپ کیپیٹل ازم کی جان نہیں چھوڑ رہے"۔
فرمانے لگے "بیٹا میں آج کل کیپیٹل ازم کی ٹانگ توڑتا ہوں، اسے آگے کرو"۔
میں نے عرض کیا "سر وہ لنگوئسٹکس اور سنٹیکس اور جنریٹو گرامر؟"
کہنے لگے "بیٹا وہ میرا سیاسی بیان تھا، میں نے تو زبان کو اس لیے اسٹڈی کیا کہ اس سے انسانی دماغ کے بارے میں جاننے میں مدد مل سکتی تھی۔"
میں نے کہا "جناب پر وہ منی مل ازم، سنٹیکس کی کلاس، لاہورلیڈز یونیورسٹی؟"۔
 کہنے لگے "بیٹا بھُگتو اب کونسا میں نے ایڈمیشن لینے کا کہا تھا"
اور میں نے اس بار دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ ایک طرف بابا سنٹیکس ہائے وائے کر رہا تھا اور دوسری طرف میں، وہ تو شکر ہے کہ آںکھ کھل گئی، فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں۔
میں نے شکر کیا کہ یہ خواب ہی تھا۔ پر اماں جی کہا کرتی ہیں فجر کے وقت کے خواب بھی اکثر سچے ہوتے ہیں۔
------------------------------------------------------

منگل، 5 فروری، 2013

پینڈو

اپنا ذاتی فولڈر کھنگالتے ہوئے پندرہ اکتوبر، 2009 کی بنی ہوئی ایک ورڈ فائل سے یہ اسکرپٹ نکلا۔ کسی فنکشن کے لیے لکھا تھا۔ اور اکثر مواقع کی طرح اس کو پیش کرنے کی ہمت نہ پڑی، یا وقت کی کمی کی وجہ سے نہ پیش ہوا، یا پھر ارادہ بدل گیا۔ اب یاد نہیں۔ پینڈو کا کردار اپنے لیے لکھا تھا، اور پنجابی، اردو انگریزی تینوں پر مشتمل مکالمے تھے۔ پنجابی مکالموں کا ترجمہ کردیا ہے امید ہے اردو میں لکھی انگریزی سمجھ آ جائے گی۔
-------------------------------------------------
کردار: پینڈو، گورا صاحب، باجی
گورا صاحب اور باجی سٹیج پر موجود ہیں۔ اس کے بعد ہونق سی شکل بنائے  پینڈو سٹیج پر آجاتا ہے۔ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد جب اس کی نظر گورا صاحب پر پڑتی ہے تو اس کی طرف لپکتا ہے۔
پینڈو: کی حال اے پاء جی؟ ]کیا حال ہے جناب؟]
گورا صاحب: واٹ؟
پینڈو: ہیں؟ وٹ؟ کیہڑا وٹ؟ [وٹ= غصہ، گرمی، مروڑ]
گورا صاحب: وٹ آر یو ٹاکنگ؟ (پینڈو باجی کی طرف جاتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے)
پینڈو: باجی اے باجی۔۔۔ اے چٹے منہ والے نوں کی ہوگیا اے۔ سردیاں وچ کیس چیز دا وٹ چڑھیا اے اینہوں؟ [باجی اے باجی۔۔۔ اس سفید منہ والے کو کیا ہو گیا ہے۔ سردیوں میں کس چیز کا غصہ چڑھا ہوا ہے اسے؟] ( (باجی ڈائس پر کھڑی کچھ کام کر رہی ہے اوراس سارے قضیے سے بالکل بے پرواہ نظر آتی ہے۔ پینڈو کے بلانے پر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ انگریز کو دیکھ کر سارا معاملہ سمجھ جاتی ہے اور پینڈو کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہتی ہے)
باجی: سٹوپڈ یہ انگلش ہے۔ اور اسے اردو نہیں آتی۔ تم سے پوچھ رہا تھا کہ کیا کہہ رہے ہو۔
پینڈو: ہیں ؟ اچھا تے اے انگریز اے۔ اینہوں تے وٹ وی وایتی پھردا ہونا اے فیر۔ ہے نا باجی؟ [اچھا تو یہ انگریز ہے۔ اسے تو مڑوڑ بھی ولائتی اٹھتا ہو گا۔ ہے نا باجی؟]
باجی: شٹ اپ۔ نان سنس پنا نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں۔
پینڈو: ہو ہائے باجی توں ناراض تے نا ہو۔ اے باجی۔۔۔ اے باجی۔۔۔ باجی گل سن نا (باجی ناراضگی سے اس کی طرف دیکھتی ہے)
باجی: ہاں بولو۔ اب کوئی ایسی ویسی بات کی تو سر پر کوئی چیز مار دوں گی۔
پینڈو: اچھا نا باجی نئیں کہندا۔ باجی۔۔۔۔ اے باجی۔۔۔۔ اے گورے صاحب نال ساڈی یاری کرا دے نا۔ ایدے کولوں پُچھ ایدا ناں کی اے۔[ اچھا باجی نہیں کہتا۔۔ باجی اے باجی اس گورے صاحب سے ہماری دوستی کروا دو نا۔ اس سے پوچھو اس کا نام کیا ہے] (باجی گورے صاحب کو مخاطب کرتی ہے)
باجی: ایکسکیوز می۔  دس مین وانٹس ٹو نو یور نیم۔ کین یو پلیز؟
گورا صاحب: (متوجہ ہوتے ہوئے) او شیور شیور۔ مائی نیم از اینڈرسن۔
باجی: اس کا نام اینڈرسن ہے؟
پینڈو: ہیں کیہڑا سن؟  ایناں مشکل ناں۔ اے باجی۔۔۔ اے باجی ۔۔۔ اینہوں کہہ نا میں اینہوں گورا صاحب کہہ لواں؟ [ہیں کونسا سن؟ اتنا مشکل نام۔ باجی اسے کہوں نا کہ میں اسے گورا صاحب کہہ لوں؟]
باجی: (انگریز سے) کین دس پرسن کال یو گورا صاحب؟
گورا صاحب: وٹ ڈز اٹ مین؟
باجی: ویل اٹ مین آ وائٹ مین۔
گورا صاحب: او شیور ہی کین کال می۔
باجی: کہہ لو اسے گورا صاحب۔ اور اب پلیز مجھے تنگ نہ کرو میں کام کر رہی ہوں۔
پینڈو: ہائے باجی توں کنی چنگی ایں۔ [ہائے باجی تم کتنی اچھی ہو] (چھلانگ لگا کر گورے صاحب کی طرف جاتا ہے۔ ہاتھ سے اشارہ کر کے کہتا ہے۔)
پینڈو: گورا صاحب۔ (گورا صاحب مسکرا کے سر ہلاتا ہے۔) پینڈو (پینڈو اپنی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے)۔
گورا صاحب: پھینڈو
پینڈو: پینڈو
گورا صاحب: پھینڈو
پینڈو: یار توں مینوں پھینٹناں کیوں لیا اے۔ پینڈو پینڈو [یار تم نے پھینٹنا کیوں لے رکھا ہے۔ پینڈو پینڈو]
گورا صاحب : او پھینڈو پھینڈو
پینڈو: (سخت غصے میں آجاتا ہے۔ اپنے بال نوچتا ہے۔ دیوار سے سر ٹکرانے لگتا ہے پھر کچھ سوچ کر واپس آجاتا ہے۔ لمبے لمبے سانس لیتا ہےاور اپنے آپ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ گورے صاحب سے) گورا صاب۔ پے
گورا صاحب: پھے
پینڈو: ڈو
گورا صاحب : ڈو
پینڈو: پیڈو
گورا صاحب: پھیڈو۔
 پینڈو: (پینڈو کو احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط بول گیا ہے۔) ہائے میں کتھے چلا جاواں اوئے مینوں پیڈو بنا دتا۔ میں تینوں پیڈ دا بچہ لگداں کتوں؟ [ائے میں کدھر چلا جاؤں۔ مجھے بھیڈو (بھیڑ کا بچہ) بنادیا۔ میں تمہیں بھیڈو لگتا ہوں کہیں سے؟] (پینڈو پھر اپنا سر پیٹنا شروع کردیتا ہے۔ اس دوران باجی اس شور سے اکتا کر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔)
باجی: شٹ اپ ، نانسنس۔  انگریز  پ نہیں بول سکتے۔ اس لیے وہ تم کو پھینڈو ہی کہے گا۔
پینڈو: اچھا اے ہو ای قسمت اے تے فیر ٹھیک اے۔ [اچھا اگر یہی قسمت ہے تو ٹھیک ہے] (گورے صاحب سے) ٹھیک ہے ٹھیک ہے پھینڈو ۔۔(رونی سی شکل بنا کے اور اپنی طرف اشارہ کرکے) پھینڈو۔
گورا صاحب: اوکھے اوکھے۔
پینڈو: (پینڈو کو پھر آگ لگ جاتی ہے) اوکھے کی مطلب اوئے۔  مینوں پتا تسیں جنہیں اوکھے جے ساڈے توں۔ اوئے اوکھے تے اسیں آں۔ تہاڈا کی خیال اے تسیں ڈرون حملے کردے رہو گے تے اسیں چپ بیٹھے رہواں گے؟ اوئے اسیں تہاڈا چنڈا ساڑاں گے۔ تسیں فیر ڈرون حملہ کرو گے اسیں  فیر تہاڈا چنڈاساڑاں گے ڈاکخانے بنک ساڑاں گے۔ نواں آیاں سوہنیا توں ویکھیا کی اے پاکستان وچ ہلے۔ (پینڈو سلطان راہی کی طرح چوڑا ہو کر کھڑا ہوجاتا ہے) اوئے تسیں کی سمجھدے او ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دے کے تسیں ایس قوم نوں خرید لیا اے؟ اوئے اے امداد نئیں مل سکدی اوئے (آہستہ سے) فوج نے جو کہہ دتا اے کہ نئیں مل سکدی۔ [اوکھے کیا مطلب اوئے۔ مجھے پتا ہے تم ہمارے ساتھ جتنے اوکھے ہو۔ اوئے اوکھے ہم ہیں۔ تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ تم ڈرون حملے کرتے رہو گے اور ہم چپ بیٹھے رہیں گے؟ اوئے ہم تمہارا جھنڈا جلائیں گے۔ تم دوبارہ ڈرون حملہ کرو گے ہم پھر تمہارا جھنڈا جلائیں گے ڈاکخانے بینک جلائیں گے۔ نئے آئے ہو پیارے تم نے دیکھا کیا ہے پاکستان میں ابھی۔ اوئے تم کیا سمجھتے ہو کہ ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دے کر تم نے اس قوم کو خرید لیا ہے؟ اوئے یہ امداد نہیں مل سکتی (آہستگی سے) فوج نے جو کہہ دیا ہے کہ نہیں مل سکتی]
باجی: ( پینڈو کی ڈرامے بازی سے تنگ آکر  پھر غصے میں آجاتی ہے) شٹ اپ شٹ اپ آئی سے شٹ اپ۔ (پینڈو ڈر کر چپ ہوجاتا ہے۔ اس دوران گورا صاحب ہاتھ  میں سبز رنگ کا  کارڈ نکال کر اپنی نوٹ بک پر اندراج کرنے لگتا ہے۔ پینڈو یہ دیکھ کر باجی سے پوچھتا ہے۔)
پینڈو: باجی اے باجی۔۔۔۔ باجی۔۔۔ (باجی ناراضگی سے اس کی طرف دیکھتی ہے) اے گورا کی کردا اے؟ [یہ گورا کیا کرتا ہے؟]
باجی: (گورے سے ) وٹ یو ہیو ان یور ہینڈ؟
گورا صاحب: اوہ دس از آ گرین کارڈ۔ آ واز ہئیر ٹو الاٹ امیرکن سٹیزن شپ ۔
باجی: گورے کے ہاتھ میں گرین کارڈ ہے۔
پینڈو: ہیں گرین کارڈ؟ (پینڈو بھاگ کر گورے صاحب کے پاؤں پڑ جاتا ہے) صاحب بہادر پاگ لگے رہن، شاناں ودھیاں رہن، امداداں مل دیا رہن۔ ڈرون حملے ہندے رہن۔ جناب  تسیں تے بڑے سخی او۔ ساڈے صدر نوں تساں کدی نئیں موڑیا۔ کجھ ساڈے تے وی کرم کرو۔ جناب چھوٹے چھوٹے بچے نیں تے پاکستان وی کوئی ملک اے؟ ہائے ہائے کِتے امریکہ دی شہریت مل جائے تے سرکار دے پیر ساری عمر دھو دھو کے پیواں۔ [صاحب بہادر بھاگ لگے رہیں، شان بڑھتی رہے، امداد ملتی رہے، ڈرون حملے ہوتے رہیں۔ جناب آپ تو بڑے سخی ہیں۔ ہمارے صدر کو آپ نے کبھی خالی نہیں موڑا۔ کچھ ہم پر بھی کرم کرو۔ جناب چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور پاکستان بھی بھلا کوئی ملک ہے؟ ہائے ہائے کہیں امریکہ کی شہریت مل جائے تو سرکار کے پیر ساری عمر دھو دھو کر پیوں] (پینڈو کے ڈائلاگز کے دوران گورے صاحب کے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔ گورا موبائل سن رہا ہے۔ اس کے بعد گورا سٹیج سے نیچے جانے لگتا ہے۔ پینڈو  باجی کی طرف لپکتا ہے۔)
پینڈو: باجی اے باجی اے کتھے چلا اے۔ پچھ ناں؟ [باجی یہ کہاں چلا ہے پوچھو نا؟]
باجی: وئیر آر یو گوئنگ؟
گورا صاحب: ویل آئی ایم جسٹ انفارمڈ دیٹ دس سیٹیزن شپ  آفر از کینسلڈ۔
باجی: گورا صاحب کہتا ہے کہ اب کوئی گرین کارڈ نہیں ملے گا۔
پینڈو: نئیں گورا صاحب۔ اینج نہ کرو میرے  چھوٹے چھوٹے حاکم نیں گورا صاحب۔ اونھاں تے دال دلیے دا انتظام کون کرے گا گورا صاحب۔ [نہیں گورا صاحب۔ ایسے نہ کرو میرے چھوٹے چھوٹے حاکم ہیں گرا صاحب۔ ان کے دال دلیے کا انتظام کون کرے گا گورا صاحب]۔  (واویلا کرتا ہوا سٹیج سے اتر جاتا ہے۔)

پیر، 4 فروری، 2013

وزیرِ اعلی لاہور

سب سے پہلے تو میں یہ مطالبہ پیش کرتا ہوں کہ لاہور کی طرح فیصل آباد کو بھی ایک وزیر اعلی دیا جائے۔ تاکہ یہاں بھی سڑکیں بنوانے، گلیاں پکی کروانے اور انڈرپاس اوور ہیڈ بنوانے کے لیے ایک سیاسی نگران ہو۔ بلکہ میرا تو یہی خیال ہے کہ تحصیل کی سطح تک وزرائے اعلی منتخب کروائے جائیں۔ جن کی اپنی اسمبلیاں ہوں، اور اپنی کابینہ۔ ہاں اس صورت میں کابینہ میں یونین کونسل کے ناظم بھرتی کیے جا سکتے ہیں۔
لاہور میں تیس چالیس ارب سے جنگلہ بس سروس تیار ہو رہی ہے۔ لاہور کے لیے ترکی کی درآمد شدہ کوڑا اٹھاؤ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ لاہور میں ہر مصروف سڑک پر اوور ہیڈ بن رہے ہیں۔ اور مصروف چوکوں میں انڈر پاس اور فلائی اوور بن رہے ہیں۔
جبکہ مقابلتاً میرے شہر فیصل آباد میں دس سال کے رنڈی رونے کے بعد، ایک چوک (عبداللہ پور چوک) میں انڈر پاس شروع کیا گیا۔ وہ بھی اس طرف جہاں ٹریفک کا رش کم ترین ہوتا تھا۔ اور جس روڈ پر ٹریفک کی تین چار سو میٹر لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں وہ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اس کی قسمت جگانے کے لیے ایک عدد وزیرِ اعلی کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ کلمہ چوک فلائی اوور، مسلم ٹاؤن فلائی اوور کی طرح ایک ڈیڑھ ماہ میں ایک عدد عبداللہ پور چوک فلائی اوور تیار ہو سکے۔
اس کے علاوہ فیصل آباد کا حق بھی ہے کہ یہاں ترکی والی کوڑا اٹھاؤ گڈیاں چلیں۔ اس کے لیے بھی ایک وزیر اعلی فوری طور پر یہاں بھی تعینات کیا جائے۔ وزیرِ قانون البتہ ثنا اللہ صاحب فیصل آبادی کو ہی رکھا جا سکتا ہے۔ انہیں بھی اپنے شہر میں کام مل جائے گا، اور عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا۔ اس کے جواب میں پیپلز پارٹی بھی راجہ ریاض کو ہوم ڈیوٹی اسائن کر سکتی ہے۔ اس طرح فیصل آباد بھی خبروں میں زیادہ آئے گا۔ اور ادھر گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر وزیر اعلی و کابینہ کی جانب سے پنجاب کے ساتھ زیادتیوں کے رونے زیادہ روئے جائیں گے۔
اور ہاں ہمارے ہاں بھی سڑک کنارے ایسکیلیٹرز لگوائے جائیں۔ ان کے لیے جنریٹر خریدے جائیں، اور گارڈز رکھے جائیں۔ تاکہ یہاں بھی لوگوں کو چُوٹے (جھولے) لینے کا موقع میسر آ سکے۔ مٹی گھٹے سے خراب ہونے کی صورت میں انہیں اچھے داموں کباڑیے کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔
اور ہو سکتا ہے مقامی کابینہ کے کسی وزیر کے ذہن میں کوئی اور اچھوتا منصوبہ آ جائے، جس سے فیصل آباد پر مزید پیسے لگ سکیں۔
میرا وزیرِ اعلی لاہور سے پُر زور مطالبہ ہے کہ جلد از جلد فیصل آباد کو بھی ایک وزیرِ اعلی مہیا کیا جائے۔ تاکہ ہم بھی لاہور کے برابر آسکیں۔ بلکہ مرحلہ وار ہر ضلع اور تحصیل کو وزرائے اعلی الاٹ کیے جائیں، تاکہ عوام گٹر کا ڈھکن بدلوائی، گلی پکوائی، سڑک بنوائی، انڈرپاس کھدوائی اور دوسرے ضروری کاموں کے لیے ان سے رجوع کر سکیں۔
عین نوازش ہو گی۔
عرضے
رہائشیانِ فیصل آباد
منتظرانِ وزیر اعلی و کابینہ

اتوار، 27 جنوری، 2013

اردو بلاگ کانفرنس پر پڑھی گئی

عزیزانِ گرامی، عالی قدر بلاگران و سامعین اسلام و علیکم!
سب سے پہلے تو اردو بلاگ فورم اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے مجھے  سینئر بلاگر سمجھا۔ ورنہ بقول کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی،  میرے جیسے لوگ اکثر کسی کونے میں پڑے پڑے  سینئر ہو جایا کرتے ہیں۔ جس میں  کمال ان کے کچھ نہ کرنے کا ہوتا ہے۔ میں بھی ایک نام نہاد قسم کا بلاگر ہوں،  اور پچھلے کئی سال سے ایویں بلاگر ہوں۔ خیر آپ سب احباب کا شکریہ، اور مزید شکریہ کہ آپ مجھے برداشت کر رہے ہیں۔
میرے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ یہاں تشریف لا کر اردو بلاگنگ پر کچھ ارشاد فرماؤں۔ تو صاحبو کوشش کرتا ہوں کہ کچھ بیان کر سکوں، کوتاہی یا صرفِ نظر ہونے پر، کچھ رہ جانے پر پیشگی معذرت کرتا ہوں۔ میرے لیے اردو بلاگنگ کی تاریخ بیان کرنا تو ممکن نہیں ہو سکے گا، کہ یہ کام برادرم  میم بلال میم بہ احسن اپنے بلاگ پر سر انجام دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ پایہ تکمیل تک بھی پہنچے گا۔ اس مختصر سے وقت میں میری کوشش، یہاں اس محفل میں یہ ہو گی کہ پچھلے سات آٹھ برس میں جو کچھ میں نے دیکھا، محسوس کیا اور جو کچھ مجھے آئندہ ہوتا لگ رہا ہے، وہ بیان کر دوں اور کم سے کم الفاظ میں بیان کر دوں۔
تو آئیں پھر بلاگ سے بات شروع کرتے ہیں۔ بلاگ کی کوئی باضابطہ قسم کی تعریف مہیا نہیں کروں گا۔ بس اتنا  کہ میری سمجھ کے مطابق بلاگ ایک ڈائری ہے، ایسی ڈائری جو آپ آنلائن لکھتے ہیں اور دوسرے اسے پڑھ کر اس پر تبصرہ ، رائے وغیرہ ظاہر کر سکتے ہیں۔ بلاگ ایک غیر رسمی قسم کی ویب سائٹ ہے، جہاں کوئی کسی بھی موضوع پر اپنے خیالات تحاریر کی شکل میں بیان کر سکتا ہے۔ اور بلاگ عموماً زمروں اور ماہانہ بنیادوں پر  درجہ بند ہوتا ہے۔ چناچہ آپ ہر دو اعتبار سے ایک بلاگ پر تحاریر کو پڑھ سکتے ہیں۔
بلاگ کی بات ہو گئی تو اب پاکستانی بلاگز اور اردو بلاگز کی جانب چلتے ہیں۔ انگریزی بلاگز کا ذکر نہیں کروں گا، چونکہ میں اس معاملے میں اناڑی ہوں، بذاتِ خود نہ انگریزی بلاگنگ میں بہت زیادہ ڈبکی لگائی، نہ انگریزی بلاگنگ کے رجحانات سے اتنی زیادہ واقفیت ہے۔ ہاں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ انگریزی بلاگر اور پاکستانی انگریزی بلاگر اردو کی نسبت کچھ آگے ہیں، آج کی محفل ،جو اردو بلاگز کی تاریخ کی پہلی ایسی محفل ہے، ان کے لیے معمول کی بات ہے۔ اور وہ لوگ بطور پیشہ یہ کام بھی کرتے ہیں۔ تو واپس اردو بلاگز پر آتے ہیں۔  میں ماضی سے شروع کروں گا، کچھ یادیں کچھ باتیں آپ سے شئیر کر کے حال اور پھر مستقبل کی جانب بڑھوں گا۔
مجھے یاد ہے شاید 2005 کے آخری ماہ تھے ، جب میں نے انٹرنیٹ پر اردو محفل سے واقفیت حاصل کی۔ کیسے اس فورم کا پتا چلا، یہ اب یاد نہیں۔ تاہم اس کے بعد مجھے دوسروں کی دیکھا دیکھی بلاگ لکھنے کا شوق چڑھا۔ چند احباب جو کبھی بہت فعال تھے، یا اس وقت بلاگنگ کرتے تھے ان کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ زکریا اجمل ہوا کرتے تھے، جو اردو اور انگریزی دونوں میں بلاگ لکھتے تھے۔ پھر ان کا اردو کی طرف رجحان کم ہوتا گیا۔ قدیر احمد رانا، ایک بہت ہی فعال بلاگر ، بہت پیارا انسان  لیکن پھر وہ بھی غمِ روزگار کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس  نے اپنا اردو بلاگ بھی شروع کیا، اور اردو ٹیک نیوز کے نام سے بھی ایک بلاگ چلایا کرتا تھا۔ ایک آدھ بار میں نے بھی اس بلاگ کے لیے کچھ لکھا۔ پھر ایک بدتمیز بھائی ہوا کرتے تھے، آج کل شادی شدہ ہو کر عمران حمید ہو گئے ہیں۔ بہت تیکھا بندہ تھا، ایک عرصے تک میں موصوف سے بات کرنے سے بھی ہچکچاتا تھا، یہی ڈر ہوتا تھا کہ اس کے ہتھے چڑھ گئے تو بہت بری ہونی ہے۔ لیکن بڑی پیاری شخصیت ، سنجیدہ اور متین ، بالمشافہ ملاقات میں  عرفیت کے بالکل متضاد نظر آئے۔ پھر ہمارے راشد کامران ہوا کرتے تھے۔ ہیں تو اب بھی لیکن بہت کم ۔ انہوں نے اردو بلاگنگ کے نام سے اردو بلاگرز کے لیے ایک سروس بھی شروع کی انہیں دنوں میں۔ تب اردو نسخ ایشیا ٹائپ کا دور تھا، تو ان کی سروس کے نئے نئے فونٹ بہت ہی بھلے لگتے تھے۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ سروس بند ہو گئی۔ عمران حمید کے حوالے سے اردو ٹیک بلاگنگ سروس کا  تذکرہ بھی ضروری ہے، جہاں اردو بلاگرز نے ایک عرصے تک بلاگز بنائے رکھے۔ لیکن پھر عدم توجہی کی بنیاد پر یہ منصوبہ بھی ٹھپ ہو گیا۔ ایک اور  صاحب ماشاءاللہ آج کل بہت مشہور قسم کے وکیل، جناب شعیب صفدر صاحب مجھ سے سینئر بلاگر، اور ان کے بلاگ کی تھیم مجھے ہمیشہ  بڑا اٹریکٹ کرتی تھی۔ پھر غلام مصطفٰی خاور جاپان والے بھی مجھ سے کئی سال سینئر بلاگر ہیں۔ ایک عرصے تک ان کی تحریر کا فونٹ  ٹائمز نیو رومن یا اس جیسا کوئی فونٹ رہا۔ پچھلے کچھ برسوں سے نستعلیق میں پوسٹ نظر آنے لگی ہے، اور قارئین کو پڑھنے میں کچھ آسانی ہوتی ہے اب۔ پھر ایک بھائی کراچی سے ہوا کرتے تھے، نعمان یعقوب، اپنی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اور دودھ دہی کی دوکان کیا کرتے تھے۔ پھر ساتھ انگریزی بلاگنگ شرو ع کر دی، میرا اور ان کا ایک مشترکہ شوق لینکس تھا۔ آج کل ماشاءاللہ سوشل میڈیا ایکسپرٹ  ہیں، اور سرچ انجن آپٹمائزیشن کے ماہر بھی ہیں۔ تذکرہ چلا تو افتخار اجمل صاحب جو  بزرگ اور پرانے ترین بلاگرز میں سے ایک ہیں، میرا پاکستان والے افضل صاحب جو ایک عرصہ تک بڑی باقاعدگی سے بلاگ لکھتے رہے۔ اور پھر اردو محفل والے نبیل، جن کے تیار کردہ جاوا اسکرپٹ اردو ایڈیٹر نے انٹرنیٹ پر اردو لکھنا بہت آسان کر دیا۔ (تدوین: جہانزیب اشرف کا نام رہ گیا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ وہ بھی عرصہ دراز تک اردو میں بلاگ لکھتے رہے اور ابتدائی بلاگروں میں شامل تھے، کچھ برسوں سے کم نظر آتے ہیں۔)
احبابِ مکرم!   2004، 5 یا 6  یا 2008تک بھی  اردو بلاگرز دو تین درجن کی تعداد میں تھے، اور ان میں سے بھی بہت کم فعال تھے۔ ابھی نستعلیق کا دور نہیں آیا تھا، اردو نسخ ایشیا ٹائپ بہر حال تاہوما سے بہتر فونٹ تھا، اور یہی طےشدہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ ورڈپریس ابھی نیا نیا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک بار اس کے ورژن 1 اعشاریہ کچھ کا ترجمہ کرنے کی کوشش بھی کی، اور پھر  دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ ترجمہ آگے نہ چل سکا۔ اردو بلاگرز کئی جگہوں پر بلاگز بناتے رہے۔ 2006 میں بلاگسپاٹ پر پابندی لگی تو فری ہوسٹس پر منتقل ہو گئے۔ وہاں سے ڈیٹا ضائع ہوا تو واپس بلاگسپاٹ پر۔ کچھ نے ورڈپریس ڈاٹ کام کو ٹرائی کیا، اس دوران اردو ٹیک کی بلاگنگ سروس بھی زیرِ استعمال رہی۔  رفتہ رفتہ کچھ احباب نے ذاتی ڈومین خرید لیے۔
اور آج، اگر ہم دیکھیں تو اردو بلاگز کے سب سے پرانے ایگریگیٹر اردو سیارہ پر ڈیڑھ سو بلاگز رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں کئی نابغہ روزگار ہستیاں موجود ہیں۔ کرک نامہ کے ابوشامل، آئی ٹی نامہ کے ظہیر چوہان، موبائل پر اردو بلاگ کا آغاز کرنے والا نوجوان، میرا خیال یہ نوجوان ایک اور بلال ہے، جو شاید کراچی سے ہیں۔ پھر ہمارے پاس ادب پر لکھنے والی شخصیات میں محمد وارث، آہنگِ ادب والے احباب، خرم بشیر بھٹی  جیسی شخصیات موجود ہیں۔  فرحان دانش اپنا بلاگ بھی لکھتے ہیں اور سُوکر نامہ بھی شاید انہی کی ادارت میں چلتا ہے۔ اسی طرح محمد اظہار الحق جو روزنامہ دنیا کے کالم نگار بھی ہیں، اور بلاگ پر بھی مضامین شائع کرتے رہتے ہیں۔ غرض ہمارے پاس ایک لمبی فہرست ہے جس میں موضوعاتی بلاگنگ کی کچھ بہت کامیاب مثالیں بھی موجود ہیں جیسے کرک نامہ، شوگر پر شائع ہونے والا ایک بلاگ، اور منظرنامہ جو ایک بہت اچھی کوشش تھا لیکن زیادہ عرصہ چل نہ سکا۔ طنزو مزاح کے حوالے سے بلو بلا، ڈفر اور جعفر جس کی ہر تحریر کی کاٹ ہی الگ ہوتی ہے۔ پھر بہت سی خواتین بلاگرز موجود ہیں، اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے، عنیقہ ناز جیسی ہستی بھی ہمارے درمیان موجود تھی۔ کچھ احباب بھارت سے بھی بلاگنگ کرتے ہیں حیدرآبادی، شعیب صاحب وغیرہ۔ غرض لمبی فہرست ہے اور جن کا تذکرہ میں نہیں کر سکا ان سے معذرت، یہ میری کوتاہی  اور وقت کی کمی کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا۔
عزیزانِ گرامی حال میں ہمارے پاس نہ اردو لکھنے میں کوئی مسئلہ کہ پاک اردو انسٹالر دستیاب ہے، نہ تھیم کی دستیابی کوئی بہت بڑی وجہ کہ بہت سے تھیم اردو میں پہلے سے تبدیل شدہ موجود ہیں، اور نہ اچھا فونٹ نہ ملنے کا عذر کہ ہمارے پاس نستعلیق کی کم از کم تین اقسام موجود ہیں۔ اور تاج نستعلیق جیسے ہیرے بھی جلد ہی دستیاب ہوں گے۔ آج ہم 2004 یا اس سے قبل کے مقابلے میں بہت آگے آ چکے ہیں۔ ہمارے پاس وہ سہولیات ہیں جن کا صرف ایک وقت میں خواب دیکھا جا سکتا تھا۔ مثلاً ویب پر رینڈرنگ کے قابل ایک نستعلیق فونٹ، یہاں وضاحت کرنا چلوں کہ نستعلیق فونٹ ڈسپلے ہونے میں زیادہ پروسیسنگ مانگتا ہے، یا پھر ان پیج کی طرح ترسیمہ جاتی فونٹ ہو جیسا کہ جمیل نستعلیق اور فیض لاہوری نستعلیق جیسے فونٹ موجود ہیں۔
تو صاحب ہمارے پاس آج بڑے پیارے پیارے لوگ موجود ہیں، بڑی نابغہ روزگار ہستیاں ہیں۔ آج اردو بلاگنگ اپنے پنگھوڑا دور سے باہر آ چکی ہے۔ لیکن آج بھی ہمیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ میں بہت زیادہ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ بس سرسری تذکرہ کرکے اس گفتگو کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پہلا مسئلہ تو مستقل مزاجی کا ہے۔ منظر نامہ کی مثال دی گئی، قدیر احمد رانا اور عمران حمید جیسے بلاگر، جو کچھ عرصے بعد بلاگنگ کو خیرباد کہہ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بنیاد رکھی تھی، لیکن  پھر ہمارا اور ان کا ساتھ چھوٹ گیا۔ مستقل مزاجی سے جڑی ایک چیز ہے پیشہ ورانہ پن، جو اردو بلاگنگ میں ابھی موجود نہیں۔ صرف کرک نامہ جیسی جہادی قسم کی مثالیں موجود ہیں، تاہم ابوشامل جیسی ڈٹرمینیشن  ہر کسی کے پاس نہیں ۔ مستقل مزاجی اور پیشہ ورانہ پن اس وقت آتا ہے جب کسی کام کے ساتھ روزی روٹی لگ جائے۔ اور اردو بلاگنگ میں ابھی یہ بہت دور کی کوڑی لگتی ہے۔ شاید کئی سال اور، چونکہ اردو بلاگز کو اشتہار نہیں ملتے، جو آج کل کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اس لیے بلاگرز اتنے فعال نہیں رہتے یا پھر ویسے ہی غمِ روزگار پر بلاگنگ کو قربان کر دیتے ہیں۔
کمیونٹی کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں فعال نظر آنے کے لیے ایسے اکٹھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ اردو بلاگ فورم معرضِ وجود میں آیا اور دعا ہے کہ یہ کانفرنس ایک لمبے سلسلے کا پہلا قدم ہو، اور ہر برس بلکہ ہر چند ماہ بعد ہر بڑے شہر میں ایسے اکٹھ ہوں۔ جہاں ہم مل بیٹھ کر نہ صرف پیشہ ورانہ مسائل پر گفتگو کریں، بلکہ ایک دوسرے سے سیکھیں بھی اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے اپنی ذمہ داری کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کریں۔
ایک اور اہم  چیز روایتی میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے رابطے کا فقدان ہے۔ اگرچہ بی بی سی اردو، جنگ، ڈان اردو وغیرہ وغیرہ پر اردو بلاگ نظر آنے لگے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ بطور کمیونٹی ہمارا تعلق ابھی دوری والا ہے۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی کوشش نہیں کی کہ اپنی کوئی تحریر کسی بڑے ادارے مثلاً ڈان اردو کو ہی بھیج دوں کہ وہ اپنے بلاگنگ سیکشن میں شائع کر دیں۔ ہمیں رابطے بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم، یعنی عام عوام میں سے کچھ لوگوں کی بات زیادہ بڑے پیمانے پر سنائی دے تو ایسے رابطے بڑھانے ہوں گے۔
کاپی رائٹ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہمیں نہ صرف دوسروں کے کاپی رائٹس کا خیال رکھنا ہو گا، بلکہ اپنی تحاریر کی چوری پر بھی چپ رہنے کی بجائے مناسب حکمتِ عملی کے ذریعے اس کا سدِباب کرنا ہو گا۔ کرک نامہ کی کچھ تحاریر کچھ ماہ قبل ایک کرکٹ میگزین نے بلا اجازت اور اپنے نام سے چھاپ دیں، لیکن ہمارے پاس  کاروائی کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا، چناچہ ایک دو پوسٹس، اور فیس بک پر دو چار شئیرنگ کے بعد چپ ہو کر بیٹھ گئے۔
آخر میں گروپ بلاگنگ اور موضوعاتی بلاگنگ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ گروپ بلاگنگ جس کی ایک اچھی مثال منظرنامہ تھا، ایک اچھا قدم ہو سکتی ہے۔ ایک ایسا بلاگ جہاں پر اردو بلاگرز کی بہترین تحاریر کو جگہ ملے۔ یا حالاتِ حاضرہ پر کوئی ایسا بلاگ  بھی بن سکتا ہے۔ اور موضوعاتی بلاگنگ، کرک نامہ کی ٹیم کو سلام ہے کہ مفتو مفت کام کیے جا رہے ہیں۔ آئی ٹی نامہ، سوکر نامہ، پاک موبائل وغیرہ کچھ چراغ روشن تو ہیں لیکن انہیں چراغاں میں بدلنا ہو گا۔ اور اس کے لیے جہاں ذاتی کوشش چاہیے، وہاں اجتماعی کوشش بھی چاہیے۔ بطور کمیونٹی اگر ہم فعال ہوئے تو میڈیا اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو احساس ہو گا کہ  یہ لوگ بھی ریڈرشپ رکھتے ہیں۔ اور شاید اس طرح  ٹیلنٹڈ بلاگرز کے لیے مالی مشکلات کا بھی کچھ مداوا ہو سکے۔
بلاگرانِ عالی قدر، آپ کی سمع خراشی  کی ،ا تنا سارا وقت لیا۔ اس زحمت کو برداشت کرنے کا شکریہ۔ اردو بلاگ فورم کا پھر سے شکریہ جنہوں نے  یہ اکٹھ ممکن بنایا،  دعا ہے کہ اللہ کریم اس میں ہمارے لیے بہتری  پیدا فرما دے۔
وما علینا الالبلاغ