جمعہ، 27 مئی، 2011

بابا مکی

محمد علی مکی آج کل بابا بنا بیٹھا ہے۔ اگرچہ یہ میرا انداز نہیں ہے کہ میں براہ راست کسی کے بارے میں اپنے بلاگ پر لکھوں، ایسے مباحث کو عمومًا نظر انداز کردیا کرتا ہوں۔ لیکن مکی کا انداز آج کل نرالا ہی ہے۔ مکی ایک ایسا بابا بن بیٹھا ہے جسے سب کچھ پتا ہوتا ہے اور اب لوگوں کی پریشانیاں دیکھ کر مسکراتا ہے۔ مکی کا انداز اس سو سالہ بوڑھے جیسا ہے جس کے سامنے موجود دس دس سال کے بچے دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ بابا ہر دس منٹ کے بعد ایک پھُلجھڑی چھوڑ کر چپ ہوجاتا ہے، اور بچے اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، بابے کی دھوتی کھینچتے ہیں، لیکن بابا آگے سے مُسکرا دیتا ہے۔ پھر جب ایک پھُلجھڑی ختم ہوجاتی ہے تو بابا پٹاری میں سے کچھ اور نکال کر چلا دیتا ہے، تاکہ بچوں کی توجہ اور طرف نہ لگ سکے۔
مکی بھی آج کل یہی کچھ کررہا ہے۔ اب رب جانے یہ امیوزمنٹ کا ذریعہ ہے۔ یا قوم کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش فرمائی جارہی ہے۔ میں تو دس بھی نہیں، پانچ سال کا بچہ ہوں، جو ان سارے شعبدوں کو ڈر کر دیکھتا ہے اور اپنی ماں کی جھولی میں گھُس جاتا ہے۔ بابا بڑا ڈاہڈا ہے سائیں، پتا نہیں انار، پھلجھڑی کی جگہ کوئی بم ہی چلادے۔

پیر، 16 مئی، 2011

توند فُل نَیس

ہمارے استاد محترم جٹ ہیں۔ لیکن بذلہ سنجی میں فرمایا کرتے ہیں کہ جٹ ایک ذات کا نام نہیں، بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے  جو کسی بھی بندے پر کسی بھی وقت طاری ہوسکتی ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے جٹ اے تے مت نئیں، مت اے تے جٹ نئیں، جٹ برادری کے عقل کے بارے میں خاصے لطیفے مشہور ہیں۔ خیر جٹوں کو بدنام کرنا ہمارا مقصد نہیں یہ تو دیباچہ تھا۔ ذکر ایک کیفیت کا کرنا تھا جو جاٹ پن کی طرح روحانی نہیں بلکہ جسمانی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کا نام ہم نے توند فُل نیس رکھا ہے۔ صاحبو توند فُل نیس ایسی جسمانی کیفیت کا نام ہے جس میں انسانوں خصوصًا مردوں کا پیٹ اپنی اصلی جگہ سے ناجائز تجاوزات کی طرح باہر کو نکل آتا ہے۔ دوکانوں کے پھٹے اور کاؤنٹر تو آپریشن کلین اپ کرکے اندر کروا کر فٹ پاتھ کی جگہ خالی کروائی جاسکتی ہے لیکن پیٹ کو اندر کروانا ایسا ہی ہے جیسے پاکستان کے کسی زرداری، گیلانی، چوہدری، شریف یا مخدوم کو اندر کروانا۔ اللہ زندگی دے، ہمارے استاد محترم کو ہر ڈیڑھ سال کے بعد پیٹ کے خلاف آپریشن کلین اپ کا بخار چڑھتا ہے چناچہ کبھی وہ خوراک (اپنی خوراک) پر پابندی لگا دیتے ہیں، صبح اٹھ کر جاگنگ شروع کردیتے ہیں اور اٹھتے بیٹھنے کہنا شروع کردیتے ہیں کہ میری پرانی پتلونیں اب مجھے پوری آنی شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے پہل تو ہم ان کی باتوں کی سنجیدگی سے لیتے تھے، اب محرم راز ہوگئے ہیں اس لیے مسکرا دیتے ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے، جس طرح جمہوریت پانچ سال پورے کیے بنا جانی والی نہیں، اسی طرح اب پیٹ ساری عمر اندر جانے والا نہیں۔ جب کھانے چرغے، مرغے اور روسٹ بروسٹ ہیں، اور سارا دن کرسی پر بیٹھنا ہے توند نے بڑے تو ہونا ہے۔ بچے ایسی چیزیں کھاتے ہیں تو اوپر کو بڑھتے ہیں۔ بڑے ایسی چیزیں کھاتے ہیں تو جسم کے عید درمیان سے نئی شاخ نکل کر اوپر کا سفر شروع کردیتی ہے۔
آپ کو یہ بات واہیات لگے گی لیکن بعض لوگوں کی توند دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ موصوف میں نئی زندگی پرورش پارہی ہے۔ توند کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ اس کے سائز کے اعتبار سے آپ اسے ابتدائی، ثانوی اور انتہائی اقسام میں بانٹ سکتے ہیں۔ ابتدائی توند، یہ کوئی پچیس سے تیس کے درمیان لوگوں کی ہوتی ہے۔ ایسی توند بالکل ابتدائی مراحل میں ہوتی ہے، اور اسے دیکھنے کے لیے موصوف کا گرمیوں میں پینٹ شرٹ یا دھوتی بنیان میں ملبوس ہونا ضروری ہے ورنہ عام نظریں اس کو سکین نہیں کرسکتیں۔ ایسی نئی نئی توند نئی نئی جاب کا نشان بھی ہوتی ہے۔ راقم کا مشاہدہ ہے کہ نوجوانوں کے ایسی توند کے بارے میں جذبات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے پہلی بار ماں بننے والی خواتین کے اپنی متوقع اولاد کے لیے ہوتے ہیں۔ چناچہ احباب بے خیالی توند کو پیار کرنے لگتے ہیں۔ یونہی کھڑے کھڑے اس پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیتے ہیں، اور کبھی تو ہلکے ہلکے تھپکیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ اور تو اور سوتے میں ڈر کر اٹھ جائیں تو پہلا ہاتھ توند پر رکھ کر اس کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں۔ ثانوی درجے کی توند ایک ایسی توند ہے جسے پانچ سے دس سال ہوچکے ہیں۔ ایسی توند پرانے کلرکوں اور افسروں سے لے کر کاروباری حضرات تک کی ہوتی ہے۔ اس توند کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ موصوف سے گلے ملتے ہوئے اکثر اس کی توند راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ چانچہ آپ کو ذرا پرے رہ کر گلے ملنا پڑتا ہے۔  اکثر لوگ اس سٹیج پر آکر "نوند کانشئیس" ہوجاتے ہیں۔ چناچہ اسے کم کرنے کی تدابیر شروع ہوجاتی ہیں۔ لیکن ان تدابیر کا حال وہی ہوتا ہے جو جمہوری دور کی پالیسوں کا پاکستان جیسے ملک کی حالت سنوارنے کے سلسلے میں ہوتا ہے، یعنی حالات بننے کی بجائے بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ صاحبو توند انتہائی، توند کی وہ قسم ہے جہاں توند پر آزمائے جانے والے تمام ڈاکٹری اور پیری فقیری نسخے ناکام ہوجاتے ہیں۔ اور توند پاکستان میں موجود کرپشن کی طرح بےلگام ہوجاتی ہے۔ ایسی توند کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عید شبرات پر بھی ملنے والے ایک فٹ پرے رہ کر ملتے ہیں۔ ایسے افراد سے ملتے ہوئے اصطلاح "گلے ملنا" نہیں "توند ملنا" ہونی چاہیے۔ اور اگر دونوں ملنے والے توند یافتہ ہوں تو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے۔ دور سے دیکھنے والے کو ایسا لگتا ہے جیسے دونوں حضرات گلے مل نہیں رہے توندیں لڑا رہے ہیں، جیسے بکرے ڈھُڈ لڑایا کرتے ہیں۔ ایسے احباب کو اپنی اپنی توند سائیڈ پر کرکے گلے ملنا پڑتا ہے جو دیکھنے والے کا ہاسا نکال دیتا ہے۔ صاحبو توند انتہائی پچاس اور چالیس کے پیٹے میں موجود لوگوں کی ہوتی ہے۔ اور اس میں شامل اکثر افراد کھاتے پیتے ہوتے ہیں، اتنے کھاتے پیتے کہ اب ان کی توند بھی کھانا شروع کردیتی ہے۔ ایسے افراد کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ، اور ان کی توند، کھانے کے لیے جیتے ہیں۔
صاحبو توند کے کئی فائدے ہیں۔ آپ کو پیر بھائی، اسلامی بھائی صرف پاکستان میں ملیں گے، باہر کم کم ملیں گے لیکن توند بھائی دنیا کی ہر رنگ و نسل میں مل جائیں گے۔ اگر تمام انسانوں کا مشترک نکالا جائے تو توند ان میں پہلے نمبر پر آئے گی۔ توند کا ایک اور فائدہ اضافی چربی کا ذخیرہ ہے جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے، یعنی توند فُل لوگ کچھ کچھ اونٹ جیسی خاصیت پیدا کرلیتے ہیں۔ توند کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت توند مار کر گرایا بھی جاسکتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے بکرا ڈھُڈ مار کر فریق مخالف کو ضربِ شدید پہنچا سکتا ہے۔ چناچہ اگر آپ عقلمند ہیں تو توند آپ کا خفیہ ہتھیار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
راقم ان بدقسمت لوگوں میں شامل ہے جن کی توند ابھی تک پیدا نہیں ہوسکی اور اگلے دس سالوں میں بھی ا سکی نمو کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ چناچہ توند فُل احباب اس تحریر کو دل کا ساڑ اور غبار کہہ کر رد بھی کرسکتے ہیں۔ تاہم توند جو بھی ہے، جیسی بھی ہے، ہمارے معاشرے کا ایک اہم رکن ہے۔ ہمیں توند کی عزت کرنی چاہیے اور اس کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے بقول عزیزی توند بھی آخر انسان ہے۔ توند کی نمو و ترقی کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے۔ توند کی ترقی کے لیے آل پاکستان توند فیڈریشن بھی بنائی جانی چاہیے اور ہر سال مسٹر توند کا مقابلہ بھی منعقد ہونا چاہیے جس کا پہلا انعام ایک سال تک ایک کلو بھنا ہوا گوشت روزانہ ہو۔ توندفُل حضرات کے بیرون ملک سرکاری خرچے پر دورے ہونے چاہئیں تاکہ مختلف ممالک کی توندوں میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لایا جاسکے۔
آپ کا کیا خیال ہے بیچ اس مسئلے کے؟

ہفتہ، 14 مئی، 2011

ایک سال

آج مجھے اس سکول میں کام کرتے ایک سال تو نہیں ہوا تاہم تعلیمی سال ختم ہوگیا۔ آج سے کوئی دس ماہ پہلے، اگست 2010 میں جب میں اس ادارے میں داخل ہوا تھا تو میں وہ نہیں تھا جو آج ہوں۔ میرے پاس ابھی میری ڈگری بھی نہیں تھی، بس ایک زعم تھا کہ میں اپنی کلاس کا اول نمبر ہوں، اور مجھ پر فرض کردیا گیا ہے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے۔
ہم یہاں پانچ چھ لوگ آئے تھے، انٹرن شپ کرنے کے نام پر۔ سکول والوں کو ٹیچر چاہیے تھے، اور ہمیں جاب، ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی ان کی ایک میڈم سے واقفیت تھی چانچہ ہم یہاں انٹرنی بھرتی ہوگئے۔ ہماری خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ مبلغ نو ہزار روپے مہینہ پر ٹرینی یا انٹرنی، اور مدت آزمائش پوری ہوجانے پر تنخواہ بڑھ جانے کی نوید بھی۔ اور سب سے بڑی بات کام یعنی پڑھانا سیکھنے کی خوشی۔ یہ ادارہ پورے فیصل آباد کے نجی سکولوں میں نئے اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے بہت مشہور ہے، چونکہ ان کا پیشہ ورانہ ماحول ہی ایسا ہے کہ ہر کوئی آپ کی مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔
خیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھا۔ اور بہت سارے راز بھی کھلے۔ وہ جو سہانے سپنے سجے ہوئے تھے سب ٹوٹ گئے۔ یہ کہ میں ایک اچھا استاد بن سکتا ہوں۔ اب پتا چلا کہ اتنی جلدی بھی نہیں بن سکتا، دو چار سال میں شاید بن جاؤں۔ یہ سپنا کہ کلاس میں اول آنے کے بعد سب قطار میں کھڑے ہوکر نوکری کی آفر دیں گے، اس سکول کے علاوہ کسی بھی جگہ سے آج تک دوبارہ کال نہیں آئی۔ یعنی ابھی انتظار کرنا ہوگا، شاید دو چار سال اور۔ یہ کہ تنخواہ نو ہزار ہی رہے گی، چاہے جتنا مرضی زور لگا لو۔ نجی شعبے کے سکولوں میں تنخواہ اتنی جلدی نہیں بڑھتی، چناچہ ٹیوشن پڑھاؤ اور اپنی تنخواہ کی کمی ادھر سے پوری کرو۔ جو کہ ہم پڑھا رہے ہیں، جتنی تنخوا ہے اس سے زیادہ روپے 2 گھنٹے کی ٹیوشن سے ملتے ہیں۔
اس نظام میں آکر پتا چلا کہ امیروں کا نظام تعلیم کیا ہے پاکستان میں۔ پہلے صرف سنتے تھے کہ ملک میں کئی طبقاتی نظام تعلیم ہے، کیمبرج سسٹم وغیرہ وغیرہ۔ یہاں آکر پتا چلا کہ کیمبرج سسٹم کیا ہے۔ فیصل آباد کے ان سکولوں کی اوسط فیس چار سے چھ ہزار میں ہے۔ بیکن ہاؤس کی دس ہزار ہے، جو فیصل آباد میں سب سے زیادہ لے رہے ہیں۔ سنا ہے لاہور وغیرہ میں تیس پینتیس اور پچاس ہزار مہینہ تک بھی فیس ہوتی ہے۔ خیر فیس کے بعد یہاں کے اساتذہ ہیں۔ پرانے ہیں تو بیس پچیس ہزاراور بعض اوقات پچاس ہزار یا زیادہ بھی، نئے ہیں تو دس بارہ پندرہ ہزار، اور ساتھ دو چار ٹیوشن، ہوم ٹیوشن جو پانچ ہزار سے پندرہ بیس ہزار تک مل جاتی ہے۔ پرانا ٹیچر تیس سے چالیس ہزار کما لیتا ہے صبح آٹھ سے رات آٹھ کے دوران، یعنی سکول جمع ٹیوشن مل ملا کر۔ سکولوں میں پڑھائی رٹا نہیں سمجھ کی بنیاد پر کروائی جاتی ہے۔ پرچوں سے پہلے پرچوں والے سوالات کے بار بار ٹیسٹ لیے جاتے ہیں تاکہ بچہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائے۔ او لیول اور اے لیول کے امتحان قریب آنے پر بچوں کو پرانے پرچوں سے ہی تیاری کروائی جاتی ہے۔ انھیں اتنی پریکٹس کروا دی جاتی ہے کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں۔ مزید کسر ہوم ٹیوٹر پوری کردیتے ہیں محنت کروا کر۔ استاد موٹرسائیکل پر آتے ہیں اور طلباء ہنڈا سٹی، اکارڈ، پجارو پر۔ یہی حال پھر اساتذہ کی عزت کا بھی ہوتا ہے۔ بیکن ہاؤس جیسے سکول میں تو سنا ہے بہت بدتمیزی کی جاتی ہے استاد کے ساتھ، ہمارے سکول میں کچھ سکون ہے۔ لیکن استاد اور ایک سیلز مین کوئی فرق ہیں، دونوں کا کام مال فروخت کرنا ہے، مہیا کرنا ہے اور بس۔ وہ لوگ فیس بھرتے ہیں کہ انھیں پڑھایا جائے چناچہ استاد کوئی احسان نہیں کررہا۔ واقعی استاد کوئی احسان نہیں کررہا ہوتا، اگر کررہا ہوتا ہے تو اپنے اوپر کہ یہاں سے اسے اچھی ہوم ٹیوشن مل جائیں گی جو اس کی رزی روٹی چلاتی رہیں گی۔
ان بچوں کی انگریزی اچھی ہے، اردو کمزور ہے۔ انگریزی میں پڑھتے ہیں، انگریزی میں لکھتے ہیں اور انگریزی الفاظ بولتے ہیں۔ کئی دفعہ تلفظ میں سر کی بھی غلطی نکال دیتے ہیں، اور ہنس دیتے ہیں۔ جسے سر مسکرا کر پی جاتا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہے۔ سر تو کیمبرج سسٹم میں نہیں پڑھ ہوا، اس نے تو گورنمنٹ کھوتی ہائی سکول سے ٹاٹوں پر بیٹھ کر میٹرک کیا تھا۔ قسمت تھی کہ روزی روٹی کی کشش انگریزی پڑھانے کی طرف لے آئی، ورنہ وہ اور اس کی اوقات۔ اردو انھیں صرف بولنی آتی ہے، لکھنے کا کہہ دو تو جان جاتی ہے۔ اردو بورنگ ہے، اردو کے الفاظ بول دو تو سمجھ نہیں سکتے، انگریزی میں ترجمہ کرکے سمجھانا پڑتا ہے۔ ماں باپ پنجابی بولتے تھے کبھی، اب اردو بولتے ہیں اپنے بچوں کے ساتھ، چناچہ بچوں کی مادری زبان اردو ہے، اور پنجابی کو وہ ایک حقارت بھری نظر سے دیکھتے ہیں۔ کچھ ابھی بھی پنجابی بولتے ہیں، لیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے، یا ایک دوسرے کو ہنسانے کے لیے۔
بچے تو بچے ہیں جی، خواہ امیروں کے ہی ہیں۔ خواہ باپ ڈاکٹر ہے، مل مالک ہے یا گروپ آف انڈسٹریز کا ڈائریکٹر۔ بچے اردو بولیں یا انگریزی، لیکن پاکستانی بچے ہیں۔ ابھی یسو پنجو پاکستانی ہی کھیلتے ہیں، ریڈی گو بھی کھیلتے ہیں، اور برف پانی بھی۔ ہاں ہاکی، ٹینس اور تیراکی غریبوں کے بس کی بات نہیں، وہ اضافی سہولت ہے ان کے پاس۔ سر جی نے خود اپنی ذاتی آنکھوں سے اصلی والا سوئمنگ پول اس سکول میں دیکھا، اس سے پہلے فلموں ڈراموں میں ہی دیکھا تھا۔
نجی شعبے کے ان سکولوں میں ترقی کرنی ہے تو آپ کو ڈرامے باز ہونا پڑے گا۔ کلاس میں داخل ہوتے ساتھ ہی ڈراما شروع کردیں۔ روایتی استادی ختم ہوجاتی ہے کہ آئے بلیک بورڈ بھرا اور چلے گئے۔ بچوں سے کرواؤ۔ بلکہ کرواؤ نہیں ساتھ ڈرامے بھی کرواؤ۔ میتھ پڑھاتے ہو، نفع نقصان کا باب چل رہا ہے، بچوں سے کہو تفریح کے وقت میں خرید و فروخت کا سٹال لگا کر چیزیں بیچیں، پھر پیسے کما کر نفع نقصان نکالیں۔ انگریزی پڑھاتے ہو، تو جینوئن کمیونیکیشن تخلیق کرواؤ، خط لکھواؤ، انٹرنیٹ پر ای میل کرواؤ۔ بچوں کو پریزنٹیشن کا موقع دو، خود سائیڈ پر رہ کر بس گائیڈ لائن دو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انگریزی بولو، خوب انگریزی۔ اگر خاتون ہو تو ترقی کے چانسز اتنے ہی بڑھتے جائیں گے جتنی شلوار اونچی ہوتی جائے گی اور قمیض گلے سے نیچی۔ جتنے ماڈرن اور فیشن ایبل اتنے کامیاب، جتنے کہانی باز اتنے کامیاب، اگر طالب علم راضی تو کیا کرے گا قاضی یعنی سکول کا مالک۔
خیر یہ کچھ تاثرات تھے، اس تعلیمی سال کے اختتام پر۔ دیکھیں اگلا سال کیا لاتا ہے۔ اس برس ایم فِل بھی کرنا ہے شام کی کلاسوں میں، نوکری بھی کرنی ہے۔ اللہ رحمت رکھے، زندگی ذرا اوکھی ہوجائے گی۔ لیکن ساری عمر نجی سکولوں میں نہیں گزارنا چاہتا، اس لیے آگے پڑھنا بہت ضروری ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

بدھ، 11 مئی، 2011

سوالات

کہانیاں پڑھنے کا شوق مجھے اس وقت سے ہے جب پچاس پیسے میں الاسد پبلی کیشنز کی ننھی کہانیاں بازار سے مل جایا کرتی تھیں۔ فکشن ہمیشہ سے پسندیدہ ادبی صنف رہی ہے۔ اور جب سائنس فکشن ہوجائے تو پھر سونے پر سہاگا ہوجاتا ہے۔ آج کل سٹار ٹریک نیکسٹ جنریشن سلسلے کی ٹی وی سیریز دیکھ رہا ہوں۔ یار لوگوں نے چھوڑی ہے اور بہت دور کی چھوڑی ہے۔
محمدعلی مکی کی یہ پوسٹ دیکھی تو دل کیا میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ تاثرات کیا سوالات ہیں جو یہ سیریز دیکھنے کے بعد سامنے آتے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ کہ انسان اگر روشنی کی رفتار سے دس گنا زیادہ پر بھی سفر کرکے اپنی کہکشاں کا بیس فیصد بھی کور نہیں کرسکتا تو کائنات کے بارے میں کیسے جان سکے گا۔ اس سیریز میں خلائی جہاز اسی رفتار سے سفر کرکے نئے نئے سیاروں پر جاتے ہیں، لیکن اس بات کا اظہار بھی موجود ہے کہ اب بھی انسان فاصلوں کا قیدی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہزاروں میل بہت زیادہ ہوتے تھے، ہزاروں نوری سال بہت زیادہ ہیں۔
میرے ذہن میں وہ وقت آجاتا ہے جب انسان خلاء کا کچھ حصہ ہی سہی مسخر کرلے گا۔ پھر مذہب اور خدا کی حیثیت کیا ہوگی۔ کیا  کسی اور سیارے پر جاکر اسلام پر عمل کیا جاسکے گا؟ جیسا آج زمین پر ہم کرسکتے ہیں۔ اجتہاد کا آپشن بالکل موجود ہے، لیکن میرے ذہن سے یہ سوال نہیں جاتا کہ اگر اللہ سائیں پوری کائنات کے لیے ایک ہے تو نبی مکرم ﷺ بھی ایک ہی ہیں؟ اور کیا یہ زمین کو ہی اعزاز بخشا گیا ہے کہ آخری نبی مبعوث ہو؟ کتنے گنجلک سوال ہیں کہ جن پر غور کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ اہل تصوف و فلسفہ ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں یا ان کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ہمارا تو ایمان ہی ناقص ہے۔
رہی بات ابن رُشد کے فلسفے کی تو اس وقت کے محدود علم کے مطابق اس نے اپنے خیالات کو قرآن سے مطابقت پذیر کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ لیکن پہلا اعتراض یہ ہے کہ قرآن سائنس کو کھول کر بیان نہیں کرتا۔ قرآن کے بہت سے بیانات ایسے ہیں کہ انھیں زمین کی تخلیق پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے اور کائنات کی تخلیق پر بھی۔ تخت پانی پر تھا، آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی صرف دھواں تھا۔ یہ تو سیارہ زمین کی حالت بھی ہوسکتی ہے جو شروع میں پگھلی ہوئی چٹانوں کا آمیزہ تھی، اور جس کا کرہ ہوائی تھا ہی نہیں۔ کائنات جتنی وسیع و عریض ہے، اس کو چلانے کے لیے کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے جو اس کی حدود سے ماوراء ہو۔ جس پر وقت اور خلا کا اثر نہ ہو۔ اور وہ ہر جگہ موجود ہستی رب کریم کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ جو اس سے پہلے بھی موجود تھی اور بعد میں بھی رہے گی۔ شاید ہم جسے قیامت کہتے ہیں وہ ہر کائنات میں ہر لمحہ برپا ہوتی رہتی ہے، کسی نہ کسی زمین پر، شاید۔ ہمارا علم کائنات کے بارے میں بہت محدود ہے۔ چہ جائیکہ ہم خدا کی حیثیت کا تعین کریں۔ ہمیں تو یہ نہیں پتا کہ جہاں یہ کائنات ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد کیا ہے؟ کیا لامتناہی خلاء ہے یا کسی کمرے کی دیواروں کی طرح سرحدیں ہیں۔ کہ جہاں وقت اور خلا کا تصور ہی مٹ جاتا ہے۔
کائنات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ہمیں نظر آتی ہے۔ زمان و مکان کی جن جہتوں سے ہم واقف ہیں ان کے علاوہ بھی جہتیں موجود ہیں۔ اگر محمد الرسول اللہ ﷺ لمحوں میں عرش بریں کا سفر کرکے واپس آسکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کائنات کی بہت سی باتیں ہم سے پوشیدہ ہیں، اور زمان و مکان کے فاصلے ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے جن پر ذات باری کا لطف و کرم ہوتا ہے۔ خدا کلیات سے بھی واقف ہے اور جزئیات سے بھی، اگر وہ ایک انسان ﷺ کو وقت کے پنجے سے نکال کر اپنے پاس بلا سکتا ہے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے، اور ہر جگہ موجود بھی ہوسکتا ہے۔ خدا کی صفات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اسے ہر چیز کا علم ہو، اور وہ ہر چیز پر قادر ہو، اس بات پر بھی کہ وہ کائنات کو پیدا اور فنا کرسکے۔ ورنہ اس کے خدا ہونے کے مقام میں شک ہے۔ چناچہ میرا یقین یہ ہے کہ خدا اس کائنات سے پہلے بھی تھا، اس کے ساتھ بھی ہے، اور اس کے بعد بھی رہے گا۔ اگر کبھی یہ کائنات فنا کردی گئی تو۔

پیر، 2 مئی، 2011

کچھ باتیں

ہر عید کے عید ہمارے مولوی صابر سرہندی صاحب یہ مثال دیا کرتے ہیں کہ نماز تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ٹھاٹھ کے نمازی جو سارا سال نماز پڑھتے ہیں، آٹھ کے نمازی جو جمعے کے جمعے نماز پڑتے ہیں اور تین سو ساٹھ کے نمازی جو سال میں عید کے عید نماز پڑھتے ہیں۔ بلاگنگ کے سلسلے میں ہمارا حال بھی تین سو ساٹھ والوں جیسا ہے۔ مہینے کے مہینے ہم ایک آدھ پوسٹ لکھ مارتے ہیں، اور کہنے کو پرانے بلاگرز میں شمار ہوتا ہے ہمارا۔ لو دسو، خیر انگلی کٹا کر ہی سہی، شہیدوں میں توشامل ہوجاتے ہیں۔
آج کئی دنوں کی "برین سٹارمنگ" کے بعد کچھ لکھنے کا من بنا۔ اصل میں لکھنے کا من تھا، لکھنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ اب بلاگ پر 10 لفظی سٹیٹس اپڈیٹ تو دے نہیں سکتے جو آج کل ہم فیس بک پر روزانہ دیا کرتے ہیں۔ خیر چھوٹی چھوٹی کئی ساری باتیں جمع ہوگئی تھیں سوچا لکھ ڈالیں۔
ایک تو یہ کہ ہمارے لیپ ٹاپ کےساتھ یو ایس بی سے منسلک ہونے والے آلات اتنے ہوگئے ہیں کہ ہمارے ٹیبل پر یو ایس بی کا کھلارا پڑ گیا ہے۔ ملاحظۃ کریں
  1. ایکسٹرنل ٹی وی ٹیونر کارڈ
  2. یو ایس بی ماؤس
  3. یو ایس بی سپیکر، کہ لیپ ٹاپ کا ایک سپیکر خراب ہے مزہ نہیں آتا اس سے
  4. یو ایس بی وائرلیس کارڈ، کہ اس کا اپنا وائرلیس کبھی کبھی کنکٹ نہیں کرتا گھر والے وائرلیس راؤٹر سے
  5. سکینر
  6. پرنٹر
آپ شاید یہ کہیں کہ میاں اس لیپ ٹاپ کو پیار سے اٹھا کر باہر لے جاؤ زور سے نیچے پھینک کر توڑ ڈالو، لیکن کیا کریں صاحب لیپ ٹاپ ٹھیک چلتا ہے، اگلے دو سال اسی پر گزارنے کی پلاننگ ہے اس لیے ہم لیے پھرتے ہیں اسے ہیں۔
اور کیا تھا؟ ہاں اور یہ تھا کہ ہالی ووڈ کی موویاں اور ٹی وی سریز دیکھ دیکھ کر ہماری انگریزی سننے کی صلاحیت بہتر ہوگئی ہے۔ معیاری امریکی انگریزی باآسانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ لیکن فلموں میں کالوں کی انگریزی اب بھی سر پر سے گزر جاتی ہے، ان کا نچلے طبقے والا لہجہ ہوتا ہے جو معیاری امریکی انگریزی لہجے سے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن لندن والوں کی انگریزی ابھی کم پلے پڑتی ہے، چونکہ فلمیں شلمیں ساری ہالی ووڈ کی ہی دیکھنی ہوتی ہیں۔ احباب جو انگریزی بہتر کرنا چاہیں انگریزی فلمیں ضرور دیکھیں۔
اور؟ اور یہ کہ ہم مزدوروں والی تنخواہ پر ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہے ہیں، انگریزی۔ دعا کی درخواست ہے کہ اللہ اس سے بہتر سلسلہ بنا دے۔ اللہ کی یہاں بھی بڑی رحمت ہے، پر بندہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے، ہمیں بھی یہی تلاش ہے۔  اس سال ہمارا ارادہ یا تو ایم فِل کرنے کا ہے، یا لسانیات میں باہر کوئی سکالرشپ ہوئی تو وہاں بھی اپلائی کریں گے۔ پچھلے سال تو ہماری ڈگری ہی تھیسز کی وجہ سے لیٹ ہوگئی تھی۔