جمعرات، 27 اکتوبر، 2011

ماں بولی کا نوحہ

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
کبھی یہ محاورہ/کہاوت/ مصرع سنا تھا۔ زبان ثقافت، زبان کلچر، زبان زندگی جینے کا ڈھنگ، زبان  نسلوں کی وراثت کی امین۔ زبان نہ رہے تو  نسلوں کی نسلیں بدل جاتی ہیں۔ اور یہی ہو رہا ہے۔ پنجاب میں، خیبر پختونخواہ میں، سندھ میں، بلوچستان میں یہی  ہور ہا ہے۔ مجھے دوسرے صوبوں کے شہری علاقوں کا نہیں پتا۔ لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ میرے صوبے پنجاب کے، سوہنے پنجاب کے شہری علاقوں لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات ، شیخوپورہ، ملتان سے میری ماں بولی مر رہی ہے۔ پنجاب سے پنجابی مر رہی  ہے۔ اور اسے مارنے والے پنجابی ہیں۔ آٹھ کروڑ پنجابی، جو مل کر اپنی ماں بولی کو قبر میں اتار رہے ہیں۔  اردو کے نام پر، قومی زبان کے نام پر، یکجہتی کے نام پر، اور انگریزی سے نفرت کے نام پر وہ پنجابی کا قتل کر رہے ہیں۔ اور  حیرت ہے، صد حیرت ہے کسی کو اپنے ہاتھوں پر لہو نظر نہیں آتا۔ انہیں اردو کی بےحرمتی یاد  رہتی ہے، پنجابی  کی اکھڑتی سانسیں نظر نہیں آتیں۔ حیرت ہے، صد حیرت ہے۔

یہ تحریر پڑھنے والے جان لیں کہ یہ کسی تعصب میں نہیں لکھی جا رہی، نہ ہی کسی کے جواب میں لکھی جار ہی ہے۔ یہ تحریر کسی عام بندے کے ہاتھوں نہیں لسانیات کے ایک طالبعلم کے ہاتھوں لکھی جا رہی ہے۔ چناچہ اسے سستی جذباتیت سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا۔ یہاں حقائق کی بات کی جائے گی،جذباتیت اوپر والے پیرا گراف میں ختم ہو گئی۔ آگے حقائق کی دنیا ہے۔ یہ تحریر اس لیے لکھی جارہی ہے کہ کل کو تاریخ گلا نہ کرنے کا کسی پنجابی نے اپنی زبان کے مرنے کا نوحہ نہیں پڑھا تھا۔ یہ تحریر اس لیے لکھی جا رہی ہے کہ لوگوں کو یاد رہے کہ پنجابی اپنی زبان کے قاتل تھے، انہوں نے اپنی ماں بولی کی قبر خود تیار کی اور خود قتل کر کے قبر میں بڑے اہتمام سے دفنا کر اوپر اردو میں لکھا ایک کتبہ لگا دیا۔

سائیں سب اردو کی بات کرتے ہیں۔ سب انگریزی کے ہاتھوں اردو کی بے حرمتی کی بات کرتے ہیں۔ پنجابی کی بات کیوں نہیں کرتا کوئی؟ پنجابیوں نے قیام پاکستان سے پہلے سے لے کر پنجابی کے ساتھ سوتیلوں کا سا سلوک روا رکھا۔ اس وقت بھی جب کسی نے پنجابی کو پنجاب کی  زبان کا درجہ دینے کی یا بات ہوئی، یا نصاب میں شامل کرنے کی بات ہوئی یا  ایسی  کوئی بھی بات ہوئی جہاں پنجابی کو رسمی طور پر حکومت نظم و نسق میں استعمال کرنے کو کہا جاتا۔ وہیں اردو بولنے والی پنجابی اردو کی حفاظت کے لیے آگے آ جاتے، پنجابی پیچھے چلی جاتی۔ اور آج یہ حال ہے کہ پنجابی کو کسی دفتر میں رائج کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔  دفتری زبان تو انگریزی ہے یا پھر اردو۔  مجھے بالکل یا دہے کہ یہ ہندوؤں کی اور سکھوں کی "سازش" تھی کہ پنجاب میں اردو کی بجائے پنجابی کو فروغ دیا جائے۔ "تاریخ" جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں یہی بتاتی ہے۔ لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔ آج دنیا میں پنجابی کا نام لیں تو ذہن میں کون آتا ہے؟ شاکر، امجد، ارشد، ماجھا، گاما؟ نہیں بلبیر سنگھ، دلیر سنگھ جیسے نام اور سکھوں کے داڑھیوں والے چہرے پگڑیوں والے سر ذہن میں آتے ہیں۔  پنجابی بولے تو سکھوں کی زبان ہے۔ پنجابی بولے تو کافروں کی زبان ہے، مسلمانوں کی زبان اردو ہے۔  یہی ہو رہا ہے نا سائیں۔ سکھوں نے ہر جگہ پنجابی کو فروغ دیا، پنجابی ثقافت کو فروغ دیا، بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں پنجابی کی لسانیات پر کام ہو رہا ہے۔ پنجابی کو ڈیجٹلائز کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ اس پر ڈاکٹریٹ ہو رہی ہے۔ اسے دفتری زبان بنانے کے سارے لوازمات ان کے پاس موجود ہیں۔ لغات ہیں جو قانون سے لے کر میڈیکل تک کی اصطلاحات کو کور کرتی ہیں۔  یہ سب کچھ ہے جو میں نے پچھلے چارسال میں بطور مترجم کام کرتے ہوئے اور بطور لسانیات کے طالبعلم پنجابی کے بارے میں جانا، کہ سکھ کیا کر رہے ہیں اپنی زبان کے لیے۔ چناچہ آج حال یہ ہے کہ پنجابی کا رسم الخط گورمکھی بن گیا ہے۔ میں ترجمہ کروں تو 99 فیصد جابز گورمکھی رسم الخط کی ہوتی ہیں، میں اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہوں۔ پنجابی کے سارے کمپیوٹر معیارات گورمکھی کی بنیاد پر بنے ہیں۔  اور شاہ مکھی؟ کچھ عرصہ پہلے گوگل پلس پر ایک صاحب سے بحث ہو گئی ۔ انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ پنجابی کا کوئی رسم الخط بھی ہے۔ ان کے خیال میں یہ اردو میں لکھی جاتی ہے۔ حالانکہ اردو کے پوتڑے پنجابی نے صاف کیے ہیں۔ اردو کو رسم الخط اور کسی زبان ہیں پنجابی نے دیا ہے۔ یہ جسے فارسی  رسم الخط کہتے ہیں اس میں صدیوں پہلے مسلمان صوفیا نے  پنجابی شاعری کی۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ پنجابی کا  رسم الخط گورمکھی ہے۔

 حیرت ہے نا جی؟ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے سائیں یہ۔ شاید اور کسی کے لیے نہ ہو۔ پاکستانی پنجابی تو اردو کے مامے ہیں جی۔ ان کے تو گھروں سے بھی پنجابی کو دیس نکالا مل چکا ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں پنجابی چوڑوں، چماروں، میراثیوں اور بھنگیوں کی زبان بن  گئی ہے۔ پنجابی نوکروں کی زبان ہے۔ پنجابی غیر تہذیب یافتہ زبان ہے۔ پنجابی ماں بہن ایک کرنے کی زبان ہے۔ پنجابی جگت بازی کی زبان ہے۔ پنجابی غصے میں آ کر "بہتر" ذریعہ اظہار کی زبان ہے۔ پنجابی اوئے توئے، تُو کی زبان ہے۔ "پڑھے لکھے" گھر کے بچے سے پنجابی میں بات کر لو تو وہ گالی سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ وہ زبان ہے جو دادا دادی بولتے ہیں یا ابا جی نوکروں سے بولتے ہیں۔ ورنہ ممی تو سوفیسٹیکیٹڈ ہیں، اردو میں بات کرتی ہیں۔ یہ پنجابیوں کے خیالات ہیں سائیں پنجابی کے بارے میں۔ زبان کی وکالت کہاں گئی سائیں؟  حق گوئی کہاں گئی؟ یہاں زبان نہیں مر رہی؟ یہاں زبان کا قتل عام نہیں ہو رہا؟ یہاں نئی نسل پر ماں بولی کا دروازہ بند نہیں کیا جار ہا جب اسے "تہذیب یافتہ" زبان کے نام پر اردو سکھائی جاتی ہے، جب اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ پنجابی نچلے طبقے کی زبان ہے جس  کی کوئی تہذیب نہیں ہے۔ یہ ذلیلوں اور کمیوں چوڑوں کی زبان ہے۔  تو حق پرستی کیا ہوئی سائیں؟  تو  زبان بچانے کے نعرے کہاں گئے سائیں؟ پر کہیں بھی تو کس سے کہیں۔ جن سے کہیں وہی اپنے ہیں،انہیں کے ہاتھ میں خنجر ہے۔  کوئی یہ لازمی کہے گا کہ پنجابی کیسے دفتری زبان، اسکول یا سرکار کی زبان بن سکتی ہے۔ تو میرا جواب ہے کہ مجھ سے نہیں سکھوں سے پوچھو۔ انہوں نے تو بنا لی۔ پر ہمارے لیے تو اردو ہے نا سائیں، قومی یکجہتی کی زبان۔  پنجابی جائے بھاڑ میں۔

اردو کے بارے میں  بڑی خود ترسی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے، اردو مر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو بولنے والے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ میں پھر کسی اور صوبے کی بات نہیں کر رہا، میں پنجاب کی بات کررہا ہوں۔ یہاں کے شہری علاقوں، نیم شہری بلکہ اب تو دیہاتی علاقوں میں بھی ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ اردو بولنے والا ہے۔ ماں باپ دن بدن اردو سکھانے پر زیادہ سے زیادہ زور دے رہے ہیں۔ اردو پنجاب میں مادری زبان بن رہی ہے۔ مادری زبان مطلب جس میں بچے کے ساتھ بات کی جائے۔ اردوبولنے کا موقع محل تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ پہلے اردو دفاتر کی زبان تھی، اسکول کالج اور میڈیا کی زبان تھی۔ اب گھروں میں بھی بولی جا رہی ہے۔ اگلے پانچ دس سال میں بازاروں میں بھی بولی جانے لگے گی۔ بلکہ اب بھی بولی جانا شروع ہو گئی ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ، ادھر ادھر دیکھیں اپنے بیٹے، بیٹی، بھانجے، بھتیجے کو بولتا دیکھیں اور مجھے بتائیں کہ اردو مر رہی ہے؟


ایک اور بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اردو کے ذخیرہ الفاظ کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے انگریزی کے ہاتھوں۔  یہی کچھ پنجابی کے ساتھ ہو رہا ہے سائیں۔ آج کے پنجابی بولنے والے کے پاس پنجابی کا ذخیرہ الفاظ اردو کے تلفظ بدلے الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ اصلی پنجابی الفاظ کہیں گم ہو گئے ہیں، بھول گئے ہیں چونکہ اردو کا اثر میڈیا، اخبارات اور سماجی رتبے کی وجہ سے اتنا زیادہ ہے کہ پنجابی  میں بھی اردو کے الفاظ استعمال کرنا "اچھا" سمجھا جاتا ہے۔ میری والدہ پنجابی بولتے ہوئے پچھلے کچھ سالوں سے اردو الفاظ کاتڑکا لگانے لگی ہیں، دور کہا جانا۔ چلیں پنجابی کی چھوڑیں سائیں اردو کی بات کرتے ہیں، ذخیرہ الفاظ کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں ٹیکنالوجی کے الفاظ کا ذخیرہ سب سے زیادہ آرہا ہے۔ اس کے علاوہ  دوسرے الفاظ بھی ہیں، لیکن ذخیرہ الفاظ میں نئے لفظ در آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ زندہ زبانیں ہمیشہ تبدیل ہوتی ہیں۔ اردو کو کوئی خطرہ نہیں۔ تو پنجابی کو بھی خطرہ نہیں؟ اوپر والے پیرا گراف کو ایک بار پھر پڑھ لیں۔ پنجابی کو اردو اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ کی تکلیف ہی نہیں ہے۔ تکلیف رویوں کی ہے جو بڑی تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں۔ چناچہ اردو  کے بارے میں خودترسی  کہ اس کا حلیہ بگڑ رہا ہے کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔ اردو اچھی بھلی ہے، ہٹی کٹی ہے اور اللہ کے فضل سے مقامی زبانوں  کو لقمہ لقمہ کھا رہی ہے، ڈکار لیے بغیر۔

تعلیم کی بات کرنے والے، مادری زبان میں تعلیم کی بات کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مادری زبان اردو نہیں ہے۔ پنجابی ہے، سندھی ہے، بلوچی ہے ، ہندکو  ہے، سرائیکی ہے، پشتو ہے۔ اردو تو رابطے کی زبان ہے نا سائیں۔  تو تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ پانچویں تک تو سارے مضامین ماں بولی میں ہونے چاہئیں۔ انصاف کی بات نہیں یہ بھلا؟ ہمارے ساتھ سب سےبڑا المیہ یہی رہا  کہ قائد اعظم کے ایک بیان کو لے کر ہم نے اردو کو  مقدس گائے بنا  دیا۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہو گی۔ ارے بھائی ہو گی تو کب انکار کیا ہے، دوسری زبانوں  کا گلا تو نہ گھونٹو۔ بنگالی اپنی زبان کا حق مانگتے مانگتے الگ ہوگئے۔ بنگلہ دیش بننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی نا سائیں۔ یا 51 یا 52 عیسوی میں بنگالی کے حق میں ہونے والے فسادات بھول گئے سب کو؟ ہم سے تو اچھا بھارت ہے۔ ان کے نوٹ پر 22 زبانوں میں  اس کی رقم پرنٹ ہوتی ہے۔ 22 سرکاری زبانیں۔ پاکستان میں؟ انگریزی ہے نا جی، اردو ہے نا جی۔ مقامی زبانوں کا کام ہی کیا  رسمی مواقع پر، وہ تو بولیاں ہیں بس۔ پنجابی کی طرح ہنسی ٹھٹھے اور گالم گلوچ کا ذریعہ اظہار۔ وہ بھلا سرکاری زبان، یا تعلیم کی زبان یا رسمی زبان کیسے بن سکتی ہیں۔

انگریزی کے خلاف اور اردو کے  حق میں (یہاں پنجابی کہیں نہیں ہے ) بولنے والے بڑے لمبےچوڑے دلائل دیتے ہیں کہ اردو ہی ذریعہ تعلیم ہو۔ اردو ہی سب کو سکھائی جائے ۔ انگریزی صرف چند لوگ سیکھیں جنہوں نے باہر جانا ہے، یا جو مترجم ہیں تاکہ باقیوں کو سیاپا نہ کرنا پڑے نئی زبان سیکھنے کا۔ جاپان اور چین کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ مجھے ایک بات بتائیں  جاپان اور چین سے پاکستان کا موازنہ ہے؟ وہاں باہر سے لوگ آ کر رہتے ہیں، کام کرتے ہیں اور یہاں کے لوگ باہر جا کر کام کرتے ہیں۔ کتنے لاکھ پاکستانی باہر ہیں ملک سے؟ مزدور پاکستانیوں کی بات کر رہا ہوں مستقل باہر منتقل ہونے والوں کی نہیں۔ انہیں رابطے کے لیے جس زبان کی ضرورت پڑتی ہے بدقسمتی سے اکثر وہ انگریزی ہوتی ہے۔ اور جاپان، چین کی اپنی زبان میں ذریعہ تعلیم وغیرہم کی خیالی جنت سے بھی نکال دوں۔ جتنا جاپان اور چین، اور اب یورپ بھی انگریزی سیکھنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں  آپ تصور بھی نہیں فرما سکتے۔  چین والے انھے وا  انگریزی سیکھ رہے ہیں چونکہ انہیں اپنا کاروبار پھیلانا ہے، جاپان میں انگریزی کے اہل زبان امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا سے آکر رہائش رکھتے ہیں۔ انگریزی سکھانے کا کوئی ڈپلومہ لے کر آتے ہیں اور مقامی بچوں بڑوں کو انگریزی کی تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اور اچھا کماتے ہیں، اپنے ملک سے بھی زیادہ۔  حقیقت اتنی بھی سیدھی نہیں ہے بھائی۔ آدھا کالا اور آدھا سفید نہیں ہے۔ درمیان میں  اتنا بڑا سارا حصہ گرے، سرخ، سبز،نیلا، پیلا بھی ہے۔ اردو کی خود ترسی میں دو جمع دو چار تو کر لیتے ہیں، حقیقت  دو جمع دو چار نہیں ساڑھے پانچ ہے۔

اور کیا نوحہ پڑھوں سائیں۔  میں اس بدنصیب زبان کا بولنے والا ہوں جس کے بولنے والے اسے لکھنا پسند نہیں کرتے۔لکھتے ہیں تو پڑھنا پسند نہیں کرتے، یا انہیں پڑھنا آتا ہی نہیں ہے۔ یہ  میرے بلاگ کی پچھلی تحریر پنجابی کی تھی۔ دو تبصرے ہوئے اس پر۔ اور یہاں درجن بھر لوگوں کے نام گنوا سکتا ہوں جو پنجاب سے ہیں اور پنجابی سمجھتے، بولتے ہیں۔ پنجابی چینلوں کا نوحہ بھی سنتے جائیں۔نام پنجابی ٹی وی ہے اور مشہوریاں اردو والی، فنکار سوفسٹیکیٹڈ زبان بولتے ہیں اردو  کی "بلینڈنگ" والی تاکہ پنجابی کا برا اثر نہ پڑے۔ ایک پروگرام میں ریمبو اور صاحبہ میزبانی کر رہے تھے (دونوں لاہور سے ہیں)۔ ریمبو پنجابی بول رہا تھا اور صاحبہ اردو، سوفسٹیکیٹڈ زبان جی۔ آخر زبان تو پھر اردو ہی ہے،پنجابی وہی مصلیوں،چوڑوں، چماروں کی زبان چاہے بولنے والے کو پیسے  ہی کیوں نہ ملیں۔ پنجابی بولنے والے  تسلی رکھیں اگلے بیس سالوں میں آپ کی اگلی نسل ساری اردو بولنے والی ہوگی۔  آپ پنجابی جانتے ہونگے ، آپ کے بچے اردو جانتے ہوں گے۔ آپ نے گلی محلے سے سیکھ لی پنجابی بولنی، آپ کے بچوں کو وہ سہولت بھی دستیاب نہیں ہوگی۔ چونکہ ساری آبادی اپنے بچوں کو اردو سکھا رہی ہو گی۔ پرانی نسل گزر جائے گی اور مجموعی طور پر اردو بولنے کا ٹرینڈ پروان چڑھے گا۔ پنجابی بولنے کے مواقع محدود ہو تے جائیں گے۔ اور پھرا یک دن آئے گا جب آخری پنجابی بولنے والا بھی مر جائے گا۔ اور پھر قومی یکجہتی پتھر پر لکیر ہو جائے گی۔  قومی یکجہتی کے نام، قومی زبان کے نام، پنجابیوں کی بے حسی کے نام، لسانیاتی اصلاحات نہ کرنے والے بزدلوں کے نام،  اس ملک کے عاقبت نا اندیش پالیسی سازوں اور جذبات پسند وڈوں کے نام، ایک مرتی زبان کے نام، ہیر رانجھے جیسی داستانیں لکھنے والے پنجابی صوفیوں کے نام ایک پنجابی بزدل کا عریضہ۔ جو اپنی زبان کا نوحہ بھی اپنی زبان میں نہیں پڑھ سکتا کہ اس کے اہل زبان پڑھنے کی زحمت نہیں کریں گے۔

جمعہ، 21 اکتوبر، 2011

عاشق تے کتا

کہندے نیں یار دی گلی دا کتا وی مجنوں نوں یار وانگوں پیارا سی۔ لوگ اونہوں کملا تے سودائی کہندے سن پر مجنوں یار دی گلے دے کتے نوں وی اونج ای چم کے گل نال لاندا سی۔ عاشق تے کتے وچ بوہت گلاں اکوں جہیاں نیں۔ عاشق نوں کتے وانگوں وفادار ہونا پیندا۔ یار دے قدماں وچ لوٹنیاں لانیاں پیندیاں۔ یار دی بری بھلی سننی پیندی تے چپ رہنا پیندا۔ یار جوٹھے منہ بلاوے تے جی آکھاں کہہ کے فٹ حاضر ہوناں پیندا،۔ پانویں یار اگوں عاشق دی کتیاں والی کرے۔ پر عشق کیتا تے فیر بندہ کی تے کتا کی۔ جے بندہ رہنا ہندا سی تے عشق کردا؟ یار نوں بے نیازی سجدی اے تے عاشق نوں فرمانبرداری۔ جداں کتا ہر ویلے مالک دے اگے پچھے پوچھ ہلاندا، پیر چٹدا پھردا اے، اینج ای عاشق وی ہر ویلے تیار رہندا۔ پانویں اگوں اوہنوں وکھیاں وچ لت کھانی پے جاوے۔ پر عاشق دے کن نکی نکی جئی گل تے کھڑے ہو جاندے نیں۔ پانویں او یار دا ذکر ہووے، یار دے گھر دا ذکر ہووے یا یار دے شہر دا۔ عشق کسے جوگا نئیں چھڈدا۔ یار دا شہر مکہ لگدا۔ تے یار دی گلی حرم لگدی۔ عاشق دا حج یار دی گلی دا طواف کرکے پورا ہو جاندا۔ پانویں اگوں اونہوں روڑے کھانے پین، یار دیاں بے رُخیاں سہنیاں پین یا لوکاں دیا گلاں سننیاں پین۔ عاشق نوں ایدے نال کوئی غرض نئیں ہندی، جداں کتے نوں عادت پے جاندی اے کہ کسے نہ کسے نے ایویں روڑا مار ای دیناں۔ ایسے طراح عاشق نوں وی عادت ہوندی اے کہ اوہنوں کچھ نہ کچھ ہویا ای رہناں، اوہنے کسے نہ کسے دے ہتھے چڑھیا ای رہنا۔
جگ ایویں ہی عاشقاں نوں سودائی تے کملا نئیں کہندا۔ جداں ہیروئن دے نشئی نوں نشے دی عادت ہو جاندی اے، اوہدا ای عاشق نوں عشق دی عادت ہو جاندی اے۔ فیر روڑے کھانا، لتاں ٹھڈے کھانا تے ون سونّیاں سننا نشہ لگن لگ پیندا اے۔ تے جیس دن نہ سنیاں جان اوس دن تن اینج ٹُٹدا اے جیویں چار دن توں چرس دا سُوٹا نئیں لایا۔ عاشق نوں ذلالت نال پیار ہو جاندا۔ جداں گلی دے کتے نو روڑے کھا کھا روڑیاں دی عادت ہو جاندی۔ عاشق جد تک یار کولوں چار کھریاں کھریاں سن نہ لیوے، عاشق او مخلوق ہے کہ جُتیاں نہ پین تے بُخار چڑھ جاندا، یار دا دیدار نہ ہووے تے دن دا چانن مُک جاندا، یار دی گلی نوں ہتھ نا لا لیوے تے نماز نئیں ادا ہُندی۔
عاشق کنی کُتی مخلوق اے سائیں، تے فیر لوکیں عشق دی دعا کردے۔ چوری چوری عشق کردے، اُتوں ہوش والے تے اندروں جوش والے بنن دی کوشش کردے۔ عاشقی ہوش والیاں دا کم کتھوں اے سائیں۔ جیہڑے کہندے کہ عشق کیتا تے ہوش وچ رہ کے کیتا، اونہاں نے یاں تے عشق کیتا ای نہ یا فیر او عشق دی معراج نوں نہ پا سکے۔ عاشق ہو کے کُتیاں کولوں نفرت کھان والے بھلا کی عشق جانن؟ عاشق تے کتے ای تے وفا کردے نیں، ہور کون اے بھلا جیہڑا وفا دا مطلب جانے؟

پیر، 17 اکتوبر، 2011

شکر اور رزق

چند برس پرانی بات ہے، ایک دن مجھے یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا نام تو میرا شاکر ہے پر کام میرے ناشکروں والے ہیں۔ میں بات بات پر گلہ کرتا ہوں، شکوہ کرتا ہوں لیکن جو میرے پاس ہے اس پر شکر نہیں کرتا۔ پھر میرا دل کیا کہ میں شکر کیا کروں اور اصل میں شاکر ہو جاؤں۔ اور آہستہ آہستہ میں نے کوشش شروع کر دی کہ شکر کیا جائے۔ شکر کرنا بڑا اوکھا کام ہے۔ شکر ایسے نہیں کیا جا سکتا کہ آپ بھیتر شکوہ رکھیں اور منہ سے شکر کا کلمہ پڑھتے رہیں۔ بھلا پالنہار سے کیا پردہ، اسے تو سب پتا ہے، اندر باہر کی خبر ہے۔ ایسا شکر تو طوطے کے "میاں مٹھو چوری کھاؤ گے" جیسا نعرہ ہی ہوتا ہے جس کے مطلب کا طوطے کو خود پتا نہیں ہوتا۔ تو میں نے شکر کرنا شروع کر دیا۔ طوطے کی طرح۔ اٹھتے بیٹھتے رٹنا شروع کر دیا "یا اللہ  تیرا شکر ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے"۔ لیکن صاحبو عرصہ دراز تک اندر ہی اندر ساڑا رہتا۔ اوپر اوپر سے شکر اندر سے شکوہ، لو دسو ابھی کوئی نوکری نہیں ملی، گھر سے حالات اتنے تنگ ہو گئے ہیں پیسے مل جاتے تو کیا تھا، میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے، وہ فلاں کہاں کا کہاں پہنچ گیا اور میری پڑھائی ہی ختم نہیں ہوتی، پتا نہیں میرے گھر پر اتنی تنگی کیوں آ گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک عرصے تک یہ شغل جاری رہا۔ خیر جاری تو اب بھی ہے، اب بھی اندر سے حسد کا پھن نکل آتا ہے دیکھو فلاں کو نوکری مل گئی، فلاں وہاں پہنچ گیا، فلاں یہ کرنے لگا اور شاکر، شاکر بس شکر کرتا رہ گیا اور گھر بیٹھا رہ گیا۔ شاکر میں کمی ہے، کسی کام کا نہیں، یا پھر اللہ سے براہ راست شکوہ کہ مولا اب سختی ختم کر دے، اب نہیں رہا جاتا۔

ان برسوں میں مَیں نے اندازہ لگایا کہ شکر زبانی نعروں کا نام نہیں۔ یہ بھیتر سے، دل سے، جسم کے ہر سوتے سے پھوٹنے والے تشکر کا نام ہے۔ اگر شکر کرتے ہوئے احساس ہو کہ زبان سے نیچے سارا بدن بے حس ہے تو سمجھ لیں کہ شکر بندہ نہیں طوطا کر رہا ہے جسے شکر کے مطلب کا اور اس کے معانی کا احساس ہی نہیں۔ وہ بس "میاں مٹھو چوری کھاؤ گے" کی گردان کی طرح گردان کیے جا رہا ہے۔ شکر اس وقت کریں جب کچھ ایسا ملے جو آپ کے لیے قیمتی ہو، شکر اس وقت کریں جب رزق سامنے ہو، گوشت ہو پلاؤ ہو مرغا ہو، ٹھنڈا پانی ہو، میٹھے میں کوئی مہنگی ڈش سامنے پڑی ہو تب شکر ہو، جب پیسے ہاتھ آئیں رزق ہاتھ میں آئے تب شکر ہو، جب پروموشن ہو، جاب ملے، جب غم یا مصیبت ٹل جائے تب شکر ہو۔ اور شکر ایسا ہو کہ آنکھوں میں آنسو آجائیں۔ جسم کے ہر سوتے سے صدا آئے یا اللہ تیرا شکر ہے، مالک میں گنہگار، میری طاقت سے باہر ہے جو تو نے عطا کیا، یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے رزق دیا، ترقی دی، خوشحالی دی، صحت دی۔ اگر ایسا موقع نہ ملے تو بھی شکر کیا جائے۔ دل کی گہرائی سے ، کوشش کر کے، پورا زور لگا کر، ان نعمتوں کو یاد کیا جائے تو اللہ کریم نے عطا کی ہیں۔ نعمتوں کا ذکر کیا تو کس کس کا ذکر ہو یہ کم ہے کہ سانس آ جا رہی ہے، کھڑے ہیں، چل سکتے ہیں، صحت ہے یہی بہت ہے شکر کرنے کے لیے۔ تو شکر ایسے کیا جائے کہ بس زمین پر پلکیں بچھانے کی کسر رہ جائے۔ اگر ایک جائے نماز، دو نفل نماز شکرانہ اور تنہائی نصیب ہو جائے اور خوش نصیبی سے آنسوؤں کی جھڑی بھی عطا ہو جائے تو شکر کا سواد ہی الگ ہوتا ہے۔ دل بھر آتا ہے، آنکھیں چھما چھم برستی ہیں، اپنی ہستی حقیر لگنے لگتی ہے، رب عظیم کی ذات پر اتنا پیار آتا ہے۔ اللہ سائیں مجھے اتنا دیا، مجھے اتنا دے دیا، مجھے جو گندی نالی کا کیڑا، جس کی دو ٹکے کی اوقات نہیں، جس کا ہر بال تیری رحمت کا امیدوار، جس کا ہر سانس تیرے کرم کا محتاج اللہ سائیں اسے اتنا دے دیا۔ مولا تیرا شکر کیسے کروں، مولا میں تو شکر بھی نہیں کر سکتا ، مولا میں تو اس بات کا شکر نہیں کر سکتا کہ تو نے شکر کی توفیق دی۔ مولا میں تو تیری نعمتوں کا شمار بھی نہیں کر سکتا، میں بھلا کیسے شکر کر سکتا ہوں۔ سبحان اللہ، اگر یہ کیفیت نصیب ہو جائے تو کیا کہنے۔ ایسی کیفیت کہ جیسے بارش کے بعد موسم خوشگوار ہو جائے، بارش بھی رحمت والی بارش زحمت والی نہیں، شکر کی بارش، عطا کی بارش اس چیز سے دل کو جو شادمانی ملتی ہے اس کا سواد بس محسوس کرنے کی بات ہے۔

شروع شروع میں کوشش کرنی پڑتی ہے۔ طوطے کی طرح رٹنا پڑتا ہے۔ میری عادت تھی کہ سائیکل پر یونیورسٹی جاتے ہوئے میں باآواز بلند اپنے آپ سے باتیں کرتا، پھر اللہ سائیں سے شکوے شکایت کی عادت ہو گئی، اور پھر شکر کرنے کی عادت ہو گئی۔ سائیکل چل رہا ہوتا ساتھ شکر کا چرخہ چل پڑتا، چرخہ کیا طوطے کی رٹ ہی تھی۔ پھر سائیکل چھوڑ دیا اللہ سائیں نے موٹرسائیکل دے دیا الحمد اللہ اور اس پر بھی کبھی کبھار یہی معمول جاری رہا، اور اب بھی رہتا ہے کبھی کبھار۔ آہستہ آہستہ اتنی توفیق ہو گئی کہ رزق کھاتے ہوئے، کوئی نعمت مل جائے تو، آمدن ہاتھ میں آئے تو، یا اپنے حالات کا احساس ہو تو شکر کرنے کو دل کرتا ہے۔ دل گداز ہونے کی کوشش کرتا ہے، نصیب میں ہو تو دو چار آنسو ٹپک پڑتے ہیں، لیکن بڑا سرور ملتا ہے، دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ لیکن حسد اور شکوے کا پھن اب بھی سر اٹھا لیتا ہے۔ نہیں جاتا، اندر سے شکوہ نہیں جاتا۔ یوں لگتا ہے جیسے میں یہیں پھنسا ہوا ہوں اور ساتھ والے آگے بڑھتے جا رہے ہیں، یہ احساس نہیں ہوتا کہ ابھی کیا کچھ ہے جو میرے پاس ہے اور دوسروں کے پاس نہیں۔ چار پانچ دن پہلے ایک یونیورسٹی میں انٹرویو دیا، متعلقہ بندے کو میرا انگریزی تلفظ پسند نہ آیا۔ اتنی ڈپریشن ہوئی، اتنا دل بیٹھا کہ کیا بتاؤں اور جب ایک ہم جماعت جو وہیں انٹرویو کے لیے گئی تھی اس سے پتا چلا کہ اس کو اگلے مرحلے کے لیے بلا لیا ہے تو اندر سے حسد کا پھن باہر آیا۔ بڑی مشکل سے خود کو لعن طعن کی، کہ شرم کر، تمہارے پاس کیا نہیں ہے، اور جو نہیں مل سکا اس میں تمہاری غلطی ہی تو ہے سراسر اپنے آپ کو بہتر کر لیتے پتا تھا یہ کمزوری ہے لیکن محنت نہ کی تو بھگتو اب۔ بڑی مشکل سے دل کو سمجھا بجھا کر اب ہفتے بھر کے بعد کچھ رام کیا ہے، اب بھی اندر سے شکوے کا پھن سر نکال لیتا ہے۔ لیکن رٹو طوطے کی طرح ورد نہیں ٹوٹتا، یا اللہ تیرا شکر ہے۔ شاید وہ وقت بھی جلد آئے جب خالص شکر کی توفیق ہو۔ ابھی تو منافق شکر ہے، آدھا شکر آدھا شکوہ۔
چلتے چلتے ایک بات، شکر کے سلسلے میں یہ معمول بھی رہا کہ جب رزق ملے، آمدن ہاتھ میں آئے تو اتنا صدقہ کیا جائے کہ ہاتھ سے نکلتے ہوئے احساس ہو۔ ہزاروں میں کمایا تو ہزاروں میں نکالا تاکہ شکر کا احساس ہو، اپنی کم مائیگی کا احساس ہو، یہ احساس ہو کہ یہ قرضے کی واپسی لگی ہوئی ہے، نہیں دو گے تو نہیں ملے گا۔ اس سے یہ ہوا کہ رزق کہیں نہ کہیں سے، کچھ نہ کچھ لگا آتا ہے۔ کچھ نہ کچھ ملتا جاتا ہے، الحمد للہ، ملتا جاتا ہے اور دینے کی توفیق ہوتی جاتی ہے۔ اور شکر کا احساس بھی تازہ رہتا ہے کہ یہ نعمت ہے، تمہاری کوئی صلاحیت یا چیز اس میں ملوث نہیں یہ سراسر اوپر والے کی رحمت ہے، ان گنت رحمتوں کی طرح جو ہر وقت تم پر سایہ فگن ہیں، یہ رزق بھی رحمت ہے۔ اس لیے شکر کرو۔
الحمد للہ، ثم الحمد للہ، ثم ثم الحمد للہ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے شکر کی توفیق دی ورنہ میری کیا اوقات مولا، میرے پلے پھوٹی کوڑی بھی نہیں سب تیری عطا ہے مالک، سب تیرا کرم ہے اور میں تیرے کرم، تیری رحمت کا محتاج، یا اللہ تیرا شکر ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے۔