اتوار، 18 اگست، 2013

یاداں

یہ یاداں بھی سالی عجیب ہوتی ہیں۔ بےوقت کی راگنی کی طرح بھیرویں شروع کر دیتی ہیں۔ چلتے چلتے اچانک ٹھوکر لگ جانے کی طرح، کہیں سے اچانک کوئی ہاتھ آ کے چٹکی بھرتا ہے اور یاداں گھوڑے کی طرح بدک اٹھتی ہیں۔ پھر لاکھ سنبھالو نہیں سنبھلتیں۔ زنجیری تعامل جو شروع ہوتا ہے تو ایک کے بعد دوسری، تیسری چوتھی ۔۔۔اور پھر یاداں کی ایٹمی چھتری پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ سارا حال ماضی کی دھول میں اٹ جاتا ہے۔ غائب حاضر اور حاضر غائب بن جاتا ہے۔ اَن دِکھی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں، لوگ، چیزیں، موسم، وقت سب کچھ: حقیقت اور غیر حقیقت ایسے ملغوبہ بن جاتے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ جانے والوں کے چہرے تو کبھی بھولتے ہی نہیں، لیکن جب یاداں کا ایٹمی حملہ ہوتا ہے تو گویا جانے والوں کے آسیبی وجود عدم سے وجود میں آ جاتے ہیں۔ ابھی یہاں کچھ نہیں تھا، اور ابھی وہ چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔ ہنستا، کھیلتا، گاتا، جیتا، جاگتا، وجود جو اس عدم اور وجود کے درمیان برزخ میں کبھی نابینا آنکھوں کے لیے بینا ہو جاتا ہے کبھی پھر سے ان دیکھے پردوں کے پیچھے اوجھل ہو جاتا ہے۔

یاداں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔ روتے روتے ہنسا دیتی ہیں اور ہنستے ہنستے رُلا دیتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔۔۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یاداں ماضی ہی کیوں، مستقبل بھی تو یاداں میں آ سکتا ہے۔ یہ شاید ایسا ہی لگے جیسے مچھلیوں کا اڑنا، آگ کا ٹھنڈا کرنا اور بھینسوں کا درخت پر چڑھنا لگے۔ جیسے آگ کا کام جلانا ہے ویسے ہی یاداں کا کام ماضی کو حال میں واپس لانا ہے۔ لیکن یاداں میں آگ کی سی اضافی خاصیت ان کو دو دھاری بنا دیتی ہے۔ کہتے ہیں آگ جلاتی ہے اور شدید ٹھنڈک بھی جلاتی ہے ایسے ہی یاداں بھی کرتی ہیں۔ خوشی بھری ہوں یا دکھ بھری، سر پر سوار ہو جائیں تو آنسوؤں کی بھینٹ لے کر ہی ٹلتی ہیں۔

انسان بھی عجیب مخلوق ہے، حال میں رہتے ہوئے ماضی سے ناطہ توڑنا نہیں چاہتا، اس لیے یاداں کو ایسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے جیسے کوئی محبت کے پہلے تحفے کو سنبھال کر رکھتا ہے۔ ساری عمر یاداں کے پودے کو اپنی ذات پر سینچتا ہے، اپنے اندر پروان چڑھاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یاداں امر بیل ہیں، جیسے جیسے عمر گزرتی ہے یاداں کا درخت تناور ہوتا چلا جاتا ہے اور جان کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب ہستی کے درخت کے ساتھ یاداں رہ جاتی ہیں اور چند سوکھے پتے۔ پھر بلاوا آ جاتا ہے اور یاداں۔۔ ۔پتا نہیں یاداں یہیں رہ جاتی ہیں، مٹی میں مل جانے کے لیے یا آگے پاس آن ہو جاتی ہیں ایک لامتناہی دنیا میں۔۔ ۔جہاں کسی چیز کا کوئی انت نہیں۔ شاید دکھ اور خوشی کا بھی نہیں۔

جمعرات، 8 اگست، 2013

فیس بُکی ارشادات و اقوالات

میرے احباب میں سے اکثر فیس بُک پر پلاٹ یا پلازوں کے مالک ہیں۔ اور میری سڑیل طبعیت کے کرم ہیں کہ پورے محلے میں مجھے لوگ اتنی بار مہینے میں نہیں دیکھتے ہوں گے جتنی بار فیس بک پر روزانہ دیکھتے ہیں۔ چنانچہ اس صورتِ حال کا سادہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں اکثر فیس بُک پر پایا جاتا ہوں، اور دن کے کسی بھی وقت (بشمول رات) کسی بھی وقت بڑی بے شرمی سے پایا جا سکتا ہوں۔ اس پائے جا سکنے کی وجہ سے میں نہ صرف بذاتِ خود وہاں ادھر اُدھر کی ہانکتا رہتا ہوں، بلکہ اپنے جیسے دوسرے (ویلے کہنا زیادتی ہو گی) فیس بُکیوں کے ارشاداتِ گرامی بھی پڑھتا سنتا رہتا ہوں۔

کہتے ہیں جی کہ سانپ کو سانپ مارتا ہے، آرائیں کو آرائیں ہی ٹکرتا ہے اور فیس بُکیے کا دکھ درد ایک فیس بُکیا ہی سمجھ سکتا ہے۔ فیس بُک پر آپ غم غلط کرنے کے لیے بے شمار کام کر سکتے ہیں۔ گیم کھیلنا تو اب پرانا شوق ہو چکا ہے، تصویر بنا کر شئیر کرنا بھی کچھ نیا نہیں رہا، اپنے "میں ڈھڈی والے جا رہا ہوں" قسم کے اسٹیٹس اپڈیٹ بھی اب پرانے ہو چکے ہیں۔ لیکن فیس بک پر نئی چیزوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔ چنانچہ آج کل حبیبانِ فیس بُک  کے ہاتھ آ ئے چھنکنے کا نام ہیش ٹیگ ہے۔ اب ہیش ٹیگ اکیلا ہوتا تو کوئی حیرت والی بات نہیں تھی یہی ہیش ٹیگ ٹوئٹر اور گوگل پلس پر عرصہ دراز سے کھجل ہو رہے ہیں۔ فیس بُک احباب نے (یہاں اردو لکھنے والے فیس بکیے مراد ہیں) ایک نئی جگاڑ لگائی ہے۔ اپنے اقوالِ زرّیں کی تشہیر کے لیے انہوں نے ذاتی ٹیگ تخلیق کیے ہیں۔ مثلاً بلو، ٹِلو، اچھو، نِمو، بھالو وغیرہ ۔ چنانچہ اپنے اقوالِ زریں اور زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کرنے کے بعد نیچے یہ ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو فیس بک پر جا کر ان ناموں سے ہیش ٹیگ سرچ کر کے دیکھ لیں آپ کو زندگی کو سنوارنے والے ایسے ایسے اقوال ملیں گے کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا، آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے لگے گا، اب تک کی زندگی برباد شدہ لگے گی، آئندہ زندگی اس فیس بُک مرشد کے بغیر بے کار لگنے لگے گی، اور آپ حد سے زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں تو غصہ لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، فون وغیرہ وغیرہ قسم کے آلہ رسائی فیس بُک پر بھی نکل سکتا ہے۔

عزیزانِ گرامیِ بلاگ آوازِ دوست! ایک وقت تھا کہ ہم کھُل کر حسد فرما لیا کرتے تھے۔ یہی کوئی بیس برس پہلے۔ جب ہم چھوٹے یعنی، نِکے ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ہمیں اپنا حسد چھپانا پڑا کہ یہی دنیا کی ریت ہے۔ اب تقریباً پکی عمر تک پہنچتے پہنچتے اور پکتے پکتے یہ عادت اتنی پک چکی ہے کہ حسد کیے بغیر اگلا کھانا ہضم نہیں ہوتا (ہم حسد مارکہ پھکی بنانے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔)۔ خیر حسد تو ہوتا ہے لیکن ہم اس کو ویسے نکال نہیں سکتے جیسے چھوٹے ہوتے نکال لیا کرتے تھے۔ اور چونکہ ہماری اکثر و بیشتر کائنات فیس بُک ہی ہے، تو اس پر لوگو ں نے جب نئے طریقے ایجاد کر لیے تو ہمارا بھی دل کیا کہ ہم بھی ایسا کریں۔ اور نہ کر سکنے کی وجہ سے ہم بھی شدید قسم کے حسد کا شکار ہو گئے۔ اس کو نکالنے کے لیے ہم نے سوچا کہ زہر کو زہر سے اور ہیش ٹیگ کو ہیش ٹیگ سے مارا جائے، # حاسد کا ہیش ٹیگ تشکیل دے کر عوام الناس، خواص الناس بلکہ یکے بعد دیگرے ہر ایک کاستیا ناس بلکہ سوا ستیا ناس مارا جائے، دل کی بھڑاس نکالی جائے، ریسٹ روم میں 'ریسٹ' فرماتے ہوئے اترنے والے، بدہضمی اور پیٹ کی خرابی کی صورت میں گیس کے ساتھ دماغ کو چڑھنے والے زریں خیالات کو اقوالِ زریں کی صورت میں عوام الناس کی مت مار نے کے لیے فیس بُک پر رکھا جائے۔

لیکن صاحبو کیا بتائیں آپ کو، کہ جیسے ہم اکثر و بیشتر شاعری کی قبض کا شکار رہتے ہیں، کچھ یہی صورتحال اقوالِ زریں کی صورت میں بھی رہی۔ ہم نے بہتیری کوشش کی، فیس بک پر کئی کئی گھنٹے قیام کیا کہ شاید کچھ غیرت ہی آ جائے، مشہور و معروف احباب کے ہیش ٹیگز پر مشتمل ارشاداتِ گرامی کو بار بار پڑھا کہ شاید کوئی لیڈ مل جائے، کوئی سرا ہاتھ آ جائے۔ لیکن صاحب یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔۔الخ، ہماری قسمت تھی ہی نہیں ہم زور لگا کر رہ گئے اور فیس بُکی احباب اقوالِ زریں کے ڈھیر لگاتے چلے گئے۔ چنانچہ ہمارے پاس آخری حل یہ بچا کہ ایک عدد بلاگ پوسٹ لکھ کر دل کے پھپھولے پھوڑے جائیں، جو ہم نے پھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہاں بھی سواد نہیں آیا۔ پھپھولے کچھ نہ کچھ رہ گئے۔

یہ تو منفی باتیں تھیں، مثبت بات یہ ہے کہ ہم کُلی طور پر اقوالِ زریں سازی کے عمل سے باہر نہیں رہے، کچھ نہ کچھ اس سلسلے میں تشکیل پاتا رہا، وہ الگ بات ہے کہ اسے عوام کے سامنے شئیر کرنے کی بجائے آگ لگا دینا اکثر بہتر معلوم ہوا۔ لیکن چونکہ اب معاملہ دل کی بھڑاس نکالنے کا ہے، اور اظہارِ حسد کا ہے، اور اس پوسٹ کا پیٹ بھرنے کا بھی ہے تو ہم نے ان اقوالِ زریں کو یہاں پیسٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ کو پسند آئیں یا نہ آئیں یہ یہیں پڑے ہیں۔ کر لو جو کرنا ہے۔

پہلا قولِ زریں در اصل ایک پیروڈی ہے جو ماہا ملک کے ناول 'جو چلے تو جاں سے گزر گئے' کا ٹیمپلیٹ لے کر ہم نے 'جو چلے تو گاں سے گزر گئے' بنایا۔ گاں یا اگاں پنجابی میں آگے یا فرنٹ کو کہتے ہیں، اب آپ اس کے اطلاقات پر سیر حاصل غور فرما سکتے ہیں، اور کوئی بعید نہیں کہ ایسے ایسے معانی دریافت کر لیں جو ہم نے خواب میں بھی نہ سوچے ہوں۔

ایسے ہی اگلے دن ہم لائبریری سے ایک ناول لینے گئے چھوٹی کی فرمائش پر تو اس کا نام تھا "زندگی گلزار ہے"۔ ہماری منجی ٹھوک طبیعت نے اس کے حصے بخرے کیے اور اپنی تھرڈ کلاس طبیعت سے مجبور ہو کران ٹکڑوں کو دوبارہ سے جوڑا تو نتیجہ یہ نکلا "زندگی شلوار ہے"۔ یہ ہم وزن تو ہو گیا لیکن ساتھ ہی خاصا بے ہودہ بھی ہو گیا (یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے فیس بک پر نہیں لگایا)۔ چنانچہ اس کی اضافی تشریح کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تو ہم نے کچھ ایسے تشریح کی: "زندگی شلوار ہے۔ جس کا نالا زیادہ کسا جائے تو بھی سانس رک جاتا ہے اور ڈھیلا رہ جائے تو بھی سنبھالنی مشکل ہو جاتی ہے۔۔۔" اس سلسلے میں مزید بکنے کی گنجائش موجود تھی لیکن ہم نے امنِ عامہ اور پی ٹی اے کی پابندیوں سے بچنے کے لیے اتنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔

عزیزانِ گرامی اس سے پہلے کہ ہم مزید اقوالِ زریں بکیں، اور آپ کے ہاتھ اپنے بال (ظاہر ہے ہمارے بال آپ نہیں نوچ سکتے) نوچنے کی جانب بڑھنے لگیں، ہم اس پوسٹ کا یہیں اختتام کرتے ہیں۔ خوش رہیں، مسکراتے رہیں، اور فیس بُکی اقوالِ زریں تخلیق کرتے رہیں۔ کیا خبر کسی دن آپ کی ذاتی کتاب ہی چھپ جائے۔

جمعہ، 2 اگست، 2013

اگست

ابو جی کبھی کبھی بتایا کرتے ہیں کہ تیرے دادے کے پاس بڑی زمین تھی۔ اور تیری دادی بڑی شیر دل عورت تھی۔ دادا جی آخری عمر میں ذہنی توازن کھو بیٹھے ۔ نماز پڑھنے نکلتے تو گھر کا پتا بھول جاتے تھے۔ چارپائی پر دھوپ پڑتی تھی تو نیچے اس کے سائے کو جانوروں کا کترا ہوا چارہ سمجھ کر اکٹھا کرنا شروع کر دیتے۔ آوازیں دینے لگتے کہ وچھے کو ڈالو وہ بھوکا ہے۔

ابو جی بتایا کرتے ہیں کہ دادی ایک بار اکیلی کماد میں ڈنڈا لے کر بیٹھ گئی۔ ایک باہر والا (خنزیر شاید) بہت تنگ کرتا تھا، دادی نے اکیلے ڈانگ کے ساتھ اس کا کریا کرم کر دیا۔
ابو جی سب سے چھوٹے تھے ۔ ابوجی سے پہلے چار پانچ بھائی چھوٹے ہوتے ہی فوت ہو گئے۔ ان کے اور دوسرے تایاؤں کے نام دوبارہ دوبارہ رکھے ہوئے تھے، مرنے والے بچوں کے نام پر۔ سنا ہے ہمارا سب سے بڑا تایا عبدالحق ہجرت کے وقت ہوش سنبھال چکا تھا۔ تایا عبدالحق اب اللہ بخشے اس دنیا سے گزر چکا ہے۔ تایا عبد الحمید بھی بس چارپائی سے لگ گیا ہے۔ تایا عبد الجمیل بھی سنا ہے اس وقت لڑکپن میں تھا، پر ان کا ذہنی توازن بھی اب ٹھیک نہیں رہا، انہیں اب باتیں یاد نہیں رہتیں۔ بس اپنی اولاد کے نام اور چہرے یاد ہیں، اور بھائیوں کے چہرے ۔ بس ۔۔۔۔ایک پھوپھی تھی وہ بھی چھ سات برس پہلے چل بسی۔

بڑے کزن بتاتے ہیں کہ دادے کا نام شیر محمد، پڑدادے کا نام ماموں تھا۔ لکڑ دادے کا نام بھی شاید بتایا وہ یاد نہیں رہا۔ ابو جی کی یادیں اکثر فیصل آباد آنے کے بعد کی ہیں، گٹی اسکول جاتے تھے پیدل، یا بھڑولیاں والا جو ڈجکوٹ، فیصل آباد کے نزدیک ایک پنڈ ہے۔ جہاں ہمارے دادے کو بارڈر پار آنے کے بعد پانچ ایکڑ زمین الاٹ ہوئی تھی، بھارتی پنجاب کی زمین کے بدلے۔ اب پتا نہیں دادے کی کتنی زمین تھی وہاں۔ لیکن یہاں پانچ کِلّے ہی ملی، جس میں سے کوئی دو کِلّے کلر زدہ ہے وہاں پیداوار بہت کم ہوتی ہے۔ ڈجکوٹ اور فیصل آباد سارا نہری علاقہ ہے زمین کا پانی آک جیسا کڑوا۔ پِنڈ وہاں ہے جہاں نہر چھوٹی ہوتے ہوتے راجباہ رہ جاتی ہے۔ وہاں پانی بھی بس ایسے ہی پہنچتا ہے۔ ابا جی کواب آ کر ان پانچ کِلّوں میں سے ایک حصے آئی ہے، تین چار ٹکڑوں میں۔ جہاں ہم پچھلے دو سال سے گندم کاشت کرتے ہیں۔
یہ ساری یادیں اور پھر اگست آ جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا مجھے اگست کا بڑا شوق تھا۔ بیج لے کر لگاتا تھا، جھنڈا لگایا جاتا تھا۔ اللہ بخشے پچھلے سال فوت ہونے والا چھوٹا بھائی باقر بھی جھنڈا لگانے اور چراغاں کرنے کا بڑا شوقین تھا۔ شاید میں بھی اس کی عمر میں ایسا ہی تھا۔ لیکن اب عرصہ ہوا، آٹھ دس سال ہو گئے مجھے چودہ اگست کا دن زہر لگتا ہے۔ اس وجہ سے کے میرے ارد گرد کے لوگ سلنسر نکال کر جشن آزادی مناتے ہیں۔ اور بین کرنے والی آوازوں والے واجے وجاتے ہیں۔ پہلے پہلے پریڈ وغیرہ بھی ہوا کرتی تھی، شاید 23 مارچ کو تو اس سے بھی کچھ "حب الوطنی" جاگ جاتی تھی۔ اب وہ بھی نہیں ہوتی، تو حب الوطنی کو ڈنڈا دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے حب الوطنی سوئی رہتی ہے۔
عرصہ ہوا میری سوچ اُلٹی ہو چکی ہے۔ مجھے جو پہلے سیدھا نظر آتا تھا اب اُلٹا نظر آتا ہے۔ پاکستان بننا جو ایک سادہ حقیقت لگتی تھی، جیسے دو جمع دو چار ہو اب یوں لگتا ہے جیسے سارا سیاست کا کھیل تھا۔ پنجاب کے جاگیر داروں نے پنجاب کو پاکستان بنا دیا، بلوچستان والے روتے ہیں کہ ہم سے ہاتھ ہوا، سابقہ سرحد والے شاید وہاں بھی کوئی ریفرنڈم کا چکر تھا سرحدی گاندھی وغیرہ۔ اور پھر سندھ اسمبلی تھی جہاں قرارداد پاس ہوئی تھی، اب پتا نہیں متفقہ تھی یا ہمارے آج کل کے وزرائے اعظم کے انتخاب کی طرح سادی اکثریت سے پاس ہوئی تھی۔ اور بنگال تھا جو پھر بنگلہ دیش بن گیا۔

اور پھر چودہ اگست کو شہداء کی قربانیاں، اور ان کے رونے، جو مر گئے ان کے بین۔ اور اس ملک کی بنیادیں اور ان کا خون وغیرہ وغیرہ۔ ایک عرصے تک میں اسے عظیم قربانی سمجھتا رہا۔ معلومہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت، پاکستان کے لیے ہجرت۔ ایک نظریاتی ملک کے لیے ہجرت۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ لاکھوں لوگ اس کے لیے کٹ مرے۔ پنجاب کے بزرگ، بڑے بوڑھے بتاتے کیسے انہوں نے خون کےدریا پار کیے۔ پھر میری سوچ الٹی ہو گئی۔ اور مجھے ادھر اُدھر سے پتا لگنے لگا کہ اُدھر والے "کافروں" نے بھی ایسے ہی چھوٹے موٹے دریا نہیں تو خون کی ندیاں کم از کم ضرور پار کی تھیں۔ مستنصر حسین تارڑ کہتا ہے لاہور میں لکشمی مارکیٹ ہوا کرتی تھی کہ محلہ ہوا کرتا تھا۔ امیر ہندوؤں کی آبادی، جسے پتا نہیں کس نے ساڑ کر سواہ کر دیا کہ کئی دن تک اس کی راکھ اطراف کے علاقوں پر گرتی رہی۔ اور پتا نہیں کتنے اس چتا میں جل گئے۔ اور وہاں، باقی رہ جانے والے لاہوریے ہندوؤں کے خزانے کھودنے جایا کرتے تھے۔ تارڑ جاٹ ہے، اور جاٹ سنا ہے سکھ ہوا کرتے تھے مسلمان ہونے سے پہلے۔ اور تارڑ کہتا ہے کہ سکھ جاٹ اور مسلمان جاٹ سارے خوشی غمی شادی بیاہ پر اکٹھے ہوا کرتے تھے مذہب سے بالا ہو کر۔ پر پھر ۔۔۔۔پھر شاید سینتالیس آ گیا یا اس سے پہلے ہی دیواریں کھڑی ہو گئی تھیں۔

پھر ہجرتیں ہوئیں۔ ادھر آنے والے مہاجر کہلاتے، اُدھر جانے والے شرنارتھی۔ سنا ہے پہلے "کافروں" نے مسلمانوں پر حملے کیے ان کے خون بہائے، ان کی بیٹیاں اغواء کیں اور ان کے بوڑھوں اور بچوں کو قتل کیا۔ پھر سنا ہے کہ اِدھر کے مسلمانوں کو بھی جوش آیا اور انہوں نے بھی یہی کچھ کیا۔ لیکن یہ دوسرا سنا ہے مجھے بعد میں پتا چلا جب میں اُلٹی سوچ والا ہو گیا تھا۔ جب میں نے آگ کا دریا کے بارے میں سن لیا تھا، پتا نہیں قراۃ العین حیدر کیا کہتی ہے اس میں لیکن ایسا ہی کچھ سنا ہے اس کے بارے میں۔ کہ مسلمان بھی حاجی لق لق نہیں ہو گئے تھے، انہوں نے بھی "کافروں" کی بینڈ بجائی تھی، جتنی ان سے بج سکی۔
پھر کچھ انصار بن گئے۔ انصار بن کر خود ہی مہاجروں کی اراضیوں، حویلیوں، مکانوں، جائیدادوں پر قابض ہو گئے۔ راتوں رات امیر ہو گئے۔ کچھ کے تکے لگ گئے وہ ادھر آ کر امیر ہو گئے۔ کچھ کے نہ لگے وہ غریب ہی رہے۔ پتا نہیں میرا دادا امیر تھا یا غریب۔ میرے ابو جی کی یادیں دھندلی ہیں، ہم کونسا سید ہیں جو شجرہ رکھتے، مجھے تو ابھی تک یہ نہیں یاد ہوا، کہ ہم جالندھرئیے تھے یا ہوشیار پورئیے۔ ہر بار کزن سے پتا کر کے بھول جاتا ہوں ۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو شاید ہم وہاں اچھے حال میں ہوتے، یا شاید نہ ہوتے۔
لیکن ہر سال چودہ اگست آ جاتا ہے۔ اور مجھے مجبوراً رونے والا منہ بنانا پڑتا ہے۔ کہ یہ روایت ہو گئی ہے مرنے والوں کا بین کرنے کے لیے، یاد دہانی کے لیے کہ یہ ملک کیسے وجود میں آیا تھا۔ پر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے میرے پاس بین کے آپشن وسیع ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر پچھلے دس برس میں ادھر شمال مغرب کی جانب بین کے وسیع مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ ادھر کراچی میں جنوب میں بڑی زرخیزی ہے۔ ادھر جنوب مغرب میں، بلوچستان میں خون تھوک کے حساب سے بہہ رہا ہے۔ میرے پاس اب پینسٹھ سال پہلے مرنے والوں کے بین کے علاوہ بھی آپشن موجود ہیں۔ میں اتنا پُر ہو چکا ہوں کہ سمجھ نہیں آتا کس کا بین کروں، کس کس کا بین کروں۔ بین کروں یا نہ کروں۔ اس ملک کے بننے کا بین کروں، یا بننے کے بعد بگڑنے کا بین کروں۔ سینتالیس میں مرنے والوں کا بین کروں، بے گناہوں کا جو مسلمان تھے ان کا یا جو مسلمان نہیں تھے ان کا (مسلمان نہیں تھے کا بین نہیں بنتا ویسے یہ ان کا کام ہے جو مسلمان نہیں ہیں، اصولی طور پر ایسے ہی ہوتا آیا ہے پینسٹھ سالوں سے ۔) غیر مسلمانوں کا بین تو قطعاً نہیں بنتا، رب جانے ان مردودوں میں سے کوئی مرا بھی تھا یا نہیں یا "کافروں" نے کہانیاں ہی گھڑ رکھی ہیں۔ یا آج کے کافر قرار دے کر مارے گئے مسلمانوں کا بین کروں۔ جنہیں پتا ہی نہیں کہ انہیں کس لیے مارا جا رہا ہے ان کا بین کروں، یا جو نا سمجھ بم باندھ کر ان کو مار رہے ہیں ان کا بین کروں۔ "مجاہدین" کا بین کروں یا "کرائے کی فوج" کے مرنے والے، دس ہزار تنخواہ کی خاطر اغواء ہو کر گلے کٹوانے والے ان خاصہ داروں کا بین کروں۔
میں اتنا پُر باش ہو چکا ہوں، اتنا لد گیا ہوں کہ سمجھ نہیں آتا کس کس کا بین کروں۔ اس سب کا یا اپنی عقل کا، اپنی وکھری سوچ کا، اپنی بے غیرت طبیعت کا جو کہیں فٹ نہیں بیٹھتی، جو ہر رویے پر سوال اٹھاتی ہے، ہر بات پر پہلے ناں کہتی ہے پھر ہاں کی طرف جاتی ہے، ہر جگہ گلاس آدھا خالی دیکھتی ہے۔ میرا خیال ہے مجھے یہی کرنا چاہیئے، اس بے غیرت طبیعت کا بین، جو سوال کرنے کی کُتی عادت کا شکار ہے، ہر جگہ سوالنے کی گندی عادت کا شکار۔