یہ یاداں بھی سالی عجیب ہوتی ہیں۔ بےوقت کی راگنی کی طرح بھیرویں شروع کر دیتی ہیں۔ چلتے چلتے اچانک ٹھوکر لگ جانے کی طرح، کہیں سے اچانک کوئی ہاتھ آ کے چٹکی بھرتا ہے اور یاداں گھوڑے کی طرح بدک اٹھتی ہیں۔ پھر لاکھ سنبھالو نہیں سنبھلتیں۔ زنجیری تعامل جو شروع ہوتا ہے تو ایک کے بعد دوسری، تیسری چوتھی ۔۔۔اور پھر یاداں کی ایٹمی چھتری پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ سارا حال ماضی کی دھول میں اٹ جاتا ہے۔ غائب حاضر اور حاضر غائب بن جاتا ہے۔ اَن دِکھی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں، لوگ، چیزیں، موسم، وقت سب کچھ: حقیقت اور غیر حقیقت ایسے ملغوبہ بن جاتے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ جانے والوں کے چہرے تو کبھی بھولتے ہی نہیں، لیکن جب یاداں کا ایٹمی حملہ ہوتا ہے تو گویا جانے والوں کے آسیبی وجود عدم سے وجود میں آ جاتے ہیں۔ ابھی یہاں کچھ نہیں تھا، اور ابھی وہ چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔ ہنستا، کھیلتا، گاتا، جیتا، جاگتا، وجود جو اس عدم اور وجود کے درمیان برزخ میں کبھی نابینا آنکھوں کے لیے بینا ہو جاتا ہے کبھی پھر سے ان دیکھے پردوں کے پیچھے اوجھل ہو جاتا ہے۔
یاداں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔ روتے روتے ہنسا دیتی ہیں اور ہنستے ہنستے رُلا دیتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔۔۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یاداں ماضی ہی کیوں، مستقبل بھی تو یاداں میں آ سکتا ہے۔ یہ شاید ایسا ہی لگے جیسے مچھلیوں کا اڑنا، آگ کا ٹھنڈا کرنا اور بھینسوں کا درخت پر چڑھنا لگے۔ جیسے آگ کا کام جلانا ہے ویسے ہی یاداں کا کام ماضی کو حال میں واپس لانا ہے۔ لیکن یاداں میں آگ کی سی اضافی خاصیت ان کو دو دھاری بنا دیتی ہے۔ کہتے ہیں آگ جلاتی ہے اور شدید ٹھنڈک بھی جلاتی ہے ایسے ہی یاداں بھی کرتی ہیں۔ خوشی بھری ہوں یا دکھ بھری، سر پر سوار ہو جائیں تو آنسوؤں کی بھینٹ لے کر ہی ٹلتی ہیں۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے، حال میں رہتے ہوئے ماضی سے ناطہ توڑنا نہیں چاہتا، اس لیے یاداں کو ایسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے جیسے کوئی محبت کے پہلے تحفے کو سنبھال کر رکھتا ہے۔ ساری عمر یاداں کے پودے کو اپنی ذات پر سینچتا ہے، اپنے اندر پروان چڑھاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یاداں امر بیل ہیں، جیسے جیسے عمر گزرتی ہے یاداں کا درخت تناور ہوتا چلا جاتا ہے اور جان کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب ہستی کے درخت کے ساتھ یاداں رہ جاتی ہیں اور چند سوکھے پتے۔ پھر بلاوا آ جاتا ہے اور یاداں۔۔ ۔پتا نہیں یاداں یہیں رہ جاتی ہیں، مٹی میں مل جانے کے لیے یا آگے پاس آن ہو جاتی ہیں ایک لامتناہی دنیا میں۔۔ ۔جہاں کسی چیز کا کوئی انت نہیں۔ شاید دکھ اور خوشی کا بھی نہیں۔
یاداں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔ روتے روتے ہنسا دیتی ہیں اور ہنستے ہنستے رُلا دیتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔۔۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یاداں ماضی ہی کیوں، مستقبل بھی تو یاداں میں آ سکتا ہے۔ یہ شاید ایسا ہی لگے جیسے مچھلیوں کا اڑنا، آگ کا ٹھنڈا کرنا اور بھینسوں کا درخت پر چڑھنا لگے۔ جیسے آگ کا کام جلانا ہے ویسے ہی یاداں کا کام ماضی کو حال میں واپس لانا ہے۔ لیکن یاداں میں آگ کی سی اضافی خاصیت ان کو دو دھاری بنا دیتی ہے۔ کہتے ہیں آگ جلاتی ہے اور شدید ٹھنڈک بھی جلاتی ہے ایسے ہی یاداں بھی کرتی ہیں۔ خوشی بھری ہوں یا دکھ بھری، سر پر سوار ہو جائیں تو آنسوؤں کی بھینٹ لے کر ہی ٹلتی ہیں۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے، حال میں رہتے ہوئے ماضی سے ناطہ توڑنا نہیں چاہتا، اس لیے یاداں کو ایسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے جیسے کوئی محبت کے پہلے تحفے کو سنبھال کر رکھتا ہے۔ ساری عمر یاداں کے پودے کو اپنی ذات پر سینچتا ہے، اپنے اندر پروان چڑھاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یاداں امر بیل ہیں، جیسے جیسے عمر گزرتی ہے یاداں کا درخت تناور ہوتا چلا جاتا ہے اور جان کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب ہستی کے درخت کے ساتھ یاداں رہ جاتی ہیں اور چند سوکھے پتے۔ پھر بلاوا آ جاتا ہے اور یاداں۔۔ ۔پتا نہیں یاداں یہیں رہ جاتی ہیں، مٹی میں مل جانے کے لیے یا آگے پاس آن ہو جاتی ہیں ایک لامتناہی دنیا میں۔۔ ۔جہاں کسی چیز کا کوئی انت نہیں۔ شاید دکھ اور خوشی کا بھی نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔