آج بہت دن بعد دکھ برداشت سے باہر ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ ایک بہت عزیز ہستی کو دکھ میں غرق دیکھ کر بے اختیار دل میں شکوہ ابھر آیا۔
“مالک کیا ہم اتنے ہی بے وقعت ہیں جو آئے روند کر چلا جائے ۔تُو تو سنتا ہے ہم نے تمہیں پکارا مگر ہماری کیوں نہیں سنتا! دکھ دینا تھا تو صبر دے دیتا یہ اتنا سارا دکھ کہاں لے جائیں“
دل اور بھی شکوہ کرتا نادان تھا نا مگر عقل نے روک دیا۔
“رک کیا کر رہا ہے۔ کفر بکتا ہے اللہ تم پر مہربان ہے بھلا وہ تمہاری کیوں نہ سنےگا“
دل پھر مچلا
“مگر پھر یہ کیوں! کیا اسے سنتا نہیں کیا اسے دکھتا نہیں کوئی کتنی تکلیف میں ہے “
اس سے آگے سوچنے کی مہلت نہ ملی ۔ عقل نے ایک نیا زاویہ دکھایا۔
“کیا ہے تیرا دکھ اپنی من پسند چیز نہیں ملی تو اس کے احسان بھلا دیے ایک ایسی چیز کے لیے اس کے غضب کو آواز دیتا ہے جو سراسر دنیاوی ہے“
“تیرا دکھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ سے تو بڑا نہیں یاد کر جب انھوں نے کہا تھا ہمیں دکھ ہے مگر ہم رو نہیں سکتے۔ یاد کر وہ وقت جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا قاسم اس دنیا سے چلا گیا۔ کیا تیرا دکھ اس سے بڑا ہےایک باپ کے دکھ سے جس کے سامنے اس کی اولاد چلی جائے وہ بھی بیٹا۔ اور پھر بھی وہ آنکھ سے آنسو نہیں ٹپکنے دیتے کہ اللہ کی رضا اسی میں تھی“
دل اب پشیمان ہو گیا“ میرا غم تو کچھ بھی نہیں اس کے آگے۔“ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ کو محسوس کیا تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان بھی تو تھے ایک باپ بھی تو تھے انھوں نے کیا محسوس کیا ہوگا مگر پھر بھی اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ۔
“اور تو ایک دنیاوی چیز کے نہ ملنے سے بلک رہا ہے۔
ان کی حالت دیکھ جن کے عزیز ان سے بچھڑ گئے گھر اجڑ گئے اولاد والے بے اولاد ہو گئے بچے یتیم ہو گئے اپنے دکھ کےساتھ انکے دکھ کو بھی تو رکھ کر دیکھ وہ بھی تو انسان ہیں وہ تو شکوہ نہیں کرتے وہ تو اب بھی شکر کرتے ہیں اور تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشکرا انسان“
عقل نے اب سختی اختیار کی تھی اور دل ۔۔۔۔۔۔دل اپنے دکھ کو اس دکھ کے سامنے ہیچ محسوس کر رہا تھاجو ہزاروں دل جھیل رہے ہیں۔
پھر عقل نے پیار سے سمجھایا
“پاگل دنیا میں ہر چیز نہیں مل جاتی ۔ کہیں اپنی منوائی جاتی ہے کہیں اسکی رضا پر چلنا پڑتا ہے۔ نہ چلےگا تو پھر کیا کر لےگا چلا تو لے گا وہ تجھے اپنی رضا پر! تو اپنی رضا سے چل۔۔۔ مفت میں اسکے سامنے نمبر بن جائیں گے ۔۔۔یہ بھی تو سوچ جو تجھ پر بیتی ہے اس میں تیرا کتنا ہاتھ ہے۔ کبھی تو نے سوچا کہ میں اس کے حقوق پورے ادا کروں اپنے حقوق کی فکر ہے تجھے۔کبھی سوچا کتنا گنہگار ہے اور وہ تجھے ڈھیل دیے جا رہا ہے اور تو پھر۔۔۔۔۔۔۔ “
دل و دماغ کی اس جنگ نے کئی عقدے سلجھا دیے۔ اگر دکھ جھیلنا ہے تو اپنے دکھ کا موازنہ دوسروں کے دکھ کے ساتھ کرو اپنا دکھ بھول جاؤ گے اپنے دکھ پر دکھی ہوتے شرم آئے گی اتنا ہیچ ہو جائے گا۔
پھر بے اختیار دل سے دعا نکلی
“مالک! ہم خطاکار،سیاہ کار،گناہ گار! تیری رحمت کے طلبگار باوجود کہ اس کے لائق نہیں پھر بھی ہم پراپنا رحم کرم اور فضل فرما۔ رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم سے رحمت بھرا سلوک فرما۔ ہم تجھ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگتے ہیں ہماری توبہ قبول فرما ہمیں اس مصیبت کی گھڑی میں جو ہمارے بہن بھائیوں پر آئی ہے ان کی مدد کرنے کی توفیق عطاء فرما اور ان کو صبرِ جمیل عطاء فرما آمین یا ربّ العالمین “
“مالک کیا ہم اتنے ہی بے وقعت ہیں جو آئے روند کر چلا جائے ۔تُو تو سنتا ہے ہم نے تمہیں پکارا مگر ہماری کیوں نہیں سنتا! دکھ دینا تھا تو صبر دے دیتا یہ اتنا سارا دکھ کہاں لے جائیں“
دل اور بھی شکوہ کرتا نادان تھا نا مگر عقل نے روک دیا۔
“رک کیا کر رہا ہے۔ کفر بکتا ہے اللہ تم پر مہربان ہے بھلا وہ تمہاری کیوں نہ سنےگا“
دل پھر مچلا
“مگر پھر یہ کیوں! کیا اسے سنتا نہیں کیا اسے دکھتا نہیں کوئی کتنی تکلیف میں ہے “
اس سے آگے سوچنے کی مہلت نہ ملی ۔ عقل نے ایک نیا زاویہ دکھایا۔
“کیا ہے تیرا دکھ اپنی من پسند چیز نہیں ملی تو اس کے احسان بھلا دیے ایک ایسی چیز کے لیے اس کے غضب کو آواز دیتا ہے جو سراسر دنیاوی ہے“
“تیرا دکھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ سے تو بڑا نہیں یاد کر جب انھوں نے کہا تھا ہمیں دکھ ہے مگر ہم رو نہیں سکتے۔ یاد کر وہ وقت جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا قاسم اس دنیا سے چلا گیا۔ کیا تیرا دکھ اس سے بڑا ہےایک باپ کے دکھ سے جس کے سامنے اس کی اولاد چلی جائے وہ بھی بیٹا۔ اور پھر بھی وہ آنکھ سے آنسو نہیں ٹپکنے دیتے کہ اللہ کی رضا اسی میں تھی“
دل اب پشیمان ہو گیا“ میرا غم تو کچھ بھی نہیں اس کے آگے۔“ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ کو محسوس کیا تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان بھی تو تھے ایک باپ بھی تو تھے انھوں نے کیا محسوس کیا ہوگا مگر پھر بھی اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ۔
“اور تو ایک دنیاوی چیز کے نہ ملنے سے بلک رہا ہے۔
ان کی حالت دیکھ جن کے عزیز ان سے بچھڑ گئے گھر اجڑ گئے اولاد والے بے اولاد ہو گئے بچے یتیم ہو گئے اپنے دکھ کےساتھ انکے دکھ کو بھی تو رکھ کر دیکھ وہ بھی تو انسان ہیں وہ تو شکوہ نہیں کرتے وہ تو اب بھی شکر کرتے ہیں اور تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشکرا انسان“
عقل نے اب سختی اختیار کی تھی اور دل ۔۔۔۔۔۔دل اپنے دکھ کو اس دکھ کے سامنے ہیچ محسوس کر رہا تھاجو ہزاروں دل جھیل رہے ہیں۔
پھر عقل نے پیار سے سمجھایا
“پاگل دنیا میں ہر چیز نہیں مل جاتی ۔ کہیں اپنی منوائی جاتی ہے کہیں اسکی رضا پر چلنا پڑتا ہے۔ نہ چلےگا تو پھر کیا کر لےگا چلا تو لے گا وہ تجھے اپنی رضا پر! تو اپنی رضا سے چل۔۔۔ مفت میں اسکے سامنے نمبر بن جائیں گے ۔۔۔یہ بھی تو سوچ جو تجھ پر بیتی ہے اس میں تیرا کتنا ہاتھ ہے۔ کبھی تو نے سوچا کہ میں اس کے حقوق پورے ادا کروں اپنے حقوق کی فکر ہے تجھے۔کبھی سوچا کتنا گنہگار ہے اور وہ تجھے ڈھیل دیے جا رہا ہے اور تو پھر۔۔۔۔۔۔۔ “
دل و دماغ کی اس جنگ نے کئی عقدے سلجھا دیے۔ اگر دکھ جھیلنا ہے تو اپنے دکھ کا موازنہ دوسروں کے دکھ کے ساتھ کرو اپنا دکھ بھول جاؤ گے اپنے دکھ پر دکھی ہوتے شرم آئے گی اتنا ہیچ ہو جائے گا۔
پھر بے اختیار دل سے دعا نکلی
“مالک! ہم خطاکار،سیاہ کار،گناہ گار! تیری رحمت کے طلبگار باوجود کہ اس کے لائق نہیں پھر بھی ہم پراپنا رحم کرم اور فضل فرما۔ رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم سے رحمت بھرا سلوک فرما۔ ہم تجھ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگتے ہیں ہماری توبہ قبول فرما ہمیں اس مصیبت کی گھڑی میں جو ہمارے بہن بھائیوں پر آئی ہے ان کی مدد کرنے کی توفیق عطاء فرما اور ان کو صبرِ جمیل عطاء فرما آمین یا ربّ العالمین “
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔