وہ اپنی چھابڑی لگائے بیٹھا تھا۔ کافی دیر کوئی گاہک نا آیا تو ساتھ والے سے اخبار لے کرپڑھنے لگا۔ ابھی اخبار پڑھتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ جمعے کی نمازکا وقت قریب آگیا۔ تمام مساجد کے سپیکروں سے مولاناؤں نے وعظ نشر کرنے شروع کردیے۔
ایک طرف سے گوہر افشانیاں ہورہی تھیں اور اس کا دھیان بار بار بٹ رہا تھا مولانا فرما رہے تھے
“ان لوگوں نے تو اسلام کو مذاق بنایا ہوا ہے غضب خدا کا جب اہل بیت زندہ ہیں تب سوگ مناتے ہیں جب شہید ہوگئے پھر چپ۔ ان لوگوں میں صحابہ کا کچھ احترام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ابھی مولانا نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک نعرہ بلند ہوا
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
اب اس کا دھیاں لاشعوری طور پر ایک اور مسجد سے آتی آواز پر لگ گیا ۔ کچھ دیر سننے کے بعد اسے اندازہ ہوا مولانا غالبًادیو بندیوں کے بخیے ادھیڑ رہے تھے۔
“اجی ان لوگوں نے تو گند مچا رکھا ہے یعنی اللہ کے رسول کا ذرا بھی احترام نہیں کہتے ہیں وہ ہم میں موجود نہیں۔۔۔۔“
اس نے چشم تصور سے دیکھا لوگ بیٹھےوجد میں ہل رہے ہیں داد دے رہے ہیں پھر دفعتًا ایک نعرہ بلند ہوا
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ اور اسکے بعد نعروں کی سیریز شروع ہوگئی۔
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
نعرے ختم ہوئے تو مولانا ازسرِ نو دیوبندیوں کے بخیے ادھیڑنے لگے۔اس کا دھیان اس طرف سے اچاٹ ہو گیا دھیان لگایا تو ایک اور مسجد میں سے اس قسم کی آواز آرہی تھی۔
“یعنی دین میں اتنا گند مچا دیا ہے کہ لوگ پیروں کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں ان لوگوں نے قبر پرستی پھیلا رکھی ہے کہتے ہیں اولیا سب کرسکتے ہیں اجی کرنے والی تو صرف اللہ کی ذات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
ایک اور مسجد میں مولانا نغمہ سرا تھے:
“واہ کہتے ہیں اولیا کچھ نہیں کر سکتے اجی اللہ کے بندے کچھ نہیں کریں گے تو یہ لوگ کریں گے ۔۔۔۔۔“
اور ساتھ ہی پھر نعرے
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔“
اب اس کا ذہن بے زار ہو چکا تھا مگر پھر بھی ایک مسجد نے اسکی توجہ کھینچ لی
“کہتے ہیں سب حق پر ہیں کیسے حق پر ہوں۔ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔حسین رضی للہ عنہ بھی حق پر ہیں اور معاویہ ابن ابوسفیان(رضی اللہ عنہ) بھی حق پرہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب حق پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔“
اور پھر وہی نعروں کی سیریز
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“یزیدیت۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد“
“حسینیت۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد“
وہ اب ان باتوں سے بے نیاز ہوکر اخبار پڑھ رہا تھا۔ مگر یہ کیا اخبار میں کیا خبریں تھیں۔
“امریکیوں نے عراق میں ایک گاؤں بمباری کرکے تباہ کردیا انھیں شک تھا کہ یہاں حریت پسند چھپے ہوئے ہیں“
“روسیوں نے چیچنیا میں اتنے مسلمان قتل کردیے ان پر چیچن مجاہد ہونے کاشبہ تھا“
“اسرائیل نے غزہ میں اپنے تازہ فضائی حملوں میں تین فلسطینی شہید کردیے۔“
“بھارتی فوج نےکشمیر میں ایک طالب علم کو سرِعام گولیوں سے اڑا دیا ۔“
اور وہ سوچ رہا تھا کیا یہ امریکی،اسرائیلی،روسی اور بھارتی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں سنی،شیعہ،بریلوی،اہلحدیث یا دیوبندی۔ اس کے اندرسے کوئی بولا نہیں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور انھیں ٹھوک دو۔ دوسری کوئی بات نہیں۔
دفعتًا اس کے اندر کوئی ہنسنے لگا۔ بے تحاشا ہنسنے لگاقریب تھا کہ اس ہنسی سے گھبرا کر وہ بھی ہنسنے لگتا مگر اس کے کانوں میں آوازیں آنے لگیں۔
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
اس نے اخبار پھینکی اور سر بازار نعرے لگانے شروع کردیے۔
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
نعرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف سے گوہر افشانیاں ہورہی تھیں اور اس کا دھیان بار بار بٹ رہا تھا مولانا فرما رہے تھے
“ان لوگوں نے تو اسلام کو مذاق بنایا ہوا ہے غضب خدا کا جب اہل بیت زندہ ہیں تب سوگ مناتے ہیں جب شہید ہوگئے پھر چپ۔ ان لوگوں میں صحابہ کا کچھ احترام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ابھی مولانا نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک نعرہ بلند ہوا
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
اب اس کا دھیاں لاشعوری طور پر ایک اور مسجد سے آتی آواز پر لگ گیا ۔ کچھ دیر سننے کے بعد اسے اندازہ ہوا مولانا غالبًادیو بندیوں کے بخیے ادھیڑ رہے تھے۔
“اجی ان لوگوں نے تو گند مچا رکھا ہے یعنی اللہ کے رسول کا ذرا بھی احترام نہیں کہتے ہیں وہ ہم میں موجود نہیں۔۔۔۔“
اس نے چشم تصور سے دیکھا لوگ بیٹھےوجد میں ہل رہے ہیں داد دے رہے ہیں پھر دفعتًا ایک نعرہ بلند ہوا
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ اور اسکے بعد نعروں کی سیریز شروع ہوگئی۔
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
نعرے ختم ہوئے تو مولانا ازسرِ نو دیوبندیوں کے بخیے ادھیڑنے لگے۔اس کا دھیان اس طرف سے اچاٹ ہو گیا دھیان لگایا تو ایک اور مسجد میں سے اس قسم کی آواز آرہی تھی۔
“یعنی دین میں اتنا گند مچا دیا ہے کہ لوگ پیروں کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں ان لوگوں نے قبر پرستی پھیلا رکھی ہے کہتے ہیں اولیا سب کرسکتے ہیں اجی کرنے والی تو صرف اللہ کی ذات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
ایک اور مسجد میں مولانا نغمہ سرا تھے:
“واہ کہتے ہیں اولیا کچھ نہیں کر سکتے اجی اللہ کے بندے کچھ نہیں کریں گے تو یہ لوگ کریں گے ۔۔۔۔۔“
اور ساتھ ہی پھر نعرے
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔“
اب اس کا ذہن بے زار ہو چکا تھا مگر پھر بھی ایک مسجد نے اسکی توجہ کھینچ لی
“کہتے ہیں سب حق پر ہیں کیسے حق پر ہوں۔ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔حسین رضی للہ عنہ بھی حق پر ہیں اور معاویہ ابن ابوسفیان(رضی اللہ عنہ) بھی حق پرہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب حق پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔“
اور پھر وہی نعروں کی سیریز
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“یزیدیت۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد“
“حسینیت۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد“
وہ اب ان باتوں سے بے نیاز ہوکر اخبار پڑھ رہا تھا۔ مگر یہ کیا اخبار میں کیا خبریں تھیں۔
“امریکیوں نے عراق میں ایک گاؤں بمباری کرکے تباہ کردیا انھیں شک تھا کہ یہاں حریت پسند چھپے ہوئے ہیں“
“روسیوں نے چیچنیا میں اتنے مسلمان قتل کردیے ان پر چیچن مجاہد ہونے کاشبہ تھا“
“اسرائیل نے غزہ میں اپنے تازہ فضائی حملوں میں تین فلسطینی شہید کردیے۔“
“بھارتی فوج نےکشمیر میں ایک طالب علم کو سرِعام گولیوں سے اڑا دیا ۔“
اور وہ سوچ رہا تھا کیا یہ امریکی،اسرائیلی،روسی اور بھارتی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں سنی،شیعہ،بریلوی،اہلحدیث یا دیوبندی۔ اس کے اندرسے کوئی بولا نہیں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور انھیں ٹھوک دو۔ دوسری کوئی بات نہیں۔
دفعتًا اس کے اندر کوئی ہنسنے لگا۔ بے تحاشا ہنسنے لگاقریب تھا کہ اس ہنسی سے گھبرا کر وہ بھی ہنسنے لگتا مگر اس کے کانوں میں آوازیں آنے لگیں۔
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
اس نے اخبار پھینکی اور سر بازار نعرے لگانے شروع کردیے۔
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
نعرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہي پراثر تحرير ہے۔ يہ باتيں ہمارے مولوي کب جانيں گے؟
جواب دیںحذف کریںسادہ انداز اور گہری بات!!!! نہایت اعلی!!!
جواب دیںحذف کریںاللہ ہمیں سمجھ دیں!!۱
آپ نے لکھا تو صحیح ہے لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے ؟ بدقسمتی سے ہماری اسّی سے نوّے فیصد مساجد کے امام دینی مدرسّوں سے باقاعدہ فارغ التحصیل نہیں ہیں اس لئے وہ اپنی دکان چمکانے کے لئے اُن عوام میں منافرت پھیلا رہے ہیں جو دین کے علم سے نابلد ہیں ۔ اگر وقت ملے تو اِسے پڑھ لیجئے
جواب دیںحذف کریںhttp://iftikharajmal.blogspot.com/2005/08/blog-post_16.html