کڑیو والو چیز ونڈی دی لئی ی ی ی ی ی جاؤ
یہ آواز کانوں میں پڑتے ہی گھر سے ہاتھ میں کوئی پلیٹ یا کولی لے کر نکل پڑتے اور آواز کے مخرج کا پتا لگا کر گائیڈڈ میزائل کی طرح وہاں جاکر گرتے۔ یہ بچپن کے دن تھے۔ فکر نہ فاقہ۔ کونڈوں کے ختم پر حلوہ پوری کے بٹنے کا انتظار رہتا۔ محرم پر میٹھے پانی اور کُجی ٹھوٹھیوں میں کھیر اور چاولوں کے بٹنے کا انتظار رہتا۔ ساتھ میٹھی یا نمکین لسی ہوا کرتی۔ محلے دار کبھی پیسے، کبھی ٹافیاں کبھی پھُلیاں بانٹتے تو بھی سب سے آگے ہوا کرتے۔
پھر عمر نے کچھ آگے قدم بڑھایا اور ہاتھ میں کولی پکڑ کر باہر جانے سے جھجک ہونے لگی۔ لوگ کیا کہیں گے۔ تو چھوٹوں سے کہا جاتا باجی سے کہنا میرے بھائی کا حصہ بھی دے۔ یا ایسے ہی ان سے دو چار نوالے لے لینا۔
آہ کتنے اچھے دن تھے۔ آج وہ دن پھر سے یاد آگئے۔ آج سماجی لسانیات کا پرچہ تھا۔ وہ دے کر اگلے پرچے کی تیاری کرتے رہے۔ شام پانچ بجے وہاں سے جان چھوٹی۔ کل شام سے پیٹ میں گڑ بڑ تھی اس لیے دودھ اور ایک کپ چائے کے ناشتے کے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔ واپسی پر ہمیں ایک جگہ چیز ونڈی دی نظر آگئی۔ ہاتھ میں موبائل تھا ایک کلاس فیلو کو سلیبس کے بارے میں میسج کا جواب دیا جارہا تھا، دیکھا پھر سوچا چھڈ یار لیکن پھر آگے جاکر سائیکل روک لی۔ کہ چھڈ یار چیز ونڈی دی لے ہی لے۔ سائیکل کو تالا لگایا، بیگ کندھے پر لٹکایا اور لائن میں لگ گئے۔ جتنی دیر میں میسج مکمل کرکے بھیجا ہماری باری آگئی۔ تازہ سا نان اور اس پر گھی سے بھرپور اچھا خاصا حلوہ۔۔ کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ وہیں فٹ پاتھ پر سائیکل کے قریب بیٹھ کر کھایا۔ نہ پوچھیں اس کا جو سواد تھا۔ ہلکا سا نمکین نان اور میٹھا گھی سے ترتراتا حلوہ۔ چیز ونڈی دی کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ کبھی ٹرائی کیجیے گا۔ :razz:
بہت سی دوسری روایات کی طرح ہماری یہ روایت بھی مہنگائی، معاشی اور معاشرتی ناہمواری اور بڑے بڑے شہروں کی بے حسی کی نظر ہوتی جارہی ہے۔
کڑیو: اردو لڑکیو
والو: بال (بال بچے والا بال) کی بگڑی ہوئی شکل بالو یعنی بچو
چیز: اردو چیز
ونڈی: اردو بانٹنا سے بانٹی جانے والی، بٹنے والی
دی: اردو کی
کولی: اردو نہیں یاد آرہی :oops:
کُجی اور ٹھوٹھی: اول الذکر ننھی سی ہانڈی اور موخر الذکر ننھی سی پرات جیسی چیز جسے کنالی بھی کہتے ہیں مٹی کے برتن ہوتے ہیں یہ۔ کُجی میں لسی وغیرہ اور ٹھُوٹی میں چاول یا کھیر ہوا کرتی تھی۔ اب بھی ہوتی ہے لیکن کم کم۔
واہ حضرت کیا تحریر ہے اور کیا یاد دلایا آپ نے، میرا بچپن بھی ایسا ہی گزرا ہے، میں تو کرتے کی جھولی میں چاول ڈلوا لیا کرتا تھا اور چاول کھانے کے بعد گھر آ کر امی سے خوب پٹائی بھی کھاتا تھا کہ سارا گھی جھولی میں جما ہوتا تھا :grin:
جواب دیںحذف کریںکولی کی اردو رکابی یا پلیٹ ہوگی شاید!
میری طرف بالو ہی کہتے ہیں/تھے۔ میں نے کبھی زندگی میں یہ نہیں کھائے صرف اسی صورت اگر ہم بانٹتے۔ میرے بھائی کو بہت شوق تھا اور وہ بالکل کسی راکٹ کی طرح گھر سے نکلتا تھا :twisted:
جواب دیںحذف کریںمیٹھے کی پلیٹ کولی ہوتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںٹھوٹھی کو کنالی نہیں کہتے وہ تو بڑی ہوتی ہے۔
کولی کافی چھوٹی نہیں؟ میرا بھائی تو ممکنہ طور پر سب سے بڑی پلیٹ لے کر بھاگتا تھا :razz:
واہ
جواب دیںحذف کریںکیا موتی نکال کر لائے ہیں یادوں سے
مجھے کنڈے کھانے کا بڑا شوق ہوتا تھا
جس کے گھر کنڈے ہوتے تھے وہ تو مجھ سے تنگ آ جاتا تھا :mrgreen:
یار ہم نے تو اپنی قمیض کا دامن ذیادہ تر وہ گُڑ والے چاولوں سےہی خراب کیا ہے! اور جنھیں آپ ٹافیاں کہتے ہیں ہمارے پنڈ میں اُسے مچھلیاں کہتے ہیں! اور وہ ہٹی سے ملتی تھی!!!!
جواب دیںحذف کریںاور وہاں سے ہی خرید کر بانٹی جاتی تھی کسی بیمار کر تندرست ہونے پر!! یا منت کے طور پر یا دیگر۔۔۔۔
ہمارے گاؤں میں ہم اسے "کجیاں ٹُھوٹھیاں" کہتے تھے، اور کجیوں میں کھیر اور ٹھوٹھیوں میں شربت یا میٹھا دودھ ملا کرتا تھا ۔
جواب دیںحذف کریںبعد میںہم ٹھوٹھیوں میں پانی ڈال کر اس میںسوراخ کر کے نڑ لگا کر اس کے اوپر کجیوں میں کوٕئلے رکھ کر حقہ بنا کر پیتے تھے ۔ :grin:
شعیب ٹافیوں کو ہم بھی "مچھیاں" کہتے تھے ۔ :razz:
جواب دیںحذف کریں:cry: کیا خوب دن تھے
جواب دیںحذف کریںجہانزیب حقہ کا ذکر تو آپ نے کردیا لیکن ہم دو ٹھوڈھیوں کا ترازو بھی بناتے تھے۔ اگرچہ تھوڑا مشکل تھا لیکن ایک اچھی کھیل بن جاتی تھی۔ ہم تو چیز ونڈی کی لیتے ہی اسی لیے تھے کہ کجیاں اور ٹھوٹھیاں زیادہ سے زیادہ جمع کرسکیں۔ ان میں جو کچھ بھی ہوتا تھا وہ گھر لاکر ایک برتن میں جمع کردیا جاتا تھا پھر اس سے گھر والے خود ہی نمٹتے تھے ہم تو خالی ٹھوٹھیاں اور کجے دوسرے لوگوں سے بھی اکٹھے کرلیتے تھے۔ :grin:
جواب دیںحذف کریںکولی کو ادبی اردو میں رکابی اور عام اردو میں کٹورا کہتے ہیں
جواب دیںحذف کریںواہ جناب کیا کہنے، اور کیا یاد دلایا، ہمارے ہاںہندکو میںاسے ڈولی کہا جاتا ہے اور ہمارے لیے تو آواز لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، پہلے سے پہنچ جایاکرتا تھا.
جواب دیںحذف کریںسر جی اسی طرز کا تھیم اپنے بلاگ پر آویزاںکرنا چاہتا ہوں، مدد کر دیںتو نوازش