جمعرات، 10 مارچ، 2011

بےبسی

ابا جی ناشتے کی ریڑھی لگایا کرتے تھے۔ میری عمر اس وقت یہی کوئی بارہ تیرہ سال تھی، ساتویں آٹھویں میں پڑھتا تھا۔ ہمارا اڈہ جس جگہ واقع تھا وہ ریلوے سٹیشن کے قریب سڑک کے ساتھ ریلوے کی حدود میں زمین تھی۔ سٹیشن ہیڈماسٹر کو ہم سے جانے کیا بیر تھا، اس نے پہلے تو اڈہ اٹھا لینے کی وارننگ دی اور پھر پولیس بلالی۔ وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ پولیس والے ہمارا سارا سامان اٹھا کر سٹیشن پر لے آئے تھے۔ سالن، روٹی، چاول، اور بینچ وغیرہ۔ اور اپنا ناشتا اور لنچ انھوں نے وہیں سے کیا تھا۔ میں ابو کے پاس دوپہر میں شاید روٹیاں دینے گیا جب مجھے یہ پتا چلا۔ اس دن کی بےبسی مجھے آج تک نہیں بھولی۔
اس دن اپنے آفس میں اونچے ڈیسک کے پیچھے بیٹھا ہوا، فیصل آباد کے اس چھوٹے سے سٹیشن کا اسٹیشن ماسٹر مجھے وقت کا فرعون لگا۔ اس کا لہجہ تحکمانہ تھا، انداز مغرور اور زبان پر ایک ہی بات کہ تمہارے خلاف پرچہ کروا دینا ہے، تم نے سرکاری زمین پر اڈہ لگایا ہے۔ اور اس کے سامنے کھڑے ہوئے میرے والد اور میں۔ ہمارے ہاتھ جُڑے ہوئے اور آنکھوں میں آنسو، اور زبان پر منت کہ ہم پر رحم کرو، خدا کا واسطہ ہم پر رحم کرو۔
وہ دن مجھے آج بھی نہیں بھُولا، جب میرے گھر کے نو افراد کا دارومدار ناشتے کے اس اڈے پر تھا، اور اس اڈے کا دارومدار اس غیرمعروف اسٹیشن کے سٹیشن ماسٹر کے فیصلے پر۔ اس دن کی بے بسی، بےکسی، لاچارگی اور ذلت میری ہڈیوں میں آج بھی ویسے ہی موجود ہے، اور ساری عمر رہے گی۔ ایک وقت تھا جب میری اوقات یہ تھی۔ میں چاہے کچھ بھی بن جاؤں، وہ دن، وہ جڑے ہوئے ہاتھ، اور اپنے ہی آنسو، ہمیشہ تازہ رہیں گے۔

16 تبصرے:

  1. جو صاحب واقعہ پہ بیتی وہ داستان آج بھی پاکستان کے کسی بھی شہر یا قصبے میں دوہرائی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے۔

    اسمیں کوئی شک نہیں کہ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ذہن سے چپک کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن اگر ممکن ہو تو آپ کوئی ایسا نیک کام کریں جس سے مستقبل کے اسطرح کے بے بس لوگوں کی مدد کی جاسکے۔ انکے لئیے بہتر طریقے سے روزگار کی سہولتیں پیدا کی جسکیں، مہاء کی جاسکیں اللہ تعالٰی بھی اجر دے گا اور دل کو بھی صبر آجائے گا۔

    ایک بات کبھی مت بھولیں کہ اسی ملک میں کچھ لوگ اس سے بھی بدتر حلات سے گزر رہے ہیں اور انکی عزت نفس ہر روز پستی ہے اور ہمیں ان کی مدد کرنی ہے۔معاشرے کی برائیوں کو بہتری سے بدلنا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. باو، یار یہ بے بسی بھول سکتی ہے بلکہ فخر میں بھی بدل سکتی ہے۔ وہ ایسے کہ جب تیرے ہاتھ میں اختیار آئے تو بے بسوں کو عزت دینا اور اپنا اختیار ان کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا، اور انشاءاللہ وہ دن ضرور آئے گا جب ایسی بے بسی کے شکار، اس ملک میں اختیار پائیں گے۔۔ انشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. اپنا بچپن بھی ایک ایسے ہی خوفناک واقعے سے جڑا ہے۔ مخالفین جھوٹا مقدمہ قائم کرکے پولیس اور عدالتی بیلف گھر لئے آئے تھے۔ دھمکیاں تھیں کہ گھر کا دروازہ توڑ دیں گے۔ یاد کرنے کو دل نہیں کرتا ورنہ تفصیل لکھ ڈالتا۔ میری عمر ان دنوں صرف نو سال تھی۔
    والد صاحب اب پاکستان کا نام بھی لینا گوارا نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ اس ... سرزمین پر جو بھی شخص حق حلال کی کمائی کرتااور قانون پر عمل کرتا ہے وہ پاکستان پر احسان کرتا ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے .. کہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں حب الوطنی کا اصول یہ ہے کہ اگر تم ایماندار ہو تو بس حب الوطن ہو۔ ادھر پاکستان میں مظلوم ایمانداری کر کر کے ادھموا ہوجائے .. پھر بھی یہی ڈیمانڈ رہتی ہے کہ بھئی محب الوطن ہو کر دیکھاؤ۔
    خوب لکھا ہے۔۔
    آپ کے والد صاحب کی خدمت میں میرا سلام!

    جواب دیںحذف کریں
  4. غربت کی انتہا تو ہم نے بھی دیکھی لیکن اب وہ تکالیف یاد آتی ہیں تو رب العزت کا مشکور ہوتا ہوں۔کہ واقعی اس کی ذات خیر الرازقین ہے۔اللہ تبارک تعالی سے امید ہے کہ وہ سب کیلئے بہتری کرے گا

    جواب دیںحذف کریں
  5. ادھر لاہور میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع ہونے والا ہے

    آپ کے خیال میں کیا کرنا چاہئے؟
    لاہور میں بھی سبھی ریھڑیوں والے مظلوم ہوں گے
    تو ؟
    اوسر جی سارے معاشرے میں انصاف قائم ہو تو ایس باتیں زیادتی نہیں لگتی ہیں
    لیکن جب نسلی لوگ سب کجھ کر لیں اور عام لوگ کجھ بھی ناں تو
    دکھ یہاں سے جنم لیتا ہے
    اگر اپ کے رشتہ داروں میں نکل اتا کوئی جرنل





    تو







    اس





    اسٹیشن ماسٹر




    کی





    تشریف کا جو ھال ہونا تھا
    اس
    پر
    اس کے بیٹے
    کو
    ایک پوسٹ لکھی پڑتی
    لیکن وہ
    بھی
    تب






    اگر
    وہ
    بلاگر
    بن جاتا تو

    جواب دیںحذف کریں
  6. جاويد گوندل اور جعفر صاحبان کی تجويز ہی اس بے بسی کا علاج ہے
    ايسے واقعات ہر اُس معاشرہ ميں ہوتے ہيں جہاں انصاف انتخابی ہو يعنی صرف خاص طبقہ کيلئے
    ميرے پاس خالص امريکيوں کی آئی ہوئی ايسی ای ميلز ہيں جن ميں اُنہوں نے اپنی بے بسی اور انصاف کے فقدان سے تنگ آ کر خيال ظاہر کيا ہوا ہے کہ امريکا پر کوئی ايٹم بم مار دے ۔ البتہ ہمارے ہاں ظلم اور ظلم سے زيادہ بے حسی عام پائی جاتی ہے جو دين سے ناواقفيت کا نتيجہ ہے ۔ دين ہميں انصاف ۔ رحم اور رواداری سيکھاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  7. باو، یار یہ بے بسی بھول سکتی ہے بلکہ فخر میں بھی بدل سکتی ہے

    badal chuki heyyyyyyy..., aaj woh nannah sa bachcha aik qabl e fakher blogger hey.

    bas aik jumla mujhey achcha nahin laga keh
    ایک وقت تھا جب میری اوقات یہ تھی

    aap ki auqat us waqt bhi bahesiat aik insan blund thi aap ka khandan aik mehnat kash khandan tha, jo apney zor e bazu per ji raha tha, logon key galey, un ki jebein kat ker nahin ji raha that, aap is mulk key 90% logon ki numaindgi ker rahey they

    جواب دیںحذف کریں
  8. اپنی بے بسی اور غصے کو اپنی طاقت بنالیں،تمام فرعونوں کےخلاف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    Abdullah

    جواب دیںحذف کریں
  9. یہ آج آپ کو کیا سوجھی؟
    یہ کیسا لکھ ڈالا؟

    جواب دیںحذف کریں
  10. ہم پھر بھی خوش نصیب ہیں کہ اوائل میں ہی بے بسی دیکھ چکے۔۔
    جو اواخر میں بے بسی دیکھتے ہیں اب کی حالت کا اندازہ کیجیئے زرا

    جواب دیںحذف کریں
  11. سلام بھائی شاکر ایسے واقعات ھماری زندگی کے لمحات سے کہیں نہ کہیں جڑے ہوتے ہیں جنہی ہم چاہتے ہوئے بھی بھلا نھیں سکتے مگر انکو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں
    sarmad sultan
    l.saahil@yahoo.com

    جواب دیںحذف کریں
  12. aray bhai aap kay alfaaz pardh kr ALLAH ki kasam abhi apne us mulaazim ko kaam pr wapis bulaa lia hai jisne meray saath ziadti chala hai k ab wo beemar or berozgaar hai. is ka ajar aap k naam. kr k kam chora tha aur mujhay pata

    جواب دیںحذف کریں
  13. آپکی بات پڑھ کر مجھے بھی اپنے ساتھ ہوا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے، ابھی پچھلے برس کی ہی بات ہے۔
    آپ اسٹیشن ماسٹر کو معاف کرنے کی کوشش کریں اور جعفر مے مشورے پر عمل۔ یہی بہترین انتقام ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. معاف کر دینے میں عظمت ہے ۔اللہ پاک نے آپ کو بہت عزت دی ہے اور انشا ء اللہ مزید دے گا اور اس اسٹیشن ماسٹر کا پتہ نہیں کن گمنامیوں میں کھو گیا ہے ، درست ہے ایسے دکھوں کی کسک ساری زندگی محسوس ہوتی رہتی ہے،ایف ایس سی میں ہمارے کیمسٹری کے لیکچرار نے محض ایک دو لیکچر شارٹ ہونے پر میرا داخلہ روک لیا تھا اور میری ہر طرح کی منت سماجت کسی کام نہ آئی تو نے اس کو کہا کہ میرا مستقبل تاریک ہو گیا تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے اور پھر وہی ہوا داخلہ ریگولر نہ جانے کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ تعطل کاشکار ہوا اگر چہ اللہ نے سب کچھ دیا ہوا ہے مگر یہ کسک کبھی کبھی بہت ستاتی ہے کہ اگر سلسلہ تعلیم معطل نہ ہوتا تو شاید کسی اور مقام پر ہوتا او پھر اکثر اس کے لئے بد دعا بھی منہ سے نکل جاتی ہے

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔