جمعہ، 9 ستمبر، 2011

مقابلے بازی

پنجابیوں میں ایک بڑی گندی عادت ہے۔ خصوصاً متوسط اور اس سے نچلے طبقات میں، کہ کسی کو کھاتا ہوا کم ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یا تو حسد کرنے لگتے ہیں یا پھر اس کے مقابلے میں کام شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے نہیں علم کراچی یا دوسرے صوبوں اور شہروں میں کیا صورت حال ہے۔ لیکن میں نے اپنے شہر میں کئی بار اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ ایک ریڑھی والا دوسرے کو برداشت نہیں کرے گا، ایک دوکاندار دوسرے کو برداشت نہیں کرے گا۔ اگر ایک کا کاروبار چل پڑا ہے تو اس کے سامنے یا بالکل ساتھ ایک حریف آکر بیٹھ جائے گا۔ اور اس کا واضح مقصد یہی ہوگا کہ اس بندے کے گاہک توڑے جائیں۔
ابو جی ناشتہ لگایا کرتے تھے، تو اس آٹھ نو سالہ دور میں کئی بار حریفوں سے پالا پڑا۔ کچھ لوگ عرصے تک ٹکے رہے، کچھ چند دن بعد ہی بھاگ جایا کرتے تھے۔ اس ساری صورت حال میں گھر میں بہت ٹینشن ہوا کرتی تھی۔ ایک ریڑھی والے کی محدود سی آمدن میں اگر کوئی حصے دار بن جائے تو اس کے لیے تو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر یہی ہوگا۔ مجھے یاد ہے ابو کا رویہ تلخ ہو جایا کرتا تھا، میرا دل وسوسوں سے بھرا ہوا رہتا تھا اور امی جی کے چہرے پر خدشات کے سائے گہرے ہوتے چلے جاتے تھے۔ وہ دن گزارنے بہت اوکھے ہوتے تھے۔ آج بھی وہ دن یاد آجائیں تو بے چینی پیدا کر دیتے ہیں۔
انہی دنوں کی ایک یاد ایک موٹے ریڑھی والے کے شروع کے دن بہت تناؤ والے تھے۔ اس نے ہمارے اڈے سے صرف دس میٹر دور آخر ریڑھی لگا لی تھی۔ شروع شروع کے چند دن اس کے بعد کوئی گاہک نہیں آتا تھا۔ تو وہ اور اس کا میرا ہی ہم عمر بیٹا، ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے رہتے اور دیکھتے رہتے۔ کہتے ہیں نظر تو پتھر پھاڑ دیتی ہے، تو وہ نظریں مجھے بہت تناؤ کا شکار کر دیتی تھیں۔ اللہ اس بندے کے رزق میں برکت دے، وہ سال یا زیادہ عرصہ وہاں رہا، اور پھر کاروبار کی مندی کی وجہ سے چھوڑ گیا۔
اب تو اللہ سائیں کی رحمت ہے، رب کا شکر ہے، وہ دن لد گئے اب ہم ہیں اور دوسرے غم ہیں۔ ابو جی دوکان کرتے ہیں۔ لیکن مجھے وہ دن پھر سے یاد آجاتے ہیں، خاص طور پر مقابلے پر بیٹھے ویلے دوکاندار کی گھوریاں۔ ہمارے گھر کے سامنے چوک ہے، اس میں ایک تکے والا ہے، پنجاب تکہ شاپ۔ وہ قریباً دس سال سے یہاں کاروبار کر رہا ہے۔ اس سارے عرصے میں اس نے اپنا معیار بنایا ہے، اپنی ریپوٹیشن بنائی ہے اور گاہک اس کے پاس دور دور سے آتے ہیں۔ اگرچہ یہ دوکان مین روڈ پر نہیں، لیکن پھر بھی وہ اچھا خاصا کما لیتا ہے، کئی ایک نوکر رکھے ہوئے ہیں اور خوشحال ہے۔ اس کے بالکل سامنے سڑک کے اس پار بشیر سویٹس ہوا کرتی تھی۔ بشیر مٹھائی والا مر گیا تو اس کے تین بیٹے اس کو چلاتے رہے۔ اس کے بعد کوئی چار سال پہلے انہوں نے بند کر دی مٹھائی کی دوکان۔ لیکن کوئی پانچ سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ مٹھائی والے اس تکے والے کے مقابلے میں تکے والوں کو اپنی دوکانیں کرائے پر دیتے ہیں۔ کبھی ان سے شراکت داری کر کے کبھی ویسے کرائے پر۔ اور میں نے ہر بار یہ مقابلے باز تکے والے بھاگتے ہی دیکھے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں کوئی چار تکے والے مقابلے پر آچکے ہیں۔ بڑی شان و شوکت سے سامان آتا ہے۔ بلب سجتے ہیں، میز کرسیاں بچھتی ہیں اور رنگ و روغن کروا کے پھر سے کاروبار شروع ہوتا ہے۔ لیکن ایک دو ماہ میں سب ہی بھاگ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ جتنی آمدن کی توقع کر رہے ہوتے ہیں اتنی آمدن ہوتی ہیں، اور اخراجات بڑھ جانے پر بھاگ جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ پنجاب والے کے پاس کیا جادو ہے، اس کا گاہک بہت ہی کم ٹوٹتے دیکھا ہے میں نے۔ اور سامنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے سے ہی لگ رہا تھا کہ نیا مقابلے باز آرہا ہے، رنگ و روغن ہوا، سامان آیا اور عید والے دن سے تکے کی دوکان کھل گئی۔ اور اب میں پچھلے دو تین دن سے رات بارہ بجے کے قریب سونے سے پہلے باہر نظر ماروں تو وہ اور اس کے کارندے ویلے بیٹھے سامنے تک رہے ہوتے ہیں جہاں پنجاب والے کے پاس اور کچھ نہ سہی تو دو چار گاہک تو ہوتے ہی ہیں۔ اور مجھے لگ رہا ہے کہ یہی صورت حال رہی تو یہ بھی بھاگ جائے گا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر لوگوں کے پاس مقابلے بازی کا جگرا نہیں ہوتا تو مقابلے پر آتے ہی کیوں ہیں۔ شاید جدید کاروباری اخلاقیات میں ایسے متھے پر دوکان کھول لینا کچھ برا نہ ہو، بلکہ یہ کسی کا بھی حق ہے کہ جہاں بھی چاہے جو بھی چاہے کاروبار کرے۔ لیکن میرے خیال سے یا تو آپ کے پاس اتنا وقت اور روپیہ ہونا چاہیے کہ آپ مقابلے بازی کر سکیں۔ یا آپ اتنے سے کام شروع کریں کہ ویلا بھی رہنا پڑے تو اخراجات تنگ نہ کریں۔ لیکن اگر آپ ایک چلتے کاروبار کے سامنے اچھی خاصی سرمایہ کاری کرکے بیٹھ جائیں کہ پکی پکائی مل جائے گی تو یہ خام خیالی ہے۔ اور اخلاقی طور پر تو میرے خیال میں آمنے سامنے ایسے دوکانداری شروع کرنی ہی نہیں چاہیے۔ کوئی چار دوکانیں چھوڑ کر کام شروع کرنا چاہیے اور اپنا نام بنانا چاہیے نہ کہ دوسرے کے کام سے چوری کرنا یا لوٹنا، میرے لیے تو یہ ڈکیتی ہی ہے جو نیا دوکاندار پرانے کے گاہکوں پر کرتا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟

12 تبصرے:

  1. بہت اچھی تحریر ہے۔

    سندھ بھی یہ رواج کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔ حیدرآباد شاہی بازار میں لائن سے اتنے سارے لوگ حاجی ربڑی کے نام سے کام کر رہے ہیں، بہت عجیب لگتا ہے ہر دکان پر ایک ہی نام دیکھ کر۔

    بندر روڈ پر ایک بار سعید غنی خوشبو والوں کے پاس جانا ہوا۔ جب خوشبو وغیرہ لے کر اس دکان سے نکلا تو دیکھا کہ سعید غنی کی دوکان تو دو دوکان آگے ہے اور یہ اس سے ملتے جلتے نام کی دوکان ہے۔

    ہمارے ہاں جیو کے نام سے دودھ کی دوکان تک کھلی ہوئی ہے۔

    میں سوچتا ہوں لوگوں میں اتنا اعتماد تو ہونا چاہیے کہ اپنی برانڈنگ خود کریں اور اپنی ساکھ بنائیں نہ یہ کہ کسی اور کی محنت پر طفیلیے بن جائیں۔

    لیکن کیا کیجے کہ آج کے دور میں کاروبار میں اخلاقیات کا دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. صرف پنجاب کا ہی نہیں۔۔۔
    ساری دنیا میں یہ بات رائج ہی کہ کسی کو پھلتے پھولتے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
    جو حسد کرتے ہیں انہیں میں نے کم ہی کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔
    میرے ساتھ ایک دفعہ یہ معاملہ ہوا کہ اوکشن میں گاڑیاں خرید رہا تھا۔۔۔اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ کاروباری حلقے میں کچھ نام کما چکا ہوں۔
    کچھ ریلیکس ہونے کیلئے باہر گیا اور چند دوسرے پاکستانیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر گپ شپ لگا رہا تھا اور کافی پی رہا تھا۔ان حضرات میں سے صرف ایک صاحب مجھے جانتے تھے لیکن وہ بھی میری کمپنی کا نام نہیں جانتے تھے۔
    ایک صاحب نے میری کمپنی کا نام لیا جنہیں میں بالکل نہیں جانتا تھا۔
    الٹے سیدھی باتیں شروع کردیں کہ یہ بندہ دو نمبر طریقے سے کام کرتا ہے اس لئے اتنی گاڑیاں اٹھا تا ہے۔

    میں نے چند آدمیوں کے سامنے ہی پوچھا آپ اس بندے کو جانتے ہیں۔ وہ بولے ہاں بہت اچھی طرح میں تو اس بندہ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں۔کھاتا پیتا ہوں۔
    میں نے وزٹینگ کارڈ نکال کر سب حضرات کو دئیے اور کہا یہ بندہ میں ہی ہوں اور جناب اعلی کو زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے۔
    میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ صاحب وہاں سے بھاگنے لگے تو وہاں کھڑے دوسرے حضرات نے آوازیں کس کر انہیں خوب بے عزت کیا۔
    بعض اوقات حاسد لوگ ذہنی مریض تک ہو جاتے ہیں۔
    کاروبار میں میرا تجربہ کہتا ہے کہ اگر اچھے طریقے سے معاملات کئے جائیں تو گاہک آپ کے پاس ہی آئے گا چاہے اسے کہیں کتنا ہی اچھا اور سستا مال کیوں نا ملے۔
    اگر آپ بھی گاہک ہیں تو سستا اور اچھا مال اٹھانے کے بجائے اعتبار والی جگہ سے مال اٹھائیں گے کہ مسلسل ایک کاروبار کرنے کیلئے اعتبار سب سے اہم چیز ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. جو دوسرے کی سالوں میں حاصل کردہ ساکھ کے بل بوتے پر کاروبار چلانے کی سوچتے ہیں، انہیں کبھی کامیاب ہوتے دیکھا نہیں ہے، لیکن یہ مرض بہت پھیلا ہوا ہے۔ اس اخلاقی گراوٹ کے باعث ہی ہم دنیا میں پیچھے کیونکہ ہم میں بنیادی اخلاقیات موجود نہیں۔
    بہرحال، کراچی میں میرے سامنے دو مثالیں ہیں، ایک تو برنس روڈ پر مشہور فریسکو سویٹس ہے، اس کے بالکل برابر میں ایک جعلی دکان بھی ہے فسیکو کے نام سے۔ لیکن اس کی دکان کھولنے سے میرا نہیں خیال فریسکو پر فرق پڑا ہوگا، بہرحال ایسے لوگ بھی موجود ہیں تو دوسری جانب ایسے بھی ہیں کہ لانڈھی کے علاقے میں ایک بہت بڑی دکان ہے رضوان سویٹس۔ یہ دکان واقعتاً ایک گلی کے اندر واقع ہے لیکن اتنی چلتی ہے کہ اس پورے علاقے میں اس سے زیادہ کمانے والی دکان نہیں ہوگی۔ رضوان صاحب جنہوں نے یہ دکان کھولی تھی، ساری زندگی اپنی دکان پر پکوڑے، سموسے اور جلیبی نہیں بیچی، کیونکہ جب انہوں نے پہلی مرتبہ یہ کام شروع کیا تھا تو اس جگہ پر ایک صاحب پہلے ہی سے ان لوازمات کا ٹھیلہ لگایا کرتے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی اپنی دکان پر یہ چیزیں نہ بیچیں کہ کہیں اس ٹھیلے والے کے کاروبار کو نقصان نہ پہنچے۔ مرتے وقت بھی وہ اپنے بچوں کو نصیحت کر گئے کہ جو چاہے بیچو لیکن اپنے پڑوسی کا خیال کرنا اور سموسے، پکوڑے اورجلیبیاں مت بیچنے شروع کر دینا۔
    لیکن افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ جعل سازوں کی بہتات ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت اعلی تحریر ہے، اور تبصرے بھی بہت زبردست

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت زبردست تحریر ہے اور تبصرے بھی شاندار ہیں۔ بڑے دنوں بعد اردو بلاگستان پڑھتے ہوئے ماحول بدلا بدلا سا لگ رہا ہے کیونکہ یہاں بھی کچھ بھیڑ چال محسوس ہو رہی تھی۔ شاید مجھے محسوس ہو رہی ہو جبکہ حقیقت میں ایسا نہ ہو۔ بہر حال موضوع کے لحاظ سے میری یہ سوچ ہے کہ ”میرا رزق مجھے ہی ملنا ہے اور میں چاہے کچھ بھی کر لوں کسی کا چھین نہیں سکتا اس لئے کسی کے کام میں ٹانگ نہ اڑاؤ“۔ آپ نے جو صورت بیان کی اس میں اور جان بوجھ کر ملتے جلتے ناموں سے کام شروع کرنا تو یقینا دوسرے کے گاہکوں پر ڈکیتی ہے، غلط ہے اور غیر اخلاقی حرکت ہے۔ ویسے اگر انسان تھوڑا سا ایمانداری سے سوچے تو اسے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کسی کی حق تلفی یا غیر اخلاقی حرکت کر رہا ہے یا نہیں۔ لیکن کچھ دوسری صورتیں بھی ہیں جیسے ہال روڈ لاہور پر ساری یا زیادہ تر دوکانیں الیکٹرونکس کی ہیں۔ ایسی صورت میں ایک مرکز بنتا ہے اور گاہکوں کو آسانی ہوتی ہے۔ ویسے ایک وقت وہ بھی تو ہو گا جب ہال روڈ پر صرف ایک دوکان ہو گی اور پھر کسی دوسرے نے بنائی ہو گی۔ تب پہلی دوکان والے نے کیا سوچا ہو گا؟ خیر اب تو بڑے پیمانے پر ایسے پروجیکٹ ہیں جہاں پر پلازہ یا مارکیٹ صرف خاص قسم کے کاروبار کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔ پھر وہی کہوں گا کہ صورت کوئی بھی ہو اصل چیز انسان کی نیت ہے اور انسان کو خود پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. بھائی جان
    آپ کا اعتراض مقابلے بازی پر ہے یا ناجائز ہتھکنڈوں والی مقابلہ بازی پر ہے؟ پوسٹ کچھ واضح نہیں آپ نے دونوں کو گڈ مڈ کردیا ہے۔ اگر ایک جگہ کسی چیز کی مارکیٹ ہے تو اپنی محںت اور جائز ذرائع سے مقابلہ پر اترنے میں کیا قباحت ہے؟ بلال کی ہال روڈ والی مثال اس سلسلے میں خوب ہے۔
    رہا ناجائز ہتھکنڈوں کا سوال تو یہ محض پنجابیوں کی خصلت نہیں۔ بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں بھی ایسی حرکتیں کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں آج کی یہ خبر ملاحضہ کیجئے۔
    خلاف معمول اور قابل فہم طور پر آپ کی اس پوسٹ میں تجزیہ کی بجائے جذباتی عنصر نمایاں ہے۔ بہرحال کاروباری سمجھ بوجھ کی معاملے میں میں پیدل ہوں۔ اعتراض کا برا مت مانیے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. تمام احباب کا شکریہ۔ :-D
    عثمان اس میں جذباتی عنصر بالکل ہے۔ چونکہ میرے ساتھ یہ بیت چکی ہے۔ اصل میں چھوٹے پیمانے پر ہونے والے کاروبار کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اب دیکھیں ہمارے محلے کی چوک میں کاہے کی تکے کی مارکیٹ۔ یا ایک فیکٹری کے سامنے موجود چھپر ہوٹل کے ساتھ ایک اور ہوٹل کھل جائے تو کاہے کی مارکیٹ۔ وہاں کس نے آنا ہے دور دور سے کھانا کھانے۔ وہ تہ مزدور ہی ہیں اسی ایک فیکٹری کے، ہوگا بس یہ کہ گاہک تقسیم ہوجائے گا اور پہلے جو بندہ کام کر رہا تھا اس کی آمدن کم ہوجائے گی۔ تو میرے حساب سے ایسی مقابلے بازی کاروباری اخلاقیات کے منافی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. بہت خوب ۔۔۔
    بھائی جس کے ساتھ بیتتی ہے وہی بہتر جانتا ہے۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. رزق اللہ دیتا ہے جس کا جتنا حصہ ہوگا اسے ملے گا
    لیکن یہ بات بھی ہے کہ محنت جو جتنی کرے گا اتنا ہی اسے ملے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. very good and original observation such things happen alot and all this bud from an emotion calls jealousy

    جواب دیںحذف کریں
  11. دیکھیں شاکربھائی، رزق من جانب اللہ تعالی کے ہوتاہے اور یہ ہماری خام خیالی ہے کہ کوئی ہمارے رزق میں سے لے لے گااورجس کاروباربلکہ کسی بھی کام کی ابتداء نیت ہی خراب ہوتووہ کاروبارہویاکام کیسے بلندی کو چھو سکتاہے۔ اللہ تعالی ہم کواخلاقی طورپرپختہ کرے۔ آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  12. مقابلہ مشکل ضرور ہوتا ہے مگر ہماری دنیا کی تعمیر ہی ایسی ہے کے مقابلے کے بغیر کوئی نظام چلنے کے لائق نہیں۔ آپ نے کیا
    Atlas Shrugged
    پڑھی ہے؟

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔