اس قوم کے گھروں میں بجلی نہیں آ رہی لیکن اسے بجلیاں چڑھی ہوئی ہیں۔ کہیں سے صدا اٹھتی ہے کہ ایران مفتو مفت ہی بجلی دینے کو تیار ہے،کہیں سے میسج آتا ہے کہ چین 300 روپے مہینہ میں بجلی مہیا کرنے کو بس تیار ہی بیٹھا ہے ہاں کرنے کی دیر ہے۔ اور فیس بُک پر تصویریں رُلتی پھرتی ہیں کہ ڈاکٹر قدیر نے 90 دنوں میں بجلی بنانے کا دعوی کر دیا بس 3 سال پرانے اس دعوے کو قبول کرنا باقی ہے جو کہ حکومت نہیں کر رہی۔
پاکستانی قوم ایک ایسی افسانوی دنیا میں رہنے کی عادی ہے جس سے باہر نکلنا اسے پسند نہیں۔ منطق سے بات کرو تو کھوپڑی میں اترتی نہیں۔ اگر اوپر کیے گئےدعوؤں کو کوئی چیلنج کر دے تو مامے خاں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ آپ کی ماں بہن بھی ایک کر ڈالتے ہیں۔ ثبوت مانگو تو آگے سے طعنوں تشنوں کی ڈبل بیرل بندوق چل پڑتی ہے۔
میں معاشیات کا کوئی ماما نہیں ہوں، عام سا قاری ہوں بس روزانہ اخبار پڑھنے کی عادت ہے۔ اور ایک اور گندی عادت ہر بات پر سوال اٹھانے کی ہے۔ جب سے میری کھوپڑی میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ یہاں فیس بک، میسج اور منہ زبانی گردش کرنے والا ہر ایک "فلاحی پیغام" ایک منظم پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد اس قوم کو سلائے رکھنا ہے۔ کاکا سُتے رہو، منزل بس دو ہاتھ رہ گئی ہے، بس اتنی سی کسر رہ گئی ہے۔ بس ایران سے بجلی آ گئی، بس چین کو کنٹرول دو بجلی کا، بس ڈاکٹر قدیر خان کے ہاتھ میں روپیہ دو اور دیکھو۔ ارے پاکستان تو جنت میں ہے بس اس جنت کا پیکج ایکٹیویٹ کرانے کی ضرورت ہے۔
بڑی گندی عادت ہے جی ہر چیز پر سوال اٹھانے کی۔ مثلاً یہی لے لیں کہ کئی دنوں سے یہ سوال کھوپڑی میں ناچ رہے ہیں۔
آخر چین ہمارا اتنا ماما کہاں سے ہو گیا کہ دس ڈالر ماہانہ میں ہمیں بجلی مہیا کر دے؟ اگر فرض کیا مہیا کرتا بھی ہے تو قراقرم کے پہاڑوں میں سے بجلی کی تاریں بچھائے گا یا وائرلیس کے ذریعے بجلی آیا کرے گی؟ سوال تو یہ بھی ہے نا کہ تیل کہ چین جو خود تیل کا سب سے بڑا خریدار، کوئلے کا ویری اور ہر رکازی ایندھن کا دشمن ہے کہ اسے اپنی صنعت کا پہیہ چلانا ہے سوا ارب لوگوں کے پیٹ کا جہنم بھرنا ہے وہ اتنا ماما کیسے ہو گیا ہمارا کہ صرف 300 روپے میں بجلی مہیا کرنا شروع کر دے؟ جبکہ آپ کے اپنے ملک میں پن بجلی بھی پیدا ہونے لگے تو اس کی قیمت بھی تین سو نہ ہو۔ آپ کی کرنسی کی مت ہی اتنی وج چکی ہے سرکاراں۔
ایران کے بڑے ہیج چڑھے ہوئے ہیں لوگوں کو۔ ایران گیس دے گا، ایران بجلی دے گا، یہ کوئی نہیں سوچتا ایران کیا لے گا؟ ایران نے گیس دیتے وقت اس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کے ساتھ منسلک کرنے کی شرط رکھی تھی۔ اس سے سستی گیس ترکمانستان دے سکتا ہے۔ اگر کبھی دے سکا تو۔ ایران کے ساتھ تجارت کا مطلب ہے کہ آپ کے بینک امریکہ میں بین۔ اس مطلب ہے کہ ایران سے تجارت صرف بارٹر سسٹم کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی؟ نہیں ہے بس باتیں ہیں۔ اور ہاں اگر پیسے بھی دینے پڑے تو ڈالروں میں جائیں گے اور آپ کے پاس اپنے نوٹوں کے (ردی کے) ڈھیر ہی ہیں، ڈالر جو آتے ہیں وہ فارن بل ادا کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ڈاکٹر قدیر صاحب کو ہر مرض کی دوا سمجھ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سیاست میں آئیں۔ ڈاکٹر صاحب بجلی بنائیں۔ ڈاکٹر صاحب یہ ڈاکٹر صاحب وہ۔ تابکاری کی وجہ سے کینسر کا شکار ایک بوڑھا شخص، اس بے چارے کو ہر جگہ گھسیٹ لیتی ہے یہ قوم۔ ارے ڈاکٹر قدیر ہے لکڑ ہضم پتھر ہضم پھکی نہیں ہے جو سر درد، آنکھوں کی کمزوری اور معدے کی کمزوری سے لے کر گنٹھیا تک کے علاج میں استعمال ہو جاتی ہے (اور آرام پھر نہیں آتا)۔ ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک سے ایٹمی ٹیکنالوجی چرائی تھی، اپنا کیرئیر برباد کیا اور آپ کے ملک کو ایٹم بم بنا کر دے دیا۔ اب بس کرو جناب ان کا کام پورا ہو گیا اس بے چارے بوڑھے کو اب تو سکون سے جی لینے دو۔ عجیب چائنہ کٹ قسم کے ہیروہوتے ہیں ہمارے ہر کام کر لیتے ہیں۔ 90 دنوں میں بجلی کا بحران بھی ختم کر دیتے ہیں۔
یہ 90 دن میں بجلی کا بحران ختم کرنے والی بھی خوب رہی۔ کل فیس بک پر ایک صاحب اچھے خاصے جذباتی ہو گئے کہ اگر ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو ایٹمی بجلی گھر بنانا تو خالہ جی کا واڑہ ہے۔ میں نے کہا بھائی صرف یہ بتا دو کہ ایک ایٹمی بجلی گھر تیار ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے، کسی حوالے کے ساتھ تو میں مان جاؤں گا۔ تو فرمانے لگے آپ ثابت کر میں کیوں کراں؟ بڑی گل کیتی اے وئی۔ پتا نہیں ہماری موٹی کھوپڑی میں یہ بات کب آئے گی کہ چوری کا ڈیزائن لے کر ایٹم بم بنا لینے میں تیس سال لگ گئے تھے، اگر اسی طرز پر ایٹمی بجلی گھر بھی بنانے لگے تو پانچ سال تو انتظار کرو میرے بھائی۔ کراچی کا ایک تھکڑ سا ایٹمی بجلی گھر جو جتنی بجلی بناتا ہے اس سے آدھی خود پی جاتا ہے۔ اور چشمہ کے دو ایٹمی ری ایکٹر جو جھونگے جتنی بجلی مہیا کرتے ہیں۔ چھ سو میگا واٹ اور کہاں پانچ ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال۔ یہ چشمہ بھی چین کا سر چشمہ ہے ورنہ آپ کے گوڈوں میں اتنا پانی نہیں ہے کہ ایٹمی بجلی گھر تیار کر سکیں۔ ارے پیسے ہی نہیں ہیں ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کے لیے اور کیا کرنا ہے۔
ہاں پیسوں کی بھی خوب رہی۔ بجلی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قوم کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ پر ہیں۔ پیسے ہیں۔ ماہانہ کروڑوں یا شاید اربوں کے نئے نوٹ چھپتے ہیں، چناچہ اگر اس ملک میں کسی چیز کی پیداوار روز افزوں ترقی پر ہے تو وہ نوٹ ہیں۔ نوٹ چھپتے ہیں تو پھر نوٹ زیادہ اور پیداوار کم، نتیجہ یہ کہ سبزی مہنگی نوٹ سستے، بجلی مہنگی نوٹ سستے، پٹرول مہنگا نوٹ سستے، آٹا مہنگا نوٹ سستے۔ حکومت تو اپنا کام کیے جا رہی ہے ہمارے پچھواڑے میں ڈانگ دئیے جا رہی ہے۔ نہ آمدن ہو نہ سرکلر ڈیٹ کا منحوس چکر ختم ہو اور نہ بجلی بنانیوالے پوری پیداوار دیں۔ مجھے تو ڈر اس وقت سے ہے کہ پاکستانی سرکار پاکستانی بینکوں کے سامنے ڈیفالٹر ہو جائے، دیوالیہ۔ جتنے قرضے یہ بینکوں سے لے رہے ہیں، اپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے، اپنے حلقوں کو خوش کرنے کے لیے ترقیاتی کام کرانے کے لیے، مجھے ڈر ہے کہ یہ سرکار دیوالیہ ہو جائے گی۔ اور یونان والا حال ہوگا اس ملک کا۔ یقین نہیں آتا تو اسٹیٹ بینک کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لو، ہر رپورٹ میں یہی رنڈی رونا ہوتا ہے کہ حکومت بہت زیادہ قرضہ لے رہی ہے۔
اور جاتے جاتے پانی کا حال بھی سنتے جائیں۔ یہ گلیشئیر اگلے تیس سال نکال گئے تو معجزہ ہو گا۔ جہاں سیاچن اور بالتورو کے ڈھیر ہیں وہاں صفا چٹ پتھر ہوں گے چند دہائیوں میں اور میٹھے پانی کا ذریعہ ٹھُٹھو۔ نہ پانی ہو گا، نہ ڈیم ہوں گے، نہ پانی محفوظ ہوگا نہ پینے کو ملے گا نہ بجلی بنانے کو ملے گا۔ اور آپ کے دریا تو پہلے ہی انڈیا لیے جا رہا ہے۔ بس تھوڑا سا اور صبر کرلو فیر ویکھو دما دم مست قلدر۔
ہاں حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی اور پرانا ہیرو جو ادھر ادھر پڑا ہو جھاڑ پونچھ کر دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے تاکہ عوام کا مورال بلند رہے، اسے نشے کا ٹیکا لگا رہے اور سُتی رہے۔ ستے خیراں، رہے نام اللہ کا جس نے جھوٹوں کے لیے بھی ان کا عمل اتنا خوشگوار بنا دیا کہ وہ اسے ہی سچ سمجھتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا
جواب دیںحذف کریںدو باتیں وضاحت طلب ہیں جی۔
جواب دیںحذف کریں۔1-گلیشیئر کیوں ختم ہو جائیں گے؟ یہ تو قدرتی عمل ہے نا جو کہ مسلسل ہو رہا ہے' ٹھیکے پے تھوڑا چل رہے ہیں۔ کمی بیشی ہاں ممکن ہے جیسا کہ کل کی ایک خبر میں تھا کہ ہمالیہ کے گلیشیئرز کم نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
http://www.huffingtonpost.com/2012/04/15/himalayan-mountains-show-some-growth_n_1426797.html?ref=green
دوئم یہ کہ جی ایٹم بم چوری نہیں کیا' حاصل کیا ہے۔کیونکہ علم حاصل کیا جاتا ہے یا سیکھا جاتا ہے' چوری تو نہیں کیا جاتا نا۔۔۔۔۔۔
درست تصویر کشی کی ہے ۔ جب مشرقی پاکستان میں سورج ڈوب رہا تھا (دسمبر 1971ء) تو کہا جا رہا تھا "فکر کی کوئی بات نہیں امریکا کا ساتواں بیڑا پہنچنے کو ہے" ۔ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ "ساتواں بیڑہ پاکستان بچانے آ رہا ہے یا بنگلہ دیش بنانے ؟" جوب ملا "تم اُلٹی بات ہی کرو گے"۔
جواب دیںحذف کریںپائی جان
جواب دیںحذف کریںہم تو وہ لوگ ہیں کہ مولانا رومی کے مقبرے کی تصویر کو نبی پاک کے مقبرے کا بتایا جاتا ہے تو ہم فیس بک پر سلام یا رسول اللہ کہتے ہیں۔
عمدہ تصویر کشی ہے
بہت عمدہ شاکر عزیز صاحب، کیا خوب بھڑاس نکالی ہے آپ نے، یقین جانیے یہ مضمون لکھ کر آپ نے بہت سے لوگوں کی طرف سے انکی دلی خواہشات کا تقریری پیراے میں اظہار کیا ہے جس کے لیے آپ کا ممنون ہوں۔تمام باتوں سے تو کسی کی بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا لیکن احقر کے نزدیک یہ مضمون آواز دوست سے زیادہ نوشتہ دیوار ہے۔
جواب دیںحذف کریںلوگوں کو امید دلانا اچھا ہوتا ہے لیکن پہلے حقائق سے باخبر کرنا غالبا اس سےبھی بہتر کہ یاس و امید کی جس کیفیت میں ہماری قوم اس وقت مبتلا ہے، اس کی عکاسی اس مضمون سے بہتر شائد نہیں ہوسکتی۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائ کی۔
سعود پاء جی پچھلے کئی سالوں سے یہی رنڈی رونا سن رہے ہیں کہ گلیشئیر پگھل رہے ہیں۔ اسی تناظر میں بات کی تھی۔
جواب دیںحذف کریںاور ایٹم بم کا فارمولا، ڈیزائن،، بلو پرنٹس، ٹیکنالوجی اور سارا کچھ چوری ہی کیا ہے جی کئی سالوں تک پاکستانیوں نے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ انہوں نے آپ ایجاد نہیں کیا یہ۔
باقی سب تو ٹھیک ہے ، لیکن ڈاکڑ عبدالقدیر صاحب کے بارے جو حسن نثاری الفاظ تھے وہ دل تنگ کر گئے ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںمیں جانتا تو نہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ تاہم اگر چین سستی بجلی دینے کے لیے حامی بھرتا ہے تو وہ بہت سی چیزوں کا کنٹرول مانگے گا۔
جواب دیںحذف کریںجیسے
ڈیم بنانے کا کنٹرول، اپنی مرضی کے علاقے پر اپنی مرضی کے وقت، جس میں کوئی مداخلت نہ ہو۔
اب وہ چین سے اپنے بندے اٹھا کر یہاں لائے گا ، پراجیکٹ پر محنت کرے گا تو یقیننا منافع کھانا بھی اس کا حق بنتا ہے۔
ڈیم بنانے کے بعد ڈیم کا مالک وہ ہو گا، جب تک اس کا دل چاہے، زمین پاکستانی ہو گی اور ڈیم اس کی ملکیت
اسی طرح وہ امریکہ کی طرح ملک میں مزید عمل دخل کی ڈیمانڈ کرے گا۔
یہ سبھی حقائق مد نظر رکھنے ہوں گے۔ اس کے بعد شاید 300 ماہان میںممکن ہو سکے
ہو سکتا ہے ، میری بات حقیقت کے قریب نہ ہو تاہم اگر چین کا پلان کوئی اور بھی ہو تب بھی ہمیں بغیر کسی چیز کا سودا کیے فائدہ نہیںملنے والا۔
دیکھیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب پر چوری کی حسن نثاری تہمت دُہرا کر خود آپ نے اُسی حرکت کا ارتکاب کیا ہے جس کا الزام آپ پوری قوم کو دے رہے ہیں ۔ یعنی غیر منطقی سوچ اور اپروچ وغیرہ۔ بغیر کسی حوالے اور ثبوت کے دوسروں کی سنی سنائی بات پر یقین لے آنا۔
جواب دیںحذف کریںحضور ذرا اپنا ریکارڈ درست فرمالیجیے۔ ڈاکٹر صاحب کی غیر موجودگی میں اُن پر ہالینڈ کی ایک عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چلا تھا۔ عدالت نے یکطرفہ کارروائی کے بعد انھیں جاسوسی کے جرم میں چار سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس پر ایس ایم ظفر نے ہالینڈ جا کر ان کا مقدمہ لڑا۔ اس مقدمے کی تیاری میں خان صاحب کے مربی پروفیسر مارٹن بریبرز صاحب اور دیگر یورپی افراد و اداروں نے ظفر صاحب کی مدد کی۔ انھوں نے عدالت کو باور کرایا کہ خان صاحب پر جس سائنسی و تکنییکی معلومات کے چرانے کا الزام ہے وہ تو گریجوئیٹ سطح کی درسی کتب میں دستیاب ہیں اور دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں کھلے عام پڑھائی جارہی ہیں۔ کئی سماعتوں کے بعد عدالت نے خان صاحب کی سزا کو قانونی تکنیکی بنیادوں پر ختم کر کے انھی باعزت بری کر دیا تھا۔
حیرت ہے کہ آپ دوسروں کو جس غیر منطقی طرز عمل کا طعنہ دیتے ہیں ، خود ہی اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو اللہ کریم ان کے اعمال حسنہ پر جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور ہمیں ان کی جائز قدر کرنے کی توفیق بخشے۔
عبد اللہ نور
جناب من یہاں ڈاکٹر صاب کے ہالینڈ سے چرائے گئے علم کی طرف اشارہ نہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف اشارہ ہے۔ جسے ٹوٹا ٹوٹا کر کے پوری دنیا سے اسمنگلنگ کے ذریعے پورا کیا گیا۔
جواب دیںحذف کریںاب ڈاکٹر صاحب کی بدقسمی کے اس سارے عمل کے سرغنہ کے طور پر ان کا نام سامنے کر دیا گیا۔ وہ بات اسی تناظر میں کی گئی تھی۔
اور اگر آپ احباب میں سے کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہمارا ایٹمی پروگرام چوری کی ٹیکنالوجی پر کھڑا کیا گیا، تو آپ کی سوچ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ایسی شترمرغانہ سوچ اس قوم کی ہمیشہ سے خاصیت رہی ہے۔
واہ جی کیا مضمون لکھا ہے آپ نے
جواب دیںحذف کریںزبردست
بھائی شاکر، بہت اچھامضمون لکھاہے لیکن آپ کی ڈاکٹر قدیروالی بات سے مجھے بھی تکلیف ہوئي ہے آپ نےشاید جاویدچوہدری صاحب کا کالم پڑھاہوگاجسمیں انہوں نے ہماری قوم کو شکی کہاہے کیونکہ ہم ہرکسی پر شک کرتےہیں کہ اس کی وجہ سے یہ کامیاب ہواہے یہ وجہ تھی کیوں آخر ہم اس بندے کی کامیابی کومانتے کیوں نہیں ہےکیاوجہ ہے اورواقعی آپ نے حقیقت کی قریب بات کی ہے لیکن یہ بات سچ ہے کہ ہم خواب بہت دیکھتےہیں لیکن میں یہ بھی کہتاہوں کہ خواب دیکھو گے تو حقیقت بنے گی ناں جی۔
جواب دیںحذف کریںبھائی شاکرآپ سے کوئی پرسنل بات چیت کرنی ہے توپلیز میں یہ اپناموبائیل نمبر لکھ رہاہوں آپ پلیز مس کال کردیجیئے گا میں آپ سے رابطہ کرلوں گا۔
03326275833
ہاہاہا!ماشااللہ کالم بہت اچھا ہے۔ معاف کیجئے گا میں ہنس اِس لئے رہا ہوں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ساری بھڑاس ایک ہی وقت میں نکال دی ہے اور کافی عرصے تک صبر کئے رکھا ایک دم نکال دی۔بقول شاعر:
جواب دیںحذف کریںپاتے نہیں راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے طبع تو ہوتی ہے رواں اور
کچھ مستقبل کے لئے بھی بچا کر رکھئے۔
ہاں یار قدیر صاحب والی بات ذرا مناسب معلوم نہیں ہوتی۔