آج کے اخبارات، اور کل کے آنلائن شماروں میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ امریکی معلون پادری ٹیری جونز نے توہین آمیز ویڈیو تیار کی ہے۔ جس کے نتیجے میں لیبیا میں بلوائیوں کے ایک گروہ نے امریکی سفیر کو ہلاک کر ڈالا۔
بات شروع ہوتی ہے فیس بک سے، جہاں ایک صاحب تصویر شئیر کر رہے ہیں۔ نیچے لکھے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ شامی انجینئر پوچھ رہے ہیں لیبیا والوں نے تو یہ سب کر کے اپنی محبت کا ثبوت دے دیا، پاکستانی کہاں ہیں؟ ان سطور کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستانی بھی اٹھیں اور ملک میں غیر ملکیوں پر حملے شروع کر دیں، ان کے سفیروں کو ہلاک کر ڈالیں۔ ایک ایسے جرم کے لیے جو انہوں نے نہیں کیا، ایک ایسی صورتحال میں جب وہ نہ ہمارے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں، اور نہ ہتھیار بند ہو کر مقابلے پر اترے ہوئے ہیں، اور کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو اعلی درجے کے مسلمان اور عاشق رسول سمجھتے ہیں، اور بزعم خود قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز ہو کر،آن دی اسپاٹ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کو مار ڈالتے ہیں۔
میں نے فیس بک پر یہ سوال کیا کہ ایک غیر ملکی سفیر جو اسلامی ملک میں ذمی کی حیثیت رکھتا ہے، اسکی جان و مال کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کا قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اور اس پر ایک دوسرے کو شہہ کیسے دی جا سکتی ہے کہ دیکھو فلاں نے کر دیا اور تم پیچھے رہ گئے۔ مجھے جواب دیا گیا کہ غیر ملکی سفیر ذمی نہیں ہوتے۔ میں نے مان لیا، لیکن پھر سوال اٹھ آیا کہ ایک غیر ملکی سفیر جو ویزے پر اسلامی ریاست میں داخل ہوا، ایک معاہدہ جو اس کے اور ریاست کے مابین ہے کہ ہماری حدود میں داخلے پر تمہاری جان و مال کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ ایک معاہدہ یعنی وعدہ جس کے لیے محمد الرسول اللہ ﷺ تین دن تک ایک جگہ کھڑے رہتے ہیں، آج ان کے نام لیواؤں کے نزدیک ردی کے ٹکڑے کی اہمیت بھی نہیں رکھتا۔
مجھے جواب دیا جاتا ہے کہ امریکی مسلمانوں کے ساتھ پوری دنیا میں یہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کو بنا کسی عدالت کے ایسے ہی موت کے گھاٹ اتارا۔ طالبان پر بنا کسی عدالت کے ایسے ہی حملہ کیا، عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا۔ ان کے ساتھ کوئی سفیر کا معاہدہ نہیں۔ ان کا قتل جائز ہے۔ میرا سوال بس یہ کہ کیا اسلامی ریاستوں نے امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا؟ کیا وہاں سے اپنے سفیر واپس بلا لیے؟ ان کے سفیروں کو وارننگ دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا؟ ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا؟ آگے سے پھر وہی جواب آئے کہ یہ عین جائز ہے چونکہ امریکہ ۔۔۔۔اگلا حصہ آپ جانتے ہیں اس لیے اسکپ کر رہا ہوں۔
ابھی میں اپنے بنیادی سوال کی طرف نہیں آیا۔ آئیں ایک صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک واقعے میں عیسائی ریاستوں میں سے ایک میں ایک مسلمان خاتون کو شہید کر دیا جاتا ہے، اس کا جرم کیا ہے کہ وہ حجاب پہنتی ہے اور مسلمان ہے۔ مسلمان اس پر چراغ پا ہو جاتے ہیں، ان کے نظام انصاف کو صلواتیں سناتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں، اسے نا انصافی کہتے ہیں۔ دوسرے واقعے میں ایک اسلامی ریاست میں جنونیوں کا ایک گروہ ایک شخص کو اس لیے ہلاک کر دیتا ہے چونکہ وہ اسی ملک سے تعلق رکھتا ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص کو یہ مجرم سمجھتے ہیں۔ اس پر سب واہ واہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کو ہلا شیری دیتے ہیں اور شرم دلاتے ہیں کہ دیکھو فلاں آگے بڑھ گیا۔ درج بالا دونوں واقعات میں دو چیزیں مشترک ہیں۔ نمبر ایک مرنے والے دونوں افراد حالت جنگ میں نہیں تھے، ایک غیر ملک میں تھے، ان کا قصور اتنا تھا کہ وہ گروہِ مخالف سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انہیں مارنے والے بھی ایسے لوگ تھے جو ریاست (اولی الامر) کی نمائندگی نہیں کرتے، کچھ ایسے جنونی جنہوں نے بزعم خود اپنے آپ کو جج کے عہدے پر متمکن کر لیا اور ان کے قتل کا فیصلہ صادر کر کے اپنے تئیں انصاف کے تقاضے پورے کر دئیے۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر آپ اول الذکر واقعے کو غلط سمجھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ دوسرے کو بھی غلط سمجھا جائے؟ یا دوسرے کو صرف اس لیے غلط نہیں سمجھا جائے گا کہ مرنے والا ایک غیر مسلم تھا، اور چونکہ غیر مسلموں کا خون نیلا ہوتا ہے، اور (نعوذ باللہ) قرآن کا حکم (ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے) اصل میں "ایک مسلمان کا قتل کا ساری انسانیت کا قتل ہے"۔ کیا مسلمان ہونا یہ گارنٹی ہے کہ ہم ہر اس انسان کو اڑا سکتے ہیں جو ہم سے کمزور ہے، جس پر ہمارا بس چلتا ہے، جو ہمارے سامنے فی الوقت کمزور پڑ جاتا ہے۔ کیا ایسا اس لیے ہے کہ مسلمان اللہ کی چنی ہوئی امت ہیں، امت آخر، نبی اکرم ﷺ کے ماننے والوں کی امت، اسلیے ان کے نام پر اس امت کے لیے ہر جرم معاف ہے؟ کیا یہی سوچ یہودیوں کی نہیں تھی اور ہے؟ کیا یہی سوچ اس بھیڑئیے کی نہیں تھی جس نے میمنے کو اس جرم میں پکڑ لیا کہ اس کے آباء میں سے کوئی اسی ندی پر پانی پیتا رہا تھا جس ندی پر آج بھیڑیا پانی پی رہا ہے۔ سوال ہے کہ ہماری انصاف کی چھری 'ہم' اور 'وہ' کی تخصیص کیوں کرے۔ جب محمد الرسول اللہ ﷺ نے کبھی انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ فرق روا نہ رکھا تو مسلمان ایسا کیوں کریں؟
مجھے یہ منطق دی گئی کہ حرمت رسول ﷺ پر جان بھی قربان ہے۔ جب حرمت رسول ﷺ کی بات آ گئی تو سارے معاہدے باطل، اور گستاخِ رسول ﷺ کی سزا موت۔ میں نے بصد احترام عرض کیا کہ اس سفیر کا کیا قصور تھا کیا وہ گستاخِ رسول ﷺ تھا؟ کیا اس پر اس الزام کے سلسلے میں باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا اور یہ جرم اس پر ثابت ہو گیا؟ (اس نظام کے تحت جو رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور قرآن حکیم کے تحت اسلام میں صدیوں سے نافذ چلا آ رہا ہے۔) چلیں مقدمہ نہ چلانے کی بات مان لیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے ہمیں ایک واقعہ ملتا ہے کہ مدینہ میں ایک مخالف گروہ (شاید یہودیوں) سے ایک آدمی (اغلباً ایک شاعر) نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کون ہے جو جا کر مجھے اس کا سر لا دے یعنی اس جرم میں قتل کر دے۔ تو ایک صحابیؓ گئے اور اس کا سر کاٹ لائے یا اسے قتل کر دیا۔ بظاہر یہاں کوئی مقدمہ ملوث نہیں ہے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ (جو اس واقعے میں خود رسول اللہ ﷺ ہیں) نے ایک غیر ریاست کے شہری (یاد رہے اسلام کے ابتدائی دور میں ریاستِ مدینہ کئی گروہوں میں بٹی ہوئی تھی اور پورے مدینہ پر مسلمانوں کا ایسا کنٹرول نہیں تھا جیسا آج ایک عمومی حکومت کے لیے نارمل خیال کیا جاتا ہے) کے قتل کا حکم دیا اور اس پر عمل درآمد ہو گیا۔ یہاں سے یہ استدلال سامنے آتا ہے کہ توہین رسالت ﷺ کے مجرم کو فوراﷺ سزائے موت دی جائے چاہے وہ غیر ملک یا غیر قوم کا شہری/ رکن ہی ہو۔ لیکن ایک باریکی جو یہاں ڈاکٹر حمید اللہ نے دریافت کی، قابل بیان ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسلامی قانون بین الممالک (انٹرنیشنل لاء) کے ماہر تھے، فرماتے ہیں کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ میثاقِ مدینہ یعنی مخالف فریقین کے مابین ایک معاہدہ ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی جانب سے یہ حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں میں نے باقاعدہ تحقیق کی، اور یہ بات سامنے آئی کہ میثاق مدینہ (جسے آج ہم اسے ایک معاہدے کے طور پر جانتے ہیں) اصل میں معاہدوں کے ایک مجموعے کا نام ہے جو وقتاً فوقتاً مدینہ کے مختلف گروہوں اور مسلمانوں کے مابین وجود میں آتے رہے۔ اور مذکورہ بالا واقعے کے وقت مسلمانوں اور متعلقہ گروہ کے مابین یہ معاہدہ ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس ساری بحث کا لب لباب یہ نکلتا ہے کہ عہدِِ رسالت ﷺ میں میں گستاخِ رسول کی سزائے موت اس وقت عمل میں آئی جب کوئی باقاعدہ معاہدہ موجود نہیں تھا ورنہ صورتحال شاید مختلف ہوتی۔ اگر ہم اس ساری بحث کو نظر انداز بھی کر دیں تو بنیادی سوال "کیا غیر ملکی سفیر گستاخِ رسول ﷺ تھا؟" کا جواب نہیں میں نکلتا ہے۔ گستاخی واضح طور پر ٹیری جونز نامی معلون شخص کی شرارت ہے، اور اس کا سزاوار بھی وہی ہے، نا کہ اس کے ملک سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی دوسرا شخص۔ ایسی صورتحال میں اسلامی اور انسانی نقطہ نگاہ سے ایک غیر ملکی سفیر، جو اسلام کی نظر میں بے گناہ ہے اور بے گناہ انسان کا قتل اللہ کے نزدیک پوری انسانیت کا قتل ہے، نرم سے نرم الفاظ میں بھی بربریت ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے اس جرم میں شریک۔
تحریر کے اختتام پر پھر اپنا موقف دوہرانا چاہوں گا کہ ایک غلط عمل کے جواب میں کیا جانے والا غلط عمل موخر الذکر کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے چاہے جتنی بھی ناانصافی کی ہو، نہتّوں پر بم برسائے ہوں، قتل عام کیے ہوں، اسامہ بن لادن اینڈ کمپنی کو قتل کیا ہو لیکن یہ تمام افعال اس بات کا اجازت نامہ نہیں کہ آپ ان ممالک کے نہتے شہریوں پر انفرادی حیثیت میں حملے کر کے، مقدمہ چلائے بغیر، ایک ایسے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔ اگر بدلہ لینے کا شوق ہے تو مردوں کی طرح ان کے خلاف اعلانِ جنگ کریں، سفارتی رابطے منقطع کریں، ملعون گستاخِ رسول ﷺ کی حوالگی کا مطالبہ کریں اگر وہ نہیں کرتے تو دعوتِ مبازرت دیں۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا چونکہ حکومتیں کرپٹ ہیں، کوئی بھی ریاست سچی اسلامی ریاست نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ان ممالک میں بسلسلہ روزگار وغیرہ موجود ہے اور وہاں سے نوٹوں کے تھبنٹو واپس بھیجتی ہے، کاروباری مفادات وابستہ ہیں اس لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اگر ایسا اجتماعی یعنی ریاستی سطح پر ممکن نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اور ان کے مابین ایک معاہدہ موجود ہے، معاہدہ امن (یاد رہے کہ عراق، افغانستان وغیرہ میں بھی حکومت کے ساتھ یہی نام نہاد معاہدہ امن موجود ہے جو انفرادی سطح پر کسی بربری فعل کی اجازت نہیں دے گا جب تک ریاست اعلان جنگ نہ کر دے) یعنی آپ ان کے شہریوں کو امان دیں گے، اور وہ آپ کے شہریوں کو امان دیں گے۔ لیکن اگر آپ ایسا نہیں کرتے، ایسا نہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اپنے شہریوں، ہم مذہبوں کے ساتھ ان ممالک میں یہی سلوک ہونے پر واویلا کریں۔ اگر آج پاکستان، لیبیا یا کسی بھی اسلام ملک کے سفیر کے ساتھ بھارت، فرانس یا امریکہ میں یہی سلوک ہوتا ہے تو وہ غلط ہے (وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے، رمشا مسیح کا تقریباً جھوٹا ثابت ہو چکا مقدمہ لے لیں، اس پر کوئی جنونی گروہ پاکستانی سفارتخانے پر اٹھ کر حملہ آور ہو سکتا ہے، جنونیوں کو تو بہانہ چاہئیے ہوتا ہے نا)، اسی طرح ان کے سفارتخانے پر ہمارے ہاں ہونے والا حملہ بھی غلط ہے۔ انصاف کا معیار دوہرا نہیں ہوتا، انصاف میرے لیے ہاں تمہارے لیے ناں نہیں ہوتا۔ ہم اس شخصیت ﷺ کے پیروکار ہیں جس نے جنگ میں جانے سے قبل بھی لشکریوں سے کہا تھا سنو عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا۔ درخت، نہ کاٹنا، فصلیں نہ اجاڑنا، لاشوں کا مثلہ نہ کرنا، جو ہتھیار نہ اٹھائے اس پر حملہ نہ کرنا۔ لیکن ہم انہیں ﷺ سے محبت کے نام پر انہیں کی تعلیمات کو فراموش کر رہے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ کسی کا غلط طرزِ عمل اس بات کی اجازت نہیں کہ ہم بھی انصاف کے تقاضے چھوڑنے کے لیے آزاد ہو گئے ہیں، ہم مسلمان ہیں اور ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات موجود ہیں، ورنہ ہم میں اور جنگلی جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ ہم میں اور اس بھیڑئیے میں کوئی فرق نہیں جس نے میمنے پر اس لیے حملہ کر دیا کہ اس کے آباء میں سے کسی نے پانی پینے کا جرم کر ڈالا تھا۔ عذر تراشیاں کسی غلط طرزِ عمل کے ٹھیک ہونے کا ثبوت نہیں، ہمیں عذر تراشیاں ترک کر کے غلط کو غلط کہنا ہو گا، ان کے غلط کو تو غلط کہنا ہی ہے اپنی غلطی کو بھی تسلیم کرنا ہو گا، اور ایسے کسی بھی رویے کی حوصلہ افزائی ترک کرنا ہو گی۔
اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَا عَبدُہُ وَ رَسُوُلُہُ و خاتم النبین
میرے لیے ٹیری جونز کی حیثیت اس کتے سے بھی بدتر ہے جو میرے محلے میں ہر صبح بلا وجہ بھونکنا شروع کر دینے والوں میں ہوتا ہے۔ اور میں ایسے کتوں کو پتھر مارنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، مجھے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ان ﷺ سے کتنی محبت ہے، اور نہ کسی کو میرے ایمان پر سوال اٹھانے کا حق ہے کہ یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے۔ لیکن جو غلط ہے میں اسے غلط کہوں گا۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ غلط ہوا، اسامہ بن لادن کو مقدمے کے بغیر قتل کرنا انصاف کا قتل تھا، عراق، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک پر امریکہ اور اس کے حواریوں کے حملے غلط تھے، مغربی ممالک میں مسلمان شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے والے قوانین اور رویے غلط ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دینے لگوں۔ یہ غلط ہے اور میں غلط کو غلط کہوں گا۔ کاش میری قوم بھی یہ بات سمجھ جائے۔
برادرم کاشف نصیر کی اس پوسٹ کو ٹیگ کرنا ضروری ہے، جس سے مجھے آج کی یہ تحریر لکھنے کی انسپائریشن ملی۔
وما علینا الا البلاغ
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ
جواب دیںحذف کریںایک دفعہ نبی اکر م صلی اللہ و علیہ وسلم
مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک جاہل آیا اور پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔
یہاں دو باتیں ہو گئیں۔
ایک نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم کے سامنے بے حیائی یعنی توہین نبوی صلی اللہ و علیہ وسلم۔
دو مسجد کی بیحرمتی۔
صحابہ کرام اٹھے اور جاہل کو مارنے دوڑے ۔
نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے منع فرمایا اور کہا کہ اسے فارغ ہونے دیا جائے۔
اور اس کے بعد میرے علم میں نہیں کہ اسس جاہل کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔
یہ واقعہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انصاف پسندی اور درگزر کرنے برداشت کرنے کا سبق دیتا ہے۔
باقی بھائی جان نعرہ تکبیر بلند کریں اور تالیاں بجائیں۔
نہیں تو عدل و انصاف رواداری برداشت کی لاش پر قائم معاشرے سے بے نیازی ہماری چند دنوں کی زندگی کیلئے بہتر ہے۔۔۔آج کافر مارا گیا تو کل مسلمان بھی مارا جائے گا۔
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںبالکل حق بات لکھی آپ نے
۔"میرے ماں باپ آپ ص پر قربان، مجھے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ان ص سے کتنی محبت ہے، اور نہ کسی کو میرے ایمان پر سوال اٹھانے کا حق ہے کہ یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے۔ لیکن جو غلط ہے میں اسے غلط کہوں گا۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ غلط ہوا، اسامہ بن لادن کو مقدمے کے بغیر قتل کرنا انصاف کا قتل تھا، عراق، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک پر امریکہ اور اس کے حواریوں کے حملے غلط تھے، مغربی ممالک میں مسلمان شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے والے قوانین اور رویے غلط ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دینے لگوں۔ یہ غلط ہے اور میں غلط کو غلط کہوں گا۔ کاش میری قوم بھی یہ بات سمجھ جائے "۔ ۔ ۔آپ کی یہ تمام باتیں میرے دل کی آواز ہے ۔ ۔ ۔ کاشف صاحب نے بھی بہت اچھا لکھا ہے۔ لیکن ایک تبصرہ نگار نے ان کو کافی حد تک دبا دیا ہے ۔ میرا ارادہ کاشف کے بلاگ پر تبصرہ کرنے کا تھا لیکن وہاں تو ویب سائٹ درکار ہے وہ کہاں سے لاؤں ۔ محمد ازور
جواب دیںحذف کریںیہاں مروا الشربینی کے بارے میں جناب ڈاکٹر تفسیر احمد کی وضاحت پیش کرنا چاہوں گا، جس کا اس تحریر میں نام لیے بغیر ذکر کیا گیا۔ شہیدہ کو جب اس شخص نے تنگ کیا تو اسے حکام کی جانب سے جرمانہ کیا گیا، جب اس نے قتل کر دیا تو اسے جرمن قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا دی گئ، جیسا کہ اس ریاست کے قانون میں درج ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب، جزاک اللہ خیر۔
جواب دیںحذف کریںدرحقیقت احسن القوم کہلانے اور دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے جن بنیادی اقدار کی پاسداری کرنی ہوتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ
وَلَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوۡاؕ اِعْدِلُوۡا۟ ہُوَ اَ قْرَبُ لِلتَّقْوٰی۫ وَاتَّقُوا اللہَ۫ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۸﴾ (مائده-8) “اورایسا کبھی نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات کیلئے ابھاردے کہ (اس کے ساتھ) انصاف نہ کرو ۔انصاف کرو یہی تقوے سے لگتی ہوئی بات ہے۔ اور اللہ سے ڈرو
اور جیسا کہ آپ نے لکھا، یہ قبیح عمل اسلامی اقدار و اصولوں کے قطعی منافی تھا اور دو غلط چیزیں مل کر صحیح نہیں ہوجاتیں، لیکن لوگوں کو یہ باتیں پہلے سے ہی معلوم ہیں؟ التوفیق بااللہ
"واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ
جواب دیںحذف کریںایک دفعہ نبی اکر م صلی اللہ و علیہ وسلم
مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک جاہل آیا اور پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔
یہاں دو باتیں ہو گئیں۔
ایک نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم کے سامنے بے حیائی یعنی توہین نبوی صلی اللہ و علیہ وسلم۔
دو مسجد کی بیحرمتی۔
صحابہ کرام اٹھے اور جاہل کو مارنے دوڑے ۔
نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے منع فرمایا اور کہا کہ اسے فارغ ہونے دیا جائے۔
اور اس کے بعد میرے علم میں نہیں کہ اسس جاہل کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔"
جب بدو نے پیشاب کر لیا تو حضورؐ نے اسے پاس بلایا اور سمجھایا کہ مسجدیں پاک جگہ ہوتی ہیں۔ انہیں صاف رکھا جاتا ہے۔
اللہ کمی بیشی معاف فرمائے۔
بقیہ آپ کی تمام پوسٹ سے اتفاق ہے سوائے
" (یاد رہے کہ عراق، افغانستان وغیرہ میں بھی حکومت کے ساتھ یہی نام نہاد معاہدہ امن موجود ہے جو انفرادی سطح پر کسی بربری فعل کی اجازت نہیں دے گا جب تک ریاست اعلان جنگ نہ کر دے)"
کیونکہ ان دو ممالک میںامریکہ نے خود حملہ کر کے وہاں موجود حکومتوں کو ختم کیا اور اپنی کٹھ پتلی حکومتیں بنوائیں۔ یہ ممالک ابھی بھی امریکہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔
ایک سچے عاشق رسول کی تحریر۔
جواب دیںحذف کریںبنیادی سوال "کیا غیر ملکی سفیر گستاخِ رسول ﷺ تھا؟" کا جواب نہیں میں نکلتا ہے۔ گستاخی واضح طور پر ٹیری جونز نامی معلون شخص کی شرارت ہے، اور اس کا سزاوار بھی وہی ہے
جواب دیںحذف کریں.
.
.
غیر ملکی سفیر اگرچہ بزات خود گستاخ رسول نہ تھا لیکن وہ اس ملک کا نمائندہ تھا ،جو ایک شخص کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کی گستاخی کرو۔بلکہ اس سفیر کا ملک پہلے بھی اسے لوگوں کو پناہ دئے چکی ہے اور اب بھی انہیں لوگوں کا ساتھ دئے رہی ہے۔
رہی بات سفارت کی قواعد کی تو جناب یہ سفیر حضرات کب ان قواعد و ضوابط کو خاطر میں لاتے ہیں۔ورنہ یہاں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہی رونماء نہ ہوتا۔تو ایک فریق قواعدکی مخالفت کرئے تو ٹھیک لیکن دوسرا فریق یہ کام کرئے تو ناجائز۔
ابو سفیان اہل مکہ کے نمائندے کے طور پر مسلمانوں کے پاس آتے ہیں۔ اور امان کے ساتھ رہ کر واپس بھی جاتے ہیں۔ اہل مکہ مسلمانوں کو ہر موقع پر ایذا پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، اندرونی بیرونی سازشیں کرتے ہیں لیکن ان کے سفیر کو امان ملتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںچونکہ اب ہم وڈے عاشق رسول ہو گئے ہیں، کہ اپنے جذباتی اندھے پن میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سنت بھی یاد نہیں رہتی تو کوئی بات نہیں۔ آپ سچے ہیں سائیں۔ آپ کی منطق 100 فیصد درست، آپ کے حکمران بے غیرت ہیں تو اس کا ذمہ دار پورا امریکہ، آپ کی قوم بے غیرت ہے تو اس کا ذمہ دار پورا امریکہ، ایک امریکی ملعون نے توہین آمیز فلم بنائی ہے تو اس کا ذمہ دار پورا امریکہ۔
امید کرتا ہوں کہ آپ کا کوئی رشتہ دار امریکہ میں رہتا نہیں ہو گا، اگر ہے تو اسے واپس بلوا لیا ہوگا آپ نے۔ مجھے اور کچھ نہیں کہنا، بھینس کے آگے جو بین بجانی تھی وہ میں اوپر پوسٹ میں بجا چکا ہوں۔ جنہوں نے نہ سمجھنے کی قسم کھائی ہو ان سے سر مارنے کا میرا کوئی موڈ نہیں ہے۔
وما علینا الا البلاغ
لگتا ہے موصوف نے مدینہ میں موجود یہودی قبائل کے انجام کے بارے میں نہیں سنا۔ خیر سے معاہدہ بھی تھا ان کے ساتھ لیکن پھر ان کا بندوبست کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ دیگر بہت سے واقعات موجود ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ سمجھ ککھ نہیں آنی کہ اسلام کو تو آپ حضرات سے زیادہ کہاں جانتا ہوں لیکن پھر بھی بھینس کے آگے بین بجانے سے باز نہیں آیا۔ ایک واقعہ کیا ہوگیا لگے ہیں لوگ ہمیں اسلام سکھانے۔ باقی مسلمان ملکوں کو بمباری کرکے ویران کردو کوئی مسئلہ نہیں یہ آقا جی کو یہ حق حاصل ہے ہیں جی۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںبیچارے حُب رسول میں سرشار افراد کی روح کسی ڈرون حملے پہ اتنا نہیں تڑپی ہوگی جتنا کہ عزت مآب سفیر صاحب کی ہلاکت پر کہ حق گوئی سے باز نہ رہ سکے۔
وما علینا الا البلاغ
مدینہ میں یہودیوں کے ساتھ ان سے کئے گئے معاہدے کے مطابق ہی سلوک کیا گیا تھا۔ کسی سے زیادتی نہیں ہوئی۔
جواب دیںحذف کریںبالکُل درست کہا ہے آپ نے
جواب دیںحذف کریںابو سفیان اہل مکہ کے نمائندے کے طور پر مسلمانوں کے پاس آتے ہیں۔ اور امان کے ساتھ رہ کر واپس بھی جاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں'
'
'
'
ابو سفیان مکہ سے صرف چند دن کیلئے مدینہ آئے تھے،انہوں نے مدینہ میں باقاعدہ سفارت خانہ نہیں کھولا تھا کہ موقع پا کر امریکہ کی طرح قذافی حکومت کے خلاف بمباریاں کرتے ،اور اگر ایسا کرتے تو اسکا انجام تاریخ اسلام سے معلوم ہوسکتا ہے، اسکی گردن اُڑا کر رکھ دیتے،آج چھری سے
ذبح کرتے ہیں ،اس وقت تلوار سے گردن ہی الگ کر دیتے۔
رہی بات گستاخی رسول صل اللہ علیہ وسلم کی تو جب حضور کے گھر اپنی بیٹی سے ملنے گئے تو اس بستر پر بھی نہیں بٹھانے دیا گیا جس پر حضور آرام فرماتے تھے۔
یہ تھی ایک سفیر کی عزت
اب ہمارئے ہاں ذرا ان مغربی سفیروں کو دیکھتے ہیں جو کہ ملکی کے بیوی پر شوہر سے زیادہ حق جتانے کی باتیں کرتے ہیں۔
جی ہمارا کوئی رشتہ دار امریکہ میں نہیں رہتا لیکن رہتا ۔لیکن کیا رشتہ داروں کے وہاں رہنے سے امریکہ کے خلاف بولنا یا جنگ کرنا حرام ہوتا، کیا افغانستان یا عراق یا پاکستانی ریمنڈ ڈیوس کو اپنے رشتہ داروں کی خاطر چھوڑ دیتے۔
امید کرتا ہوں افغانستان یا عراق میں آپکا کوئی اپنا امریکی بمباری سے نہیں مرا، نا ہی امریکی ریمنڈ دیوس نے آپکے کسی رشتہ دار یا بھائی بہن کو مارا ہوگا۔ اور مین یہ بھی امید کرتا ہوں کہ کسی بلیک واٹر والے نے آپکے آفس یا کاروباری جگہ یا مکان کے قریب کار بم دھماکہ بھی نہیں کیا ہوگا۔ اگر یہ سب ہوئے ہوتھے تو شائد آج یہ پوسٹ آپ نہ لکھتے۔
سفیر چاہے چار دن کا چار سال کا یا چالیس سال کا، سفیر ہے اور اس کو امان ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا طرز عمل ہمارے سامنے ہے۔
جواب دیںحذف کریںخوشی کوئی کہ آپ کا کوئی رشتہ دار امریکہ میں نہیں رہتا، چونکہ پورے امریکہ پر جاری لعنت ملامت پر وہ اس میں حتی المقدور حصہ دار بن جاتے۔
اگر غیر ملکی سفیر آپ کے ملک میں آ کر فرعون بن جاتے ہیں تو آپ کی حکومت کی بے غیرتی ہے۔ اسکو تبدیل کریں۔ نہ کہ انہیں سر عام موت کے گھاٹ اتارا جائے۔
اس ساری بحث میں مجھے شدت سے اندازہ ہوا کہ ہم کس قدر تنگ نظری کا شکار ہیں، اور اپنے موقف، چاہے وہ کتنا ہی خلافِ انصاف کیوں نہ ہو، کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے ان کی سنت پیش کی گئی، قرآن کی آیت پیش کی گئی لیکن اس کو نظر انداز کر کے بات ڈرون حملوں، امریکی عمّال کے عمومی طرز عمل اور اپنے حکمرانوں کی بے غیرتیوں پر لے جاتے ہیں۔ یہ ہو گیا، تو فلاں بھی تو ہوا تھا تب تو تکلیف نہیں ہوئی تھی آج ایک امریکی مر گیا تو بڑے مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ امریکی میرے سگے نہیں ہیں۔ لیکن بات طرزِ عمل کی ہے، میں نے اوپر والی پوٹ میں کھل کر ہر امریکی طرزِ عمل کی مذمت کی لیکن پھر بھی عظیم تر تبصرہ نگار وہی چلے ہوئے کارتوس استعمال کرتے ہیں۔ میں لعنت بھیجتا ہوں ہر اس کام پر جو امریکی اس خطے میں کر رہے ہیں، اور ڈرون حملوں میں مرنے والوں کے لیے میرا دل اتنا ہی روتا ہے جتنا یہاں تبصرہ فرمانے والی عظیم ہستیوں کا رویا ہو گا۔ لیکن سلسلہ یہ ہے کہ انہوں نے یا میں نے کیا کر لیا، کرنا تو اجتماعی سطح پر ہے نا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں فرسٹریشن نکالنے کا ایک بہانہ درکار ہوتا ہے۔ "ہم" اور "تم" کی تقسیم۔ اب "ہم" یعنی لیبیا والوں نے بے گناہ امریکی اہلکار مار ڈالے، تو یہ ہمیں "ہماری" فتح لگ رہا ہے۔ ہمیں لگتا ہے ہمارے دکھوں کا مداوا ہو گیا، سات نسلوں کے پاپ دھل گئے۔ امریکیوں کی بینڈ بج گئی۔ حالانکہ ہوا کچھ بھی نہیں اس ک وجہ سے امریکہ میں بھی ہمارے جیسے تنگ نظر اور کٹڑ عیسائی اپنے موقف پر مزید سخت ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ مسلمان ہیں ہی قبائلی دور کے وحشی۔ جسے ہم توہین رسالت ﷺ گردانتے ہیں ان کے نزدیک وہ صرف ایک فلم ہے، یا کارٹون جیسے ہزاروں روزانہ بنتے ہیں اور ان کے لیڈروں میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا جاتا ہر ایک کی ہجو ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں سمجھایا جائے کہ رسول اللہ ﷺ 'کوئی' بھی لیڈر نہیں، وہ ایک ہی عظیم لیڈر تھے، اور ان کی عزت اس لیے کی جائے چونکہ وہ حقدار ہیں۔ وہ آج کے جھوٹے، فریبی لیڈروں جیسے نہیں تھے، وہ عادل، انصاف پسند اور رحم دل تھے، انہوں نے تلوار اسی وقت اٹھائی جب دشمن نے انہیں مجبورد کر دیا۔ لیکن یہ سب سمجھانے کے لیے اینٹ پتھر گولی بندوق نہیں زبان سے بات کرنا ہو گی۔ اور زبان سے بات کرنے پر ہم تیار نہیں۔ چناچہ کرتا کوئی ہے بھرتا کوئی ہے۔ بنانے والے، اپلوڈ کرنے والے اور پھیلانے والے سب محفوظ مارا کون گیا کوئی تیسرا امریکی جو نہ حالت جنگ میں تھا، نہ اس عمل میں کسی بھی طرح سے ملوث تھا، جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں اپنا فرض نبھا رہا تھا۔ اور ہم اب اس کی موت کو حق ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ برادرم عدنان مسعود نے بالکل ٹھیک آیت کی جانب توجہ دلائی، ایک قوم کی دشمنی، اس کے خلاف فرسٹریشن اور غصے نے ہمیں پاگل اور اندھا کر دیا کہ ہم انصاف بھول گئے۔ انا للہ او انا الیہ راجعون۔
چلتے چلتے۔۔۔امریکہ نے مارنے والوں کو پھانسی پر ٹنگوا دینا ہے، ان کے پاس ابھی رب کی دی ہوئی طاقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ طاقت پیدا کر سکیں گے یا اس کے سفیروں کو مار کر ہی بکرے بلاتے رہیں گے؟ کیا ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ توہین رسالت ﷺ کے اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں؟ کیا ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ اس کی نوبت ہی نہ آنے دیں، انہیں یہ سمجھا دیں کہ بھائی یہ شخص، کائنات کا کامل ترین انسان ﷺ، اس سے تو محبت کرنے کا حق ہے نا کہ اس کی تکذیف کی جائے۔ کیا ہم انہیں گولی، بندوق، اینٹ، پتھر ایک طرف رکھ کر سمجھا سکیں گے؟ کاش ہم ایسا کر سکیں چونکہ جیسے عمل کا ردعمل ہوتا ہے ویسے ہی ہمارا غصہ اور غلط طرز عمل اسی طرح کے طرز عمل کا موجب بنے گا۔
اللہ کریم توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اس کے نبی ﷺ کی سنت پر چل سکیں۔
اور آپ کی آخری بات (ریمنڈ ڈیوس وغیر وغیرہ) کا جواب پھر قرآنی آیت سے دوں گا کہ میرا غصہ اور ذاتی عناد کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ االلہ کا حکم ہہی ہے کہ انصاف ہونا چاہئے۔ ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حوالے کر دیا تو اس میں قصور کس کا؟ ہمارے بے غیرت حکمرانوں اور عمال کا، بلواسطہ کس کا ہمارا اپنا۔ جب تک خود کو ٹھیک نہ کیا تو دوسروں کو کیا ٹھیک کرنا۔ ہاں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ فرسٹریشن نکالنے کے لیے جو ہاتھ آیا اڑا دیا کا طرز عمل تو چلتا ہی رہے گا، اور میرے نزدیک اور جیسا کہ قرآنی آیت پیش کی گئی، قرآن کے نزدیک یہ سراسر نا انصافی ہے۔ غلط ہے اور قابل مذمت ہے۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی یہ باتیں میرے دل کی آواز ہیں شاکر بھائی۔
جواب دیںحذف کریں