موٹروے ویسے تو ایک سڑک کا نام ہے۔ لیکن مسافر کے لیے شاید یہ صرف ایک سڑک سے بڑھ کر ہے۔ موٹروے سے مسافر کا پہلا پہلا واسطہ دو سال پہلے پڑا۔ مسافر نے حسب معمول، جیسا کہ وہ ہر کام تاخیر سے کرتا ہے، دیر سے اپنے شہر سے نکلنا شروع کیا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں وہ کہانی بیان ہو چکی ہے۔ تو اس مجبوراً نکلنے کی وجہ سے پہلے تو وہ بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جاتا رہا اور جب رزق کے معاملے میں اللہ کی رحمت بڑھی تو موٹروے سے واقفیت چل نکلی۔ تب سے ہر ہفتے لاہور آنا جانا ہوتا ہے اور ہر ہفتے اس سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ پورے ہفتے میں ایک ہی قابل ذکر کام ہوتا ہے اور وہ لاہور کا سفر ہے جس کے بہانے موٹروے سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔
موٹروے سے مسافر کی واقفیت کوئی بہت قریبی نہیں۔ یہی جیسے دو اجنبی روز ایک دوسرے کے قریب سے گزریں تو جیسے اک بے نام سا ربط بن جائے، شناسا لیکن اجنبی چہروں اور آنکھوں کے اس تعلق سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ جیسے راستے کے ہر پتھر اور گڑھے کی عادت ہو جاتی ہے اور جب تک وہاں سے گزرتے جھٹکا نہ لگے کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے ہی راستے میں ٹکرانے والے اجنبی چہروں کی عادت سی ہو جاتی ہے نظر نہ آئیں تو کوئی کمی سی رہ جاتی ہے۔ موٹروے اور اس کے نشیب و فراز، اس کے راستے میں آنے والے درخت، پتھر، کھیت کھلیان، بے فکرے دیہاتی اور وسیع و عریض لینڈ اسکیپ مسافر کے ساتھ کچھ ایسی ہی واقفیت رکھتے ہیں یا شاید یہ صرف مسافر کی اپنی سوچ ہے اور یہ سب اسے دوسرے مسافروں جیسا ہی سمجھتے ہیں جو چلے جاتے ہیں اور لوٹ کر نہیں آتے۔ لیکن اس سے بھلا فرق بھی کیا پڑتا ہے تعلق تو اندر کہیں ہوتا ہے سوچ میں باہمی اظہار چاہے نہ بھی ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔۔
موٹروے سے یہ تعلق جیسا بھی ہو ابھی تک چل رہا ہے۔ اس وقت مسافر کے اردگرد موٹروے بھاگ رہی ہے اور اس کے محسوسات لفظوں میں ڈھل رہے ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے موٹروے اسلام آباد جیسی ہے سرد مزاج اور روکھی، پروٹوکول اور فاصلے کی دلدادہ، شاید اسلام آباد جاتی ہے اس لیے۔ جی ٹی روڈ اس کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے کالونی کے مقابلے میں محلہ ہو، عوامی، پر ہجوم، چہل پہل والا اور شور بھرا۔ جی ٹی روڈ پر ہر کچھ دیر بعد ایک شہر یا قصبہ آ جاتا ہے موٹروے پر یہی فرض اوورہیڈ پل سر انجام دیتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر راستہ بنانا پڑتا ہے اور موٹروے پر راستہ گویا راہ دیکھتا ہے۔
موٹروے پر چڑھ کر یوں لگتا ہے گویا آپ اردگرد سے کٹ گئے ہیں۔ موٹروے کا ایک ڈیکورم ہے۔ ایک لمبی نیلی پٹی جو چلتی چلی جاتی ہے چلتی چلی جاتی ہے اور اس کے ارد گرد ایک الگ ہی دنیا۔ اس لمبی پٹی پر نظر رکھی جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے منزل ہر لمحہ آپ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپ کھڑے ہیں اور منزل قدم بہ قدم آپ کو گلے لگانے کے لیے آ رہی ہے۔ اس پٹی پر نظر رکھیں تو جدت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر کلومیٹر کے فاصلے پر بورڈ، موڑ، انٹرچینج، ہیلپ لائن کے بوتھ اور دورانِ سفر آرام کے لیے جدید ترین سہولیات۔
لیکن صرف ہلکا سا زاویہ نظر تبدیل کرنے سے گویا دنیا بدل جاتی ہے۔ ذرا دائیں یا بائیں دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ نیلی پٹی ہی دنیا نہیں، ایک اور دنیا کے اندر بسی ہوئی ہے۔ ایک وسیع و عریض سبز لینڈ اسکیپ جس کے اندر کسی مصور نے بڑے سے برش سے یہ نیلی پٹی کھینچ دی ہے۔ دور تک پھیلے ہوئے کھیت کھلیان، درخت اور چھوٹی چھوٹی سڑکیں، تہذیب کے نشان چھوٹی چھوٹی بستیاں، گھر گھروندے اور آتے جاتے انسان۔ لیکن اس وسیع لینڈ اسکیپ کے سامنے سب کیڑے مکوڑے۔ موٹروے پر دوڑتی بس کی سیٹ نمبر پینتالیس پر بیٹھا مسافر اس وسعت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ مصورِ کائنات کے ذوق ِ مصوری کا ہلکا سا ادراک ہوتا ہے اور اس کا دل سبحان اللہ پکارنے کو مچل اٹھتا ہے۔ کہیں سبز رنگ ہے، کہیں گہرا سبز، کہیں ہلکا سبز، کہیں مٹیالا رنگ ہے، اور کہیں سنہری۔ جیسا موسم ہے ویسا رنگ ہے، آج کل گندم کے خوشے لہراتے تھے، ہر ہفتے گندم کا رنگ گہرے سبز سے پھیکا پڑتا پڑتا سنہری مائل ہوتا گیا اور اتنا سنہری ہو گیا کہ زمین جیسے سونے کی ہو گئی۔ اور اب کسان یہ سونا اکٹھا کر رہے ہیں۔ کہیں پھر سے مٹیالا رنگ نمودار ہو رہا ہے۔ اور کہیں ابھی یہ سنہری پن باقی ہے۔ کہیں پھر سے سبز شیڈ نمودار ہو جاتا ہے۔ اور مسافر کے منہ سے رنگوں کے اس خوبصور ت انتخاب پر موزوں الفاظ ِ تحسین بھی نہیں نکل پاتے۔
موٹروے صرف د و دنیاؤں کا نام ہی نہیں۔ یہاں ایک تیسری دنیا بھی پوری آن بان سے نمودار ہو جاتی ہے۔ اور وہ ہے مسافر کے اندر کی دنیا۔ مسافر فطری طور پر ایک تنہا شخص ہے۔ اپنے آپ میں گم رہنے ولا، خود ہی اندازے لگا کر خود ہی فیصلے کرنے والا ایک ایسا ریاضی دان جو دوسراہٹ کے نامعلوم متغیر کو اپنی ذات کی مساوات میں شامل کرنے سے کتراتا ہے۔ اس لیے صرف اپنے آپ کو ہی مساوات کے دونوں جانب رکھے زندگی گزار دیتا ہے۔ موٹر وے کی ڈیڑھ گھنٹہ طویل تنہائی مسافر کے اندر کی تنہائی سے مل کر دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ ایک نیلی پٹی جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی، افق تا افق چلتی چلی جاتی ہے اور اس پر دوڑتا تنہا مسافر۔ ایک وسیع لینڈ اسکیپ ، آسمان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا وسیع منظر اور اس میں ایک نیلی پٹی پر دوڑتا تنہا مسافر، اور مسافر کے اندر کی تنہائی یہ سب مل کر بعض اوقات اتنی وحشت پیدا کر دیتے ہیں جیسے سانس کے لیے ہوا کم پڑنی شروع ہو جائے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سفر باہر کی تنہائی سے شروع ہوتا ہے، جیسے درخت تلے کھڑے ہونے کے باوجود بھی بارش دھیرے دھیرے اپنا راستا بنا لے اور بھگونے لگے، ایسے یہ وسیع و عریض تنہائی اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ پھر جیسے مقناطیس کو مقنا طیس کشش کرتا ہے، مثبت کو منفی کھینچتا ہے ویسے باہر کی تنہائی اندر ایک ردعمل پیدا کرتی ہے ۔ اندر سے باہر کی جانب ایک سفر شروع ہوتا ہے اور جب یہ دو طرفہ سفر مکمل ہوتا ہے تو مسافر دوہری تنہائی کے حصار میں آ جاتا ہے۔
تنہا ہونے کا دکھ وہی جان سکتا ہے جو یا تو فطری طور پر تنہا ہو یا حالات کے ہاتھوں ستایا ہوا ہو۔ تنہائی کسی بھی طرح وارد ہو مسافر کے تجربے میں طبعیت کی قنوطیت تنہائی کے لیے عمل انگیز ہوتی ہے۔ گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کی صلاحیت دھیرے دھیرے اس خالی پن کو پوری کائنات پر نافذ کر دیتی ہے۔ ذات کی تنہائی اور باہر کی تنہائی مل کر اتنی بڑی تنہائی تشکیل دیتی ہیں کہ وحشت کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ ایسے میں عجیب و غریب سوچیں پروان چڑھتی ہیں۔ کبھی تو یہ تنہائی اتنی پھیل جاتی ہے کہ آفاقی ہو جاتی ہے۔ مسافر کی تنہائی، راستے کی تنہائی، نسلِ انسانی کی تنہائی اور اس کرے پر موجود زندگی کی تنہائی۔ اتنی بڑی بڑی تنہائیاں کہ مسافر کی اپنی تنہائی ان کے سامنے ہیچ محسوس ہونے لگے۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے موٹروے پر چڑھنا کسی مراقبے کی ابتدا ہو۔ مراقبہ بھی تو ایک خلا میں اترنے کا نام ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس خلا میں کوئی رہنما نہیں ہوتا ۔ تنہائی کوئی بھی ہو، اس تنہائی میں ایک دوسراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ پالنے والے کی ذات، جو خود کہتا ہے کہ میں تمہاری رگِ جاں سے بھی قریب ہوں۔ لیکن جب ریسیور ہی کسی قابل نہ ہو، جب آنکھیں بینائی سے محروم ہوں، جب ہاتھ پکڑ کر اندھیرے میں راستہ دکھانے والا کوئی نہ ہو، جب پتنگ کی ڈور کو قابو کرنے والا کوئی نہ ہو تو تو روح بیکراں تنہائی میں ادھر اُدھر ڈولتی رہتی ہے۔ اپنی ہی تنہائی کے احساس میں سلگتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی موہوم سا احساس ہوتا ہے کہ شاید منزل کی جانب سفر جاری ہے لیکن اکثر یہ سفر سہ جہتی خلا میں معلق جسم کی بے معنی حرکات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹر وے اکثر مجھے ایسی کیفیات میں لے جاتی ہے۔ اور میں ان کے سامنے بے بس ہوتا ہوں۔ اس کا منطقی نتیجہ میرے لیے یہی ہوتا ہے کہ سارا بِس کاغذ پر اتار دوں ورنہ میرا اندر سلگ سلگ کر خاک ہو جائے۔ ڈیڑھ ہزار الفاظ کی یہ بک بک شاید بلا مقصد لگے، لیکن مجھے ایک بات کی خوشی ہوتی ہے کہ موٹر وے اتنی طویل نہیں ہوتی کہ میں اپنی ذات کی تنہائی میں اتنا گہرا اتر جاؤں کہ واپسی کا راستہ بھول جائے۔
موٹروے سے مسافر کی واقفیت کوئی بہت قریبی نہیں۔ یہی جیسے دو اجنبی روز ایک دوسرے کے قریب سے گزریں تو جیسے اک بے نام سا ربط بن جائے، شناسا لیکن اجنبی چہروں اور آنکھوں کے اس تعلق سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ جیسے راستے کے ہر پتھر اور گڑھے کی عادت ہو جاتی ہے اور جب تک وہاں سے گزرتے جھٹکا نہ لگے کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے ہی راستے میں ٹکرانے والے اجنبی چہروں کی عادت سی ہو جاتی ہے نظر نہ آئیں تو کوئی کمی سی رہ جاتی ہے۔ موٹروے اور اس کے نشیب و فراز، اس کے راستے میں آنے والے درخت، پتھر، کھیت کھلیان، بے فکرے دیہاتی اور وسیع و عریض لینڈ اسکیپ مسافر کے ساتھ کچھ ایسی ہی واقفیت رکھتے ہیں یا شاید یہ صرف مسافر کی اپنی سوچ ہے اور یہ سب اسے دوسرے مسافروں جیسا ہی سمجھتے ہیں جو چلے جاتے ہیں اور لوٹ کر نہیں آتے۔ لیکن اس سے بھلا فرق بھی کیا پڑتا ہے تعلق تو اندر کہیں ہوتا ہے سوچ میں باہمی اظہار چاہے نہ بھی ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔۔
موٹروے سے یہ تعلق جیسا بھی ہو ابھی تک چل رہا ہے۔ اس وقت مسافر کے اردگرد موٹروے بھاگ رہی ہے اور اس کے محسوسات لفظوں میں ڈھل رہے ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے موٹروے اسلام آباد جیسی ہے سرد مزاج اور روکھی، پروٹوکول اور فاصلے کی دلدادہ، شاید اسلام آباد جاتی ہے اس لیے۔ جی ٹی روڈ اس کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے کالونی کے مقابلے میں محلہ ہو، عوامی، پر ہجوم، چہل پہل والا اور شور بھرا۔ جی ٹی روڈ پر ہر کچھ دیر بعد ایک شہر یا قصبہ آ جاتا ہے موٹروے پر یہی فرض اوورہیڈ پل سر انجام دیتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر راستہ بنانا پڑتا ہے اور موٹروے پر راستہ گویا راہ دیکھتا ہے۔
موٹروے پر چڑھ کر یوں لگتا ہے گویا آپ اردگرد سے کٹ گئے ہیں۔ موٹروے کا ایک ڈیکورم ہے۔ ایک لمبی نیلی پٹی جو چلتی چلی جاتی ہے چلتی چلی جاتی ہے اور اس کے ارد گرد ایک الگ ہی دنیا۔ اس لمبی پٹی پر نظر رکھی جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے منزل ہر لمحہ آپ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپ کھڑے ہیں اور منزل قدم بہ قدم آپ کو گلے لگانے کے لیے آ رہی ہے۔ اس پٹی پر نظر رکھیں تو جدت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر کلومیٹر کے فاصلے پر بورڈ، موڑ، انٹرچینج، ہیلپ لائن کے بوتھ اور دورانِ سفر آرام کے لیے جدید ترین سہولیات۔
لیکن صرف ہلکا سا زاویہ نظر تبدیل کرنے سے گویا دنیا بدل جاتی ہے۔ ذرا دائیں یا بائیں دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ نیلی پٹی ہی دنیا نہیں، ایک اور دنیا کے اندر بسی ہوئی ہے۔ ایک وسیع و عریض سبز لینڈ اسکیپ جس کے اندر کسی مصور نے بڑے سے برش سے یہ نیلی پٹی کھینچ دی ہے۔ دور تک پھیلے ہوئے کھیت کھلیان، درخت اور چھوٹی چھوٹی سڑکیں، تہذیب کے نشان چھوٹی چھوٹی بستیاں، گھر گھروندے اور آتے جاتے انسان۔ لیکن اس وسیع لینڈ اسکیپ کے سامنے سب کیڑے مکوڑے۔ موٹروے پر دوڑتی بس کی سیٹ نمبر پینتالیس پر بیٹھا مسافر اس وسعت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ مصورِ کائنات کے ذوق ِ مصوری کا ہلکا سا ادراک ہوتا ہے اور اس کا دل سبحان اللہ پکارنے کو مچل اٹھتا ہے۔ کہیں سبز رنگ ہے، کہیں گہرا سبز، کہیں ہلکا سبز، کہیں مٹیالا رنگ ہے، اور کہیں سنہری۔ جیسا موسم ہے ویسا رنگ ہے، آج کل گندم کے خوشے لہراتے تھے، ہر ہفتے گندم کا رنگ گہرے سبز سے پھیکا پڑتا پڑتا سنہری مائل ہوتا گیا اور اتنا سنہری ہو گیا کہ زمین جیسے سونے کی ہو گئی۔ اور اب کسان یہ سونا اکٹھا کر رہے ہیں۔ کہیں پھر سے مٹیالا رنگ نمودار ہو رہا ہے۔ اور کہیں ابھی یہ سنہری پن باقی ہے۔ کہیں پھر سے سبز شیڈ نمودار ہو جاتا ہے۔ اور مسافر کے منہ سے رنگوں کے اس خوبصور ت انتخاب پر موزوں الفاظ ِ تحسین بھی نہیں نکل پاتے۔
موٹروے صرف د و دنیاؤں کا نام ہی نہیں۔ یہاں ایک تیسری دنیا بھی پوری آن بان سے نمودار ہو جاتی ہے۔ اور وہ ہے مسافر کے اندر کی دنیا۔ مسافر فطری طور پر ایک تنہا شخص ہے۔ اپنے آپ میں گم رہنے ولا، خود ہی اندازے لگا کر خود ہی فیصلے کرنے والا ایک ایسا ریاضی دان جو دوسراہٹ کے نامعلوم متغیر کو اپنی ذات کی مساوات میں شامل کرنے سے کتراتا ہے۔ اس لیے صرف اپنے آپ کو ہی مساوات کے دونوں جانب رکھے زندگی گزار دیتا ہے۔ موٹر وے کی ڈیڑھ گھنٹہ طویل تنہائی مسافر کے اندر کی تنہائی سے مل کر دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ ایک نیلی پٹی جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی، افق تا افق چلتی چلی جاتی ہے اور اس پر دوڑتا تنہا مسافر۔ ایک وسیع لینڈ اسکیپ ، آسمان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا وسیع منظر اور اس میں ایک نیلی پٹی پر دوڑتا تنہا مسافر، اور مسافر کے اندر کی تنہائی یہ سب مل کر بعض اوقات اتنی وحشت پیدا کر دیتے ہیں جیسے سانس کے لیے ہوا کم پڑنی شروع ہو جائے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سفر باہر کی تنہائی سے شروع ہوتا ہے، جیسے درخت تلے کھڑے ہونے کے باوجود بھی بارش دھیرے دھیرے اپنا راستا بنا لے اور بھگونے لگے، ایسے یہ وسیع و عریض تنہائی اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ پھر جیسے مقناطیس کو مقنا طیس کشش کرتا ہے، مثبت کو منفی کھینچتا ہے ویسے باہر کی تنہائی اندر ایک ردعمل پیدا کرتی ہے ۔ اندر سے باہر کی جانب ایک سفر شروع ہوتا ہے اور جب یہ دو طرفہ سفر مکمل ہوتا ہے تو مسافر دوہری تنہائی کے حصار میں آ جاتا ہے۔
تنہا ہونے کا دکھ وہی جان سکتا ہے جو یا تو فطری طور پر تنہا ہو یا حالات کے ہاتھوں ستایا ہوا ہو۔ تنہائی کسی بھی طرح وارد ہو مسافر کے تجربے میں طبعیت کی قنوطیت تنہائی کے لیے عمل انگیز ہوتی ہے۔ گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کی صلاحیت دھیرے دھیرے اس خالی پن کو پوری کائنات پر نافذ کر دیتی ہے۔ ذات کی تنہائی اور باہر کی تنہائی مل کر اتنی بڑی تنہائی تشکیل دیتی ہیں کہ وحشت کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ ایسے میں عجیب و غریب سوچیں پروان چڑھتی ہیں۔ کبھی تو یہ تنہائی اتنی پھیل جاتی ہے کہ آفاقی ہو جاتی ہے۔ مسافر کی تنہائی، راستے کی تنہائی، نسلِ انسانی کی تنہائی اور اس کرے پر موجود زندگی کی تنہائی۔ اتنی بڑی بڑی تنہائیاں کہ مسافر کی اپنی تنہائی ان کے سامنے ہیچ محسوس ہونے لگے۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے موٹروے پر چڑھنا کسی مراقبے کی ابتدا ہو۔ مراقبہ بھی تو ایک خلا میں اترنے کا نام ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس خلا میں کوئی رہنما نہیں ہوتا ۔ تنہائی کوئی بھی ہو، اس تنہائی میں ایک دوسراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ پالنے والے کی ذات، جو خود کہتا ہے کہ میں تمہاری رگِ جاں سے بھی قریب ہوں۔ لیکن جب ریسیور ہی کسی قابل نہ ہو، جب آنکھیں بینائی سے محروم ہوں، جب ہاتھ پکڑ کر اندھیرے میں راستہ دکھانے والا کوئی نہ ہو، جب پتنگ کی ڈور کو قابو کرنے والا کوئی نہ ہو تو تو روح بیکراں تنہائی میں ادھر اُدھر ڈولتی رہتی ہے۔ اپنی ہی تنہائی کے احساس میں سلگتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی موہوم سا احساس ہوتا ہے کہ شاید منزل کی جانب سفر جاری ہے لیکن اکثر یہ سفر سہ جہتی خلا میں معلق جسم کی بے معنی حرکات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹر وے اکثر مجھے ایسی کیفیات میں لے جاتی ہے۔ اور میں ان کے سامنے بے بس ہوتا ہوں۔ اس کا منطقی نتیجہ میرے لیے یہی ہوتا ہے کہ سارا بِس کاغذ پر اتار دوں ورنہ میرا اندر سلگ سلگ کر خاک ہو جائے۔ ڈیڑھ ہزار الفاظ کی یہ بک بک شاید بلا مقصد لگے، لیکن مجھے ایک بات کی خوشی ہوتی ہے کہ موٹر وے اتنی طویل نہیں ہوتی کہ میں اپنی ذات کی تنہائی میں اتنا گہرا اتر جاؤں کہ واپسی کا راستہ بھول جائے۔
سپیچ لیس۔
جواب دیںحذف کریں