دین کی سپیشلائزیشن دین پر ہزار سالہ پرانی فقہی سوچ کی اجارہ داری قائم کرتی ہے۔ اگر کوئی عام مسلمان، مناسب حد تک عقائد سے واقفیت رکھنے کے باوجود کسی چیز پر اعتراض کرے تو اسے چپ کروا دیا جاتا ہے کہ تمہیں یہ حق حاصل نہیں ہے۔ حق حاصل کب ہو گا؟ اگر تم پچھلوں کی تھیوری گھول کر پی لو، انہیں روایات پر چلو جن پر وہ چلے تھے اور اس کی سیدھ میں رہ کر بات کرو جو پچھلوں نے متعین کر دیا تھا تو تمہاری بات قابلِ قبول ہو گی ورنہ جہنم میں جاؤ، تم فتنہ پرور ہو۔ جب یہ فکر و سوچ موجود ہو تو اجتہاد پر جتنا مرضی زور لگا لیا جائے کھوتی وہیں آ کر کھلوتی ہے جہاں سے وہ چلی تھی۔ پچھلوں کے متعین کردہ راستے پر چلنے سے بار بار بار بار وہی نتیجہ نکلتا ہے جب متغیر کی قیمتیں وہی رکھنی ہے تو جواب بھی وہی آئے گا۔ مثلاً احادیث میں ہی تدوینِ جدید کی بات کر لیں جو ترکی میں جاری ہے۔ جس میں احادیث کو زمانی نکتہ نظر سے الگ کیا جا رہا ہے، ایسی احادیث جو ہزار سال پہلے کے لیے موزوں تھیں اور ایسی احادیث جو آفاقی پیغام رکھتی ہیں، زمانے سے ماوراء ہیں۔ اب اس پر اختلاف کا طوفان کھڑا ہو سکتا ہے کہ حدیث اس میراث کا حصہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے چھوڑی، چنانچہ حدیث قیامت تک کے لیے ہے۔ جیسے قرآن قیامت تک کے لیے ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اونٹ کا پیشاب پلانے والی حدیث، اور اس جیسے کئی اقوالِ رسول ﷺ جو ایک خاص سیاق و سباق و موقع محل کے مطابق دئیے گئے ہر زمانے کے لیے کار آمد نہیں ہو سکتے، اور نہ ہی اغلباً رسول اللہ ﷺ نے ایسا ارادہ فرمایا تھا۔ تو جب طرزِ فکر کو محدود کیا جاتا ہے، جب ہر غیر روایتی چیز کو رد کیا جاتا ہے، جب "اجماعِ امت" کے نام پر (جو پچھلوں کی پیروی کا ہی دوسرا نام ہے) ڈراوے دئیے جاتے ہیں۔ جب پچھلوں کی پیروی صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ "ہم سے زیادہ متقی تھے"(حالانکہ ان کے متقی پن کا آج کے مسائل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں بنتا) تو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کھوتی وہیں آ کھلوتی ہے چاہے جتنا مرضی زور لگا لے۔
ایک اور مسئلہ دین کے ماخذات کا ہے۔ دین کا ماخذ قرآن ہے، حدیثِ رسول ہے لیکن قرآن سے کم اہمیت والی اور اختلافات کا خدشہ نسبتاً زیادہ چونکہ اس کو محفوظ رکھنے کا کوئی آسمانی وعدہ نہیں تھا، لوگوں نے خود سے احادیث بھی گھڑیں، سینکڑوں برس کی تدوین و تالیف کے باوجود آج بھی ضعیف احادیث انہیں کتب میں موجود ہیں اور عوام الناس میں گردش بھی کرتی ہیں (ظاہر ہے عوام ضعیف احادیث سے آگاہ نہیں ہوتے)۔ تیسرا ماخذ جو بنا لیا گیا ہے وہ پچھلوں کے اقوال ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیم اجمعین چونکہ انہیں زمانہ رسول ﷺ ملا، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے فقہا۔ یعنی جو کوئی زمانہ رسول ﷺ سے جتنا قریب ہے جنرل رول آف تھمب کے تحت اس کی رائے اتنی ہی زیادہ اہمیت والی ہو گی، آج کی رائے پر فوقیت دی جائے گی اور وہ اتنی ہی زیادہ روایت کی وہ چار دیواری قائم کرنے میں معاون ہو گی جو دین کے معاملے میں سوچتے ہوئے عائد کرنا، طاری کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ منظر نامہ اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ان سارے ماخذات کو ایک دوسرے کے ساتھ مکس کر دیا جاتا ہے۔ قرآنی احکام ، احادیثِ رسول اور احادیثِ اصحابِ رسول و بزرگان کو ایسے مکس کر دیا جاتا ہے کہ اللہ نے کیا فرمایا، رسول اللہ ﷺ کا کیا حکم تھا اور دیگر بزرگان کی رائے، قول یا عمل کونسا تھا۔ سب کچھ یکساں اہمیت کے تحت نافذ کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی دو تین برس پہلے اردو محفل پر موسیقی کے حلال حرام کے ہونے کے حوالے سے ایک قرآنی آیت پیش کی گئی (سورہ لقمان آیت 6) جس میں "لغو باتوں" (لہو الحدیث) کا ذکر تھا۔ اس سلسلے میں "لغو باتوں" کا مطلب موسیقی نکالا گیا، جو دراصل ایک صحابیِ رسول ﷺ کی بیان کردہ اس آیت کی تفسیر سے آیا۔ اوپر بیان کردہ قانون کے مطابق صحابیِ رسول کا قول آج کسی شخص کے قول سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں؟ چونکہ وہ زمانہ رسول ﷺ کے قریب ترین ہیں، دوم وہ رسو ل اللہ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اس پر وہی سوال اٹھتا ہے کہ دین اللہ اور اس کے رسول ﷺ (جن کی رہنمائی اللہ بذریعہ وحی کرتا ہے) سے آتا ہے یا اصحابِ رسول اور بزرگانِ دین سے۔ اور جیسا کہ بتایا گیا دین کے حوالے سے زمانی فاصلے کی اہمیت کے قانون کے تحت اصحابِ رسول ﷺ کا کہنا بھی کچھ کم اہمیت کے ساتھ دین میں وہی درجہ رکھتا ہے، کہہ لیں کہ اللہ، رسول کے بعد تیسرے نمبر پر۔ موسیقی کو قرآن میں کہیں واضح الفاظ میں حرام نہیں کہا گیا، احادیث پر بحث کی جا سکتی ہے کچھ لوگ حرام کہتے ہیں ایک اقلیت نے حلال بھی کہا۔ لیکن موسیقی کو قرآن سے بھی حرام ثابت کرنے کے لیے تفسیر پیش کر دی گئی (جو تیسرے ذریعے سے آتی ہے یعنی صحابیِ رسول)۔ اب اسے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ قرآنی حکم ہی ہے۔ یعنی دین کے ماخذات کو مکس کر کے پیچیدگی پیدا کرنے کا کام، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ ایسی صورت میں جاوید احمد غامدی اگر موسیقی کو حلال کہے، شاہ محمد جعفر پھلواری اسے مستحب کہے تو وہ غلط قرار پاتے ہیں ۔
چنانچہ وہی بات جو پیچھے عرض کی، اجتہاد روایت کے اندر رہ کر کیا جائے تو قابلِ قبول ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ اجتہاد وہی جواب نکالتا ہے جو پانچ سو برس پہلے نکلتا تھا۔ "اجماعِ امت" اور روایات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی ان حدود سے باہر جا کر نہ سوچ سکے جو پچھلوں نے متعین کر دیں۔ چنانچہ دین بے زار طبقہ آخر کار یہ کہہ دیتا ہے کہ مذہب تو ایک ثقافتی عنصر ہے، گٹے ننگے کرو یا نہ کرو کیا فرق پڑتا ہے، پینٹ کے ساتھ جرابیں پہن کر گٹے ننگے کیا کریں برے لگتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ
نتیجہ یہ کہ ایسے ماحول میں اجتہاد پانی میں مدھانی کا کام کرتا ہے جتنی مرضی چلا لو مکھن نہیں آتا، یا جو مکھن آنا تھا وہ لوگ پہلے ہی نکال چکے۔
ایک اور مسئلہ دین کے ماخذات کا ہے۔ دین کا ماخذ قرآن ہے، حدیثِ رسول ہے لیکن قرآن سے کم اہمیت والی اور اختلافات کا خدشہ نسبتاً زیادہ چونکہ اس کو محفوظ رکھنے کا کوئی آسمانی وعدہ نہیں تھا، لوگوں نے خود سے احادیث بھی گھڑیں، سینکڑوں برس کی تدوین و تالیف کے باوجود آج بھی ضعیف احادیث انہیں کتب میں موجود ہیں اور عوام الناس میں گردش بھی کرتی ہیں (ظاہر ہے عوام ضعیف احادیث سے آگاہ نہیں ہوتے)۔ تیسرا ماخذ جو بنا لیا گیا ہے وہ پچھلوں کے اقوال ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیم اجمعین چونکہ انہیں زمانہ رسول ﷺ ملا، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے فقہا۔ یعنی جو کوئی زمانہ رسول ﷺ سے جتنا قریب ہے جنرل رول آف تھمب کے تحت اس کی رائے اتنی ہی زیادہ اہمیت والی ہو گی، آج کی رائے پر فوقیت دی جائے گی اور وہ اتنی ہی زیادہ روایت کی وہ چار دیواری قائم کرنے میں معاون ہو گی جو دین کے معاملے میں سوچتے ہوئے عائد کرنا، طاری کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ منظر نامہ اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ان سارے ماخذات کو ایک دوسرے کے ساتھ مکس کر دیا جاتا ہے۔ قرآنی احکام ، احادیثِ رسول اور احادیثِ اصحابِ رسول و بزرگان کو ایسے مکس کر دیا جاتا ہے کہ اللہ نے کیا فرمایا، رسول اللہ ﷺ کا کیا حکم تھا اور دیگر بزرگان کی رائے، قول یا عمل کونسا تھا۔ سب کچھ یکساں اہمیت کے تحت نافذ کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی دو تین برس پہلے اردو محفل پر موسیقی کے حلال حرام کے ہونے کے حوالے سے ایک قرآنی آیت پیش کی گئی (سورہ لقمان آیت 6) جس میں "لغو باتوں" (لہو الحدیث) کا ذکر تھا۔ اس سلسلے میں "لغو باتوں" کا مطلب موسیقی نکالا گیا، جو دراصل ایک صحابیِ رسول ﷺ کی بیان کردہ اس آیت کی تفسیر سے آیا۔ اوپر بیان کردہ قانون کے مطابق صحابیِ رسول کا قول آج کسی شخص کے قول سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں؟ چونکہ وہ زمانہ رسول ﷺ کے قریب ترین ہیں، دوم وہ رسو ل اللہ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اس پر وہی سوال اٹھتا ہے کہ دین اللہ اور اس کے رسول ﷺ (جن کی رہنمائی اللہ بذریعہ وحی کرتا ہے) سے آتا ہے یا اصحابِ رسول اور بزرگانِ دین سے۔ اور جیسا کہ بتایا گیا دین کے حوالے سے زمانی فاصلے کی اہمیت کے قانون کے تحت اصحابِ رسول ﷺ کا کہنا بھی کچھ کم اہمیت کے ساتھ دین میں وہی درجہ رکھتا ہے، کہہ لیں کہ اللہ، رسول کے بعد تیسرے نمبر پر۔ موسیقی کو قرآن میں کہیں واضح الفاظ میں حرام نہیں کہا گیا، احادیث پر بحث کی جا سکتی ہے کچھ لوگ حرام کہتے ہیں ایک اقلیت نے حلال بھی کہا۔ لیکن موسیقی کو قرآن سے بھی حرام ثابت کرنے کے لیے تفسیر پیش کر دی گئی (جو تیسرے ذریعے سے آتی ہے یعنی صحابیِ رسول)۔ اب اسے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ قرآنی حکم ہی ہے۔ یعنی دین کے ماخذات کو مکس کر کے پیچیدگی پیدا کرنے کا کام، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ ایسی صورت میں جاوید احمد غامدی اگر موسیقی کو حلال کہے، شاہ محمد جعفر پھلواری اسے مستحب کہے تو وہ غلط قرار پاتے ہیں ۔
چنانچہ وہی بات جو پیچھے عرض کی، اجتہاد روایت کے اندر رہ کر کیا جائے تو قابلِ قبول ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ اجتہاد وہی جواب نکالتا ہے جو پانچ سو برس پہلے نکلتا تھا۔ "اجماعِ امت" اور روایات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی ان حدود سے باہر جا کر نہ سوچ سکے جو پچھلوں نے متعین کر دیں۔ چنانچہ دین بے زار طبقہ آخر کار یہ کہہ دیتا ہے کہ مذہب تو ایک ثقافتی عنصر ہے، گٹے ننگے کرو یا نہ کرو کیا فرق پڑتا ہے، پینٹ کے ساتھ جرابیں پہن کر گٹے ننگے کیا کریں برے لگتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ
نتیجہ یہ کہ ایسے ماحول میں اجتہاد پانی میں مدھانی کا کام کرتا ہے جتنی مرضی چلا لو مکھن نہیں آتا، یا جو مکھن آنا تھا وہ لوگ پہلے ہی نکال چکے۔
حضور آپ بڑے مُجتہد ہیں تو دودھ میں سے مکھن نکالئے ۔ آپ نے تو گندھے پانی کے کیڑے جمع کرنا شروع کئے ہوئے ہیں
جواب دیںحذف کریںمیں مجتہد ہوتا تو دودھ سے مکھن ہی نکالتا۔ اتنی اوقات نہیں اس لیے گندے پانی کے کیڑے ہی جمع کر رہا ہوں۔
جواب دیںحذف کریںمیں اجمل انکل کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، آپ کو کسی نے نہیں روکا اجتہاد کرنے سے۔ اگر آپ درست سوچتے ہیں اور آپ کے خیال میں باقی ساری دنیا کے مسلمان غلط سوچتے ہیں تو آپ نے اجتہاد کی ابتدا تو کر ہی لی ہے۔ اب بسم اللہ کیجئے اور اسے منطقی انجام تک پہنچائیے۔ کیا پتہ آپ کی اس کوشش کے صدقے مجھ جیسے کئی گنہگار راہ راست پر آ جائیں۔
جواب دیںحذف کریںمیں آپ کے اجمل انکل سے اتفاق کرنے سے اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن اختلاف کرنا میرا حق ہے، اور اس کے لیے مجتہد ہونا ضروری نہیں، کھوپڑی میں بھیجہ چاہیئے اور اسے سوال اٹھانے کی عادت ہونی چاہیئے۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے جواب سے واضح ہوا کہ میری بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی ۔ اب میں ذرا دین سے ہٹ کر بات کرتا ہوں ۔ شاید آپ سمجھ سکیں ۔ سر آئزک نیوٹن کے حرکت کے تین کُلیئے بہت مشہور ہیں ۔ ہیں بڑے سادہ سے مگر انہں نیوٹن کی میراث یا نیوٹن کے وقت کی پیداوار کوئی نہیں کہتا بلکہ ہر کئی اپناتا ہے . ارشمیدس کا بائواینسی کا کُلیئہ کبھی کسی نے یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا کہ ایسا تو ارشمیدس کی پیدائش سے بہت پہلے سے ہوتا چلا آ تا تھا ۔
جواب دیںحذف کریںان آسان سے کُلیات کو رد کرنا تو بہت بڑی بات ہے ۔ ان کے متعلق بات کرنے پہلے آدمی کو وہاں تک کا سارا علم حاصل کرنا پڑتا ہے تب بھی اُس آدمی بات سُننے کو کم ہی لوگ تیار ہوں گے ۔
ایک دین اسلام ہی ایسا علم کے جس پر جو چاہے (بغیر اسے سمجھنے کی کوشش کئے) یلغار کر دے ؟ ایسا صرف اسلئے ہے کہ ایسا کرنا بہت آسان سمجھا جاتا ہے
دین اسلام کو کامل الوجود مطلق سائنس سمجھتے ہوئے اس کا مطالعہ کیجئے اُس سے زیادہ انہماک کے ساتھ جیسا آپ کالج یا یونیورسٹی کے امتحانات کیلئے کرتے رہے ہیں ۔ مگر خدا را نوٹس اور خلاصے نہ پڑھیئے بلکہ اصل کتاب پڑھیئے
گستاخی کی پیشگی معافی کی درخواست کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کی دو تحاریر آپ کے ذہنی خلفشار کی غمازی ہیں ۔ یہ صورتِ حال مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک یا ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں
1 ۔ آدمی کی خواہشات اور حالات کا ٹکراؤ
2 ۔ قوتِ ارادی کی کمزوری
3 ۔ کچھ دنیاوی عملی ناکامیاں
4 ۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو کراچی کا موجودہ ماحول
5 ۔ اللہ پر یقین کا فُقدان ۔ یہ مندرجہ بالا سب وجوہات کا احاطہ بھی کرتی ہوئی سب سے اہم بات ہے
ٕمحترمی میں جاوید غامدی کی مثال دے چکا ہوں جسے آؤٹ کاسٹ قرار دیا جاتا ہے، (اور وہ قرآن و حدیث کا مناسب علم رکھنے والا ایک عالم بندہ ہے، یار لوگ اسے جو مرضی کہہ لیں وہ ایک الگ بات ہے)۔ چونکہ وہ روایت سے ہٹ کر بات کرتا ہے۔ توہین رسالت اور مرتد کی سزا موت نہیں بتاتا، موسیقی کو حلال کہتا ہے۔ میں کوئی مجتہدِ دین نہیں اور نہ یہ تحریر کوئی انقلاب برپا کرنے کے لیے لکھی ہے۔ یہ حالات کا ایک ذاتی تجزیہ جو میں نے اپنے محدود علم اور تجربے کی روشنی میں کیا ہے۔ اس کا مقصد عین یہی تھا کہ سوالات اٹھائے جائیں۔ جو میرے جیسے کئی لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتے ہوں گے۔ لیکن میں زیادہ ڈھیٹ ہوں جو زبان سے اظہار کرتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںجہاں تک بات ذہنی خلفشار کی ہے تو آج کونسا مسلمان ذہنی خلفشار کا شکار نہیں ہے؟ آج پاکستان میں ہر مسلمان چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے، ایک طرف روایت پرست طاقتور مذہبی طبقہ ہے دوسری طرف دین بے زار مغرب پرست لبرل۔
معذرت کے ساتھ آپ کے تبصرے اور منیر عباسی کے تبصرے سے جھنجھلاہٹ کا تاثر ملتا ہے۔
میرا تو اتنا یقین ہے کہ آج اگر میں سوالات اٹھاتا ہوں تو کل شاید ان کے جواب بھی مل جائیں، جسے آج میرے احباب گواچی گاں سمجھ رہے ہیں اسے راستہ مل جائے۔ چناچہ ایک مرتبہ پھر معذرت کے ساتھ یہ تحاریر انتہائی ہوش و حواس، ذمہ داری، اور دردمندی سے لکھی جا رہی ہیں۔ اور ان کا مقصد فتنہ پھیلانا نہیں (اگر فتنہ پھیلانا ہوتا تو میں بات یہان سے شروع کرتا کہ روزے سے مسلمانوں کو کیا کیا نقصانات ہوتے ہیں، مذہب کی وجہ سے پاکستان کا کتنا بیڑہ غرق ہو چکا ہے)، مسائل کے حل کی نئی راہیں کھوجنا ہے، یا کم از کم ایک متبادل رائے بیان کرنا ہے۔
وما علینا الا البلاغ
جب معیار جدید تہذیب ہے تو اجتہاد وغیرہ کے چکر میں کیوں پڑتے ہیں۔ صاف صاف اس آؤٹ ڈیٹڈ اسلام کو مسترد کیجیئے۔خواہ مخواہ دو کشتیوں کی سواری کیوں کرنا چاہتے ہیں ہواؤں میں پرواز کیجیئے جناب ہواؤں میں۔
جواب دیںحذف کریںآپ موسیقی سنیئے، گھر میں حجاب پر سخت پابندی لگائیے، رقص و سرور کی محفل لگائیے، جی بھر کر سود کھائیے غرض جو جی میں کیجیئے۔ کون روکے گا؟ خدارا اسلام کو معاف کردیجیئے
اسلام پر کونسا کسی کا ٹھیکہ ہے صاحب۔ اور نہ اسلام کسی تہذیب کا نام ہے۔ یہ تو خدائی تعلیم ہے جو ہر دور کی تہذیب کے ساتھ مل کر طرزِ زندگی تشکیل دیتی ہے۔ اسلام سے کیسا گلہ اور کیسی معافی۔
جواب دیںحذف کریںبخدا مجھے کسی قسم کی جنجھلاہٹ نہیں ہوئی۔ ( یہ جھنجھلاہٹ ہے یا جنجھلاہٹ؟؟)مجھے تو خوشی ہوئی کہ آپ نے کم از کم اپنے خیالات کا اظہار تو کیا۔
جواب دیںحذف کریںمیں شائد کچھ باتوں میں آپ سے متفق ہوں۔ شائد نہ ہوں۔ مثلا مرتد کی سزا کے بارے میں میں نے دو عدد تحاریر لکھی ہیں۔ اور میں دونوں اطراف کے موقف کو پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو لوگ مرتد کی سزا موت کے خلاف ہیں وہ منطقی انداز میں سوچتے ہیں۔
میں نے اسی لئے آپ سے درخواست کی کہ اگر آپ سنجیدہ ہیں تو بسم اللہ کیجئے۔ مگر اگر سوال محض برائے اختلاف ہی کرنا ہیں تو ابو جہل اور عزازیل کا انجام بھی سامنے رکھ لیجئے۔
آپ اکثر بہت تلخ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سیکھنے اور سکھانے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
تلخی دراصل میرے مزاج کا حصہ ہے جو میری تحریروں میں بھی چھلک آتی ہے۔ یہ ایک ایسا فیکٹر ہے جو شاید عمر کے ساتھ ہی ڈھلے۔ اس لیے آپ اسے بلٹ ان فالٹ سمجھ کر اگنور کیا کریں۔
جواب دیںحذف کریںمرتد کی سزا پر میں نے قطعاً کبھی کوئی بات نہیں کی، صرف جاوید غامدی کا حوالہ دیا ہے۔
میں کوئی مجتہد نہیں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ یہ تحریر ایک طرزِ عمل کے نقصانات بیان کرنے کے لیے لکھی ہے۔ سپیشلائزیشن ہر شعبے کا حصہ ہے، لیکن یہی سپیشلائزیشن اجارہ داری کا باعث بھی بنتی ہے۔ اور میں نے اس کو ناقدانہ انداز میں ڈسکس کیا ہے، مثالوں کے ساتھ۔ مقصد خود کو مجتہد ثابت کرنا نہیں ایک مسئلہ اٹھانا تھا وہ میں نے اٹھا دیا۔ اب کوئی اس کو دیکھ کر مجتہد ہو جائے، کیا خبر، آج کے معاملات و مسائل کے قابلِ قبول حل پیش کر دے کیا خبر۔ میں تو لسانیات اور سماجی لسانیات کا طالبعلم ہوں، میرے شعبہ اور اسلامیات سے میری دلچسپی نے مجھے مجبور کیا کہ یہ لکھوں۔ دراصل یہ کاشف نصیر کی ایک پوسٹ پر جاری گفتگو کے جواب میں ایک تبصرہ تھا جو بڑھتے بڑھتے ایک ہزار الفاظ کی تحریر بن گیا۔ اس کی ٹائم لائن پر جائیں تو کل کی ڈیٹ میں یہ اقتباس ہو گا
جواب دیںحذف کریں-------------------------------------------
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی بعید و قریب میں مسلمانوں میں جتنی بھی گمراہ تحاریک اٹھیں وہ سب قرآن کے عنوان سے اٹھیں۔ مثلا چکڑالیت اٹھی اور پھر اسی طرح پرویزیت۔ اب اس ضمن میں ایک بات جان لیجئے کہ ان تمام گمراہ فرقوں اور تحریکوں کا اصل طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک آدھ مسئلہ کو پکڑ کر' جو امت میں متفق علیہ اور مجمع علیہ رہا ہے' اس پر شکوک و شبہات پیدا کردیتے ہیں۔ اس ایک تیر سے کتنے شکار ہوگئے!!! آپ نے اپنے عقیدت مندوں کے ذہن و قلب میں یہ بات بٹھادی کہ سارے فقہاء بے وقوف تھے' سارے محدثین ناسمجھ تھے، سارے مفسرین بے علم تھے اور سارے علمائے امت بے عقل تھے
-----------------------------------------
اس کے نیچے خورشید صاحب نے جاوید غامدی کا حوالہ دیا تو میرے ذہن میں ایک تبصرہ ترتیب پانے لگا، لیکن لکھتے لکھتے پانچ سو الفاظ تک پہنچ گیا اور میں نے اسے مزید تفصیلی بنا کر وہاں بھی پوسٹ کیا، اور اپنے بلاگ پر بھی لگا دیا۔
محترم ۔ میری عادت امتزاج کی نہیں ہے ۔ بغیر چینی چڑھائے یا مکھن لگائے بات کرتا ہوں ۔ اس سے وقت کی بھی بچت ہوتی ہے اور سمجھنے والے پر اثر بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ جنجھلاہٹ اللہ نے میری فطرت میں رکھی ہی نہیں ۔
جواب دیںحذف کریںآپ نے جاوید احمد غامدی کی بات کی ہے ۔ اسے سمجھنے کیلئے پہلے قرآن شریف میں اسلام کے موٹے موٹے اصولوں مثال کے طور پر زکٰوۃ ۔ جہاد ۔ پردہ اور سیدنا محمد ﷺ کے متعلق قرآن شریف میں درج اللہ کے فرمان کو سمجھ کر پڑھیئے پھر جاوید احمد غامدی کی لکھی ہوئی تشریحات کو پڑھیئے تب کہیں جا کر کچھ سمجھ آئے گی ۔
خیال رکھیئے دنیا ایک دن میں نہیں بن گئی تھی ایک مکان بھی بنانا ہو تو کئی ماہ محنت کرنا پڑتی ہے اور اس محنت سے پہلے مکان کیلئے پیسہ اکٹھا کرنے کیلئے وقت اور محنت درکار ہوتی ہے ۔ صرف ایک بنیادی شرط ہے ”اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر کامل یقین“۔ اس کے بغیر آپ کچھ بھی سمجھ نہیں پائیں گے
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر پندرہویں صدی کا ایک علم والا قرآن کا وہ مطلب نکالے جو پچھلی 14 صدیوں میں ہزاروں یا سینکڑوں علم والوں نے نہ نکالا ہو یا صرف چند نے نکالا ہو تو سائنس بھی ایسی بات کو ماننے سے روکتی ہے
باقی آپ اپنے اعمال کے مالک ہیں ۔ میں نے تو اپنا فرض ادا کرتے ہوئے رہنمائی کی کوشش کی تھی ۔
اللہ کی مجھ پر بڑی مہربانی رہی ہے ۔ میری والدہ اور میری نانی عربی پر عبور رکھتی تھیں ۔ میری بیوی عربی پر عبور رکھتی ہے ۔ میرے دادا ۔ دادی ۔ نانا ۔ والد سب عربی جانتے تھے ۔ میں نے والدہ سے قرآن کا ترجمہ سُنا ۔ میری بیوی اور بیٹی قرآن شریف کا ترجمہ اور تفسیر لڑکیوں کو پڑھاتی ہیں ۔ میری دو بہنیں بھی یہ کام کرتی ہیں ۔ لیکن یہ سب عام یونیورسٹیوں سے سائنس کی گریجوئیٹس ہیں اور قرآن شریف پڑھانا ان کا پیشہ نہیں ہے ۔ اس ماحول میں زندگی گذارتے ہوئے بھی میں اپنے آپ کو ابھی طالبِ علم ہی سمجھتا ہوں اور یہ طالب علمی کا زمانہ 6 دہائیوں پر محیط ہے ۔ اتنا ضرور ہے کہ قرآن شریف کی غلط تشریح اللہ کے فضل سے پہچان لیتا ہوں
صرف مردے اور مردود ہی اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے۔
جواب دیںحذف کریںبالکل درست صرف مردے اور مردود اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے لیکن ایک بات نا بھولیے کہ خدا کا کہا اور نبی ﷺ کا فرمان ناقابل تنسیخ ہے ۔ چاہے آپ کیسی ہی تشریح کرنے کی کوشش کرلیں قرآن اور حدیث کو نہیں بدل سکتے۔ اور اگر ایسی کوشش کامیاب ہو بھی گئی تو وہی حال ہوگا جو ایوانجلسٹ عیسائیوں کا ہوا ہے کہ جہاں بڑے بڑے پادری بھی اعلانیہ ہم جنس پرست ہیں۔
جواب دیںحذف کریں