اس قوم کی تاریخ میں اتنے بڑے بڑے ہاسے ہیں کہ ہس ہس کر وکھیاں ٹوٹ جائیں لیکن ہاسے مخول ختم نہیں ہوتے۔ مثلاً یہ دو قومی نظریہ ہی لے لیں۔ ایک وقت تھا جب ابو الکلام آزاد وغیرہ کے خیال میں دو قومی نظریہ کچھ نہیں تھا۔ آج کل کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابوالکلام بعد میں اپنے خیال پر پچھتائے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ ابوالکلام نے کوئی پیشن گوئیاں کر دی ہوئی تھیں کہ بنگال اور مغربی پاکستان وغیرہ کے ٹوٹنے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال چونکہ دو قومی نظریے کی جانب پچھواڑا کر کے چلتا چلا جاتا ہے اس لیے اس کے پچھواڑے پر ہی حتی المقدور لات رسید کر کے اسے دفع دور کیا جاتا ہے اور دو قومی نظریے کی جی جان سے حفاظت کی جاتی ہے۔
سینتالیس میں جو دو قومی نظریے کے مبینہ مخالف تھے آج وہ اس کے مبینہ وارث بنے بیٹھے ہیں۔ اور جو دو قومی نظریے کے مبینہ وارث تھے آج کل وہ مبینہ طور پر فریڈم مارچ وغیرہ نکالتے پائے جاتے ہیں۔ ہے نا ہاسے والی گل۔ سنا ہے کہ جس دن محمد بن قاسم نے برصغیر پر حملہ کیا تھا اس دن یہاں دو قومیں بن گئی تھیں ایک مسلمان اور ایک ہندو۔ پھر سینتالیس ہو گیا اور پھر اکہتر ہو گیا اور مسلمانوں کے اندر دو مزید قومیں بن گئیں۔ ایک بنگالی اور ایک پاکستانی۔ اور پھر اپنی ماں پاکستانی قوم کو کھا کر اس کے پیٹ سے کوئی ادھی درجن اور قومیں نکل آئیں۔ انہیں میں سے کل سندھی نامی ایک قوم کوئی لال جھنڈے اٹھائے کسی پاکستان نامی ملک سے آزادی کے نعرے لگا رہی تھی۔ ہے نا ہاسے والی گل کہ دو قومی نظریہ جو اب کثیر قومی نظریہ ہو گیا ہے لیکن نہیں ہوا۔ عیسائیوں کی تثلیث کی طرح۔ سارے ایک ہیں اور ایک سارے ہیں۔ کیسی ہاسے والی سی گل ہے نا جی؟
دو قومی نظریے کے وڈے کہتے ہیں کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور باقی کافر ہیں۔ چنانچہ دنیا میں صرف دو قومیں ہوئیں: مسلمان اور کافر۔ ارے نہیں مسلمان ایک امت ہیں۔ اور کافر ایک اور امت ہیں دو پھر دو امتیں ہوئیں: مسلمان اور کافر۔ یعنی دو بیانات کو اکٹھا کریں تو ریاضی کی زبان میں قوم = امت۔ اور نتیجہ؟ ایک پانچ ٹانگوں اور دو دھڑ والا بچہ۔ جو امت بھی ہے اور قوم بھی ہے۔ قوم بھی ہے اور امت بھی ہے۔ اور پھر اس قوم/امت میں سے کبھی عرب قوم نکل آتی ہے اور عجمی قوم نکل آتی ہے۔ پھر عرب قوم میں سے سعودی قوم قطری قوم سے سفیر واپس بلا لیتی ہے۔ اور پھر پاکستانی قوم میں سے بنگالی قوم الگ ہو جاتی ہے۔ اور پھر سندھی قوم بھی ہو جاتی ہے اور مہاجر قوم بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ امت کدھر گئی؟ لگتا ہے قوم = امت فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہ اتنی ساری قومیں ایک ہی مذہب کی بنیاد پر کیوں ایک امت نہیں رہ سکیں؟ یا یہ امت ہی ہیں اور قوم کو امت کے برابر رکھ کر دو دھڑ پانچ ٹانگوں والا بچہ زبردستی جنا گیا ہے؟ یا شاکر فیر اپنے پاغل پن میں اول فول بک رہا ہے؟ ایہہ کی چکر است؟
گل سوچنے والی ہے نا؟ دو قومی نظریے کے وڈے کہتے ہیں کہ قوم مذہب کی بنیاد پر بنتی ہے۔ اسلام آ گیا تو بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مسلمان قوم ہو گئی اور ایک کافر قوم ہو گئی۔ پر چودہ سو سال کی تاریخ میں مذہب قبائلی، لسانی، جغرافیائی اور نسلی تعصبات کیوں ختم نہ کر سکا؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مذہب کی بنیاد پر قومیں بنتیں اور پھر قوم = امت ہو کر مسئلہ حل ہو جاتا۔ لیکن اس گندی غیر مثالی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ چند ایک مستثنیات کے علاوہ قوم پرستی اور قوم بندی میں مذہب کے ساتھ کوئی آدھ درجن اور فیکٹر آ شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے پھر امت کا تصور روحانی رہ جاتا ہے، بلکہ اخلاقی رہ جاتا ہے۔ چلیں اپنے صدر صاحب کی مثال لے لیں۔ وہ ہیں تو سہی لیکن بے ضرر ہیں، بس نام کے ہیں۔ تو امت بھی ہے تو سہی لیکن نام کی ہے۔ جس دن اللہ کا کوئی فرستادہ قیامت سے پہلے مسلمانوں پر اتر آیا تو قوم اور امت اکٹھے ہو جائیں شاید۔ اس سے پہلے امت وہ اوووووووووووپر آسمان پر موجود ایک تصور ہے۔ نظر تو آتا ہے، اچھا بھی لگتا ہے، اپنانے کو بھی دل کرتا ہے لیکن پھر یہ گندی دنیا، گندی باتیں، گندی دنیا داری اور مادی فائدے یہ سارے نظر کو گدلا کر دیتے ہیں دھندلا دیتے ہیں اور زیادہ مادی تصور یعنی قوم بحساب نسل، رنگ، جغرافیہ، زبان پر نظر چپک جاتی ہے۔ مذہب بھی حصہ رہتا ہے لیکن اسی طرح جس طرح باقی فیکٹر ہیں کبھی ذرا برتر کبھی ذرا کم تر۔ کبھی فیصلہ کن لیکن ہمیشہ نہیں۔ ویسے ہی جیسے بنگالیوں کی بار زبان فیصلہ کن ہو گئی تھی، پاکستان کی بار مذہب فیصلہ کن ہو گیا تھا۔
پر دو قومی نظریے کے وڈے یہ بات نہیں مانتے ان کے خیال میں ایک ہی قوم ہوتی ہے جس کا نام پاکستانی قوم ہے۔ اگر اس قوم کے علاوہ کوئی قوم مان لی تو پاکستان تو گیا۔ پاکستان کیوں گیا بھائی؟ پاکستان ایک حقیقت ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ ساری قوموں کو تسلیم کرنے سے بھلا پاکستان کیوں کہیں جائے گا۔ یہ ہمارا گھر ہے، ہمارا وطن ہے، جیسے سعودی عرب سعودیوں کا وطن ہے۔ جیسے مکہ اور پھر مدینہ نبی ﷺ کا وطن تھا اور نبی ﷺ کو اپنے وطن سے محبت تھی۔ تو ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے۔ اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات ہے اگر اتنی ساری قومیں نکل آئی ہیں؟ شش، چپ رہو، بات نہ کرو، خبردار، ہٹو بچو کہہ کر کیا زبانیں بند کروا لو گے؟ دنیا اور چیخ چیخ کر کہے گی کہ بلوچستان کی تاریخ پاکستان سے الگ ہے۔ یہ کل ہی ایک سنڈے میگزین میں ایک بلوچ لکھاری کا ارشاد لکھا ہوا تھا۔ فریڈم مارچ ہوں گے۔ کراچی صوبہ اور سرائیکی صوبے کے نعرے لگیں گے۔ حق دو، جینے دو۔ پاکستان کی فیڈریشن میں ہر کسی کو حقوق دو۔ دو قومی نظریے نے پاکستان بنا دیا۔ اب اس کو قائم رکھو اور یہ قائم رکھنا دو قومی نظریے نہیں کثیر قومی نظریے سے ممکن ہے۔ اس ملک کے اندر دیکھو۔ اندر سے خطرے ہیں، آدھی درجن قوموں کے خطرے۔ تقسیم در تقسیم ہونے کے خطرے۔ ان کو زبردستی باندھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ محبت پیار امن آشتی سے فاصلے مٹاؤ۔
کب تک ستر سال قبل کی دنیا میں جیو گے۔ آج کو دیکھو، آج اس وقت کو 2014 کو۔ آج پاکستان بنانا نہیں اسے قائم رکھنا ہے۔ اندر سے ہی گھن کھا گیا تو کھوکھا کس مول کا؟ گھن لگی لکڑی تو ایک ٹھوکر نہیں سہہ پاتی۔ خدارا اسے گھن لگنے سے بچا لو۔
بجا فرمایا اور خوب فرمایا۔
جواب دیںحذف کریںپر اب تو خود پہ ہس ہس کے بھی اس قوم کی وکھیوں میں درد ہوگیا ہے اور حل کوئی نہین
جواب دیںحذف کریں