بدھ، 29 جولائی، 2015

ہنرمند

ابو جی کے پاس کوئی ہنر نہیں تھا۔ مڈل بھی مکمل نہیں کیا تھا۔ سب سے چھوٹے تھے۔ والدین ضلع ہوشیار پور سے ہجرت کر کے آئے تھے، انہوں نے بھی تعلیم پر توجہ نہ دی۔ ساری عمر مختلف کام کیے۔ کبھی ٹیکسٹائل مل میں کام کیا، کبھی رکشہ چلایا، کبھی پولٹری فارم ، کبھی کپڑے کی دوکان، کبھی کریانے کی دوکان، کبھی گول گپے، پلاسٹک کے برتن ریڑھی پر اور جمعہ/اتوار بازاروں میں، ناشتے کی ریڑھی، لوڈر رکشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھے دنوں میں جب رکشے کا کام ابھی مندا نہیں پڑا تھا، اور پھر بعد میں جب ناشتے سے اچھے پیسے بن جاتے تھے تو ابوجی نے دو مرتبہ مکان کی توسیع کروائی۔ غریب کے مکان کی توسیع یہی ہوتی ہے کہ پہلے ایک منزل ڈلوا لی، پھر پلستر کروا لیا، پھر دوسری منزل ڈلوا لی اور پھر ہمت ہوئی تو تیسری منزل۔ ابو جی نے اس طرح کر کے تین چار بار مکان میں ترمیم و اضافہ کیا تاکہ بڑھتے ہوئے خاندان کے رہن سہن میں آسانی پیدا ہوتی۔

ہر بار ابو جی کو مستری ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ پہلے پہلے جب میں چھوٹا تھا تو یہ مسئلہ بہت زیادہ علم میں نہیں تھا۔ ماموں کے گاؤں سے مستری اور مزدور آ گئے اور اوپر والی منزل تعمیر ہو گئی، سارے مکان کو پلستر بھی ہو گیا۔ اس کے بعد دو تین بار جب بھی ضرورت پڑی تو ہر مرتبہ مستری کی تلاش ایک الگ جدوجہد رہی۔ خواہش ہوتی تھی کہ فلک شیر یعنی پرانا مستری ہی کام کر جائے، لیکن وہ لاہور شفٹ کر گیا، پھر واپس آیا تو اس کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا۔ بڑی مشکل سے وقت ملتا، جلدی جلدی کام کر کے چلا جاتا۔ 

آخر ہر مرتبہ فلک شیر ہی کیوں؟ مسئلہ اس کا یا ہمارا نہیں، اس کے ہنر کا تھا۔ وہ بندہ سمجھدار تھا، ہاتھ میں صفائی تھی اور لوگ اس کے آگے پیچھے قطار میں کھڑے نہ بھی رہتے ہوں کم از کم آئندہ کئی مہینوں کے لیے وہ بُک ہوا کرتا تھا۔ ہم ہر بار فلک شیر کے ہنر سے مجبور ہو کر اس کے پاس جاتے تھے۔ ورنہ مستری تو میرے محلے میں کئی تھے، میرے محلے کے باہر اڈے پر ہر روز سو ڈیڑھ سو مستری مزدور کھڑا ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان سے کام کروانے کو دل نہیں مانتا تھا۔

میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں سیکھا کہ پیشہ ورانہ اعتماد قائم کرنا ایک بہت ہی اہم خصوصیت ہے۔ ایک آپ کا کلائنٹ/کسٹمر/گاہک آپ پر کام چھوڑ کر مطمئن ہے تو سمجھ لیں کہ آپ کبھی بھوکے نہیں مریں گے۔ اس کے لیے میں نے مستری فلک شیر سے یہ سیکھا کہ اتنے ہنرمند ہو جاؤ کہ دوسروں کی ضرورت بن جاؤ۔ لوگ دروازے پر آ کر کام کی درخواست کریں۔ 

مجھے نہیں پتا اس کو اور پُراثر انداز میں کیسے لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اپنے طلبہ کو ہمیشہ یہی مشورہ دیتا ہوں  کہ ہنرمند بن جائیں۔ چاہے موٹرمکینک ہوں، انجینئر ہوں، پی ایچ ڈی ہوں، اگر آپ ہنرمند نہیں ہیں تو آپ میں اور آپ کے گلی محلے کے باہر راج مستریوں کے اڈے پر بیٹھنے والے ان مستریوں اور مزدوروں میں کوئی فرق نہیں۔ وہ روز سامان اٹھا کر اڈے پر آتے ہیں۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں۔ مل جائے تو ایک دو دیہاڑیوں کا ہوتا ہے۔ نہ ملے تو سارا دن وہیں بیٹھے بیٹھے بارہ ٹہنی کھیل کر گھر کو لوٹ جاتے ہیں۔ 

میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں یہ سیکھا کہ میں اپنے کلائنٹ کو جو کچھ کر کے دوں اس پر اُسے اعتماد ہو۔ جیسے مستری فلک شیر عین نوے کے زاویے پر دیوار اٹھاتا ہے، پلستر میں کہیں اونچ نیچ نہیں آنے دیتا اور آج بھی اس کا لگایا ہوا فرش کہیں سے اکھڑا نہیں۔ ویسے ہی میں ترجمہ کروں تو میرے کلائنٹ کو بہت کم ضرورت پڑتی ہے کہ اُس پر نظر ثانی یا تصحیح کروائے۔ گزرے برسوں میں مَیں نے بہت کم معاوضے پر بھی کام کیا۔ رات کو اُٹھ اُٹھ کر بھی کام کیا۔ لیکن اب میں تھوڑا کام کرتا ہوں، تھوڑا لیکن سُتھرا۔ میں ترجمہ کرتے وقت پاکستان کے اندر کا کام نہیں پکڑتا، مجھے پتا ہے یہاں لوگ اچھی ادائیگی نہیں کرتے۔ غیر ملکی جب کام کرواتے ہیں تو پیسے اچھے دیتے ہیں۔ وہاں اور یہاں کے کام میں ایک بمقابلہ چار کا فرق سمجھ لیں۔ اگر یہاں روپیہ ملے تو وہ چار روپیہ بھی دے دیتے ہیں۔ تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اب  معاوضے میں بہت کم رعایت دیتا ہوں، لیکن اس کے بدلے میرا کام معیاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ معیار اور ساکھ بنانے، اپنے آپ کو زیادہ معاوضے کے قابل بنانے میں مجھے ایک دو سال نہیں آٹھ نو سال لگ گئے ۔

دوسری جانب میں تدریس کے حوالے سے بھی اسی بات پر عمل پیرا ہوں کہ اپنے آپ کو اس مقام پر لے جاؤں جہاں میرے جیسے کم ہی متبادل دستیاب ہوں ۔ اگر ایسا ہو سکا تو ہی میں ایک اچھی ملازمت یا کام کی امید کر سکتا ہوں۔ اس کے لیے آج سے دس برس پہلے پی ایچ ڈی کرنے کا عزم کیا تھا۔ اور وہ عزم آج بھی تازہ ہے۔ انشاءاللہ اس عزم کو مکمل بھی کرنا ہے۔ لیکن پی ایچ ڈی منزل نہیں، صرف نشانِ منزل ہو گی۔ مختصر یہ کہ میری ذات پر سے "زیرِتعمیر" کا بورڈ کبھی نہیں اترے گا۔ میری دعاؤں میں مستقلاً شامل دعا رَبِّ زِدْنِي عِلْما بھی ہے۔ اور جیسے جیسے میری عمرِ عزیز کا اختتام قریب آتا جاتا ہے، مجھے یہ احساس زیادہ شدت سے ہوتا جاتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔ علم دراصل اپنی جہالت کا ادراک کرنے کا نام ہے، اور وہ ادراک دھیرے دھیرے ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہ احساس بھی کہ یہ جو کچھ دیا ہے، یہ سب اُس کی کرم نوازی ہے۔ کہ میرے بس میں تو کبھی  کچھ بھی نہیں تھا، آج میں جس جگہ بھی کھڑا ہوں، یہ سب اُس کی رحمت ہے۔

تو آپ بھی اگر ابھی یونیورسٹی سے چوندے چوندے ماسٹرز کی ڈگری لے کر نکلے ہیں، یاکسی شعبے میں داخل ہو رہے ہیں، دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔۔ یکدم چھلانگ نہ لگائیں۔ اللہ کی رحمت پر نگاہ رکھیں اور یادر کھیں کہ کامیابی ایک دو دن یا مہینے نہیں برسوں کا کھیل ہے۔ دس برس کا ہدف رکھیں اور محنت کریں۔ اپنے آپ کو اس قابل کر لیں کہ دوسرے آپ کے دروازے  پر آپ سے کام کروانے کی درخواست لے کر آئیں۔ دوسروں کی ضرورت بن جائیں۔ یاد رکھیں کامیابی کا اگر کوئی شارٹ کٹ ہوتا بھی ہے تو وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ سب پیدائشی جینئس نہیں ہوتے۔ ہاں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر محنت کرتے چلے جانا سب کے اختیار میں ہوتا ہے۔ چنانچہ محنت کریں، کچھوا چال ہی سے کریں لیکن محنت کرتے چلے جائیں، اور ایک ہی سمت میں آگے بڑھتے چلے جائیں۔ ہنرمند  ہو جائیں تو آپ کے دلدر دور ہو جائیں گے۔ Jack of all trades, master of none کے مقولے کو ذہن میں رکھیں۔ ایک شعبہ ایسا ضرور ہونا چاہیئے جس کے ماسٹر آپ ہوں۔ باقی شوق تو کئی پالے جا سکتے ہیں، لیکن روزی روٹی کے لیے ایک یا دو شعبے ایسے ہونے لازمی ہیں جن میں آپ کی مہارت پر آنکھ بند کر کے اعتبار کیا جا سکے۔ اللہ سائیں آپ پر اپنی رحمت رکھے۔

2 تبصرے:

  1. بہت خوب ، آپکی تحریر پڑھ لطف آ گیا۔ آپ بلاگ باقائدگی سے لکھا کریں کیونکہ آپکے بلاگ کی ہی وجہ سے میں نے بھی بلاگ لکھنا شروع کیا تھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. گزشتہ کئی دنوں سے میں سوچ رہا ہوں کہ پیشہ وارانہ زندگی کے دس سال مکمل ہونے پر اس عرصے کا ایک خلاصہ اور تجزیہ لکھوں کہ کیا کچھ سیکھا اور کہاں سے کہاں پہنچا، لیکن وقت نہیں مل پا رہا۔ اس تحریر سے میرا ارادہ مزید پختہ ہوگیا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی کچھ لکھوں گا۔
    معیار اور ساکھ بنانا پیشہ وارانہ زندگی کا ایک مشکل کام ہے اور اُسے برقرار رکھنا مشکل ترین کام۔ یقین جانیے، آپ کے طلبا کی خوش قسمتی ہے کہ اُنھیں آپ جیسا استاد میسر آیا ہے جو صرف اسکول یا کالج سے فارغ ہونے کے بعد ہی پڑھانے نہیں لگ گیا، بلکہ اُس نے بہت کچھ سیکھا ہے، اُس پر بہت کچھ بیتا ہے اور اُس کی زندگی تجربات سے عبارت ہے۔ قوی اُمید ہے کہ آپ کے طلبا پر اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حوصلہ بلند رکھتے ہوئے مستقل کے معماروں کی عمدہ تربیت کا کام جاری رکھیے۔ اللہ آپ کو جزا دے گا۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔