میرے سامنے کچھ تصویریں ہیں۔
ایک سوختہ انسانوں کی ہے, نیچے کچھ لکھا ہے۔
کچلے جسموں والے دو کمسن بچوں کی تصویریں ہیں۔
اور ایک بے لباس لاشہ ہے۔
اور پھر جملے ہیں۔ چھوٹی بڑی طوالت کے لاتعداد جملے ۔ اگر مگر کرتے جملے، ثابت کرتے اور رد کرتے جملے، دھمکی دیتے اور شرم دلاتے جملے ۔
اور پھر میں ہوں، خالی الذہن، اس سب کی فہم و تشریح سے قاصر۔ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر۔ تصویروں، جملوں اور تبصروں میں پیش کردہ نتائج کو قبول یا رد کرنے سے قاصر۔
اس سب میں ایک نام، ہاں ایک نام بار بار آتا ہے، اور اس نام پر میرے اندر تک ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔
میرے نبی جی ﷺ کا نام آتا ہے۔ جب اُن ﷺ کا نام آتا ہے تو میرے لب اللہم صل علی محمد و اٰل و اصحابِ محمد میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بس اس سب میں ایک یہ وقفہ ہے جب مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے۔
میں کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟
بس جب ان ﷺ کا نام آتا ہے۔ تو لبوں سے اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد، و علی اٰل و اصحاب سیدنا و مولانا محمدنکلتا ہے۔
لرزتے لبوں سے اس سے آگے کچھ نہیں کہا جاتا۔
اس کے علاوہ کچھ نہیں سُوجھتا، یوں جیسے چار دیواری ہے اور میں اس میں مقیّد۔ عجب بے بسی ہے ، عجب بے کسی ہے، عجب تنہائی ہے۔
اپنی کھڑی کی گئی دیواروں کا قیدی ہوں، نیلی چھتری والے کا شکر ہے کہ ا س نے رحمت اللعالمین ﷺ کی صورت میں اپنی رحمت سے نواز رکھا ہے۔ بس انہیں ﷺ کا آسرا ہے۔
انہیں ﷺ کے آگے عرض گزاری ہے۔
مولاﷺ آپ کی گلیوں کے کُتے بھی مجھ سے افضل۔
مولا ﷺ یہ رذیل، کمینہ، یہ گھٹیا آپ کی اُمت میں سب سے کمزور ایمان ۔
مولاﷺ آپ کے آگے عرض گزار۔
مولاﷺ صبر ختم ہونے لگا ہے۔
مولا ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے
مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر ۔۔۔
مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر کیا کیا کچھ کرنے لگی ہے۔
مولا ﷺ آپ کے عاشق۔۔۔۔۔۔
مولاﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے
مولا ﷺ اپنے کرم کی نظر کیجیے
مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں۔۔۔۔
مولاﷺ آپ کے سوا کون ہے۔۔۔۔۔
مولا ﷺ نیلی چھتری والے سے سفارش کیجیے
مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے آقا و مولا ہیں
مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے مائی باپ ہیں
مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد
مجھے نہیں معلوم کیسے لکھتے ہو ، کیوں لکھتے ہو ، کلیجے پہ ہاتھ ڈالتے ، پڑھنا دشوار ہوجاتا ہے سانس رُکنے لگتی آنکھیں دھندلاتی جاتی ہیں بڑی دیر میں مکمل تحریر مکمل پڑھی جاتی ہے میں جو آج بھی اُس چوکھٹ پہ اندھے فقیر کی طرح کھڑا ہوں کانپنے لگتا ہوں سسکیاں روکتا ہوں یہ بارگاہ ادب آواز نے نکلے - پرصبر کا پیمانہ لبریز کرنے کو تم کچھ نہ کچھ لکھ دیتے ہو -
جواب دیںحذف کریں