بدھ، 20 فروری، 2013

لسانیات اور ہم

لو جی پرانے فولڈر پھرولتے ایک اور مسودہ نکل آیا۔ یہ ایم فِل فرسٹ سمسٹر میں ایک نا ہو سکنے والے فنکشن کے لیے لکھا تھا۔ سمسٹر ختم ہوا، دوسرا ختم ہو چلا لیکن وہ فنکشن نہ ہو سکا۔ پہلے سمسٹر کے تین مضامین سنٹیکس، بائی لنگوئل ازم اور ریسرچ میتھڈالوجی کی پیروڈی تخلیق کی گئی تھی۔ آپ کا لسانیات سے واقف ہونا ضروری ہے تبھی کچھ مزہ لے سکیں گے۔
----------------------------------------------------
اچھا پتا نہیں یہ خواب تھا یہ حقیقت۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا بڑی اچھی طرح سے یاد ہے اور وہی آپ کے ساتھ شئیر کرنے جا رہا ہوں۔ وقت بھی یاد نہیں، اور جگہ بھی لیکن یہ یاد ہے کہیں جا رہا تھا۔ پیدل، تو راستے میں چلتے چلتے ایک ہیولا نظر آتا ہے۔ میں پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں تو پتا لگتا ہے یہ تو اپنا ہی بندہ ہے۔ میں نعرہ لگاتا ہو "ریسرچ میتھڈالوجی پائین۔۔۔۔" اور آگے سے مجھے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔  "وے میں تینوں پائین نظر آنی آں؟" ۔اور مجھے ہڑبڑا کر معذرت کرنا پڑتی ہے "آپا جی اصل میں دھیان نہیں کیا میں نے"۔ لیکن جواب میں بس ایک "ہنہ" ملتا ہے اور پھر خاموشی۔ میں بات بڑھانے کی غرض سے پوچھتا ہوں "اور سنائیں آپا جی کیا احوال ہیں کمزور سی نظر آ رہی ہیں۔ نصیب دشمناں طبیعت تو ناساز نہیں؟" تو آگے سے پھر تڑاخ سے جواب موصول ہوتا ہے "پریزنٹیش اچھی دے لینی تھی تو میرا یہ حال نہ ہوتا۔ جس کے دوست ایسے ہوں اس کو دشمنوں کی کیا ضرورت"۔ تو صاحب میں نے کان لپیٹے اور نکل لیا کہ بھائی باتیں تو ٹھیک کی ہیں آپا جی نے، میری پریزنٹیشن اچھی ہوتی تو یہ دن دیکھنا ہی نہ پڑتا۔
لو جی شاید وہ دن ہی ایسا تھا۔ میں ذرا آگے گیا ہوں تو عجیب سا مقام آ گیا، جیسا انگریزی ہارر فلموں میں ہوتا ہے۔ ملگجا سا اندھیرا اور سنسان بیابان، خاموشی کہ پتا بھی نہ کھڑکے۔ لو جی ابھی میں کوئی چار قدم ہی چلا ہوں کہ یکدم میرے کانوں سے آوازیں ٹکرانا شروع ہوئیں اور میں اچھل پڑا۔ اب اگر میں اِن ڈائرکٹ میں کر دوں تو آپ کو مزہ نہی آئے گا، ڈائریکٹ سپیچ میں سنیں۔
Go away you stupid language, leave me alone
نی پرے مر توں، میری جان چھڈ کِتے، موئی فرنگیاں دی زبان۔
اور صاحب میں حیران پریشان، یار یہ شاہد بھائی کی آواز میرے کانوں میں کیوں گونجنے لگی ہے۔ شاہد بھائی جن بھوت ہو گئے ہیں یا میں جو بچا کھچا تھا وہ بھی پاگل ہو گیا ہوں۔ اور اوپر سے انگل سرگم والی ماسی مصیبتے نے راگ چھیڑ دیا ہے۔ لو جی ادھر میں حریان تھا، اُدھر دنوں آوازیں پورے طمطراق سے لڑنے میں مصروف تھیں۔ آخر جب میرے کان پکنے پر آ گئے تو میں نے غصے میں آ کر کہا۔ "چپ کرو"۔ اور یکدم خاموشی چھا گئی۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ معاملہ الٹ ہو گیا۔
This is your fault
ایدا ای قصور اے سارا
اور میں پھر حیران۔ "او بھائی میرا کی قصور اے، میرے کھوپڑی میں کیوں باجا بجا رہے ہو تم لوگ، جا کر اپنی لڑائی لڑو"۔ تو آگے سے جواب آتا ہے
"ہم تہماری ہی کھوپڑی میں رہائش پذیر ہے پچھلے دو درجن سالوں سے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو"۔
"او بھائی میں نے کیا کر دیا؟" میں رونے والا ہو گیا۔
"تم نے بائی لنگوئلزم پڑھا؟"
"ہاں پڑھا، تو؟"
"تو یہ کہ تم کونسے بائی لنگوئل ہو؟"
"کمپاؤنڈ؟" بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ پنجابی والی آواز نے تو بس صلواتوں کا طوفان اُٹھا دیا۔ میں نے بڑی مشکل سے ہاتھ  پیر جوڑ کر دونوں کو چپ کروایا ۔ مسئلہ پوچھا اور ۔۔۔۔ اور سے پہلے مسئلہ سن لیں۔ "او بھائی میرا قصور تو بتاؤ؟"۔
You have brought this stupid language with me and I can’t live with it.
"نی تے ایتھے کہیڑے ہیج چڑھے ہوئے نیں، مینوں وی کوئی شوق نئیں۔ اے تے ایس موئے نے پتا نئیں کتھوں اے کم کر دتا، فرنگیاں دی زبان نال کیس جہنم وچ سُٹ دِتا مینوں"
دس منٹ بعد جو پتا چلا وہ یہ تھا کہ چونکہ میں اپنے آپ کو کمپاؤنڈ بائی لنگوئل سمجھتا ہوں اس لیے میری کھوپڑی میں ساری زبانیں اب ایک ہی پورشن میں منتقل ہو گئی ہیں اور یہی فساد کی وجہ ہے چونکہ پنجابی انگریزی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور انگریزی کی بھی اس سے نہیں بنتی۔ تو جناب میں نے سر پکڑ لیا۔ یا اللہ میں کیہڑی خطا کرلئی، ہُن کھوپڑی وچ کندھ کراواں۔ بس رونے کی کسر رہ گئی تھی پر میں نے منت سماجت کرنے کا فیصلہ کیا۔  "دیکھو بھائی دونوں بڑی اچھی چیز ہو۔ آپ تھوڑا کو آرڈینیٹ کر لو نا۔۔" اور بس اس لفظ کے بولنے کی دیر تھی کہ جیسے کھوپڑی میں ہزار واٹ کا بلب روشن ہو گیا۔ "کو آرڈی نیٹ بائی لنگوئل" میں نے اپنے آپ کو شاباش دی اور انگریزی پنجابی کو سمجھایا۔ دیکھو بھئی درمیان میں دیوار کر لو یہی ہم سب کی بھلائی میں ہے۔ اور شکر ہے وہ مان گئیں۔ تو صاحب آج سے مجھے کو آرڈینیٹ بائی لنگوئل لکھا، بولا، سمجھا اور پکارا جائے۔ یا اللہ تیرا شکر ہے اس مصیبت سے جان چھوٹی۔ ورنہ یہ تو میری کھوپڑی میں اُدھم مچا مچا کر دماغ کی لسی بنا دیتیں۔
لو جی ابھی میں شکر کر رہا تھا، اور اس منحوس جگہ سے نکل ہی رہا تھا کہ یکایک سامنے ایک منظر روشن ہو جاتا ہے۔ میں جیسے جیسے آگے بڑھتا ہوں منظر واضح ہوتا جاتا ہے۔ ایک بابا جی ایک سائیڈ پر پڑے ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ اور ان کے پیچھے کسی ٹنڈ منڈ درخت کی شاخیں نظر آر ہی ہیں۔ کہیں کہیں کوئی انگریزی کا لفظ بھی ٹنگا نظر آ جاتا ہے۔ پہلے تو میں بڑا خوش ہوا کہ چلو انگریزی کا درخت بھی ہوتا ہے، جیسے جامن امرود کا ہوتا ہے۔ بابا جی سے کلو کے حساب سے لے لیتے ہیں اپنی انگریزی تو اچھی ہو گئی۔ ہم نے مستقل گاہک بننے کا عزم کرتے ہوئے جو قدم مزید آگے بڑھائے تو سمجھ آئی یہ انگریزی نہیں سنٹیکس کا ٹری تھا۔ "او مر گئے" ہمیں پچھلا کوئز یاد آ گیا جس میں پورا ایک سوال غلط ہو گیا تھا۔ اور اب یہ بابا یہاں پیٹھا ہوا اپنی ٹانگ کو پکڑے ہائے ہائے کر رہا تھا۔ پہلے تو ہمارا دل کیا کہ نکل لیں اس سے پہلے کہ پھر ڈپریشن ہو جائے، لیکن پھر ہم نے سوچا چلو کم از کم 1122 کو ہی کال کر دیں، بے چارہ بابا کہیں فوت ہی نہ ہو جائے۔ ہم بابے کے قریب گئے اور حال احوال پوچھا، "بابیو ٹانگ تڑوا بیٹھے ہو کس عمر میں درختوں پر چڑھنے کا شوق فرما رہے ہو"۔ تو بابا جی بولے پُتر میں بابا سنٹیکس ہوں۔ اور میرے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔
"ارے بابا جی آپ کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو میرا کیا بنے گا"۔
"بس پُتر اس چومسکی کو مولا نے ای لینا اے۔ بڑا ذلیل کیتا اے اینہیں"۔
"وہ کیوں بابا جی بڑا وڈا فلاسفر ہے جی چومسکی، انھی پائی ہوئی اے اُس نے تو لنگوئسٹکس میں"۔
"بس پُتر انھی پائی ہوئی اے اُس نے۔ اسی وجہ سے تو میری یہ حالت ہوئی ہے"۔
میں نے پوچھا بابا جی ہوا کیا تھا۔ آپ تو بڑا اچھا ٹری شری بنالیتے ہیں پھر ٹانگ کیسے تڑوا بیٹھے؟
کہنے لگے بس پُتر کیا بتاؤں میں اپنی مستی میں ایک نوڈ بنا کر دوسری پر چھلانگ لگا رہا تھا کہ ایک null constituent  آ گیا۔ بس پر کیا نیچے گرا، تو پھر ٹانگ ہی ٹوٹنی تھی پُتر۔ بابا جی نے ایک بار پھر چومسکی کی خبر لینے کے لیے انجن سٹارٹ کیا لیکن میں نے بریک لگوا دی۔
"بابا جی چلیں چومسکی کے پاس ہی چلتے ہیں آپ کی ٹانگ تو وہ پلگ چھپکتے میں ٹھیک کر دے گا آخر آپ اس کی تھیوری ہیں"۔ شکر ہے بابا جی کی سمجھ میں میری بات آ گئی۔ اور پھر ہم پہنچے پھررر امریکہ۔ اب کیسے پہنچے یہ تو ہمیں یاد نہیں لیکن سفید بالوں والا بابا چومسکی ہمیں مل گیا۔
"ہور جی بابیو کی حال اے" ہم نے اپنے بے تکلف پنجابی اسٹائل میں ارشاد فرمایا۔ تو آگے سے چومسکی نے ہمیں دعا دی۔
ہم نے کہا سر جی ایک مریض لے کر آیا ہوں۔ کہنے لگے بیٹا پیش کرو۔ میں نے پیش کیا "جناب عالی مِنی مل ازم"۔ تو فرمانے لگے "بیٹا کیپٹل ازم"۔ میں نے پھر عرض کیا "یہ منی مل ازم" کہنے لگے "نہیں بیٹا کیپیٹل ازم"۔
اب میں نے ذرا تفصیل سے کہا "جناب عالی منیمل ازم کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے آپ کیپیٹل ازم کی جان نہیں چھوڑ رہے"۔
فرمانے لگے "بیٹا میں آج کل کیپیٹل ازم کی ٹانگ توڑتا ہوں، اسے آگے کرو"۔
میں نے عرض کیا "سر وہ لنگوئسٹکس اور سنٹیکس اور جنریٹو گرامر؟"
کہنے لگے "بیٹا وہ میرا سیاسی بیان تھا، میں نے تو زبان کو اس لیے اسٹڈی کیا کہ اس سے انسانی دماغ کے بارے میں جاننے میں مدد مل سکتی تھی۔"
میں نے کہا "جناب پر وہ منی مل ازم، سنٹیکس کی کلاس، لاہورلیڈز یونیورسٹی؟"۔
 کہنے لگے "بیٹا بھُگتو اب کونسا میں نے ایڈمیشن لینے کا کہا تھا"
اور میں نے اس بار دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ ایک طرف بابا سنٹیکس ہائے وائے کر رہا تھا اور دوسری طرف میں، وہ تو شکر ہے کہ آںکھ کھل گئی، فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں۔
میں نے شکر کیا کہ یہ خواب ہی تھا۔ پر اماں جی کہا کرتی ہیں فجر کے وقت کے خواب بھی اکثر سچے ہوتے ہیں۔
------------------------------------------------------

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔