اپنا ذاتی فولڈر کھنگالتے ہوئے پندرہ اکتوبر، 2009 کی بنی ہوئی ایک ورڈ فائل سے یہ اسکرپٹ نکلا۔ کسی فنکشن کے لیے لکھا تھا۔ اور اکثر مواقع کی طرح اس کو پیش کرنے کی ہمت نہ پڑی، یا وقت کی کمی کی وجہ سے نہ پیش ہوا، یا پھر ارادہ بدل گیا۔ اب یاد نہیں۔ پینڈو کا کردار اپنے لیے لکھا تھا، اور پنجابی، اردو انگریزی تینوں پر مشتمل مکالمے تھے۔ پنجابی مکالموں کا ترجمہ کردیا ہے امید ہے اردو میں لکھی انگریزی سمجھ آ جائے گی۔
-------------------------------------------------
کردار: پینڈو، گورا صاحب، باجی
گورا صاحب اور باجی سٹیج پر موجود ہیں۔ اس کے بعد ہونق سی شکل بنائے پینڈو سٹیج پر آجاتا ہے۔ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد جب اس کی نظر گورا صاحب پر پڑتی ہے تو اس کی طرف لپکتا ہے۔
پینڈو: کی حال اے پاء جی؟ ]کیا حال ہے جناب؟]
گورا صاحب: واٹ؟
پینڈو: ہیں؟ وٹ؟ کیہڑا وٹ؟ [وٹ= غصہ، گرمی، مروڑ]
گورا صاحب: وٹ آر یو ٹاکنگ؟ (پینڈو باجی کی طرف جاتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے)
پینڈو: باجی اے باجی۔۔۔ اے چٹے منہ والے نوں کی ہوگیا اے۔ سردیاں وچ کیس چیز دا وٹ چڑھیا اے اینہوں؟ [باجی اے باجی۔۔۔ اس سفید منہ والے کو کیا ہو گیا ہے۔ سردیوں میں کس چیز کا غصہ چڑھا ہوا ہے اسے؟] ( (باجی ڈائس پر کھڑی کچھ کام کر رہی ہے اوراس سارے قضیے سے بالکل بے پرواہ نظر آتی ہے۔ پینڈو کے بلانے پر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ انگریز کو دیکھ کر سارا معاملہ سمجھ جاتی ہے اور پینڈو کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہتی ہے)
باجی: سٹوپڈ یہ انگلش ہے۔ اور اسے اردو نہیں آتی۔ تم سے پوچھ رہا تھا کہ کیا کہہ رہے ہو۔
پینڈو: ہیں ؟ اچھا تے اے انگریز اے۔ اینہوں تے وٹ وی وایتی پھردا ہونا اے فیر۔ ہے نا باجی؟ [اچھا تو یہ انگریز ہے۔ اسے تو مڑوڑ بھی ولائتی اٹھتا ہو گا۔ ہے نا باجی؟]
باجی: شٹ اپ۔ نان سنس پنا نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں۔
پینڈو: ہو ہائے باجی توں ناراض تے نا ہو۔ اے باجی۔۔۔ اے باجی۔۔۔ باجی گل سن نا (باجی ناراضگی سے اس کی طرف دیکھتی ہے)
باجی: ہاں بولو۔ اب کوئی ایسی ویسی بات کی تو سر پر کوئی چیز مار دوں گی۔
پینڈو: اچھا نا باجی نئیں کہندا۔ باجی۔۔۔۔ اے باجی۔۔۔۔ اے گورے صاحب نال ساڈی یاری کرا دے نا۔ ایدے کولوں پُچھ ایدا ناں کی اے۔[ اچھا باجی نہیں کہتا۔۔ باجی اے باجی اس گورے صاحب سے ہماری دوستی کروا دو نا۔ اس سے پوچھو اس کا نام کیا ہے] (باجی گورے صاحب کو مخاطب کرتی ہے)
باجی: ایکسکیوز می۔ دس مین وانٹس ٹو نو یور نیم۔ کین یو پلیز؟
گورا صاحب: (متوجہ ہوتے ہوئے) او شیور شیور۔ مائی نیم از اینڈرسن۔
باجی: اس کا نام اینڈرسن ہے؟
پینڈو: ہیں کیہڑا سن؟ ایناں مشکل ناں۔ اے باجی۔۔۔ اے باجی ۔۔۔ اینہوں کہہ نا میں اینہوں گورا صاحب کہہ لواں؟ [ہیں کونسا سن؟ اتنا مشکل نام۔ باجی اسے کہوں نا کہ میں اسے گورا صاحب کہہ لوں؟]
باجی: (انگریز سے) کین دس پرسن کال یو گورا صاحب؟
گورا صاحب: وٹ ڈز اٹ مین؟
باجی: ویل اٹ مین آ وائٹ مین۔
گورا صاحب: او شیور ہی کین کال می۔
باجی: کہہ لو اسے گورا صاحب۔ اور اب پلیز مجھے تنگ نہ کرو میں کام کر رہی ہوں۔
پینڈو: ہائے باجی توں کنی چنگی ایں۔ [ہائے باجی تم کتنی اچھی ہو] (چھلانگ لگا کر گورے صاحب کی طرف جاتا ہے۔ ہاتھ سے اشارہ کر کے کہتا ہے۔)
پینڈو: گورا صاحب۔ (گورا صاحب مسکرا کے سر ہلاتا ہے۔) پینڈو (پینڈو اپنی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے)۔
گورا صاحب: پھینڈو
پینڈو: پینڈو
گورا صاحب: پھینڈو
پینڈو: یار توں مینوں پھینٹناں کیوں لیا اے۔ پینڈو پینڈو [یار تم نے پھینٹنا کیوں لے رکھا ہے۔ پینڈو پینڈو]
گورا صاحب : او پھینڈو پھینڈو
پینڈو: (سخت غصے میں آجاتا ہے۔ اپنے بال نوچتا ہے۔ دیوار سے سر ٹکرانے لگتا ہے پھر کچھ سوچ کر واپس آجاتا ہے۔ لمبے لمبے سانس لیتا ہےاور اپنے آپ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ گورے صاحب سے) گورا صاب۔ پے
گورا صاحب: پھے
پینڈو: ڈو
گورا صاحب : ڈو
پینڈو: پیڈو
گورا صاحب: پھیڈو۔
پینڈو: (پینڈو کو احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط بول گیا ہے۔) ہائے میں کتھے چلا جاواں اوئے مینوں پیڈو بنا دتا۔ میں تینوں پیڈ دا بچہ لگداں کتوں؟ [ائے میں کدھر چلا جاؤں۔ مجھے بھیڈو (بھیڑ کا بچہ) بنادیا۔ میں تمہیں بھیڈو لگتا ہوں کہیں سے؟] (پینڈو پھر اپنا سر پیٹنا شروع کردیتا ہے۔ اس دوران باجی اس شور سے اکتا کر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔)
باجی: شٹ اپ ، نانسنس۔ انگریز پ نہیں بول سکتے۔ اس لیے وہ تم کو پھینڈو ہی کہے گا۔
پینڈو: اچھا اے ہو ای قسمت اے تے فیر ٹھیک اے۔ [اچھا اگر یہی قسمت ہے تو ٹھیک ہے] (گورے صاحب سے) ٹھیک ہے ٹھیک ہے پھینڈو ۔۔(رونی سی شکل بنا کے اور اپنی طرف اشارہ کرکے) پھینڈو۔
گورا صاحب: اوکھے اوکھے۔
پینڈو: (پینڈو کو پھر آگ لگ جاتی ہے) اوکھے کی مطلب اوئے۔ مینوں پتا تسیں جنہیں اوکھے جے ساڈے توں۔ اوئے اوکھے تے اسیں آں۔ تہاڈا کی خیال اے تسیں ڈرون حملے کردے رہو گے تے اسیں چپ بیٹھے رہواں گے؟ اوئے اسیں تہاڈا چنڈا ساڑاں گے۔ تسیں فیر ڈرون حملہ کرو گے اسیں فیر تہاڈا چنڈاساڑاں گے ڈاکخانے بنک ساڑاں گے۔ نواں آیاں سوہنیا توں ویکھیا کی اے پاکستان وچ ہلے۔ (پینڈو سلطان راہی کی طرح چوڑا ہو کر کھڑا ہوجاتا ہے) اوئے تسیں کی سمجھدے او ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دے کے تسیں ایس قوم نوں خرید لیا اے؟ اوئے اے امداد نئیں مل سکدی اوئے (آہستہ سے) فوج نے جو کہہ دتا اے کہ نئیں مل سکدی۔ [اوکھے کیا مطلب اوئے۔ مجھے پتا ہے تم ہمارے ساتھ جتنے اوکھے ہو۔ اوئے اوکھے ہم ہیں۔ تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ تم ڈرون حملے کرتے رہو گے اور ہم چپ بیٹھے رہیں گے؟ اوئے ہم تمہارا جھنڈا جلائیں گے۔ تم دوبارہ ڈرون حملہ کرو گے ہم پھر تمہارا جھنڈا جلائیں گے ڈاکخانے بینک جلائیں گے۔ نئے آئے ہو پیارے تم نے دیکھا کیا ہے پاکستان میں ابھی۔ اوئے تم کیا سمجھتے ہو کہ ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دے کر تم نے اس قوم کو خرید لیا ہے؟ اوئے یہ امداد نہیں مل سکتی (آہستگی سے) فوج نے جو کہہ دیا ہے کہ نہیں مل سکتی]
باجی: ( پینڈو کی ڈرامے بازی سے تنگ آکر پھر غصے میں آجاتی ہے) شٹ اپ شٹ اپ آئی سے شٹ اپ۔ (پینڈو ڈر کر چپ ہوجاتا ہے۔ اس دوران گورا صاحب ہاتھ میں سبز رنگ کا کارڈ نکال کر اپنی نوٹ بک پر اندراج کرنے لگتا ہے۔ پینڈو یہ دیکھ کر باجی سے پوچھتا ہے۔)
پینڈو: باجی اے باجی۔۔۔۔ باجی۔۔۔ (باجی ناراضگی سے اس کی طرف دیکھتی ہے) اے گورا کی کردا اے؟ [یہ گورا کیا کرتا ہے؟]
باجی: (گورے سے ) وٹ یو ہیو ان یور ہینڈ؟
گورا صاحب: اوہ دس از آ گرین کارڈ۔ آ واز ہئیر ٹو الاٹ امیرکن سٹیزن شپ ۔
باجی: گورے کے ہاتھ میں گرین کارڈ ہے۔
پینڈو: ہیں گرین کارڈ؟ (پینڈو بھاگ کر گورے صاحب کے پاؤں پڑ جاتا ہے) صاحب بہادر پاگ لگے رہن، شاناں ودھیاں رہن، امداداں مل دیا رہن۔ ڈرون حملے ہندے رہن۔ جناب تسیں تے بڑے سخی او۔ ساڈے صدر نوں تساں کدی نئیں موڑیا۔ کجھ ساڈے تے وی کرم کرو۔ جناب چھوٹے چھوٹے بچے نیں تے پاکستان وی کوئی ملک اے؟ ہائے ہائے کِتے امریکہ دی شہریت مل جائے تے سرکار دے پیر ساری عمر دھو دھو کے پیواں۔ [صاحب بہادر بھاگ لگے رہیں، شان بڑھتی رہے، امداد ملتی رہے، ڈرون حملے ہوتے رہیں۔ جناب آپ تو بڑے سخی ہیں۔ ہمارے صدر کو آپ نے کبھی خالی نہیں موڑا۔ کچھ ہم پر بھی کرم کرو۔ جناب چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور پاکستان بھی بھلا کوئی ملک ہے؟ ہائے ہائے کہیں امریکہ کی شہریت مل جائے تو سرکار کے پیر ساری عمر دھو دھو کر پیوں] (پینڈو کے ڈائلاگز کے دوران گورے صاحب کے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔ گورا موبائل سن رہا ہے۔ اس کے بعد گورا سٹیج سے نیچے جانے لگتا ہے۔ پینڈو باجی کی طرف لپکتا ہے۔)
پینڈو: باجی اے باجی اے کتھے چلا اے۔ پچھ ناں؟ [باجی یہ کہاں چلا ہے پوچھو نا؟]
باجی: وئیر آر یو گوئنگ؟
گورا صاحب: ویل آئی ایم جسٹ انفارمڈ دیٹ دس سیٹیزن شپ آفر از کینسلڈ۔
باجی: گورا صاحب کہتا ہے کہ اب کوئی گرین کارڈ نہیں ملے گا۔
پینڈو: نئیں گورا صاحب۔ اینج نہ کرو میرے چھوٹے چھوٹے حاکم نیں گورا صاحب۔ اونھاں تے دال دلیے دا انتظام کون کرے گا گورا صاحب۔ [نہیں گورا صاحب۔ ایسے نہ کرو میرے چھوٹے چھوٹے حاکم ہیں گرا صاحب۔ ان کے دال دلیے کا انتظام کون کرے گا گورا صاحب]۔ (واویلا کرتا ہوا سٹیج سے اتر جاتا ہے۔)
بھت خوب لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔آپ نے تو کمال کر دیا
جواب دیںحذف کریں