سب سے پہلے تو میں یہ مطالبہ پیش کرتا ہوں کہ لاہور کی طرح فیصل آباد کو بھی ایک وزیر اعلی دیا جائے۔ تاکہ یہاں بھی سڑکیں بنوانے، گلیاں پکی کروانے اور انڈرپاس اوور ہیڈ بنوانے کے لیے ایک سیاسی نگران ہو۔ بلکہ میرا تو یہی خیال ہے کہ تحصیل کی سطح تک وزرائے اعلی منتخب کروائے جائیں۔ جن کی اپنی اسمبلیاں ہوں، اور اپنی کابینہ۔ ہاں اس صورت میں کابینہ میں یونین کونسل کے ناظم بھرتی کیے جا سکتے ہیں۔
لاہور میں تیس چالیس ارب سے جنگلہ بس سروس تیار ہو رہی ہے۔ لاہور کے لیے ترکی کی درآمد شدہ کوڑا اٹھاؤ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ لاہور میں ہر مصروف سڑک پر اوور ہیڈ بن رہے ہیں۔ اور مصروف چوکوں میں انڈر پاس اور فلائی اوور بن رہے ہیں۔
جبکہ مقابلتاً میرے شہر فیصل آباد میں دس سال کے رنڈی رونے کے بعد، ایک چوک (عبداللہ پور چوک) میں انڈر پاس شروع کیا گیا۔ وہ بھی اس طرف جہاں ٹریفک کا رش کم ترین ہوتا تھا۔ اور جس روڈ پر ٹریفک کی تین چار سو میٹر لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں وہ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اس کی قسمت جگانے کے لیے ایک عدد وزیرِ اعلی کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ کلمہ چوک فلائی اوور، مسلم ٹاؤن فلائی اوور کی طرح ایک ڈیڑھ ماہ میں ایک عدد عبداللہ پور چوک فلائی اوور تیار ہو سکے۔
اس کے علاوہ فیصل آباد کا حق بھی ہے کہ یہاں ترکی والی کوڑا اٹھاؤ گڈیاں چلیں۔ اس کے لیے بھی ایک وزیر اعلی فوری طور پر یہاں بھی تعینات کیا جائے۔ وزیرِ قانون البتہ ثنا اللہ صاحب فیصل آبادی کو ہی رکھا جا سکتا ہے۔ انہیں بھی اپنے شہر میں کام مل جائے گا، اور عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا۔ اس کے جواب میں پیپلز پارٹی بھی راجہ ریاض کو ہوم ڈیوٹی اسائن کر سکتی ہے۔ اس طرح فیصل آباد بھی خبروں میں زیادہ آئے گا۔ اور ادھر گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر وزیر اعلی و کابینہ کی جانب سے پنجاب کے ساتھ زیادتیوں کے رونے زیادہ روئے جائیں گے۔
اور ہاں ہمارے ہاں بھی سڑک کنارے ایسکیلیٹرز لگوائے جائیں۔ ان کے لیے جنریٹر خریدے جائیں، اور گارڈز رکھے جائیں۔ تاکہ یہاں بھی لوگوں کو چُوٹے (جھولے) لینے کا موقع میسر آ سکے۔ مٹی گھٹے سے خراب ہونے کی صورت میں انہیں اچھے داموں کباڑیے کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔
اور ہو سکتا ہے مقامی کابینہ کے کسی وزیر کے ذہن میں کوئی اور اچھوتا منصوبہ آ جائے، جس سے فیصل آباد پر مزید پیسے لگ سکیں۔
میرا وزیرِ اعلی لاہور سے پُر زور مطالبہ ہے کہ جلد از جلد فیصل آباد کو بھی ایک وزیرِ اعلی مہیا کیا جائے۔ تاکہ ہم بھی لاہور کے برابر آسکیں۔ بلکہ مرحلہ وار ہر ضلع اور تحصیل کو وزرائے اعلی الاٹ کیے جائیں، تاکہ عوام گٹر کا ڈھکن بدلوائی، گلی پکوائی، سڑک بنوائی، انڈرپاس کھدوائی اور دوسرے ضروری کاموں کے لیے ان سے رجوع کر سکیں۔
عین نوازش ہو گی۔
عرضے
رہائشیانِ فیصل آباد
منتظرانِ وزیر اعلی و کابینہ
جب سے میں نے تیس ارب کا ذکر پڑھا ہے دل میں خیال بار بار اُبھرتا ہے کہ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان والے جب لاہور آ کر یہ عجوبے دیکھا کریں گے تو احساس محرومی انہیں سرائیکی صوبہ بنانے پر نہ صرف مجبور بلکہ ان کی ترجیح اول بنا دے گا
جواب دیںحذف کریںیہ ہی خیال میرا کراچی میں موجود اپنے علاقے کے لئے ہے!!! کیونکہ یہاں میرے علاقے سے اُن کو ووٹ نہیں پڑتے جو کہتے ہیں :ہمارا کراچی" کہیں فیصل آباد کا بھی تو یہ حال نہیں؟
جواب دیںحذف کریں