زلزلہ زدگان کی بحالی اور دوبارہ بسانے کے سلسلے میں کافی کام ہورہاہے۔ فی الحال جس چیز پر توجہ مرکوز ہے وہ آئندہ سردیوں میں انھیں پناہ گاہ کی فراہمی ہے۔ اس کام کے لیے ہر تنظیم اور حکومت اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ کچھ لوگ جست کی چادریں دے رہے ہیں کچھ لوگ شیڈ بنا کر دے رہے ہیں۔ بعض معروف این جی اوز نے فائبر کے بنے ہوئے گھر بھی تقسیم کیے ہیں اور حکومت فی گھر پچیس ہزار روپیہ تقسیم کر رہی ہے (اس میں اب اضافے کی نوید سنائی جارہی ہے نیز اس رقم کی تقسیم کیں خردبرد کی شکایات بھی آرہی ہیں)
اسی ذیل میں ملک کے ایک معروف روزنامے میں دو الگ الگ تجاویز پڑھیں تو دل کیا اسے آن لائن کر دیا جائے۔
دونوں تجاویر گھر بنا کر دینے کے سلسلے میں ہیں ۔ دونوں تجاویز باری باری پیش کرتا ہوں۔
1۔ محمد اشرف جن کا تعلق ایک کرافٹ مین فیملی سے ہے لاہور کالج آف آرٹس کے طالبعلم ہیں نے کنٹینروں کی تجویز پیش کی ہے۔ انکے مطابق کنٹینر
ایک تو زلزلہ پروف ہیں
دوسرے آسانی سے اور فوری دستیاب ہیں
تیسرے کم خرچ اور موسم جیسے نمی سرد ہوا کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں انسولیشن سے انھیں سردی گرمی پروف بنایا جاسکتا ہے
نیز ایک اوسط خاندان کے لیے اسی ہزار (80,000) سے ڈیڑھ لاکھ (150,000)روپے تک کنٹیزکا حصول ممکن ہے جس کی عمر سو سال تک ہوسکتی ہےبشرطہ ہر سال اندر اور باہر سے اینیمل پینٹ کیا جاتارہے۔
پارلیمنٹ کی موجودہ قائم ہونے والی کمیٹی کو سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے۔
2۔پانچ لوگوں کی ایک ٹیم جس میں ایک کارپینٹر باقی مزدور ہوں یا اس میں مناسب رد وبدل کر کے ایک ٹیم یعنی ایک یونٹ بنا لیا جائے (بہتر یہ ہے کہ یہ لوگ آرمی انجینئرنگ کور کے ہوں چونکہ یہ نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں اس لیے بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے) اور اس طرح کے ہزار یونٹ تجرباتی طور پر ان علاقوں جیسے نیلہ بٹ جہاں زیادہ تباہی ہوئی اور جلد برفباری اور سردی آنے کا امکان ہے تعینات کیا جائے اور ان کے گھروں کی مرمت اور تعمیر کروائی جائے پھرایک یونٹ ایک گھر بنانے میں جتنا وقت لیتا ہے اس کی اوسط لے کر مزید یونٹ مناسب تعداد میں تعینات کیے جائیں تاکہ جلد از جلد گھروں اور پناہ گاہ کی فراہمی کا مسئلہ حل ہوسکے۔
تجاویز کئی ایک ہو سکتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کو حکومتی اور نجی سطح پر ایک پالیسی کے طور پر اپنا لیا جائے تاکہ کام باآسانی اور بروقت ہوسکے ۔ اب حال یہ ہے کہ کوئی تنظیم خیمے فراہم کر رہی ہے، کوئی جستی چادریں اور کوئی فائبر کے گھر اور جست کے بنے ہوئے گھر۔
اس سلسلے میں مزید تجاویز دی جائیں تاکہ متعلقہ اداروں کے اس سلسلے میں آگاہ کیا جائے۔
اسی ذیل میں ملک کے ایک معروف روزنامے میں دو الگ الگ تجاویز پڑھیں تو دل کیا اسے آن لائن کر دیا جائے۔
دونوں تجاویر گھر بنا کر دینے کے سلسلے میں ہیں ۔ دونوں تجاویز باری باری پیش کرتا ہوں۔
1۔ محمد اشرف جن کا تعلق ایک کرافٹ مین فیملی سے ہے لاہور کالج آف آرٹس کے طالبعلم ہیں نے کنٹینروں کی تجویز پیش کی ہے۔ انکے مطابق کنٹینر
ایک تو زلزلہ پروف ہیں
دوسرے آسانی سے اور فوری دستیاب ہیں
تیسرے کم خرچ اور موسم جیسے نمی سرد ہوا کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں انسولیشن سے انھیں سردی گرمی پروف بنایا جاسکتا ہے
نیز ایک اوسط خاندان کے لیے اسی ہزار (80,000) سے ڈیڑھ لاکھ (150,000)روپے تک کنٹیزکا حصول ممکن ہے جس کی عمر سو سال تک ہوسکتی ہےبشرطہ ہر سال اندر اور باہر سے اینیمل پینٹ کیا جاتارہے۔
پارلیمنٹ کی موجودہ قائم ہونے والی کمیٹی کو سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے۔
2۔پانچ لوگوں کی ایک ٹیم جس میں ایک کارپینٹر باقی مزدور ہوں یا اس میں مناسب رد وبدل کر کے ایک ٹیم یعنی ایک یونٹ بنا لیا جائے (بہتر یہ ہے کہ یہ لوگ آرمی انجینئرنگ کور کے ہوں چونکہ یہ نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں اس لیے بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے) اور اس طرح کے ہزار یونٹ تجرباتی طور پر ان علاقوں جیسے نیلہ بٹ جہاں زیادہ تباہی ہوئی اور جلد برفباری اور سردی آنے کا امکان ہے تعینات کیا جائے اور ان کے گھروں کی مرمت اور تعمیر کروائی جائے پھرایک یونٹ ایک گھر بنانے میں جتنا وقت لیتا ہے اس کی اوسط لے کر مزید یونٹ مناسب تعداد میں تعینات کیے جائیں تاکہ جلد از جلد گھروں اور پناہ گاہ کی فراہمی کا مسئلہ حل ہوسکے۔
تجاویز کئی ایک ہو سکتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کو حکومتی اور نجی سطح پر ایک پالیسی کے طور پر اپنا لیا جائے تاکہ کام باآسانی اور بروقت ہوسکے ۔ اب حال یہ ہے کہ کوئی تنظیم خیمے فراہم کر رہی ہے، کوئی جستی چادریں اور کوئی فائبر کے گھر اور جست کے بنے ہوئے گھر۔
اس سلسلے میں مزید تجاویز دی جائیں تاکہ متعلقہ اداروں کے اس سلسلے میں آگاہ کیا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔