rمیں باغی ہوں!!!!
ہاں میں باغی ہوں۔ اس رسم و رواج سے ۔ اس اندھی تقلید سے۔ اس رویے سے جس نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے کہ ان سڑی ہوئی اور سوکھی ہوئی شاخوں کو پکڑے رکھیں اور اصل درخت جو آج بھی ہرا بھرا ہے کو بھول جائیں ۔
مگر ٹھہریں آپ کیا جانیں میری بغاوت کے کیا اسباب ہیں۔
میں بتاتاہوں۔
زیادہ پرانی بات نہیں اردو ویب آرگ پر ایک فورم میں دورانِ بحث مجھے ایک خبر ملی ۔
خبر یہ تھی کہ بھارت میں ایک خاتون کے سسر نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر وہاں کے دارلعلوم دیوبند نے وہ عورت اس کے خاوند پر حرام قرار دے دی ہے۔
میں نے پہلے اس پر دھیان نہیں دیا مگر پھر یونہی پھرتے پھراتے میں ایک اور فورم پر جا پہنچا جہاں پر اسی مسئلہ پر بحث ہورہی تھی۔ میں جیسے جیسے وہ بحث پڑھتا گیا میرا خدا گواہ ہے میرے دل میں آگ لگ گئی مجھے مسئلے کی سنگینی کا تب جا کر احساس ہوا۔
میرے تن بدن میں جیسے کسی نے انگارے بھر دیے، مظلوم کی بجائے داد رسی کی جاتی اس کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی اور کتنی آسانی سے مذہب کی آڑ لے لی گئی۔
چلیں میری بات چھوڑیں آپ ذرا ایک لمحہ غور کریں کیا آپ کا دل یہ مانتا ہے کہ مظلوم کے ساتھ مزید ظلم کیا جائے یعنی ایک تو اس کی عزت گئی ساتھ میں اس کے سر کا سائیں بھی چھینا جا رہا ہے۔
میری بات پوچھیں نا۔
تو میرے اندر سے جیسے کوئی چِلایا تھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نہیں ہوسکتا۔
کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ میرے پیارے اللہ میاں کا دین اور میرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کا خطاب رحمتہ للعٰلمین ہے کا دین ایسا کبھی کہہ ہی نہیں سکتا ۔
میرے اندر اس تحریر کے لکھنے تک کوئی بین کرتا رہا ہے، میرے اندر کوئی روتا کرلاتا اور سسکتا رہا ہے میں مجبور کر دیا گیا ہوں کہ یہ سب لکھوں ورنہ شاید مجھے کچھ ہوجاتا۔
کیسے ہوسکتا ہے یہ ۔ میرے اندر اب بھی چیخیں ابھر رہی ہیں اسلام اتنا بے حس اور سفاک کیسے ہو سکتا ہے۔ نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے یہ الزام ہے بہتان ہے میرے نبی سائیں صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔
اس لیے میں نے شروع میں کہا تھا میں باغی ہوں ۔ ہاں میں باغی ہوں ۔ ان علماء سے جو دینکے خدا بنے بیٹھے ہیں ۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں یا ان سے اگلے جن کے اقوال یہ نقل کرتے ہیں اور جن کے استدلال یہ نقل کرتے ہیں وہ عقل کل تھے۔
کیا ایسا کبھی ہوا ہے آپ خود سوچیے انسان سے کیا غلطی نہیں ہوسکتی۔ اور یہ لوگ بجائے کہ قرآن سے یہ سب ثابت کرے حدیث سے یہ ثابت کرتے ان کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں۔
میں پڑھ چکا ہوں جس آیت کا یہ حوالہ دے رہے ہیں سورہ نساء کی آیت نمبر باییس۔ وہاں صرف سوتیلی ماں کے نکاح کے لیے حرام ہونے کا ذکر ہے اور بس۔ اس سے یہ کیسے نتیجہ نکلتا ہے کہ زنا با لجبر کی صورت میں بھی یہی کچھ ہوگا۔
میں باغی ہوں ہاں میں باغی ہوں ان لوگوں سے جن کی عقلوں پر رب نے قفل ڈالے ہوئے ہیں جو اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر راستہ تلاش کرتے پھرتے ہیں حالانکہ انھیں بصیرت کی بینائی دی گئی ہے۔ پھر بھی یہ ان سڑی ہوئی شاخوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اصل دین کو بھلائے بیٹھے ہیں۔
کیوں نہیں کرسکتے یہ لوگ ۔ کیا انکے پاس عقل نہیں جو یہ انکی جنکی اب ہڈیا بھی نابود ہوگئی ہیں جان نہیں چھوڑتے۔ کیا ان کے درمیان کتاب اللہ اور حدیث رسول موجود نہیں پھر یہ اس سے اخذ کی گئ کتابوں کے حوالے کیوں دیتے ہیں اپنے خود ساختہ فیصلوں میں۔
یہ کتابیں آدھی سے زیادہ قیاسات ہیں جنھیں یہ لوگ فقہہ کا نام دیتے ہیں۔ قرآن میں صرف ڈیڑھ سو آیات ہیں جن میں معاشرتی احکام بیان کیے گئے ۔ پھر ان تھوڑی سے آیات سے ان لوگوں نے اتنی لا شمار کتابیں کس طرح تخلیق کر لیں اس طرح کہ ایک اینٹ تبرک کے لیے قرآن اور حدیث کی اور اسکے بعد اس کے بل پر قیاسا ت اور استدلال کی بڑی بڑی عمارات۔
ایک کتاب میں پڑھا تھا اسلام دریا ہے اور فرقے نہریں ۔پھر ان نہروں سے بھی مزید چھوٹی نہریں اور پھر ان نہروں سے کھالے ۔ کہاں دریا اور کہاں یہ کھالے۔ یہ لوگ ان کھالوں کی جان نہیں چھوڑتے جہاں اسلام کا پانی آتے آتے اتنا گندہ ہو جاتا ہے کہ اس کی شکل ہی مسخ ہوجاتی ہے۔ اسکی ساری شفافیت ان لوگوں کے خیالات اور خود ساختہ نتائج میں دب جاتی ہے۔
میں جانتا ہوں مجھ پر کفر کا فتوٰی بھی لگ سکتا ہے۔ لگا دیں پہلے کونسا یہ کسی کو بخشتے ہیں انھوں نے تو گویا دین کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔ اللہ انھی کا ہے نا ہمارا تو کچھ بھی نہیں اور اسلام بھی انھی کا اور اللہ کا رسول بھی انھی کا ہم تو بس تماشائی ہیں۔
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
کے مصداق ہم تو بس یہ ہی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں مگر اب نہیں اب بس۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں یہ لوگ تو دین میں تحقیق کرنا گوارا نہیں کرتے دنیاوی اور سائنسی تحقیق کیا خاک کریں گے۔ اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات کو سمجھنے کی خود کوشش نہیں جو آج سے صدیوں پہلے کے لوگوں نے کہہ دیا پتھر پر لکیر ہے اب ان کاکام ہے انکے فتووں کو رٹیں اور ان کی بنیاد پر فیصلے سناتے جائیں ۔
پتہ نہیں یہ مہریں کب ٹوٹیں گی ٹوٹیں گی بھی یا نہیں۔ میرے جیسا دین کے معاملے میں جاہل بھی ایک سیدھا سا فیصلہ دے سکتا ہے کہ یہ ایسے نہیں ایسے ہے متعلقہ آیت میں صرف نکاح کے بارے میں یہ حکم ہے کہ باپ کی منکوحہ سابقہ یا موجودہ بیٹے پر حرام ہے پتہ نہیں اس سے انھوں نے زنا بالجبر کس طرح جوڑ لیا ہے۔ انتہائی واضح اور غیر مبہم طور پر وہاں جب بتا دیا گیا ہے پھر یہ ہچر مچر پتا نہیں کیوں ۔ فلانے کا فتوٰ ی یہ تھا فلانے کا یہ تھا ہوگا۔ ان کی اپنی عقل انھوں نے جو صحیح سمجھا کہہ دیا اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنی عقل استعمال ہی نہیں کرنی ۔ اوپر سے اسے ہی اسلام کہلانے پر مصر۔ عجیب لوگ ہیں ۔ دین کو اتنا مشکل بنا دیا ہے ان لوگوں نے کہ وحشت ہوتی ہے۔
پھر میرے جیسے جب سر اٹھاتے ہیں تو آوازیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں نئی نسل اپنی مرضی کا اسلام چاہتی ہے۔
ہاں میں باغی ہوں۔ اس رسم و رواج سے ۔ اس اندھی تقلید سے۔ اس رویے سے جس نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے کہ ان سڑی ہوئی اور سوکھی ہوئی شاخوں کو پکڑے رکھیں اور اصل درخت جو آج بھی ہرا بھرا ہے کو بھول جائیں ۔
مگر ٹھہریں آپ کیا جانیں میری بغاوت کے کیا اسباب ہیں۔
میں بتاتاہوں۔
زیادہ پرانی بات نہیں اردو ویب آرگ پر ایک فورم میں دورانِ بحث مجھے ایک خبر ملی ۔
خبر یہ تھی کہ بھارت میں ایک خاتون کے سسر نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر وہاں کے دارلعلوم دیوبند نے وہ عورت اس کے خاوند پر حرام قرار دے دی ہے۔
میں نے پہلے اس پر دھیان نہیں دیا مگر پھر یونہی پھرتے پھراتے میں ایک اور فورم پر جا پہنچا جہاں پر اسی مسئلہ پر بحث ہورہی تھی۔ میں جیسے جیسے وہ بحث پڑھتا گیا میرا خدا گواہ ہے میرے دل میں آگ لگ گئی مجھے مسئلے کی سنگینی کا تب جا کر احساس ہوا۔
میرے تن بدن میں جیسے کسی نے انگارے بھر دیے، مظلوم کی بجائے داد رسی کی جاتی اس کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی اور کتنی آسانی سے مذہب کی آڑ لے لی گئی۔
چلیں میری بات چھوڑیں آپ ذرا ایک لمحہ غور کریں کیا آپ کا دل یہ مانتا ہے کہ مظلوم کے ساتھ مزید ظلم کیا جائے یعنی ایک تو اس کی عزت گئی ساتھ میں اس کے سر کا سائیں بھی چھینا جا رہا ہے۔
میری بات پوچھیں نا۔
تو میرے اندر سے جیسے کوئی چِلایا تھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نہیں ہوسکتا۔
کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ میرے پیارے اللہ میاں کا دین اور میرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کا خطاب رحمتہ للعٰلمین ہے کا دین ایسا کبھی کہہ ہی نہیں سکتا ۔
میرے اندر اس تحریر کے لکھنے تک کوئی بین کرتا رہا ہے، میرے اندر کوئی روتا کرلاتا اور سسکتا رہا ہے میں مجبور کر دیا گیا ہوں کہ یہ سب لکھوں ورنہ شاید مجھے کچھ ہوجاتا۔
کیسے ہوسکتا ہے یہ ۔ میرے اندر اب بھی چیخیں ابھر رہی ہیں اسلام اتنا بے حس اور سفاک کیسے ہو سکتا ہے۔ نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے یہ الزام ہے بہتان ہے میرے نبی سائیں صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔
اس لیے میں نے شروع میں کہا تھا میں باغی ہوں ۔ ہاں میں باغی ہوں ۔ ان علماء سے جو دینکے خدا بنے بیٹھے ہیں ۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں یا ان سے اگلے جن کے اقوال یہ نقل کرتے ہیں اور جن کے استدلال یہ نقل کرتے ہیں وہ عقل کل تھے۔
کیا ایسا کبھی ہوا ہے آپ خود سوچیے انسان سے کیا غلطی نہیں ہوسکتی۔ اور یہ لوگ بجائے کہ قرآن سے یہ سب ثابت کرے حدیث سے یہ ثابت کرتے ان کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں۔
میں پڑھ چکا ہوں جس آیت کا یہ حوالہ دے رہے ہیں سورہ نساء کی آیت نمبر باییس۔ وہاں صرف سوتیلی ماں کے نکاح کے لیے حرام ہونے کا ذکر ہے اور بس۔ اس سے یہ کیسے نتیجہ نکلتا ہے کہ زنا با لجبر کی صورت میں بھی یہی کچھ ہوگا۔
میں باغی ہوں ہاں میں باغی ہوں ان لوگوں سے جن کی عقلوں پر رب نے قفل ڈالے ہوئے ہیں جو اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر راستہ تلاش کرتے پھرتے ہیں حالانکہ انھیں بصیرت کی بینائی دی گئی ہے۔ پھر بھی یہ ان سڑی ہوئی شاخوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اصل دین کو بھلائے بیٹھے ہیں۔
کیوں نہیں کرسکتے یہ لوگ ۔ کیا انکے پاس عقل نہیں جو یہ انکی جنکی اب ہڈیا بھی نابود ہوگئی ہیں جان نہیں چھوڑتے۔ کیا ان کے درمیان کتاب اللہ اور حدیث رسول موجود نہیں پھر یہ اس سے اخذ کی گئ کتابوں کے حوالے کیوں دیتے ہیں اپنے خود ساختہ فیصلوں میں۔
یہ کتابیں آدھی سے زیادہ قیاسات ہیں جنھیں یہ لوگ فقہہ کا نام دیتے ہیں۔ قرآن میں صرف ڈیڑھ سو آیات ہیں جن میں معاشرتی احکام بیان کیے گئے ۔ پھر ان تھوڑی سے آیات سے ان لوگوں نے اتنی لا شمار کتابیں کس طرح تخلیق کر لیں اس طرح کہ ایک اینٹ تبرک کے لیے قرآن اور حدیث کی اور اسکے بعد اس کے بل پر قیاسا ت اور استدلال کی بڑی بڑی عمارات۔
ایک کتاب میں پڑھا تھا اسلام دریا ہے اور فرقے نہریں ۔پھر ان نہروں سے بھی مزید چھوٹی نہریں اور پھر ان نہروں سے کھالے ۔ کہاں دریا اور کہاں یہ کھالے۔ یہ لوگ ان کھالوں کی جان نہیں چھوڑتے جہاں اسلام کا پانی آتے آتے اتنا گندہ ہو جاتا ہے کہ اس کی شکل ہی مسخ ہوجاتی ہے۔ اسکی ساری شفافیت ان لوگوں کے خیالات اور خود ساختہ نتائج میں دب جاتی ہے۔
میں جانتا ہوں مجھ پر کفر کا فتوٰی بھی لگ سکتا ہے۔ لگا دیں پہلے کونسا یہ کسی کو بخشتے ہیں انھوں نے تو گویا دین کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔ اللہ انھی کا ہے نا ہمارا تو کچھ بھی نہیں اور اسلام بھی انھی کا اور اللہ کا رسول بھی انھی کا ہم تو بس تماشائی ہیں۔
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
کے مصداق ہم تو بس یہ ہی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں مگر اب نہیں اب بس۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں یہ لوگ تو دین میں تحقیق کرنا گوارا نہیں کرتے دنیاوی اور سائنسی تحقیق کیا خاک کریں گے۔ اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات کو سمجھنے کی خود کوشش نہیں جو آج سے صدیوں پہلے کے لوگوں نے کہہ دیا پتھر پر لکیر ہے اب ان کاکام ہے انکے فتووں کو رٹیں اور ان کی بنیاد پر فیصلے سناتے جائیں ۔
پتہ نہیں یہ مہریں کب ٹوٹیں گی ٹوٹیں گی بھی یا نہیں۔ میرے جیسا دین کے معاملے میں جاہل بھی ایک سیدھا سا فیصلہ دے سکتا ہے کہ یہ ایسے نہیں ایسے ہے متعلقہ آیت میں صرف نکاح کے بارے میں یہ حکم ہے کہ باپ کی منکوحہ سابقہ یا موجودہ بیٹے پر حرام ہے پتہ نہیں اس سے انھوں نے زنا بالجبر کس طرح جوڑ لیا ہے۔ انتہائی واضح اور غیر مبہم طور پر وہاں جب بتا دیا گیا ہے پھر یہ ہچر مچر پتا نہیں کیوں ۔ فلانے کا فتوٰ ی یہ تھا فلانے کا یہ تھا ہوگا۔ ان کی اپنی عقل انھوں نے جو صحیح سمجھا کہہ دیا اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنی عقل استعمال ہی نہیں کرنی ۔ اوپر سے اسے ہی اسلام کہلانے پر مصر۔ عجیب لوگ ہیں ۔ دین کو اتنا مشکل بنا دیا ہے ان لوگوں نے کہ وحشت ہوتی ہے۔
پھر میرے جیسے جب سر اٹھاتے ہیں تو آوازیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں نئی نسل اپنی مرضی کا اسلام چاہتی ہے۔
آپ اکیلے نہیں ہیں میں بھی آپ کے ساتھ ہوں اور ہمارے جیسے کئی نوجوان اور ہیں جو اسلام کے نام پر کئیے جانے والے مظالم پر بہت دکھی ہیں۔ فرانس میں جب کرپٹ جاگیرداروں، امراء، بادشاہ اور چرچ نے عوام کی زندگی محال کردی تو مجبوروں اور بے کسوں نے بغاوت کردی اور ایک خونی انقلاب بپا ہوا۔
جواب دیںحذف کریں