زندگی میں ہر کسی پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اسے اپنے “ہونے“ ک احساس ہوتا ہے۔ایک گانا ہے شاید آپ نے بھی سنا ہو “مینوں چڑھیا سولہواں سال۔۔۔۔“۔یہ سولہواں سال ہی شاید وہ وقت ہوتا ہے۔مگر مجھ پر سولہواں سال دو سال لیٹ آیا۔شاید یہ بھی میری طرح سست واقع ہوا۔عمر عزیز کے اٹھارہویں سال مجھے احساس ہوا کہ “میں ہوں“۔زندگی حسین لگنے لگی۔ اپنے آپ کو سنوارنے کو دل چاہا۔ہر چیز نکھری نکھری اور انوکھی لگنے لگی۔ خاص طور پر محبت نے مجھے ان دنوں بہت متاثر کیا۔ہر چیز سے محبت اللہ سے اس کے بندوں سے اس کی مخلوق سے اور اس کی بنائی ہوئی چیزوں سے بے تحاشا محبت محسوس ہونے لگی۔اور پھرایک اور احساس کوئی بہت بہت ہی خاص ہو۔کوئی محرم۔کوئی جس کے ساتھ دل کا رشتہ ہو۔انھی دنوں مجھ پر اپنی ایک اور صلاحیت کا انکشاف ہوا۔
یونہی ایک دوست کی دیکھا دیکھی ایک دن نظم لکھنے بیٹھ گیا۔ایک بے تکی آزاد سی نظم لکھ کر اسے بلا مبالغہ کئی بار پڑھا۔ہر بار اپنے آپ پر ڈھیروں پیار آیا یہ میں نے لکھی ہے کتنی پیاری ہے۔وغیرہ وغیرہ قسم کے سینکڑوں خیالات دل میں آتے۔شاید اللہ نے بھی جب احسن تقویم انسان کو پیدا کیا اسے بھی اپنے آپ پر ڈھیروں پیار آیا ہوگا۔ محبت،کسی محبوب کی تڑپ اور ادب سے لنگڑی سی واقفیت نے تمام لوازمات پورے کردیے۔
اس کے بعد پھر میرے اندر کے شاعر نے ایسی انگڑائی لی کہ باقی سب صلاحیتوں کو سلا دیا۔ہر روز ایک نظم یا غزل کا نزول ہوتا۔یہ الگ بات ہے کہ وہ نظمیں اور غزلیں نفس مضمون کے اعتبار سے تو شاید قابل قبول ہوں پر تکنیکی اعتبار سے بے تکی بے ڈھنگی اور بے بحری بھی تھیں۔ان دنوں کمپیوٹر نیا نیا استعمال کرنا سیکھا تھا اور میرے لیے کمپیوٹر پر اردو کے نام پر ایک ہی چیز تھی ان پیج ۔سو آدھ آدھ گھنٹا لگا کر نظم پہلے لکھتا پھر اس کی تزئین کرتا پھر اس کو گِف بناوٹ میں محفوظ کرتا۔
تو یہ تھا شاکر جو ایک شاعر بھی تھا۔تھا اس لیے کہا کہ آج کل اتنی فرصت نہیں۔زندگی کے چودہ سالوں کی محنت پھل پانے چلی ہے۔سو کچھ لعن طعن کچھ مرضی سے اپنے آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتا رہتا ہوں۔اب کیسی شاعری اب تو یہ حال ہے کوئی شعرکہنے کی کوشش کروں تو ایک مصرع شعر کا اور دوسرا مصرف ایڈوانس اکاونٹنگ کی انٹری سے نکلتا ہے۔کاسٹ اکاؤنٹنگ،پاکستانی معاشیات،بزنس لاء آج کل یہی اوڑھنا بچھونا ہیں۔
مورخہ چھ جون سنہ2004ء سے میرے بی کام پارٹ ٹو کے امتحان شروع ہورہے ہیں۔تاریخ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کئی سالوں سے یہی چلی آرہی ہے اور ڈیٹ شیٹ + رولنمبر سلپ کی آمد بھی جلد ہی متوقع ہے۔ایک مہینے کی ٹینشن کے بعد کہیں خلاصی ہوگی۔دعا کیجیے گا سخت گرمی میں یہ امتحان زیادہ امتحان نہ بنیں۔اب شاید جولائی میں آپ سے مخاطب ہوسکوں۔اور ہاں جاتے جاتے میری دوسری نظم (پہلی کچھ زیادہ ہی آزاد ہے یعنی قافیہ ردیف بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے اس میں۔)،جو میں آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔نظم اس لیے کہ اس میں آزاد کا بہانہ چل سکتا ہے غزل میں نہیں۔اور میری تو ساری شاعری بے بحری ہے۔
جب غم کا اندھیرا چھایا ہو
جب درد کا بادل آیا ہو
جب آنکھوں میں نمی سی ہو
جب خوشیوں میں کمی سی ہو
جب حزن سا ہر سو پھیلا ہو
جب موسم بہت اداس ہو
جب ایسے ہی سلگتے سلگتے
لگ گئی بہت ہی پیاس ہو
جب درخت بھی ویراں ہوجائیں
جب پت جھڑ کا موسم ہو
جب چھاجوں مینہ برستا ہو
جب ساون کی رِم جھم ہو
کہیں چمبیلی مہکی ہو
کہیں کوئی چڑیا چہکی ہو
تب کہیں، کہیں کوئی آس ہو
کوئی بہت،بہت ہی خاص ہو
جب تصور میں آجائے
سارے درد بھلا جائے
چھاجائے غموں پر خورشید بن کر
نئی صبح کی نوید بن کر
جب درد کا بادل آیا ہو
جب آنکھوں میں نمی سی ہو
جب خوشیوں میں کمی سی ہو
جب حزن سا ہر سو پھیلا ہو
جب موسم بہت اداس ہو
جب ایسے ہی سلگتے سلگتے
لگ گئی بہت ہی پیاس ہو
جب درخت بھی ویراں ہوجائیں
جب پت جھڑ کا موسم ہو
جب چھاجوں مینہ برستا ہو
جب ساون کی رِم جھم ہو
کہیں چمبیلی مہکی ہو
کہیں کوئی چڑیا چہکی ہو
تب کہیں، کہیں کوئی آس ہو
کوئی بہت،بہت ہی خاص ہو
جب تصور میں آجائے
سارے درد بھلا جائے
چھاجائے غموں پر خورشید بن کر
نئی صبح کی نوید بن کر
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی آپ کو بی کام پارٹ 2 ميں شاندار کاميابی سے ہمکنار کرے ۔ آمين
جواب دیںحذف کریںدعا دینے کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںشاکر بھائی اور شاعر
جواب دیںحذف کریںبہت زبردست
مجھے بھی شوق ہوا تھا سیکنڈ ائر میں اور کچھ الٹی سیدھی لکھ بھی تھیں
پر آپ نے نے تو بہت اچھی لکھ ہیں
آپ کے بارے میں پڑھ کر بہت پرانی یادیں مجھے بیھ تازہ ہوگیں
پسندیدگی کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںمیری ساری شاعری تکنیکی اعتبار سے بے وزن و بے بحر ہے اس لیے میں اسے عام نہیں کرتا۔