اوپن سررس یعنی آزاد مصدر کا ذکر کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کے لیے نیا نہیں۔ لینکس کا نام بھی سب جانتے ہیں۔ آزاد مصدر ہے کیا؟
آزاد مصدر کا مطلب ہے سافٹ ویر کو اس طرح فراہم کرنا کہ صارف کو اسے استعمال کرنے اور تقسیم کرنے کی آزادی ہو معاوضہ ادا کرکے یا اس کے بغیر۔ ہر دو صورتوں میں ناشر کو صرف اپنے معاوضے سے غرض ہوگی نہ کہ اس بات سے کہ پروگرام کو کون آگے مزید تقسیم کررہا ہے یا اس میں مزید تبدیلیاں کرکے اسے اپنے نام سے شائع کررہا ہے۔
آزاد مصدر کے پیچھے ایک فلسفہ کار فرما ہے۔حقوق دانش کے غیز منصفانہ استعمال کو روکنا۔یہ کہاں کاانصاف ہے کہ چند لوگ ایک چیز بنا لیں پر اس پر اجاردہ دار بن بیٹھیں۔ آزاد مصدر کے تحت ہر سافٹ ویر اور اس کا رمزی ذریعہ یعنی سورس کوڈ انسانیت کی میراث ہے نہ کہ کسی مخصوص کمپنی، یا شخص یا اشخاص کی۔
اس نعرے کو لے کر کچھ دیوانے آگے بڑھے اور یونکس سے لے کر لینکس اور عبارتی مواجے سے لے کر تصویری صارف مواجے تک ایک لمبی داستان ہے جو آزاد مصدر کے تحت لکھی گئی۔ انٹرنیٹ پر اس وقت ہزاروں سافٹ ویر دستیاب ہیں جو آزاد مصدر اجازت ناموں کے تحت جاری کیے گئے ہیں۔
چلیں یہ سب تو ہے مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟
ہمارا یہ حال ہے کہ جب کمپیوٹر کی بات کی جاتی ہے تو جو چیز پہلے ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ ہے مائیکرو سافٹ اور اس کا خدمتگار نظام یعنی ونڈوز۔ہماری سوچ صرف مائیکرو سافٹ تک ہی کیوں محدود ہوگئی ہے۔ چلیں تھوڑا آگے چلتے ہیں ونڈوز سے ہٹ کر کچھ مزید پروگرام بھی ہیں جن تک ہماری رسائی ہوجاتی ہے وہ ہیں مقبول عام ایڈوب بی فوٹو شاپ،کورل ڈرا اور اسی طرح کے دوسرے تیسرے پروگرام جو چوری شدہ ہیں اور تیس روپے کی سی ڈی پر با آسانی دستیاب ہیں۔
ہم چوری شدہ سافٹ ویر کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ آزاد مصدر کی صورت میں ہمارے پاس اس کا ایک حل موجود ہے تو اسے استعمال کیوں نہیں کیا جاتا۔ میں نے اکثر یہ سوال اپنے دوستوں حتٰی کہ اپنے بھائی سے بھی پوچھا پتا کیا جواب ملا؟
” یہ لوگ ہمیں لوٹ کر کھارہے ہیں تو ان کو اتنا نقصان پہنچانا تو ہر مسلمان کا فرض ہے۔”
یہ ہے ہمارا نظریہ اس بارے میں۔ ذرا اس تحریر کو پڑحنا بند کیجیے اور ایک بار آنکھیں بند کرکے تسلی سے سوچیے کہ کیا یہ صحیح ہے۔ کیا یہ چوری ،چوری نہیں؟؟ ہاں یا نہیں میں جواب سوچیں گے تو یقینًا آپ کا جواب ہاں ہوگا۔ اگر ہاں تو پھر آپ میں ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اور اگر جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں تو کیا یہ سینہ زوری نہیں؟؟؟ اس کا جواب بھی سوچیے کیا آپ اس پر شرمندہ ہیں؟؟
اگر ہاں تو مبارکباد آپ ایک باضمیر جرات مند انسان ہیں اور اگر آپ آج غلطی تسلیم کر رہے ہیں تو کل اسے دہرانے سے پرہیز بھی کریں گے اور میرا خیال ہے یہی ایک اچھے مسلمان کی نشانی بھی ہے۔اور اگر آپ اس سینہ زوری پر شرمندہ نہیں یا اس چوری کو سرے سے چوری ہی نہیں سمجھتے تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے مجھے بے اختیار قرآن کریم کی آیت یاد آرہی ہے جس میں اندھے گونگے اور بہرے لوگوں کا ذکر موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم ایس کیوں کرتے ہیں؟ صرف اپنی دنیاوی آسانی کے لیے مگر آپ یہ جانتے ہیں کہ آخرت میں آپ سے اس کا سوال ہوگا۔ چلیں اس کو چھوڑیں دنیاوی بات ہی کرلیتے ہیں۔ آپ ایسا کرکے بالواسطہ سافٹ ویر کی دنیا پر اجارہ دار چند کمپنیوں کw فائدہ اور ایک اچھی اور بامقصد تحریک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مگر کیسے؟؟
ایسے کہ پاکستان میں کمپیوٹر پر کیا چلتا ہے سب سے پہلے م س ونڈوز خدمتگار نظام۔ ٹھیک ہے آپ کی بات مان لیتے ہیں تیس روپے میں مل جاتا ہے اور ہم اس سے انگریزوں کو چونا لگا دیتے ہیں۔ مگر ذرا سوچیے ہمارے پروگرامر جو آج نکل رہے ہیں وہ کس چیز کے ماہر بن رہے ہیں۔ کبھی اخبار پڑھیے گا مائیکرو سافٹ کا فلاں پروفیشنل ماشاءاللہ بچے نے بہت کم عمر میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ قسم کی خبریں ملیں گی۔ اب ذرا یہ بتائیے کیا یہ سب مفت میں ہوجاتا ہے؟؟؟؟
ظاہر سی بات ہے پیسے لگتے ہیں۔ م س کی مفت میں مشتہری اور مزید گاہک بننے کا رجحان اسے اس بات کی فکر ہی نہیں ہونے دیتا کہ پاکستان میں حقوق دانش کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔آپ اپنی دانست میں انھیں چونا لگاتے ہیں اور وہ بڑے پیار سے آپ کو چونا لگا رہے ہیں بڑے غیر محسوس طریقے سے آپ کے ملک سے زرمبادلہ اور ذہانت کو کھینچ رہے ہیں۔
ہمارا یہی رویہ ہارڈویر ساز کمپینیوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ صرف چند بڑی کمپنیوں کے لیے ہارڈویر بنائیں اور پھر آزاد مصدر خدمتگار نظاموں کی بات ہوتی ہے تو کمپیوٹر صارفین مطابقت نہیں رکھتا اور مشکل ہے جیسے الزامات لگا کر بری ہوجاتے ہیں۔
کیا پروگرامنگ صرف م س اور اس جیسی چند بڑی کمپنیوں کی میراث ہے؟؟؟ نہیں۔ یہ ہمارا آپ کا وہم ہے۔کبھی اس کنویں سے نکل کر دیکھیے پروگرامنگ کی دنیا بہت وسیع ہے۔
آزاد مصدر کا فلسفہ ہے کہ آپ کو خود بھی کچھ نہ کچھ پروگرامنگ آنی چاہیے۔ یہ کسی پروگرامر اور کسی م س جیسی کمپنی کا ہی کام ہے کہ آپ کو گھر بیٹھے سی ڈی پر ونڈوز مل جائے اور آپ اسے نصب کرکے استعمال کرنا شروع کردیں۔ کمپیوٹر صارفین کو اس “پیشہ ورانہ پن” نے انتا تن آسان کردیا ہے کہ چند کلک کرنا انھیں عذاب محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ ہمارے ہاں کمپیوٹر صارفین ہیں ہی کہاں ہمارے ہاں تو فلموں کے شوقین،گیموں کے شوقین کمپیوٹر صارف بنے بیٹھے ہیں۔ ایک تعمیری چیز کو انتہائی غلط انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔
جبکہ آزاد مصدر ہر اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ پہلی چیز تو یہ قانونی طور پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جو آپ استعمال کررہے ہیں اس پر آپ کا حق ہے بغیر کسی معاوضے کے اور آپ اسے بغیر کسی ڈر کے آگے تقسیم کرسکتے ہیں اور ہاں اگر کہیں معاوضہ وصول کیا بھی جاتا ہے تو انتہائی کم ۔
دوسرے آزاد مصدر کے تحت جاری ہونے والے پروگرام کسی بھی طرح خریدے جانے والے پروگراموں سے کم نہیں۔ مزید آزاد مصدر خدمتگار نظاموں اور ان کی آبادیوں میں شمولیت سے صارفین کو پروگرامنگ کی شدھ بدھ کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تعمیری انداز میں کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
تو پھر کیوں نہ ایک اچھی چیز کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگرچہ پہلے چند قدم ضرور لڑکھڑاہٹ ہوگی مگر اس کے بعد آپ سنبھل جائیں گے۔ آپ سے یہ مطالبہ نہیں کہ ابھی سے ونڈوز کو گھر سے باہر پھینکیں اور لینکس کی کوئی تقسیم نصب کرکے بیٹھ جائیں۔ مگر بسم اللہ تو کریں ونڈوز کے لیے ہی بے شمار آزاد مصدر سافٹ ویر موجود ہیں آپ موجودہ پراگراموں کے ساتھ انھیں بھی استعمال کریں اور آہستہ آہستہ چوری شدہ سافٹ ویر کے استعمال کو ختم کردیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں۔
یہ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے اور اخلاقی و قانونی لحاظ سے ذمہ داری بھی۔
آزاد مصدر کا مطلب ہے سافٹ ویر کو اس طرح فراہم کرنا کہ صارف کو اسے استعمال کرنے اور تقسیم کرنے کی آزادی ہو معاوضہ ادا کرکے یا اس کے بغیر۔ ہر دو صورتوں میں ناشر کو صرف اپنے معاوضے سے غرض ہوگی نہ کہ اس بات سے کہ پروگرام کو کون آگے مزید تقسیم کررہا ہے یا اس میں مزید تبدیلیاں کرکے اسے اپنے نام سے شائع کررہا ہے۔
آزاد مصدر کے پیچھے ایک فلسفہ کار فرما ہے۔حقوق دانش کے غیز منصفانہ استعمال کو روکنا۔یہ کہاں کاانصاف ہے کہ چند لوگ ایک چیز بنا لیں پر اس پر اجاردہ دار بن بیٹھیں۔ آزاد مصدر کے تحت ہر سافٹ ویر اور اس کا رمزی ذریعہ یعنی سورس کوڈ انسانیت کی میراث ہے نہ کہ کسی مخصوص کمپنی، یا شخص یا اشخاص کی۔
اس نعرے کو لے کر کچھ دیوانے آگے بڑھے اور یونکس سے لے کر لینکس اور عبارتی مواجے سے لے کر تصویری صارف مواجے تک ایک لمبی داستان ہے جو آزاد مصدر کے تحت لکھی گئی۔ انٹرنیٹ پر اس وقت ہزاروں سافٹ ویر دستیاب ہیں جو آزاد مصدر اجازت ناموں کے تحت جاری کیے گئے ہیں۔
چلیں یہ سب تو ہے مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟
ہمارا یہ حال ہے کہ جب کمپیوٹر کی بات کی جاتی ہے تو جو چیز پہلے ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ ہے مائیکرو سافٹ اور اس کا خدمتگار نظام یعنی ونڈوز۔ہماری سوچ صرف مائیکرو سافٹ تک ہی کیوں محدود ہوگئی ہے۔ چلیں تھوڑا آگے چلتے ہیں ونڈوز سے ہٹ کر کچھ مزید پروگرام بھی ہیں جن تک ہماری رسائی ہوجاتی ہے وہ ہیں مقبول عام ایڈوب بی فوٹو شاپ،کورل ڈرا اور اسی طرح کے دوسرے تیسرے پروگرام جو چوری شدہ ہیں اور تیس روپے کی سی ڈی پر با آسانی دستیاب ہیں۔
ہم چوری شدہ سافٹ ویر کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ آزاد مصدر کی صورت میں ہمارے پاس اس کا ایک حل موجود ہے تو اسے استعمال کیوں نہیں کیا جاتا۔ میں نے اکثر یہ سوال اپنے دوستوں حتٰی کہ اپنے بھائی سے بھی پوچھا پتا کیا جواب ملا؟
” یہ لوگ ہمیں لوٹ کر کھارہے ہیں تو ان کو اتنا نقصان پہنچانا تو ہر مسلمان کا فرض ہے۔”
یہ ہے ہمارا نظریہ اس بارے میں۔ ذرا اس تحریر کو پڑحنا بند کیجیے اور ایک بار آنکھیں بند کرکے تسلی سے سوچیے کہ کیا یہ صحیح ہے۔ کیا یہ چوری ،چوری نہیں؟؟ ہاں یا نہیں میں جواب سوچیں گے تو یقینًا آپ کا جواب ہاں ہوگا۔ اگر ہاں تو پھر آپ میں ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اور اگر جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں تو کیا یہ سینہ زوری نہیں؟؟؟ اس کا جواب بھی سوچیے کیا آپ اس پر شرمندہ ہیں؟؟
اگر ہاں تو مبارکباد آپ ایک باضمیر جرات مند انسان ہیں اور اگر آپ آج غلطی تسلیم کر رہے ہیں تو کل اسے دہرانے سے پرہیز بھی کریں گے اور میرا خیال ہے یہی ایک اچھے مسلمان کی نشانی بھی ہے۔اور اگر آپ اس سینہ زوری پر شرمندہ نہیں یا اس چوری کو سرے سے چوری ہی نہیں سمجھتے تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے مجھے بے اختیار قرآن کریم کی آیت یاد آرہی ہے جس میں اندھے گونگے اور بہرے لوگوں کا ذکر موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم ایس کیوں کرتے ہیں؟ صرف اپنی دنیاوی آسانی کے لیے مگر آپ یہ جانتے ہیں کہ آخرت میں آپ سے اس کا سوال ہوگا۔ چلیں اس کو چھوڑیں دنیاوی بات ہی کرلیتے ہیں۔ آپ ایسا کرکے بالواسطہ سافٹ ویر کی دنیا پر اجارہ دار چند کمپنیوں کw فائدہ اور ایک اچھی اور بامقصد تحریک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مگر کیسے؟؟
ایسے کہ پاکستان میں کمپیوٹر پر کیا چلتا ہے سب سے پہلے م س ونڈوز خدمتگار نظام۔ ٹھیک ہے آپ کی بات مان لیتے ہیں تیس روپے میں مل جاتا ہے اور ہم اس سے انگریزوں کو چونا لگا دیتے ہیں۔ مگر ذرا سوچیے ہمارے پروگرامر جو آج نکل رہے ہیں وہ کس چیز کے ماہر بن رہے ہیں۔ کبھی اخبار پڑھیے گا مائیکرو سافٹ کا فلاں پروفیشنل ماشاءاللہ بچے نے بہت کم عمر میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ قسم کی خبریں ملیں گی۔ اب ذرا یہ بتائیے کیا یہ سب مفت میں ہوجاتا ہے؟؟؟؟
ظاہر سی بات ہے پیسے لگتے ہیں۔ م س کی مفت میں مشتہری اور مزید گاہک بننے کا رجحان اسے اس بات کی فکر ہی نہیں ہونے دیتا کہ پاکستان میں حقوق دانش کی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔آپ اپنی دانست میں انھیں چونا لگاتے ہیں اور وہ بڑے پیار سے آپ کو چونا لگا رہے ہیں بڑے غیر محسوس طریقے سے آپ کے ملک سے زرمبادلہ اور ذہانت کو کھینچ رہے ہیں۔
ہمارا یہی رویہ ہارڈویر ساز کمپینیوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ صرف چند بڑی کمپنیوں کے لیے ہارڈویر بنائیں اور پھر آزاد مصدر خدمتگار نظاموں کی بات ہوتی ہے تو کمپیوٹر صارفین مطابقت نہیں رکھتا اور مشکل ہے جیسے الزامات لگا کر بری ہوجاتے ہیں۔
کیا پروگرامنگ صرف م س اور اس جیسی چند بڑی کمپنیوں کی میراث ہے؟؟؟ نہیں۔ یہ ہمارا آپ کا وہم ہے۔کبھی اس کنویں سے نکل کر دیکھیے پروگرامنگ کی دنیا بہت وسیع ہے۔
آزاد مصدر کا فلسفہ ہے کہ آپ کو خود بھی کچھ نہ کچھ پروگرامنگ آنی چاہیے۔ یہ کسی پروگرامر اور کسی م س جیسی کمپنی کا ہی کام ہے کہ آپ کو گھر بیٹھے سی ڈی پر ونڈوز مل جائے اور آپ اسے نصب کرکے استعمال کرنا شروع کردیں۔ کمپیوٹر صارفین کو اس “پیشہ ورانہ پن” نے انتا تن آسان کردیا ہے کہ چند کلک کرنا انھیں عذاب محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ ہمارے ہاں کمپیوٹر صارفین ہیں ہی کہاں ہمارے ہاں تو فلموں کے شوقین،گیموں کے شوقین کمپیوٹر صارف بنے بیٹھے ہیں۔ ایک تعمیری چیز کو انتہائی غلط انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔
جبکہ آزاد مصدر ہر اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ پہلی چیز تو یہ قانونی طور پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جو آپ استعمال کررہے ہیں اس پر آپ کا حق ہے بغیر کسی معاوضے کے اور آپ اسے بغیر کسی ڈر کے آگے تقسیم کرسکتے ہیں اور ہاں اگر کہیں معاوضہ وصول کیا بھی جاتا ہے تو انتہائی کم ۔
دوسرے آزاد مصدر کے تحت جاری ہونے والے پروگرام کسی بھی طرح خریدے جانے والے پروگراموں سے کم نہیں۔ مزید آزاد مصدر خدمتگار نظاموں اور ان کی آبادیوں میں شمولیت سے صارفین کو پروگرامنگ کی شدھ بدھ کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تعمیری انداز میں کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
تو پھر کیوں نہ ایک اچھی چیز کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگرچہ پہلے چند قدم ضرور لڑکھڑاہٹ ہوگی مگر اس کے بعد آپ سنبھل جائیں گے۔ آپ سے یہ مطالبہ نہیں کہ ابھی سے ونڈوز کو گھر سے باہر پھینکیں اور لینکس کی کوئی تقسیم نصب کرکے بیٹھ جائیں۔ مگر بسم اللہ تو کریں ونڈوز کے لیے ہی بے شمار آزاد مصدر سافٹ ویر موجود ہیں آپ موجودہ پراگراموں کے ساتھ انھیں بھی استعمال کریں اور آہستہ آہستہ چوری شدہ سافٹ ویر کے استعمال کو ختم کردیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں۔
یہ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے اور اخلاقی و قانونی لحاظ سے ذمہ داری بھی۔
السلام علیکم
جواب دیںحذف کریںبہت خوب! اچھی تحریر ہے۔
میری بھی اس موضوع پر کافی لوگوں سے بحث ہوتی ہے مگر لوگ مانتے نہیں۔ اگر آپ جیسے لوگ اسی طرح “ تبلیغ“ کرتے رہے تو امید کی جاتی ہے کہ ایک دن سب کو ماننا پڑے گا۔
ویسے اپنی بات ہے ونڈوز کچھ ہماری مجبوری بھی بن گئی ہے۔مثال کے طور پر اس وقت میں جہاں بیٹھا ہوا ہوں یہ لوگ کمپوزنگ کا کام کرتے ہیں انپیج اور کورل ڈرا ان کی مجبوری ہے اور یہ دونوں چیزیں ونڈوز کے بغیر نہیں چلتی۔ حالانکہ مجبوری میں چوری جائز نہیں ہوجاتی۔
لیکن خیر ! ہمارے پروگرامرز کو یہ سوچنا پڑے گا کہ ہم کیونکر آزاد مصدر کو اپنے معاشرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔
This post has been removed by the author.
جواب دیںحذف کریںجی یہی تو بات ہے اصل میں کمپوزنگ کا کام یونیکوڈ میں ابھی نہیں ہوسکتا ابھی اتنی سہولیت دستیاب نہیں۔ اردو کے فونٹ یونیکوڈ میں اتنے خاص نہیں نستعلیق تو سرے سے ہے ہی نہیں ۔ امید ہے دو تین سالوں میں صورت حال مزید بہتر ہوگی۔
جواب دیںحذف کریںکوئ بتاي کہ بھائ لینکس میں سکرائبس بھی اردو کو مکمل سپورٹ کرتا ہے اور ونڈوز پر کورل ڈرا بھی۔ بس صرف نستعلیق فانٹ کی وجہ سے ہم کو اصرار کرنے میں احساس کم تری کا احساس ہوتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاعجاز