فدوی اس میدان کا پرانا کھلاڑی ہے۔ سمجھ لیں کہ آثار قدیمہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اردو بلاگنگ کے بابے نبیل، دانیال، زکریا ، قدیر احمد، نعمان وغیرہ کو دیکھ کر بلاگنگ کا خیال آیا اور غالبًا 2006 کے شروع یا 05 کے آخر میں بلاگ بنا لیا تھا۔ پہلے بلاگر پر رہا پھر ایک فری ہوسٹ پر منتقل کیا پھر اردو کوڈر پر رہا اور اب پھر بلاگر پر واپس ہے۔ اس دوران نام بھی بدلا کام بھی بدلا کبھی لکھنا چھوڑا کبھی بہت زیادہ لکھا قصہ مختصر یہ کہ ایک ٹُٹا پجا سا بلاگر ہوں اور اردو کا بلاگر ہوں۔ شروع میں بلاگ پر لکھنے کے لیے گھنٹوں سوچا کرتا اور بہترین لکھنے کی کوشش کرتا پھر احساس ہوا یہ تو آنلائن ڈائری ہے جو مرضی لکھو بلکہ بکواس کرو اور بھول جاؤ۔ چناچہ اب اگرچہ بکواس نہیں کرتا تو زبان سے پھول بھی نہیں جھڑتے۔
ایک وقت تھا جب ٹیکنالوجی پر لکھا، ورڈپریس پر لکھا، لینکس پر لکھا لیکن اب وقت ہی نہیں ہے ورنہ دل تو بہت کرتا ہے کہ بہت کچھ لکھا جائے۔ اب تو بہت رونق شونق ہوگئی ہے اور اردو بلاگنگ کی بیٹھک بہت بڑی ہوتی جارہی ہے۔ لسانیات کا طالب علم ہوں اور اردو کا بولنے والا ہونے کے ناطے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ زبان کا خیال رکھیں۔ اردو کے سپیل چیکر دستیاب نہیں ،ہیں بھی تو ڈیفالٹ تنصیب میں نہیں ملتے ،مل بھی جائین تو ہم انسٹال نہیں کرتے ،کر بھی لیں تو انگریزی سے اردو میں ہر بار سوئچ کرنا مسئلہ لگتا ہے۔ کئی سارے مسائل ہیں لیکن اگر ان مسائل کو تھوڑی سی توجہ سے حل کیا جاسکتا ہے۔انگریزی استعمال کرتے ہوئے ہم سیپلنگ کا بہت خیال کرتے ہیں اردو لکھتے ہوئے بھی ہجوں اور املاء کا خیال کرلیا کریں۔ لوگ ذ کو ز لکھ جاتے ہیں ح کو ہ لکھ جاتے ہیں اچھے خاصے لفظ کو بچوں کی طرح ص کی بجائے س سے لکھ جاتےہیں۔ یہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں یہ تاریخ ہے اور ہماری آئندہ نسلوں کا ورثہ۔ اگر ہم نے اردو کی معیار بندی نہ کی تو بہت نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ خدارا اپنی زبان کو بچائیں۔ اب تو بار بار ایک بلاگ پر ہی املاء کی غلطیاں نکالنے کے لیے تبصرہ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ احباب ناراض نہ ہوجائیں۔ بس شرم آتی ہے۔ بخدا دو تین املاء کی غلطیاں دیکھ لوں تو اکتا کر پوسٹ کو ایسے ہی چھوڑ دیتا ہوں پڑھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ آپ احباب سے یہ التماس ہے کہ خدارا تحریر کو ایک بار لکھ کر پڑھ لیا کریں۔ اس کی نوک پلک سنوار لیا کریں کم از کم املاء کی غلطیاں تو ٹھیک کرلیا کریں۔ کسی بھی زبان کا رسم الخط اور اس کا صوتی یعنی فونیٹک سسٹم اس کی بنیاد ہوتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو بچا لیا جائے تو زبان کبھی نہیں مرتی۔ اپنی زبان کو مرنے نہ دیں۔
وسلام
فیصل آبادیوں کو تو مشہور ہونے کا بہت شوق ہوتا ہے مگر تم اتنے پرانے ہونے کے باوجود ۔۔۔واہ بابا اے بلاگر
جواب دیںحذف کریںواقعی املاء کا خیال رکھنا چاہیے لیکن رواجات کا کیا کیا جائے..!؟ آج کل املاء کی غلطیوں کو رواج کہہ کر انہیں درست قرار دینے کا جو چلن ہے ایسے میں املاء بے چاری کیا کرے گی..
جواب دیںحذف کریںمیں اپنی تحاریر میں بلکل آپ کی فرمائی ص س والی غلطیاں کرتا ہو ۔۔ اور ابھی سیکھ رہا ہوں امید ہے کہ املا کی غلطیاں ایک دن ہوا ہو جائینگی ۔
جواب دیںحذف کریںگر آپ کو برا نا لگے تو میں اپنے ناقص علم سے اپنی مادری زبان اردو پر کچھ کہنا چاہتا ہوں
جواب دیںحذف کریںبھائی ۔۔ اردو اور اسلام ۔۔ ان دونوں کو ہماری ضرورت نہیں بچانے کے لیے ۔۔ اور زبان کبھی نہیں مرتی ۔۔ مارنے کی کوشش بھی کی جائے تو زندہ رہتی ہے ۔۔ وہاں جہاں کہی بھی اس سے سچی محبت کرنے والا کوئی ایک بھی ہو ۔
جس کسی کو پھر درست اردو ادب والی اردو جس میں غلطیاں نا ہوں وہ سیکھنی ہوں تو وہ بلاگ ولاگ سے نہیں سیکھے گا وہ پھر امومن اردو کا سبجیکٹ اختیار کرے گا ۔۔ یونیورسٹی جائیگا ۔
اسرائیل میں بقول اسرائیل کے ہی مری ہویی زبان ہیبرو کو زندا کیا گیا ۔۔ ہم کو اپنی زبان اردو جس کو ہم انگریزی پر ترجیح دے چکے ہیں ضروری ہے کہ پہلے اپنی ترجیح درست کریں ۔
کامی پائین آپ لوگ مجھے جانتے ہیں تو میں مشہور ہوں اور کیسے ہوا جاتا ہے مشہور؟
جواب دیںحذف کریںمکی آپ کی بات بالکل بجا ہے رواجات بھی آج کل خاصے ان ہیں اس معاملے میں۔
ریحان جی میں لسانیات کا طالب علم ہوں۔ مجھے علم ہے کہ زبان کیسے مرنا شروع ہوتی ہے۔ اس کی ابتدا اس کے اہل زبان کی طرف سے بے پروائی سے شروع ہوتی ہے۔ وہ ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ رہی بات یونیورسٹی جاکر زبان سیکھنے کی تو میرے بھائی آج بھی سنسکرت پر پی ایچ ڈی مل جاتے ہیں لیکن سنسکرت کہاں ہے؟ لاطینی کہاں ہے اور کلاسیکی یونانی زبان کہاں ہے؟ صرف کتابوں میں۔ یہودیوں نے جو کام کیہ اسے ہم زبان کی معیار بندی اور زبان کو پھر سے زندہ کرنا کہتے ہیں اصطلاحی زبان میں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم میں زبان کی معیار بندی کی بجائے انتشار بندی کا رجحان زیادہ ہے۔ نہ کوئی حکومتی ادارہ نہ ہی کوئی عوامی ادارہ اردو کی معیار بندی کررہا ہے۔ اگر کوئی کرتا ہے تو دوسرے اس کو قبول نہیں کرتے۔ اردو وکی پیڈیا پر ہونے والے اصلاحاتی انتشار کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اردوسائنس بورڈ اور مقتدرہ جیسے اداروں کی عرق ریزی سے تیار کی ہوئی لغات کو چھوڑ کر وہاں اپنی ہی نئی اصطلاح سازی کی جارہی ہے جو صرف انھیں سمجھ آتی ہے یا پھر اس اکا انگریزی ترجمہ دیکھ کر سمجھنا پڑتا ہے۔ اور زبان ہمیشہ وہ ہوتی ہے جو گلی محلوں میں بولی جاتی ہے وہ نہیں جو کتابوں میں لکھی جاتی ہے۔ زندہ وہی زبان رہتی ہے جو لوگ بولتے ہیں جو آپ میں لکھتے ہیں بلاگ زبان لکھنے کی وہ قسم ہے جو لکھی جانے والی زبان کی روزمرہ ہے جیسے ڈائری۔ یہی اصل زبان ہے اور زبان کے کسی بھی طرح استعمال کو کبھی بھی کم تر خیال نہ کریں اور نہ ہی اسے نظرانداز کریں کہ خیر اے کیہڑے نمبر لینے نیں۔
وما علینا الالبلاغ
واہ واہ کیا جواب ہے آپ کا کوئی جواب نہیں آپ کا ۔ :cool:
جواب دیںحذف کریںبالکل ٹھیک لکھا آپ نے
جواب دیںحذف کریںتھوڑا سا تردد کرنے میںکوئی ہرج نہیں کہ بندہ لکھنے کے بعد ایک دفعہ اسے پڑھ تو لے کہ کیا لکھا ہے۔