پچھلے سے پچھلے ماہ اور پچھلے ماہ کے پہلے پندرھواڑے تک بجلی وافر مقدار میں ملتی رہی اور ہمیں مفت کا ایک وائرلیس نیٹ ورک بھی ملتا رہا تو اہم نے اسے رج کے استعمال کیا اور ڈھیر ساری فلمیں اتاریں۔ ان فلموں میں سے دو فلمیں جو یاد رہ گئیں وہ ان کی آپسی مماثلت ہے۔ سروگیٹس میں ایک سائنسدان ایسے روبوٹس ایجاد کرتا ہے جو انسانوں کے دوسرے جسم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ خود سارا دن ایک تابوت میں لیٹے رہیں اور آپ کا روبوٹ اوتار آپ کی جگہ کام کرے گا چونکہ اصل میں وہ بھی آپ ہی ہیں، وہی محسوسات اور ویسا ہی بلکہ طاقتور جسم۔ اس فلم کے آخر میں یہ سارا نظام اس کے خالق کے ہاتھوں ہی تباہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس فلم کا گنجا سا ہیرو پتا نہیں اس کا نام کیا ہے سارے انسانوں کو بچا لیتا ہے اور روبوٹ نظام قیں ہوجاتا ہے۔
دوسری فلم جو ہمیں بڑی پسند آئی وہ اوتار ہے۔ کہانی کی بنیاد وہی ہے ایک عدد ہیرو اور ایک عدد ولن۔ ایک ہیروئن اور اس کے گھر والے جن کو آخر میں ہیرو بچا لیتا ہے۔ اور ہاں ہیرو کی ٹریننگ بھی۔ لیکن جو چیز اس کی بہت اچھی تھی وہ ایک نئی دنیا تھی۔ آج کل کارٹون والے اور فلموں والے ایسی کہانیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں جن میں غیر ارضی مخلوق کو دکھایا گیا ہو۔ آپس کی بات ہے یہ اچھی بھی بہت لگتی ہے۔ بہت دلچسپ، ہماری بھی اندر سے خواہش ہے کہ ایسی دنیاؤں کے بارے میں جانیں جو ارضی نہ ہوں۔ اس فلم میں اینی میشن اور حقیقی عکس بندی کو کچھ اس طرح ملایا گیا ہے کہ ایک شاندار منظرنگاری پر مشتمل فلم وجود میں آئی۔ ارے ہاں اس کی سروگیٹس سے مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ معذور ہیرو ان انسان نماؤں میں ایسے ہی شامل ہوتا ہے جیسے سروگیٹس میں لوگ روبوٹس کو بطور متبادل جسم استعمال کرتے ہیں۔ ہیرو صاحب ایک تابوت نما چیز میں لیٹ جاتے ہیں پھر اللہ تیری یاری ہیروئن کے ساتھ چھلانگیں لگاتے پھرتے ہیں۔ اگرچہ ہیروئن کوئی اتنی "خوبصورت" نہیں تھی لیکن ہیروئن تو تھی نا۔ بہرحال فلم پسند آئی اور بہت ہی پسند آئی۔ بلکہ مجھے تو اتنی پسند آئی کہ میرا دل کیا کہ یہاں تبلیغ کرنے پہنچ جاؤں۔ الو کے پٹھے پتا نہیں کس کی عبادت کررہے ہیں اللہ میاں کی عبادت کریں۔ ہاں ان کے ہاں کعبے کا مسئلہ ہوتا لیکن وہ تو حل ہوجاتا جن محددات یعنی جتنے ارض بلد اور طولبلد پر کعبہ یہاں واقع ہے ایسا ہی وہاں بنا لیتے۔ کرنی تو عبادت ہے نا جی۔ ہائے ہمارا کتنا دل کرتا ہے ساری دنیا بلکہ ساری کائنات کو مسلمان کرلیں۔ اور خود آپس کے سیاپے ہی ختم نہ کر پائیں۔
خیر تُسیں چھڈو۔ یہ خبر پڑھو۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فلم بن جائے گی، سہ جہتی ہے نا اس لیے اس کا ٹکٹ بھی مہنگا بکتا ہے۔ چلو جی سانوں کی، ہمیں تو مفت مل جاتی ہے دیکھنےکو۔ اصل سواد تو دوسری تیسری قسط کا ہے۔ سنا ہے ہدائیتکار صاحب کہانی ہٹ ہوگئی دیکھ کر اب دوسری تیسری قسط کے لیے چھری کانٹا تیز کررہے ہیں۔
فکشن فلموں کی تو ہم ویسے بھی تاک میں رہتے ہیں لیکن یہ جو دو فلمیں آپ نے ذکر کیں اس کی پہلے بھی کافی تعریف سنی ہے۔ ابھی تک کوئی اچھا پرنٹ نہیں ملا ورنہ دیکھ بھی ضرور لیتے۔
جواب دیںحذف کریںاوتار کا مزا تو سینما میں ہی آسکتا ہے۔۔۔
جواب دیںحذف کریںمیرے لئے تو نہ بھولنے والا تجربہ ثابت ہوئی یہ فلم۔۔۔
خاص طور پر معلق چٹانوں والے مناظر بڑے پردے اور تھڑی ڈی میں ۔۔۔
الفاظ میں ان کا تاثر بیان نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔
ہممم ۔۔۔۔ بہت خوب ۔۔۔ میرے ذہن میں ایک خیال ہے کہ انگریزی فلموں پر ایک اردو بلاگ ہونا چاہیے، اب کوئی دلچسپی رکھنے والا اللہ کا بندہ اس سمت میں کام کرے تو ایک زبردست بلاگ مارکیٹ میں آ سکتا ہے۔ بہرحال، اوتار کا تو بہت شہرہ سن رہے ہیں لیکن وہی پرنٹ کا انتظار۔ چوری کا مال دیکھتے ہوئے شرم تو آتی ہے لیکن یہ شرم اس وقت چلی جاتی ہے جب ہمیں اصل مال دستیاب نہیں ہوتا۔ فلم تقسیم کرنے والے اس جانب توجہ کریں۔
جواب دیںحذف کریںمجھے ابھی تک 2012ء کا اچھا پرنٹ نہیں ملا اس لیے وہ بھی ابھی تک فہرست ہی میں شامل ہے البتہ گزشتہ روز تین فلمیں لے کر آیا ہوں، اختتام ہفتہ پر دیکھوں گا۔ ایک میونخ (ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ)، دوسری آسٹریلیا اور تیسری پرل ہاربر۔ اگر ممکن ہوا تو ان فلموں پر تبصرے ضرور پیش کروں گا۔ اگر آپ اپنی فلموں شلموں کے اس سلسلے کو برقرار رکھیں تو بہت سوں کا بھلا ہوگا۔