عامر ہاشم خاکوانی کا آج کا کالم پڑھنے کے لائق ہے۔ اس میں انھوں نے توہین رسالت کے بارے میں آئین پاکستان میں ایسی شق شامل کرنے کی تجویز دی ہے جس کے ذریعے پاکستان کو اسرائیل کی طرح یہ اختیار حاصل ہو کہ دنیا میں جہاں بھی توہین
رسالت کا ارتکاب کیا جائے ہم اس ملک سے اس مجرم کی حوالگی اور مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرسکیں ایسے ہی جیسے اسرائیل ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والوں کے سلسلے میں کرتا ہے۔ ہمیں یہ سب کرنا ہی ہوگا۔
اب آپ یہ کہیں گے کہ پہلے کونسا توہین رسالت کے موجودہ قوانین کا انتہائی غلط استعمال ہورہا ہے تو ایک اور قانون۔ تو عرض اتنی سی ہے کہ یہ ہماری بے وقوفانہ جذباتیت اور نیتوں کا کھوٹ ہے جو ان قوانین کا غلط استعمال کراتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جان بھی قربان ہے اور اس میں کوئی شک شبہے والی بات ہی نہیں۔
نہایت ہی فکر انگیز تحریر ہے۔
جواب دیںحذف کریںاس رب کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے والے ذلیل و رسوا ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیئے کھڑے ہونے والے سرخرو اور عزت یاب،انشاءاللہ اور بےشک،
جواب دیںحذف کریںغالبا میرا تبصرہ کرنا آپکو پسند نہیں،مگر اس موضوع پر لکھے بغیر رہا نہیں جاتا ،بالکل ایسا قانون پاس ہونا چاہیئے،اور میں اس معاملے میں آپ کے ہم آواز ہوں مگر ساتھ ساتھ ہمیں خود کو بھی ویسا ہی بنانا چاہیئے جیسا ہمارے نبی نے ہم سے تقاضا کیا عمل کے بغیر باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی!
ہولوکاسٹ ایک جھوٹ ہے اور خود صیہونیوں کی ایجاد ہے۔ یوں اسرائیلیوں کا یہ قانون انکے غنڈے پن کو ظاہر کرتا ہے!
جواب دیںحذف کریںجناب عالی اگر ايسا قانون بنا بھی ليں تو اس کو اينفورس کيسے کرنا ہے؟ کيا ايسے ممالک جنکے آگے ہر وقت ہاتھ بھيک کے ليئے اٹھا رہتا ہے ان سے منواسکيں گے؟
جواب دیںحذف کریںپھر دنيا ميں بہت سوں کا دعوی نبوت کا ہے چاہے آپ مانيں يا نہيں، تو جسطرح آپ توہين کا قانون دوسرے ملکوں پہ اينفورس کريں گے تو دوسرے ممالک آپ پہ اينفورس کری گے- ختم نبوت والے تو سارے دھر ليئے جائيں گے-
گمنام صاحب آپ یا تو بات سمجھے نہیں یا جان کر انجان بن رہے ہیں،
جواب دیںحذف کریںبات ہورہی ہے توہین رسول کے قانون کی کہ کسی بھی نبی کا مضحکہ نہ اڑایا جائے اور وہ جس عزت کے لائق ہیں انہیں دی جائے!
اور جو ایسا نہ کرے اسے قانون کے مطابق سزادی جائے جس میں سوشل بائیکاٹ سمیت جیل کی سزا بھی شامل ہوسکتی ہے!
عبداللہ ميں آپکی بات نہيں سمجھا-
جواب دیںحذف کریںاگر ميں اس پوسٹ کا مضمون صحيح سمجھا ہوں تو وہ يہ کہ قانون توہين رسالت ميں ايسی ترميم کی جائے کہ ديگر ممالک سے بھی کسی نہ کسی انداز سے اس پہ عمل کا مطالبہ کيا جا سکے- اگر ايسا ہے تو ايسے قانون کے نفاذ کے ليئے ديگر ممالک کا تعاون درکار ہوگا، غالباں ان ممالک سے فردا فردا معاہدہ کرکے يا کسی ايک بين الاقوامی معاہدہ کے تحت جس پہ سب ممبر ممالک دستخط کريں- ليکن اس حد تک پہنچنے ميں کئ مسائل ہيں جنکا ذکر ميں نيچے کروں گا-
پہلا مسئلہ تو وہی ہے کہ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ، آپ کمزور ہيں اور ديگر ممالک طاقتور، وہ کيوں آپکے مطالبے سنيں-
پھر مسئلہ يہ کہ توہين ہوئی کب؟ مثلا اگر مغرب ميں کوئی غيرمسلم بانی اسلام کے بارے ميں کوئ بات کہے تو وہ ايک نبی کے بارے ميں نہيں کيوں کہ وہ تو نبی مانتا ہي نہيں اسليئے توہين رسالت تو ہوئی نہيں- آخر ہر کسي کا يہ حق بھی تو ہے کہ اگر اسکا عقيدہ کسي کو نبي نہيں گردانتا تو وہ نہ مانے- يہ تو ايک سائيڈ ہے کہ ہر کسی کی مذہبی آذادی کا حق برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جسميں دوسروں پہ تنقيد کا حق بھي ہے ورنہ نہ آپ تبليغ کر سکيں گے نہ اپنے نظريات کو دوسروں سے بہتر ثابت کر سکيں گے- تنقيد ميں نبی کی ذات بھی ہدف ہوتی ہے کہ يہ شخص تو ايسا ايسا ہے يہ کيسے نبی ہوسکتا ہے-
پھر ياد رکھيئے کہ اوپر درج کيئے ہوئے معاہدوں کا اطلاق عام طور پہ دو طرفہ ہوتا ہے، اگر آپ دوسرے ممالک سے مبينہ توہين پہ کاروائی کا مطالبہ کرسکتے ہيں تو ديگر ممالک بھی آپ سے ايسے مطلبے کرسکتے ہيں- يعنی کسی برطانوی يا امريکی ہندو يا مسيحی کے مطلبہ پہ امريکی يا برطانوی حکومت آپسے ”جيد علماء کرام” جو چرچ يا مندر وغيرہ جلانے پہ اکساتے ہيں يا ديگر باتيں کرتے ہيں کے خلاف توہين کے معاہدہ کے تحت کاروائی کا مطالبہ کر سکتے ہيں- يہ صرف مثال ہے ورنہ اس ميں ديگر مسالک اور مذاہب بھی شامل ہو سکتے ہيں، غالبا آدھا پاکستان کسی نہ کسی کی توہين کے الزام ميں پھانسی چڑھ جائے گا-
آہستہ آہستہ اس ميں ديگر باتوں کا اضافہ کيا جاسکتا ہے جيسا کہ حضرت عيسی کو خدا کی بجائے انسان سمجھنے کو مسيحيت کی توہين اور گاؤ ماتا کی توہين جيسے اسباق ڈالے جاسکتے ہيں- يعنی يہ قانون توہين رسالت بھی موجودہ قانون توہين رسالت اور ديگر ”اسلامي” قوانين کی مانند صرف فساد في لارض کے کام آئے گا-
آخر ميں، شکر کريں کہ دنيا ميں سيکولزم ہے جسکی وجہ سے بنی نوع انسان کی سينيٹی کسی حد تک برقرار ہے ورنہ مذہبی لوگ ايک دوسرے کو توہين کے نام پہ کاٹ کھاتے-
جناب گمنام صاحب مینے رسولوں کی حرمت کی بات کی ہے گائے بھینسوں کی نہیں،اور رسول چاہے جس قوم کے بھی ہوں ان کی بے حرمتی کا کسی کو حق نہیں یہاں تک کے ہندوؤں کے رام اور کرشن کی بھی بے حرمتی کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا،اور رہی گائے کی بات تو آپ بھول گئے ہیں کہ گائے کوئی رسول نہیں اور گائے صرف مسلمان نہیں کھاتے ساری دنیا کھاتی ہے،تو وہ کس کس کو روک سکتے ہیں؟
جواب دیںحذف کریںرہی بات ہمارے کمزور ہونے کی تو ہم کم از کم اپنی اسمبلی میں تو ایسا قانون منظور کروا ہی سکتے ہیں کہ نہ ہم کسی کے رسولوں کو برا کہیں گے اور نہ ہی کوئی ہمارے رسول کو برا کہے یا انکی بے حرمتی کرے،اس سے بین المزاہب ہم آہنگی کو بھی فروغ ملے گا، یا ہم اس کے لیئے بھی کمزور ہیں؟
عبداللہ آپ بات سمجھے نہيں- ملکی سطح پہ توہين کا قانون موجود ہے- مسئلہ اس کو بين الاقوامی سطح پر ديگر اقوام سے منوانا ہے جس کے راستہ ميں وہ مشکلات حائل ہيں جنکا ميں نے اوپر ذکر کيا ہے- بین المزاہب ہم آہنگی کا کوئی مسئلہ نہيں، تمام لوگ اسي طرح ناروے اور ڈنمارک جا کے بسنے کی کوشش ميں لگے ہيں-
جواب دیںحذف کریںملکی سطح پر موجودہ قانون میں بہت ساری خامیاں ہیں جن کی بناء پر اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے،خصوصا توہین کرنے والے کے لیئے موت کی سزا، باقی اگر ایسا قانون جس کا مینے تزکرہ کیا ہے منظور ہو تو اس سے پاکستان کا تشخص عالمی سطح پر بہتر ہی ہوگا انشاءاللہ،
جواب دیںحذف کریںیہ ضرور ہے کہ ہم عالمی طور پر زبردستی اس پر عمل نہیں کرواسکتے مگر اخلاقی طور پر تو پریشرائز کر ہی سکتے ہیں!
اور آنے والے دنوں میں انشاء اللہ پاکستان اور عالم اسلام کی اہمیت اور بڑھے گی،اگر ہم خود کو صحیح راستے پر رکھنے میں کامیاب رہے توِِِِِِِ