گلوبل سائنس سے ہمارا رشتہ کوئی 9 سال پرانا ہے۔ 2001 میں پہلی بار گلوبل سائنس لے کر پڑھا تھا اور اب 2011 آگیا ہے۔ اس میں کئی بار لکھنے کا موقع بھی ملا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ برادرم علیم احمد نے مجھے کل خصوصی طور پر ای میل کی جس میں میرے پچھلے مضمون، جو اومیگا ٹی اوپن سورس ٹرانسلیشن ٹول پر لکھا گیا تھا، کی تعریف کی گئی تھی اور مزید ٹیوٹوریلز باقاعدگی سے لکھنے پر بھی اصرار شامل تھا۔ علیم بھائی کے کہنے پر ہی اس ساری خط و کتابت کو اپنے بلاگ پر شائع کررہا ہوں، چونکہ انھیں کمپیوٹر کے موضوعات پر لکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اردو بلاگنگ کمیونٹی سے اس سلسلے میں ہغور کی اپیل ہے۔ گلوبل سائنس جیسے پرچے میں لکھنا کوئی خالہ جی کا واڑہ نہیں ہے۔
Brother Shakir Aziz,
Assalaam U Alaikum,
I feel pleased to inform you that we have decided to celebrate 2011 as the year of revival and reinvention for monthly Global Science. As a matter of fact, it's a huge task to accomplish; and we can't do it alone. Therefore, I seek your cooperation on regular basis; and request you to write IT-related features/ tutorials for Global Science - that is, every month. You may also know that - during the last four or five years - tutorials like PHP, MySQL and others were left incompleted. I'd like to re-begin these tutorials, to complete before the end of 2011. Besides, Dr. Zeeshan Ul Hassan Usmani personally appreciated your article on OmegaT (translation memory software). On similar track, I'll appreciate if you write about more Urdu-language, Open Source, and free utilities available on the net; and how our readers can make better use of them.
Whatever your response may be, I'll appreciate an earliest possible reply from you.
Wassalaam,
Aleem Ahmed,
Monthly Global Science
Room Number 139,
Sunny Plaza,
Hasrat Mohani Road,
Karachi-74200
Pakistan.
اسلام و علیکم
آپ کی ای میل کا شکریہ
ماشاءاللہ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ گلوبل سائنس نئے جذبے سے 2011 میں داخل ہورہا ہے۔ ٹیوٹوریل کی فراہمی کے سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے جب بھی موقع ملتا ہے میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا ہوں اور کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے صارفین کو بھی اس سے آگاہی حاصل ہو۔ کمپیوٹنگ ایسا رسالہ تھا جس میں میں نے، اور محمد علی مکی نے باقاعدگی سے لکھا۔ اس کی وجوہات میں ایک تو اس کا مکمل طور پر کمپیوٹر کے موضوعات پر مبنی ہونا تھا، دوسرے اس وقت اتنی مصروفیت نہیں تھی، تیسری وجہ ہمارا امانت علی گوہر اور دوسرے مدیران وغیرہ سے آنلائن واقفیت اور اکثر گفتگو و چیٹ تھی۔ ایک اور وجہ ظاہر ہے ان کی طرف سے ادا کیا جانے والا معمولی سا مشاہرہ بھی تھا۔ گلوبل سائنس کے سلسلے میں کئی بار تو یہ دل کیا کہ آپ کے اعزازی مدیر والے پلان میں حصہ لوں تاہم مصروفیت اور گلوبل سائنس کے مزاج کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا۔ چونکہ یہاں سب کچھ ٹیوٹوریلز ہی نہیں ہوسکتے، یہ ایک عمومی سائنسی جریدہ ہے۔ تاہم میری کوشش ہوگی کہ اپنے محدود علم کے مطابق وقتًا فوقتًا آپ کو ٹیوٹوریلز ارسال کرتا رہوں۔ پروگرامنگ کے ٹیوٹوریلز کے بارے میں عرض یہ ہے کہ میرا علم اس سلسلے میں خاصا محدود ہے، سی شارپ کبھی سیکھی تھی کارپس لنگوئسٹکس اور ٹیکسٹ پروسیسنگ کے لیے، یہ سیلف سٹڈی نالج ہی ہے میرے پاس، اس کے علاوہ کسی اور پروگرامنگ زبان سے نابلد ہوں۔ چناچہ اس سلسلے میں پرانے ٹیوٹوریلز کو آگے لے کر نہیں چل سکوں گا۔ لینکس وغیرہ پر ٹیوٹوریلز کے لیے میں محمد علی مکی کا نام تجویز کروں گا۔ اردو لینکس کے سلسلے میں ان کا بہت کام ہے اور آپ کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ دوسرے میری یہ گزارش ہوگی کہ اردو بلاگز اور اردو فورمز خصوصًا اردو ویب محفل، پر ضرور تشریف آوری رکھیں۔ آپ جو مسائل گلوبل سائنس کے ادارے میں اٹھاتے ہیں وہی مسائل آپ ان فورمز پر اٹھا کر زیادہ بہتر رسپانس حاصل کرسکتے ہیں۔ میری مراد ادارے کے مالی مسائل، اور نئے لکھاریوں کی فراہمی وغیرہ سے ہے۔ اردو انٹرنیٹ کمیونٹی بہت فعال ہوچکی ہے اور اب بھی اس سے دور رہنا گلوبل سائنس کے مستقبل کے لیے اچھی چیز نہیں ہوگی۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ہنرمند موجود ہے، امید ہے آپ کی کمپیوٹر سے متعلق لکھاریوں کی کمی یہاں سے پوری ہوسکتی ہے۔ نیز آپ کو اردو سے متعلق بہت سی خبریں بھی ان ویب سائٹس سے حاصل ہوسکتی ہیں۔
اور آخر میں آپ کو نیا سال مبارک۔ ای میل اردو میں لکھی ہے چونکہ اردو ہی ہمارا مقصد ہے ۔
نیک خواہشات کے ساتھ
وسلام
Shakir Mian,
Assalaam U Alaikum,
sub say pehlay to mu'azrat chahoonga keh main yeh jawab Roman Urdu main likh raha hoon. Dar-asl meray computer main Urdu support bohet achchhi naheen, jebkeh mujhay Muqtadira kay puranay (1990 kay zamanay walay) keyboard per kaam kernay kee adat hay, aur koshish kay bawajood main phonetic keyboard per apna haath rawaan naheen kersaka.
Global Science kay baaray main aap ka farmana bilkul baja hay keh yeh science ka umoomi jareeda hay, jiss main computer or information technology kay mazameen "bhee" shamil hotay hain - y'ani hum poora shumara computer or IT kay leay makhtes naheen kersaktay. Yeh hamari aik idarti majboori hay. Computing kay zareay Amanat Ali Gauher nay koshish to bohet achchhi kee thee, (.....)
Main yeh da'wa bhee naheen karoonga keh agar aap logon main say koi Global Science kay leay likhay ga to hum usay m'uawza day sakaingay; taahem, itna yaqeen zuroor dila sakta hoon keh Global Science kay zareay aap ke awaz, Pakistan bher main phailay huay, unn logon tek zuroor ponhchay gee jo computer ka shauq rakhtay hain aur isay sanjeedgi say seekhna chaahtay hain.
Global Science kay saath t'aawun kay leay main chahoon ga keh agar aap meri saabiqah email aur apna jawab apni website per deegar ahbaab kay mulahizay kay leay rakh dain to shayed koi naya likhnay wala is jaanib mutawajjuh hosakay. Aap say email per raabta rahay gaa, aur, aanay waalay dino main, In-sha-Allah, hum koi aisa raasta zuroor nikaal laingay jiss say aap kay idaray/ website ka bhee fayeda ho aur humain bhee apna kaam behter taur per anjaam dainay ka mauqa milay.
Wasslaam,
Aleem Ahmed,
Monthly Global Science
Room Number 139,
Sunny Plaza,
Hasrat Mohani Road,
Karachi-74200
Pakistan.
وعلیکم سلام بھائی جیآپ نے بڑی نستعلیق اردو فرنگیوں کے رسم الخط میں لکھی۔ بے تکلفی اور مخصوص فیصل آباد سٹائل میں آنے پر معذرت نہیں چاہوں گا۔ آپ کی پہلی انگریزی ای میل کی وجہ سے فارمیلٹی سی بن گئی تھی ورنہ گلوبل سائنس تو گھر والی بات ہے۔ :-) اب بات کیے لیتے ہیں کمپیوٹنگ کی۔ آپ کے نکتہ نظر کا احترام کروں گا تاہم اس سلسلے میں میری رائے محفوظ ہے۔ کمپیوٹنگ اچھی کوشش تھی جو اگر جاری رہتی تو اردو والوں کا بہت فائدہ ہوسکتا تھا۔ ان لوگوں کا اپنے لکھاریوں سے بہت قریبی رابطہ تھا۔ اور اس چیز کی گلوبل سائنس کی انتظامیہ میں کمی ہے۔ اب آپ یہ دیکھ لیں کہ آپ کے علم میں یہ نہیں ہے کہ مقتدرہ کا کی بورڈ ونڈوز کے لیے بن چکا ہے۔ اور یہ اردو محفل پر ہی موجود تھا۔ ملاحظہ کریں۔ میں پھر گزارش کروں گا کہ گلوبل سائنس کی انتظامیہ کو انٹرنیٹ اردو کمیونٹی کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اپنے قارئین سے قریبی تعلق رکھنے کے لیے فیس بُک خصوصًا اردو فورمز پر تشریف آوری رکھنے کی ضرورت ہے، آپ کو بہت سی ایسی چیزیں ملیں گی جن سے ادارے کا نہ صرف بھلا ہوسکتا ہے بلکہ آپ کی انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے بارے میں اپروچ بھی بدلے گی۔ نیٹ نامہ وغیرہ کے سلسلے میں مجھے سخت اعتراض ہے کہ اس میں اردو کی ایک بھی ویب سائٹ کا کبھی تعارف شامل نہیں کیا گیا، جبکہ یہاں اردو فونٹس، اردو فورمز اور اردو سافٹویرز کے ڈھیر موجود ہیں۔ آپ کا قاری انٹرنیٹ سے کھیلتا ہے پاء جی اب، اسے ٹربل شوٹنگ، ونڈوز ٹپس وغیرہ جیسی چیزیں دکھا کر مطمئن کرنا میرے ذاتی خیال سے اب اتنا آسان نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہاؤ ٹو کے تو ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ونڈوز کی ٹربل شوٹنگ جتنی کہیں اتنی، انگریزی سے ترجمہ کرکے چھاپ دینا ہی مقصد نہیں ہونا چاہیے۔۔ اس لیے میں نے عرض کیا تھا کہ محمد علی مکی اور اس جیسے دوسرے لکھاریوں سے رابطے میں رہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس آپ کو دے چکا ہوں۔ اردو بلاگرز ہی آپ کے لیے اتنا کچھ لکھ سکتے ہیں کہ آپ کو اور کسی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔اور آخر میں یہ کہ معاوضہ ہر کسی کو اچھا لگتا ہے، تاہم گلوبل سائنس کے معیار کے پرچے میں لکھنا بھی بڑی بات ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو کمپیوٹر پر لکھنے والوں کی ایک اچھی خاصی ٹیم مل جائے گی۔ یہ ای میل، اور آپ کے جوابات میں اپنے بلاگ پر شائع کررہا ہوں۔ جس کا ربط آپ کو بھیج دوں گا تاکہ آپ بھی تازہ ترین تبصروں اور اپڈیٹس سے آگاہ رہیں۔وسلام
بخدا یقین کریں کہ مکمل مضمون پڑھنے میں جتنا مجموعی وقت صرف ہوا اس میں سے نصف سے زائد تو اس "رومن اردو" یا بالفاظ دیگر "فرنگی نستعلیق" کی نظر ہو گیا۔ مضمون کا یہ حصہ اگر بلاگ تک آنے کے بجائے ان باکس تک ہی محدود رہتا تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔ اس میں کئی باتیں ایسی تھیں جو ہمارے لئے کوفت کا باعث تھیں۔ اول تو یہ کہ اردو کمیونٹی پروگرامرز کی انتھک محنت اور بے شمار اردو فورمز کی سرگرمیوں کے بعد اس قسم کا عذر قابل قبول نہیں۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ اس مراسلے کی زبان بھی انگلش ہی ہوتی۔ دوم یہ کہ ہمیں صاحب مراسلہ سے موصوف امانت علی صاحب کے تعلقات کی نوعیت کا علم نہیں پھر بھی جن تعریفی الفاظ کے آمیزے میں ان کا ذکر کیا گیا ہے وہ کسی پیشہ ورانہ حریف کے "ذکر خیر" جیسا احساس دیتا ہے جو غالباً ذاتی پیغامات کی حد تک تو قابلِ قبول ہے لیکن پبلک پوست کی صورت ہمیں مناسب نہیں لگا۔ تیسری قابل اعتراض بات معاوضے کو لیکر لگی۔ کیا یہ پرچہ فی سبیل اللہ مفت تقسیم کیا جاتا ہے یا محض خریداروں سے اتنی قیمت بطور ہدیہ قبول کی جاتی ہے جس سے کاغذ و طباعت کے اخراجات ہورے ہو جائیں؟ دوسری صورت میں اگر ادارے کو اس سے فائدہ پہونچتا ہے تو اس فائدے کے جائز مستحقین میں مضامین کے مصنفین کا نام پہلے آتا ہے۔ محض اپنی بات عوام تک پہونچانے کی لالچ دے کر مضامین جمع کرنا کسی معیاری و سنجیدہ ادارے کی جانب سے مستحسن عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جواب دیںحذف کریںمجموعی طور پر گفتگو اچھی اور خوش آئندہ لگی۔ شاکر بھائی کی تائید میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ اب "ویب پر اردو" الحمد للہ کئی آسمانوں کا سفر طے کر چکی ہے جس کی جھلکیاں "اردو ویب پر" دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر کوئی اردو کمپیوٹنگ سے منسلک ہو تو اس کو چاہئیے کہ اردو فورمز، اردو بلاگز، وکی اور دوسرے سوشل چینلز سے رابطے میں ضرور رہے ورنہ انھیں مسائل سے جوجھتے پھریں گے جن سے نمٹے ہوئے ویب پر اردو کمیونٹی کو عرصہ ہو گیا ہے۔
محترم شاکر صاحب ۔ آپکو لسانیات سے دلچسپی ہے ۔ تو عرض ہے کہ اختر شیرانی کے والد صاحب جناب حافظ پروفیسرمحمود شیرانی صاحب نے اردو پر ایک تحقیقی کتاب لکھی تھی جس کا نام "پنجاب میں اردو" تھا ،جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ اُردو کی پیدائش پنجاب میں ہوئی ہے۔ اسی سے اُنکو شُہرت حاصل ہُوئی تھی۔ مقصد آپکو اطلاع دینا ہے۔ ہوسکتا ہے آپکو پہلے سے معلوم ہو ۔شُکریہ
جواب دیںحذف کریںابن سعید گلوبل سائنس کے بارے میں یہ عرض کرتا چلوں کے پاکستان میں اردو سائنسی جریدوں میں سے اگر کوئی رسالہ بچا ہے تو وہ گلوبل سائنس ہے۔ یہ کمپیوٹنگ ہی نہیں بلکہ عمومی سائنسی موضوعات پر مشتمل جریدہ ہے۔ اسے نہ حکومت کوئی اشتہار دیتی ہے اور نہ نجی ادارے، وجہ یہ کہ یہ اردو میں شائع ہوتا ہے۔ جبکہ انگریزی میں انٹرنیٹ وغیرہ کے موضوعات پر شائع ہونے والے رسالے کروڑوں کی ایڈورٹائز منٹ حاصل کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے آغاز سے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے۔ آپ کے اعتراضات کمپیوٹنگ کے بارے میں ان کے خیالات وغیرہ کے بارے میں بجا، لیکن ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ ان کے حالات واقعی یہ ہیں کہ پرنٹنگ کا خرچ بھی بمشکل پورا ہوتا ہے اور ادارے کے آمدنی کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں وہ قارئین جو سائنس کے بارے میں اردو میں پڑھنا چاہتے ہیں ان کے پاس صرف یہی ایک معیاری چوائس ہے، اور عالمی سطح پر بھی علیم احمد سائنسی صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ تاہم مقامی سطح پر بھوکی ننگی حکومت نے کبھی بھی ان کی مالی یا کسی بھی دوسرے انداز میں مدد نہیں کی۔ یہ تعارف اس لیے پیش کا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ ایک طرح سے یہ رسالہ اور ادارہ بھی اردو کے لیے کتنا ضروری ہے۔ پاکستان سے آنے والے احباب گلوبل سائنس اور اس کی تاریخ سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔ اور میرے ایج گروپ کے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ کم از کم کمپیوٹر کے بارے میں ابتدائی علم اس رسالے کے مضامین سے حاصل ہوا انھیں۔
جواب دیںحذف کریںایم ڈی لسانیات صرف زبانوں کی تاریخ کے مطالعے کے نام ہی نہیں۔ اس میں بہت کچھ آجاتا ہے۔ اردو کی تاریخ اچھی چیز ہے تاہم آج کی اردو کے ایشوز اٹھانا لسانیات میں اب اہم سمجھا جاتا ناکہ لائبریری میں بیٹھ کر زبان کی تاریخ نکالتے رہنا۔ کتاب کے بارے میں بتانے کے لیے شکریہ۔
وسلام
Omega T wala mazmoon aap ne likha tha ye to mai aj jana hon
جواب دیںحذف کریںos mazmoon ko parh k mai ne kafi try ki magar mujh se na ho saka socha tha k Aleem sahab ko office ph kr k hi pocha jay ga pr himmat kabhi na hoi kia aap mujhe samjha saken ge k mujh se ghalti kahan ho rahi hai?
واضح کرنا چاہوں گا کہ ہمارے پچھلے تبصرے سے کسی کی تحقیر، تضحیک یا گستاخی مقصود نہ تھی۔ اسے مثبت نظر سے دیکھا جائے تو ایک اصلاحی مشورہ ہو سکتا ہے۔ رہا سوال ادارے کی مالی زبوں حالی کا تو اب ہم عجیب مخمصے کا شکار ہیں اور کوئی رائے قائم کر پانے سے قاصر ہیں۔ اول تو اس کو یکتائے روزگار، مقبول عام اور ملک کے گوشے گوشے تک پھیلا ہوا بتانے کی کوشش کی گئی جس سے اگر ہم محتاط اندازہ لگائیں تو بیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں اس کی ریڈر شپ لاکھوں میں ہونی چاہئیے۔ اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ فی شمارہ مراسلے ارسال کرنے والے قارئن کو چھوڑ کر بیس سے تیس سنجیدہ مصنفین کی تحریریں شائع کی جاتی ہیں تو محض ایک روپیہ فی پرچہ قیمت کے اضافے سے اتنی اضافی رقم حاصل ہو سکتی ہے جو مصنفین کو برابر یا معیار و معاہدے کی بنیاد پر منقسم کیا جا سکتا ہے گو کہ قیمت کے معمولی اضافے سے خریداروں کی تعداد متاثر ہو سکتی ہے پر اس کا مجموعی اثر ادارے پر اچھا ہی پڑے گا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ مصنفین کو اجرت دینا اتنا ہی ضروری سمجھا جائے جتنا کاغذ کی خرید تو اس کا بھی انتظام ویسے ہی ہو جائے گا جیسے طباعت کا خرچ برداشت کیا جا رہا ہے۔ مناسب رقم ملتی رہے تو مصنفین کو لکھنے کی مہمیز بھی ملتی رہے گی اور معیاری مضامین شامل ہو سکیں گے۔
جواب دیںحذف کریںاب بات کرتے ہیں اشتہارات کی۔ تو اس کے لئے پرچے کی مقبولیت کو منوانا پڑتا ہے اور اس کی مناسب مارکیٹنگ کرنی ہوتی ہے۔ اگر یہ پرچہ منافع چاہتا ہے تو اس کو پروفیشنل انداز میں چلانا ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس ادارے کے پاس کتنے کوالیفائڈ مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزمینٹ مینیجر موجود ہیں لیکن اگر ہیں تو یہ ان کی ریسپانسبلٹی ہے۔ رہا سوال انگریزی پرچوں کی آمدنی سے مقابلہ کرنے کا تو یہ بالکل مناسب نہیں۔ اگر یہ ایکسکیوز رہا تو ادارہ کبھی بھی خود کو مستحکم اور منافع بخش کہنے کی حالت میں نہیں آ سکے گا۔ دوسرے کتنا منظم ہیں، کس قدر مارکیٹنگ ٹیکنکس استعمال کرتے ہیں اور منفعت کے لئے کیا کچھ کرتے ہیں یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے۔ اشتہارات زبان سے متاثر ضرور ہوتے ہیں کیوں کہ پرچے کی زبان اس سوسائٹی کا پتہ دیتی ہیں جہاں وہ پڑھا جاتا ہے۔ اور اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انگریزی رسالے مالی طور پر مستحکم اور پوش علاقوں زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس میں اشتہارات بھی رئیسانہ اور مہنگے ہوتے ہیں۔ بہر کیف جہاں یہ پرچہ مقبول ہے اس سوسائٹی کے معیار کے اشتہار تو مل ہی سکتے ہیں اگر مناسب کوشش کی جائے۔ لگژری باتھ ٹب کا اشتہار نہ سہی کسی معجون کا اشتہار سہی کچھ تو مل ہی جائے گا۔ اور سرکاری رفاہی اشتہارات مثلاً وزارت صحت کے اعلانات، ضبط تولید، پولیو ڈراپس اور ایسی بے شمار ماس اناؤنسمینٹ والے اشتہارات رجسٹرڈ پرچوں کا حق ہوتے ہیں۔ اگر آپ مناسب ریڈر شپ رکھتے ہیں اور پرچے کو رجسٹر ہوئے ایک مخصوص مدت بیت چکی ہے تو کوئی وجہ نہیں جو ایسے اشتہارات نہ ملیں۔ ہاں سرکاری کام ہوتا ہے لہٰذا مناسب کوشش اور رسوخ ضروری ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ گھر بیٹھے دوسرے لوگ ان تک رسائی حاصل کریں گے محض اس ادارے یا اس کے افراد کی علمی استعداد اور عالمی شناخت کے نام پر تو یہ دیوانے کا خواب ہے۔
ابن سعید آپ کے سوال کا جواب بہت لمبا چوڑا ہے۔ یہاں اردو کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، سائنس کی جو حالت بنائی جاتی ہے، اور کمرشل پرچوں کے علاقہ سنجیدہ پرچوں کے ساتھ جو سوتیلا پن روا رکھا جاتا ہے اس کے مطابق یہ عین درست حالات ہیں۔ میں نے آج تک گلوبل سائنس میں حکومت کا کوئی ایک چار سطری اشتہار تک نہیں دیکھا۔ اب آپ اسے ادارے یا انتظامیہ کی غلطی سمجھیں گے، تاہم میں اپنی حکومت کے مزاج سے عین واقف ہوں۔ اردو میں دیا گیا اشتہار انگریزی مجلوں اور پرچوں میں چھپ جائے، گا، لیکن وہاں نہیں جو آمدن کو اور سرپرستی کو ترستے ہیں۔ اشتہار اپنوں کو نوازنے کے لیے دیے جاتے ہیں جی ادھر۔ کرپشن کا نام تو سنا ہی ہوگا آپ نے، بس یہی بات ہے۔ نجی ادارے اردو میں سائنس سمجھنے والوں کو اس قابل ہی نہیں سمجھنے کہ پروڈکٹس کے اشتہار گلوبل سائنس میں دیں۔ اور رہی بات ریڈر شپ کی، تو یہ رسالہ پورے ملک کے سنجیدہ قارئین میں پچھلے 11 سال سے پڑھا جارہا ہے۔ وسیع ریڈرشپ سے مراد نہیں کہ پچاس ہزار کی تعداد میں چھپ کر تقسیم ہوتا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ تشنگان علم دور دراز کے علاقوں میں بھی گلوبل سائنس کو پڑھتے ہیں۔ تاہم ان سب کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں کمرشل اور مصالحہ قسم کے رسالے زیادہ چلتے ہیں، ایسے سنجیدہ رسالے کوئی کوئی ہی پڑھتا ہے۔یہ ہے سارا سلسلہ ہائے محبت۔
جواب دیںحذف کریںشاکر بھائی ہماری ہمدردیاں اس ادارے اور آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن ایک بات جو ہمیں بری طرح چبھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے اب تک صرف مسائل کا ذکر کیا ہے ان کے حل کی بات کی ہی نہیں۔ اگر ہم نے کوئی مشورہ دیا تو بجائے اس میں ترمیم کر کے قابل عمل بنانے کے مزید مین میخ نکال کے چار اور مسائل کا ذکر کر دیتے ہیں۔ آپ کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہمارے ملک میں بھی رشوت، عیال پرستی اور اس طرح کی دوسری بد اعمالیاں بعینہ ویسے ہی ہیں جیسی آپ کے یہاں۔ لہٰذا یہ بات تو ہم محو کرنے سے رہے۔ میں شاید بہت ہی غلط مشورہ دینے جا رہا ہوں لیکن میری بات پر غور کیجئے گا۔ اگر کسی طرح ایک عدد چالو، چاپلوس، چالباز، عیار، مکار، سرکاری دفتروں میں کام نکلوانے کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح واقف شخص کو پکڑ لیں۔ اور اس کو پچاس ہزار ماہانہ تنخوہ دے دیں جبکہ وہ شخص ایسا ہو کہ ادارے کے لئے دو لاکھ اضافی منافع جمع کر سکے تو ایسا کرنے میں کیا ہرج ہے؟ آخر کو وہ کامرشیل پرچے یہی کچھ تو کرتے ہیں تو سنجیدہ پرچوں کو ایسا کرنے سے کس نے روک رکھا ہے؟
جواب دیںحذف کریںسرکاری اشتہارات رجسٹرڈ اور مستقل پرچوں کا جائز "حق" ہیں ان کے لئے اپلائی کریں اور پھر بھی بلا سبب ٹرخایا جائے تو قانونی چارہ جوئی کریں۔ اب یہ بہانہ مت بنائیے گا کہ عدالت کون سا انصاف بانٹتی ہے یا یہ کہ کون عدالت کی ٹھوکریں کھاتا پھرے۔ کیوں کہ ایک عدد کمپلینٹ ڈال دینے میں کچھ نہیں جاتا یہ اور بات ہے کہ اس توقع میں ہاتھ پاؤں لپیٹ کے بیٹھ جائیں کہ اب تو جب عدالت کا فیصلہ آئے گا تبھی بات آگے بڑھے گی ورنہ تب تک خاموشی۔ بلکہ اس مدت میں کام جس طرح چل رہا ہے چلنے دیا جائے۔ آپ کو شاید علم نہیں کہ سرکاری قسم کے اشتہارات ایک پرچے میں آجائیں تو اس سے دوسرے پرچوں کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ آپ کو آپ کے پرچے کی تعداد اشاعت کی مناسبت سے پے مینٹ ملے گی۔
تیسری بات جو آپ شاید سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ مصنفین کو دیا جانے والا معاوضہ یا ٹوکن منی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کاغذ کی خرید۔ چلئے تسلیم کیا کہ پچاس ہزار کی تعداد میں نہیں چھپتا بیس ہزار کی تعداد میں تو چھپتا ہوگا یا دس ہزار کی تعداد میں تو چھپتا ہی ہوگا؟ اور اگر وہ علم کے دیوانے یا پروانے فی پرچہ تیس روپے خرچ کر سکتے ہیں تو اشتہارات سے پاک اور مہنگائی کے مارے ہوئے ادارے سے جاری کردہ اردو میں سائنسی علم کے واحد منبع کو پینتیس روپے میں بھی خرید لیں گے۔ چلئے ہم یہاں بھی سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور بجائے پانچ روپے قیمت بڑھانے کے محض دو روپے بڑھا لیتے ہیں۔ اب باٹم لائن یہ ہے کہ دس ہزار خریدار اور دو روپے فی پرچہ اضافی قیمت یعنی کم از کم بیس ہزار کی اضافی آمدنی۔ جسے بیس مصنفین میں ایک ایک ہزار یا اگر مصنفین چالیس ہوں جو کہ نہیں ہوں گے تو پانچ پانچ سو روپے کی یقینی انسینٹیو دی جا سکتی ہے جو کہ صفر یا غیر یقینی انسینٹیو سے کہیں بہتر ہے۔ واضح رہے کہ یہ ساری باتیں ہم نے بالکل باٹم لائن پر رہ کر کی ہیں اور حالات اتنے خراب بہر حال نہیں ہوں گے۔ لیکن یہاں جو سوچنے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ ادارے کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ قیمت میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ محض مصنفین کے لئے کیا گیا ہے لہٰذا اس کا پورا فائدہ انھیں ہی پہونچنا چاہیئے۔ اس رقم کا کوئی اور استعمال شجر ممنوعہ کا پھل کھنے کے مترادف ہونا چاہئیے۔ لیکن قصہ یہ ہے کہ جب بغیر کچھ دیئے تحریرں حاصل کی جا سکتی یں تو اس کے لئے خرچ کرنے کی کیا تک ہے۔ بہت ہیں ایسے دیوانے جنھیں چراغ لے کر کھوجا جائے تو فی سبیل اللہ یا اردو کی اکھڑتی ہوئی سانسوں میں اپنا تنفس مفت ڈالنے کو راضی ہو جائیں گے۔
اگر ہم کوئی پرچہ نکالیں تو خواہ اس کی تعداد اشاعت محض ایک ہزار ہی کیوں نہ ہو اگر وہ پرچہ مفت تقسیم نہیں کیا جاتا تو اس کے مصنفین کو کچھ نہ کچھ ضرور دیں گے جو کہ صفر قطعی نہیں ہوگا ہاں پچاس ہزار نہ سہی پچاس روپے ہی سہی۔ اگر ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہوگی کہ طباعت کا خرچ برداشت کر سکیں تو پرچہ بند کر دیں گے اسی طرح اگر ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہوگی کہ مصنفین کو کچھ دے سکیں تو بھی پرچہ بند کر دیں گے۔ کیوں کہ ہماری نظروں میں دونوں ہی چیزیں یکساں اہمیت کا حامل ہیں۔ بلکہ کاغذ کے ساتھ تو ایک بار کو بلاٹنگ پیپر استعمال کرکے اس کوالٹی سے سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے لیکن مضامین کے معیار کے ساتھ بالکل نہیں پھر مصنفین سے مفت کی توقع کیا ایک صحت مند معاشرے کو جنم دے گی؟
میری بات کو تنقید کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے کیوں کہ ہمیں اندازہ ہے کہ اس قصے میں بڑی اور بزرگ ہستیاں شامل ہیں۔ جن کے احترام میں کوئی کسر اٹھا رکھنا ہمارے لئے جرم کے مترادف ہے۔ ہمیں یہ بھی اندازہ ہے کہ کہنا جتنا آسان ہے کرنا اتنا ہی مشکل۔ لیکن اسے عذر بنا کر تو کام نہیں چل سکتا ناں۔
السلام علیکم۔
جواب دیںحذف کریںمصنفین کے معاوضے کے متعلق میں اپنا ایک ڈر ظاہر کرتا چلوں کہ اس سے تحاریر کی تعداد تو شاید بڑھ جائے لیکن مجموعی طور پر ان کے معیار پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ مجھے یہ ڈر کیوں ہے، اس کو سمجھنے کے لیے یہ ویڈیو مفید رہے گی۔
Daniel Pink on the surprising science of motivation
http://www.youtube.com/watch?v=rrkrvAUbU9Y
میرا مشاہدہ ہے کہ عام طور پر انسان اپنی بہترین صلاحیتوں کا بہترین استعمال تب کرتے ہیں جب ان کو کسی طرح کا کوئی چینلج دیا جائے (اور وہ اس چیلنج کو اہمیت بھی دیں)۔ یہ چیلنج خود اپنی طرف سے بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے یہ کام کر کے خود کو ثابت کرنا ہے، یا کسی اور کی طرف سے بھی کہ یوں کر کے دکھاؤ تو مانیں۔ مثال کے طور پر، آپ کو یاد ہوگا کہ، ایک دفعہ گلوبل سائنس میں ایک چیلنج کوئز آیا تھا جس کا کوئی انعام نہیں تھا لیکن اس کوئز کے مسائل حل کرنے والوں کی تعداد کسی بھی دوسرے کوئز سے کئی گنا زیادہ تھی۔ میں خود اس کے جوابات پر کئی دنوں تک غور کرتا رہا حالانکہ میں عام طور پر کسی کوئز کو اتنی اہمیت نہیں دیا کرتا۔ اس کا سبب اس کوئز کو پیش کرنے کا انداز تھا۔ جب قاری کو یہ کہا گیا کہ "اسے حل کر کے دکھاؤ تو مانیں!" تو وہ اپنا آپ منوانے کے لیے حل کی تلاش میں لگ گیا۔ وہ قارئین بھی جو عام طور پر کوشش نہیں کرتے تھے۔ تو میرا خیال ہے کہ اس چیز کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح لوگ زیادہ فعال ہوں گے اگر گلوبل سائنس کی انتظامیہ سے ان کے قریبی روابط ہوں۔ ایک مثال دوں گا کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ گلوبل سائنس کو اتنا وقت دینے کو تیار نہیں ہوتے لیکن جب کسی دوست کو کوئی کام پڑے تو دو تین دن لگ جانے کو کچھ نہیں سمجھتے۔ جب ہم گلوبل سائنس کی انتظامیہ کو ایک دور دراز ادارے کے بجائے "ایک دوست" کی حیثیت سے دیکھیں گے تو فطری طور پر انہیں موجودہ سے کئی گنا زیادہ وقت دینے کو تیار ہو جائیں گے۔ چنانچہ میں تو کہتا ہوں کہ گلوبل سائنس کی ویب سائٹ محض ایک تعارفی ویب سائٹ ہی نہ ہو بلکہ وہاں اس کے متعلق چھوٹی موٹی خبروں کا ایک بلاگ بھی ہو اور ایک عدد آن لائن فورم بھی ہو جہاں مصنفین اور قارئین مل بیٹھ کر باتاں کر سکیں۔ یہ نہ صرف مصنفین کو زیادہ فعال رکھنے میں مددگار ہوگا، بلکہ قارئین کو مصنف بننے پر بھی موجودہ صورتِ حال کی نسبت زیادہ راغب کرے گا۔ اس کے علاوہ اس کی مشہوری میں تو مدد ملے گی ہی۔ اگر انتظامیہ چاہے تو بعض مضامین کو "خفیہ" رکھ کر صرف پرنٹ والے نسخے کے لیے مخصوص کر دے۔
میرے خیال میں یہ دو نکات معاوضے والے کی نسبت زیادہ مددگار ہوں گے۔ بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ انتظامیہ میں کسی ماہرِ نفسیات کو بھی شامل کر لیا جائے کہ اس سے رسالے کو بہتر بنانے میں زیادہ مدد ملے گی اور وہ بھی روایتی مارکیٹنگ والے خطرات سے بچاتے ہوئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں سائنس کو ایک "اہم چیز" کا مقام دلانا ہے۔ بجائے اس بات کا رونا رونے کے، کہ لوگ سائنس سے زیادہ اہمیت کرکٹ کو دیتے ہیں، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سائنس کو کرکٹ سے زیادہ دلچسپ کیسے بنایا جائے۔ ابتداء میں سائنس کو ایک "ذہنی تفریح" کے طور پر پڑھنے والے بعد میں اس میدان کو مستقل طور پر بھی چنیں گے۔ ڈسکوری، ناسا، نیشنل جیوگرافک کی دستاویزی فلمیں اس بات کی مثال ہیں۔ وہ سائنس کو ایک دلچسپ چیز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے پروگرام خشک اور بور نہیں ہوتے بلکہ انہیں تفریح کے زمرے میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ میرے اپنے چھوٹے بھائی کارٹون کے علاوہ دوسرے نمبر پر یہی چینل پسند کرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںچھوٹے بچوں کے صفحات کو ذرا زیادہ مزے دار بنایا جائے، بڑوں کے لیے بھی تھوڑے بڑے درجے کے ایک دو مضامین ہونے چاہئیں۔ میں نے آج تک گلوبل سائنس میں ایک بھی ریاضیاتی مساوات نہیں دیکھی (یا کم از کم اس وقت یاد نہیں آ رہی)۔ اس طرح کا کچھ مواد ہونا چاہیے۔ زیادہ تر مواد درمیانی نوعیت کا ہے۔ ایک طرف مبتدیوں کی سطح سے کچھ بلند تو دوسری طرف ماہرین کی سطح سے کافی کم۔ ہر طبقے کو حصہ ملنا چاہیے۔ کمپیوٹر کے متعلق یہ کہوں گا کہ اب موجودہ دور میں ٹرکس اور ڈاؤن لوڈز والے حصے کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کے بجائے کمپیوٹر کی سائنس پر توجہ دی جائے۔ سافٹ وئیر صرف وہ بتائے جائیں جو سائنس کے طلباء کے لیے کوئی اہمیت رکھتے ہوں۔ جس مہینے مصنفین کی کمی کی وجہ سے ایسا کچھ نہ ہو، اس مہینے چھٹی کر کے کسی اور موضوع کو زیادہ جگہ دے دی جائے۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ کمپیوٹر کے نام پر غیر معیاری مواد ہو۔
اور ظاہری بات ہے کہ اتنے مشورے دینے کے بعد میں آرام سے بیٹھا اچھا نہیں لگوں گا۔ :) چنانچہ موجودہ لینکس ڈسٹربیوشن والے پراجیکٹ کے بعد اسے بھی وقت دوں گا۔ ان شاء اللہ۔
ابھی میں سوچ رہا تھا کہ چیلنج والے طریقے میں بھی معاوضے یا انعام والے طریقے کی طرح ساری توجہ ایک چھوٹے علاقے پر مرکوز تو ہو جاتی ہوگی۔ تو شاید اس کا استعمال بھی مخصوص حالات میں ہی ساز گار ہوگا۔ ہاں یہ فرق ہوگا کہ اس میں خالص وہی لوگ حصہ لیں گے جو سائنس کو اہمیت دیتے ہیں۔ جبکہ رقم کے لالچ میں وہ غیر متعلقہ لوگ بھی آ سکتے ہیں جن کے نزدیک سائنس سے زیادہ اہمیت اس رقم کی ہوگی، چنانچہ رقم والے طریقے سے چیلنج والا طریقہ بہتر ہے۔ کیونکہ اس میں باقی ہر چیز ثانوی وتی ہے جبکہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اپنی اہمیت منوانا اصل ہدف ہوتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںلیکن اب مجھے لگ رہا ہے کہ اس سے بھی بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ "اگر یوں کر کے دکھاؤ تو مانیں" کے بجائے "کیوں نہ یوں کر کے دیکھا جائے" والی سوچ کا استعمال کیا جائے۔ یعنی سائنس دانوں والی سوچ جو ہر وقت کسی نئی چیز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لوگوں کی نئے تجربات میں حوصلہ افزائی کی جائے۔
اور تجربات سے خیال آیا کہ گلوبل سائنس میں تحقیقات پر خبریں زیادہ ہوتی ہیں لیکن یہ چیز کم ہوتی ہے کہ کسی نے کوئی تحقیق کی ہو اور اس کے نتائج شائع کیے ہوں۔ کیوں نہ ایسے تجربات کا سلسلہ شروع کیا جائے جن سے کچھ فائدہ بھی ہو؟ مثلاً کچھ عرصہ تک کسی شہر کے مختلف حصوں، یا مختلف شہروں کے روزانہ کے درجہء حرارت ریکارڈ کیے جائیں اور انہیں ایک جدول کی شکل میں شائع کیا جائے وغیرہ۔ ایسے تجربات کو منظم کرنے میں آن لائن فورم ایک اہم کردار ادا کرے گا۔
ان تجربات سے لوگوں کی سائنس میں دلچسپی بھی بڑھے گی اور جو لوگ پہلے ہی سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان میں ایسے مزید نت نئے تجربات کرنے کی تحریک پیدا ہوگی۔ اور وہ تجربات بمع نتائج گلوبل سائنس کو ارسال کیے جائیں گے، جس سے مصنفین کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔
ابن سعید آپ کی بات عین بجاہے، یہی اعتراض کراچی کے بلاگر نعمان نے بھی ایک بار کیا تھا کہ گلوبل سائنس میں فی سبیل اللہ ہی لکھنا پڑتا ہے۔ اور ایسا کون کرے۔ میں ان کی وکالت بالکل نہیں کررہا، لیکن جو کچھ میرے علم میں تھا، جو کہ سارا گلوبل سائنس کی انتظامیہ کے توسط اور عمومی ملکی حالات کی وجہ سے تھا، آپ کے گوش گزار کردیا۔ میں تو ذاتی طور پر یہ کہہ چکا ہوں کہ کمپیوٹنگ میں لکھنے کی ایک بڑی وجہ 60 روپے فی صفحہ ملنے والا معمولی سا مشاہرہ بھی تھا۔ گلوبل سائنس اتنا بھی نہیں کرسکتا، میرے علم میں قطعًا نہیں ہے کہ اتنی گئی گزری بات کیوں ہے۔ اور قیمت کے سلسلے میں عرض کرتا چلوں اس وقت اس کی قیمت 45 روپے ہے جو اگلے ماہ سے 55 روپے ہوجائے گی۔ وجہ کاغذ اور پرنٹنگ کا خرچ بڑھ جانا ہے۔ اشتہارات کیوں نہیں ملتے، مجھے جتنا معلوم تھا عرض کردیا، لیکن بخدا آج تک 5 سے زیادہ اشتہار نہیں دیکھے اس میں۔
جواب دیںحذف کریںمحمد سعد تجربے گلوبل سائنس میں شائع نہیں ہوسکیں گے۔ گلوبل سائس عمومی سائنسی جریدہ ہے نہ کہ ریسرچ جرنل۔ چناچہ یہاں صرف مستند سائنسی معلومات ہی عام فہم الفاظ میں پیش کی جائیں گی۔ مقابلہ کوئز وغیرہ اچھی چیز ہے تاہم پھر بھی یہ معاوضے کا متبادل نہیں۔
طارق راحیل آپ کو اومیگاٹی استعمال کرنے میں کیا مسئلہ درپیش ہے؟
جواب دیںحذف کریںشاکر بھائی آپ غالباً میری بات کو ٹھیک طرح سے سمجھے نہیں۔ میں مقابلہ کوئز کی بات نہیں کر رہا۔ میں انسانی نفسیات کے ایک پہلو اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بات کر رہا ہوں۔
جواب دیںحذف کریںکمپیوٹنگ اور گلوبل سائنس کے مالی حالات میں ایک بڑا فرق تو فروخت ہنے والے نسخوں کی تعداد کی وجہ سے ہے۔ کمپیوٹر کے رسالے (کمپیوٹر کے استعمال کے متعلق، اس کی سائنس کے متعلق نہیں) اور کتب یہاں تقریباً ہر کوئی خریدتا ہے جبکہ سائنس کی کتاب، چاہے وہ کمپیوٹر کے متعلق ہی کیوں نہ ہو، اگر میں خود خرید کر کسی کو تحفے میں بھی دوں تو کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ کمپیوٹر کی اصلی سائنس کو تو چھوڑیے، پچھلے دنوں میں نے ایک لائبریری سے مائیکروکنٹرولرز کی ساخت اور استعمال کے متعلق ایک کتاب لی تو کچھ لوگ مجھے یوں دیکھتے تھے جیسے پاگل خانے سے فرار ہو کر آ رہا ہوں۔
جواب دیںحذف کریںایسے میں مالی حالات کا فرق تو ہوگا ہی۔
طویل مدتی بنیاد پر یہی منصوبہ بہترین نتائج دے گا کہ لوگوں میں کسی طرح سائنس سے لگاؤ پیدا کیا جائے۔ انہیں صرف یہی نہ بتایا جائے، جیسا کہ روایتی کوششوں میں ہوتا ہے، کہ سائنس سے ہماری ترقی مشروط ہے۔ انہیں یہ بھی دکھایا جائے کہ یہ شعبہ در حقیقت کتنا دلچسپ ہے۔ اور یہ مساواتیں جنہیں ہم بھوت جیسی شکل بنا کر دیکھتے ہیں، حقیقت میں اپنے اندر کتنی خوب صورتی رکھتی ہیں۔ تب ہی صحیح معنوں میں کچھ فائدہ ہو پائے گا۔ اپنا بھی اور قوم کا بھی۔
Az: Aleem Ahmed,
جواب دیںحذف کریںSaahebaan,
Assalaam U Alaikum,
Awaz e Dost per Global Science kay baaray main ahbaab ke talkh o shireen baatain parheen, bohet maza aaya. Aap tamam ahbaab kay tamaam ter aiterazaat basar o chashm.
Muqtadira Urdu Keyboard kay baaray main arz kerta chaloon keh mainay apni saabiqah email main Muqtadira kay jiss keyboard ka tazkarah kiya thah, woh 1980 kay 'asharay main Urdu typewriter kay leay banaya gaya tha, aur mainay 1991 main pehli martabah Macintosh Classic per Urdu word processor "Nasta'leeq Nizami" main istimaal kiya tha. Taahem, Muqtadira ka naya keyboard - jo unhon nay Windows kay leay banaya hay - uss say bilkul mukhtalif hay. Muhawray kee zubaan main kahain to iss (naeay) keyboard ko "teen main nah terah main" kaha jaasakta hay.
Meray aur bhai Shakir kay darmian kuchh niji guftgoo bhee (ghaliban ghalati say) iss blog post per shamil hogaeay hay. Agar Amanat Ali Gauhar aur Computing Magazine kay baaray main meray taassuraat say kisi kay jazbaat ko thais ponhchi ho to ma'azrat chahoonga.
Ishtihaar kay baaray main iss forum per ahbaab nay jo kuchh bhee farmaya, woh hum aik arsay say suntay aarahay hain. Humain Global Science kay tamama akhraajat pooray kernay kay leay iss ke circulation hee per takiyah kerna parta hay. Aap ko yeh jaan ker shayed ta'ajjub ho keh sar-e-dast, Global Science kay aik shumaray per (tamam akhraajaat minha kernay kay ba'ad) humain sirf 25 paisay ke bachet hoti hay. Isileay - aik kaseer ul asha'at jareeda honay kay bawjood - humain her waqt kaghaz ke barhti hui qeemat say nabard aazma rehna parta hay.
Jahaan tek Pakistan ke Advertising Industry ka ta'lluq hay, to unn kay yahan Urdu main science ka parcha shaya kerna hee goya "ghair a'ilaaniya Gunaah e Kabeerah" hay. Shayed aap ko yaqeen nah aaeay, lekin haqeeqat yehi hay keh Pakistan ke Advertising Industry main corruption apnay 'urooj per hay. Zahir hay keh Global Science hum kisi advertiser ko khush kernay kay leay shaya naheen kertay, belkeh hamara maqsad apnay qaraeen ke 'ilmi aabyaari kerna hota hay. Lihaza, yeh mumkin naheen keh hum Global Science ko ishtihaar dainay waalay ke marzi aur mansha kay mutaabiq tabdeel kerdain; aur nah hee yeh hamaray buss main hay keh hum bhee uss corruption ka hissa ben jayen jo iss waqt hamari advertising industry main sikka-e-rayej-ul-waqt bani hui hay. Iss kay bawajood, hum aisay mushtahireen ke talaash main ab bhee masroof hain jo Global Science ko iss ke merit per ishtihaar dain, nah keh kisi aur ghalat wajah say.
Kernay ko baatain bohet see hain, laikin filhaal yehi likh ker qalam rokta hon; aur apni roman Urdu per aik baar phir mu'azrat chahta hoon.
Wassalaam,
Aleem Ahmed
علیم بھائی بلاگ پر خوش آمدید۔
جواب دیںحذف کریںمعذرت چاہوں گا ابن سعید کی نشاندہی پر وہ تاثرات حذف کردئیے تھے بعد میں لیکن غلطی تو ہوگئی بہرحال۔
آپ کے کی بورڈ کی اگر تفصیلات مل جائیں تو ونڈوز کے لیے کی بورڈ بنانا کوئی کام نہیں ہے۔ آپ اردو محفل پر کچھ وقت نکال کر اگر تشریف لا سکیں تو کوئی صاحب آپ کو کی بورڈ بنا کر دے سکتے ہیں۔
گلوبل سائنس کے بارے میں آپ کی بیان کردہ تفصیلات بحیثیت قوم ہمارے لیے انتہائی شرم کا باعث ہیں۔
آپ سے پھر التجا کروں گا کہ اپنے قاری سے رشتہ قائم کریں، گلوبل سائنس کی ویب سائٹ پر فورم قائم کیا جاسکتا ہے، اردو فورم کی بات کررہا ہوں، یا پھر اردو فورمز پر کچھ وقت دے سکتے ہیں آپ۔ بخدا آپ کو۔ امید ہے حالات میں بہتری کی کچھ امید پیدا ہوجائے گی۔ اور کچھ نہیں تو امید ہے مقتدرہ کے اس زمانہ قدیم کے کی بورڈ کے لیے ہی آپ اردو محفل کو رونق بخشیں گے۔
وسلام
برادرم محمد سعد کے کچھ مشورے کبت ہی معقول ہیں۔
جواب دیںحذف کریںمحترم علیم احمد صاحب مجھے دہرانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ کئی طرح کے کی بورڈ لے آؤٹ دستیاب ہیں بلکہ اپنی مرضی کے کی بورڈ لے آؤٹ تیار کرنے کے کئی ٹیوٹوریل بھی موجود ہیں۔ آپ خود تجربہ کریں اور اس طرح ایک اچھا بھلا مضمون "اپنا کی بورڈ خود بنائیں" آپ کے پرچے کے لئے آپ کے ہاتھ لگ جائے گا۔ یہ کام بہت ہی سہل اور دلچسپ ہے۔
امانت علی صاحب کے بارے میں آپ کے تاثرات سے ہمیں کوئی جذباتی ٹھیس نہیں پہونچی کیوں کہ ہم تو انھیں اتنا بھی نہیں جانتے جتنا آپ کو جانتے ہیں۔ بس ہمیں ایک پبلک مقام پر ایسی بات شائع ہونا غیر مناسب لگا تھا۔
اگر ادار مشتہرین کے شرائط ماننے کو تیار نہیں اور مشتہرین ادارے کے شرائط پر اشتہار دینے کو راضی نہیں تو یہ قصہ ہی درمیان میں نہیں آنا چاہئیے۔ لیکن پھر اس پرچے کی مقبولیت، آمدنی، افادیت وغیرہ کا کامرشیل پرچوں سے موازنہ بھی عبث ہے۔ کہ دونوں الگ الگ جہانوں کی چیزیں ہیں جن کا نصب العین الگ ہے اور فلسفہ جدا ہے۔
جیسا کہ ایک پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اس کی قیمت میں بائیس فیصد سے بھی زائد کا اضافہ کیا جانے والا ہے۔ اور وہ اضافہ محض طباعت کے اضافی اخراجات کو برداشت کرنے کے لئے ہے۔ آپ نے خود اسے کثیر الاشاعت جریدہ گردانا ہے۔ تو ہمارا سول محص اتنا سا ہے کہ طباعت کے اخراجات کے لئے ادارہ ہر حد تک جا سکتا ہے ایک ماہ میں بائیس فیصد قیمت کا اضافہ کوئی معمولی بات تو نہیں۔ پھر دو چار فیصد قیمت کا اضافہ مضمون نگاروں کو حق المحنت کے نام پر دینے کے لئے کرنا کیا بڑی بات ہے؟ شاید اس لئے کیوں کہ یہ چیز ادارے کو ناگزیر نہیں لگتی اور اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ میرے خیال میں کامرشیل لیویل پر بغیر اجرت کے کام کو رواج دینا ایک صحت مند معاشرے کی علامت نہیں ہے بلکہ زیادہ تلخ الفاظ میں اس کو بیگار کہا جاتا ہے۔ ایسے مضامین لکھنے والے زیادہ تر طلباء ہوتے ہیں جنھیں اخراجات کے لئے اپنے والدین پر تکیہ کرنا ہوتا ہے، یا ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو دن بھر روزگار کی مار سہہ کر شام کو گھر بیٹھی دو بہنوں کی شادی کا غم لئے اپنے آنسو کسی بند کمرے میں صفحہ قرطاس پر تکنیکی مضمون کی صورت بکھیر رہے ہوتے ہیں، یا پھر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارے جانے والے وقت کا ایک بڑا حصہ ان سے علیحدہ ہو کر بلا معاوضہ کسی کے لئے کچھ جان سوزی و دماغ سوزی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی جائز اجرت اور حوصلہ افزائی کے لئے ادارے کے پاس کوئی بجٹ نہیں جبکہ طباعت اور پیپر انڈسٹری سے جڑے متمول لوگوں کی بڑھتی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے قارئیں کی جیبیں جھانکنے میں چنداں ہرج نہیں۔
بہت زمانے گزرے ایک وقت تھا جب نیا نیا کمپیوٹر لیا۔ اور نیٹ پر اردو پیجز اور آئی ٹی دنیا سے سناشائی ہوئی۔وہیں پر کمپیوٹنگ میگزین کے ایڈیٹرز سے رابطہ ہوا۔ اور پھر کچھ عرصہ اس میگزین میں لکھنے کا موقعہ ملا۔کمپیوٹنگ فورمز پر ہی گلوبل سائنس سے تعارف ہوا۔
جواب دیںحذف کریںبلاشبہ کمپیوٹنگ اردو میں صرف آئی ٹی کا پہلا میگزین تھا۔ لیکن یہ میگزین زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔اور میرے خیال سے اس کی وجہ کمزور مینجمنٹ تھی۔جیسا کہ ٹیم ممبرز کو ساتھ لے کرنہ چلنا۔حالات سے بے خبر رکھنا۔ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنا۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے لکھنے والوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا۔
اگرچہ کمپیوٹنگ یا گلوبل سائنس والوں سے مجھے کچھ پرخاش نہیں ہے۔لیکن صرف میگزین کھو جانے کے دکھ کی وجہ سے لکھ گیا ہوں۔میری بس یہی خواہش ہے کہ آئی ٹی کا کوئی اردو میگزین دوبارہ سے شروع ہوجائے۔
محترم و محسن جناب علیم صاحب نے مقتدرہ کی بورڈ سے متعلق مسئلے کا ذکر کیا ہے ۔ فی الحال نہیں معلوم کہ
جواب دیںحذف کریںان کا مسئلہ کہاں تک حل ہوا ۔
مگر یہ ایک مقتدرہ کی بورڈ لے آؤٹ حاضر ہے۔
http://pak.net/%D8%B3%D9%88%D9%81%D9%B9-%D9%88%DB%8C%D8%B1%D8%B2-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D9%BE%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%88%D9%81%D9%B9-%D9%88%DB%8C%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D8%B1%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%B3%D8%AA/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88%D8%AA%D8%AE%D8%AA%DB%82-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%AF-urdu-keyboards-40813/
pak.net/forums.php
/سوفٹ-ویرز-کے-بارے-میں-آپکی-رائے-اور-سوفٹ-ویر-کی-درخواست/اردوتختۂ-کلید-urdu-keyboards-40813/
دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔