پیر، 16 مئی، 2011

توند فُل نَیس

ہمارے استاد محترم جٹ ہیں۔ لیکن بذلہ سنجی میں فرمایا کرتے ہیں کہ جٹ ایک ذات کا نام نہیں، بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے  جو کسی بھی بندے پر کسی بھی وقت طاری ہوسکتی ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے جٹ اے تے مت نئیں، مت اے تے جٹ نئیں، جٹ برادری کے عقل کے بارے میں خاصے لطیفے مشہور ہیں۔ خیر جٹوں کو بدنام کرنا ہمارا مقصد نہیں یہ تو دیباچہ تھا۔ ذکر ایک کیفیت کا کرنا تھا جو جاٹ پن کی طرح روحانی نہیں بلکہ جسمانی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کا نام ہم نے توند فُل نیس رکھا ہے۔ صاحبو توند فُل نیس ایسی جسمانی کیفیت کا نام ہے جس میں انسانوں خصوصًا مردوں کا پیٹ اپنی اصلی جگہ سے ناجائز تجاوزات کی طرح باہر کو نکل آتا ہے۔ دوکانوں کے پھٹے اور کاؤنٹر تو آپریشن کلین اپ کرکے اندر کروا کر فٹ پاتھ کی جگہ خالی کروائی جاسکتی ہے لیکن پیٹ کو اندر کروانا ایسا ہی ہے جیسے پاکستان کے کسی زرداری، گیلانی، چوہدری، شریف یا مخدوم کو اندر کروانا۔ اللہ زندگی دے، ہمارے استاد محترم کو ہر ڈیڑھ سال کے بعد پیٹ کے خلاف آپریشن کلین اپ کا بخار چڑھتا ہے چناچہ کبھی وہ خوراک (اپنی خوراک) پر پابندی لگا دیتے ہیں، صبح اٹھ کر جاگنگ شروع کردیتے ہیں اور اٹھتے بیٹھنے کہنا شروع کردیتے ہیں کہ میری پرانی پتلونیں اب مجھے پوری آنی شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے پہل تو ہم ان کی باتوں کی سنجیدگی سے لیتے تھے، اب محرم راز ہوگئے ہیں اس لیے مسکرا دیتے ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے، جس طرح جمہوریت پانچ سال پورے کیے بنا جانی والی نہیں، اسی طرح اب پیٹ ساری عمر اندر جانے والا نہیں۔ جب کھانے چرغے، مرغے اور روسٹ بروسٹ ہیں، اور سارا دن کرسی پر بیٹھنا ہے توند نے بڑے تو ہونا ہے۔ بچے ایسی چیزیں کھاتے ہیں تو اوپر کو بڑھتے ہیں۔ بڑے ایسی چیزیں کھاتے ہیں تو جسم کے عید درمیان سے نئی شاخ نکل کر اوپر کا سفر شروع کردیتی ہے۔
آپ کو یہ بات واہیات لگے گی لیکن بعض لوگوں کی توند دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ موصوف میں نئی زندگی پرورش پارہی ہے۔ توند کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ اس کے سائز کے اعتبار سے آپ اسے ابتدائی، ثانوی اور انتہائی اقسام میں بانٹ سکتے ہیں۔ ابتدائی توند، یہ کوئی پچیس سے تیس کے درمیان لوگوں کی ہوتی ہے۔ ایسی توند بالکل ابتدائی مراحل میں ہوتی ہے، اور اسے دیکھنے کے لیے موصوف کا گرمیوں میں پینٹ شرٹ یا دھوتی بنیان میں ملبوس ہونا ضروری ہے ورنہ عام نظریں اس کو سکین نہیں کرسکتیں۔ ایسی نئی نئی توند نئی نئی جاب کا نشان بھی ہوتی ہے۔ راقم کا مشاہدہ ہے کہ نوجوانوں کے ایسی توند کے بارے میں جذبات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے پہلی بار ماں بننے والی خواتین کے اپنی متوقع اولاد کے لیے ہوتے ہیں۔ چناچہ احباب بے خیالی توند کو پیار کرنے لگتے ہیں۔ یونہی کھڑے کھڑے اس پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیتے ہیں، اور کبھی تو ہلکے ہلکے تھپکیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ اور تو اور سوتے میں ڈر کر اٹھ جائیں تو پہلا ہاتھ توند پر رکھ کر اس کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں۔ ثانوی درجے کی توند ایک ایسی توند ہے جسے پانچ سے دس سال ہوچکے ہیں۔ ایسی توند پرانے کلرکوں اور افسروں سے لے کر کاروباری حضرات تک کی ہوتی ہے۔ اس توند کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ موصوف سے گلے ملتے ہوئے اکثر اس کی توند راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ چانچہ آپ کو ذرا پرے رہ کر گلے ملنا پڑتا ہے۔  اکثر لوگ اس سٹیج پر آکر "نوند کانشئیس" ہوجاتے ہیں۔ چناچہ اسے کم کرنے کی تدابیر شروع ہوجاتی ہیں۔ لیکن ان تدابیر کا حال وہی ہوتا ہے جو جمہوری دور کی پالیسوں کا پاکستان جیسے ملک کی حالت سنوارنے کے سلسلے میں ہوتا ہے، یعنی حالات بننے کی بجائے بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ صاحبو توند انتہائی، توند کی وہ قسم ہے جہاں توند پر آزمائے جانے والے تمام ڈاکٹری اور پیری فقیری نسخے ناکام ہوجاتے ہیں۔ اور توند پاکستان میں موجود کرپشن کی طرح بےلگام ہوجاتی ہے۔ ایسی توند کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عید شبرات پر بھی ملنے والے ایک فٹ پرے رہ کر ملتے ہیں۔ ایسے افراد سے ملتے ہوئے اصطلاح "گلے ملنا" نہیں "توند ملنا" ہونی چاہیے۔ اور اگر دونوں ملنے والے توند یافتہ ہوں تو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے۔ دور سے دیکھنے والے کو ایسا لگتا ہے جیسے دونوں حضرات گلے مل نہیں رہے توندیں لڑا رہے ہیں، جیسے بکرے ڈھُڈ لڑایا کرتے ہیں۔ ایسے احباب کو اپنی اپنی توند سائیڈ پر کرکے گلے ملنا پڑتا ہے جو دیکھنے والے کا ہاسا نکال دیتا ہے۔ صاحبو توند انتہائی پچاس اور چالیس کے پیٹے میں موجود لوگوں کی ہوتی ہے۔ اور اس میں شامل اکثر افراد کھاتے پیتے ہوتے ہیں، اتنے کھاتے پیتے کہ اب ان کی توند بھی کھانا شروع کردیتی ہے۔ ایسے افراد کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ، اور ان کی توند، کھانے کے لیے جیتے ہیں۔
صاحبو توند کے کئی فائدے ہیں۔ آپ کو پیر بھائی، اسلامی بھائی صرف پاکستان میں ملیں گے، باہر کم کم ملیں گے لیکن توند بھائی دنیا کی ہر رنگ و نسل میں مل جائیں گے۔ اگر تمام انسانوں کا مشترک نکالا جائے تو توند ان میں پہلے نمبر پر آئے گی۔ توند کا ایک اور فائدہ اضافی چربی کا ذخیرہ ہے جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے، یعنی توند فُل لوگ کچھ کچھ اونٹ جیسی خاصیت پیدا کرلیتے ہیں۔ توند کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت توند مار کر گرایا بھی جاسکتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے بکرا ڈھُڈ مار کر فریق مخالف کو ضربِ شدید پہنچا سکتا ہے۔ چناچہ اگر آپ عقلمند ہیں تو توند آپ کا خفیہ ہتھیار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
راقم ان بدقسمت لوگوں میں شامل ہے جن کی توند ابھی تک پیدا نہیں ہوسکی اور اگلے دس سالوں میں بھی ا سکی نمو کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ چناچہ توند فُل احباب اس تحریر کو دل کا ساڑ اور غبار کہہ کر رد بھی کرسکتے ہیں۔ تاہم توند جو بھی ہے، جیسی بھی ہے، ہمارے معاشرے کا ایک اہم رکن ہے۔ ہمیں توند کی عزت کرنی چاہیے اور اس کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے بقول عزیزی توند بھی آخر انسان ہے۔ توند کی نمو و ترقی کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے۔ توند کی ترقی کے لیے آل پاکستان توند فیڈریشن بھی بنائی جانی چاہیے اور ہر سال مسٹر توند کا مقابلہ بھی منعقد ہونا چاہیے جس کا پہلا انعام ایک سال تک ایک کلو بھنا ہوا گوشت روزانہ ہو۔ توندفُل حضرات کے بیرون ملک سرکاری خرچے پر دورے ہونے چاہئیں تاکہ مختلف ممالک کی توندوں میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لایا جاسکے۔
آپ کا کیا خیال ہے بیچ اس مسئلے کے؟

10 تبصرے:

  1. ہائے، آپ نے ہمارے زخم تازہ کردیے۔۔۔ :P

    جواب دیںحذف کریں
  2. مزے دار
    میرے ایک لنگوٹیے کے بڑے بھائی جو یونیورسٹی دور میں ہمایوں سعید سے زیادہ ڈیشنگ تھے، ان کی شادی کے دوسال بعد ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی ثانوی توند دیکھ کے میں نے کہا کہ بھائی جان، یہ کیا، اس پر قابو پائیں۔۔۔ انہوں نے اس کے جواب میں ایک تاریخی جملہ ارشاد کیا کہ۔۔۔ یہ مرد کا پیٹ کاہے، ایک دفعہ باہر آگیا تو پھر اندر نہیں جاتا۔۔اس جملے کا دوسرا حصہ خوف فساد زناں سے سنسر کردیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. قسم قسم کے حقوق والے روشن خیالاں، تاریک باطناں توجہ دیں۔ کہ شاکر عزیز نے حقوق تونداں نامی مضمون لکھ کر دو چار نئی این جی اوز رجسٹرد کروانے کا مواد اور منشور مہیاء کر دیا ہے۔ انہیں فورا سے بیشتر اپنے آقا مولٰی ولی نعمت سے حقوق توندان جیسے عظیم الشان منصوبے کے لئیے نقد گرانٹ اور خفیہ ہدایات کے لئیے شاکر صاحب سے رجوع کر لیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. میں آپ سے متفق ہون۔ حکومت کو توندوں کی پرورش کیلیے بجٹ کا ایک حصہ مختص کر دینا چاہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. واہ جناب، زبردست، کیا خوب لکھا ہے توند کی افادیت پر۔ :D

    جواب دیںحذف کریں
  6. توند والوں کو افریقہ کے غریب ممالک بھیج دیا جائے۔
    بہت خوب

    جواب دیںحذف کریں
  7. بہت ہی عمدہ فکاہیہ ہے،
    اپنے دوستوں کے بیچ بیٹھ کر سنایا تو ،
    تو ند لیس دوستوں کے قہقہے تو چھت پھاڑ رہے تھے،
    اور توند زدہ بے چارے جھینپی جھینپی ہنسی کے ساتھ بغلیں جھانک رہے تھے!
    :)

    جواب دیںحذف کریں
  8. آجکل میں بھی توند کے ابتدائی دور سے گزر رہا ہوں ار
    بعینہ یہی کیفیت ہے
    :)

    جواب دیںحذف کریں
  9. بہت اعلی شاکر میاں، مزا آ گیا پڑھ کر۔ ہم بھی اپنی توند پر ہاتھ پھیر کر اندازہ لگا رہے ہیں کہ کس مرحلے میں ہے :)

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔