آ ج کل راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اگرچہ راوی کو خواہش تھی کہ لکھنے کے ساتھ ساتھ پڑھے بھی چاہے اس میں چین نہ ہو۔ لیکن یہ بات ابھی قسمت میں نہ تھی، چناچہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ پچھلے ہفتے راوی کو کچھ امید ہو چلی تھی کہ پڑھنے کی امید بندھ رہی ہے۔ بلکہ پچھلے جمعے کی ہی بات ہے، صرف آٹھ روز پہلے راوی نے بڑی مشکل سے صاحب کو منایا تھا کہ جناب ایک چانس دے کر دیکھیں، مایوس نہیں کروں گا۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ راوی ذرا یار باش واقع ہو گیا۔ اس نے اپنے ایک دوست کو اس کے بارے میں بتا دیا۔ اور صاحب کو پتا لگ گیا کہ یہ سب کو بتاتا پھر رہا ہے۔ صاحب نے بین لگوا دیا کہ راوی الو کا پٹھا ہے، اس کے ساتھ فیور کی جار ہی تھی لیکن یہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے، چناچہ اس پیر کو یہ ہوا کہ راوی کی رج کے ہوئی۔ ایک عرصے بعد راوی کو اتنی ذلت سہنی پڑی۔ صبح وہ ساری دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے یونیورسٹی پہنچا۔ دوپہر چار بجے جب وہاں سے نکلا تو اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ خالی ہاتھ راوی کی منت سماجت بھی قبول نہ کی گئی۔ چناچہ راوی کو کئی دن گزرنے کے بعد بھی وہ ذلت یاد آنے پر جھرجھریاں آنے لگتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا، راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ راوی ترجمہ کرتا ہے، راوی ایک کالج میں پڑھاتا ہے، راوی ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے(اگرچہ اب ذرا کم کم ہوتا ہے)، راوی فلمیں دیکھتا ہے، راوی دوسرے ہم جماعتوں کو کلاس میں تصور کر کے خود پر ترس کھاتا اور ان پر کچھ کچھ حسد اور رشک وغیرہ کرتا ہے اور راوی آگے کی سوچتا ہے۔ راوی کا خیال ہے کہ آگے اسے بیرون ملک داخلے کا سوچنا چاہیے۔ اس سلسلے میں راوی کچھ ابتدائی کام کرنے کی تیاریاں کرتا ہے جیسے انگریزی بولنے کا امتحان آئیلٹس پاس کرنے کی تیاری۔
راوی کا خیال ہے کہ اس سال اس کے ساتھ بڑی مناسب قسم کی ہوئی ہے، "ہوئی ہے" تو سمجھ رہے ہوں گے آپ۔ راوی نے سارا سال آگے داخلہ لینے کا ارادہ کیا ، سارا سال تیاری کی اور آخر میں اسے کہہ دیا گیا کہ تمہاری انگریزی دانی اچھی نہیں ہے۔ راوی کے ساتھ دو چار اور لوگ بھی تھے، اس کے ہم جماعت۔ ان میں سے اکثر کا داخلہ ہو گیا اور راوی اپنے بلاگ پر ڈگڈگی بجاتا پھرتا ہے۔ اور سوچتا ہے کہ آگے کیا کرے۔ راوی اگرچہ عدالت جانے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ لیکن کلاسیں شروع ہو چکی ہیں، راوی اس بارے میں بہت زیادہ پرامید نہیں ہے۔ راوی کے ساتھ یہ ہاتھ ہونے کی بڑی وجوہات میں اس کی اپنی سستی بھی کارفرما ہے۔ راوی نے کوئی ریسرچ پیپر نہیں لکھا۔ راوی نے اپنی انگریزی بہتر نہیں کی۔ راوی نے کسی اور جگہ فارم نہیں جمع کروائے۔ یہ آخری والا گدھا پن راوی کی حد سے بڑھی خوداعتمادی کا شاخسانہ ہے جس کے نتائج اسے ہمیشہ بھگتنے پڑے۔
لیکن اس سب کے باوجود، راوی زندہ ہے، مثبت سوچنے کی کوشش کرتا ہے، چئیر اپ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن راوی بھی آخر انسان ہے اور سچ تو یہ ہے کہ راوی اب سب باتوں کے باوجود اپنے اندر گواچی گاں جیسی طبیعت پاتا ہے، جس کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اس نے کہاں جانا ہے۔
جب تک یوں ہے
جواب دیںحذف کریں...
لیکن اس سب کے باوجود، راوی زندہ ہے، مثبت سوچنے کی کوشش کرتا ہے، چئیر اپ رہنے کی کوشش کرتا ہے
سب ٹھیک ہے
راوی کو ایک پاٹا پرانا دلاسہ دیتے ہوئے یہ راوی گویا ہوتا ہے کہ جو بھی ہوتا ہے ، اس میں بہتری ہوتی ہے
جواب دیںحذف کریںپانچ سال بعد راوی اس بات کو پڑھے گا تو اس کی صداقت ثابت ہوگی۔
یعنی لاہور ، اسلام آباد اور کراچی کے کسی ادارے میں فارم جمع ہی نہیں کروائے اور فیصل آباد کی اُسی یونیورسٹی کے آسرے بیٹھے رہے۔ یار یہ تو واقعی غلطی ہے۔ لمز ، ، آئی بی اے ، اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد وغیرہ جیسے اداروں میں کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ ابھی سے ان کے داخلوں کی تیاری میں لگ جاؤ۔ کافی وقت لگتا ہے۔ بیرون ملک بھی کوشش کرو اور صرف اپنے شعبے میں ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے متعلقہ شعبہ جات میں بھی چانس بن سکتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںزبان کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔ بولو تو بولنا آجاتا ہے ، لکھو تو لکھنا اور سنو تو سننے کی سمجھ آجاتی ہے۔ ادھر پاکستان میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے اور ٹی وی پر سننے کو تو دستیاب ہے لیکن بولنے کی نوبت نہیں آتی۔
کبھی میں بھی اپنی کہانی لکھوںگا۔
جواب دیںحذف کریںویسے مبارک ہو، خس کم جہاں پاک۔
اب جت جائیں، ٹھیک ہے نا؟
سب احباب کی مہربانی۔ فیصل بھائی میں اس طرف سے غافل نہیں ہوں۔ اور مسلسل مواقع تلاش کر رہا ہوں۔ دو جامعات میں یکم دسمبر سے پہلے ابتدائی مرحلے کے لیے درخواست جمع کرانے کا ارادہ ہے۔ ایک کینیڈا اور دوسری ہانگ کانگ کی ہے۔
جواب دیںحذف کریںیار مجھے لگتا ہے کہ میرا تبصرہ راوی کے پانی میں روڑ گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںعثمان بھائی تبصرہ آگیا ہے۔ اصل میں اسپیم میں چلا گیا تھا۔ اب تو غصہ آ رہا ہے۔ آج پتا چلا 4 سیٹیں ابھی بھی خالی ہیں۔ میرے چار کلاس فیلوز کا ایڈمیشن ہوگیا ہے میرا نہیں :-) مزے دار ہے نا کام۔ میں بھی اب ایک بار تو آخر تک جاؤں گا۔ ایڈمیشن ہونا نا ہو نا تو الگ بات ہے اب۔ اب جو کچھ ہو سکا کروں گا انشاء اللہ۔
جواب دیںحذف کریںدوسری جگہوں پر ایڈمیشن کی کوشش جاری ہے، باہر بھی اور اندر بھی۔ بس دعاؤں میں یاد رکھیں۔
عثمان بھائی آئی بی اے، قائد اعظم، اور کراچی کی کوئی بھی جامعہ (میرے علم کے مطابق) اس مضمون میں ایم فِل نہیں کراتی۔ زیادہ تر پنجاب میں ہے، اسلام آباد اور پشاور شاید۔
ایک بات ذہن میں رکھنا۔ عملی زندگی میں برانڈ کی بہت اہمیت ہے۔ اونچے برانڈ کی چیز بھلے گھٹیا ہی کیوں نہ نکلے ، اونچی ساکھ کی دھونس پر اس کی حیثیت نرالی ہوگی۔ لمز اور آئی بی اے ایسی جگہیں نہیں کہ جن کا داخلہ چھوڑ دیا جائے۔ ان میں کسی بھی معقول پروگرام میں داخلہ ملتا ہے ، تو ضائع نہ کرنا۔ فیصل آباد سے بھلے افلاطون بن کر آجاؤ۔ معاشرے میں ٹہکا لمز اور آئی بی اے والے کا ہی رہے گا۔ پروگرام ہی اولین ترجیح نہیں ، انسٹی ٹیوٹ کی اہمیت بہت ہے۔ اونچا انسٹی ٹیوٹ آپ کو اوپر سے نیچے تک تبدیل کرکے رکھ دے گا۔
جواب دیںحذف کریںمیرا ایک دوست سویڈن میں ہے۔ سٹاک ہام سے مکینیکل انجینیئرنگ میں ایم ایس سی کی ہے اور اب کینیڈا یا امریکہ کی تیاری پکڑ رہا ہے پی ایچ ڈی کے لئے۔ کہو تو اس کا ای میل دے دوں۔ سویڈن میں یونیورسٹی کی فیس نہیں ہوتی۔ بس طالب علم کو اپنا رہن سہن کا خرچہ اٹھانا پڑتا ہے یا اگر کوئی سکالر شپ تو اور بات ہے۔
کینیڈا اور امریکہ میں بھی اگر تعلیمی پروگرام تحقیقی نوعیت کا ہے جیسے پی ایچ ڈی ، تو وہاں بھی ریسرچ فنڈز اور دیگر سٹائپنڈز کی مد میں اتنی رقم مل جاتی ہے کہ گزارا ہوجائے۔ پھر یہ کہ یہاں بڑا انسٹی ٹیوٹ یہ بھی دیکھے گا کہ آنے والا کہاں سے آرہا ہے۔ یعنی اونچا برانڈ اونچے برانڈ کو پسند کرتا ہے۔ اونچے برانڈ کی طرف بڑھو۔ فیصل آباد کا پیچھا چھوڑ دو۔
میرا ای میل تو تمھارے پاس ہے ہی۔ ضرورت پڑے تو رابطہ کر لینا۔
شاکر جی، آپ سے کم ہمتی اور مایوسی کی باتوں کی توقع کم از کم میں تو نہیں کر سکتا۔ آپ نے تو ابھی بہت آگے جانا ہے۔، کوشش جاری رکھیں۔
جواب دیںحذف کریں