عوام سیاستدانوں سے اکتائی ہوئی ہے، الیکشن سر پر ہیں۔ مشرف کے آخری دن تھے تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے امیدیں تھیں، اب شرعی نظام اور خلافت سے امیدیں لگ گئی ہیں۔ خلافت کی ڈفلی بجانے والوں نے اپنی پوتھیاں پُستکیں جھاڑ پونچھ کر رکھ لی ہیں، اپنے تھیلے خالی کر کے سامان پھر سے سامنے سجا لیا ہے۔ دھڑا دھڑ اقتباسات دئیے جا رہے ہیں، دلائل اٹھائے جا رہے ہیں ، اور اسلام کا بول بالا کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اور ایسے میں کوئی میرے جیسا نیچ ذات بول پڑے تو وہ غیر مہذب، گدھا اور جانبدار کہلاتا ہے۔ خیر یہ تحریر اپنے آپ کو ان القابات سے بری الذمہ کرنے کے لیے نہیں لکھی جا رہی، بلکہ مقصد یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران ایویں مفت میں ہی دو تین بار خلافت نام کی بحث میں گھسیٹا گیا۔ جس کا نتیجہ اکثر یہ نکلا کہ عوام میری منہ پھٹ طبیعت سے بے زار ہو گئی اور مجھے القاباتِ عالیہ سے بھی نوازا گیا۔ ابھی کل برادرم میم بلال نے فیس بک پر ایک سوال کر دیا ، موضوع یہی خلافت تھی اور میں نے حسبِ معمول خاصا چپیڑ جیسا جواب ٹھونک دیا۔ بعد میں بیس پچیس تبصروں تک اس پر بڑی لے دے ہوئی، رات کو دیکھا تو مجھے لگا کہ اب ذر ا مناسب لمبائی والی پوسٹ میں اپنا موقف بیان کرنا چاہیئے۔ چنانچہ تحریر لکھی جا رہی ہے۔
عوام خلافت مانگتی ہے۔ شاکر عوام کے ساتھ ہے، لیکن خلیفہ ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہو تو شاکر بیعت کرنے والوں میں سب سے پہلا، ورنہ شاکر کے ہاتھ کھڑے ہیں۔ چلو کوئی حسن ابنِ علی جیسا لے آؤ، حسین ابنِ علی، عبد اللہ ابنِ زبیر، معاویہ ابنِ ابو سفیان، عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ علیم اجمعین تک بھی بات چلے گی۔ اس کے بعد؟ اس کے بعد معذرت کے ساتھ شاکر کے دونوں ہاتھ کھڑے ہیں۔ شاکر کے لیے خلافتِ راشدہ کے بعد کوئی خلافت نہیں۔ جس کو یہ عوام خلافت کہتی ہے وہ شاکر کے لیے ملوکیت ہے، خلافت کے نام پر بادشاہت۔ جس میں باپ کے بعد بیٹا، چچا، پھوپھا ، تایا، یا جس کا بس چلا وہ "خلیفہ" بن بیٹھا۔ چاہے وہ یزید ابن معاویہ جیسا گدھا ہی ہو۔ اور جب کوئی گدھا خلیفہ بن بیٹھے تو مذہبی ٹھیکے دار کیا کہتے ہیں؟ اولی الامر کی اطاعت کرو۔ اور اگر وہ گدھا ساری عمر کے لیے اقتدار پر براجمان رہے، جو خلافت/ بادشاہت/ ملوکیت کی اساس ہے تو شاکر جیسے نیچ ذات ساری عمر اس گدھے کو برداشت کریں؟ شاکر کے ہا تھ کھڑے ہیں جی، خلافت کی ڈفلی یہاں بے سُری ہو جاتی ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ کے کوئی تیرہ سو سال ان پر یہی خلافت /ملوکیت / بادشاہت مسلط رہی۔ کبھی بنو امیہ ، کبھی بنو عباس، کبھی عثمانی ، کبھی فاطمی ، کبھی عبد الرحمن الداخل کی اندلسی بنو امیہ کی شاخ۔ اس میں مسلمانوں نے بڑی ترقی کی، بڑی بڑی حکومتیں اس خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت سے تھرتھراتی تھیں۔ مسلمانوں کا بڑ اسنہرا دور اسی عرصے میں رہا۔ بڑے بڑے علاقے فتح ہوئے۔ یعنی خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت کو بھی تسلیم کیا جائے، جیسی بھی ٹوٹی پھوٹی تھی، آخر تھی تو خلافت جی۔ خلفائے راشدین کی نشانی، پر شاکر چونکہ نیچ ذات ہے اس لیے نہیں مانتا۔ وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ یہ خلفائے راشدین کی نشانی نہیں اپنے باپ داداؤں کی نشانی تھی۔ یہ قیصر و کسری کی نشانی تھی۔ یہ اسلام سے پہلے کے اس سیاسی نظام کا تسلسل تھی جس میں سکندر اعظم سے لے کر ایران ور روم اور یورپ کی بادشاہتیں آتی ہیں۔ بس نام بدلا تھا، نام بدلے تھے۔ نام خلافت ہو گیا، نام مسلمانوں والے ہو گئے۔ اور اعمال؟ اعمال وہی تھے جو قیصر و کسری کے تھے، جو اونچے کنگروں والے محلات بنانے والوں کے تھے، جو عیاشیاں کرنے والوں کے تھے، جو اپنی حکومت وسیع کرنے والوں کے تھے۔ بس نام اسلام کا لگ گیا، اور کام جس نے کیا وہ مسلمان اور پھر خلیفہ کہلایا، باقی کچھ نہ بدلا۔
زمانہ بدلا، زمانے کے تقاضے بدلے، اندازِ حکومت بدلے اور بادشاہتیں پکے ہوئے پھلوں کی طرح ٹپا ٹپ گرتی چلی گئیں ۔ جو رہ گئیں وہ آئینی بادشاہتیں رہ گئیں۔ اور وہی بات خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت پر بھی صادق آئی۔ زمانہ بدلا، تقاضے بدلے اور عوام نے ہاتھ کھڑے کر دئیے، عثمانیوں کا پتہ کٹ گیا۔ یہی کوئی 1920 کے آس پاس کے دن ہیں، جب یہ واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اور یہیں سے برصغیر کے مسلمانوں کا خلافت بخار شروع ہوتا ہے۔ تحریکِ خلافت بڑے زور و شور سے چلائی جاتی ہے، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جب ترکی کے عوام ہی نہیں چاہتے کہ خلافت ہو تو آپ میں بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ؟ اور یہی کچھ ہوا بھی، تحریکِ خلافت کے غبارے سے پھونک نکل گئی۔ طبیعتیں پھُل گلاب ہو گئیں، عین روح تک سرشار ہو گئیں۔ وہ دن جائے اور آج کا دن آئے، خلافت ایک پرکشش نعرہ بن گیا۔ وہ خلافت تو نہ رہی لیکن ایک تحریک کی ڈفلی ہاتھ آ گئی، خلافت قائم کرنی ہے۔ خلافت قائم ہو گئی تو مسلمان پھر سے دنیا کے حاکم بن جائیں گے، جوتیوں سے اُٹھ کر ممبر پر جا بیٹھیں گے۔ خلافت ہو گئی تو اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ خلافت ۔۔۔۔۔خلافت ہر چیز کا حل، خلافت اسلام کا نظامِ حکومت۔
چلیں جی ماننا پڑتا ہے اب تو عوام اور نوجوان نسل بھی شرعی نظام کے حق میں ہے۔ اور یہی وقت ہے کہ لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگائی جائے،خلافت /ملوکیت / بادشاہت کے لیے کام کیا جائے۔ بس ایک سوال، یہ بھوکی ننگی عوام اسلام کی محبت میں ایسا کر رہی ہے یا روٹی کو ترسنے کے بعد؟ ترکی میں کوئی خلافت کا نعرہ کیوں نہیں لگاتا، وہاں تو خلافت نہیں بلکہ جب خلافت تھی اس سے بہتر صورتحال ہے اب۔ یہ پاکستان میں ہی خلافت کیوں؟ یہ ان جگہوں پر ہی خلافت کیوں جہاں حقوق غصب ہوتے ہیں، جہاں بھوک ننگا ناچ ناچتی ہے، جہاں جنگل کا قانون ہے صرف وہیں خلافت کا نعرہ کیوں لگتا ہے؟ اگر آج اس ملک میں گڈ گورنس ہو جائے تو خلافتیوں کو ایندھن کہاں سے ملے؟ پاکستان سے تو نہ ملے کم از کم۔
تو مسئلہ کہاں ہے؟ مسئلہ نظامِ حکومت میں ہے۔ بات پھر وہیں آ گئی۔ اور خلافت /ملوکیت / بادشاہت بہترین نظامِ حکومت ہے، ہیں جی۔ لیکن نہیں بہترین نہیں۔ جس کو ساری عمر کے لیے اقتدار میں لے آؤ گے وہ سر پر چڑھ کر ڈھول بجائے گا۔ اس لیے خلافت/ملوکیت/ بادشاہت نامنظور۔ حل؟ حل سادہ سا ہے اقتدار کی مدت مقرر کرو، ووٹ ڈلواؤ، ساتھ جو مرضی اسلامی ڈال لو۔ تھرمامیٹر لگا کر تقویٰ چیک کرو، متھا اور گِٹے دیکھ کر متقی پرہیز گار لوگوں کی مجلس شوری بناؤ، لیکن وہ منتخب ہو، عوام کو حق دو، عوام کو حق ہے کہ وہ فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ جیسے نبی ﷺ کے جانشینوں نے مثال قائم کی، ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کر کے دکھایا۔ لیکن خلافت/ ملوکیت /بادشاہت؟ نا سائیں وہ دن لد گئے، جب سیاں جی کوتوال تھے۔ اب تو اور مسائل ہیں۔ اور بادشاہت آج کے مسئلوں کا حل کہیں سے بھی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس نیم خلافت سے شاکر کو اتنی تکلیف کیوں؟ لیکن جوابی سوال یہ ہے کہ جمہوریت یا جو بھی آج کے نظامِ حکومت کو نام دیا جائے اس سے اتنی تکلیف کیوں ہے؟ جواب یہ کہ اس جمہوریت کے خمیازے آج بھگت رہے ہیں۔ سوال یہ کہ اگر جاگیر دار، وڈیرے، سرمایہ داروں کو ہی اقتدار سے باہر کرنا ہے تو یہ مسلمانوں کی تاریخ میں کب اقتدار میں نہ تھے۔ برصغیر کی تو تاریخ ہی جاگیر داروں اور بادشاہوں کے گرد گھومتی ہے، بادشاہ جاگیر دار کو نوازتا تھا اور جاگیر دار اپنے مزارعوں کو۔ چودہ سو سالہ تاریخ میں عہد نبوی ﷺ اور خلافتِ راشدہ کے علاوہ کونسا دور ہے جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون نہیں نافذ رہا؟ تو آج اگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے تو اتنی تکلیف کیوں؟ تکلیف اس لیے ہے کہ اس وقت اسلام کا ملمع چڑھا ہوا تھا، تکلیف اس لیے ہے کہ اس وقت کھانے کو مل ہی جاتا تھا بھوگ کا ننگا ناچ نہیں ہوتا تھا جو آج ہوتا ہے۔ تو حل یہ ہے کہ دماغ کو وسیع کرو محمد الرسو ل اللہ ﷺ کا لایا ہوا دین خلافت و امامت سے اوپر کی چیز ہے۔ اگر خلافت اراکین اسلام میں سے ہوتی تو قرآن طلاق اور وراثت کے قوانین کی طرح خلافت کے قوانین بھی بتاتا۔ آخری نبی ﷺ صرف ایک عبوری فیصلہ کر کے، کہ خلیفہ قریش میں سے ہوگا ، اس دنیا سے پردہ نہ فرماتے۔ کیا محمد الرسول اللہ ﷺ اور محمد الرسول اللہ ﷺ کے خدا کو نہیں معلوم تھا کہ "خلیفہ قریش میں سے ہوگا" کا حکم تا قیامت نہیں چل سکے گا؟ اسلام میں کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں والے اصول کا رد نہ ہو جاتا یہ؟ اس لیے خلافت فرض نہیں کی گئی، خلافت کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔ رسول ﷺ کے جانشینوں نے اپنے وقت میں بہترین طریقے سے نظامِ حکومت چلایا۔ اس بیک ورڈ قبائلی معاشرے میں اسلام پر عمل اور عوام کی فیصلہ سازی میں شمولیت کی ایسی درخشندہ مثال قائم کی کہ زمانہ انگشتِ بدنداں رہ گیا۔ لیکن اس کے بعد؟ اس کے بعد جب نیتیں صاف نہ رہیں تو وہی اندھیرا پھر سے لوٹ آیا ، کہیں کہیں ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں اور پھر ایک لمبا اندھیرا۔ اور آخر بیسویں صدی آ پہنچی، تقاضے بدلے، زمانہ بدلا تو نظام بھی بدل گئے۔ بدلنا تو مقدر ہے، انسان ہوں، زمانہ ہو یا نظام۔ لیکن اسلام اگر زمانے کا پابند رہ گیا تو تاقیامت دینِ انسانیت تو نہ ہوا۔ اس لیے شاکر کی سوچ بڑی سادہ سی ہے۔ اسلام کے اصول بڑے سادہ ہیں، کسی بھی نظامِ حکومت پر اطلاق کر دو اسلامی نظام ہو جائے گا۔ اور بھوک کا ننگا ناچ رکوانا ہے تو عوام کو تعلیم دو کہ ان کا حق ہے پوچھنا، سوال کرنا، انہیں بتاؤ کہ سوال کریں۔ جو سوال کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کرتا ہے اسے رد کریں۔ آج کے نظام میں بہتری لاؤ۔ یہی نظام ترکی میں ہے، برطانیہ میں ہے، ملائیشیا میں ہے وہاں کیا تکلیف ہے کہ یہاں سے ہزار درجے بہتر صورتحال ہے؟ وہی کچھ یہاں کیوں نہیں ہو سکتا، اس کے حل کے لیے لیے برانڈ نیم کا چُوسا ہی کیوں؟
لیکن کیا کریں جی، برانڈ نیم سب کو اچھا لگتا ہے۔ خلافت /ملوکیت / بادشاہت حکومتی نظاموں میں ایک اسلامی برانڈ نیم ہے، اور پچھلے سو سال سے اس برانڈ نیم کی سیاست پر بہت سوں کی واہ واہ ہے، عزت ہے اور روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔ عوام بھی سمجھتی ہے کہ بہتر ہے چیز "اسلامی" ہی ہو، چاہے اس پر اسلام کا ملمع ہی چڑھایا ہوا ہو، لیکن چیز اسلامی ہو۔ اس لیے عوام جمہوریت کو "کافرانہ" کہتی ہے، "خلافت" کو اسلامی سمجھتی ہے۔ بھولی عوام ہے، مذہبی ٹھیکے داروں نے چُوسا دیا ہوا ہے، اور عوام چُوس رہی ہے۔ کوئی سوال کر لے تو، خیر اس کا حال پھر شاکر جیسا ہوتا ہے۔ جس کے سوالنے کو گدھے کا رینکنا سمجھا جاتا ہے۔
خیر ایسے گدھے، نیچ ذات، ایمان کے آخری درجے پر کھڑے منش ہر دور میں ہوئے ہیں۔ ایک شاکر بھی ہو گیا تو کوئی گل نہیں۔ تحریر کسی کے متفق ہونے کے لیے نہیں لکھی، تحریر کوئی صفائی پیش کرنے کے لیے بھی نہیں لکھی ، تحریر صرف موقف بیان کرنے کے لیے لکھی ہے۔ اور غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہ جو شاکر کو انٹلکچوئل سمجھتے تھے۔ غیر جانبدار سمجھتے تھے، سمجھدار سمجھتے تھے اپنی اپنی سمجھ پر نظرِ ثانی کر لیں۔ یہاں کوئی غیر جانبداری نہیں، یہاں سب کا ایجنڈا ہے، یہاں سب کے "سچ" ہیں، اپنے اپنے سچ۔ خلافتیوں کا اپنا سچ ہے، اور شاکر جیسے نیچ ذاتوں کا اپنا سچ۔ اور اپنے اپنے سچ میں گم ہیں۔ اس دن تک جس دن سارے جھوٹے سچ پرزے پرزے ہو جائیں اور سچے سائیں کا سچا سچ آنکھیں چندھیا دے۔
رہے نام اللہ کا۔
عوام خلافت مانگتی ہے۔ شاکر عوام کے ساتھ ہے، لیکن خلیفہ ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہو تو شاکر بیعت کرنے والوں میں سب سے پہلا، ورنہ شاکر کے ہاتھ کھڑے ہیں۔ چلو کوئی حسن ابنِ علی جیسا لے آؤ، حسین ابنِ علی، عبد اللہ ابنِ زبیر، معاویہ ابنِ ابو سفیان، عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ علیم اجمعین تک بھی بات چلے گی۔ اس کے بعد؟ اس کے بعد معذرت کے ساتھ شاکر کے دونوں ہاتھ کھڑے ہیں۔ شاکر کے لیے خلافتِ راشدہ کے بعد کوئی خلافت نہیں۔ جس کو یہ عوام خلافت کہتی ہے وہ شاکر کے لیے ملوکیت ہے، خلافت کے نام پر بادشاہت۔ جس میں باپ کے بعد بیٹا، چچا، پھوپھا ، تایا، یا جس کا بس چلا وہ "خلیفہ" بن بیٹھا۔ چاہے وہ یزید ابن معاویہ جیسا گدھا ہی ہو۔ اور جب کوئی گدھا خلیفہ بن بیٹھے تو مذہبی ٹھیکے دار کیا کہتے ہیں؟ اولی الامر کی اطاعت کرو۔ اور اگر وہ گدھا ساری عمر کے لیے اقتدار پر براجمان رہے، جو خلافت/ بادشاہت/ ملوکیت کی اساس ہے تو شاکر جیسے نیچ ذات ساری عمر اس گدھے کو برداشت کریں؟ شاکر کے ہا تھ کھڑے ہیں جی، خلافت کی ڈفلی یہاں بے سُری ہو جاتی ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ کے کوئی تیرہ سو سال ان پر یہی خلافت /ملوکیت / بادشاہت مسلط رہی۔ کبھی بنو امیہ ، کبھی بنو عباس، کبھی عثمانی ، کبھی فاطمی ، کبھی عبد الرحمن الداخل کی اندلسی بنو امیہ کی شاخ۔ اس میں مسلمانوں نے بڑی ترقی کی، بڑی بڑی حکومتیں اس خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت سے تھرتھراتی تھیں۔ مسلمانوں کا بڑ اسنہرا دور اسی عرصے میں رہا۔ بڑے بڑے علاقے فتح ہوئے۔ یعنی خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت کو بھی تسلیم کیا جائے، جیسی بھی ٹوٹی پھوٹی تھی، آخر تھی تو خلافت جی۔ خلفائے راشدین کی نشانی، پر شاکر چونکہ نیچ ذات ہے اس لیے نہیں مانتا۔ وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ یہ خلفائے راشدین کی نشانی نہیں اپنے باپ داداؤں کی نشانی تھی۔ یہ قیصر و کسری کی نشانی تھی۔ یہ اسلام سے پہلے کے اس سیاسی نظام کا تسلسل تھی جس میں سکندر اعظم سے لے کر ایران ور روم اور یورپ کی بادشاہتیں آتی ہیں۔ بس نام بدلا تھا، نام بدلے تھے۔ نام خلافت ہو گیا، نام مسلمانوں والے ہو گئے۔ اور اعمال؟ اعمال وہی تھے جو قیصر و کسری کے تھے، جو اونچے کنگروں والے محلات بنانے والوں کے تھے، جو عیاشیاں کرنے والوں کے تھے، جو اپنی حکومت وسیع کرنے والوں کے تھے۔ بس نام اسلام کا لگ گیا، اور کام جس نے کیا وہ مسلمان اور پھر خلیفہ کہلایا، باقی کچھ نہ بدلا۔
زمانہ بدلا، زمانے کے تقاضے بدلے، اندازِ حکومت بدلے اور بادشاہتیں پکے ہوئے پھلوں کی طرح ٹپا ٹپ گرتی چلی گئیں ۔ جو رہ گئیں وہ آئینی بادشاہتیں رہ گئیں۔ اور وہی بات خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت پر بھی صادق آئی۔ زمانہ بدلا، تقاضے بدلے اور عوام نے ہاتھ کھڑے کر دئیے، عثمانیوں کا پتہ کٹ گیا۔ یہی کوئی 1920 کے آس پاس کے دن ہیں، جب یہ واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اور یہیں سے برصغیر کے مسلمانوں کا خلافت بخار شروع ہوتا ہے۔ تحریکِ خلافت بڑے زور و شور سے چلائی جاتی ہے، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جب ترکی کے عوام ہی نہیں چاہتے کہ خلافت ہو تو آپ میں بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ؟ اور یہی کچھ ہوا بھی، تحریکِ خلافت کے غبارے سے پھونک نکل گئی۔ طبیعتیں پھُل گلاب ہو گئیں، عین روح تک سرشار ہو گئیں۔ وہ دن جائے اور آج کا دن آئے، خلافت ایک پرکشش نعرہ بن گیا۔ وہ خلافت تو نہ رہی لیکن ایک تحریک کی ڈفلی ہاتھ آ گئی، خلافت قائم کرنی ہے۔ خلافت قائم ہو گئی تو مسلمان پھر سے دنیا کے حاکم بن جائیں گے، جوتیوں سے اُٹھ کر ممبر پر جا بیٹھیں گے۔ خلافت ہو گئی تو اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ خلافت ۔۔۔۔۔خلافت ہر چیز کا حل، خلافت اسلام کا نظامِ حکومت۔
چلیں جی ماننا پڑتا ہے اب تو عوام اور نوجوان نسل بھی شرعی نظام کے حق میں ہے۔ اور یہی وقت ہے کہ لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگائی جائے،خلافت /ملوکیت / بادشاہت کے لیے کام کیا جائے۔ بس ایک سوال، یہ بھوکی ننگی عوام اسلام کی محبت میں ایسا کر رہی ہے یا روٹی کو ترسنے کے بعد؟ ترکی میں کوئی خلافت کا نعرہ کیوں نہیں لگاتا، وہاں تو خلافت نہیں بلکہ جب خلافت تھی اس سے بہتر صورتحال ہے اب۔ یہ پاکستان میں ہی خلافت کیوں؟ یہ ان جگہوں پر ہی خلافت کیوں جہاں حقوق غصب ہوتے ہیں، جہاں بھوک ننگا ناچ ناچتی ہے، جہاں جنگل کا قانون ہے صرف وہیں خلافت کا نعرہ کیوں لگتا ہے؟ اگر آج اس ملک میں گڈ گورنس ہو جائے تو خلافتیوں کو ایندھن کہاں سے ملے؟ پاکستان سے تو نہ ملے کم از کم۔
تو مسئلہ کہاں ہے؟ مسئلہ نظامِ حکومت میں ہے۔ بات پھر وہیں آ گئی۔ اور خلافت /ملوکیت / بادشاہت بہترین نظامِ حکومت ہے، ہیں جی۔ لیکن نہیں بہترین نہیں۔ جس کو ساری عمر کے لیے اقتدار میں لے آؤ گے وہ سر پر چڑھ کر ڈھول بجائے گا۔ اس لیے خلافت/ملوکیت/ بادشاہت نامنظور۔ حل؟ حل سادہ سا ہے اقتدار کی مدت مقرر کرو، ووٹ ڈلواؤ، ساتھ جو مرضی اسلامی ڈال لو۔ تھرمامیٹر لگا کر تقویٰ چیک کرو، متھا اور گِٹے دیکھ کر متقی پرہیز گار لوگوں کی مجلس شوری بناؤ، لیکن وہ منتخب ہو، عوام کو حق دو، عوام کو حق ہے کہ وہ فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ جیسے نبی ﷺ کے جانشینوں نے مثال قائم کی، ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کر کے دکھایا۔ لیکن خلافت/ ملوکیت /بادشاہت؟ نا سائیں وہ دن لد گئے، جب سیاں جی کوتوال تھے۔ اب تو اور مسائل ہیں۔ اور بادشاہت آج کے مسئلوں کا حل کہیں سے بھی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس نیم خلافت سے شاکر کو اتنی تکلیف کیوں؟ لیکن جوابی سوال یہ ہے کہ جمہوریت یا جو بھی آج کے نظامِ حکومت کو نام دیا جائے اس سے اتنی تکلیف کیوں ہے؟ جواب یہ کہ اس جمہوریت کے خمیازے آج بھگت رہے ہیں۔ سوال یہ کہ اگر جاگیر دار، وڈیرے، سرمایہ داروں کو ہی اقتدار سے باہر کرنا ہے تو یہ مسلمانوں کی تاریخ میں کب اقتدار میں نہ تھے۔ برصغیر کی تو تاریخ ہی جاگیر داروں اور بادشاہوں کے گرد گھومتی ہے، بادشاہ جاگیر دار کو نوازتا تھا اور جاگیر دار اپنے مزارعوں کو۔ چودہ سو سالہ تاریخ میں عہد نبوی ﷺ اور خلافتِ راشدہ کے علاوہ کونسا دور ہے جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون نہیں نافذ رہا؟ تو آج اگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے تو اتنی تکلیف کیوں؟ تکلیف اس لیے ہے کہ اس وقت اسلام کا ملمع چڑھا ہوا تھا، تکلیف اس لیے ہے کہ اس وقت کھانے کو مل ہی جاتا تھا بھوگ کا ننگا ناچ نہیں ہوتا تھا جو آج ہوتا ہے۔ تو حل یہ ہے کہ دماغ کو وسیع کرو محمد الرسو ل اللہ ﷺ کا لایا ہوا دین خلافت و امامت سے اوپر کی چیز ہے۔ اگر خلافت اراکین اسلام میں سے ہوتی تو قرآن طلاق اور وراثت کے قوانین کی طرح خلافت کے قوانین بھی بتاتا۔ آخری نبی ﷺ صرف ایک عبوری فیصلہ کر کے، کہ خلیفہ قریش میں سے ہوگا ، اس دنیا سے پردہ نہ فرماتے۔ کیا محمد الرسول اللہ ﷺ اور محمد الرسول اللہ ﷺ کے خدا کو نہیں معلوم تھا کہ "خلیفہ قریش میں سے ہوگا" کا حکم تا قیامت نہیں چل سکے گا؟ اسلام میں کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں والے اصول کا رد نہ ہو جاتا یہ؟ اس لیے خلافت فرض نہیں کی گئی، خلافت کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔ رسول ﷺ کے جانشینوں نے اپنے وقت میں بہترین طریقے سے نظامِ حکومت چلایا۔ اس بیک ورڈ قبائلی معاشرے میں اسلام پر عمل اور عوام کی فیصلہ سازی میں شمولیت کی ایسی درخشندہ مثال قائم کی کہ زمانہ انگشتِ بدنداں رہ گیا۔ لیکن اس کے بعد؟ اس کے بعد جب نیتیں صاف نہ رہیں تو وہی اندھیرا پھر سے لوٹ آیا ، کہیں کہیں ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں اور پھر ایک لمبا اندھیرا۔ اور آخر بیسویں صدی آ پہنچی، تقاضے بدلے، زمانہ بدلا تو نظام بھی بدل گئے۔ بدلنا تو مقدر ہے، انسان ہوں، زمانہ ہو یا نظام۔ لیکن اسلام اگر زمانے کا پابند رہ گیا تو تاقیامت دینِ انسانیت تو نہ ہوا۔ اس لیے شاکر کی سوچ بڑی سادہ سی ہے۔ اسلام کے اصول بڑے سادہ ہیں، کسی بھی نظامِ حکومت پر اطلاق کر دو اسلامی نظام ہو جائے گا۔ اور بھوک کا ننگا ناچ رکوانا ہے تو عوام کو تعلیم دو کہ ان کا حق ہے پوچھنا، سوال کرنا، انہیں بتاؤ کہ سوال کریں۔ جو سوال کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کرتا ہے اسے رد کریں۔ آج کے نظام میں بہتری لاؤ۔ یہی نظام ترکی میں ہے، برطانیہ میں ہے، ملائیشیا میں ہے وہاں کیا تکلیف ہے کہ یہاں سے ہزار درجے بہتر صورتحال ہے؟ وہی کچھ یہاں کیوں نہیں ہو سکتا، اس کے حل کے لیے لیے برانڈ نیم کا چُوسا ہی کیوں؟
لیکن کیا کریں جی، برانڈ نیم سب کو اچھا لگتا ہے۔ خلافت /ملوکیت / بادشاہت حکومتی نظاموں میں ایک اسلامی برانڈ نیم ہے، اور پچھلے سو سال سے اس برانڈ نیم کی سیاست پر بہت سوں کی واہ واہ ہے، عزت ہے اور روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔ عوام بھی سمجھتی ہے کہ بہتر ہے چیز "اسلامی" ہی ہو، چاہے اس پر اسلام کا ملمع ہی چڑھایا ہوا ہو، لیکن چیز اسلامی ہو۔ اس لیے عوام جمہوریت کو "کافرانہ" کہتی ہے، "خلافت" کو اسلامی سمجھتی ہے۔ بھولی عوام ہے، مذہبی ٹھیکے داروں نے چُوسا دیا ہوا ہے، اور عوام چُوس رہی ہے۔ کوئی سوال کر لے تو، خیر اس کا حال پھر شاکر جیسا ہوتا ہے۔ جس کے سوالنے کو گدھے کا رینکنا سمجھا جاتا ہے۔
خیر ایسے گدھے، نیچ ذات، ایمان کے آخری درجے پر کھڑے منش ہر دور میں ہوئے ہیں۔ ایک شاکر بھی ہو گیا تو کوئی گل نہیں۔ تحریر کسی کے متفق ہونے کے لیے نہیں لکھی، تحریر کوئی صفائی پیش کرنے کے لیے بھی نہیں لکھی ، تحریر صرف موقف بیان کرنے کے لیے لکھی ہے۔ اور غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہ جو شاکر کو انٹلکچوئل سمجھتے تھے۔ غیر جانبدار سمجھتے تھے، سمجھدار سمجھتے تھے اپنی اپنی سمجھ پر نظرِ ثانی کر لیں۔ یہاں کوئی غیر جانبداری نہیں، یہاں سب کا ایجنڈا ہے، یہاں سب کے "سچ" ہیں، اپنے اپنے سچ۔ خلافتیوں کا اپنا سچ ہے، اور شاکر جیسے نیچ ذاتوں کا اپنا سچ۔ اور اپنے اپنے سچ میں گم ہیں۔ اس دن تک جس دن سارے جھوٹے سچ پرزے پرزے ہو جائیں اور سچے سائیں کا سچا سچ آنکھیں چندھیا دے۔
رہے نام اللہ کا۔
شاکر بھائی آپ کے تپ جانے کا ایک فائدہ ضرور ہو ہے کہ ایک اچھا مضمون نکل آیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ موضوع آپ کے دل پر کافی عرصے سے ابل رہا تھا۔ امید ہے کہ تبصرے پڑھ کے معلومات میں مزید اضافہ ہو گا۔
جواب دیںحذف کریںکون مانگ رہا ہے خلافت کے نام پر ووٹ؟؟؟
جواب دیںحذف کریںخلافت سے تو قوم کو سخت الرجی ہے جی۔۔۔۔
آمر آجائے سر آنکھوں پر،،،
شرابی زانی لبرل آجائیں، موجاں ای موجاں۔۔۔۔۔
چپل چور اور مرغی چور آجائیں، بسم اللہ جی۔۔۔
خلافت کی بات کوئی نا کرے۔۔۔۔
میرا تو دل چاہتا ہے کہ ان تمام لوگوں کو شوٹ کردوں جو آپ کو لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اس فیس بکی سٹیٹس پر میں نے بھی تبصرہ کیا تھا۔
جواب دیںحذف کریںآپ کا ایک جملہ آپ کی دل کی بھڑاس کا اظہار تھا۔
لیکن وہ جملہ اگر کسی :باوے کے ہتھے؛ چڑھ جائے تو وہ اسے بتنگڑ بھی بنا سکتا تھا۔
میرے خیال میں وہاں پر ایک دو تبصروں کے علاوہ کسی نے سخت بات نہیں لکھی،
لیکن ایک فائدہ تو ہوا ہی!
ایک اعلی تحریر آپ نے لکھ دی۔
ٹینشن نہ لیں جناب خلافت آ گئی تو حال اس لنگڑی لولی کنجری جمہوریت سے بھی زیادہ برا ہوگا!
اگر یقین نہیں تو کسی قریبی مسجد میں جا کر دوسرے فرقے والوں کی اونچی آواز میں تعریف کرکے آجائیں۔
لیکن اپنی ذمہ داری پر مشورہ دینے والا ذمہ دار نہیں ہو گا۔
السلام علیکم،
جواب دیںحذف کریںجناب مجھ بے علمے کی معلومات یہ کہتی ہیں کہ خلافت بہت ہی اعلی ارفع نظام حکومت ہے اگر خلافت علم و عمل میں یکتا لوگوں کے حوالے کی جائے۔
اور اگر ہماری بات کی جائے تو ہم آج تک جمہوریت کے لئے علم وعمل تو ایک طرف کوئی ایسا شخص منتخب نہ کرسکے جو تعلیم کو اہمیت دیتا ہو۔
اور گستاخی معاف ایسا ہونا کوئی چار چھ عشروں تک بھی ممکن نطر نہیں آتا۔
آپ کی تبصرے سے یہ اندازہ ہوا کہ آپ خلافت کو ہی برا سمجھتے ہیں، جبکہ خلافت تو کبھی بھی بری نہیں رہی یہ تو ہم جیسے لوگ ہیں جو سہی لوگوں کو منتخب نہیں کرتے۔
باقی جی
رہے نام اللہ کا۔
جواب دیںحذف کریںکوئی بھی نظام ہو، جب تک نیت صاف نہیں ہوگی، اور اللہ کاڈر نہیں ہوگا،کچھ اچھا نہیں ہونے والا
اچھے سے اچھا ادارە، کاروبار، گھر اور حکومت ۔ ۔ ۔ بے ایمانی اور بد نیتی سے تباە ہو سکتی ہے۔
دل صاف ہوں، کینے، حسد، نفاق سے پاک لوگ کہیں بھی ہوں، بھلا ہی ہوتا ہے۔
لیکن اب تو ہم "کاد الفقران یکون کفراً" کی لائن کے اندر آچکے ہیں، نارمل سوچ نہیں سکتے، جہاں بات نوالوں اور قسطوں پہ آ چکی ہے، بجلی کی کمی سے کاروبار اور آرام کا تصور بدل چکا ہے۔
جناب شاکر صاحب۔۔۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔۔۔ :)
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ لکھا شاکر بھائی
جواب دیںحذف کریںبڑا جی چاہ رہا ہے کہ اسے محفل فورم پر شئیر کر دوں
لیکن چونکہ آپ نے خود نہیں کی تو آپ کی اجازت کے بغیر نہیں کروں گا
اگر مجھے آپ کی کوئی تحریر پسند آئے تو کیا میں اسے شئیر کر سکتا ہوں آپ کی بلاگ لنک کے ساتھ؟؟
وقار بھائی میں بلاگ پر اس وقت لکھتا ہوں جب میرا بحث کا موڈ نہیں ہوتا۔ محفل پر شئیر کیا تو ایک اور پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ اور میں بحث کے قطعی موڈ میں نہیں۔ آج کی بلاگ پوسٹ میں اس کے اقتباس کے ساتھ لنک دے سکیں تو نوازش ہو گی، جس نے پڑھنی ہو یہاں آ کر پڑھ لے ورنہ اللہ کے حوالے۔
جواب دیںحذف کریں