اس ملک میں ایک دیوار ہو جانا، یا درخت ہو جانا، یا راستے کا کوئی پتھر ہو جانا چاہے اسے ٹھُڈے پڑتے رہیں، یہ سب آسان کام ہیں۔ لیکن انسان ہونا مشکل اور ہولناک ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ دیوار، درخت اور پتھر نہ سنتے ہیں نا بولتے ہیں۔ اپنی دنیا (اگر ایسی کوئی دنیا ہے تو) میں مست رہتے ہیں۔ کوئی توڑ دے، اکھاڑ دے یا ٹھُڈے مارتا رہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بدقسمتی سے انسان سنتا بھی ہے، بولتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔ اور اس سننے بولنے دیکھنے کی وجہ سے اس ملک میں انسان ہونا انتہائی مشکل اور بدترین باتوں میں سے ایک ہے۔ انسان کے لیے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ پتھر ہو جائے صم بکم بے حسی کی آخری حدوں کو چھو لے یا پھر کف اڑاتا اور گالیاں بکتا پھرے۔ اور یہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یا تو بے حس ہو جاؤ یا پھر لڑنے کے لیے ہر دم تیار رہو۔
اخبار، فیس بک، ٹیلی وژن کچھ کھول لو ہر جگہ باؤلے پاگل ک (کتے والا کاف ملحوظ خاطر رکھیں) کا ایک گروہ نظر آتا ہے جو اقتدار نامی ہڈی ایک دوسرے سے چھیننے کے لیے ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہا ہے۔ زمانہ جاہلیت اور دو تین سو سال قبل والی بادشاہت اور اس سے پہلے خلافت کے بھیس میں بادشاہت موجود نہیں اس لیے صرف منہ سے کف اڑانے اور ہُورے مُکے دکھانے پر ہی اکتفا ہوتا ہے۔ ورنہ یہاں ہر چوتھے دن لاشوں کا جمعہ بازار لگا کرتا۔ ہر کوئی مصلح قوم بن کر تلوار اٹھاتا اور بادشاہ/خلیفہ کے خلاف نکل کھڑا ہوا کرتا۔
جس دن کوئی لغت تیار کی تو سیاست کا غیر رسمی نام کنجر خانہ بھی پاورقی میں لازمی دوں گا۔ کہ ہر وقت تو کنجر خانہ لگا رہتا ہے۔ اور اسی کنجر خانے کو قوم نے تفریح طبع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ سارا دن دوکانوں، گھروں، مسافر خانوں، دفاتر میں ٹیلی وژن چلتے ہیں۔ اور سارا دن اقتدار کے بھوکے ک کی بھونکیاں چار چار لکیروں کی صورت میں "بریکنگ نیوز" بن کر چلتی رہتی ہیں۔ فلاں ک نے یہ کہہ دیا، فلاں وڈے ک نے یہ کہہ دیا۔ ہر ک کے الفاظ وکھرے مگر مفہوم یکساں: مجھے اقتدار سونپ دو اور دیکھو پھر میں اس ملک کو ساتویں آسمان پر لے جاؤں گا۔ خود دفعان ہو جاؤ۔
قوم نے اس کنجر خانے کو اب قومی کھیل سمجھ لیا ہے۔ کرکٹ گیا، ہاکی پھُس ہو گئی، سکواش ٹھُس ہو گئی۔ کبھی دھماکے ہو گئے، کبھی غیر ملکی ٹیم پر حملہ ہو گیا۔ کبھی میچ لگا تو نچلی نسل کے محلے دار مصلحان قوم نے فتویٰ دے دیا لو ساری قوم کو میچ دیکھنے پر لگایا ہوا ہے، بھلا یہ کوئی شیوہ مسلمانی ہے؟ اور اب سیاسی کنجر خانے سے آنکھیں چمٹی رہتی ہیں، اسی میں تفریح تلاش ہوتی ہے، کھاتے پیتے سوتے جاگتے اسی سے کان بھرتے رہتے ہیں نتیجے میں خون مسلسل دھیمی آنچ پر کھولتا رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نیم کھولنے کی کیفیت میں ایک نشہ سا آ گیا ہے۔ ساتھ خود ترسی کا جام بھرا ملتا ہے تو چسکیاں لیتے ہوئے دو آتشہ کیفیت ہو جاتی، پوری قوم اس افیم کے نشے میں دھت ہلکے ہلکے سرور میں کھوئی اپنے کام کرتی چلی جاتی ہے اور ک اپنے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔
ادھر کسی اور ملک سے ایک غیر ملکی اپنے گروہ کے ساتھ انقلابی پھکی لے کر نمودار ہوتا ہے۔ نعرہ نظام بدلنے کا ہے اندر خواہش اپنے اقتدار کی ہے۔ وہی پہلے پیرے والی بات: بیان وکھرا وکھرا۔۔۔۔لیکن مفہوم ایک بس مجھے اقتدار دے دو۔ ادھر کہیں سے کوئی خلافت کا نعرہ لگاتا ہے نظام نہیں سب کچھ بدلو جھُرلو پھیرو بادشاہت لاؤ پھر دیکھو کیا مزیدار چاٹ بنے گی۔ مفہوم وہی پہلے پیرے والا تم سب دفعان ہو جاؤ متقی اور پرہیزگار تو میں ہی ہوں اس لیے خلیفہ/ بادشاہ بننے کا حقدار بھی میں ہی ہوں بس مجھے اقتدار دو پھر دیکھتا ہوں۔ اور پھر کچھ جو زبان نہیں چلا سکتے وہ بندوق اٹھا لیتے ہیں کبھی مذہب کا نام ہے اور کبھی محرومیوں کا نام ہے لیکن منزل وہی ہے کہ اقتدار ملے۔
اور یہ قوم افیم کے نشے میں سوئی رہتی ہے ساتھ مارفین کے ٹیکے بھی لگتے رہتے ہیں: تمہارا ملک بڑا عظیم ملک ہے۔ ارے یہ تو اللہ نے بچایا ہوا ہے ورنہ جتنا اسے کھا لیا یہ تو کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ ارے ساری دنیا، کفار کے سارے ملک اور ساری ایجنسیاں اس کے خلاف سازش میں مصروف ہیں۔ ارے اس کے بانوے ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے ہیں۔ ارے یہاں کیا چیز نہیں ہے، ہر چیز ہے بس یہ لوگ کھا جاتا ہے ہمیں نہیں دیتے۔ ارے اس کی جغرافیائی لوکیشن ہی تو سب کچھ ہے، اسی لیے تو امریکہ توڑنا چاہتا ہے اسے۔
مارفین کے نشے کے ٹیکے لگتے رہتے ہیں اور قوم لگے دم مٹے غم کا نعرہ لگا کر مست رہتی ہے۔ بجلی نہیں ملتی (گردشی قرضہ چڑھتا چلا جاتا ہے)، گیس ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور روٹی پکانے کو بھی نہیں ملتی، پانی، زرعی زمین، جنگلات غرض ہر قدرتی وسیلہ (جو جتنا بھی ہے) ہر روز ناسور کی طرح پھیلتی آبادی ہڑپ کرتی چلی جاتی ہے۔ ہر دن اگلے دن سے زیادہ اوکھا نکلتا ہے۔ لیکن قوم اپنے آپ میں مست، جُتیاں بھی کھاتی رہتی ہے اور ہذیانی کیفیت میں بڑبڑاتی بھی چلی جاتی ہے۔ ہر دوسرے چوتھے دن کوئی ڈرامہ کھڑا رہتا ہے قوم کی انٹرٹینمنٹ کے لیے۔ کنجر کنجروں کے خلاف عدالت لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور قوم ہمیشہ کی طرح دھیمی آنچ والے نشے میں انجوائے کرتی رہتی ہے۔ کبھی ایک ک دوسرے کو جج کی کرسی پر برداشت نہیں کر سکتا اور جلدی باری لینے کے لیے لڑنے لگتا ہے کبھی ایک ک جب باری دے رہا ہو تو حاجی ہوتا ہے باری لینے پر آ جائے تو اسی ک کی پگ سر پر رکھ کر اس سے ایک انچ وڈا ک بن جاتا ہے۔ اور پھر ایک تیسرا ک کہیں اور سے آ کر کہتا ہے اوئے اے عدالت نئیں لگ سکدی ساڈا حصہ وی دؤ۔ سارا ڈرامہ چلتا رہتا ہے۔ اور پاکستانی یا تو پتھر، درخت دیوار ہو جائے یا پھر گریبان پھاڑ کر ملنگ ہو جائے۔ درمیان میں کہہ رہ گیا تو دھیمی آنچ پر کھولتا اس کا لہو ایک دن لاوے کی طرح پھٹتا ہے اور نتیجے میں نقصان صرف اُس کا ہوتا ہے ک عدالت ویسے ہی لگی رہتی ہے۔
پر سانوں کی؟ ویسے بھی کنجر خانے میں طوطی کی آواز سنتا کون ہے؟
کلاسک۔۔۔۔۔۔ لیکن شائد یہ دھیمی آنچ پر کھولنے والا خون جس دن ، دن کیا آپ نے جیو والا تماشہ دیکھ ہی لیا نہ۔۔۔ وہی بات کہ اس قوم کو جیسے مرضی لوٹ پھوٹ کر لو مگر۔۔۔میاں یاد رکھو ۔۔۔مذہبی جذبیت میں اس کو نہ جھگاؤ ورنہ "جیو" تو آپ سب کے سامنے اس کی تازہ مثال ہے۔۔۔
جواب دیںحذف کریں